سمندر، ڈالفن اورآکٹوپس
’’یوپی، ناگن چورنگی، حیدری ، ناظم آباد ، بندر روڈ۔۔۔ کرن ۔۔۔‘‘
کنڈیکٹر کی تکرار سن کر اچانک وہ اپنے خیالات سے باہر نکل آیا۔
’’کرن ؟ کیا اس کی منزل آگئی۔۔‘‘ اس نے سیٹ پر سیدھا ہوتے ہوئے باہر جھانکا۔۔۔
’’بندر روڈ سے اگلا اسٹاپ بولٹن مارکیٹ کا ہی ہوتا ہے۔ سمندر تو ابھی کچھ دور ہے۔۔۔ مگر پھر میرے ذہن میں کرن کا نام کیوں آیا۔ کیا کنڈیکٹر نے صدا لگائی تھی؟۔۔ یابس یوں ہی۔۔۔‘‘
بس ابھی بھی بولٹن مارکیٹ پر ہی رکی ہوئی تھی۔۔۔ وہ دوبارہ سیٹ پر ڈھے گیا۔۔ پھر، ایک گہری سانس بھرتا ہوا۔۔۔گہری سوچوں میں گم ہو گیا۔۔۔
’’تم تو سمندر تھے۔‘‘
’’تم بھی تو اس سمندر کی واحد ڈالفن۔‘‘
’’تم سمندر نہ رہے۔‘‘
’’تم نے اور پانیوں کی تلاش کر لی۔اس سمندر کو چھوڑ کر۔ اور میں شاید بھول گیا تھاکہ سمندر کے اطراف آکٹوپس بھی تاک میں کھڑے ہیں۔‘‘
سیٹ یکایک ،ایک ہائی ٹیک سیٹ میں اور بس خلائی راکٹ تبدیل ہوچکی تھی اور بے پناہ رفتار سے کرہ ارض سے باہر نکل کر اب چاند کے پاس سے گزر رہی۔۔۔
’’چاند۔۔۔کرن۔۔۔ چاند۔۔۔‘‘
اس نے بے اختیارہو کر دروازہ کھولا اور باہر نکل کر اسے اپنی گرفت میں لینا چاہا۔۔۔مگر چاند اس کا ارادہ بھانپ چکا تھا۔ وہ کنی کاٹ گیا۔۔۔اورکچھ فاصلے پرجاکر طنزیہ انداز میں ہنسنے لگا۔۔۔اچانک خلا کی یخ بستہ تاریکی اس کے اندر سما گئی۔۔۔ وہ منجمد ہوگیا اور تیزی سے نیچے گرنے لگا۔۔۔
ٹاور۔۔ ٹاور
وہ چونک پڑا۔منزل تک لےجانے والا اسٹاپ یعنی سمندر اب سامنے ہی تھا ۔ وہ تیزی سے نیچے اتر گیا۔۔۔اسے نیچے اترتا دیکھ کر اس کے اور کرن کے درمیان حائل خون آشام آکٹوپس چاروں جانب سے اس کی سمت لپکنے لگے۔ اور اسے نگل گئے۔۔۔
سید تحسین گیلانی اور مصنف کے شکریہ کے ساتھ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.