ادب اور شخصیت
(اس موضوع پر کراچی یونیورسٹی میں ایک سمپوزیم منعقد ہوا تھا۔ میں نے اس موضوع پر جو تقریر کی تھی اسے بعد میں قلم بند کر لیا تھا)
اس موضوع کے دو متضاد پہلو ہیں۔ ایک تو یہ کہ ادب یا فن شخصیت کا اظہار ہے اور دوسرا یہ کہ ادب یافن شخصیت سے گریز ہے۔ غالباً شاعری سے متعلق ورڈس ورتھ کے اس رومانی بیان کی تردید میں کہ شاعری وفور جذبے کا بر افتادہ اظہار ہے، ٹی ایس ایلیٹ نے اپنایہ بیان دیاکہ شاعری شخصیت سے گریز ہے نہ کہ اس کا اظہار اور اپنے اس خیال کی تائید میں ایک بھرپور مضمون ۱۹۲۱ء میں ’’روایت اور انفرادی صلاحیت‘‘ کے عنوان سے لکھا۔ چونکہ تنقیدی ادب میں یہ موضوع زیر بحث اسی مضمون کے بعد آیا، اس لئے موضوع کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ،
’’شاعری جذبات کا اخراج نہیں بلکہ جذبات سے گریز ہے۔ یہ شخصیت کا اظہار نہیں بلکہ شخصیت سے گریز ہے۔‘‘ اور اپنے اس نقطہ نظر کی وضاحت ان الفاظ میں کرتے ہیں، ’’شاعر کے پاس اظہار کے لئے کوئی شخصیت نہیں ہوا کرتی بلکہ ایک مخصوص میڈیم ہوتا ہے جس میں اس کے تجربات اور تاثرات غیر متوقع اور نت نئے انداز میں متشکل ہوتے رہتے ہیں۔ ممکن ہے کہ وہ تجربات اور تاثرات جو ایک آدمی یاشخصیت کے نقطہ نظر سے اہم ہوں، اس کی شاعری میں بالکل ہی راہ نہ پائیں اور اسی طرح وہ تجربات اور تاثرات جو اس کی شاعری میں اہم ہیں وہ شخصیت کے نقطہ نظرسے بالکل ہی ناقابل اعتنا تصور کئے جائیں۔‘‘
ایلیٹ کا آخری جملہ اس چیز کی طرف کھلا ہوا اشارہ کرتا ہے کہ وہ شاعر کی عملی ذات کو اس کی تخلیقی ذات سے جدا کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ ’’جتنا زیادہ ایک فنکار مکمل ہوگا اتنا ہی زیادہ اس کا نفس حاسہ یا اس کا اثر پذیر ذہن اس کے تخلیقی ذہن سے مکمل طور پر جدا ہوگا اور ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ اسی وقت اس کا تخلیقی ذہن زیادہ مکمل طریقے سے میٹیرل (MATERIAL) یعنی جذبات کو ہضم کر سکےگا۔ اگر ایلیٹ اپنی بات کو یہیں ختم کر دیتے تو اس کے سمجھنے میں زیادہ وقت نہیں ہوتی لیکن جب وہ اپنے مذکورہ جملے کے ساتھ حسب ذیل جملوں کا بھی اضافہ کرتے ہیں تو ان کی یہ بات بڑی پیچیدہ سی ہو جاتی ہے۔
’’بڑی شاعری کسی بھی جذبے کے براہ راست استعمال کے بغیر بھی ممکن ہے۔ وہ خالصتا ًاحساس (FEELING) کی شاعری ہو سکتی ہے۔ شاعر کا کام نئے جذبات کو پانا نہیں بلکہ کسی معمولی سے جذبے کو شاعری کے ذریعے استعمال کرنا ہے۔ باالفاظ دیگر ایسے احساسات کا اظہار کرنا جو محرک جذبے سے آزاد ہوتے ہیں۔‘‘
اب سوال یہ ہے کہ اگر بڑی شاعری کسی بھی جذبے کے براہ راست استعمال کے بغیر ممکن ہے تو پھر کسی معمولی جذبے کو ازراہ بہانہ ہی سہی، شاعری کے ذریعے استعمال کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ شاید اس کا جواب یہ ہو کہ وہ ایک ایسے لنگر کی خدمت انجام دیتا ہے جو شاعر کے بھٹکتے ہوئے احساسات اور تصورات کو پھنسانے میں مددگار ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ایلیٹ کے ’’معروضی تلازمات‘‘ (OBJECTIVE CORRELATIVES) کے نظریے کا اطلاق یہاں پر اسی طرح کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال یہ بات اپنی جگہ پر واضح ہے کہ وہ شعر کی تخلیق میں جذبات کی شدت کو نہیں بلکہ تحریک تخلیق کے دباؤ کو اہم قرار دیتے ہیں اور شاعر کو اس کے اس عمل میں تخلیق کے میٹیریل سے غیر متاثر اورغیر جانب دار قرار دیتے ہیں۔ ایسی صورت میں جیسا کہ وہ خود بھی کہتے ہیں، ان کے یہاں شاعری کا اصل مسئلہ شاعر کے لئے اپنی زبان کی خدمت کاہے نہ کہ کسی اور چیز کا۔
