Quiz A collection of interesting questions related to Urdu poetry, prose and literary history. Play Rekhta Quiz and check your knowledge about Urdu!
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
دلچسپ موضوعات اور معروف شاعروں کے منتخب ۲۰ اشعار
اردو کا پہلا آن لائن کراس ورڈ معمہ۔ زبان و ادب سے متعلق دلچسپ معمے حل کیجیے اور اپنی معلومات میں اضافہ کیجیے۔
معمہ حل کیجیےمعنی
ایسا ترے فراق میں بیمار ہو گیا
میں چارہ گر کی جان کو آزار ہو گیا
نئی اور پرانی اردو و ہندی کتابیں صرف RekhtaBooks.com پر حاصل کریں۔
Rekhtabooks.com کو براؤز کریں۔Quiz A collection of interesting questions related to Urdu poetry, prose and literary history. Play Rekhta Quiz and check your knowledge about Urdu!
ممتاز ترقی پسند غزل گو مجروح سلطانپوری نے جگر مرادابادی کے ساتھ کئی مشاعرے پڑھے ۔ 1945 میں ممبئی کے ایک مشاعرہ کا ذکر ہے کہ جب مجروح کے نام کا اعلان ہوا تو لوگوں نے انھیں طفل مکتب سمجھا مگر جب مجروح نے غزل چھیڑی تو محفل پر ایک سناٹا سا چھا گیا۔ مجروح نے بڑی خود اعتمادی کے ساتھ شعر سناۓ اور مشاعرے کو لوٹ لیا۔ مشاعرے میں شریک جگر مرادابادی اور حسرت موہانی نے جی کھول کر داد دی، اسی مشاعرے میں فلم ہدایت کار اے آر کاردار بھی موجود تھے جو ان دنوں ''شاہجہاں'' نامی ایک فلم پر کام کر رہے تھے۔ وہ مجروح سلاطانپوری سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اس فلم کے گانے لکھنے کی فرمائش کر دی، مجروح نے ہامی بھری اور نوشاد نے اس گانے کو کمپوز کیا۔ خمار بارہ بنکوی نے بھی اسی فلم سے نغمہ نگاری کا آغاز کیا۔
شمس الرحمن فاروقی (1935-2020 ) اردو ادب کےآسمان کا درخشندہ ستارہ، درجنوں کتابوں کے مصنف مشہور نقاد، ناول نگار، ہمہ جہت شخصیت، بچپن سے ہی کتابیں پڑھنے کے شوقین تھے۔ بارہ سال کی عمر سے ہی آنکھوں پر چشمہ لگ گیا تھا۔ ان کو گھر میں "بچے میاں" کہا جاتا تھا۔ بی اے تک ان کی تعلیم گورکھپور میں ہوئ جہاں ان کے والد ملازمت کے سلسلے میں رہتے تھے۔ وہاں ان کے کالج کے پاس ایک جلد ساز کی دکان تھی، وہاں جتنی کتابیں جلد بندی کے لئے آتیں، فاروقی صاحب وہیں بیٹھ کر پڑھ لیتے۔ وہ اکثر اپنے تایا زاد بھائیوں کے ساتھ پیدل کالج جاتے وقت بھی کوئ کتاب پڑھنے لگتے، ان کے بھائ انھیں کار، سائیکل اور رکشہ سے بچاتے۔ انگریزی میں ایم اے کرنے الہ آباد گئے تو ویاں بھی چلتے چلتے کتب بینی کی عادت جاری رہی۔ راستے میں لوگ ان کی محویت دیکھ کر خود ہی راستہ دے دیتے۔ وہ انڈین پوسٹل سروس میں اعلی عہدوں پر فائز تھے، آفس میں جب بھی فائلوں سے سر آٹھانے کی فرصت ملتی تب کوئ کتاب ان کے ہاتھ میں ہوتی۔ دوران ملازمت ہی انھوں نے "شب خون" کے نام سے ایک ماہانہ ادبی رسالہ نکالا جو مسلسل چالیس برسوں تک جاری رہا۔ یہ میگزین جدید رجحان کے فروغ میں بہت معاون ثابت ہوا۔
فاروقی صاحب ادب کےعلاوہ مصوری اور موسیقی کے بھی رسیا تھے، خاص کر ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کے شیدا تھے۔ جانوروں اور چڑیوں سے بھی بہت دلچسپی تھی۔ الہ آباد میں انھوں نے اپنے گھر میں مختلف قسم کی چڑیاں پال رکھی تھیں۔ وہ کسی بھی جانور کو مرتے یا ذبح ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے تھے۔
ان کا وطن اعظم گڑھ تھا لیکن ان کی پیدائش اپنے ننھیال پرتاب گڑھ میں ہوئ تھی۔
'آب رواں' کے معنی ہیں بہتا ہوا پانی لیکن 'آب رواں' ایک باریک بُنے ہوئے سوتی کپڑے کا نام بھی ہے۔ یہ اپنے وقت کی نہایت نفیس ململ تھی اور یورپ کی تجارتی کمپنیاں اسے ہندوستان سے برآمد کیا کرتی تھیں، اور انگریزوں میں یہ Abaron کے نام سے جانی جاتی تھی۔
'آب رواں ' کے دوپٹے اور لباس کا ذکر کلاسیکی اردو شاعری میں کافی ملتا ہے۔ نظیر اکبر آبادی کے ایک شعر میں اس آب رواں کے پیرہن یعنی لباس کی بات کس طرح آنسوؤں کی جھڑی کی مناسبت سے آئ ہے۔
اشکوں کے تسلسل نے چھپایا تن عریاں
یہ 'آب رواں' کا ہے نیا پیرہن اپنا
اس لفظ سے متعلق ایک محاورہ بھی ہے "آبِ رَواں میں گاڑھے کا پَیوَنْد"۔ یعنی انمل یا بے جوڑ پیوند لگانا۔ گاڑھا ایک موٹے کھردرے کپڑے کا نام ہے۔
" غبارِ خاطر" مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب ہے جو ایک ادبی شاہکار ہے۔ مولانا آزاد مجاہد آزادی اور آزاد ہندوستان کے پہلے وزیرِتعلیم تھے۔ غبار خاطر ان چوبیس خطوط پر مشتمل ہے جو انھوں نے 1942_ 1945 کے دوران قلعۂ احمد نگر، میں اسیری کے زمانے میں لکھے تھے ۔ مولانا، آل انڈیا کانگریس کمیٹی کی میٹنگ کی صدرارت کے لئے بمبئ گئے تھے اور وہیں گرفتار کر لئے گئے تھے۔
یہ سب خط نواب صدر یار جنگ مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی رئیس بھیکم پور ضلع علی گڑھ کے نام لکھے گئے تھے۔ لیکن یہ خطوط جو قلعۂ احمد نگر کے واقعات و مشاہدات اور مختلف موضوعات، افکار و خیالات اور فلسفے پر مبنی ہیں، قید کی سخت پابندیوں کی وجہ سے پوسٹ نہیں جاسکتے تھے ۔ اور یہ بات مولانا کو پتا بھی تھی کہ یہ خط مکتوب الیہ کو بھیجے نہیں جاسکتے۔
یہ خطوط نجی نوعیت کے تھے اور اس خیال سے لکھے بھی نہیں گئے تھے کہ شائع کئے جائیں گے ۔ لیکن قید سے رہائ کے بعد اپنے سکریٹری مولانا اجمل خاں کے اصرار پر مولانا نے انھیں کتاب کی شکل میں شائع کیا۔
یہ خطوط ان کی ابتدائی زندگی کی تفصیل کے ساتھ ساتھ علمی اور ادبی معلومات کا خزانہ بھی ہیں اور مولانا آزاد کے منفرد طرز نگارش کا نقطۂ عروج سمجھے جاتے ہیں۔
" افشاں" سونے یا سنہری بُرادے کو کہتے ہیں جو عورتیں سنگھار کے طور پر مانگ میں یا ماتھے پر چھڑکتی ہیں۔ خاص طور پر دلہن کی مانگ میں افشاں سجائ یا "چُنی" جاتی تھی ۔ قمر جلالوی کا شعر ہے :
قمرؔ افشاں چُنی ہے رخ پہ اس نے اس سلیقہ سے
ستارے آسماں سے دیکھنے کو آئے جاتے ہیں
اردو میں لفظ 'افشاں' چھڑکنے، جھڑنے یا بکھیرنے کے معنوں میں لاحقے کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔ لڑکیوں کے نام "مہر افشاں" (محبت بکھیرنے والی ) اور نور افشاں رکھے جاتے ہیں ۔ کسی شعر میں آسمان کسی کی قبر پر " شبنم افشانی" کرتا ہے تو کہیں کسی کی باتوں سے "گُل افشانی" ہوتی ہے. یعنی پھول بکھیرے جاتے ہیں .
غالب کا مشہور شعر ہے:
پھر دیکھئیے اندازِ گُل افشانیِ گُفتار
رکھ دے کوئی پیمانۂ صہبا مرے آگے
" گُل افشانیِ گُفتار‘‘ کے لیے اردو میں ’’پھول جھڑنے‘‘ کا محاورہ بھی موجود ہے۔ احمد فرازکا ایک شعر بہت مشہور ہوا ہے ۔
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
اور ایک لفظ ہے "اِفشا" جس کے معنی ہیں بھید کھل جانا یا ظاہر ہو جانا۔ اردو شاعری میں ہزاروں اشعار نگاہوں سے رازِ عشق اِفشا ہونے کا حال بیان کرتے ہیں۔ اور جرم کا بھید جاننے کے لئے تھانے میں "تفتیش" بھی کی جاتی ہے ۔
ممتاز شاعروں کا منتخب کلام
हिंदी क्षेत्र की भाषाओं-बोलियों का व्यापक शब्दकोश
Buy Urdu & Hindi books online
A vibrant resource for Hindi literature
A feature-rich website dedicated to sufi-bhakti tradition
A trilingual dictionary of Urdu words
The world's largest language festival
Jashn-e-Rekhta | 2-3-4 December 2022 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate, New Delhi
GET YOUR FREE PASS