لطف نظارۂ قاتل دم بسمل آئے
دلچسپ معلومات
۱۸۶۵ء
لطف نظارۂ قاتل دم بسمل آئے
جان جائے تو بلا سے پہ کہیں دل آئے
ان کو کیا علم کہ کشتی پہ مری کیا گزری
دوست جو ساتھ مرے تا لب ساحل آئے
وہ نہیں ہم کہ چلے جائیں حرم کو اے شیخ
ساتھ حجاج کے اکثر کئی منزل آئے
آئیں جس بزم میں وہ لوگ پکار اٹھتے ہیں
لو وہ برہم زن ہنگامۂ محفل آئے
دیدہ خونبار ہے مدت سے ولے آج ندیم
دل کے ٹکڑے بھی کئی خون کے شامل آئے
سامنا حور و پری نے نہ کیا ہے نہ کریں
عکس تیرا ہی مگر تیرے مقابل آئے
موت بس ان کی ہے جو مر کے وہیں دفن ہوئے
زیست ان کی ہے جو اس کوچے سے گھائل آئے
بن گیا سبحہ وہ زنار خدا خیر کرے
وہ جو نازک ہے کمر اس پہ بہت دل آئے
اب ہے دلی کی طرف کوچ ہمارا غالبؔ
آج ہم حضرت نواب سے بھی مل آئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.