ادب اور ترقی
شاعر کی نوا ہوکہ مغنی کا نفس
جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا
اقبال
کوئی نو دس سال کا عرصہ ہوا، طبیعیات کے ایک مشہور ماہر نے مادی دنیا کے متعلق ہمارے خیالات اور رجحانات میں جو تبدیلیاں ہوئی ہیں ان کو مجملاً یوں بیان کیا تھا، ’’جن چیزوں کو پہلے ہم اشیاء سمجھتے تھے۔ اب ان کو واقعات کا سلسلہ سمجھتے ہیں۔‘‘ ہم میں سے اکثر کی سمجھ میں شاید نہ آئے کہ کون سی نئی بات کہی گئی ہے۔ بات یہ ہے کہ وہ سائنس داں تھا اور اس کا دائرہ سخن کیمیا اور طبیعیات کی دنیا تک محدود تھا۔ ماہرین سائنس میں ایک بڑا عیب یہ ہوتا ہے کہ وہ یا تو ہربات کی اصطلاح بنا دیتے ہیں اور ایسی غیبی زبان میں باتیں کرتے ہیں کہ ان کی مخصوص جماعت تو ان کا مطلب بخوبی سمجھ لیتی ہے، باقی سننے والے ان کا منہ تکتے رہ جاتے ہیں۔ یا اگر کوئی ایسی بات کہتے بھی ہیں جو سب کی سمجھ میں آجائے تو اس کی زبان سوکھی لکڑی سے بھی زیادہ خشک اور بے رنگ ہوتی ہے اور کتنی ہی نئی بات کیوں نہ ہو، ہم کو اس میں کوئی نیاپن نہیں محسوس ہوتا۔
حقیقت یہ ہے کہ کہنے والے نے اپنی زبان میں بڑی اہم بات کہی ہے اور بڑی سادگی اور سہولت کے ساتھ ہمارے جدید ذہنی میلانات کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کو یوں سمجھئے جن چیزوں کو ہم ساکن تصور کرتے تھے، تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ وہ دراصل متحرک ہیں اور ہر لحظہ کچھ سے کچھ ہوتی رہتی ہیں۔ آج ٹھوس سے ٹھوس مادی چیز میں بھی حرکت کا پتہ ملنے لگا ہے۔ آج لغت کے جو الفاظ سب سے زیادہ بے معنی اور بےکار نظر آتے ہیں وہ ’’ساکن‘‘ (Static) اور ’’مطلق‘‘ (Absolute) ہیں۔ اس لئے کہ زندگی یا زندگی کے کسی رخ پر صحیح معنوں میں ان الفاظ کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔
زندگی تو نام ہے ایک دائمی حرکت کا۔ حرکت کے سوا نہ کوئی چیز قدیم ہے نہ دائمی۔ ہر چیز حادث اور عارضی ہے، یہاں تک کہ جس حقیقت کو حقیقت اولی کہتے ہیں وہ کائنات کی روح رواں ہے اور جس کو ہم زبردستی مطلق اور قائم و دائم مانتے آئے ہیں وہ بھی یکسر حرکت و تغیر ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ظہور آدمؐ سے اس وقت تک حقیقت کی تلاش ہوتی رہتی ہے، مگر حقیقت کسی کو ملی نہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ حقیقت ساکن نہیں ہے متحرک ہے۔ قبل اس کے کہ کوئی اس کو پائے وہ اپنا روپ بدل دیتی ہے۔ اگر ہم حرکت وحدوث ہی کو حقیقت اولی کہیں تو زیادہ صحیح ہوگا۔
آپ شاید یہ جتانے کے لئے بے چین ہوں کہ یہ کوئی نیا میلان نہیں ہے۔ دنیا کے ادبیات اس سے بھرے پڑے ہیں اور فارسی اور اردو شاعروں کا یہ خاص موضوع رہا ہے، فلک کی گردشیں اور زمانے کے انقلابات ہمارے لئے نئی چیزیں نہیں ہیں۔
ہر گھڑی منقلب زمانہ ہے
یہی دنیا کا کارخانہ ہے
بڑی پرانی بات ہے۔ یہ سچ ہے۔ اس سے پہلے بھی حرکت اور تغیر کا احساس ہم کو ہوتا رہا ہے۔ لیکن اب تک اس کو صرف عالم صورت سے منسوب کیا جاتا رہا ہے اور ہم اس کو مایا سمجھنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ عالم معنی یا عالم حقیقت کو ہم نے ہمیشہ قائم و دائم مانا۔ انسان کی اصل فطرت تو تغیر پذیر اور جدت پسند ہے، لیکن اس نے خود اپنی ایک نئی فطرت بنالی جو ثبات و دوام کی آرزومند ہے۔ اس طرح انسان کی زندگی ایک تصادم ہوکر رہ گئی ہے۔ وہ قانون قدرت سے انحراف کرنا چاہتا ہے اور جب اپنے کو مجبور اور بے بس پاتا ہے تو اپنے دل سے صورت اور معنی، مادہ اور روح، التباس اور حقیقت، وحدت اور کثرت کے قصے گڑھتا ہے۔ ایک کو حادث دوسر ے کو قدیم اور غیرفانی قرار دے کر اپنے کو جھوٹی تسکین دیتا ہے۔
ہاں تو ہمارے ادیبوں اور شاعروں کو اس حقیقت کا احساس تو برابر ہوتا رہا ہے کہ دنیا بدلتی رہتی ہے اور کسی چیز کو ایک حالت پر قرار نہیں، لیکن ہم اس سے گریز بھی کرتے رہتے ہیں۔ اس محیط اور عالم گیر حقیقت کا ذکر ہم جس ماتمی لب ولہجہ اور جس سوگوارانہ انداز میں کرتے آئے ہیں وہ ہمارے اندر مایوسی اور افسردگی پیدا کرکے ہم سے زندگی کا حوصلہ چھین لیتا ہے۔ غالب جیسا زندگی کی ماہیت اور اس کے نکات کو سمجھنے والا شاعر کہتا ہے۔
