Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آشوب آگہی

سلیم احمد

آشوب آگہی

سلیم احمد

MORE BYسلیم احمد

    غالبؔ آشوب آگہی کا شاعر ہے، غالبؔ تفکر کرتا ہے، غالبؔ دیدۂ بینا رکھتا ہے۔ یہ اور اس قسم کے بے شمار فقرے ہم روز پڑھتے ہیں، بولتے اور لکھتے ہیں۔ ایک روز جب مولانا محمد ایوب دہلوی مرحوم نے مجھ سے کہا کہ مجھے باون برس غور کرتے ہو گئے ہیں اور آج تک یہ نہ معلوم ہوا کہ غور کسے کہتے ہیں تو مجھے شرم سی آ گئی۔ میں نے نہ غور کیا تھا، نہ غور پر غور۔ اور اس کے ساتھ ہی ایسے نہ جانے کتنے فقرے میرے ذہن میں گونجنے لگے۔ اور میں یہ سوچنے لگا کہ ان کا کیا مطلب ہے؟

    آشوب آگہی کا مطلب اگر آشوب مطالعہ ہے تو شاید غالبؔ اس میں بہت زیادہ آگے نہ جا سکے۔ اس کے زمانے میں علم کے ایسے ایسے پہاڑ موجود تھے جن کے آگے غالبؔ کی حیثیت طفلِ مکتب سے زیادہ نہیں تھی۔ غالبؔ کوئی مستند دستار بند اور سند یافتہ عالم فاضل نہیں تھے۔ طبیعت بھی ایسی نہیں پائی تھی کہ کتابوں کا کیڑا بن جاتا۔ فسق و فجور اور عیش و عشرت سے اتنی فرصت بھی نہیں تھی اور یہ سب کچھ ہوتا بھی تو غالبؔ کو جس قسم کے علم کی ضرورت تھی، وہ اس زمانے میں موجود نہیں تھا۔ یعنی غالبؔ کی روح جدید ہے تو اس کا نصاب تعلیم بھی جدید ہونا چاہیے تھا۔ ان دنوں ایسا ہونا ناممکن تھا۔ ہمارے عزیزوں میں ایک صاحب سائنس کے طالب علم تھے۔ غالبؔ کا نام سن سن کر کچھ مرعوب ہو گئے تھے۔ جب ایک روز انہیں معلوم ہوا کہ غالبؔ پی ایچ ڈی نہیں تھا اور انگریزی بھی نہیں جانتا تھا تو بہت مایوس ہوئے اور اس کے بعد غالبؔ کا نام لینا چھوڑ دیا۔ غالبؔ پی ایچ ڈی نہیں تھے، اقبالؔ پی ایچ ڈی تھے۔ مگر دونوں کی بنیادی آگہی میں بہت بڑا فرق ہے۔ پھر آشوب آگہی اور دیدۂ بینا کا کیا مطلب ہے؟ اس کے ساتھ ہی ایک سوال یہ بھی ہے کہ علم کا سرچشمہ کہاں ہے۔ انسان آشوب آگہی اور دیدۂ بینا حاصل کرتا ہے تو کس طرح۔ یہ کیا بات ہے کہ غالبؔ، نواب مصطفی خاں شیفتہؔ کو شاہ ولی اللہ کے رسالے کے وہ نکات بتا دے جو شیفتہؔ جیسے آدمی کی سمجھ میں نہ آتے ہوں اور اس خوبی سے کہ خود شاہ صاحب نہ بتا سکتے۔ اور ریل کو دیکھ کر وہ باتیں سمجھ جائے تو رضا علی وحشتؔ کی سمجھ میں ساری زندگی نہیں آئیں۔ تیسرا سوال یہ ہے کہ یہ آشوب آگہی ہمارے لیے کس قسم کا استناد رکھتا ہے۔ یعنی غالبؔ کو پڑھ کر ہم کیا سیکھتے ہیں اور کس چیز کے بارے میں۔ غالبؔ سائنس دان نہیں تھا کہ ہم اس سے آئن اسٹائن کی ریاضیاتی مساواتیں پوچھیں، ماہر نفسیات نہیں تھا کہ فرائڈ کے نظریات کی تصدیق کریں، ماہرِ معاشیات نہیں تھا کہ مارکس کے افکار معلوم کریں۔ اور جب یہ لوگ موجود ہیں ایک ’’شرح مأتہ عامل‘‘ پڑھے ہوئے آدمی سے پوچھنے کی کیا ضرورت۔ ممکن ہے کہ بعض لوگ یہ کہیں کہ غالبؔ کا علم موجودہ دور کے مطابق نہیں ہے۔ مگر اپنے دور کے مطابق ضرور تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ غالبؔ کی آگہی اور دیدۂ بینا تاریخی اہمیت رکھتی ہیں مگر ہم غالبؔ کی شاعری اس لیے نہیں پڑھتے کہ یہ معلوم کریں کہ ۵۷ء سے پہلے تک کی علمی میراث کیا تھا۔ اگر وہ ہمیں اس وقت کچھ نہیں دیتا تو ہمیں اس کے پڑھنے کی ضرورت اسی طرح نہیں ہے جس طرح شرح مأتہ عامل پڑھنے کی۔

