چلو ٹک میر کو سننے...
میر کی شخصیت کے چند پہلو
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
میر کی شخصیت کے چند پہلو
میر کی شخصیت کے چند پہلو
میر صاحب اگست/ستمبر 1723 میں میر محمد علی کے یہاں پیدا ہوئے۔ ان کے والد علی متقی کے نام سے جانے جاتے تھے۔ میر صاحب میرمحمد علی متقی کی دوسری اہلیہ کے بطن سے تھے ۔ ان کے آباؤ اجداد حجاز سے ہجرت کر کے اکبر آباد (موجودہ آگرہ) میں آباد ہوئے تھے۔ میر کی تاریخ پیدائش کے بارے میں اختلاف ہے۔ ان کی تاریخ پیدائش کا سب سے معتبر حوالہ میر کے انتقال کے بعد چوتھے دیوان میں محمد محسن (میر کے بھتیجے) کی لکھی ہوئی تحریر ہے۔
میرسراج الدین علی خان آرزو میر صاحب کے سوتیلے ماموں تھے۔ خان آرزو ایک شاعر، عالم اور فارسی زبان کے ماہرین میں سے تھے۔ انہوں نے ریختہ (اردو) میں بھی کچھ اشعار کہے۔ میر دہلی آنے کے بعد ان کے ساتھ ہی رہتے تھے۔ نکات الشعرا میں میرنے ان کی بہت تعریف کی ہے۔ مگر ذکرِ میر میں میر نے ان پرااذیت پہنچانے کا الزام بھی لگایا ہے۔ یہ الزامات اس حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ انہوں نے خان آرزو پر اپنے سوتیلے بھائی محمد حافظ حسن کے ساتھ مل کر اپنے قتل کی سازش تک کا الزام لگا دیا ہے۔
میر کے تین بچے تھے۔ سب سے بڑے بیٹے کا نام میر فیض علی تھا، لیکن میر کی وفات سے چند سال قبل اس کا انتقال ہوگیا۔ میرحسن عسکری جو میر کلّو عرش کے نام سے مشہور ہیں، میر کی اولادوں میں سے وہ واحد شخص تھے جو میر کے انتقال کے بعد بھی زندہ رہے۔ خود شاعرتھے لیکن اپنے والد کے معیار کے نہیں تھے۔ انہوں نے ایک دیوان بھی مرتب کیاہے ۔ انہوں نے 1857 کی بغاوت کا پورا دور دیکھا اور بعد میں اپنا آبائی گھر چھوڑ کر رکاب گنج، لکھنؤ میں رہنے لگے۔
میر تقی میر اردو کے سب سے زیادہ قابل قدر شاعروں میں سے ایک ہیں۔ اور ان کو اردو شاعری کا خدائے سخن (شاعری کا خدا) کہا جاتا ہے۔ اردو ادب کی ہر بلند پایہ شخصیت ان کے قد کو اب تک کے سب سے بڑے شاعر کے طور پر قبول کرتی ہے۔ اور مرزا غالب اور ناسخ جیسے شاعروں نے ان کی شاعری کی خوبی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے اپنے نظریات کا اظہار کیا ہے۔
میر تقی میر پر ریختہ کی خاص ویڈیو پیش کش
میر پر یہ دلچسپ مضامین پڑھیں اور ان کی تخلیقی فکر کو سمجھیں
میر پر یہ دلچسپ مضامین پڑھیں اور ان کی تخلیقی فکر کو سمجھیں
میراکبرآباد (آگرہ) میں پیدا ہوئے اوروہیں پرورش پائی۔ ان کے والد کی خانقاہ،عیدگاہ کے قریب تھی جو اب آگرہ کا ایک ممتاز علاقہ ہے۔ اپنے والد میرمحمد علی (جو علی متقی کے نام سے معروف تھے) کی وفات کے بعد میر کو روزگار کی تلاش میں دہلی آنا پڑا۔ انہیں نواب صمصام الدولہ نے ایک روپیہ یومیہ اعزازیہ پر اپنے یہاں مقررکرلیا۔ اس کے کچھ دنوں کے بعد میر اپنے چھوٹے بھائی کی دیکھ بھال کے لیے آگرہ واپس آگئے۔ ان کے لئے وہ رقم کافی نہیں تھی لیکن اس سے ضروریات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔ یہ وظیفہ بھی اس وقت بند ہو گیا جب نواب صمصام الدولہ نادر شاہ کے ساتھ لڑائی میں مارے گئے اور وہ نظام الدین اولیاء کے مزار کے قریب ایک چھوٹی مسجد میں مدفون ہیں۔
اور پڑھیںمیرتقیؔ میر کی کی خود نوشت ‘ذکر میر’ میں دی گئیں تفصیلات کے مطابق میرکےوالد علی متقی عشق پیشہ، صوفی منش اورعرفان میں مگن رہنے والے شخص تھے۔ وہ جب کبھی جوش میں آتے تو میرکا ہاتھ تھام کر فرماتے، “بیٹا عشق کرو، عشق! عشق ہی اس دنیا میں متصرف ہے۔ اگرعشق نہ ہو تو دنیا کا یہ نظام باقی نہیں رہ سکتا۔ بےعشق زندگی وبال ہے۔ دنیا میں جوکچھ ہےعشق کا ہی ظہورہے۔”
اور پڑھیںمیر پر دلچسپ ویڈیوز
میر خدائے سخن کیوں ہے؟ گوپی چند نارنگ
اردو کے پہلے عظیم شاعر جنہیں ’ خدائے سخن ‘ کہا جاتا ہے
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free