Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

Filter : Date

Section:

پسندیدہ ویڈیو
This video is playing from YouTube

میر تقی میر

CELEBRATING 300 YEARS OF MEER

ویڈیو شیئر کیجیے

آج کے منتخب ۵ شعر

آج کا لفظ

سہل

  • sahl
  • सहल

معنی

آسان،

ہم نہ کہتے تھے کہ نقش اس کا نہیں نقاش سہل

چاند سارا لگ گیا تب نیم رخ صورت ہوئی

تشریح

کیا بلا کا شعر ہے۔ کیا تیور ہے۔ کیا لہجہ ہے۔

اے نقاش، اے تصویر بنانے والے، اے مورت بنانے والے، ہم نہ کہتے تھے تجھ سے کہ اس کی تصویر بنانی آسان نہیں ہے، اب دیکھ لے چاند سارا لگ گیا ہے اور ابھی صرف آدھا ہی چہرہ بنا ہے۔

زبان اور لہجے کا لطف لے لیا ہو تو آگے بڑھتے ہیں۔

فاروقی صاحب فرماتے ہیں کہ محبوب کو چاند کا ٹکڑا کہا جاتا ہے، لیکن یہاں یہ معاملہ ہے کہ اس کا نقش بنانے میں چاند کا ہر ٹکڑا لگ چکا ہے لیکن ابھی بھی صرف آدھی ہی صورت بن پائی ہے۔

یہ ہے میر کی میریات۔ اگر اُپما یا تشبیہ کے نظام کی بات کریں تو کسی بھی چیز کو جب کسی اور چیز سے اُپما یا تشبیہ دی جاتی ہے تو جس چیز سے اُپما دی جا رہی ہے اس کے اندر وجہ تشبیہ کی زیادتی ہونا ضروری ہے۔ مثلاً فلاں آدمی شیر سے بہادر ہے، فلاں شخص گُل سا نازک ہے۔ یہاں گُل کو ہمارے ذہن، ہمارے subconscious پہلے سے ہی زیادہ نازک مانے ہوئے ہے یا شیر کو زیادہ بہادر مانے ہوئے ہے۔ میر نے اپنے محبوب کے آگے چاند کو ایسا کمتر بنا کے پیش کیا ہے کہ ارے تم لوگ کیا چاند چاند کرتے پھرتے ہو سارا چاند لگ گیا تب بھی میرے محبوب کا آدھا چہرہ ہی بن پایا۔ اور اصل چہرہ بھی نہیں، بلکہ چہرے کی صرف تصویر۔ اصل چہرے کی تو بات ہی چھوڑ دو۔ چاند سارا لگ گیا تب نیم رخ صورت ہوئی۔

ایک مصرعے نے تشبیہات کا نظام کس ہنرمندی سے الٹ کے رکھ دیا۔

اور پھر زبان، جیسے نقاش کی بے بسی پر طنز میں ہنسا جا رہا ہو ۔ مانو کہہ رہے ہوں، کیوں بھئی، ہو گئی تسلی، بڑا آیا تھا اس کا نقش بنانے والا، ہم نہ کہتے تھے کہ اس کا نقش بنانا آسان کام نہیں ہے۔

دوسرے مصرعے کی زبان دیکھئے، چاند سارا لگ گیا، جیسے کوئی کہہ رہا ہو کہ اتنی رقم لگ گئی، ساری پونجی لگ گئی، تب بھی کامیابی نہ ملی۔

پڑھتے جائیے اس شعر کو اور تہہ داری پہ عش عش کرتے رہیئے، ساتھ ہی اس مکالماتی لہجے اور روزمرہ کی زبان کے مزے لیتے رہیئے۔

اجمل صدیقی

تشریح

کیا بلا کا شعر ہے۔ کیا تیور ہے۔ کیا لہجہ ہے۔

اے نقاش، اے تصویر بنانے والے، اے مورت بنانے والے، ہم نہ کہتے تھے تجھ سے کہ اس کی تصویر بنانی آسان نہیں ہے، اب دیکھ لے چاند سارا لگ گیا ہے اور ابھی صرف آدھا ہی چہرہ بنا ہے۔

زبان اور لہجے کا لطف لے لیا ہو تو آگے بڑھتے ہیں۔

فاروقی صاحب فرماتے ہیں کہ محبوب کو چاند کا ٹکڑا کہا جاتا ہے، لیکن یہاں یہ معاملہ ہے کہ اس کا نقش بنانے میں چاند کا ہر ٹکڑا لگ چکا ہے لیکن ابھی بھی صرف آدھی ہی صورت بن پائی ہے۔