    کچھ لوگ کہیں گے کہ آشوب آگہی کا تعلق علم سے نہیں ادراک سے ہے۔ ادراک جیسا لفظ مجھ سے کہاں ہضم ہوگا۔ مجھے ادراک کا مزہ معلوم نہیں۔ ادراک کا حال کیا معلوم ہوگا؟ اور یہ ادراک کہتے کسے ہیں؟ کیا یہ علم کے بغیر حاصل ہو جاتا ہے۔ اگر علم کے بغیر حاصل ہو جاتا ہے تو کیسے؟ دیدۂ بینا کے معنی شاید ہمیں معلوم ہیں۔ خود غالبؔ نے کہا ہے کہ یہ قطرے میں دجلہ اور جزو میں کل دیکھنے کا علم ہے۔ جز و کل بھی میری سمجھ میں نہیں آئے۔ کچھ تصوف کی سی اصطلاحیں ہیں۔ صوفی بہت قطرے کے دریا میں ملنے کا ذکر کرتے ہیں اور غالبؔ نے ایک جگہ حود بھی لکھا ہے کہ نہایت غم ہے، اس قطرے کو دریا کی جدائی کا۔ تو یہ شعرا تو تصوف میں چلا گیا۔ ہم تصوف کو نہیں مانتے، تصوف کے اس قسم کے پھڈوں کو کیوں مانیں۔ بقول جوشؔ ملیح آبادی، یہ سب صوفیوں کی زیٹیں ہیں۔ تو کیا غالبؔ کی آگہی اسی زیٹ زپٹ کا نام ہے۔

    اب آیئے تیسرے فقرے کی طرف یہ ذرا آسان سا معلوم ہوتا ہے۔ ہم اسے غالباً سہولت سے سمجھ لیں گے، ’’غالبؔ تفکر کرتا تھا۔‘‘ تفکر کسے کہتے ہیں۔ اردو ترجمہ شاید یہ ہو کہ سوچتا تھا۔ مگر یہ غالبؔ کی کون سی خصوصیت ہے۔ کیا میرؔ نہیں سوچتے تھے، دردؔ، مصحفیؔ، سوداؔ اور آتشؔ نہیں سوچتے تھے۔ اردو نقادوں کا جواب ہے کہ ’’نہیں، صرف غالب سوچتا تھا۔‘‘ مگر یہ سوچنا ہے کیا بلا؟ مولانا ایوب کو غور کے معنی نہیں معلوم تھے۔ مجھے سوچنے کا مفہوم نہیں معلوم۔ الفاظ بھی کمبخت کیا خبیث چیز ہیں۔ ہم ساری عمر انہیں کلیجے سے لگاتے ہیں۔ یہ بھی ہمیں دھوکا دیتے ہیں کہ یہ ہمارے بن چکے ہیں اور اپنے سارے راز ہم پر کھول چکے ہیں۔ مگر ایک روز معلوم ہوتا ہے، ہم سے ان کا کسی قسم کا تعلق نہیں تھا۔

    اوپر کی یہ چند سطریں لکھ کر میں اتنا پریشان ہوا کہ بے چینی سے کمرے میں ٹہلنے لگا۔ میری چھوٹی بیٹی میری گود میں آ کر بیٹھ گئی۔ میں اس سے پوچھتا ہوں ابو کس کے؟ کہتی ہے میرے۔ میں پوچھتا ہوں، بیٹی کس کی؟ کہتی ہے ابو کی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک وقت وہ ’’میں‘‘ کا لفظ نہیں استعمال کرتی تھی۔ خود کو ’’ننھی‘‘ کہتی تھی۔ ننھی دودھ پیے گی، ننھی سوئے گی۔ پھر اسے معلوم ہوا کہ وہ ننھی جو کبھی روتی، کبھی کھاتی پیتی، کبھی کھیلتی کودتی، کبھی سوتی جاگتی ہے، وہ ’’میں‘‘ ہے۔ یعنی سونے جاگنے کھانے پینے والی مختلف ننھیاں ایک ہیں۔ یہ داخلی اکائی اس کی ذات کا علم تھا۔ پھر اس نے ابو کو پہچاننا شروع کیا۔ ابو وہ ہیں جو کھلونے لاتے ہیں، گود میں لے کر ٹہلتے ہیں، فرمائش پوری کرتے ہیں، کبھی ڈانٹتے ڈپٹتے بھی ہیں۔ پہلے ابو کے مختلف زاویوں سے پیدا ہونے والے یہ سب تاثرات الگ الگ تاثرات تھے۔ یعنی کھلونے دینے والا ہاتھ، گرم گود، غصہ بھرا چہرہ اور آواز میری بچی نے سب کو جوڑ کر ایک ’’ابو‘‘ بنا لیا۔ یہ خارجی اکائی ہے۔ مگر اس کے بعد اس میں ایک اور عمل شروع ہوا۔ اس نے ’’میں‘‘ اور ’’ابو‘‘ کو جوڑا اور ’’میرے ابو‘‘ کہا۔ اب داخلی اور خارجی اکائی مل گئی۔ کیا یہ سوچنے کا عمل نہیں ہے؟

    تو کیا سوچنے کے معنی ہیں حسیاتی تجربات کو آپس میں ربط دے کر ایک نتیجہ نکالنا؟ حسیاتی تجربات واقعات و حادثات، علمی معلومات سب ہمارے اندر الگ الگ ہوتے ہیں۔ جب ہم انہیں جوڑ کر ایک کل بنانے لگتے ہیں اور اسباب اور نتائج اخذ کرنے لگتے ہیں تو سوچنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ اب غالبؔ تفکر کرتا ہے، کے معنی شاید غالبؔ اپنے تجربات کو جوڑ کر ایک کل بنانا جانتا ہے۔

