محمد شہزاد کے افسانے
پرفیکشنسٹ
خان صاحب انتہائی وسیع المطالعہ اور اعلی تعلیم یافتہ ہستی تھے۔۔ مڈل کلاس سے۔ کالج کے وقت سے ٹی وی کے لیے ڈرامے لکھنا شروع ہو چکے تھے۔ لیکن یہ عمدہ ڈرامے انکے اپنے نام سے نشر نہ ہوتے۔ یہ ایک سیریل تھی۔ لکھنے والے کا نام بہت بڑا تھا۔ لیکن ایک وقت پر اس
بی یور سیلف!
’’لیکن شادی سے پہلے میں آپ سے ایک بہت ہی اہم معاملے پر گفتگو کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ سسی نے پنوں سے کہا۔ ’’واہ کیا اتفاق ہے! میں بھی آپ سے ایک بہت ہی اہم معاملے پر گفتگو کرنا چاہ رہا تھا۔۔۔ شادی سے پہلے۔‘‘ پنوں بولا۔ ’’چلیے پہلے آپ۔‘‘ سسی نے کہا۔ ’’نہیں
سٹریٹیجسٹ
’’اگلے ہفتے میری 25 سالہ پیاری بیٹی صوفیہ کی شادی ہے۔ اب وقت ہے راز افشانی کا۔۔۔‘‘ میں نے اپنے جگری یار صفدر سے کہا۔ ’’ایسا کونسا راز ہے جو تو نے مجھ سے بھی چھپائے رکھا؟‘‘ اس نے پوچھا۔ ’’ہے ایک!‘‘ ’’بہت دکھ ہوا! مطلب تو نے مجھ پر سو فیصد بھروسہ
مقابلہ
دونوں ایک غیر ملکی ادارے میں ایک ہی گریڈ میں نوکر تھے۔ تنخواہ اچھی تھی۔ عورت پچیس مرد تیس برس کے قریب۔ ادارے میں میاں بیوی بوجہ پالیسی اکھٹے کام نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن دوران ملازمت اگر میاں بیوی بن جائیں تو کوئی دقت نہ تھی۔ یہ سوچ کر کہ وہ جوان، حسین،
شاہ جی
شاہ جی جیسا متقی پرہیز گار میں نے نہیں دیکھا۔ لوگ پانچ وقت شاہ جی سات وقت نماز پڑھتے وہ بھی ایک ہی وضو سے۔ تہجد کی گھر پر چاشت کی دفتری اوقات میں۔ چاشت کے بعد دفتر کے کمپیوٹر پر کبھی انڈین کبھی انگریزی ٹوٹے دیکھتے پھر ظہر ادا کرتے۔ غیب کا علم رکھتے۔
کونینڈرم
’’پرسوں میری سالگرہ ہے۔ شام چھ بجے۔ لیکن تم دو بجے آ جانا۔ مل کر گھر سجائیں گے۔‘‘ سلمان نے اپنے دوست راول سے کہا جس کی عمر تیرہ برس تھی۔ ’’اووووو۔۔۔ ہیپی برتھ ڈے۔ فکر نہ کرو۔ میں پہنچ جاؤنگا۔‘‘ راول بولا۔۔۔ سلمان کا واحد دوست۔ دونوں ایک ہی محلے میں
سوہنی ماہیوال
’’کہاں جا رہی ہو سوہنی؟‘‘ ریٹا نے اپنی دوست سے پوچھا۔ ’’ماہیوال سے ملنے!‘‘ سوہنی بولی۔ ’’یہ گھڑا کس لئے؟‘‘ ’’یو نو ماہیوال دریا پار گاؤں میں رہتا ہے۔‘‘ ’’تو اس سے گھڑے کا کیا تعلق؟‘‘ ’’مجھی سوئمنگ نہیں آتی۔ اس کی مدد سے تیر کر جاؤنگی!‘‘ ’’ایڈیٹ