کربلا: ظلم کے خلاف ایک احتجاج
محرم کی تاریخی،ثقافتی اورادبی اہمیت کا ایک جائزہ
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
محرم کی تاریخی،ثقافتی اورادبی اہمیت کا ایک جائزہ
محرم کی تاریخی،ثقافتی اورادبی اہمیت کا ایک جائزہ
کربلا عراق کا ایک شہر ہے جہاں سن 61 ہجری میں عالم انسانیت کا دلسوز واقعہ رونما ہوا ، یہ وہی جگہ ہے جہاں پر امام حسین اور ان کے اصحاب کو یزید کے حکم پرشہید کیا گیا۔ یہ عظیم قربانی آج تک ظلم کے خلاف آواز اٹھانے اور احتجاج کرنے کے لئے ایک تحریک ہے اور حق کے راستے پر چلنے والوں کے لئے مشعل راہ ہے ۔ کربلابعض زبان دان افراد کے نزدیک عربی الفاظ کرب اور بلا کا مرکب ہے ، عربی میں کرب مصیبت اور دکھ کو کہتے ہیں، بلا عربی میں آزمائش اور مصیبت کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔
اردو شاعری میں کربلا ایک ایسا استعارہ ہے جس میں ظلم اور نا انصافی کے خلاف ایک پر زور احتجاج شامل ہے ۔ اردو زبان کی بیشتر شعری اصناف جیسے غزل ، قصیدہ ، رباعی اور نظموں میں کربلا کو ظلم کے خلاف علامت اور استعارے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے ۔ مرثیہ ،سلام اور نوحے ، ایسی اصناف ہیں جن میں صرف امام حسین اور کربلا کے واقعات کا ہی ذکر ملتا ہے ۔اردو مرثیہ کی تاریخ میں مرزا دبیر اور میر انیس دو اہم شاعر شمار کئے جاتے ہیں۔
کربلا جیسے اہم موضوع پر بے شمار مقالے اور مضمون کے ساتھ ساتھ ،بعض علامتی افسانے بھی لکھے گئے ۔ عصمت چغتائی کا ناول ' ایک قطرہ خون' کربلا کے موضوع پر ایک تاریخی دستاویز ہے ،جسے انہوں نے میر انیس کے مرثیے سے متاثر ہو کر لکھا تھا ۔ پریم چند نے ' کربلا' کے نام سے ایک ڈرامہ لکھا ہے جس کے لکھنے کی وجہ ' ملک میں پھیلے ہوئے فرقہ وارانہ تشدد’ کو کم کرنا تھا۔
اردو مرثیہ کی شاعری جو اپنے موضوع اور واقعات کے اعتبار سے کربلا کے واقعات اور امام حسین اور ان کے جانباز ساتھیوں اور خاندان کے افراد کو پیش کرتی ہے لیکن اس میں بیان کیے گئے رشتے ، استعمال کی گئی زبان ومحاورے، دکھائی گئی فضا اور ماحول پوری طرح ہندستانی مزاج اور تہذیب میں ڈھلے ہوئے ہیں۔ اس اعتبار سے اردو مرثیے تہذیب اور مقامی زبان کے حوالے سے کربلائی ادب میں اپنی الگ شناخت اور پہچان رکھتے ہیں۔
سوز خوانی کے فن پر ایک خاص ویڈیو کی پیشکش
کربلا کوادبی نقطۂ نگاہ سے جانیں
کربلا کوادبی نقطۂ نگاہ سے جانیں
یہ بات ہماری ادبی تاریخ کے ایک دلچسپ مبحث کا حکم رکھتی ہے کہ مرثیے کے واقعات کا جتنا گہرا تعلق عرب تاریخ سے ہے، ان کی پیشکش کا انداز اتنا ہی ہندوستانی معاشرت بالخصوص لکھنوی معاشرت، طرز بیان اور بیگمات کے اندازِ تخاطب کی ترجمانی کرتا ہے۔
اور پڑھیںعرب سے یہ شاعری جب ایران پہنچی تو اس نے مزید فروغ پایا، لیکن مرثیہ کو اصل عروج اردو زبان میں ہی ملا۔ میر انیس اور مرزا دبیر نے اپنی محنت وریاضت سے مرثیہ کو اس کی بلندی پر پہنچایا۔
اور پڑھئےریختہ اس استقلال و استقامت اور حق کے لئے قربانی کے جذبے کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets