لکھنؤ کے مشہورخاندان اجتہاد کے خوش فکر و قادر لکلام شاعر مولانا اولاد حسین شاعرؔ لکھنوی کے گھر 1938 میں پیدا ہوئے۔ ابتدا تعلیم گھریلو طور پر والد کی نگرانی میں حاصل کی اور اعلیٰ اسکولی تعلیم سے محروم رہے لیکن خاندان کے علمی و ادبی و دینی ماحول سے متاثر ہو کر مطالشہ جاری دکھا اور علمی استعداد میں روز افزوں اضافہ کرتے رہے۔ ناظرؔ صاحب بچپن سے ہی انتہائی زیرک و فہیم اور مزاجاً انتہا پسند تھے۔ ان کے بزرگوں میں بیشتر نامور خطیب، ممتاز ادیب اور باکمال شاعر تھے جن میں مولانا سبط حسن صاحب، مولوی علی نقی صاحب، مولوی کلب حسین صاحب، واخرؔ لکھنوی صاحب وغیرہ کے نام شامل ہیں۔ اس طرح انہیں علمی، ادبی، دینی و شعری ذوق ورثہ مٰں ملا شعور کی منزلوں میں قدم رکھتے ہی وہ گل افشانی گفتار کا مظاہرہ کرنے لگے اور رفتہ رفتہ ذاکری شروع کی۔ اور بہت جلد شہرت ہر دل عزیزی حاصل کر لی۔ ان کی خطابت کے جا بجا چرچے ہونے لگے اور وہ موضوع گفتگو بن گئے۔ لیکن اسی شہرت و مقبولیت کے زمانے میں نہ جانے کیسے اور کن حالات میں ان سے حافظ و کیام کے عیب کا گناہ سرزد ہوا اور ان کے انتہا پسند مزاج نے اس کا بھی حق ادا کیا۔ نتیجتاً انہیں زاکری سے کنارا کش ہونا پڑا۔ مخالفین نے ان کی اس کمزوری کا، جس کا وہ خود بڑی بے باکی سے اعتراف کرتے تھے۔ بھر پور فائدہ اٹھایا اور انہیں شاعر بنا کر چھوڑا۔ ناظرؔ صاحب نے کوئی باقاعدہ ملازمت یا مستقبل کا روبار نہیں کیا اور معاشی بد حالی کا شکار رہے۔ چکن کے کرتے سی کر کسی نہ کسی طرح گذر کرتے تھے۔ آخر میں مشاعروں کی شرکت سے بھی کچھ کما لیتے تھے۔
شاعری انہیں ورثہ میں ملی تھی ہوش سنبھالتے ہی اپنے جذبات و خیالات کو حسین شعری پیکر میں ڈھالنے لگے۔ شروع میں کلیمؔ تخلص اختیار کیا تھا اور سنجیدہ شاعری کرتے تھے اس کے بعد طنز و مزاح کے طرف مائل ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اپنی بے باکی و سحر بیانی کی بدولت ملک گیر شہرت کے مالک بن گئے۔ کسی مشاعرے میں ان کی شرکت مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت سمجھی جانے لگی اور ناظرؔ صاحب ایک منفرد طنز و مزاح کی حیثیت سے شہرت کے بام عروج تک پہنچ گئے۔ شاید ہی کوئی موضوع ہو جس پر انہوں نے طنز و مزاح کے تیر نہ چلائے ہوں۔ کلام سنانے کا انداز بھی مخصوص اور متاثر کرنے والا تھا وہ محفلوں پر چھا جانا اور دلوں کو برمانا خوب جانتے تھے۔ جس محفل میں پہنچ جاتے تالیوں کی گونج اور ’’اور اور‘‘ کے نعروں سے گونجتی رہتی۔ ان کے طنز کی نشتریت اور مراج کی چاشنی سے مسحور ہو کر سامعین قہقہوں میں کھو جاتے تھے۔
ناظرؔ صاحب بہت مختصر وقعہ حیات لے کر آئے تھے مجاہدانہ زندگی گزارتے رہے ۔ کثرت شراب نوشی نے دل و جگر چھلنی کیا۔ معاشی بد حالی نے اعضائے جسمانی کو جھنجھوڑا جسم گلتا رہا، قوت حیات گھٹتی رہ۔ ناظر قہقہے لٹاتے رہے۔ 7؍جولائی 1979 کو بجنور کے مشاعرے میں شرکت کے لیے لکھنؤ سے روانہ ہوئے وہاں مشاعرہ لوٹا اور وطن واپس ہوئے۔ ٹرین مین ہی شدید قلبی دورہ پڑا اور وہ جانبر نہ ہوکے۔ انہیں اس سے قبل بھی کئی قلبی دورے پڑ چکے تھے۔ دوران سفر طبی سہولتیں بھی میسر نہ آسکیں۔ 8؍جولائی 1979 کی صبح انتقال ہوا۔ 9؍جولائی 1979 کو امام باڑہ غفرام مآب لکھنؤ میں تدفین ہوئی۔