گوپی چند نارنگ کے مضامین
فیض کا جمالیاتی احساس اور معنیاتی نظام
(۱) شاعری کی اہمیت وعظمت کا اصل فیصلہ وقت کرتا ہے۔ میروغالب اپنے عہد میں ناقدری زمانہ کی برابر شکایت کرتے رہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کی عظمتوں کا نقش روشن ہوتا گیا۔ اسی معنی میں وقت یا زمانہ کوئی مجرد تصور نہیں، بلکہ کسی بھی معاشرے میں کسی شعری
اردو ادب میں اتحاد پسندی کے رجحانات (۱)
اردو زبان اسلامی اور ہندوستانی تہذیبوں کے سنگم کا وہ نقطۂ اتصال ہے، جہاں سے ان دونوں تہذیبوں کے دھارے ایک نئے لسانی دھارے کے بطور ایک ہوکر بہنے لگتے ہیں۔ اردو کے چمن زار میں جہاں لالہ وگل، نسرین وسمن نظر آتے ہیں، وہاں سرس اور ٹیسو کے پھول بھی دیکھے
ما بعد جدیدیت، اردو کے تناظر میں
اردو میں مابعد جدیدیت کی بحثوں کو شروع ہوئے کئی برس ہوچکے ہیں۔ اہل علم جانتے ہیں کہ جدیدیت اپنا تاریخی کردار ادا کرکے بے اثر ہوچکی ہے اور جن مقدمات پر وہ قائم تھی وہ چیلنج ہوچکے ہیں۔ وہ ادیب جو حساس ہیں اور ادبی معاملات کی آگہی رکھتے ہیں، ان کو اس بات
شعر حسرت کی سیاسی جہت پر ایک نظر
حسرت موہانی نے اس صدی کے کروٹ بدلتے ہی اردو غزل میں تہذیب عاشقی کو جس طرح زندہ کیا اور عشق و محبت کو جس فطری معصومیت اور راحت و فراغت کے ساتھ بیان کیا، نیز ان کی عشقیہ شاعری میں جو ارضی وجسمانی کیفیت ملتی ہے اور اس کا اظہار جس شائستگی، لطافت اور تغزل
اسلوبیات اقبال: اقبال کی شاعری کا صوتیاتی نظام
اقبال کی شاعری اسلوبیاتی مطالعے کے لیے خاصا دلچسپ مواد فراہم کرتی ہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اسلوبیات لسانیات کی وہ شاخ ہے جس کا ایک سرا لسانیات سے اور دوسرا ادب سے جڑا ہوا ہے۔ ادب کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ موضوعی اور جمالیاتی
اردو اور ہندی کا لسانی اشتراک۔۲
اردو اور ہندی کے رشتے کے بارے میں یہ سوال اکثر اٹھایا جاتا ہے کہ اردو اور ہندی ایک زبان ہیں یا دو زبانیں۔ بعض حضرات انہیں ایک زبان کے دو اسلوب بھی مانتے ہیں اور اسالیب کی اس تفریق کی ذمہ داری نئی بورژواژی کے سر ڈالتے ہیں جس نے دونوں کے بولنے والوں کو
مراثی انیس کا تہذیبی مطالعہ
اردومرثیے کے تمام واقعات اور کردار عرب کی اسلامی تاریخ سے ماخوذ ہیں۔ ان میں کچھ بھی ہندوستان کا نہیں۔ لیکن مرثیہ کو جو فروغ ہندوستان میں حاصل ہوا، عرب ممالک یا ایران میں نہیں ہوا۔ اردو مرثیہ دکن میں بھی لکھاگیا اور دہلی میں بھی لیکن یہ اپنے عروج کو پہنچا
غالب کا جذبۂ حب الوطنی اور واقعات سنہ ستاون
مرزا غالب سنہ ستاون کے ہنگامہ میں شروع سے آخر تک دہلی میں رہے۔ اس زمانے کے حالات ۱۱مئی ۱۸۵۷ء سے سے ۲۱ جولائی ۱۸۵۸ء تک انھوں نے اپنی فارسی کتاب ’’دستنبو‘‘ میں لکھے ہیں۔ ہنگامے کے دنوں میں غالب پر جو گزری، اس کا ذکر دستنبو کے علاوہ ان کے خطوط میں
زبان کے ساتھ کبیر کا جادوئی برتاؤ
کبیر کا درجہ سنت کویوں میں بہت اونچا ہے۔ ان کی پیدائش سمت 1455 وکرمی (1398ء) کی بتائی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ پوری پندرہویں صدی اور کچھ بعد تک زندہ رہے۔ وہ کاشی میں پیدا ہوئے۔ اس زمانے کی پوربی یعنی اودھی اور بھوجپوری کا قدیمی روپ جیسا اس وقت کاشی
قصہ اردو زبان کا
اردو زبان کی پیدائش کا قصہ اس لحاظ سے ہندستانی زبانوں میں شاید سب سے زیادہ دلچسپ ہے کہ یہ ریختہ زبان بازاروں، درباروں اور خانقاہوں میں سر راہ گذر پڑے پڑے ایک دن اس مرتبے کو پہنچی کہ اس کے حسن اور تمول پر دوسری زبانیں رشک کرنے لگیں۔ دکن میں تو خیر اسے
اردو اور ہندی کا لسانی اشتراک۔۱
جتنا گہرا رشتہ اردو اور ہندی میں ہے شاید دنیا کی کسی دو زبانوں میں نہیں۔ دونوں کی بنیاد اور ڈول اور کینڈا بالکل ایک ہیں۔ یہاں تک کہ کئی بار دونوں زبانوں کو ایک سمجھ لیا جاتا ہے۔ دونوں ایک ہی سرچشمے سے پیدا ہوئیں، جس کے بعد دونوں کا ارتقا الگ الگ سمتوں
ادبی تنقید اور اسلوبیات
بعض لوگ اسلوبیات کو ایک ہوّا سمجھنے لگے ہیں۔ اسلوبیات کا ذکر اردو میں اب جس طرح جاوبیجا ہونے لگا ہے، اس سے بعض لوگوں کی اس ذہنیت کی نشاند ہی ہوتی ہے کہ وہ اسلوبیات سے خوف زدہ ہیں۔ اسلوبیات نے چند برسوں میں اتنی ساکھ تو بہرحال قائم کرلی ہے کہ اب اس کو
ترقی پسندی، جدیدیت، مابعد جدیدیت
ان تینوں میں سے کوئی بھی میرا ذاتی مسئلہ نہیں، ترقی پسندی، جدیدیت نہ مابعد جدیدیت۔ لیکن اس وقت صورت حال کیا ہے، کیا ہو رہا ہے اور ہم کدھر جا رہے ہیں؟ نئی نسل کے لکھنے والے بالخصوص پچہتر اسّی کے بعد ابھرنے والے شاعر و افسانہ نگار کیوں بار بار اپنی برات
فراق گورکھپوری: کہاں کا درد بھرا تھا تیرے فسانے میں
فراق گورکھپوری ہمارے عہد کے ان شاعروں میں سے تھے جو کہیں صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ ان کی شاعری میں حیات وکائنات کے بھید بھرے سنگیت سے ہم آہنگ ہونے کی عجیب وغریب کیفیت تھی۔ اس میں ایک ایسا حسن، ایسا رس اور ایسی لطافت تھی جو ہر شاعر کو نصیب نہیں ہوتی۔
ما بعد جدیدیت، عالمی تناظر میں
".EVERY THING IS POLITICAL. EVEN PHILOSOPHY AND PHILOSOPHIES IN THE REALM OF CULTURE AND OF THOUGHT EACH PRODUCTION EXISTS NOT ONLY TO EARN AN PLACE FOR ITSELF BUT TO DISPLACE, WIN OUT OVER. OTHERS" (ANTONIO GRAMSCI) ما بعد جدیدیت کا تصور اب
اردو رسم الخط: تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ
زبان کی طرح رسم الخط بھی عوامی چیز ہے اور ہر شخص کو اس پراظہار خیال کا حق پہنچتا ہے۔ اس لیے اس مسئلے پر لکھنے والوں میں عالم اور عامی سبھی شامل ہیں، لیکن زیادہ تر تحریریں جذباتیت سے مغلوب ہو کر لکھی گئی ہیں، جن کا مقصد اتنا روشنی پھیلانا نہیں جتنا
اردو ادب میں اتحاد پسندی کے رجحانات (۲)
ایک دوسرے کے مذہبی اعتقادات سے روشناس کرانے میں مختلف تہواروں کو جو اہمیت حاصل ہے، اسے کسی طرح نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ آپس کے میل ملاپ اور ربط وارتباط نے جس مشترک ہندوستانی تہذیب کو پیدا کر دیا تھا، اس کے زیر اثر ہندو مسلمان ایک دوسرے کے تہواروں
فیض کو کیسے نہ پڑھیں: ایک پس ساختیاتی رویہ
یعنی فیض کو کیسے نہ پڑھیں۔ اس کے بغیر تو چارہ نہیں، یا فیض کو کیسے نہیں پڑھنا چاہیے، یعنی فیض کی قرأت کیسے نہیں کرنا چاہیے۔ یہاں مقصود موخر الذکر ہے لیکن مضارع کے ساتھ کہ کیسے نہ پڑھیں، آمرانہ ’’چاہیے، کے ساتھ نہیں۔ خاکسار کو منفی زمرہ اختیار کرنے
ہندوستانی فکر و فلسفہ اور اردو غزل
بظاہر غزل اور فلسفے کا ربط عجیب سا معلوم ہوتا ہے۔ غزل خالص جمالیاتی شاعری ہے جو جذبے اور وجدان کے پروں سے اڑتی ہے، یہ بیان ہے وارداتوں اور حسن وعشق کی گھاتوں کا۔ عشق اور عقل دو متضاد قوتیں ہیں۔ چنانچہ عشقیہ شاعری میں بظاہر فلسفے کی باتوں کے لیے گنجائش
مابعد جدیدیت، کچھ روشن زاویے
مابعد جدیدیت یعنی جدیدیت کے بعد کے ادبی منظر نامہ کی بحث اب اردو کے تقریباً تمام رسائل وجرائد میں پھیل چکی ہے۔ نئے اور پرانے لوگ اس میں شریک ہیں۔ پرانے رسالوں مثلاً شاعر، شب خون، کتاب نما، سب رس، ایوان اردو، افکار، فنون، اوراق وغیرہ میں بھی ان بحثوں
اردو رسم الخط: ایک تاریخی بحث
(نوٹ: کچھ عرصہ ہوا ’’دوست‘‘ میں خواجہ احمد عباس کا ایک مضمون (دھرم یگ) ہندی سے ترجمہ کرکے شائع کیا گیا تھا۔ اس میں خواجہ صاحب نے اردو والوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنا رسم الخط دیوناگری کر لیں۔ ’’دوست‘‘ کی جانب سے اس کا جواب دیا گیا، اس کے بعد کافی
اردو کی ہندوستانی بنیاد
اردو کا تعلق ہندوستان اور ہندوستان کی زبانوں سے بہت گہرا ہے۔ یہ زبان یہیں پیدا ہوئی اور یہیں پلی بڑھی۔ آریاؤں کی قدیم زبان سنسکرت یا انڈک چار پشتوں سے اس کی جدامجد قرار پاتی ہے۔ یوں تو ہندوستان میں زبانوں کے کئی خاندان ہیں لیکن ان میں سے دو خاندان خاص
انتظار حسین کا فن: متحرک ذہن کا سیال سفر
انتظار حسین اس عہد کے اہم ترین افسانہ نگاروں میں سے ہیں۔ اپنے پر تاثیر تمثیلی اسلوب کے ذریعے انھوں نے اردو افسانے کو نئے فنی اور معنیاتی امکانات سے آشنا کرایا ہے اور اردو افسانے کا رشتہ بیک وقت داستان، حکایت، مذہبی روایتوں، قدیم اساطیر اور دیومالا
غالب اور حادثۂ اسیری: ایک معاصر شہادت اور قطعۂ تاریخ
غالب کے واقعہ اسیری کے حالات پوری طرح سامنے نہیں ہیں۔ اس زمانے میں ذاتی وجاہت اور وضعداری کے آداب ہی کچھ ایسے تھے کہ انسانی کمزوریوں کو زیادہ سے زیادہ درپردہ رکھا جاتا تھا اور ہر بات میں ایک خاص رکھ رکھاؤ اور لیے دیے رہنےکے انداز کو ترجیح دی جاتی
تاریخیت اور نئی تاریخیت: ادبی تھیوری کا ایک اہم مسئلہ
اگر پوچھا جائے کہ کیا ادب بے تعلق تاریخ ہے؟ تو ہر شخص کہےگا نہیں، ادب تاریخ سے باہر تھوڑے ہی ہے۔ لیکن اگر یہ صحیح ہے کہ ادب تاریخ سے باہر نہیں تو بالعموم ہم یہ کیسے مان لیتے ہیں کہ ادب ’’خود مختار‘‘ اور ’’خود کفیل‘‘ ہے۔ ان دونوں باتوں میں شدید تضاد ہے۔
اسلوبیات انیس
انیس کے شعری کمال اور ان کی فصاحت کی داد کس نے نہیں دی لیکن انیس کے ساتھ انصاف سب سے پہلے شبلی نے کیا اور آنے والوں کے لیے انیس کی شاعرانہ fعظمت کے اعتراف کی شاہراہ کھول دی۔ بعد میں انیس کے بارے میں ہماری تنقید زیادہ ترشبلی کے دکھائے ہوئے راستے پر چلتی
بیدی کے فن کی استعاراتی اور اساطیری جڑیں
اردو افسانے میں اسلوبیاتی اعتبار سے جو روایتیں زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتی ہیں یا جو اہم رہی ہیں، تین ہیں۔ پریم چند کی، منٹو کی اور کرشن چندر کی۔ پریم چند کے اسلوب کا تعلق اس عظیم عوامی روایت سے ہے جو پراکرتوں کے سمندر منتھن سے برآمد ہوئی تھی اور جسے
افسانہ نگار پریم چند: تکنیک میں IRONY کا استعمال
یہ مضمون میں اعتذار کے طور پر نہیں لکھ رہا ہوں بلکہ یہ احساس اس کا محرک ہے کہ پریم چند کے انتقال کے چوالیس پینتالیس سال بعد بھی لوگوں نے پورے پریم چند کو قبول نہیں کیا۔ پریم چند کے ایک پارکھ رادھا کرشن نے ایک جگہ لکھا ہے، ’’اپنے عہد میں بنگلہ میں شرت
منٹو کی نئی پڑھت: متن، ممتا اور خالی سنسان ٹرین
منٹو کا انتقال ۱۹۵۵ء میں ہوا۔ اتنے لمبے عرصے کے بعد منٹو کو دوبارہ پڑھتے ہوئے بعض باتیں واضح طور پر ذہن میں سر اٹھانے لگتی ہیں۔ منٹو اول وآخر ایک باغی تھا، سماج کا باغی، ادب وآرٹ کا باغی، یعنی ہر وہ شے جسے Doxa یا ’’روڑھی‘‘ کہا جاتا ہے یا فرسودہ اور
نیا افسانہ: علامت، تمثیل اور کہانی کا جوہر
نیا افسانہ جس کی ابتدا اردو میں ۱۹۵۵-۶۰ء کے لگ بھگ ہوئی تھی، خیر سے اب اپنی جوانی کی منزل میں قدم رکھ رہا ہے۔ ۱۹۸۰ء میں میں نے اپنے مضمون ’’اردو افسانہ: روایت سے انحراف اور مقلدین کے لیے لمحہ فکریہ‘‘ میں بالخصوص اس طرف توجہ دلائی تھی کہ نئے افسانے
کلاسیکی اردو شاعری اور ملی جلی معاشرت
شاعری کو من کی موج کہا گیا ہے یعنی یہ الفاظ کے ذریعہ اظہار ہے داخلی کیفیات اور جذبات کا۔ داخلی کیفیتیں عالم گیر ہوتی ہیں، مثلاً محبت اور نفرت، غم اور خوشی، امید اور ناامیدی، حسرتوں کا نکلنا یا ان کا خون ہو جانا۔ یہ سب جذبے اور تخیلی تجربے کی مختلف صورتیں
چند لمحے بیدی کی ایک کہانی کے ساتھ: ایک باپ بکاؤ ہے
راجندر سنگھ بیدی کے کردار اکثر و بیشتر محض زمان ومکاں کے نظام میں مقید نہیں رہتے بلکہ اپنے جسم کی حدود سے نکل کر ہزاروں لاکھوں برسوں کے انسان کی زبان بولنے لگتے ہیں۔ اس طرح ایک معمولی واقعہ، واقعہ نہ رہ کر انسان کے ازلی اور ابدی رشتوں کے بھیدوں کا اشاریہ
فکشن کی شعریات اور ساختیات
THE STRUCTURAL PATTERN OF THE MYTH UNCOVERS THE BASIC STRUCTURE OF THE HUMAN MIND THE STRUCTURE WHICH GOVERNSTHE WAY HUMAN BEINGS SHAPE ALL THEIR INSTITUTIONS, ARTIFACTS AND THEIR FORMS OF KNOWLEDGE. (LEVI STARAUSS) ساختیاتی طریقۂ کار بیانیہ
پرانوں کی اہمیت
پران ہندوستانی دیو مالا اور اساطیر کے قدیم ترین مجموعے ہیں۔ ہندستانی ذہن و مزاج کی، آریائی اور دراوڑی عقائد اور نظریات کے ادغام کی، نیز قدیم ترین قبل تاریخ زمانے کی جیسی ترجمانی پرانوں کے ذریعے سے ہوتی ہے، کسی اور ذریعے سے ممکن نہیں۔ یہ الہامی کتابوں