نالۂ دل میں شب انداز اثر نایاب تھا
دلچسپ معلومات
۱۸۱۶ء
نالۂ دل میں شب انداز اثر نایاب تھا
تھا سپند بزم وصل غیر گو بے تاب تھا
دیکھتے تھے ہم بچشم خود وہ طوفان بلا
آسمان سفلہ جس میں یک کف سیلاب تھا
موج سے پیدا ہوئے پیراہن دریا میں خار
گریہ وحشت بے قرار جلوۂ مہتاب تھا
جوش تکلیف تماشا محشرستان نگاہ
فتنۂ خوابیدہ کو آئینہ مشت آب تھا
بے خبر مت کہہ ہمیں بے درد خود بینی سے پوچھ
قلزم ذوق نظر میں آئنہ پایاب تھا
بے دلی ہاے اسدؔ افسردگی آہنگ تر
یاد ایامے کہ ذوق صحبت احباب تھا
مقدم سیلاب سے دل کیا نشاط آہنگ ہے
خانۂ عاشق مگر ساز صداے آب تھا
نازش ایام خاکستر نشینی کیا کہوں
پہلوے اندیشہ وقف بستر سنجاب تھا
کچھ نہ کی اپنی جنون نارسا نے ورنہ یاں
ذرہ ذرہ روکش خورشید عالم تاب تھا
آج کیوں پروا نہیں اپنے اسیروں کی تجھے
کل تلک تیرا بھی دل مہر و وفا کا باب تھا
یاد کر وہ دن کہ ہر یک حلقہ تیرے دام کا
انتظار صید میں اک دیدۂ بے خواب تھا
میں نے روکا رات غالبؔ کو وگرنہ دیکھتے
اس کی سیل گریہ میں گردوں کف سیلاب تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.