ایلیٹ نے شاعری کا یہ شخصیت گریز نظریہ، جسے انہوں نے غیر شخصی نظریہ فن کے نام سے بھی یاد کیا ہے کچھ رومانی یا جوشیلی جذباتی شاعری کی تردید ہی میں پیش نہیں کیا ہے بلکہ اس میں کچھ انہوں نے اپنی ٹھنڈی شاعری کا جواز بھی پیش کیا ہے اور یہ محض ان کا انکسار نفس ہے کہ وہ اس شخصیت گریز نظریہ فن کی توضیح میں کوئی مثال اپنی شاعری سے نہیں بلکہ ڈانٹنے اور کیٹس کی شاعری سے دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ کیٹس کی نظم (NIGHTINGALE) کو پیش کرتے ہیں۔ جہاں شاعر بقول ایلیٹ بلبل کے جذبات کو نہیں (گویا کوئی شاعر بلبل کے جذبات کو بھی نظم کر سکتا ہے) بلکہ اپنے بھٹکتے ہوئے احساسات اور تصورات کو معروضی تلازمات کی بنا پر بلبل کا سہارا لے کر نظم کر رہا ہے۔
اگر میرا مقصد یہ ہوتا کہ میں ایلیٹ کی اس مثال ہی کو نامناسب بتاؤں تو بے شک اس نظم کو زیربحث لاتا، لیکن میرا یہ مقصد کب ہے۔ میں تو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ایک آدھ مثال سے خواہ وہ ڈانٹے کی نظم ہو یا کیٹس کی نظم، ان کی یہ تعمیم کرسی نشین نہیں ہوتی کہ شاعری شخصیت یا جذبات سے فرارہے۔ کیٹس ایک لیریکل شاعر ہے۔ اس نے ایسی نظمیں بھی تو کہی ہیں جن میں اس نے اپنے جذبات کا براہ راست اظہار کیا ہے اور ہمارے یہاں تو میر، غالب اور اقبال سبھی نے بیشتر ’’اپنے بھٹکے ہوئے احساسات اور تصورات‘‘ کا نہیں بلکہ اپنے ٹھہرے ہوئے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ ایسی صورت میں ہم ایلیٹ کے اس شخصیت گریز نظریہ آرٹ کو کسی عالم گیر صداقت پر مبنی تصور نہیں کر سکتے کیونکہ اس کا اطلاق نہ تو بالعموم ہماری شاعری پر ہوتا ہے اور نہ دنیا کی بڑی شاعری پر۔ کیا میر اس وجہ سے کوئی ایک چھوٹے شاعر قرار پائیں گے کہ ان کی شاعری میں ان کی شخصیت جھلکتی ہوئی نظر آتی ہے۔
مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب میں نے
درد وغم کتنے کئے جمع تو دیوان کیا
اور کیا علامہ اقبال اس وجہ سے ایک بڑے شاعر نہ قرار پائیں گے کہ ان کی شاعری جذبات کو متحرک کرکے عمل پر اکساتی ہے۔ یہ سوالات برمحل ہیں۔ لیکن اگر یہاں یہ گمان گزر رہا ہو کہ میں آپ کی قومی عصبیت کو ابھار رہا ہوں توفی الحال ان حضرات کے ذکر کو ملتوی رکھتا ہوں اور اسی انگریزی زبان کے ایک دوسرے شاعر اور ناقد کی رائے کو پیش کرنا چاہتا ہوں جس نے ایلیٹ کے اس شخصیت گریز نظریہ فن کی تردید کی ہے۔ ان کا نام ہربرٹ ریڈ ہے انہوں نے اپنے ایک مضمون ’’شاعر کی شخصیت‘‘ میں، جسے انہوں نے ایلیٹ کے نقطہ نظر کی تردید میں لکھا ہے، یہ نقطہ نظر اختیار کیا ہے کہ شاعری اپنی شخصیت سے آگہی ہے نہ کہ اس سے فرار۔ ہربرٹ ریڈ کا یہ مضمون کسی قدر پیچیدہ بھی ہے اور یہ پیچیدگی اس لئے پیدا ہوئی ہے کہ انہوں نے ٹی ایس ایلیٹ کی طرح شخصیت کے مفہوم کو متعین کرنے کی ذمہ داری سے اپنا پیچھا نہیں چھڑایا ہے لیکن شخصیت کی بحث سے متعلق ان کے مضمون میں بہت سے کھانچے ہیں۔
انہوں نے شخصیت کو جہاں کردار یا کیرکٹر کی ضد قرار دیا ہے، وہاں ایلیٹ کے نظریہ شاعری سے اختلاف کرتے ہوئے کم از کم اس مسئلے پر ان کے ہم خیال بھی نظر آتے ہیں کہ شاعر کی ذات اس کی عملی ذات سے جدا ہوتی ہے۔ لیکن ایلیٹ سے ان کا یہ اتفاق رائے جزوی ہے ورنہ بنیادی اعتبار سے انہوں نے ایلیٹ کے غیر شخصی نظریہ فن کی شدومد سے مخالفت ہی کی ہے اور اپنے مضمون کا مقصد اسی مخالفت کو ٹھہرایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’یہ صرف فیضان (INSPIRATION) ہی نہیں ہے جس سے کوئی شخص شاعر بنتا ہے، بنیادی قوت اپنی شخصیت کی آگہی ہے اور اس شخصیت کے تخلیقی عمل اور تحرک کو اندرونی بغاوت اور انتشار سے بچاتے ہوئے پروان چڑھانے کی صلاحیت ہے۔‘‘
ان کا یہ جملہ واضح طور سے بتا رہا ہے کہ وہ ادب یا فن کی بنیادی قوت شخصیت کی آگہی قرار دیتے ہیں نہ کہ اس سے فرار اور چونکہ کم وبیش میں بھی اسی خیال کا حامی ہوں، اس لئے اس کی توضیح کو اس وقت تک ملتوی رکھتا ہوں جب تک کہ ان کے مذکورہ مضمون کے اس حصے کو زیربحث نہ لاؤں جہاں وہ شخصیت کو کردار کی ضدقرار دیتے ہیں کیونکہ وہا ں مجھے ان کے نظریہ شخصیت سے سخت اختلاف ہے۔ شخصیت سے متعلق ہربرٹ ریڈ کا یہ کہنا ہے کہ کیریکٹر یا کردار شخصیت کی ضد ہوتا ہے۔ کیرکٹر ایک ٹھوس اوراٹل شے ہے، وہ ایک آئیڈیل اپنے سامنے رکھتا ہے جس کے لئے وہ اپنے جذبات کا پیہم خون کرتا رہتا ہے۔ وہ اپنے کوحالات کے مطابق بدلتا نہیں بلکہ اڑا رہتا ہے۔ کیرکٹر کی یہ خصوصیات ہر برٹ ریڈ کے الفاظ میں ایک ’’آزاد افتاد طبع‘‘ یا شخصیت کے منافی ہے اور وہ اس آزاد افتاع طبع یا شخصیت کی تعریف اپنے الفاظ میں نہیں بلکہ ریمنڈ فرنینڈز کے الفاظ میں اس طرح کرتے ہیں۔
’’ایک آئیڈیل شخصیت اس شخص کی ہوتی ہے جواپنے وجود کو ہمیشہ اپنے خیالات کے تحرک کے مطابق بدلتا رہتا ہے۔ کیرکٹر کے سامنے ایک آئیڈیل ہوتا ہے اور وہ اس آئئڈیل کے حصول کے لئے اپنے جذبات کا خون کرتا رہتا ہے۔ برخلاف اس کے شخصیت کے سامنے کوئی ایسا آئیڈیل نہیں ہوتا ہے۔ یہ ایک متحرک طریق فکر ہے جو ہمارے بے شمار جذبات اور سیٹنمینٹس کے درمیان ایک رشتہ توازن کو قائم رکھتی ہے۔‘‘
ادب کے نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہوئے ہربرٹ ریڈ، ریمنڈ فرنینڈزکے اس خیال کے مدعی اس لئے بنے ہیں کہ ایک آزاد افتاد طبع یا ایک شخصیت اپنے بے روک ٹوک بہاؤ کے باعث فیضان شاعری کے لئے ہمیشہ چشم براہ رہتی ہے اور کیریکٹر جسے کہ وہ ٹھوس اور اٹل قرار دیتے ہیں، جامد اور اڑیل ہونے کے باعث فیضان شاعری سے محروم رہتا ہے۔ لیکن اس سے پہلے ہم یہ بتا چکے ہیں کہ ہربرٹ ریڈ کسی بھی شخص کے شاعر بننے کے لئے تنہا فیضان کو ضروری نہیں سمجھتے بلکہ اس کے برعکس اس کے لئے بنیادی قوت، شخصیت کی آگہی ٹھہراتے ہیں۔ کیا یہ ایک کھلا ہوا تضاد نہیں ہے۔ ایک طرف تووہ فرائڈ کے ایگو کو شخصیت کا مرکزی نقطہ تصور کرتے ہیں جس کی بنیادی خصوصیت اس کی وہ قوت مدافعت ہے جس سے کہ وہ کیرکٹر بنتا ہے تو دوسری طرف وہ شخصیت کو صرف جذبات اور سینٹمینٹس کے ایک توازن رشتہ کا نام دیتے ہیں یعنی ایگو کو چھوڑ کر صرف اڈ (ID) پر نگاہ رکھتے ہیں۔ شاید اس لئے کہ وہ جس نتیجے پر پہنچنا چاہتے ہیں یعنی شخصیت کو کیریکٹر کی ضدقرار دینا، اس میں فرائڈ کا ایگو بڑا اڑنگا لگاتا ہے۔
ہمیں ہربرٹ ریڈ کی اس کوشش سے بڑی ہمدردی ہے لیکن اسے کیا کیا جائے کہ کیا طبعیات اور کیا نفسیات، ان دونوں ہی علوم میں حرکت، مدافعت کے ساتھ پیوست ہے اور جو مفہوم کہ ایک آئیڈیل شخصیت کا ہربرٹ ریڈ نے ریمنڈ فرننڈیز کے الفاظ میں پیش کیا ہے وہ کسی آئیڈیل شخصیت کا نہیں بلکہ بے پیندی کی شخصیت کا ہے۔ شخصیت بے شک تحرک پذیر ہوتی ہے لیکن تغیر پذیر ہونے اور کوئی کیرکٹر نہ رکھنے میں بڑا فرق ہے۔ ایک باشعور اور صاحب کردار آدمی بھی اپنے خیالات کے تحرک کے مطابق بدلتا رہتا ہے۔ وہ شخصیت ہی کیا جو متحرک اور ترقی پذیر نہ ہو۔ لیکن اسے ایک ابن الوقت یا تھالی کے بیگن کا نام نہیں دیا جا سکتا ہے۔ ان دونوں کے درمیان بڑا فرق ہے۔ اول الذکر روشن خیال اور آخرالذکر ضمیر فروش ہو سکتا ہے۔ ایک لچکنا اور اکڑنا دونوں ہی جانتا ہے اور دوسرا صرف لچکنا اور بہنا۔ ایک آگ اور پانی دونوں ہی ہے اور دوسرا تمام ترپانی۔ کبھی اس قدر از خود رفتہ کہ،
دل پھر طواف کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کئے ہوئے
اور کبھی اس قدر خوددار کہ
الٹے پھر آئے درکعبہ اگر وانہ ہوا
کبھی اس قدر بے صبر کہ ہر تیزرو کے ساتھ چل پڑے اور کبھی اس قدر متوازن کہ جناب خضر کو بھی ’ایک ہم سفر‘ جانے۔ انسان کی جو عام فطرت ہے اس سے کسی شاعر کی فطرت وارستہ نہیں ہے۔ اگر دنیا میں ایسے شعرا گزرے ہیں جو اپنے جذبات کی رو میں بہتے رہے ہیں، تو ایسے شعرا بھی رہے ہیں جنہوں نے اپنے جنوں یا جذبات کو شعور سے لگام بھی دی ہے،
کیا جنوں کر گیا شعور سے وہ
شعرا کی شخصیتوں میں شعور اور جنوں کی یہ جو دو علامتیں ہیں، انہیں کے امتزاج کامل میں ایک شاعرکی آئیڈیل شخصیت کا راز مضمر ہے۔ ہماری معقولاتی طبیعت اتنی ہی فطری ہے جتنی کہ ہماری غیر معقولاتی طبیعت۔ ایسی صور ت میں شخصیت ہمارے جذبات اور سینٹمینٹس کے درمیان نہیں بلکہ ہماری معقول اور غیرمعقول طبیعتوں کے درمیان ایک توازن رشتہ قائم رکھتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس طبیعت میں جذبات اور سینٹمینٹس کے ساتھ ساتھ شعور، قوت مدافعت، قوت ارادہ، قوت عمل اور پھران سب میں نظم و ضبط پیدا کرنے والی معقولیت بھی شامل کرے۔ ہربرٹ ریڈ کے یہاں تو شخصیت صرف جذبات اور سینٹمینٹس ہی تک محدود ہے۔ ایسی صورت میں اگر انہوں نے شخصیت کو کیرکٹر کی ضد قرار دیا تو اس میں کوئی تعجب نہیں کیونکہ ان کے ہاں آئیڈیل شخصیت بغیر کردار کے ہے اور ہماری نظر میں آئیڈیل شخصیت وہ ہے جس میں کردار بھی ہو۔
ہربرٹ ریڈ نے شخصیت کی اس تعریف سے جہاں ایک طرف انقلابی جذبات یا روبہ عمل جذبات کو ابھارنے والی شاعری کو اقلیم سخن سے خارج کیا ہے بلکہ دانستہ طور سے ادب اس کے آئیڈیلٹی (IDEALITY) کے عنصر کو بھی خارج کر دیا ہے۔ کیونکہ ان کے یہاں آئیڈیل شخصیت آئیڈیل سے عاری ہوتی ہے۔ یہ بھی ایک عجیب آئیڈیل ہے اور کیا عجب جو ان کا یہ آئیڈیل ان کے اس فلسفہ نراجیت کا حامل ہو کہ انسان ہر قسم کے قیود سے آزاد ہے۔ یا شاید اس نظریہ شاعری کا جانب دار ہو کہ شاعری میں صرف لاشعور کا اظہار کرنا چاہئے جو بعض اوقات تحت الانسانی یا حیوانی اقدار کی تبلیغ کا روپ بھی اختیار کر لیتی ہے۔ مجھے اس سے انکار نہیں کہ آدمی ایک حیوان ہے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ مجھے اس کے انسان ہونے پر بھی یقین ہے۔ میں نے ہربرٹ ریڈ کے نظریہ شخصیت کے رد کرنے کی جو ضرورت محسوس کی تو اس کا سبب یہی ہے کہ وہ نظریہ تمام تر جبلی تقاضوں کا حامل ہے۔
ہربرٹ ریڈ کا یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ شاعری کی بنیادی قوت اپنی شخصیت کی آگہی ہے۔ ان کا تو صرف یہ کہنا غلط ہے کہ شاعر کی شخصیت میں کیریکٹر نہیں ہوتا یعنی اس کی شخصیت، قوت مدافعت، قوت ارادی، قوت عمل یعنی کسی آئیڈیل اور شعور سے آزاد ہوتی ہے اور ہم اپنے اس خیال کی حمایت میں دنیا کے بہت سے ایسے مسلم الثبوت شعرا کی شخصیتیں پیش کر سکتے ہیں جن میں کیرکٹر کی کمی نہیں رہی ہے اور نہ ایسا ہی ہے کہ ان کے کیرکٹر کا دباؤ ان کی شاعری میں محسوس نہ کیا جاتا ہو۔ گزشتہ صدی میں جو ایک نیا مشرق الجزائر سے لے کر جاپان تک ابھرا ہے، میری مراد اس مشرق سے ہے جو مغرب کی سیاسی غلام سے آزاد ہوا ہے یا کہ آزادی کی جدوجہد میں مشغول ہے، اس نئے مشرق کے ادیبوں اور شاعروں کی شخصیتیں اور ان کا ادب ہربریٹ ریڈ کے کردار کش نظریہ شخصیت اور ایلیٹ کے شخصیت گریز نظریہ فن دونوں ہی کی تردید کر رہا ہے۔ نام گنوانے سے کیا فائدہ، کیوں نہ پاکستان ہی کے دو نامور شعر علامہ اقبال اور قاضی نذرالاسلام کو لے لیا جائے۔
کیا نذرالاسلام کی شخصیت اس لئے غیر شاعرانہ ہے کہ اس میں کیریکٹر پایا جاتا ہے اور کیا علامہ اقبال کا کلام اس لئے اقلیم سخن سے خارج کر دیے جانے کے لائق ہے کہ اس میں موجہ آہنگ عمل پرور پائی جاتی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے اور آپ یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ آپ کے جذبہ عصبیت سے نہیں کھیل رہا ہوں تو پھر آپ کوان کے نظریات کے غائتی میلانات کا بھی سراغ لگانا چاہئے۔ کیونکہ ہم نے شعروشاعری کچھ چندصدیوں میں تو سیکھی نہیں ہے کہ ان نظریات کے پس منظر سے ناآشنا ہوں۔ ہم سے زیادہ لذت شعر کا چسکا کسے رہا ہوگا۔ ایلیٹ اپنے مذکور مضمون روایت اور انفرادی صلاحیت (TRADITIONS & THE INDIVIDUAL TALENT) میں لکھتے ہیں کہ ’’ہم یہ دعوی کسی قدر اعتماد کے ساتھ کر سکتے ہیں کہ ہمارا دور زوال کا ہے اور ہمارے یہاں کلچر کا جو آج معیار ہے وہ گزشتہ پچاس برس کے کلچر کے مقابلہ میں بہت پست ہے اور اس زوال کی شہادتیں ہمارے اپنے سارے شعبہ حیات میں پائی جاتی ہیں اور کوئی سبب نظر نہیں آتا کہ ہمارے اس زوال کی رفتا ر اور بھی زیادہ کیوں نہ تیز ہو جائے اور ہم ایک ایسے دورمیں نہ پہنچ جائیں جب کچھ عرصہ کے لئے ہمارے پاس کوئی کلچر ہی نہ رہ جائے۔‘‘
اگر ایلیٹ کے اس زریں مشاہدے کی روشنی میں ہم یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ ایلیٹ کا شخصیت گریز نظریہ فن اور ہربرٹ ریڈ کا کیرکٹر کش نظریہ شخصیت یہ ددنوں ہی ایک زوال پذیر معاشرے کی پیداوار ہیں تو مجھے امید ہے کہ اس سلسلے میں ہم پر کسی تعصب کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔ اس زریں مشاہدے کی روشنی میں یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ کیوں وہ دونوں ہی قوم کو جگانے والی شاعری اور شخصیت میں کیرکٹر کی حکمرانی سے خائف ہیں۔ بات یہ ہے کہ ہمارا ’’ابن الوقت‘‘ ان کے نوآبادیاتی نظام کے لئے موزوں رہا ہے۔ لیکن جب سے کہ نوآبادیاتی نظام کے خلاف آزادی کی جدوجہد چلی ہے ہمارا وہ ’’ابن الوقت‘‘ اپنی سماجی اہمیت کھونے لگا ہے۔ اب وہ سامراجی نظام کے قیام میں مددگار نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ سرہربرٹ ریڈ کے یہاں کیرکٹر سے یہ خوف کچھ اسی باعث ہو یا پھر اس باعث ہوکہ وہ اپنے فلسفہ نراجیت میں کسی قسم کے کنٹرول کو شخصیت کے منافی تصور کرتے ہیں۔
رہ گئے جذبات اور سینٹمینٹس توان کا بھی کیا بھروسہ، آخر ہمارے یہاں جذبات ہی سے تو ایک انقلابی شاعری کی گئی ہے۔ جذبات کچھ رونے دھونے اورعشق و محبت ہی کے تو نہیں ہوتے۔ وہ عمل و حرکت کے بھی تو ہوتے ہیں۔ پھر ٹی ایس ایلیٹ کو ان جذبات کو ابھارنے سے کیا ملےگا جب کہ ان کی تمام تر جدوجہد شیطان کو انجیل پڑھانے کی رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ شیطان مسیحیت پر تو ایمان لانے سے رہا۔ ایسی صورت میں اس سے مفر تواسے صرف ٹھنڈا ہی رکھنے میں ہے۔ یہ ہے سبب ان کے یہاں جذبات سے گریز کرنے اور خشک اور ٹھنڈی شاعری کرنے کا۔
یہ جو چند باتیں میں نے ایلیٹ اور ہربرٹ ریڈ کے نظریات کے متعلق کہی ہیں، تویہ سب ایک بہانہ تھا اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کا اور اگر کہیں کوئی بات سخن گسترانہ ہے تو اس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ بات یہ ہے کہ میں کیرکٹر کو شخصیت کا نہ صرف ایک اہم جزو سمجھتا ہوں بلکہ تکمیل شخصیت کا ایک ذریعہ یا آلہ کار بھی۔ کسی بھی فرد کی شخصیت جو جسم وجان کے تمام تقاضوں کی تسکین اور اس کی تمام صلاحیتوں کی بارآوری سے عبارت ہے، اس وقت تک شرمندہ معنی رہےگی جب تک ایک فرد واحد بھی اس روئے زمین کے کسی گوشے میں اپنی تکمیل شخصیت سے محروم رہےگا۔
اب جب کہ ہر فرد کی تکمیل شخصیت سوسائٹی کے دوسرے افراد کی تکمیل شخصیت کی پابند ٹھہری تو پھر اس کے حصول کے لئے کیرکٹر کا پایا جانا لازمی ہے۔ لیکن چونکہ کیرکٹر شخصیت کی آزادطبیعت میں حائل بھی ہوتا ہے اور اس طرح شخصیت میں ایک تناؤ اور تضاد پیدا ہوتا ہے، اس لئے اس تناؤ کو بھی دور کرتے رہنا چاہئے مگر اس کا یہ حل نہیں ہے کہ کیرکٹر کو شخصیت سے خارج کر دیا جائے بلکہ یہ ہے کہ شخصیت کیرکٹر کو اپنے اندر اس طرح جذب کر لے کہ وہ اس کا جزو بدن بن جائے یعنی وہ جو تکمیل شخصیت کا ذریعہ ہے، وہ جزو شخصیت بن جائے۔
یہاں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ کیرکٹر شخصیت کا کوئی خارجی جزو باہر سے لایا ہوا نہیں ہے کہ اسے خارج کر دیا جائے۔ کیرکٹر توشخصیت کی تکمیل کے ارتقائی طریق کار میں پیدا ہوتا ہے اور جو کشمکش کہ ان دونوں میں پائی جاتی ہے وہ اصل میں سماج اور فرد کے مفادات کے ٹکراؤ کی ہوتی ہے، اسے دور کیا جا سکتا ہے۔ یہ انسانی شخصیت جو آزاد اور پابند بیک وقت ہوتی ہے، جو ہماری معقول اور غیر معقول طبیعتوں کے درمیان ایک توازن رشتہ قائم رکھتی ہے، اپنے آئیڈیل معیار کو اسی دن پہنچ سکے گی جبکہ پبلک سلف اور پرائیویٹ سلف یعنی پبلک اور ذاتی مفادات متحد ہو سکیں گے۔
شاعر خواہ وہ جینیئس ہو یا کسی اوسط درجہ کا آدمی، نہ تو انسانی فطرت کے اس تضاد سے آزاد ہوتا ہے جو ضبط و نظم اور آزادی طبع سماجی مفادات اور انفرادی مفاد کے درمیان رہتا ہے اورنہ وہ اس فطری چشم بصیرت سے محروم ہوتا ہے کہ انسان ان تضادات کا حل ہمیشہ ایک آئیڈیل سطح پر تلاش کرتا رہا ہے۔ چنانچہ وہ صرف حقیقت بیں ہی نہیں بلکہ آئیڈیل پسندبھی ہوتا ہے۔ آرٹ حقیقت میں اسی کشمکش کے اظہار میں پیدا ہوتا ہے۔ کشمکش کی نوعیت مختلف ہو سکتی ہے لیکن وہ اس سے آزاد نہیں رہتا ہے۔ اس تخلیقی طریق کار میں نہ تو اس کانفس ناطقہ، اس کے نفس حاسہ سے جدا رہتا ہے اور نہ وہ اپنے جذبات کے اظہار سے اس لئے گریز کرتا ہے کہ کہیں وہ اس میں کھل نہ جائے،
ہم پرورش لوح وقلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
آخر پرورش لوح وقلم کا ایک نقطہ نظریہ بھی تو ہے۔ جوفیض کے مذکورہ بالا شعر میں ہے اور ایک وہ بھی جو غالب کے اس شعر میں ہے،
لکھتے رہے جنوں کی حکایات خونچکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
آج حیات انسانی کا وجود موت کے بالمقابل ہے۔ تعین اقدار سے زیادہ بقائے حیات کا مسئلہ اہم ہے۔ فلسفہ حیات کی مسابقت جس کا ایک ذریعہ آرٹ اور ادب بھی ہے، ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ کے سامنے پیچھے رہ گئی ہے۔ کیا اس میں ہمارے ادیبوں کے گریز کو دخل نہیں ہے۔ خواہ وہ گریز جذبہ سے ہویا کیرکٹر سے۔ آرٹ ہو یا ادب، اس کا وجود جذبات اور کیرکٹر سے گریز کرنے میں نہیں، زندگی کی قوتوں کو آگے بڑھانے میں ہے۔ گوئٹے کہتا ہے، ’’ادب زندگی کی قوت میں اضافہ کرتا ہے۔ وہ ہمارے جذبات اور احساسات کو پاکیزہ تر بناتا ہے۔ انسان کی قوت ارادی کو تقویت پہنچاتا ہے اور آدمی کو انسانیت کے زیور سے آراستہ کرتا ہے۔‘‘
یہاں جس مسئلے کو میں زیر بحث لایا ہوں، وہ مسئلہ نہ تو ادبی تخلیقات کے مٹیریل کا ہے اور نہ ادبی تخلیقات کی نفسیات کا بلکہ شاعر کے ذہن اور ادبی تخلیقات کے مٹیریل کے رشتے کا مسئلہ ہے۔ ایلیٹ نے تو شاعر کے تخلیقی ذہن کو اس کے اثر پذیر ذہن سے جدا کرکے اسے زندگی کی تب وتاب سے بے نیاز کر دیا۔ لیکن ہمارے شعراء ایسا نہیں سوچتے ہیں،
مجھے انتعاش غم نے پئے عرض حال بخشی
ہوس غزل سرائی تپش فسانہ خوانی
غالب
غالب کے یہاں انتعاش غم اور عرض حال میں نہ صرف ذہن کی فعلیت موجود ہے، جو ایلیٹ کے مجہول میڈیم میں نہیں ہے بلکہ ان کے تپش فسانہ خوانی میں وہ ’’ہنرخوں‘‘ بھی ہے جو میر و غالب اور فیض کی صدا ہے۔ یہاں شاعر کا نفس ناطقہ اس کے نفس حاسہ سے جدا نہیں ہے۔ غالب کے یہاں فنکارانہ تخلیق کا جذبہ کوئی اپنا ایک ایسا آزاد وجود نہیں رکھتا جس میں عرض یا اظہار شخصیت یا اظہار جذبہ کو کوئی دخل نہ ہو اور تقریباً یہی نقطہ نگاہ میر کا بھی ہے،
مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب میں نے
درد وغم کتنے کئے جمع تو دیوان کیا
اس موقع پر میں قصداً علامہ اقبال کے ان اشعار کو پیش نہیں کر رہا ہوں جن میں انہوں نے شاعر کی اس حیثیت سے انکار کرکے جو ایک تخلیقی فنکار کی ہے، اپنے صرف مبلغ ہونے کا اقرار کیا ہے،
نغمہ کجا ومن کجا ساز سخن بہانہ یست
سوئے قطار می کشتم ناقہ بے زمام را
کیونکہ یہ نقطہ نظر بھی، اگر شاعری میں اس کا اظہار شعوری ہو، انتہاپسندی کا ہے۔ شاعری میں شاعر، مبلغ غیرشعوری طرح سے رہتا ہے نہ کہ شعوری طرح سے۔ وہ عالم خواب میں بیداراورعین بیداری کے عالم میں محو خواب ہوتا ہے۔ کبھی تو عالم خواب میں وہ بیداری کہ ’’ازشعلہ تراش کردہ ام حرف‘‘ (فیضی) اور کبھی عالم ہوش میں وہ بے خودی کہ ’’غفلت جہاں در جہاں ہے مجھے۔‘‘ (میر) خدا مغفرت کرے مشرق کو سلام بھیجنے والے ویمر کے شاعر گوئٹے نے کیا خوب کہی ہے، ’’شاعر زندگی کے خواب سے بیدار، ہوش مند اور باشعور گزرتا ہے اور زندگی کی جدوجہد میں بحیثیت ایک معلم غیر شعوری طرح سے حصہ لیتا ہے۔‘‘
شعور اور لاشعور کایہ رابطہ ایسا نہیں ہے کہ ہم ان میں سے ایک کو دوسرے جدا کرسکیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے میں بہتے اور ایک دوسرے سے پیوست رہتے ہیں۔ شاعر کا ذہن اپنے اس مٹیریل کے برتنے اورڈھالنے میں مجہول نہیں رہتا ہے کہ اسے ہم ایک میڈیم (ایک مجہول آلہ کار) تصور کریں۔ شاعرکا ذہن فطرت سے صرف لیتا ہی نہیں بلکہ فطرت کو دیتا بھی ہے۔ اس پر اضافہ کرتا ہے یا اس کی اصلاح کرتا ہے۔ وہ حالات کو بدلنے کی بھی کوشش کرتا ہے اور اپنے اس عمل کی چھاپ، جس میں وہ اپنی قوت ارادی، قوت عمل، آئیڈیلٹی اور ضمیروخمیر سبھی سے کام لیتا ہے، اپنی ادبی تخلیق پر بھی چھوڑتا ہے۔ اس کی تخلیق موضوعی، معروضی، شخصی اورغیرشخصی، سماجی تاریخی اور ابدی بیک وقت ہوتی ہے۔
میں اپنی بات ختم کر چکا بجزایک بات کے۔ شاعر کا تعلق صرف جذبات واحساسات، شعور و لاشعور اور اس قسم کی اور دوسری چیزوں ہی سے نہیں ہوتا بلکہ زبان سے بھی ہوتا ہے جو شعور کے اظہار کا خارجی روپ ہے۔ شعروادب کی دنیا میں کیوں کر کہا گیا ہے اس سے کم اہم نہیں ہے کہ کیا کہا گیا ہے۔ چنانچہ ایلیٹ کا یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ کسی شاعر کی سماجی اہمیت اس کی شاعرانہ اہمیت سے مختلف ہوتی ہے۔ ایلیٹ کی غلطی تو اس بات میں ہے کہ وہ اس کی شخصیت کے ان دونوں پہلوؤں کو ایک دوسرے سے بالکل ہی منقطع کر دیتے ہیں۔ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ ایک بڑا شاعر کبھی کبھی بہت سے امور میں ایک چھوٹا آدمی بھی ہوتا ہے یا یہ کہ اس کی شخصیت کے بہت سے ناخوشگوار پہلو اس کی اپنی شاعری کے پردے میں چھپ جاتے ہیں۔
شاعر ہو یا کوئی فنکار جب تک کہ اسے ضروریات زندگی کے فوری دباؤ سے آزاد نہیں کیا جائےگا، اس کا تخلیقی عمل تمام تر قوانین حسن کے تابع نہیں ہو سکتا اور نہ وہ اس وقت تک اپنے تخلیقی عمل میں مکمل طور سے آزاد ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت میں دنیا کے دوسرے جمال پرست اور کیا ایلیٹ، ان کا یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ کسی تخلیق میں کسی جذبے کی شدت اتنی اہم نہیں ہے جتنی کہ تحریک تخلیق کا دباؤ یا اس کا حسن کارانہ اظہار، لیکن جب ایلیٹ تخلیق کے مٹیریل پر اپنے احتسابات کی چھلنی لگا دیتے ہیں اور اس سے شعور اور جذبے کو نکلنے نہیں دیتے اور بے جان احساس والی شاعری کا ادعا کرتے ہیں تو وہ فنکارانہ بصیرت کے نہیں بلکہ ایک مخصوص مٹیریل کی شاعری کے دعوے داربن جاتے ہیں جو اپنے مخفی اثرات میں سیاسی بھی ہو سکتی ہے۔
شاعری غیر شخصی ہے یا شخصی، یہ سب کوئی دیکھنے نہیں جاتا۔ دیکھا یہ جاتا ہے کہ اس میں انسانی جذبات اور انسانی شعور کا جمالیاتی اوربامعنی اظہار ہوا ہے کہ نہیں۔ اگر آپ بیتی جگ بیتی نہیں اور جگ بیتی آپ بیتی نہیں تو وہ مؤثر نہیں ہو سکتی۔ اصل مسئلہ خصوص و عموم یا آپ بیتی جگ بیتی کے درمیان نقطہ اتصال کے ڈھونڈنے کا ہے۔ اس سنگم تک پہنچنے کے لئے جو موضوعات اور معروضیت کا ایک نقطہ اتصال ہے، اپنی شخصیت کی آگہی کا حاصل کرنا ضروری ہے۔ یہاں نہ تو میں یہ کہتا ہوں کہ ادب تمام ترشخصیت کا اظہار ہے اورنہ یہ کہتا ہوں کہ ادب تمام ترشخصیت سے گریز ہے بلکہ یہ کہتا ہوں کہ ادب میں موضوعیت اور معروضیت انفرادیت اور یونیورسلٹی، تاریخیت اور دوامیت ان سب کا اظہار ایک وحدت میں ہوتا ہے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ جہاں تک لیریکل شاعری کا تعلق ہے، اس میں شاعر کی شخصیت کا عکس نمایاں طور سے ملتا ہے۔ وہ اس سے گریز نہیں کر سکتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ شاعر کے لئے جذبات سے بچنا ناممکن ہے،
بقدر حوصلہ عشق جلوہ ریزی ہے
و گرنہ خانہ آئینہ کی فضا معلوم
یہ ہے غالب کا نامہ ایلیٹ کے نام۔ خانہ آئینہ یعنی میڈیم کی فضا بے رنگ ہوتی ہے، اس میں جلوہ ریزی شاعری کے جذبات کے اظہار سے ہوتی ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.