یہ ہے میر کی میریات۔ اگر اُپما یا تشبیہ کے نظام کی بات کریں تو کسی بھی چیز کو جب کسی اور چیز سے اُپما یا تشبیہ دی جاتی ہے تو جس چیز سے اُپما دی جا رہی ہے اس کے اندر وجہ تشبیہ کی زیادتی ہونا ضروری ہے۔ مثلاً فلاں آدمی شیر سے بہادر ہے، فلاں شخص گُل سا نازک ہے۔ یہاں گُل کو ہمارے ذہن، ہمارے subconscious پہلے سے ہی زیادہ نازک مانے ہوئے ہے یا شیر کو زیادہ بہادر مانے ہوئے ہے۔ میر نے اپنے محبوب کے آگے چاند کو ایسا کمتر بنا کے پیش کیا ہے کہ ارے تم لوگ کیا چاند چاند کرتے پھرتے ہو سارا چاند لگ گیا تب بھی میرے محبوب کا آدھا چہرہ ہی بن پایا۔ اور اصل چہرہ بھی نہیں، بلکہ چہرے کی صرف تصویر۔ اصل چہرے کی تو بات ہی چھوڑ دو۔ چاند سارا لگ گیا تب نیم رخ صورت ہوئی۔

ایک مصرعے نے تشبیہات کا نظام کس ہنرمندی سے الٹ کے رکھ دیا۔

اور پھر زبان، جیسے نقاش کی بے بسی پر طنز میں ہنسا جا رہا ہو ۔ مانو کہہ رہے ہوں، کیوں بھئی، ہو گئی تسلی، بڑا آیا تھا اس کا نقش بنانے والا، ہم نہ کہتے تھے کہ اس کا نقش بنانا آسان کام نہیں ہے۔

دوسرے مصرعے کی زبان دیکھئے، چاند سارا لگ گیا، جیسے کوئی کہہ رہا ہو کہ اتنی رقم لگ گئی، ساری پونجی لگ گئی، تب بھی کامیابی نہ ملی۔

پڑھتے جائیے اس شعر کو اور تہہ داری پہ عش عش کرتے رہیئے، ساتھ ہی اس مکالماتی لہجے اور روزمرہ کی زبان کے مزے لیتے رہیئے۔

اجمل صدیقی

لفظ شیئر کیجیے

کیا آپ کو معلوم ہے؟

نستعلیق وہ خوبصورت رسم الخط ہے جس میں اردو لکھی جاتی ہے، جو چودھویں اور پندرہویں صدی میں ایران میں بنایا گیا تھا۔ ’نسخ‘ وہ رسم الخط ہے، جس میں عام طور پر عربی لکھی جاتی ہے۔ اور ’تعلیق‘ ایک فارسی رسم الخط ہے۔ دونوں مل کے ’نستعلیق‘ بن گئے۔ اردو میں باسلیقہ اور مہذب لوگوں کو بھی ’نستعلیق‘ کہا جاتا ہے۔ یعنی بہت نفیس اور صاف طبیعت کا مالک۔

کیا آپ کو معلوم ہے؟

سارا

سارہ شگفتہ ایک جدید پاکستانی شاعرہ تھیں۔ تقسیم ہند کے دوران ان کا کنبہ پنجاب سے کراچی ہجرت کر گیا۔ ان کی زندگی جدوجہد سے بھری ہوئی تھی۔ ایک غریب اور ان پڑھ خاندان سے تعلق رکھنے والی سارہ شگفتہ تعلیم کے ذریعہ معاشرتی طور پر ایک مقام حاصل کرنا چاہتی تھیں، لیکن وہ میٹرک پاس نہ کر سکیں۔ ان کی شادی 17 سال کی عمر میں ہی کر دی گئی۔ اس کے بعد تین ناکام شادیاں مزید ہوئیں۔ وہ اپنے نوزائیدہ بیٹے کی موت اور اپنے شوہروں کی بے حسی پر سخت رنجیدہ تھیں۔ ان کے شوہروں اور معاشرے کے  برے سلوک نے انہیں نظمیں کہنے کی ترغیب دی اور وہ غیر معمولی جوش کے ساتھ لکھتی رہیں۔ لیکن وقت کے ساتھ  ذہنی بیماری سے دوچار ہوئیں  جسکی وجہ سے مینٹل اسپتال میں بھی داخل ہونا پڑا۔ خودکشی کی چند ناکام کوششوں کے بعد، سارہ نے بالآخر محض 29 برسی کی عمر میں خودکشی کرلی۔ ان کی شخصیت اور شاعری کو بنیاد بنا کر .امریتا پریتم نے ''ایک تھی سارہ'' کے نام سے کتاب لکھی۔

کیا آپ کو معلوم ہے؟

امیر

اردو کی پہلی قابل ذکر مثال صوفی، شاعر ماہر موسیقی حضرت امیر خسرو کی ہے ۔ اردو کی پہلی غزل بھی انہیں سے منسوب ہے ۔ امیر خسرو نے مختلف اصناف غزل ، پہیلیاں ، گیت وغیرہ میں طبع آزمائی  کی۔ آپ خواجہ حضرت نظام الدین کے مرید تھے اور بادشاہ وقت سے بھی رسم و راہ رکھتے تھے ۔ ان کی قبر بھی حضرت نظام الدین کے بغل میں ہے۔

کیا آپ کو معلوم ہے؟

اردو میں ملاح مانجھی یا جہاز چلانے والے کو کہتے ہیں۔ اس لفظ کا تعلق عربی  زبان کے لفظ 'ملح' یعنی نمک سے ہے۔ چونکہ سمندر کا پانی کھارا ہوتا ہے، پہلے تو سمندر سے نمک بنانے والوں کو 'ملاح' کہا گیا۔ پھر سمندر میں جانے والوں کو ملاح کہا جانے لگا۔ اب تو میٹھے پانی کی جھیل میں کشتی چلانے والے کو بھی ملاح ہی کہتے ہیں۔ لفظ 'ملاحت' بھی اردو ادب میں جانا پہچانا ہے۔ اس کا رشتہ بھی 'ملح' یعنی نمک سے ہے۔ یعنی سانولا پن، خوبصورتی۔ بہت سے اشعار میں اسے مختلف انداز سے برتا گیا ہے۔
کشتی اور پانی کے سفر سے متعلق ایک اور لفظ اردو شاعری میں بہت ملتا ہے۔ 'نا خدا' جو ناوؑ اور خدا سے مل کر بنا ہے، اور فارسی سے آیا ہے۔ یعنی کشتی کا مالک یا سردار۔
تمہیں تو ہو جسے کہتی ہے ناخدا دنیا 
بچا سکو تو بچا لو کہ ڈوبتا ہوں میں 
آسرار الحق مجاز

کیا آپ کو معلوم ہے؟

میر

میر تقی میر کے بارے میں عام تصور ہے کہ وہ دل شکستہ، دنیا سے بیزار انسان تھے جو درد و الم میں ڈوبے اشعار ہی کہتے تھے۔ لیکن دنیا کی دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ میر کو جانوروں سے بھی گہری دلچسپی تھی، جو ان کی مثنویوں اور خود نوشتی گھریلو نظموں میں بہت خلاقانہ انداز سے نظر آتی ہے۔ دوسرے شعرا نے بھی جانوروں کے بارے میں لکھا ہے، لیکن میر کے اشعار میں جب  جانور زندگی کا حصہ بن کر آتے ہیں تو ان میں انسانی صفات اور خصوصیات کا بھی رنگ آ جاتا ہے۔ میر کی  مثنوی 'موہنی بلی' کی بلی بھی ایک کردار ہی معلوم ہوتی ہے۔ 'کپی کا بچہ' میں بندر کا بچہ بھی کافی حد تک انسان نظر آتا ہے۔ مثنوی 'مور نامہ' ایک رانی اور ایک مور کے عشق کی المیہ داستان ہے، جس میں دونوں آخر میں جل مرتے ہیں۔ اس کے علاوہ  مرغ، بکری وغیرہ پر بھی ان کی مثنویاں ہیں۔
ان کی  مشہور مثنوی 'اژدر نامہ' جانوروں کے نام، ان کی عادات اور خصوصیات کے ذکر سے پُر ہے۔ اس میں مرکزی کردار اژدہے کے علاوہ  30 جانوروں کے نام شامل ہیں۔ محمد حسین آزاد نے لکھا ہے کہ میر نے اس میں خود کو اژدہا کہا اور دوسرے تمام  شعرا کو حشرات الارض مانا ہے۔ حالانکہ اس میں کسی کا نام نہیں لیا گیا ہے۔

آج کی پیش کش

سماجی حقیقتوں کو بے نقاب کرنے والے مقبول عام شاعر

اب کیا بتائیں ٹوٹے ہیں کتنے کہاں سے ہم

خود کو سمیٹتے ہیں یہاں سے وہاں سے ہم

پوری غزل دیکھیں

راجیش ریڈی کے بارے میں شیئر کریں

ای-کتابیں

مغل تہذیب

محبوب اللہ مجیب 

1965

اودھوت کا ترانہ

 

1958 نظم

اقبال دلہن

بشیر الدین احمد دہلوی 

1908 اخلاقی کہانی

کلیات انور شعور

انور شعور 

2015 کلیات

شمارہ نمبر۔002

محمد حسن 

1970 عصری ادب

ای-کتابیں
بولیے