گردش رنگ طرب سے ڈر ہے
غم محرومی جاوید نہیں
اسی تصور کودوسرے رنگ میں پھر یوں پیش کرتا ہے،
مستقل مرکز غم پر بھی نہیں تھے ورنہ
ہم کو اندازہ آئین وفا ہو جاتا
یہ ان روایتی خیالات کی آواز ہے جو غیر شعوری طور پر پشتہاپشت سے انسان کے رگ وریشے میں جاری و ساری چلے آ رہے تھے۔ لیکن غالب پھر بھی مفکر شاعر تھا اور اس حقیقت کا اس کو احساس تھا کہ یہی گردش رنگ اصل زندگی ہے اور دنیا میں جس قدر سرگرمی اور جوش و خروش ہے، وہ صرف اس لئے ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ کسی صورت اور کسی رنگ کو اپنی جگہ قرار نہیں ہے۔
ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا
وہ یہ بھی جانتا ہے کہ انسان کی سب سے بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ اس کی زندگی ایک نقطے پر ٹھہر کر رہ جائے اور اس کے حال اور مستقبل میں کوئی فرق نہ ہو۔ کہتا ہے۔
زاں نمی ترسم کہ گردد وقعر دوزخ جائے من
وائے گر باشد ہمیں امروز من فردائے من
مگر غالب غالب تھا اور اپنے زمانے اور اس کی روایات و تعصبات سے اکثر برسرپیکار رہتا تھا۔ دوسرے شاعروں کو یہ بات نہیں نصیب ہوئی۔ انہوں نے جب ہم کو اس ’’گردش رنگ‘‘ کا احساس دلایا تو ہمارے اندر خالص افسردگی پیدا ہوئی یا زیادہ سے زیادہ عبرت۔
خیر، یہ لوگ اگلے وقتوں کے تھے اور پرانے زمانے کے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔ ان کو کیا کہا جائے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ آج بھی جبکہ بیسویں صدی اتنے دہ سالے (De cades)ختم کر چکی ہے اور اتنے مرحلوں سے گزر کر موجود عالم گیر خطرے تک پہنچ چکی ہے، اس حرکت و حدوث کے متعلق جو عین عمل حیات ہے اگر ہمارے کانوں میں کوئی آٓواز آتی ہے تو اس کا آہنگ عموما ًوہی ہوتا ہے اور اسی قدر افسردہ کن۔ یاس عظیم آبادی ان شاعروں میں سے ہیں جن کی غزلیں بہت کافی حد تک جدید ادبی ذہنیت کا مرقع ہیں۔ ان کی شاعری زندگی کے نئے ولولوں سے معمور ہوتی ہے۔ مگروہ بھی اس یاس انگیزی کو بھول نہیں سکے ہیں۔ دو شعر اس وقت یاد آگئے۔
ہر شام ہوئی صبح کو اک خواب فراموش
دنیا یہی دنیاہے تو کیا یاد رہےگی
یکساں کبھی کسی کی نہ گزری زمانے میں
یادش بخیر بیٹھے تھے کل آشیانے میں
اقبال جیسا حرکت وعمل کا مبلغ بھی جب ہم سے کہتا ہے کہ،
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
تو باوجود اس کے کہ شاعر کے تصور اور اسلوب دونوں جدید میلان کا پتہ دیتے ہیں، ہم کو شعر کے اندر سپردگی اور بیچارگی کے دبے ہوئے احساس کا پتہ ملتا ہے۔ لیکن اقبال چونکہ ایک مستقل پیغام ہر وقت پیش نظر رکھتے تھے اور زندگی، عمل اور ارتقا کی بشارت دیتے تھے، اس لئے ان کے وہاں اس ماتمی لے کی کھپت نہیں تھی۔ جو شاعر شرار سے ستارہ اور ستارے سے آفتاب کی جستجو کرتا ہے اور جو سورج، چاند اور مشتری کو اپنا ہم عنان سمجھے وہ حرکت اور تغیر کا تپاک کے ساتھ استقبال کرےگا۔ ادب ہو یا زندگی کا کوئی اور شعبہ، ا س کا کام زندگی کی اپج کو بڑھانا ہے نہ کہ اس کو مضمحل کرنا۔
حرکت اور تغیرہی زندگی کی فطرت ہے۔ زندگی ایک نامیاتی حقیقت ہے جو بڑھتی رہتی ہے اور بہتر سے بہتر ہوتی رہتی ہے۔ ہم کو اس حقیقت کو نہ صر ف محسوس اور تسلیم کر لینا چاہئے بلکہ اس سے خوش ہونا چاہئے اور نئے مستقبل کو لبیک کہنا چاہئے، اس لیے کہ وہ ماضی اور حال دونوں سے زیادہ خوبصورت اور شاندار ہوگا۔ اسی کا نام ہیگل اور مارکس نے ’’جدلیات‘‘ (Diaectics) رکھا ہے اور سی کو بیرگسان نے ’’تخلیقی ارتقا‘‘ (Creative Evolution) کہا ہے۔ زندگی نہ صرف مائل ارتقا ہے بلکہ دوران ارتقا میں نت نئی صورتیں پیدا کرتی رہتی ہے۔ زندگی ایک صورت کی تردید اس لئے کرتی ہے کہ اس سے اعلیٰ اور افضل صورت پیدا کر سکے۔
اس حقیقت کو تسلیم کر لینے کے بعد آئیے اب اس روشنی میں ایک سرسری نظر انسان اور اس کی بسائی ہوئی دنیا پر ڈالیں۔ تاریخ وتمدن کا غور سے مطالعہ کیجئے اور ہٹ دھرمی کو راہ نہ دیجئے تو اپنے بہت سے محبوب بتوں کو توڑنا پڑےگا۔ میرا دعوی ہے کہ اگر ہم دنیائے انسانیت کی تاریخ کو نظر میں رکھیں تو نہ ہم قدامت پسند اور روایت پرست رہ سکتے ہیں اور نہ دائمی بغاوت کے علم بردار۔ دائمی بغاوت کا شور بھی معکوس قسم کی روایت پرستی ہے۔ ہم بہر حال لکیر کے فقیر بنے رہنا چاہتے ہیں۔ اب چاہے وہ کوئی لکیر ہو۔ مگر ہماری یہ خواہش نہ معقول ہے اور نہ پوری ہو سکتی ہے، اگر ایسا ممکن ہوتا تو انسان کی زندگی اتنے روپ نہ بدل چکی ہوتی۔