    لیکن یہ کام تو میرؔ بھی کرتا ہے۔ اور دوسرے بھی، تو پھر ان میں اور غالبؔ میں کیا فرق ہے؟ شاید ہم یہ کہیں کہ دوسروں کے تجربات چھوٹے، معمولی اور ادنیٰ ہیں، غالبؔ کے بڑے، اہم اور اعلیٰ۔ اور دوسرے ان سے معمولی نتائج پیدا کرتے ہیں۔ غالبؔ غیر معمولی، میرؔ کو تو ہم ابھی چھوڑتے ہیں۔ لیکن اور دوسروں کی حد تک یہ بات صحیح معلوم ہوتی ہے۔ اب میرا سوال یہ ہے کہ معمولی نتائج کیوں پیدا ہوتے ہیں۔ وہائٹ ہیڈؔ کا کہنا ہے کہ ایک کسان سے آدھ گھنٹے باتیں کیجیے، اس آدھے گھنٹے میں وہ جتنی باتیں کہے گا، وہ سب وہی ہوں گی جو افلاطون کے فلسفے میں پائی جاتی ہیں۔ دونوں کا خام مواد ایک ہے، یعنی زندگی۔ لیکن کسان اور افلاطون میں بہت بڑا فرق ہے۔ یہ فرق کیا ہے؟ غالباً یہ کہ کسان اپنے تجربات کو ان کی انتہا پر لے جا کر نہیں دیکھتا۔ اور نہ ان کو اس طرح مربوط کر سکتا ہے جس طرح افلاطون کرتا ہے۔ وہ معمولی چیزوں کو جوڑنا تو سیکھ جاتا ہے مگر بڑی چیزیں اس کی دسترس سے دور رہتی ہیں اور دونوں کا ربط اس کی آنکھوں سے اوجھل رہتا ہے۔ دونوں میں شاید فرق یہ ہے کہ کسان کو دس سے زیادہ گنتی نہیں آتی، جب کہ افلاطون لامحدود اعداد تک سوچ سکتا ہے۔ تو شاید جب ہم یہ کہتے ہیں کہ غالبؔ دوسروں سے زیادہ سوچتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ،

    (۱) اس کا خام مواد نسبتاً زیادہ ہے۔

    (۲) وہ اپنے تجربات کو ان کی انتہاؤں میں دیکھتا ہے اور

    (۳) اپنے خام مواد یا تجربات کو لامحدود پیمانے پر ربط دے سکتا ہے۔

    اب ایک تیسری بات اور ہے۔ ہم صرف اپنے تجربات کی دنیا میں نہیں رہتے ہیں۔ ہمارے ماں باپ اور اہلِ خاندان کے تجربات بھی شامل ہوتے ہیں۔ ہم اس علم کو بڑھائیں تو دنیا کے بہت بڑے بڑے آدمیوں کے تجربات بھی ہمارے شعور میں آ جاتے ہیں۔ انہیں ہم اپنے تجربات سے ربط دیں تو ان کی ایک اکائی بن جاتی ہے۔ اب وہ ہمارے تجربات بھی بن جاتے ہیں۔ ان تجربات کی مدد سے ہمارے سوچنے کا عمل غیر معمولی اہمیت حاصل کر لیتا ہے، فلسفہ، تاریخ، علم و ادب، نفسیات و معاشیات، عمرانیات و انسانیت سب کا علم ہمیں اسی عمل میں مدد دیتا ہے، بس علم و معلومات کی اصل اہمیت یہی ہے، اس کے سوا جو کچھ ہے، مدرّسی اور مکتبیّت ہے۔

    ہم نے فلسفہ بہت بگھار لیا۔ آیئے، اب غالبؔ کے سوچنے کی دو ایک مثالیں دیکھیں۔ داغؔ کا ایک شعر ہے،

    تم کو آشفتہ مزاجوں کی خبر سے کیا کام

    تم سنوارا کرو بیٹھے ہوئے گیسو اپنا

    شعر کا مضمون یہ ہے کہ معشوقہ عاشق کی طرف توجہ نہیں دیتی اور اپنے بناؤ سنگھار میں لگی رہتی ہے۔ اس کا تجربہ ہم آپ سب کو ہے۔ داغؔ کو بھی تھا۔ اس سے تکلیف ہوتی ہے۔ شکایت پیدا ہوتی ہے۔ داغؔ کو بھی پیدا ہوئی۔ اس نے شکایت کو طعنہ بنا دیا۔ تم سنوارا کرو بیٹھے ہوئے گیسو اپنا۔ گیسو کی رعایت سے اپنے آپ کو آشفتہ مزاج کہا۔ عاشق کی آشفتگی اور بالوں کی پریشانی کا ربط ظاہر ہے۔ اس سے شعر بن گیا، اور مطلب یہ نکلا کہ پریشانی ہی دور کرنی تھی تو گیسو کی کیوں کی، عاشق کی کرتے۔ شعر داغؔ کے رنگ کا ہے۔ تجربہ بھی سچا ہے۔ شاعرانہ خوبیاں بھی موجود ہیں۔ مگر اب دیکھیے غالبؔ ایسے ہی ایک تجربے پر کس طرح سوچتا ہے،

    تو اور آرائشِ خمِ کاکل

    میں اور اندیشہ ہائے دور و دراز

    مضمون کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ ایک سطح پر داغؔ جیسی شکایت ہے۔ دوسری سطح پر مضمون آگے بڑھتا ہے۔ شکایت کے ساتھ ایک اور طرف خیال جاتا ہے۔ محبوب آرائش گیسو میں کیوں مصروف ہے۔ کیا کسی اور سے ملنے کی تیاری ہے؟ وہ کون ہے؟ محبوب جب اس سے ملے گا تو کس طرح ملے گا۔ کیا کیا باتیں ہوں گی۔ دونوں کتنے خوش ہوں گے۔ خیالات کا سلسلہ ٹوکتا نہیں پھیلتا ہی چلا جاتا ہے۔ اندیشہ ہائے دور و دراز۔ مگر شعر یہاں ختم نہیں ہو گیا۔ اس کی ایک تیسری سطح اور ہے۔ محبوب آرائشِ گیسو کر رہا ہے۔ عاشق سوچ رہا ہے کہ محبوب کی آرائش کے لیے اسے دنیا کی نادر و نایاب چیزیں لانی چاہییں جو اس کے شایان شان ہوں۔ عاشق تہی دست کیا کرے۔ اسے اپنی حالت بہتر بنانی چاہیے۔ وہ قوت حاصل کرنی چاہیے جس کے ذریعے وہ محبوب کی آرائش کا سامان خرید سکے، وہ یہ قوت کیسے حاصل کرے۔ محبوب کے شایان چیزیں کہاں سے لائے۔ یہ سلسلہ بھی لامتناہی ہے۔ ایک اور سطح یہ ہے کہ محبوب آرائش کر رہا ہے۔ اس آرائش سے دنیا اس کے حسن سے متاثر ہوگی۔ لوگوں میں احساسِ جمال پیدا ہوگا۔ وہ عاشق کی طرح اس کے دل دادہ ہو جائیں گے۔ ان میں بھی خلوص، محبت، دردمندی، صداقت پیدا ہو جائے گی۔ وہ بھی ایثار اور قربانی، صبر و رضا، دل دردمند و چشم نم سے بہریاب ہوں گے۔ ان کا معیار انسانیت بلند ہو جائے گا۔ فراقؔ نے کیا خوب کہا ہے کہ تنگنائے نظم میں یہ وسعت کہاں کہ اس میں غالبؔ کا یہ شعر سما سکے۔ تنگنائے نظم ہی میں نہیں، تنگنائے خیال میں بھی۔۔۔

