- کتاب فہرست 182760
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1919
طب861 تحریکات289 ناول4227 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1430
- دوہا65
- رزمیہ98
- شرح182
- گیت81
- غزل1045
- ہائیکو12
- حمد39
- مزاحیہ36
- انتخاب1534
- کہہ مکرنی6
- کلیات663
- ماہیہ19
- مجموعہ4779
- مرثیہ372
- مثنوی811
- مسدس56
- نعت522
- نظم1172
- دیگر67
- پہیلی16
- قصیدہ179
- قوالی19
- قطعہ57
- رباعی289
- مخمس17
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی28
- ترجمہ73
- واسوخت26
ممتاز حسین کے مضامین
رسالہ در معرفت استعارہ
انسانوں کو حیوانوں سے ممتاز کرنے کے لیے فلسفیوں نے اسے مختلف ناموں سے یاد کیا ہے۔ کہیں کسی نے اسے سماجی حیوان کا نام دیا ہے تو کہیں کسی نے اسے سیاسی حیوا ن کا نام دیا ہے۔ (ارسطو) نوعی اعتبار سے اسے HOMO SAPIEN یعنی حیوان ناطق عاقل کہا گیا ہے۔ انسان کی
غالب ایک آفاقی شاعر
ہر بڑے اور اوریجنل شاعر کو زندگی کو دیکھنے، پرکھنے اور اپنے تجربات میں معنویت پیدا کرنے کے لئے ایک عالمی نقطہ نگاہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ یہ عالمی نقطہ نگاہ ایک شخصی آئیڈیالوجی کی صورت بھی اختیار کر لیتا ہے، جس سے وہ اپنے عہد کی آئیڈیالوجی کو پرکھتا
حسرت کی غزل گوئی
حسرت نے ہمارے لئے دو کتابیں چھوڑی ہیں۔ ایک اپنی غزلوں کی کلیات دوسری اپنی زندگی کی کتاب۔ میں اس موقعے پرحسرت کی زندگی کے بارے میں بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ کیونکہ وہ ان کے مجموعہ غزل سے کچھ کم اہم نہیں ہے لیکن جب یہ سوچتا ہو ں کہ وہ تو اس راہ پر خار سے
تصوف اور شاعری
چونکہ دنیائے اسلام کی تاریخ میں تصوف نے ایک منظم تحریک اور منضبط عقیدے کی صورت بھی اختیار کر رکھی تھی، ہرچندکہ اس میں اختلافات عقائد بھی بے شمار رہے، اس لئے تصوف کو انگریزی لفظ مسٹی سی ازم (MYSTICISM) کے ہم معنی قرار دینے میں کسی قدر جھجک محسوس ہوتی
مرزا یاس یگانہ کی شاعری
سرسید اور حالی نے اپنی ہم عصر شعروشاعری کی مصنوعیت کو دیکھتے ہوئے اصلیت (نیچرل ہونے) اور تاثر پر اس قدر زیادہ زور دیا کہ حالی کے بعد غزل گو شعرا کی جو کھیپ بالخصوص لکھنؤ میں ابھری، اس نے اپنی شاعری میں ایک نیا طرز اختیار کیا۔ لفظوں سے کھیلنے کی پرانی
فیض کی انقلابی شاعری کا تغزلاتی اسلوب
میں نے یہ عنوان کچھ اس لئے منتحب نہیں کیا ہے کہ فیض کے اشعار سے ان کے تغزلاتی اسلوب کی مثالیں پیش کرکے یہ بتاؤں کہ کیونکر انہو ں نے غزل کے آہنگ اور اس کی ایمائی اور اشاراتی زبان میں اپنے انقلابی جذبات کا اظہار کیا ہے، بلکہ اس لئے منتخب کیا ہے کہ فیض
ادب اور شخصیت
(اس موضوع پر کراچی یونیورسٹی میں ایک سمپوزیم منعقد ہوا تھا۔ میں نے اس موضوع پر جو تقریر کی تھی اسے بعد میں قلم بند کر لیا تھا) اس موضوع کے دو متضاد پہلو ہیں۔ ایک تو یہ کہ ادب یا فن شخصیت کا اظہار ہے اور دوسرا یہ کہ ادب یافن شخصیت سے گریز ہے۔ غالباً
رجعت پسند ادب کیا ہے؟
رجعت پسند ادب کیا ہے؟ کی اس تعریف اس سے زیادہ مشکل ہے کہ ترقی پسند ادب کیا ہے۔ کیونکہ ترقی کاراستہ صرف ایک ہی ہوتا ہے اور پیچھے لوٹنے کی راہیں مختلف ہوتی ہیں۔ انسانی معاشرت کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ نئے اور پرانے کی جنگ ہردورمیں ہوتی رہی ہے۔ وہ قوتیں
تنقید کے چند بنیادی مسائل
ہر وہ شخص جسے شعروادب کا مذاق ہے، لازمی طور پر ناقد نہیں ہے کیونکہ تنقید کا تعلق صرف مذاق کی اصلاح سے نہیں بلکہ زندگی کی اقدار کی قیمت متعین کرنے اور اس کے بارے میں فیصلہ دینے سے بھی ہے۔ یہ جاننا یقیناً اہم ہے لیکن اس سے کم اہم یہ نہیں ہے کہ اس کارخانہ
ماضی کے ادب عالیہ سے متعلق
ایک ایسے زمانے میں جبکہ طبقاتی جنگ تیز ہو جاتی ہے تو جذباتی وفور کے باعث کبھی کبھی ادبی پرکھ میں غلطیاں بھی ہو جاتی ہیں۔ یہ تصور سیاسی تیز پسندی کا نہیں ہے کیونکہ سیاست تو تیز ہوتی ہی ہے۔ بورژوا نظام کے تضاد جوں جوں ابھرتے جائیں گے، طبقاتی جنگ کا تیز
قومی زندگی میں علاقائی زبان اور کلچر کی اہمیت
(اپریل ۱۹۶۱ء میں بزم ثقافت ملتان نے جشن فرید منایا تھا۔ اس سلسلے میں بزم نے ایک مجلس مذاکرہ بھی منعقد کیا تھا۔ مذاکرے کا موضوع تھا، ’’قومی زندگی میں علاقائی کلچر کی اہمیت۔‘‘ یہ تقریر اسی مذاکرے میں کی گئی تھی جسے بعدمیں، میں نے ’’ہم قلم‘‘ کے لئے قلمبند
صورت و معنی
ادبی کارخانے میں صورت اور معنی کے باہمی رشتے کو سائنسی طور پر دریافت کرنا ایک بہت ہی مشکل کام ہے کیونکہ اس مسئلے پر صرف اس وقت سے صحیح روشنی پڑنے لگی ہے، جب سے جدلیاتی مادیت کا اسکول وجود میں آیا ورنہ اس سے پہلے تو اس پر عینی اسکول ہی کے مفکرین نے روشنی
ادب، روایت، جدت اور جدیدیت
جدیدیت کی جو ایک لہر ان دنوں چل رہی ہے اس کے مدنظر ذرا کچھ ہمیں اپنی ادبی روایات ک ابھی جائزہ لینا چاہئے، لیکن اس سے پہلے ہمیں روایت کے مفہوم کو متعین کر لینا چاہئے، تاکہ جدت کو ’’جدیدیت‘‘ سے جدا کرکے بھی دیکھا جا سکے۔ کیوں کہ میرے نزدیک جدت، روایت کا
شاعر فراق گورکھپوری
معاصرین فراق میں سے کوئی دوسرا شاعر بجز ان کے ایسا نظر نہیں آتا جس کے بارے میں یہ کہا جا سکے کہ اس نے جو اثاثہ اپنے مرنے کے بعد چھوڑا ہے اس میں اس کی شاعری اور نثر ہی اہم نہیں ہے بلکہ اس کی شخضیت کا انوکھاپن، اس کی گفتگو، اس کے اقوال ظرافت و ذکاوت
ہمارا کلچر اور ادب: ۱۸۵۷ء سے پہلے اور اس کے بعد
آج کے دن ہندوستان اور پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی سو سالہ یادگار بڑے اہتمام سے منائی جا رہی ہوگی۔ مگر کس قدر حیرت کی بات ہے کہ اس عظیم ترین واقعے کی پہلی یادگار پورے سو سال کے بعدہی منائی جا رہی ہے۔ شاید اس لئے کہ سرسید
ادیب اور آزادیٔ رائے
آزادی رائے، خواہ وہ کسی ادیب کی ہو یا عام آدمی کی، انسان کی اس آزادی کا ایک داخلی پہلو ہے جو اپنے کو تہذیب و تمدن کی مختلف برکتوں کی صورت میں ظاہر کرتی رہتی ہے۔ جنگلی پھلوں یا بیخ و بن پر گزارہ کرنے کے بجائے اپنے لئے غذا زمین سے اگانا، اسے محفوظ کرنا
مجاز کی موت پر
گزشتہ پچاس برسوں میں جس تیز روی کے ساتھ زمانہ بدلتا رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارا شعور بھی ترقی کرتا رہا ہے، اس کی مثال اس سے قبل کے زمانے میں کم از کم اپنی قومی تاریخ میں تو نہیں ملتی ہے۔ جو تبدیلی کل تک بہت ہی سست رفتار اور غیرشعوری تھی، وہ آج
قومی بیداری میں اکبر کا حصہ
اکبر کا غیر ظریفانہ کلام بیشتر صوفیانہ اور واعظانہ ہے، لیکن جب وہ اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار طنز و مزاح کی صورت میں کرتے ہیں تو محفل لوٹ پوٹ ہو جاتی ہے۔ کبھی خیال کی ندرت سے تو کبھی الفاظ کے تصرف سے۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یا تو اول اول اکبر کو اپنا
داستانوں کی ماہیئت
جامع مسجد دہلی کے ’’دروازہ شمالی کی طرف ۳۹سیڑھیا ں ہیں۔ اگرچہ اس طرف بھی کبابی بیٹھے ہیں اور سودے والے اپنی دکانیں لگائے ہوئے ہیں۔ لیکن بڑا تماشا اس طرف مداریوں اور قصہ خوانوں کا ہوتا ہے۔ تیسرے پہر ایک قصہ خواں مونڈھا بچھائے ہوئے بیٹھتا ہے اور داستان
join rekhta family!
-
ادب اطفال1919
-