آب حیات
آب حیات سے مراد پانی کا وہ چشمہ ہے جس کی نسبت یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کا پانی پی لینے سے حیات جاودانی حاصل ہو جاتی ہے۔ اساطیر میں حضرت خضرکی دائمی زندگی کا راز بھی یہی ملتا ہے کہ انہوں نے آب حیات پی کر دائمی زندگی حاصل کرلی تھی، وہ قیامت تک عام انسانوں کی نظروں سے پوشیدہ رہیں گےاوربھٹکے ہوئے لوگوں کی رہبری کرتے رہیں گے۔ یہ تلمیح اساطیری نوعیت کی ہے۔
آب حیات متعدد ناموں سے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ آب بقا، آب حیواں، آب خضر، آب زندگانی، چشمۂ زندگی، چشمۂ حیواں، زلال خضر، زلال بقا، زلال زندگانی، چسمۂ ظلمات۔ یہ سارے مرکبات مذکورہ اساطیری واقعے کا تلمیحی اشارہ ہیں۔ ان تلمیحی اشاروں کو مندرجہ ذیل اشعار میں استعمال کیا گیا ہے۔
حسن کے خضر نے کیا لبریز
آب حیواں سے جام تجھ لب کا
ولی دکنی
عشق میں خون جگر کھانے کی گرلذت نہ تھی
خضر نے حیراں ہوں،آب زندگانی کیوں پیا
مرزا غالب
ہزار آب حیات چھڑکیں مسیح اور خضر مل کے لیکن
اٹھے نہ محشر تلک بھی پیارے شہید تیرے لب ودہاں کا
سودا
کہانیاں ہیں حکایات خضر وآب بقا
بقا کا ذکر ہی کیا اس جہاں فانی میں
ذوق
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.