    اب دیکھیے، اسی قسم کے کسی واقعے سے غالبؔ اور کیا کیا سوچتا ہے۔ شعر ہے،

    آرائشِ جمال سے فارغ نہیں ہنوز

    پیشِ نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں

    معشوق نے منہ پر نقاب ڈال رکھا ہے۔ مگر نقاب کے پیچھے آئینے میں بھی دیکھتا جاتا ہے۔ غالبؔ کو خیال آتا ہے کہ منہ چھپانے کے باوجود وہ اس سے غافل نہیں ہے۔ اسے شکار کرنا چاہتا ہے، اس سے خوشی ہوتی ہے۔ پتہ چلتا ہے کہ محبوب کو بھی اس کی لگن ہے۔ اور وہ اسی کے لیے آرائش میں مصروف ہے۔ اب نقاب بھی لطف دینے لگتا ہے۔ مگر یہ مضمون بھی ایک جگہ رکتا نہیں، پھیلتا ہی جاتا ہے۔ نقاب میں محبوب ہی نہیں خدا بھی ہے۔ وہ بھی منہ چھپائے ہوئے ہے مگر کائنات کو جو اس کا آئینہ ہے، دیکھتا جاتا ہے اور اس میں نئی سے نئی شان سے جلوہ گر ہونا چاہتا ہے۔ شاید خدا اور محبوب دونوں ایک ہیں اور غالبؔ محبوب کا عاشق ہوکر خدا کا عاشق بھی ہے۔ اور خدا بھی یہ سب کچھ عاشق کے لیے کر رہا ہے۔ نقاب اس لیے ڈال رکھا ہے کہ عاشق کے اشتیاق میں اضافہ ہو، یا شاید یہ خیال ہو کہ عاشق سامنے کے دیدار کو برداشت نہیں کر سکے گا اور موسیٰ اور طور والا قصہ ہو جائے گا وغیرہ وغیرہ۔

    اس مضمون کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ محبوب نقاب میں محو آرائشِ جمال ہے۔ عاشق اسے دیکھنا چاہتا ہے، مگر نہیں دیکھ سکتا۔ نقاب ہی کو جلوہ سمجھ لیتا ہے۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ محبوب کا حسن نقاب ہی میں سمٹ آیا ہے، بلکہ نقاب کی وجہ سے دوبالا ہو گیا ہے۔ اگر نقاب ہٹ جائے تو شاید یہ کیفیت نہ رہے۔ یا عاشق تاب نہ لا کر دیکھنے ہی سے محروم ہو جائے۔ اس لیے نقاب کی بہار ہی اچھی ہے۔ کیا نقاب ہے کہ حسن محبوب دوبالا ہو کر اس سے َچھن رہا ہے۔ غالبؔ اس کو یوں کہتا ہے،

    منہ نہ کھلنے پر وہ عالم ہے کہ دیکھا ہی نہیں

    زلف سے بڑھ کر نقاب اس شوخ کے رُخ پر کھلا

    آپ نے دیکھا غالبؔ ہمارے آپ کے ایسے تجربات کو جن سے ہم روزمرہ زندگی میں دوچار ہوتے رہتے ہیں، کیا سے کیا بنا رہا ہے۔ پوری اردو شاعری کے مضامین اس طرح غالبؔ کے ہاتھوں میں پہنچ کر کچھ سے کچھ بن جاتے ہیں۔ غالبؔ کا وجدان مس خام کو زر خالص بنا رہا ہے۔ معمولی خس و خاشاک اس کے سوز نفس سے دہک کر رنگین شعلے بن جاتے ہیں۔ یہ غالبؔ کا کمال فکر بھی ہے اور کمال شاعری بھی۔۔۔

    لیکن غالبؔ نے اسے آشوب آگہی کیوں کہا۔ شاید کھولا بہت تھا۔ غالبؔ کے کھولنے کی وجہ کیا ہے۔ غالبؔ کا تجربہ ہے کہ اس کی چھوٹی چھوٹی خواہشیں بھی پوری نہیں ہوتیں۔ امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں، آرزوئیں، حسرتیں بن جاتی ہیں، اور سب کا انجام شکست ہے۔ یہ ہماری آپ کی زندگی کا معمولی تجربہ ہے۔ مگر غالبؔ اسے کس طرح محسوس کرتا ہے اور کیا بنا دیتا ہے۔ اس کے لیے مجھے اشعار نقل کرنے کی ضرورت نہیں۔ اشعار آپ کو خود یاد ہوں گے، صرف غور کرنے کی ضرورت ہے کہ غالبؔ مائدۂ لذتِ درد کسے کہتا ہے۔ شمعِ ماتم خانہ برق کیوں ہے۔ غالبؔ جمع و خرچ دریا کا حساب کیوں رکھتا ہے۔ اس کا ہر حسرت پر دم کیوں نکلتا ہے۔ وہ ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی داد کیوں طلب کرتا ہے۔ اور پھر یہ سب تجربات مل جل کر کیا بن جاتے ہیں۔ ذاتی شکستوں سے غالبؔ آفاقی نتائج تک پہنچ جاتا ہے۔ اس نے ذاتی سطح پر شکایت کی تھی کہ ’’مضمحل ہو گئے قویٰ غالبؔ‘‘ مگر آفاقی سطح پر یہ کچھ اور ہو جاتا ہے،

    ہیں زوال آمادہ اجزا آفرینش کے تمام

    مہر گردوں ہے چراغ رہگزار بادیاں

    اب غالبؔ مضمحل نہیں ہوا، سورج مضمحل ہو گیا، آفرینش مضمحل ہو گئی، کائنات مضمحل ہو گئی ہے اور یہ سب ’’چراغِ رہگزار باد‘‘ ہیں۔ غالبؔ اسی طرح چھوٹے چھوٹے تجربات کو ان کی انتہاؤں میں دیکھتا ہے۔ ان سے بڑے بڑے نتائج نکالتا ہے۔ اور انہیں آپس میں ربط دے کر حقیقت کے روبرو رکھ دیتا ہے۔ حقیقت اس آئینے میں اپنا منہ دیکھتی ہے۔ یہ غالبؔ کا کلام ہے۔ مگر غالبؔ نے اسے آشوب آگہی یوں کہا کہ یہ تلخ حقیقت ہے۔ حد درجہ تلخ، روح فرسا، جاں گداز اور استخواں سوز ہے۔ غالبؔ اس حقیقت کو دیکھتا ہے مگر غالبؔ کی انا بڑی ہے۔ وہ اس حقیقت کو قبول نہیں کرنا چاہتی۔ اس کے آگے سر نہیں جھکانا چاہتی۔ وہ اس کے خلاف ہتھیار اٹھا لیتی ہے۔ غالبؔ بے مثال لڑنے والا ہے۔ وہ اپنی چھوٹی چھوٹی آرزوؤں کی شکست کے پیچھے بھی پوری کائنات کو سرگرم عمل دیکھتا ہے۔ بلکہ خدا کو، خدا اور کائنات مل کر کیا کر رہے ہیں۔ اسے یتیم بنا دیا، ذوقؔ کو استاد شہ کردیا، مکان پر چھاپہ ڈال کر قید کرادی، عارف کو چھین لیا، پنشن ضبط کرا دی، افلاس کا شکار بنایا، بیماری آزاری میں مبتلا کیا، غریب الوطنی میں مارا۔ غالبؔ یہ سب جانتا ہے اور لڑتا ہے۔ وہ روز نئے نئے محاذ کھولتا ہے۔ نئی ئی پناہ گاہیں تیار کرتا ہے، ایک پناہ گاہ اس کی داخلیت ہے۔ غالبؔ اس کمین گاہ میں بیٹھ جاتا ہے اور وہاں سے ناوک فگنی شروع کر دیتا ہے۔ اللہ اکبر کیسے زہریلے تیر ہیں۔ رستم و اسفندیار ہوتے تو ہلاک ہو جاتے۔ مگر اس کا مقابلہ حقیقت سے ہے، خدا سے ہے۔ غالب کے سارے تیر تکّے ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے مقابلے پر میرؔ کو دیکھیے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ میرؔ سوچتا نہیں ہے۔ صرف محسوس کرتا ہے، مگر یہ غلط ہے۔ اتنی غلط بات تاریخ ادب میں نہیں کہی گئی۔ صرف احساس یہ شاعری پیدا نہیں کر سکتا۔ میرؔ قائم نہیں ہے۔ قائمؔ، دردؔ، تاباںؔ، بیدارؔ، دہلویؔ یہ احساس کی شاعری جگرؔ کی شاعری، حالیؔ اور حسرتؔ کی شاعری ہے اور جی ہاں اپنے ناصرؔ کاظمی کی شاعری ہے۔ میرؔ کی شاعری وہ ہے کہ غالبؔ بھی چیں بول جاتا ہے، یگانہؔ بھی چیں بول گئے، ناسخؔ و آتشؔ بھی، مصحفیؔ و جرأتؔ بھی۔ میرؔ خدائے سخن ہے، وہ احساس ک بنا پر خدائے سخن نہیں بنا۔ احساس کسان کے پاس ہوتا ہے، میرؔ تو وہ کرتا ہے جو غالبؔ نہیں کر سکا۔ غالبؔ جہاں احساس سے فکر پیدا کرتا ہے، وہاں بہتر ہے۔ مگر اس کی نام نہاد فکر یہ شاعری جس کا بہت شہرہ ہے، اِدھر اُدھر سے مستعار لیا گیا ہے۔ یعنی یہ اس کے جذبات کی تعمیم نہیں۔ غالبؔ نے دوسروں کے تعمیم کردہ تجربات قبول کر لیے ہیں۔ یہ تجربات بھی اس کے اپنے ہو سکتے ہیں، بشرطیکہ غالبؔ انہیں اپنے محسوسات بنا لے۔ مگر غالبؔ اس میں ناکام ہو جاتا ہے۔ مستعار فکر مستعار ہی رہتی ہے۔ وہ اس کی اپنی نہیں بننے پاتی۔ بدقسمتی سے غالبؔ کی اس ناکامی کو ہم کامیابی سمجھتے ہیں اور ایسے اشعار پر سر دھنتے ہیں،

    ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسدؔ

    عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے

    یہ خیال نہیں، واقعی دامِ خیال ہے،

    ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب

    ہم نے دشتِامکاں کو ایک نقشِ پا پایا

    دوسرا مصرع بیکار ہے، اس کی شہرت زیادہ ہے، بری شاعری اور بری فکر نے ہمیں مار رکھا ہے۔ اس شعر میں پہلا مصرع ہی سب کچھ ہے۔ باقی سب کچھ بھرتی ہے۔ میرؔ اس کے برعکس دونوں باتوں پر قادر ہے۔ وہ اپنے تجربات کی بھی بے مثال تعمیم کرنا جانتا ہے اور دوسروں کے تجربات کی تعمیم کو اپنے محسوسات بنانا بھی جانتا ہے۔ یہ دونوں صلاحیتیں اردو شاعری میں اور کسی کو نصیب نہیں ہوئیں۔ نہ غالبؔ کو، نہ اقبالؔ کو۔

    ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ غالبؔ کے مقابلے پر میرؔ کو دیکھیے۔ صبر و رضا کا پُتلا ہے۔ اس نے کیسے غم اٹھائے، کیسی شکستیں کھائی ہیں، کیسے مصائب جھیلے ہیں۔ غالبؔ سے کم نہیں، شاید کچھ زیادہ۔ وہ پاگل تک ہو چکا ہے مگر اس سب کے باوجود نہ کہیں خود رحمی کا پتہ ہے، نہ سنکی پن کا، نہ جھلّاہٹ کا، نہ طنز و تعریض کا، نہ منہ سکوڑ کر ہنسنے کا، نہ خواہشِ مرگ کا، خواہشِ مرگ کیسی، وہ تو موت کو بھی ماندگی کا وقفہ سمجھتا ہے۔ غالبؔ کو ذاتی شکست سے احساس ہوا کہ کائنات خود معرض شکست میں ہے۔ اس سے غالبؔ کو دکھ ضرور ہوا مگر اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ میرؔ کو یہ احساس ہوا تو اس نے اردو شاعری میں ایک آیت لکھ دی،

    لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

    آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا

    کیسی سچی دردمندی ہے، کائنات کا کیسا سچا دکھ ہے، دکھ ہی نہیں احترام بھی، رقت بھی۔ اب کائنات غالبؔ کی زوال آمادہ کائنات نہیں ہے، یہ کچھ اور ہو گئی ہے۔ دیکھو اس کے شیشوں پر سانس کی ضرب بھی نہیں لگنی چاہیے، کیوں کہ ان شیشوں میں حقیقت جلوہ گر ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے