Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Fani Badayuni's Photo'

فانی بدایونی

1879 - 1941 | بدایوں, انڈیا

ممتاز ترین قبل از جدید شاعروں میں نمایاں، اپنی شاعری کے اداس رنگ کے لیے معروف

ممتاز ترین قبل از جدید شاعروں میں نمایاں، اپنی شاعری کے اداس رنگ کے لیے معروف

فانی بدایونی کا تعارف

تخلص : 'فانی'

اصلی نام : محمد شوکت علی خاں

پیدائش : 13 Sep 1879 | بدایوں, اتر پردیش

وفات : 27 Aug 1941 | حیدر آباد, تلنگانہ

رشتہ داروں : آرزو سہارنپوری (شاگرد), تابش دہلوی (شاگرد)

ہر نفس عمر گزشتہ کی ہے میت فانیؔ

زندگی نام ہے مر مر کے جئے جانے کا

فانی کو یاسیات کا امام کہا جاتا ہے۔ ان کی شاعری حزن و الم کی شاعری ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ اردو غزل بنیادی طور پر عشق اور اس طرح ہجر کی حرماں نصیبوں کی شاعری ہونے کے باوجود، شدت غم کو درجۂ کمال تک پہنچانے کے لئے فانی کی منتظر رہی۔ میرتقی میرؔ کے بارے میں بھی کہا گیا ہے کہ وہ درد و غم کے شاعر تھے۔ لیکن فرق یہ ہے میر کے شعر دل کو چھوتے ہیں، دل میں اترتے بھی ہیں لیکن "واہ" کی شکل میں داد وصول کئے بغیر نہیں رہتے جبکہ فانی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ جب وہ اپنی پُرسوز آوازمیں غزل پڑھتے تھے تو سامعین پر ایسا اثر ہوتا تھا کہ بعض اوقات وہ داد دینا بھول جاتے تھے۔ بات یہ ہے کہ دوسرے شاعر عشق کے بیان میں محبوب کے حسن کا تذکرہ کرتے ہیں، اس کے وصل کی آرزو کرتے ہیں، جدائی کا شکوہ کرتے ہیں یا ہجر کی اذیتوں کا بیان کرتے ہیں جبکہ فانی کا معشوق خود ان کا اپنا غم تھا یا پھر اپنی ذات سے نفسیات کی زبان میں خود اذیتی یا اذیت کو کہہ سکتے ہیں لیکن جب ہم کسی فن کا محاکمہ کرتے ہیں تو فنکار کی شخصیت ضمنی چیز رہ جاتی ہے، اصل بحث اس کی فنکاری سے ہوتی ہے۔ فانی کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے غم پرستی کو جیسے اک منفی رجحان تصور کمال تک پہنچا دیا کہ اس میدان میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ 

فانی بدایونی کا نام شوکت علی خاں تھا پہلے شوکت تخلص کرتے تھے بعد میں فانی پسند کیا۔ وہ افغانی النسل تھے اور ان کے اجداد بہت بڑی جاگیر کے مالک تھے جو ان سے 1857 کے ہنگاموں کے بعد انگریزوں نے چھین لی اور صرف معمولی زمینداری باقی رہی۔ فانی کے والد شجاعت علی خان اسلام نگر، بدایوں میں تھانیدار تھے۔ وہیں 1879 میں فانی پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر اور مکتب میں ہوئی پھر 1892 میں گورنمنٹ اسکول میں داخلہ لیا اور1897 میں انٹرنس کا امتحان پاس کرکے 1901 میں بریلی کالج سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ فانی نے گیارہ سال کی عمر میں ہی شاعری شروع کر دی تھی اور1898 میں ان کا پہلا دیوان مرتب ہو گیا تھا لیکن وہ اس شغل کو گھر والوں سے چھپائے ہوئے تھے کیونکہ ان کے والد بہت سختگیر تھے اور ان کو شاعری سے بڑی نفرت تھی انہوں نے فانی کو سختی سے منع کیا کہ وہ اس شغل سے باز آجائیں لیکن جب فانی کا شاعری کا چسکا نہیں چھوٹا تو انہوں ں نے ان کا دیوان جلا دیا۔ لہٰذا کچھ نہیں معلوم کہ فانی کی ابتدائی شاعری کا کیا رنگ تھا۔ گھر سے دور بریلی پہنچ کر جب کوئی روک ٹوک نہ رہی تو فانی نے کھل کر شاعری کی۔ کالج کے ساتھی اصرار کرکے ان سے غزلیں کہلواتے اور کبھی کبھی ان کو کمرہ میں بند کر دیتے جس سے رہائی ان کو غزل کہنے کے بعد ہی ملتی۔ بریلی کی تعلیم مکمل کرکے فانی بدایوں لوٹے تو ان کے لئے اچھی خبر نہیں تھی، ان کی شادی بچپن میں ہی ان کی تایا زاد بہن سے طے تھی۔ لڑکی والے جلد شادی پر اصرار کر رہے تھے اور فانی بی اے مکمل کر کے ہی شادی کرنا چاہتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس لڑکی کی شادی کہیں اور کر دی گئی اور کچھ دنوں بعد اس کا انتقال ہو گیا۔ فانی کے لئے یہ ایک بڑا صدمہ تھا کیونکہ دونوں ایک دوسرے کو بہت چاہتے تھے۔ فانی نے اپنی ملازمت کا سلسلہ وزیر آباد ہائی اسکول میں درس و تدریس سے شروع کیا لیکن جلد ہی طبیعت اچاٹ ہو گئی اور استعفیٰ دےدیا۔ پھر ایک اسکول کی ہی ملازمت کے لئے اٹاوہ چلے گئے اور وہاں نور جہاں نامی اک طوائف سے تعلقات پیدا کر لئے لیکن جلد ہی انہیں اٹاوہ بھی چھوڑنا پڑا کیونکہ ان کا تقرر بطور سب انسپکٹر آف اسکول کی حیثیت سے گونڈہ میں ہو گیا تھا۔ گونڈہ میں بھی دوسری جگہوں کی طرح فانی نے دو ہی کام کئے یعنی گوہر جان نامی ایک طوائف سے عشق اور دوسرا نوکری چھوڑنا۔ اب انہوں نے ایل ایل بی کرنے کی ٹھانی اور علی گڑھ میں داخلہ لے لیا۔ علی گڑھ وہ جگہ تھی جہاں فانی کی شاعرانہ فکر پر غالب اور میر کے گہرے نقش ثبت ہوئے۔ حالی کی یادگار غالب اور عبد الرحمان بجنوری کی محاسن غالب نے علی گڑھ والوں کو اپنے طلسم میں جکڑ رکھا تھا تو دوسری طرف حسرت کلاسیکی ادب کے احیاء کی مہم چلائے ہوئے تھے اور اردو غزل کی تنقید میر کی بازیافت میں مصروف تھی، علی گڑھ سے فارغ ہونے کے بعد فانی نے لکھنؤٔ میں پریکٹس شروع کی اور ان کو اتنے مقدمات ملنے لگے کہ غیر اہم مقدمات دوسرے وکیلوں کو دینے لگے۔ اسی عرصہ میں بدایوں میں سشنک عدالت قائم ہوئی تو وہ بدایوں چلے گئے بدایوں میں نئے غم ان کے انتظار میں تھے ایک سال کے اندر ہی ان کے والد اور والدہ دونوں کا انتقال ہو گیا۔ یہ صدمے فانی کے لئے بہت جانکاہ تھےان کا دل بیٹھ گیا وکالت سے دل اچاٹ ہو گیا ترکہ کے روپے سے کچھ دن گھر چلا پھر ساہو کار سے قرض لینے کی نوبت آ گئی۔ حوصلے اور ولولہ کی کمی اور طبیعت کے استغناء فانی کو عملی زندگی سے گریز کی راہ دکھائی۔ اور انھوں نےتخیل و جذبیت کی اک دنیا بسا لی۔ اور اسی کی سیر میں مگن ہو گئے۔ وہ دوبارہ لکھنؤ گئے اور پریکٹس سے زیادہ شاعری کرتے رہے۔ ان کو وکالت سے دلچسپی ہی نہیں تھی کہتے تھے کہ کچہری اور پاخانے مجبوراً جاتا ہوں۔ جوش ملیح آبادی کا کہنا ہے، ’’ان کی وکالت کبھی نہ چلی۔ اس لئے کہ شعر خوانی اور دل کی رام کہانی کا سلسلہ وہ توڑ نہیں سکتے تھے اس کا قدرتی نتیجہ یہ نکلا کہ غم دوراں کے ساتھ غم جاناں نے بھی رہی سہی کسر پوری کر دی، ان کا ذوق سخن ابھرتا اور شیرازۂ وکالت بکھرتا گیا۔ اور غریب کو پتہ بھی نہ چلا کہ میری معیشت کا دھارا ایک بڑے ریگستان کی طرف بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ وہ پریکٹس کی جگہیں بدلتے رہے لیکن نتیجہ ہر جگہ وہی تھا گھوم پھر کر وہ ایک بار پھر لکھنٔو پہنچے اور اس بارغم دوراں کے ساتھ وہاں غم جاناں بھی ان کا منتظر تھا۔ طیہ تقّن نام کی اک طوائف تھی جو ایک رئیس کے لئے وقف تھی جوش کے الفاظ میں معاشی ابتری کے ساتھ ساتھ بیچارے کے معاشقہ میں بھی فساد رونما ہونے لگا چنانچہ وہی ہوا جو ہونا تھا ایک طرف تو معاشی زندگی کی نبضیں چھوٹیں اور دوسری طرف عاشقانہ زندگی میں ایک رقیب روسیاہ کے ہاتھوں ایسا زلزلہ آیا کہ ان کی پوری زندگی کا تختہ ہی الٹ کر رہ گیا۔ کانپتے ہاتھوں سے بوریا بستر باندھ کر لکھنؤٔ سے آگرہ چلے گئے۔ " فانی جگہ جگہ قسمت آزماتے رہےاور ہر جگہ فلاکت اور عشق ان کے ساتھ لگے رہے۔ اٹاوہ میں وہ نور جہاں کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوئے لیکن کچھ دن بعد اس نے آنکھیں پھیر لیں آخر میں فانی حیدر آباد چلے گئے جہاں مہاراجہ کشن پرشاد ان کے مدّاح تھے۔ فانی نے اپنی زندگی کے کچھ بہترین اور با لآخر بدترین دن حیدرآباد میں گزارے۔ جوان بیٹی اور پھر بیوی کا داغ دیکھا اور نہایت بیکسی اور کسمپرسی میں 1941 میں ان کا انتقال ہو گیا۔ 

فانی کی تمام زندگی ایک طویل المیہ داستان رہی۔ وہ شدید نرگسیت کے شکار تھے اور چاہے جانے کی بے لگام ہوس ان کا پیچھا نہیں چھوڑتی تھی۔ مزاج میں پٹھانوں والی ضد تھی جو اصلاح میں مانع تھی اور اپنی تباہی کا جشن منانا بھی اسی رویہ کا ایک حصہ تھا۔ ان کو زندگی میں بے شمار موقعے ملے اور ان سب کو انھوں نے اپنے غموں سے عشق کرنے کے لئے گنوا دیا۔ شاید قدرت کو ان سے یہی کام لینا تھا کہ وہ اردو غزل کو ایسی شاعری دے جائیں جو ان سے پہلے نہیں دیکھی گئی اور غزل کو نیا موڑ دیں، فانی نے مواد اور سلوب دونوں اعتبار سے غزل کو نئی وسعتیں اور نئی صلاحیتیں دیں۔ فانی کی شاعری عشق، غم، تصوف اور اسرار کائنات کے محور پر گھومتی ہے کہہ سکتے ہیں کہ عشق کی بدولت فانی غم سے دوچار ہوئے جو ان کو تصوف تک لے گیا اور تصوف نے اسرار کائنات سے پردہ اٹھایا۔ فانی کے یہی موضوعات روایتی نہیں بلکہ انہوں نے ان پر ہر پہلو سے غور کیا انہیں محسوس کیا پھر شعری جامہ پہنایا۔ غم اور اس کے تلازمات پر فانی نے جو کچھ لکھا وہ اردو غزل کا شاہکار ہے۔ 

 

موضوعات

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے