باغ ارم / بہشت شداد
حضرت داؤد کے عہد نبوت میں شداد ایک جابرو ظالم بادشاہ تھا۔ حضرت داؤد نے اسے ایک خدا کی عبادت کی طرف بلایا اوراس تک خدا کا پیغام پہنچایا لیکن اس کی ہٹ دھرمی کی انتہا یہ ہوئی کہ اس نے نہ صرف یہ کہ حضرت داؤد کی نبوت اورخدا کی یکتائی کا انکارکیا بلکہ اپنے خدا ہونے کا دعوی بھی کر دیا۔ اپنی خدائی کے ثبوت کے طور پراس نے زمین پرایک جنت بنوائی۔ شداد کی بنوائی ہوئی اس ارضی جنت میں وہ ساری آسائشیں، سہولتیں اور تکلفات موجود تھے جو اس نے حضرت داؤد سے خدا کی جنت کے بارے میں سن رکھے تھے یا جواس کے حاشیۂ خیال میں آسکتے تھے۔
جب یہ جنت بن کرتیارہو گئی توشداد اسے دیکھنے کیلئے نکلا، ابھی وہ جنت تک پہنچ بھی نہ سکا تھا کہ راستے میں ہی اس کی روح قبض کر لی گئی، اس طرح شداد اپنی بنائی ہوئی جنت کے دیکھنے سے ہی محروم رہ گیا۔
شداد کا سلسلۂ نسب شداد بن عاد بن عوص بن ارم بن سام بن نوح بتایا گیا ہے ۔
تلمیحی نقطۂ نظرسے باغ شداد یا باغ ارم کا اطلاق صاف ستھرے، خوب صورت اور کاریگری میں بے مثال ایسے محلات اور باغات پربھی ہوتا ہے جس میں انسانی تخیل میں آنے والی تمام، آسائشیں اور تکلفات موجود ہوں۔ ان تلمیحات کا استعمال ان اشعار میں دیکھیے۔
ترے مکھ کے گلستاں کی اگر حوراں میں شہرت ہو
تو ہر یک مست ہو کر چھوڑ گلزار ارم نکلے
ولی دکنی
پانو جنت میں نہ رکھا تھا کہ نکلی تن سے روح
بے کسی نے رو دیا منہ دیکھ کر شداد کا
نامعلوم
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.