باد_مغرب سے خطاب
دلچسپ معلومات
(شیلے کی مشہور نظم ODE TO THE WEST WIND کے آخری دوبند)
(۱)
ہوتا جو میں درخت کا پتا گرا ہوا
اڑتا مثال ابر ترے ساتھ اے ہوا
اے کاش موج بن کے ترے ساتھ رہ سکوں
پرواز کی جو تجھ میں ہے طاقت وہ بانٹ لوں
میں بھی بری طرح ہی سر پر غرور ہوں
گو تجھ سے کم ہوں پھر بھی میں نازاں ضرور ہوں
اب ختم ہو چلی ہے جوانی کی داستاں
وہ ولولے وہ زور نہ جانے گئے کہاں
ہوتا جو اب بھی جوش رگوں میں شباب کا
یوں بے بسی میں تجھ سے نہ کرتا یہ التجا
اے باد غرب مجھ کو ذرا ساتھ لے کے چل
کانٹوں میں پھنس گیا ہوں مجھے ہاتھ دے کے چل
میں دب گیا ہوں بار غم روزگار سے
تنگ آ گیا ہوں گردش لیل و نہار سے
مجھ کو اٹھا کہ میں بھی ترا ہم شعار ہوں
خود سر ہوں تند و تیز ہوں برق و شرار ہوں
(۲)
بن کی طرح ہے مجھ میں بھی پنہاں نوائے چنگ
دونوں پہ چھا چکا ہے اگرچہ خزاں کا رنگ
غم آشنا کریں گے تری نغمگی کو ہم
نغمے کی چاشنی کو بڑھاتا ہے اور غم
آ مجھ سے ہمکنار ہو اے باد تند خو
اپنا بنا مجھے بھی کہ ہے کارساز تو
میرے خیال سارے جہاں میں بکھیر دے
اک انقلاب آئے گا میرے ہی فیض سے
اک آگ سی لگاؤں گا سحر سخن سے میں
یہ شعر بھی دبی ہوئی چنگاریاں تو ہیں
ڈوبی ہوئی ہے ظلمت شب میں ابھی فضا
یہ پیش گوئی سوئے ہوؤں کو ذرا سنا
گو ہے خزاں کے جور سے پامال زندگی
امید رکھ کہ آئے گی فصل بہار بھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.