میں گھر کی گلی سے مین روڑ پر آگیا۔ اب چوک تک صرف دوسو قدم ہی چلنا تھا کہ زور دار دھماکہ ہوگیا ۔ سامنے سے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ آسمان تک گردوغبار چھاگیا تھا۔دھماکہ چوک میں ہی ہوگیا تھا۔ بیس لوگ مارے گئے تھے اور سو سے زیادہ زخمی ہوگئے تھے ۔
پارک میں کافی بھیڑ تھی۔ میں دوستوں کا انتظار کررہاتھا کہ طارق ہاشمی کی کال آگئی۔
’’جلدی ریستورانٹ پہنچ جاؤ۔ ہم اب پارک میں نہیں ریستورانٹ میں مل رہے ہیں۔ جاوید سب کو چائے پلارہا ہے۔‘‘ میں جلدی جلدی پارک سے نکل آیا۔ ابھی ریستورانٹ میں گھسا ہی تھا کہ تڑ تڑ گولیاں چلنے کی آواز سے ماحول گھونج اٹھا۔ ہم سبھی ریستورانٹ کی کرسیوں اور ٹیبلوں کی آڑ لے کر چھپنے لگے۔ پارک میں کئی خواتین اور بچوں کی لاشیں خون میں لت پت ہورہی تھیں۔
سجادنے گاڑی روکی اور مجھے اشارے سے بلایا۔ میں اس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گیا ۔ ابھی ہم سودوسوگزہی آگے چلے گئے کہ پیچھے بم پھٹا۔ چاروں اور دھول ہی دھول اڑ رہی تھی۔
مانو پچھلے بیس برسوں سے زندگی اور موت آپس میں آنکھ مچولی کھیل رہے ہیں۔ کبھی زندگی آگے، موت پیچھے ،کبھی موت آگے اور زندگی پیچھے۔
حسب معمول آج میں پھرگھر کی گلی سے مین روڑ کی طرف جارہاتھا ۔۔۔ اور ۔۔۔ موت گلی کی نکڑ پر پوزیشن سنبھالے کھڑی تھی ۔۔۔
سید تحسین گیلانی اور مصنف کے شکریہ کے ساتھ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.