میری دھوپ
میری دھوپ بیمار پڑی ہے
میرے سورج کو گھڑیوں نے کاٹ کر رکھ دیا ہے
دفتر کے دروازوں سے باہر
میری نظم میرا انتظار کرتی بوڑھی ہو گئی
اس بیچاری کے لمبے خوبصورت بال
کسی کے سہلائے بغیر ہی سفید ہو گئے
میں کرسی میں نسب ہو گیا ہوں
کرسی میں نسب بیٹوں کو اب صاحبزادے کون کہے گا
سرکس کا بوڑھا شیر ابھی آئے گا
میز پر بکھرے خواب کو دیکھ کر
سورجوں پیڑوں ندیوں کے سائے دیکھ کر
میز پر بچھی لمبی سڑکیں دیکھ کر برہم ہو جائے گا
اپنی قہر آلودہ نظروں سے
میرے خواب بھسم کر دے گا
میں آکاش راہ گزار میں جنگل
سمٹ کر ایک دراز میں بیٹھ جاؤں گا
زہر گھولوں گا سانپ بن جاؤں گا
اب تو مجھے مورنیوں سے ڈر لگتا ہے
رنگ برنگے نوٹوں کی تتلیاں پکڑنے
لکڑی لوہے اور اندھیرے کے جنگل میں
سارے دوست کم ہو گئے ہیں
دیکھتے دیکھتے اپنا شہر پرایا ہو گیا ہے
کویتا باہر بیمار پڑی ہے
میں ہوں اور ایک کورا شیشہ ہے
جو میری تاریخ سے واقف نہیں ہے
میں جس ریگ زار سے
دوستوں قافلوں اور خوابوں کے ساتھ گزرا تھا
اس کو کچھ بھی یاد نہیں
جس ریت پر میرے قدموں کے نشان تھے
وہ ریت اب سروں پر چھا گئی ہے
ریزہ ریزہ وہ مرے نقوش پر گر رہی ہے
میں ریت میں رفتہ رفتہ کم ہو رہا ہوں
آخر ایک روز ریت میں دفن ہو جاؤں گا
ریگ زار میں دفن بیٹوں کو
صاحبزادے کون کہے گا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.