نیاز فتح پوری کے مضامین
کلام مومن پر ایک طائرانہ نگاہ
اگر میرے سامنے اردو کے تمام شعراء متقدمین و متاخرین کا کلام رکھ کر (بہ استثنائے میرؔ) مجھ کو صرف ایک دیوان حاصل کرنے کی اجازت دی جائے تو میں بلا تامل کہہ دوں گا کہ مجھے کلیات مومن دے دو اور باقی سب اٹھا لے جاؤ۔ ایک سننے والے کے دل میں قدرتاً اس کے بعد
ادبیات اور اصول نقد
لٹریچر کا ترجمہ اردو میں عام طور پر ادب یا ادبیات کیا جاتا ہے جو اپنے اصلی مفہوم کے لحاظ سے بظاہر بے جوڑ سا معلوم ہوتا ہے لیکن غالباً اس سے بہتر ترجمہ ممکن نہیں، ہر چند اول اول عربی زبان میں ادب کا لغوی مفہوم وہی تھا جو انسان کے بلند شریفانہ خصائل کو
سید محمد میر سوز
(دہلی کا ایک شاعر جس کو دنیا نے بہت کم یاد رکھا) سوز کا ذکر تقریباً ہر تذکرہ میں نظر آتا ہے اور بجز آزاد کے کہ انہوں نے تو بیشک میر کے حوالہ سے انہیں پون شاعر مانا ہے، باقی تمام تذکرہ نویسوں نے اس کا ذکر اس احترام سے کیا ہے جو میرؔ، سوداؔ یا دردؔ
نظیر میری نظر میں
نظیر کے غیرمطبوعہ کلیات کی ورق گردانی کر رہا تھا اور سوچتا جاتا تھا کہ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ نظیر کس قسم کا شاعر تھا تو میں کیا جواب دے سکتا ہوں۔ اس کی غزلیں پڑھئے تو فوراً میرؔو سوزؔ کی طرف خیال منتقل ہوتا ہے۔ پھر بھی وہ میرؔ و سوز سے بالکل علیحدہ
یوپی کے ایک نوجوان ہندو شاعر فراق گورکھپوری
ایک زمانہ تھا کہ میری زندگی کی تنہائیوں کا دلچسپ ترین مشغلہ صر ف شعر پڑھنا تھا، اس کے بعد شعر کہنے کا دور آیا اور کافی عرصہ تک مجھ پر مسلط رہا، لیکن ان دونوں زمانوں میں کوئی زمانہ اس احساس سے خالی نہ گزرا کہ اگر شاعر ی ہماری حیات دنیوی کو کامیاب بنانے
ظفر کی شاعری
کوئی غزل پر اپنی جو نازاں آگے تیری غزل کے ہو شعر سنا دے اس کو ظفر اک اس میں کا اک اس میں کا میری رائے میں یہ بہترین سر سری تنقید ہے جو ظفر نے خود اپنی شاعری کے متعلق کی ہے۔ اس میں کلام نہیں کہ ظفر کے جستہ جستہ اشعار اگر کسی کے ناز کو خجل نہیں کر