اچھی تربیت کے فوائد کے بیان میں
واضح ہو کہ اچھی تربیت سے فقط یہ مراد نہیں ہے کہ آدمی لکھنا اور پڑھنا خط وغیرہ کا سیکھ جاوے بلکہ اس سے مراد وہ عقل اور شعور اور استعداد بھی ہے جو بہ سبب تحصیل کتب فاضلوں اور حکماء سے اور صحبت عاقلوں اور عالموں کی سے حاصل ہوتی ہے۔ پس جب یہ مراد ہوئی تربیت سے، تو جو آدمی اپنے تئیں جاہل اور ناخواندوں سے بزرگی دیا چاہے اسے لازم ہے کہ حاصل کرنے اچھی تربیت میں کوشش کرے۔
اگر اس دنیا میں ہم خلقت کو مشاہدہ کریں تو ہمیں یہ بات دریافت ہوگی کہ گو اچھی تربیت یافتوں کو دولت حاصل نہ ہو لیکن اس میں شک نہیں کہ ان کی ہرجائے عزت و تعظیم کی جاوے گی۔ جو آدمی اس سے کلام کرے گا، اسے اس کی خوش اخلاقی اور علمیت کو دیکھ کر اس سے بہت خوش ہوگا اور اس کی صحبت کا آرزو مند ہوگا۔ خلاف اس کے جو آدمی جاہل مطلق اور ناتربیت یافتہ ہیں، ان کے کلام اور حرکات ایسے ہوتے ہیں کہ ان سے ہر آدمی نفرت کرنے لگتا ہے اور جہاں ایسے شخص جاتے ہیں کوئی ان کی تواضع نہیں کرتا بلکہ ان کے بیٹھنے کے بھی خواہاں نہیں ہوتے۔
حقیقت یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ نے سب انسانوں کو تھوڑی بہت عقل اور تمیز دی ہے لیکن بعض کو اچھی تربیت ملتی ہے اور بعض کو بالکل تربیت نہیں ہوتی۔ اس باعث سے انسان میں اختلاف پڑ جاتا ہے۔ ایک آدمی منشی ہے اور ایک چپراسی۔ پس ان دونوں میں فقط فرق یہ ہے کہ ایک ان میں سے تربیت یافتہ اور دوسرا ناتربیت یافتہ ہے۔ عقل جو انسان میں پائی جاتی ہے، وہ مانند ایک پتھر سنگ مرمر کے ہے، جو کان میں مٹی سے آلودہ دبا ہوا ہے اور تربیت مانند اس کاری گر کے ہے کہ جو پتھر کو نکال کر صاف اور درست کیا کرتا ہے۔ جب تک سنگ مرمر کو کاری گر مذکور کان میں سے نکال کر صاف نہیں کرتا ہے، تب تک خوبصورتی اور رونق سنگ مرمر کی کہاں ظاہر ہوتی ہے؟ اسی طور سے جب تک کہ آدمی کو تربیت نہیں ہوتی ہے اس وقت تک عقل اور صفات جبلی جو اللہ تعالیٰ نے اسے بخشے ہیں ظاہر نہیں ہوتے ہیں۔
ممکن ہے کہ ہزارہا گنوار اور دیہاتی ایسے گذرے ہوں گے کہ ان کو خدا تعالیٰ نے اسی قدر ذہن اور عقل بخشی ہو جیسی کہ حکیم ارسطو کو حاصل تھی۔ اب کوئی پوچھے کیوں حکیم ارسطو نامی حکیم ہوا، اور گنوار مذکور حالت جہالت ہی میں مرگیا اور نام و نشان بھی نہیں رہا۔ اس کا جواب فقط یہ ہے کہ ارسطو کو تربیت ہوئی تھی اور اس کو نہیں ہوئی۔ ارسطو نے کتب اور تصنیفات حکمائے گذشتہ کو ملاحظہ کیا اور گنوار مذکور کاشتکاری کرتے کرتے مر گیا۔ اگر مانند ارسطو کے ان کو بھی قابو واسطے تحصیل کتب وغیرہ کے ہوتا تو شاید وہ گنوار ارسطو سے بھی سبقت لے جاتا۔ ایک شاعر نے سچ کہا ہے کہ گنواروں اور غریبوں کے ذہن اور عقل سے کون آگاہ ہوتا ہے۔ وہ مانند ان جواہرات کے ہیں جو اندر سمندر کے پڑے ہوئے ہیں اور انسان کی نگاہ سے پوشیدہ ہیں یا وہ مانند ان خوشبودار پھولوں کے ہیں جو دشت لق و دق میں شگفتہ ہیں ان کی خوشبو کو کون سونگھتا ہے۔
تربیت ایک ایسی شیٔ ہے کہ وہ ورثے میں نہیں حاصل ہوتی ہے یعنی یہ بات غیرممکن ہے کہ اگر باپ تربیت یافتہ ہو تو بالضرور اس کا بیٹا بھی تربیت یافتہ ہی ہو۔ یہاں سے یہ بات ہر انسان پر فرض ہے کہ اچھی تربیت پانے میں کوشش بلیغ کرے اور اس میں تغافلی اور کاہلی کو جائے نہ دے۔ اہل یونان تربیت کے فوائد سے بہت آگاہ تھے۔ وہ اپنے بچوں اور خوردوں کو اچھی طرح سے تربیت کرنے میں ہمیشہ کوشش کرتے تھے۔ چنانچہ بادشاہ فیلقوس نے جو باپ شاہنشاہ سکندر رومی کا تھا، اپنے لڑکے شاہنشاہ یعنی سکندر کے واسطے تربیت کے ارسطو کو مقرر کیا اور فی الحقیقت جیسی تربیت اس حکیم اعظم فاضل سے پائی تھی، وہ سب پر روشن ہے۔ اس سارے مضمون سے یہ غرض ہے کہ یہ بات آدمیوں پر فرض ہے کہ اپنے لڑکوں اور بچوں کو خوب اچھی طرح سے تربیت کریں اور انھیں سب علوم سکھاویں اور کرنے اس ترکیب سے آئندہ کو بہت فائدہ ہوگا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.