Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Sajjad Zaheer's Photo'

سجاد ظہیر

1905 - 1973

نامور فکشن رائیٹر، ناول نگار و برصغیر کی ترقی پسند تحریر کے رہنماؤں میں سے ایک

نامور فکشن رائیٹر، ناول نگار و برصغیر کی ترقی پسند تحریر کے رہنماؤں میں سے ایک

سجاد ظہیر کا تعارف

تخلص : 'سجاد ظہیر'

اصلی نام : سید سجاد ظہیر

پیدائش : 05 Nov 1905 | لکھنؤ, اتر پردیش

وفات : 13 Sep 1973 | فیض آباد, اتر پردیش

LCCN :n84230697

سید سجاد ظہیر کے والد کا نام سر سید وزیر حسن تھا۔ وہ 5؍نومبر 1905ء کو گولا گنج، لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ ویسے ان کا خاندان کلاں پور کا تھا، جو مغرب میں واقع ہے۔ ان کے دادا سید ظہیر احسن تحصلیدار تھے اور والد اپنے وقت کے معروف وکیل، جنہوں نے پرتاپ گڑھ میں وکالت شروع کی لیکن بعد میں لکھنؤ چلے گئے۔ وہ صرف وکیل نہیں تھے بلکہ سیاست سے بھی غایت دلچسپی لیتے رہے تھے۔ بعدہٗ اودھ چیف کورٹ میں جج ہوگئے اور پھر ترقی کر کے الہٰ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہوئے۔ وزیر حسن کی شادی ایک زمیندار کی صاحبزادی سکندرالفاطمہ سے ہوئی جو سکن کہلاتی تھیں۔ ان ہی کے پانچ بیٹوں میں ایک سجاد ظہیر تھے۔ ان کی تاریخ ولادت کے بارے میں مالک رام اس طرح لکھتے ہیں:۔

’’عام طور پر ان کی تاریخ ولادت 5؍ نومبر 1905ء لکھی گئی ہے۔ اس میں مہینہ اور دن تو درست ہیں لیکن سال ٹھیک نہیں ہے۔ 1905ء کہ جگہ 1904ء چاہئے۔ میں نے ایک دن خود ہی ان سے اس معلوم عوام تاریخ کی تصدیق چاہی تو کہنے لگے کہ سرکاری کاغذوں میں یہی تاریخ لکھی ہے۔ لیکن ہوا یہ کہ جس دن بابا (والد) مجھے اسکول میں داخل کرنے کو لے جارہے تھے۔ بوبو (والدہ) نے ان سے پوچھا: اس کی پیدائش کی تاریخ کیا لکھواؤ گے؟ بابا نے جواب دیا جو ٹھیک تاریخ ہے وہی لکھواؤں گا۔ اس پر بوبو نے کہا: ’’ایک سال کم لکھوا دینا‘‘۔ بابا نے فرمایا: ’’بہت اچھا یہی کروں گا‘‘۔ چنانچہ انہوں نے تاریخ ولادت 5؍نومبر 1904ء کی بجائے 5؍ نومبر 1905ء درج کرادی اور یہی مشہور ہوگئی۔‘‘

سجاد ظہیر نے 1921ء میں جوبلی ہائی اسکول سے میٹرک پاس کیا اور 1923ء میں ایف اے۔ 1926ء میں لکھنؤ یونیورسٹی سے بی اے کی ڈگری لی۔ یہ چاہتے تھے کہ ان کی اعلیٰ تعلیم انگلستان میں ہو لہٰذا وہ مارچ 1927ء میں انگلستان چلے گئے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور وہاں سے ایم اے کی ڈگری لی۔ لیکن عجیب تات یہ ہوئی کہ وہ بیمار رہنے لگے اور تپ دق کے شکار ہوگئے۔ انہیں سوئزرلینڈ جانا پڑا جہاں ایک سینی ٹوریم میں زیر علاج رہے۔ لیکن علالت کے دوران ہندوستان واپس آگئے اور چند منتخب ہندوستانی طلبہ مثلاً محمودالظفر، زین العابدین یعنی زیڈ احمد وغیرہ سے مل کر ’’مجلس طلبہ ہند‘‘ بنائی۔ ’’انگارے‘‘ کی اشاعت کا پروگرام بنا۔ موصوف نے لندن ہی سے جرنلزم کاڈپلوما حاصل اور دوبارہ لندن جاکر 1935ء میں بارایٹ لا کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے ہندوستانی طلبہ کا ایک رسالہ ’’بھارت‘‘ بھی جاری کیا۔

یوں تو سجاد ظہیر نے لندن ہی میں ترقی پسند ادیبوں کی ایک انجمن بنائی تھی اور ایک ادبی حلقہ بھی قائم کیا تھا۔ غایت یہ تھی کہ ترقی پسندوں کی تحریک ایک باضابطہ شکل میں ہندوستان میں پھلے پھولے اور یہاں کے ادیب ترقی پسند خیالات سے مملو ہوں۔ اس کا ایک پس منظر بھی تھا۔ ہندوستان میں اب بیداری کی لہر اٹھ چکی تھی۔ رام موہن رائے نے 1830ء میں انگلستان کے سفر پر جانے سے پہلے فرانسیسی انقلاب کے اصولوں کی طرف توجہ دلائی تھی، جس کا ذکر ’’انڈیا ٹوڈے‘‘ میں ازرجنی پام دت سے ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ 1905ء کے روس کے انقلاب نے بھی ہندوستانیوں کے کان کھڑے کئے تھے جس کے اثرات دور رس ہوئے۔ ہنگامہ بلقان میں ہندوستانیوں نے ترکی کا ساتھ دینا چاہا گویا۔ سیاسی و سماجی تبدیلی کے لیے راہ ہموار ہوچکی تھی۔ پھر یہ بھی ہوا کہ 1933ء میں جرمنی نے ہٹلر کے فاشزم کو فروغ دینا شروع کیا۔ اس طرح یورپ سیاسی بحران کا شکار ہوگیا۔ مغرب میں جو طلبہ زیرتعلیم تھے ان میں بھی بیداری کی لہر دوڑ گئی جن میں سجاد ظہیر سب سے اہم تھے۔ خود سجاد ظہیر اس زمانے کے حالات کے ردعمل میں جو سیاسی شعور پیدا ہوا تھا، اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں:۔

’’ہم رفتہ رفتہ سوشلزم کی طرف مائل ہوتے جارہے تھے۔ ہمارا دماغ ایک ایسے فلسفے کی جستجو میں تھا جو ہمیں سماج کی دن بدن بڑھتی ہوئی پیچیدگیوں کو سمجھنے اور ان کو سلجھانے میں مدد دے سکے۔ ہمیں اس بات سے اطمینان نہیں ہوتا کہ انسانیت پر ہمیشہ مصیبتیں اور آفتیں رہی ہیں اور رہیں گی۔ مارکس اور دوسرے اشترا کی مصنفین کی کتابیں ہم نے بڑے شوق سے پڑھنا شروع کیں۔ جیسے جیسے ہم مطالعہ کو بڑھاتے، آپس میں بحثیں کرتے، تاریخی سماجی اور فلسفیانہ مسئلوں کو حل کرتے اس نسبت سے ہمارے دماغ روشن ہوتے اور ہمارے قلب کو سکون ہوتا جاتا تھا۔ یونیورسٹی کی تعلیم ختم کرنے کے بعد ایک نئے لامتناہی تحصیل علم کی ابتدا تھی۔‘‘

اس طرح گویا ترقی پسند تحریک کی فضا ہموار ہوگئی۔ لندن میں ترقی پسندوں کا پہلا مینی فسٹوتیار ہوا۔ جس میں سجاد ظہیر کے علاوہ ملک راج آنند، جیوتی گھوش، کے ایس بھٹ، ایس سنہا، محمد دین تاثیر کے دستخط تھے۔ اس مینی فسٹو کی خاص بات یہ تھی کہ ہندوستان کے مختلف صوبوں میں ادیبوں کی انجمنیں قائم کی جائیں، دیگر انجمنوں سے رابطہ ہوا، ادبی جماعتوں سے رابطہ قائم کیا جائے، ترقی پسند خیالات کی ترویج کیا جائے، ترجموں پر زور دیا جائے، ہندوستان کو قومی زبان کی حیثیت سے اس کا خط انڈورومن کردیا جائے، اظہارخیال کی آزادی ہو اور ادیب ایک دوسرے کی مدد کریں۔

اس طرح دسمبر 1935ء میں بھارتیہ ساہتیہ پریشد، ناگپور میں ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں ایک مینی فسٹو پیش کیا گیا جس پر جواہرلال نہرو، نریندردیو، مولوی عبدالحق اور منشی پریم چند کے بھی دستخط  تھے۔ اپریل 1936ء میں ترقی پسندوں کی پہلی کانفرنس ہوئی جس میں ایک اعلان نامہ مینی فسٹو کے طور پر پیش کیا گیا۔ اس اعلان نامے میں ترقی پسند لٹریچر شائع کرنے، ترقی پسند مضامین لکھنے اور ترجمہ کرنے، ترقی پسند مصنفین کی امداد باہمی اور آزادی خیال پر زور دیا گیا۔ اس ترقی پسند تحریک میں پریم چند کا وہ مشہور خطبہ سامنے آیا جس میں ادب اور افادیت کی بحث چھڑ گئی اور اس بات پر زور دیا جانے لگا کہ ہندوستان میں ایک ایسی فضا قائم ہو جہاں کھل کر ادبی بحثیں ہوں۔ ادب کو عوام سے قریب کیا جائے اور حسن کے معیار کے تصور کو تبدیل کیا جائے۔ ظاہر ہے ایسے تمام امور کے پس پشت دوسروں کے علاوہ سجاد ظہیر ہی کی مساعی بیحد اہم تھی۔ انہوں نے سیاست میں کسی حد تک اپنی شخصیت کو فعال بنا رکھا تھا، اس کی ایک جھلک اس اقتباس میں ملاحظہ ہو:۔

’’انہوں نے زمانہ قیام الہٰ آباد انڈین نیشنل کانگریس کے سرگرم کارکن کی طرح سیاست میں عملی حصہ لیا۔ الہ آباد شہر کانگریس کمیٹی کے سکریٹری کی حیثیت سے نہروجی کے شانہ بہ شانہ کام کیا۔ اس زمانے میں انہوں نے ’’آل انڈیا کسان سبھا‘‘ کی تشکیل کی اور اس زمانۂ سرگرمی میں پی سی جوشی اور بھاردواج جیسے فعال کمیونسٹ لیڈروں سے رابطہ ہوا۔ اسی زمانہ سیاست میں کئی اخبارورسائل سے وابستگی قائم کی۔ ’’چنگاری‘‘ اور ’’نیا ادب‘‘ کے ذریعہ ترقی پسند نظریات کی تشہیر کی۔ 1956ء میں ’’عوامی دور‘‘ کے چیف ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ بعد میں یہی اخبار ’’حیات‘‘ کردیا گیا جو آج بھی شمیم فیضی کی ادارت میں شائع ہورہا ہے۔ بستی سے 1942ء میں ’’قومی جنگ‘‘ جاری کیا تھا۔ قبل اس کے جب اوائل ستمبر 1939ء میں دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی تو کمیونسٹ کارکنوں نے اس جنگ کی مخالفت کی اور اپنی گرفتاری دینے کا فیصلہ کیا۔ انگریزوں کے خلاف اس جنگ کو سامراجیت سے تشبیہ دی۔ چنانچہ سجاد ظہیر کو مارچ 1940ء میں گرفتار کرکے سنٹرل جیل لکھنؤ بھیج دیا گیا۔ دوسال بعد مارچ 1942ء میں رہا کئے گئے۔‘‘

بہرطور سجاد ظہیر 1942ء میں بمبئی چلے گئے اور وہاں سے ’’قومی جنگ‘‘ جاری کیا۔ چونکہ ان کے والد لکھنؤ میں بیمار تھے اس لئے وہ 1947ء میں وہاں آگئے۔ اسی سال 31؍ اگست کو ان کے والد کا انتقال ہوگیا لیکن کمیونسٹ پارٹی نے ایک فیصلہ کیا جس کی رو سے 1948ء میں انہیں پاکستان جانا تھا۔ لیکن وہاں انہیں تین سال تک انڈرگراؤنڈ رہنا پڑا۔ آخرش 1951ء میں راولپنڈی سازش میں گرفتار ہوگئے اور تقریباً چار سال تک مختلف جیلوں میں رہے۔ رہائی کے بعد وہ ہندوستان آگئے۔ انہوں نے نہرو کی مدد سے ہندوستانی شہریت بھی حاصل کرلی۔ 1958ء میں تاشقند میں پہلی افروایشیائی رائٹرس کانفرنس میں شرکت کی اور اس رائٹرس ایسوسی ایشن کے سکریٹری ہوگئے۔ 1927ء سے 1973ء تک مختلف ممالک کا سفر کرتے رہے جیسے برطانیہ، فرانس، بلجیم، جرمنی، اٹلی، سوئزرلینڈ، روس، ہنگری، بلغاریہ، مصر، الجیریا، لبنان، عراق، افغانستان اور کیوبا وغیرہ۔

واضح ہو کہ 10؍ستمبر 1938ء کو ان کی شادی خان بہادر سید رضا حسین کی صاحبزادی رضیہ دلشاد سے ہوئی جو رضیہ سجاد ظہیر یا رضیہ آپا کے نام سے مشہور ہوئیں۔

سجاد ظہیر پوری زندگی فعال اور متحرک رہے اور ترقی پسند تریک کو مضبوط اور مستحکم کرنے میں ان کا رول بہت اہم رہا۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود مجھے کہنے دیجئے کہ ترقی پسندوں میں ہمیشہ وہ باشعور اور کھلے ذہن کا ثبوت فراہم کرتے رہے۔ ان کے یہاں بڑا توازن رہا۔ یاد کیجئے کہ ایک زمانہ میں راجندر سنگھ بیدی نے اپنے ایک خطبے میں میر کو قنوطی اور فراری کہا تھا اور میر کا پڑھنا ان کی نگاہ میں گویا بے سود تھا۔ اس زمانے میں ہنس راج رہبر نے مثنوی ’’زہرعشق‘‘ کو جاگیردارانہ نظام کی یادگار کہتے ہوئے اسے رد کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس کے علاوہ ظ انصاری نے غزل کو جاگیردارانہ تمدن کی یادگار کہتے ہوئے حافظ کو رجعت پسند کہہ دیا تھا۔ لیکن سجاد ظہیر نے اپنے ایک مضمون ’’غلط رجحان‘‘ کے عنوان سے ایسی تمام باتوں کو رد کیا۔ حافظ پر انہوں نے ایک بسیط مقالہ سپرد قلم کیا جو کتابی صورت میں شائع ہوچکا ہے۔ اتنا ہی نہیں انہوں نے فیض کی پذیرائی کی اور ان کے فن کی نرمی اور جمالیاتی اظہار بیان کی تعریف کی۔ یہاں ٹھہر کر سجاد ظہیر کی علمی کارگزاریوں کی فہرست درج کرتا ہوں:۔ ’’انگارے‘‘ (1935ء) ’’بیمار‘‘ (ڈرامہ،1935ء) ’’نقوش زنداں‘‘ (جیل سے رضیہ سجاد ظہیر کے نام لکھے گئے خطوط، 1942ء) ’’اردو ہندی ہندوستانی‘‘(1947ء)  ’’ذکر حافظ‘‘(1956ء) ’’روشنائی‘‘ (ترقی پسند مصنفین کے تعلق سے تحریر، 1959ء) ’’لندن کی ایک رات‘‘ ناول، 1960ء) ’’پگھلا نیلم‘‘(1964ء) ’’مضامین سجاد ظہیر‘‘1979ء)۔ ان کے علاوہ ’’اوتھیلو‘‘ (شیکسپیئر 1949ء)  ’’کینڈڈ‘‘ (ولٹیر 1957ء)  ’’گورا‘‘ (ٹیگور، 1962ء)  ’’پیغمبر‘‘ (خلیل جبران) وغیرہ تراجم ہیں۔

واضح ہو کہ ’’انگارے‘‘ 1931ء میں شائع ہوا۔ اس میں دس کہانیاں تھیں۔ پانچ کہانیاں تو سجاد ظہیر کی تھیں جن کے عنوانات ہیں ’’نیند نہیں آتی‘‘، ’’جنت کی بشارت‘‘، ’’گرمیوں کی ایک رات‘‘، ’’دلاری‘‘ اور پھر یہ ہنگامہ‘‘۔ بقیہ پانچ کہانیاں ’’بادل نہیں آئے‘‘ اور ’’مہاوت کی ایک رات‘‘ احمد علی کی، دو کہانیاں ’’دلی کی سیر‘‘ اور ’’پردے کے پیچھے‘‘ رشید جہاں کی اور ایک کہانی ’’جواں مردی‘‘ محمودالظفر کی۔ کتاب ہنگامہ خیز ثابت ہوئی اور یوپی کی حکومت نے کتاب ضبط کر لی اور حکومت ہند نے بھی اس پر قدغن لگائی۔

لیکن سجاد ظہیر کا ناول ’’لندن کی ایک رات‘‘ کافی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ کتاب 1938ء میں شائع ہوئی۔ مواد اور تکنیک کے اعتبار سے اس کی اہمیت مسلم ہے اور اردو فکشن کی تاریخ میں اس کی حیثیت ایک سنگ میل کی ہے۔ دراصل کئی لحاظ سے اسے اردو ناول نگاری کے باب میں اہمیت حاصل ہے۔ اس میں بس اتنا نہیں ہے کہ فرد اور سماج کے بدلتے ہوئے تیور کو نشان زد کرنے کی کوشش کی گئی ہے بلکہ اس کا فکری اور نفسیاتی نظام بھی ہے۔ چند نوجوان اور ان کے خواب وخیال رومانی ہیں لیکن گہرا نفسیاتی پس منظر رکھتے ہیں۔ نعیم، راؤ کریم بیگم وغیرہ کی ناآسودگیاں سامنے آئی ہیں۔ ان کے احساس میں ایک خاص قسم کے انتشار کے باوجود تبدیلی کی ناگزیریت ہے۔ اس میں شعور کی رو کی تکنیک سے بھی کام لیا گیا ہے۔ ہر چند کہ یہ بات بحث طلب ہوسکتی ہے کہ اس ضمن میں ولیم جونز کے متعلقہ تصورات یا ٹرسٹرم شینڈی یا جوائس کی اور ورجینا وولف کے بعض ناولوں سے کیا رشتہ ہوسکتا ہے۔ محض ایک رات کی کہانی زندگی کے بہت سے اسرارورموز اپنے ساتھ لئے ہوئے ہے۔ یہی اس ناول کا امتیاز بھی ہے۔

’’روشنائی‘‘ ایک دوسریی اہم کتاب ہے۔ یہ ترقی پسند تحریک کی تاریخ تو کسی طرح کہی جاسکتی ہے لیکن اس تحریر کی عقبی زمین میں ایک دستاویزی حیثیت ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے ترقی پسند تحریک کی تفہیم میں اس کی افادیت بڑھتی جاتی ہے۔

سجاد ظہیر ایک شاعر بھی تھے لیکن ان کی دوسری کتابیں اتنی اہم ہوگئیں کہ ان کا نام شاعر کی حیثیت سے لیا نہیں جاتا۔ انہوں نے پہلی غزل 1952ء میں سنٹرل جیل حیدرآباد میں تخلیق کئے گئے، جو ’’شاہراہ‘‘ کے ستمبر 1955ء کے شمارے میں شائع ہوئے۔ بہر حال چند اشعار دیکھئے:۔
جب وہ اٹھتے ہیں مٹانے خم کا میخانے کا نام
شورش مئے سے چمک جاتا ہے پیمانے کا نام

تجھے کیا بتائیں ہمدم اسے پوچھ مت دوبارہ
کسی اور کا نہیں تھا وہ قصور تھا ہمارا

وہ قتیل رقص و رم تھی وہ شہید زیروبم تھی
میری موج مضطرب کو نہ ملا مگر کنارا

ان کا ڈرامہ ’’بیمار‘‘ بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے، جو 1937ء میں شائع ہوا تھا۔ نثریی شاعری کا شاید پہلا نمونہ ’’پگھلا نیلم‘‘ ہی ہے، جو 1964ء میں شائع ہوا تھا۔ سجاد ظہیر نے بعض مضامین بھی لکھے ہیں جن کی بڑی اہمیت ہے اور وہ اسی بنیاد پر ایک اچھے نقاد بن کر ابھرتے ہیں۔ ویسے ان کی کتاب ’’ذکرحافظ‘‘ ان کے شعورووجدان، آگہی اور تنقیدی بصیرت کی غماز ہے۔ ان کے ترجمے الگ ان کی ذہانت اور علم وبصیرت پر دال ہیں۔

میں سجاد ظہیر یعنی بنے بھائی کو تحریک اور ادب کے حوالے سے ایک لیجینڈری شخصیت مانتا ہوں۔ ان کی وفات کی تفصیل مالک رام نے یوں بیان کی ہے:۔

’’لندن سے وہ اگست کے آخر میں روانہ ہوئے اور چندے ماسکو میں قیام کرنے کے بعد وہ آسما آتا پہنچ گئے۔ مجوزہ کانفرنس 4 سے 9؍ستمبر تک ہونے والی تھی۔ 6؍ ستمبر صبح کے ناشتے پر بیٹھے تھے کہ ان پر دل کا دورہ پڑا۔ ڈاکٹر آیا، اس نے آرام کا مشورہ دیا۔ اگرچہ انہوں نے تکلیف کا دلیری سے مقابلہ کیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے ساری عمر جس محنت سے کام کیا تھا اس سے ان کا دل بہت کمزور ہوچکا تھا۔ نقاہت بتدریج بڑھتی گئی۔ 11؍ستمبر کی صبح وہ بیہوش ہوگئے اور پھر آخری لمحے تک ہوش میں نہیں آئے۔ اسی حالت میں جمعرات 13؍ ستمبر 1973ء صبح ساڑھے گیارہ بجے روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ جسد خاکی ہفتہ15؍ ستمبر صبح کے وقت ہوائی جہاز سے دلّی پہنچا اور انہیں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان جامعہ نگر میں خواب گاہ ابدی نصیب ہوئی۔‘‘

موضوعات

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے