ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ خدا کی کسی بھی مخلوق کی طرح انا بھی بیکار نہیں۔ اس کا ایک اپنا مقام، حیثیت اور مقصد ہے۔ ہم شخصیت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ کیوں کہ عمل ہی نہیں کر سکتے۔ انا شخصیت بناتی ہے۔ وہ ارادہ کو متحرک کرتی ہے۔ اور جبلّتوں کی گاڑی کو گھوڑے کی طرح کھینچتی ہے۔ صرف جبلّتیں جو سفر برسوں میں طے کریں، انا انہیں لمحوں میں طے کراتی ہے۔ چنانچہ انا کا ہونا اسی طرح فطری اور لازمی ہے جس طرح غیر انا کا۔ در اصل انا اس وقت قابل اعتراض، مضر اور مہلک ہوتی ہے، جب وہ اپنی حدود سے تجاوز کرتی ہے۔ جب وہ غیر انا کی نیابت چھوڑ دیتی ہے اور خود تحت نشین ہو جاتی ہے۔ غیر انا کی حکومت پر اس کا یہ قبضہ مخالفانہ اس کو باغی تاغی بنا دیتا ہے۔ اور پھر اس کا یہ انجام ضروری ہو جاتا ہے۔ جو ایسے باغی غلاموں کے لیے مقرر ہے۔
انا شخصیت کی معمار ہے۔ اچھا معمار اچھا گارا چونا استعمال کرتا ہے۔ اچھی شخصیت وہ ہے جو مثبت ہو، متوازن ہو، صحتمند ہو، اس کے لیے ضروری ہے کہ شخصیت میں تین چیزوں کا توازن ہو۔
(۱) انا
(۲) خارجی حقیقت
(۳) داخلی حقیقت
شخصیت میں جب تینوں کے لیے جگہ نکلتی ہے تو وہ مثبت، متوازن اور بھرپور ہوتی ہے۔ میرؔ کی شخصیت ایسی ہے۔ غالبؔ کی شخصیت ایسی نہیں۔ اس کی انا بے لگام گھوڑے کی طرح ہے، جو ایک طرف جبلّتوں کی گاڑی کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے یعنی داخلی حقیقت سے کٹ جاتا ہے۔ دوسری طرف خود دنیا سے ٹکرا جاتا ہے۔ یعنی خارجی حقیقت سے ہم آہنگی نہیں پیدا کر سکتا۔ اس دو طرفہ ٹکراؤ سے شخصیت منفی، غیر متوازن اور مریض ہو جاتی ہے۔ غالبؔ کی شخصیت میں یہ سب عناصر موجود ہیں۔ غالبؔ ہی میں نہیں، ہم سب میں۔ غالبؔ کے اس گلشن ناآفریدہ کے ہر شخص میں جو ہمارا عہد ہے۔ البتہ غالبؔ میں اور دوسروں میں ایک فرق ہے۔ دوسرے حقیقت کو کسی حالت میں بھی نہیں دیکھتے، غالبؔ دیکھتا ہے۔ میں نے غلط کہا۔ غالبؔ نہیں دیکھتا، نہیں دیکھنا چاہتا مگر وہ ’’دیدہ ور‘‘ ہے۔ حقیقت اس دیدہ وری کی قدر کرتی ہے۔ اور اپنا جلوہ غالبؔ کو دکھا دیتی ہے۔ خواہ غالبؔ کی انا پر کتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔ غالبؔ کی چشم تماشا غالبؔ کا انتخاب نہیں، غالبؔ کی مجبوری ہے۔ غالبؔ اجب اس چشم تماشا کو انا کے آلۂ کار کی حیثیت سے استعمال کرتا ہے، تو ایسے اشعار پیدا ہوتے ہیں جیسے میرے آگے والی غزل۔ غزل کیا ہے، انا کا منشور ہے، یہ غالبؔ نہیں لکھ رہا، انا لکھ رہی ہے۔ یہ غالبؔ نہیں بول رہا ہے، انا بول رہی ہے۔ مگر انا کے اس منشور میں بھی حقیقت گھس آتی ہے اور چپکے سے کہتی ہے،
گو ہاتھوں میں جنبش نہیں، آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے
پوری غزل میں یہ شعر دیکھیے۔ یہی ایک زندہ شعر ہے۔ اس کے پیچھے انا نہیں حقیقت ہے۔ غیر انا ہے۔ جہاں انا تخت حکومت پر نبکار رہی ہے، وہاں غیر انا جو اصل حاکم ہے اور انا کے قبضۂ غاصبانہ کے بعد شاید تخت کے پائے کے نیچے دبی پڑی ہے، چپکے سے کراہتی ہے۔ یہ کراہ شعر بن گئی ہے۔ غالبؔ کی شاعری میں حقیقت اسی طرح چپکے سے در آتی ہے، کبھی چپکے سے، کبھی فاتحانہ انداز میں، جب فاتحانہ انداز میں آتی ہے تو غالبؔ پر سوار ہو جاتی ہے اور ان کے گھوڑے کو سچ مچ گھوڑا بنا لیتی ہے۔ وہ لاکھ ہنہنائے، لاکھ دو لتیاں جھاڑے، لاکھ اگلی ٹانگوں پر کھڑا ہو، حقیقت چابک دست شہسوار کی طرح اس کی پیٹھ پر سوار ہو جاتی ہے اور ایڑیں مار مار کر اور راتوں میں مسل مسل کر چیں بلوا دیتی ہے۔ غالبؔ کی انا منشور بناتی ہے۔ ’’حاصل نہ کیجیے دہر سے عبرت ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ حقیقت کان پکڑ لیتی ہے اور کہتی ہے، ’’مارا زمانے اسد اللہ خاں تمہیں۔‘‘ غالبؔ کی انا کہتی ہے، اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو۔ حقیقت گدی پکڑ کر اگلواتی ہے۔
’’غالبِ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں’’
غالبؔ یہ اعترافات خود نہیں کرتا، غالبؔ کا فنکار کرتا ہے، فنکار ہمیشہ غیر انا کا آلۂ کار ہوتا ہے، وہ تو حقیقت کا اسٹینو ٹائپسٹ ہے۔ غالبؔ لاکھ انانیت بگھارے، حقیقت اور انا کے تصادم میں انا کی کیفیت کو لاکھ چھپانا چاہے۔ فنکار، غیر انا جو کچھ ڈکٹیٹ کراتی ہے، لکھتا جاتا ہے۔ حقیقت جو کچھ بتاتی رہتی ہے، سب کی رپورٹیں دیتا رہتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ غالبؔ غیر انا کے سامنے حقیقت کے سامنے کیسے چیں بول گیا ہے۔
میں نے میرزا یگانہ کے بارے میں لکھتا تھا کہ وہ غالبؔ سے اپنی مخالفانہ کی جو وجہ چاہے، بتائیں مگر اصل وجہ یہ ہے کہ وہ اردو شاعری کے واحد غالبی ہیں۔ لاگ ڈانٹ کی وجہ یہ ہے کہ انہیں خود اپنے اندر غالبؔ نظر آتا ہے جو ان کا راستہ روکے ہوئے ہے۔ دونوں انا کے پتلے ہیں۔ ہم دونوں میں یہ مطالعہ کرتے ہیں کہ معاشرے میں، دوسرے انسانوں کے درمیان، حقیقت سے مقابلے میں انا پر کیا گزری۔ جہاں تک انانیت کے مظاہرہ کا تعلق ہے، یگانہؔ، غالبؔ کے دوش بدوش چلتے رہتے ہیں بلکہ عملی زندگی میں غالب سے بھی آگے قدم مارتے ہیں مگر ان کا فنکار غالبؔ سے چھوٹا ہے۔ جب انا شکست کھاتی ہے تو غالبؔ کا فنکار سچ بول دیتا ہے۔ یگانہؔ کا فنکار چھپا جاتا ہے۔ اس لیے یگانہؔ غالبؔ کے برابر نہیں پہنچ سکے گو عملی زندگی کے تیور کچھ اور بتاتے تھے۔
غالبؔ انا کی تعمیر میں بھی یگانہ سے آگے جاتا ہے اور شکست میں بھی یگانہؔ کہتے ہیں کہ برا ہو پائے سرکش کا کہ تھک جانا نہیں آتا۔ مگر وہ تھک جاتے ہیں، غالبؔ کہتا ہے،
ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہیں سنگِ گراں اور
اور بڑھتا جاتا ہے۔ اصل میں فنکار غالبؔ کی راہ میں سب سے بڑا سنگِ گراں خود غالبؔ تھا۔ غالبؔ کی انا تھی۔ یہ بڑا پتھر ہٹا تو فنکار غالبؔ کو دنیا کچھ اور نظر آنے لگی۔ ابتدائی منزل پر غالبؔ کو حقیقت نظر نہیں آئی۔ صرف حقیقت کی صورت نظر آئی۔ مگر اس صورت کا جلوہ ہی ایسا مدہوش کن تھا کہ غالبؔ چیخ اٹھا،
گر بہ معنی نہ رسی جلوۂ صورت چہ کم است
اُردو میں اس بات کو یوں کہا ہے،
نہیں گر سرو برگ ادراک معنی
تماشائے نیرنگِ صورت سلامت
فنکار غالبؔ انا کی قید سے آزاد ہوا تو سہی مگر ابتدا میں گرفتاری کے خوگر پاؤں چلنے میں لڑکھڑاتے رہے۔ جیسے اچانک کوئی تیز روشنی میں آ جائے، اس کی آنکھیں چندھیائی سی رہیں۔ حقیقت کا منظر صاف نظر نہیں آتا۔ ایک شعر دیکھیے،
لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی
چمن زنگار ہے آئینۂ بادِ بہاری کا
حقیقت اس کے اُلٹ ہے۔ کثافت لطافت کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی، نہ کہ لطافت۔ لیونارڈو ڈا ونچی نے بھی ایک ایسے ہی خیال کا اظہار کیا ہے۔ اس نے کہا سچ جھوٹ کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جھوٹ سچ کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔ جھوٹ کو قائم ہونے کے لیے سچ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ سچ سے مشابہت پیدا کرنی پڑتی ہے۔ تھوڑا سا سچ بھی شامل کرنا پڑتا ہے، مگر ونچیؔ الٹا دیکھتا ہے۔ در اصل پوری روحِ جدیدیت الٹا دیکھنے کا نام ہے۔ غالبؔ بھی اس روح کا مظہر ہے، وہ یہ نہیں سمجھتا کہ کثافت تو در اصل لطافت کا جسم ظہور ہے۔ خود لطافت نے اپنے اظہار کے لیے یہ روپ اختیار کیا ہے۔ ایسا نہیں کہ کثافت کچھ اور ہے اور طافت کو سہارا دیے ہوئے ہے۔ مگر یہ تعین غالبؔ کے ذہن میں موجود ہے، وہ اس تعین سے اوپر نہیں اٹھ سکتا۔ اس کی نظر کثافت میں الجھی ہوئی تھی۔ وہاں سے آگے بڑھتی ہے تو لطافت کو بھی کثافت میں اسیر دیکھتی ہے۔ غالبؔ کی نظر ایسی نہ ہوتی تو وہ دونوں تعینات کا پردہ چاک کر دیتی اور دیکھتی کہ حقیقت واحد ہی ہے کہ دونوں تعینات میں جلوہ گر ہے، اس الٹا دیکھنے کی وجہ بہت نازک ہے، شاید بیان نہیں کر سکوں گا، کوشش کرتا ہوں۔ کائنات ایک الٹا درخت ہے، اس کی جڑیں اوپر ہیں اور شاخیں نیچے۔ یہ اس کی اصل حالت ہے۔ مگر ہماری آنکھوں کو اس کی جڑیں نیچے نظر آتی ہیں اور شاخیں اوپر۔ اس کو صحیح طور پر دیکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ جو کچھ ہم دیکھتے ہیں اس کو الٹا دیکھیں۔ عسکری صاحب نے لکھا ہے کہ حقیقت کو دیکھنے کا صرف ایک طریقہ ہے۔ آدمی سر کے بل کھڑا ہو جائے۔ اس بظاہر چھوٹے سے فقرے کے پیچھے در اصل یہی بڑی حقیقت پوشیدہ ہے۔ دنیا کی ساری تہذیبیں کائنات کو اس طرح دیکھتی تھیں، کہتی تھیں کہ آسمان اصل ہے، آخرت اصل ہے، دوسری دنیا اصل ہے۔ افلاطون جب کہتا ہے کہ اعیان نامشہود ہیں، دنیا تو ان کی نقل ہے تو وہ بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ روحِ جدیدیت کہتی ہے، یہ سب غلط نظریے ہیں۔ آسمان نہیں زمین اصل ہے۔ آخرت نہیں دنیا اصل ہے۔ دوسری دنیا نہیں یہی دنیا اصل ہے۔ اس کے بے شمار شاخسانے ہیں مگر بنیادی بات یہی ہے۔ روح جدیدیت دیکھنا بھول گئی ہے۔ اس لیے لیونارڈو ڈا ونچی کو جھوٹ اصلی نظر آتا ہے۔ غالبؔ کو کثافت، نطشے کو زمین، ڈاروِن کو جبلّت، فرائیڈ کو جنس۔ پہلے سماوی، علوی انسان اہم تھا، روحانی انسان اہم تھا، اب زمینی، سفلی انسان اہم ہے، جسمانی انسان اہم ہے بلکہ انسان ہی کیوں کہیے، انسان نہیں حیوان، خیر، یہ ایک لمبی بحث ہے۔ کسی اور جگہ تفصیل سے بات کریں گے۔ غالبؔ کی نظر چونکہ کثافت سے خود آلودہ ہے، اس لیے کثافت کو اصل دیکھ رہا ہے۔ مگر ساتھ ہی انا سے آزاد ہونے کا فیض بھی پہنچتا ہے اور تصوف کی روایت کا بھی اس لیے ’’جلوہ پیدا کر نہیں سکتی‘‘ کا ٹکڑا آ گیا ہے۔ مراد یہ ہے کہ لطافت ہی اصل ہے۔ مگر ظہور کے لیے اسے کثافت کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ یہ پہلی نظر میں تھوڑی سی تصحیح ہو گئی ہے۔ نظر جوں جوں حقیقت آشنا ہوتی جاتی ہے۔ غالبؔ بہتر طور پر دیکھنے لگتا ہے۔
منہ نہ کھلنے پر وہ عالم ہے کہ دیکھا ہی نہیں
زلف سے بڑھ کر نقاب اس شوخ کے رُخ پر کھلا
غالبؔ ابھی حقیقت کے جلوے تک نہیں پہنچا۔ صرف نقاب کو دیکھ رہا ہے۔ مگر نقاب کا بھی کیا عالم ہے کہ مسحور کیے دے رہی ہے۔ یہ انا سے آزادی کا انعام ہے۔ اردو شاعری میں غالبؔ اس سے آگے نہیں جاتا۔ مگر فارسی شاعری کے کچھ حصے اور خطوط دیکھیے تو آگے کی کئی منزلیں کھلتی ہیں۔ وہ میرے موضوع سے باہر ہیں۔ کیوں کہ میں اردو شاعری کی بات کر رہا ہوں، صرف اشارتاً اتنا کہہ دوں کہ غالبؔ نے جو یہ کہا ہے کہ ’’آئینہ زدودن و صورتِ معنی نمودن نیز کارِ نمایاں است۔‘‘ یہ در اصل غالبؔ کا خیال نہیں، ایک روایتی خیال ہے۔ غالبؔ نے روایت سے لیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دل کو آئینے کی طرح چمکاؤ۔ حقیقت خود اس میں منعکس ہو جائے گی، مگر دل اور ہے اور دماغ اور۔ ہم کہتے ہیں، دماغ عقل کا مرکز ہے۔ روایتی تہذیبیں کہتی ہیں کہ قلب عقل کا مرکز ہے۔ حدیثِ رسولﷺ ہے، العقل فی القلب۔ یونانی بھی یہی کہتے ہیں، قلب عقل کا مرکز ہے اور دماغ حیات کا۔ حقیقت پہلے حسیات اور دماغ پر وارد ہوتی ہے، یہ اس کا پہلا آئینہ ہے، اس میں حقیقت الٹی دکھائی دیتی ہے۔ حقیقت کا دوسرا آئینہ قلب ہے، قلب کا آئینہ دماغ کے آئینے کے مقابلے ہے۔ حقیقت کا پہلا عکس دماغ میں ہوتا ہے، پھر وہاں سے قلب میں منعکس ہوتا ہے۔ اب دماغ میں جو عکس الٹا پڑا تھا، وہ قلب میں پھر سیدھا ہو جاتا ہے۔ قلب میں جو عکس پڑتا ہے، وہی حقیقت کے مطابق ہوتا ہے۔ دماغ کا عکس الٹا ہے۔ جدیدیت چونکہ دماغ کی عقل کو اصل سمجھتی ہے، اس لیے الٹے عکس ہی کو حقیقت کے مطابق قرار دیتی ہے۔ بہرحال غالبؔ جس آئینے کو چمکانا چاہتا ہے، وہ قلب کا آئینہ ہے۔ اس آئینے میں حقیقت جھلک جائے گی۔ افسوس کہ غالبؔ کا یہ منشور شاعری و دیدہ وری اردو شاعری میں پورا نہ ہو سکا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.