سوچئے تو زمانہ قبل تاریخ سے لے کر اس وقت تک زندگی کے کتنے دور ہوئے ہیں اور بہیمیت اور بربریت سے لے کر علم وحکمت کے موجودہ دور تک اس نے کتنی منزلیں طے کی ہیں، جو انسانی معاشرت قبیلوں کی سرداری سے شروع ہوئی تھی وہ آج پرولتا ریہ کی آمریت (Dictator Ship of the Proletariat) کی سرحد تک پہنچ چکی ہے اور درمیان میں اس کو کتنے مقامات سے گزرنا پڑا ہے۔ جوں جوں زندگی کی ہیئت بدلتی رہی ہے، اس کے تمام شعبے بھی اسی اعتبار اور اسی نسبت سے بدلتے رہے ہیں۔ زندگی کی صحت اور ترقی کے لئے یہ ضروری ہے۔ اس وقت ہم کو اپنی بحث کا دائرہ ایک مخصوص شعبے تک محدو د رکھنا ہے جو ادب کہلاتا ہے۔
ہم اب تک بڑے دھوکے میں مبتلا رہے ہیں۔ ادب کو یوگ اور سنیاس کے قسم کی چیز سمجھتے رہے ہیں جو بیشتر غیبی توفیق پر موقوف ہوتی ہے۔ صدیوں سے یہ خیال ہمارے دل میں جڑ پکڑے ہوئے ہے کہ شاعروں اور فنکاروں کے اندر ایک ماورائی بصیرت کام کرتی ہے جو خدا کاایک خاص عطیہ ہوتی ہے اور جس سے عوا م الناس محروم رہتے ہیں۔ عوام اس بصیرت سے محروم ضرور ہوتے ہیں مگر اس لئے نہیں کہ کسی خود سرمشیت اعلی نے ان کو محروم کر دیا ہے بلکہ اس لیے کہ خواص نے اپنا رعب و اقتدار قائم رکھنے کے لئے عوام کو کبھی موقع نہیں دیا کہ وہ کسی حیثیت سے بھی خواص کی سطح پر آ سکیں، خواص عوام کے حقوق ہمیشہ مارے رہے اور عوام کو اس دھوکے میں مبتلا رکھا گیا ہے کہ زندگی کی سعادتیں خدا کی دین ہوتی ہیں اور اپنی ذات سے حاصل نہیں کی جا سکتیں۔
بہرحال ادیب کسی عالم بالاکی مخلوق نہیں ہوتا اور نہ اس کی دنیا خلق اللہ کی دنیا سے بے تعلق اور بے نیاز رہ سکتی ہے۔ ادیب ایک مخصوص دور، ایک مخصوص ہیئت اجتماعی اور ایک مخصوص نظام خیالات کی مخلوق ہوتا ہے، بالکل اسی طرح جس طرح کہ کسان یا مزدور اور ادب بھی خارجی اسباب و حالات سے اسی طرح اثر قبول کرتا ہے جس طر ح ہمارے اور حرکات و سکنات۔ اگر شاعر کی زبان کو الہامی زبان مان بھی لیا جائے تو پھر یہ الہامی زبان دراصل زمانہ اور ماحول کی زبان ہوتی ہے۔
اس سے انکار نہیں کہ شاعر یا ادیب جو کچھ کہتا ہے، ایک اندرونی تحریک یا اپج سے کہتا ہے جس کو ہم خداداد اور انفرادی چیز سمجھتے ہیں لیکن یہ اپج دراصل ان اثرات و میلانات کا غیر شعوری نتیجہ ہوتی ہے جن کو مجموعی طور پر نظام معاشرت یا سماج کہتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو مختلف ملکوں اور مختلف زمانوں میں اتنے مختلف ادبیات نہ پیدا ہوتے اور آج ’’تاریخ ادب‘‘ ایک بے معنی اصطلاح ہوتی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ قرآن ہندوستان اور ویدعرب میں نازل نہیں ہوا؟ اس وقت کسی ملک میں رامائن، مہابھارت، شاہنامہ، الیڈکے قسم کی چیز کیوں نہیں لکھی جا رہی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب تاریخی ملزومات ہیں جن سے انحراف نہیں کیا جا سکتا۔ زندگی کے ساتھ ساتھ ادب بھی بدلتا رہا ہے اور دور بدور اور درجہ بدرجہ ترقی کرتا رہا ہے۔ یہ دلیل اس بات کی ہے کہ ادب کو زندگی سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا، جیسی زندگی ہوگی ویسا ہی ادب ہوگا اور اگر ایسا نہیں ہے تو ادب اپنے منصب کو بھولا ہوا ہے اور زندہ رہنے کے قابل نہیں ہے، اس لئے کہ وہ غیر تاریخی ہے۔
ادب انسان کے بہترین خیالات و جذبات کے اظہار کا نام ہے اور انسان کے خیالات و جذبات خلا میں نہیں پیدا ہوتے، بلکہ ایک خاص تہذیب اور ایک خاص ماحول کی پیداوار ہوتے ہیں۔ یہ پرانی مثل سنتے سنتے آپ کے کان پک گئے ہوں گے کہ ’’انسان ویسا ہی ہوتا ہے جیسے اس کے خیالات ہوتے ہیں۔‘‘ (Aman is as he thinketh) اس مثل میں حقیقت کو سر کے بل کھڑا کیا گیا ہے، آئیے ہم اس کو اس کی ٹانگوں پر کھڑا کر دیں اور اس کو انسانی حقیقت بنا دیں۔ انسان کے خیالات ویسے ہی ہوتے ہیں جیسا کہ وہ خود ہوتا ہے۔ (A man thinketh as he is) انسان کچھ ہوتا پہلے ہے سوچتا بعد کو ہے۔
مارکس نے ہونے (Being) کو سوچنے (Thinking) پر اور عمل (Practice) کو نظریہ (Theory) پر جو اس قدر فوقیت دی ہے تو اس کا اصل سبب یہی ہے کہ اس نے زندگی کا اصل راز سمجھ لیا تھا۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ ہم سوچنے کو بے حقیقت سمجھیں اور اپنی حیات فکریہ کو التباس سمجھ کر رد کر دیں لیکن ہر چیز کو اس کی مناسب جگہ پر رکھنا چاہئے۔ کیا ہم اس سے انکار کر سکتے ہیں کہ جیسی ہم زندگی بسر کرتے ہیں ویسے ہی ہمارے خیالات وجذبات ہوتے ہیں؟ پھر جس طرح ایک ایک فرد کے خیالات آئینہ ہوتے ہیں اس کے اقتصادی اور معاشرتی حالات کا اور یہی خیالات ادب کے ترکیبی عناصر ہوتے ہیں۔
اگر انسانی تہذیب کے شروع سے اب تک صرف تین باب قائم کئے جائیں تو وہ یہ ہوں گے،
(۱) پروہت کال، یعنی وہ دور جس میں پروہتوں اور کاہنوں کی جماعت برسر اقتدار تھی اور وہ سماج پر حکومت کرتے رہے۔ اس دور میں ادب منتر جنتر کی قسم کی چیز سمجھا گیا۔
(۲) سامنت کال، یعنی وہ دور جس میں معاشرت کی میزان بڑے بڑے سامنتوں اور جاگیرداروں کے ہاتھ میں رہی اور عوام کی زندگی انہیں کے اشارے پر چلتی رہی۔ اس دور میں ادب نے زندگی کی جو تخئیل پیش کی وہ براہ راست یا بالواسطہ انہیں خدا کے عزیز بندوں کی زندگی سے ماخوذ تھی اور انہیں کے مفاد کو پیش نظر رکھتی تھی۔
(۳) مہاجن کال۔ یہ ساہوکاروں کا دور ہے۔ اسی دور سے ہم بھی گزرے ہیں۔ اس دور میں تہذیب و معاشرت کی باگ ڈور بڑے بڑے سرمایہ داروں کے قبضے میں ہے اور وہی اس وقت معیار زندگی کے خداوند بنے ہوئے ہیں۔ زندگی کے جس شعبے میں دیکھئے عرصہ سے انہیں کا سکہ چل رہا ہے۔ ادب ہو یا اخلاقیات، اقتصادیات ہو یا سیاسیات، ہر چیز پر انہیں خداوندان نعمت کی مہرثبت ہے۔
غرض کہ جس دور میں دیکھئے، تمدن کا سررشتہ ایک منتخب اور برگزیدہ گروہ کے ہاتھوں میں رہا جو ہدایت اور رہبری کے پردے میں عوام الناس پر حکومت کرتا رہا۔ مگر اسی کے ساتھ ہم کو یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ اس منتخب گروہ کا دائرہ برابر وسیع ہوتا گیا ہے اور اس میں تعداد کا روز بروز اضافہ ہوتا گیا ہے۔ ہماری تہذیب اقلیت کی تہذیب ضرو رہے، لیکن یہ اقلیت اکثریت کی طرف قدم بڑھاتی رہی ہے۔
ادب چونکہ معاشرتی حالات و میلانات کا آئینہ ہوتا ہے، اس لئے وہ بھی اسی کم تعداد فراغت نشیں اور ذی اقتدار جماعت کی نمائندگی کرتا رہا جس کو ’’اشراف‘‘ کہتے ہیں۔ صحیح معنوں میں ادب کو جمہور کی زندگی سے اب تک کسی ملک اور کسی زمانے میں سروکار نہیں رہا۔ ادب اور فلسفے کی اب تک جن خیالات و افکار سے تشکیل ہوئی ہے وہ امرا اور شرفا کی زندگی سے لئے گئے ہیں۔
اب اس ضمن میں آئیے ایک نظر اردو ادب پر ڈالیں اور دیکھیں کہ وہ اب تک کیا رہا ہے اور کیوں اور اب اس کو کیا ہونا چاہئے۔ اردو زبان جس اہم تاریخی ضرورت سے وجود میں آئی ہے، اس سے ہم ناواقف نہیں ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ اردو کی بنیاد لشکر اور بازار میں پڑی۔ یہ زبان اس لئے پیداہوئی تھی کہ حکومت اور رعیت، اعلیٰ اور ادنی، ہندو اور مسلمان غرض کہ مختلف طبقوں اور مختلف فرقوں میں اس کے ذریعے ربط اور اتحاد پیدا ہو سکے، یعنی اس کی پیدائش ایک جمہوری ضرورت سے ہوئی۔ لیکن وہ بہت جلد اپنے اصلی مقصد سے بہت دور جا پڑی ہے۔
اردو شاعری نے فقرا اور مشائخ کے ہاتھوں پرورش پائی اوربالغ ہوکر بادشاہوں اور امیروں کی منظور نظر بنی۔ خانقاہوں میں اس کا بچپن گزرا اور محلوں میں جوانی، خلق اللہ سے اس کو کیا واسطہ تھا؟ اردو شاعری میں ایک طرف عشق ومحبت اور دوسری طرف ترک دنیا کی جو اس قدر تحریک و ترغیب ہے، تو اس کا سبب یہی ہے کہ اس نے بادشاہوں اور درویشوں کی صحبت میں اپنی عمر گزاری ہے، ورنہ عوام کی روزانہ عملی زندگی میں نہ عشق و محبت کو اتنا دخل ہے نہ زہد و اتقا کو۔
یوں توکسی ملک میں بھی ادب ا ب تک صحیح معنوں میں عام فہم نہیں رہا ہے۔ ادیبوں کی گفتگو آج تک خواص کو چھوڑ کر عوام سے نہیں رہی۔ مگر اردو ادب جس کا زیادہ تر حصہ شاعری پر مشتمل ہے، خصوصیت کے ساتھ خدا کی خدائی سے کوسوں دور ایک چیدہ اور برگزیدہ جماعت کی چیز بنا رہا اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ادب کے عام فہم ہونے پر جتنا اردو زبان میں زور دیا جاتا ہے شاید ہی کسی دوسری زبان میں دیا جاتا ہو۔ یہ دراصل ایک مجرم ضمیر کی آواز ہے۔ ورنہ جس ملک میں ناخواندوں کی تعداد اس قدرعبرت ناک ہو، اس میں ادب کے عام فہم ہونے کا سوال ہی کیا؟ اور پھر اردو ادب کا عام فہم ہونا، جس کو عوام کی زندگی سے اب تک بہت کم سروکار رہا ہے۔
میں نے اس وقت تک جو کچھ کہا ہے اس سے مراد اردو ادب کی توہین یا تردید نہیں تھی میں خود ہی اردو ہی میں قلم گھستا رہا ہوں اور ہزاروں صفحے نامہ اعمال کی طرح سیاہ کر چکا ہوں۔ میں اگر اردو ادب کے خلاف کچھ کہنا بھی چاہتا تو مجھے زیب نہ دیتا، لیکن میرا مقصد یہ نہیں ہے۔ میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ حقیقت حال روشن ہو جائے اور ہم اندھیرے میں کوئی حکم نہ لگائیں۔
اس وقت دنیا کے ہرملک میں ایک جماعت ایسی ہے جوادب اور دوسرے دماغی اکتسابات کی بے حرمتی پر کمر باندھے ہوئے ہے۔ اس کے خیال میں ادب صرف کاہلی اور واقعات سے گریز کا سبق دیتا ہے۔ اب ہم کو اول تو ادب کی چنداں ضرورت نہیں اور اگر ضرورت ہے بھی تو ایسے ادب کی جو زندگی کی دوا دوش میں ہمارے کام آ سکے۔ ہم کو ایسے ادب کی ضرورت ہے جو زندگی کی سچی نمائندگی کر سکے اور زندگی کی نمائندگی سے اس جماعت کی مراد یہ ہے کہ ادب ہماری مادی اور عملی زندگی کے ہر رخ کو اپنا موضوع بنائے اور اس میں کوئی تخیلی رنگ نہ بھرے۔
یہ جماعت جس کویساریوں (Leftists) کی جماعت کہتے ہیں زندگی میں انقلاب نہیں چاہتی بلکہ انتشار چاہتی ہے۔ اس کے سامنے نہ زندگی کی کوئی تخئیل ہے نہ کوئی دستور العمل جس کو وہ اعتماد اور وضاحت کے ساتھ پیش کر سکے۔ یہ جماعت صرف تخریب چاہتی ہے۔ تعمیر کا کوئی تصور اس کے ذہن میں نہیں ہے ورنہ اسلاف کے کارناموں کی قدر و قیمت سے اس طرح بے دریغ انکار نہ کرتی۔ ماضی کی اہمیت سے انکار کرنا اس بات کی کھلی ہوئی دلیل ہے کہ تاریخ کا مطالعہ نہیں کیا گیا ہے۔ ماضی کی کوتاہیوں میں اس طرح کھوکر رہ جانا کہ زندگی کی تعمیر اور توسیع میں اس نے جس قدر حصہ لیا ہے اس سے بھی انکار کر دیا جائے، تنگ نظری اور کم ظرفی کی علامت ہے۔ انتہاپسند لوگ عموماً تنگ نظر اور کم ظرف ہوتے ہیں۔ ہیجان اور انتشار کے زمانے میں ایسے لوگوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ موجودہ دور اس دعویٰ کی دلیل ہے۔
ہندوستان میں بھی ایسوں کی تعداد کافی ہے جو ادبیات ماضی کو خرافات بتاتے ہیں اور نئے ادب سے ایسے مطالبات کر رہے ہیں جن کو وہ خود واضح طور پر نہیں سمجھ سکتے کہ کیا ہیں۔ اردو ادب بالخصوص اردو شاعری پر نئی نسل کا یہ اعتراض ہے کہ اس میں کوئی زندگی نہیں ہوتی۔ اس کے جواب میں تو مجھے صرف یہ دہرانا ہے کہ ادب لوگوں کی زندگی کا آئینہ ہوتا ہے۔ جب لوگوں میں زندگی نہیں تو ادب میں کہاں سے آئے گی؟
یہ اعتراض عامیانہ حد تک عام ہو گیا ہے کہ اردو شاعری میں سوائے گل وب لبل اور شمع و پروانے کے دھرا ہی کیا ہے۔ میں اب تک صحیح معنوں میں نہیں سمجھ سکا کہ اصل اعتراض کیا ہے۔ ’’گل وبلبل‘‘ اور’’شمع و پروانہ‘‘ کے الفاط سے بغاوت منظور ہے یا ان کے مفہوم سے؟ جو لوگ صرف الفاظ پر اعتراض کرتے ہیں انہوں نے ان کی اصل اہمیت پر کبھی غور نہیں کیا ہے۔ گل و بلبل اور شمع و پروانہ، سرو، قمری اور اسی قسم کے اور الفاظ جن کی اردو شاعری میں اس قدر کثرت نظر آتی ہے اب محض لغت کے الفاظ نہیں رہے جن کے معنی محدود ہیں۔ یہ تو اب ایسے رموز و علامات ہو گئے ہیں جو جبر و مقابلہ کے علامات کی طرح ہمہ گیر اور لامحدود وسعت اپنے اندر رکھتے ہیں اورجن کو آج کل کا مشہور نقاد ادب ٹی ایس ایلیٹ (T.S.Eliot)’’ملزومات خارجی‘‘ (Objective Correlatives) کہتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اردو اور فارسی غزل کے اشعار اس کثرت کے ساتھ ضرب المثل نہ ہوتے اور ایک سے زائد حالات پر صادق نہ آتے۔
جب ایک لفظ کو ایک علامت بنا دیا جاتا ہے تو اس میں لامحدود تنوع پیدا ہو جاتا ہے اور کوئی تشخص باقی نہیں رہتا۔ ’گل وبلبل‘‘ سے اردو اور فارسی شاعری میں شاید ہی کبھی واقعی ’’گل و بلبل‘‘ مراد لئے گئے ہوں۔ یہ الفاظ اتنے بے مایہ نہیں ہیں جتنا کہ ان کو سمجھ لیا گیا ہے۔ لیکن اکثر لوگ ’’گل و بلبل‘‘ اور اسی قسم کے دوسرے روایات شاعری پر جب اعتراض کرتے ہیں تو ان کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ اردو شاعری میں حسن و عشق کی داستان کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ یہ شکایت ایک حد تک بجا ہے۔
اردو شاعری میں حسن و عشق کے لے اس قدر بڑھی رہی ہے کہ اب ہمارا جی چاہتا ہے اس کی طرف سے کان بند کر لیں۔ لیکن یہ بھی وقت ہی کا تقاضا تھا، ہمارے شاعروں اور ادیبوں کے سامنے زندگی کی اور حقیقتیں نہیں تھیں۔ وہ ایک خیالی فردوس بنائے ہوئے تھے اور سمجھتے تھے کہ اس خیالی فردوس میں ایک فوقیت کے احساس کے ساتھ وہ زندگی کی تمام سنگین حقیقتوں سے اپنے کو دور اور محفوظ رکھ سکتے ہیں مگر اردو شاعری پر صرف افراط کا الزام لگایا جا سکتا ہے۔ ورنہ ہر زبان کی شاعری کا عام موضوع حسن و عشق ہی رہا ہے۔ اگر اردو زبان غزل کو اپنا طرہ امتیاز سمجھتی ہے تو دوسری زبانیں بھی Lyrics کو اپنا سرمایہ افتحار سمجھتی ہیں اور Lyrics میں بھی حسن و عشق کا عنصر اتنا ہی غالب ہے جتنا کہ غزلوں میں۔
حسن و عشق کا ذکر کوئی جرم نہیں ہے۔ جب تک انسان سے اس کی انفرادیت ایک دم سلب نہ ہو جائے جس کی کسی بعید سے بعید مستقبل میں بھی امید نہیں کی جا سکتی، اس وقت تک عشق کے جذبات ہماری زندگی کے لازمی عنصر بنے رہیں گے اور ہم کو اس ادب کی بھی ضرورت ہوگی، جس کا موضوع عشق ہو۔ البتہ اس موضوع کو وہ غیرضروری اور غیرمتناسب اہمیت نہیں دی جائےگی جواب تک دی جاتی رہی ہے۔ اب بھوک اور پیاس اور دوسری انسانی حقیقتوں کو ادب اور شاعری میں وہی جگہ دی جائےگی جو حسن وعشق کو دی جاتی رہی ہے۔ اب ادب میں ہل، ہنسیا اور ہتھوڑے کا ذکر بھی اس طرح کیا جائےگا جس طرح کہ ابھی تک ’تیرنگاہ‘ اور’خنجر ناز‘ کا ذکر ہوتا رہا ہے۔ اس لئے کہ اب ہم پر یہ حقیقت روشن ہو چکی ہے کہ زندگی میں روٹی بھی اسی قدر ضروری اور پیاری چیز ہے جس قدر کہ ہمارا معشوق۔
جس ’’روح عصر‘‘(Zeit geist) پر آج کل اس قدر زور دیا جا رہا ہے اس سے کسی زمانے میں بھی ادب خالی نہیں رہا ہے۔ اردو ادب بھی زمانہ اور ماحول سے کبھی یک قلم بےگانہ نہیں رہا، بلکہ اس وقت تک وہ جو کچھ رہا صرف اس لئے رہا کہ زمانہ اور ماحول نے اس کو یہی بنایا۔ اردو ادب بھی تاریخی تقدیروں سے اسی طرح مجبور رہا اور اسی طرح دوربدور ہیئت بدلتا رہا جس طرح کسی اور ملک کا ادب۔ البتہ ترقی کے میدان میں اس کی رفتار بہت سست رہی اس کے جہاں اور اسباب تھے وہاں ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ اس کی زندگی اس وقت شروع ہوئی جب کہ ملک کے گلے میں غلامی کا طوق پڑ چکا تھا اور یہاں کی معاشرت کو زوال آ چکا تھا۔
غلام قوم کا ادب بھی غلام ہوتا ہے۔ ترقی کی راہیں اس کے لئے مسدود ہوتی ہیں اور خود اس کے اندر اتنی بھی سکت باقی نہیں رہتی کہ وہ زندگی کی دوادوش میں خاطر خواہ حصہ لے سکے۔ اس پر بھی تمام ناموافق حالات کے باوجود گزشتہ ساٹھ ستر برس میں اردو ادب نے جتنی ترقی کی ہے وہ کم حوصلہ افزا نہیں ہے اور پچھلے پچیس تیس برس کے اندر جو نئے میلانات و امکانات اس کے اندر پیدا ہو گئے ہیں، خاص کر نثر میں، اس کو دیکھ کر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اردو ادب میں بھی زندہ رہنے کی صلاحیت اور ترقی کرنے کی قابلیت اگر پہلے موجود نہیں تھی تو اب پیدا ہو گئی ہے۔
اس وقت دنیا زندگی کے جس سرسامی دور سے گزر رہی ہے۔ وہ تخلیقی اکتسابات کا دور نہیں۔ ایسے دو ر میں ہذیانات اور تشنجی علامات ممکن ہوتے ہیں اور زندگی کے صحیح حرکات و سکنات بھی انہیں علامات کے ساتھ کچھ اس طرح مخلوط ہوتے ہیں کہ دونوں میں امتیاز دشوار ہو جاتا ہے۔ اس وقت جہاں بھی جو ادب پیدا ہو رہا ہے اس کا زیادہ حصہ ہذیانی ہے اور نہیں کہا جا سکتا ہے کہ اس میں سے کتنا زندہ رہےگا اور انسان کی زندگی کے لئے صحت بخش ثابت ہوگا اور کتنامٹ جائےگا۔ اس وقت حیات انسانی ایک کرب کی حالت سے گزر رہی ہے اور جن آثار و علامات کا اظہار کر رہی ہے ان کے متعلق ہم کوئی قطعی حکم نہیں لگا سکتے۔
انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں انگریزی کے مشہور ادیب اور شاعر میتھو آرنلڈ نے اپنی صدی کے بارے میں کہا تھا کہ ’’ہم لو گ دو دنیاؤں کے درمیان کھڑے ہوئے ہیں۔ ایک تو مر چکی ہے اور دوسری میں اتنی سکت نہیں کہ پیدا ہو سکے۔‘‘ یہ انیسویں صدی کے بارے میں کہا گیا تھا، جبکہ اس مرض کا ابتدائی دور تھا جس کو نئی تہذیب کے مہتم بالشان نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ صنعتی انقلاب کو مشکل سے ڈیڑھ سو سال ہوئے تھے۔ اس کے تجربات دنیا کے لئے بالکل نئے اور ناآزمودہ تھے جو دنیا کو امیدوں کے ایک نئے طلسم میں مبتلا کئے ہوئے تھے۔ مہاجنی تہذیب کو انسانیت کی تکمیل اور اس کی نجات کا تنہاذریعہ سمجھا جا رہا تھا۔
یہ بیسویں صدی ہے، دنیا جنگ عظیم اور مابعد کے تجربات سے گزر چکی ہے۔ انقلاب روس اور اس کے اثرات ساری دنیا کو متاثر کر چکے ہیں۔ سرمایہ داری کے پردے فاش ہو چکے ہیں۔ دولت شاہی (Plutocracy) اور مہاجنی تہذیب کے گڑھے ہوئے بت ایک ایک کرکے ٹوٹ رہے ہیں۔ میتھو آرنلڈ کا قول اس وقت حرف بحرف توصحیح نہیں ہے، اس لئے کہ وہ دنیا تو پیدا ہو چکی ہے، لیکن ایک نوزائیدہ کی طرح بے شمار خطروں میں گھری ہوئی ہے۔ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ یہ نیا بچہ ان خطرات سے صحیح سلامت گزر جائےگا یا ان کی نذر ہو جائےگا۔ اگر ان خطروں سے اپنی جان سلامت لے گیا تو آگے چل کر کیا ہوگا؟ اس کے متعلق بھی ہم کوئی حکم نہیں لگا سکتے۔ غرض اس وقت ہم پرانی دنیا کو پیچھے چھوڑ آئے ہیں اور نئی دنیا نظر کے سامنے ہے۔ ابھی اس سے پوری واقفیت ہم کو نہیں ہے۔
ہم ایک عبوری (Transitional)دورسے گزر رہے ہیں۔ اس وقت ہمارے خیالات و جذبات، ہمارے اصول و عقائد، ہماری زندگی کا سارا نظام اور اس کے تمام معیاربدل رہے ہیں۔ پرانی قدریں (Values) سب کی سب منسوخ و متروک ہو چکی ہیں۔ نئی قدریں ابھی متعین ہوکر زندگی کے شعبو ں میں داخل نہیں ہوئی ہیں۔ ان کا تصور توہمار ے ذہن میں آ چکا ہے، لیکن ابھی ہم ان کی طرف سے مذبذب اور بدگمان سے ہیں۔ تشکیک اور تذبذب دور زندگی میں آتے رہتے ہیں۔ لیکن ایسے دور میں فکر و عمل کے بہترین نمونے پیدا نہیں ہوتے، اس لئے کہ یہ تخلیق کا دور نہیں ہوتا اور ادب کی تو ایسے دور میں اور بھی نازک حالت ہوتی ہے۔ ادب کی تخلیق کے لئے ضروری ہے کہ زندگی کی کچھ قدریں اور کچھ معیار متعین ہوں جن پر ہم کو اعتقاد بھی ہو۔ یہی بات اس ہیجان و انتشار کے دور میں ہم کو نصیب نہیں ہے۔
اس وقت دنیا میں بے شمار نئے میلانات پیدا ہو گئے ہیں جو ابھی منتشر ہیں۔ ان میں سے بعض تو ایسے ہیں جو زمانے کے ساتھ مٹ جائیں گے، لیکن بعض مستقل قدر و قیمت رکھتے ہیں اور انسان کی زندگی میں نئی برکتیں لانے والے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ اہم اور ہمہ گیر میلان جمہوریت ہے۔ ادب روز بروز جمہور کی زندگی سے قریب اور طبقہ اعلیٰ کی زندگی سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ یہ صحت کی علامت ہے اور انسانیت کے لئے مبارک۔ لیکن ہر نئے میلان اور ہر نئی سمت میں خطرے بھی ہوتے ہیں جن سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ جمہوریت کامیلان بھی خطروں سے خالی نہیں ہے۔ ہم کو جمہوریت کا صحیح مفہوم سمجھ لینا چاہئے۔
انقلابیوں کا ایک طبقہ ہے جو جمہوریت کے صرف یہ معنی سمجھتا ہے کہ تہذیب و تمدن نے اب تک زندگی میں جتنی نفاستیں اور نزاکتیں پیدا کی ہیں ان کو مٹا دیا جائے، اس لئے کہ اب تک تہذیب کی یہ برکتیں صرف طبقہ اعلیٰ اور طبقہ اوسط تک محدود رہی ہیں۔ یہ جماعت کھلے الفاظ میں یا درپردہ یہ چاہتی ہے کہ معاشرت انسانی کا سارا نظام اس ادنی سطح پر آ جائے جس پر اس وقت جاہل اور غیرتربیت یافتہ عوام کی زندگی ہے۔ ہم کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اول تو یہ ایسا ہونا ناممکن ہے، اس لئے کہ ترقی معکوس ناموس فطرت کے خلاف ہے اور اگر ایسا ہونا ممکن بھی ہوتو ایسا نہ ہونا چاہئے، ورنہ جمہوریت کا اصل مقصد پورا نہ ہوگا اور اشتراکی انقلاب اپنی جڑ آپ کھو دےگا۔
لینن نے اس نکتے کوسمجھ لیا تھا۔ اسی لئے وہ مزدوروں کی تہذیب (Polecat) کوباد ہوائی بات بتاتا ہے جو مریض دماغوں کی ہذیانی اپج ہے۔ ٹراٹسکی بھی اپنی تمام انتہاپسندی کے باوجود اپنی مشہور کتاب ’’ادب اور انقلاب‘‘ میں مزدوروں کی تہذیب‘‘ اور ’’مزدوروں کے ادب‘‘ کو خطرناک اصطلاحیں بتاتا ہے، اس لئے کہ اندیشہ ہے کہ یہ چیزیں تہذیب اور تمدن کے معیار کو خراب کر دیں گی۔ ٹراٹسکی کے خیال میں اگر مزدوروں کی تہذیب کے لئے کوئی معنی ہو سکتے ہیں توصرف یہ کہ عزم اور استقلال کے ساتھ مزدوروں یعنی عوام کے معاشرتی معیار کو بلند سے بلند کیا جائے۔ لینن بھی اپنی معرکۃ الآراکتاب ’’کیا کرنا چاہئے‘‘ (What is to be done)میں اسی پر زور دیتا ہے کہ ہم کو تعلیم و تربیت کو جلد سے جلد کثیر سے کثیر تعداد میں پھیلا دینے کی ضرورت ہے، تاکہ مزدوروں کی ذہنی سطح بلند ہوتی جائے اور ان کا شعور رچتا جائے۔
اس کے یہ معنی ہوئے کہ جو تہذیب اور جو علم و ادب اس وقت دنیا میں موجود ہے وہ طبقہ اعلیٰ کی میراث نہ سمجھی جائے، بلکہ جلد سے جلد وہ عوام کی ملکیت بن جائے اور خلق اللہ کے جو حقوق ایک کم تعداد اور متمول گروہ غصب کئے رہا، وہ ان کو مل جائیں۔ یہ ہے جمہوریت کا اصل مقصد۔ ادبی جمہوریت کا مقصد بھی یہی ہے۔ جو ادب اس جمہوری مقصد کی تکمیل میں کام آئے اس کو جمہوری ادب کہا جائےگا۔ جمہوری ادب کے نہ تو یہ معنی ہیں کہ وہ صرف طبقہ اسفل کے مصنفوں کا اکتساب ہو اور نہ اس کے یہ معنی ہیں کہ وہ عوام کی غیرمہذب اور ناقابل رشک زندگی کو معیاری زندگی بناکر پیش کرے۔ ادب کا کام جمہور کی زندگی کو سنوارنا اور بہتر سے بہتر بنانا ہے۔
جمہوریت کے غلط تصور نے ایک دوسرا خطرہ بھی پیدا کر رکھا ہے۔ نئی نسل کی وہ جماعت جس کو یساریوں (Leftists)کی جماعت کہتے ہیں، جمہوریت یا اشتراکیت کے یہ معنی سمجھتی ہے کہ افراد کی جداگانہ شخصیت کواک دم سلب کر لیا جائے اور انفرادیت کے اظہار کے لئے کوئی گنجائش نہ چھوڑی جائے۔ یہ ایک قسم کا مجنونانہ نہیں تو مجذوبانہ مطالبہ ضرور ہے۔ اسی قسم کے ناممکن اور محال مطالبات پر لینن نے یساریت (Leftism) کوام الصبیان (Infantile Sickness) بتایا تھا۔ جب تک انسان انسان ہے اس وقت تک اس کے اندر انفرادیت باقی رہے گی اور کوئی اشتراکی یا انقلابی دستورالعمل اس کواک دم فنانہیں کر سکتا۔ روس نے اس کو آزما کر دیکھ لیا ہے۔
انقلابی دور کے اوائل میں روس میں روسی مصنفوں اور ناشروں کی انجمن تھی جو’’ریپ‘‘(Rapp) کہلاتی تھی۔ یہ ایک سرکاری محکمہ تھا۔ اس کا کام یہ تھا کہ وہ ہر نئی تصنیف کو شائع ہونے سے پہلے بالاستیعاب دیکھتا تھا کہ آیا وہ اشتراکی تنظیم و تحریک میں کوئی عملی مدد دے سکتی ہے یا نہیں۔ جو تصنیف یا تحریر یا تقریر اس نقطہ نظر سے بےکار ہوتی تھی یا جس کا موضوع اشتراکی موضوع کے سوا اور کچھ ہوتا یا جس میں کوئی انفرادی عنصر زیادہ نمایاں ہوتا تو اس کو غیر اجتماعی کہہ کر رد کر دیا جاتا تھا اور اس کو اشاعت نہ ملتی تھی، لیکن بہت جلد اس کے نقصانات ظاہر ہونے لگے اور ۱۹۳۲ء میں معلوم ہوا کہ روسی ادب اور روسی فنون لطیفہ کی ساری دنیا ایک بے کیف اور تھکا دینے والا ریگستان ہوکر رہ گئی ہے۔ چنانچہ ۱۹۳۲ میں ’’ریپ‘‘ (Rapp) کو توڑ دینا پڑا اور اب روس میں وہ ادبی احتساب نہیں ہے جس کے چلتے اب سے آٹھ دس سال پہلے پڑھنے والوں اور لکھنے والوں کی زندگی ضیق میں تھی۔
ابھی حال میں ایک نقاد نے ادب کے جدید میلانات پر تبصرہ کرتے ہوئے ہم کو بتایا ہے کہ اب ادب کی روح رواں ’’میں‘‘ نہیں ’’ہم‘‘ ہے۔ آج کل شاعری کا جو ’’غیرذاتی‘‘ نظریہ رائج ہو رہا ہے اور دنیا کی شاعری جو نمونے پیش کر رہی ہے وہ اسی جمہوری میلان کی علامتیں ہیں، لیکن ’’میں‘‘ فنا نہیں ہوا ہے اور نہ اس کو فنا ہونا چاہئے۔ ’میں ‘، ’’ہم‘‘ میں شامل ہوکر ہم آہنگی کے ساتھ کام کر رہا ہے اور یہی اس کو کرنا چاہئے۔ ’’میں‘‘ کسی مجذوب کا نام نہیں ہے جس کو دنیا و مافیہا سے کوئی واسطہ نہ ہو۔ صحیح انفرادیت یہ ہے کہ اپنی شخصیت کو سالم و صحیح رکھتے ہوئے اس کو اجتماعی ہیئت کا ایک لازمی اور زندگی بخش عنصر بنا دیا جائے۔
انفرادیت کوئی انوکھاپن نہیں ہے۔ جس انفرادیت کے خلاف ہم کو جہاد کرنا ہے وہ خودپرستی ہے۔ اب تک ہم انفرادیت کے یہ معنی سمجھتے رہے کہ اپنے کو لاتعداد عوام الناس سے برتر اور ممتاز سمجھا جائے اور اپنی زندگی کو ان کی زندگی سے یک قلم بے گانہ اور بےتعلق رکھا جائے۔ یہ انفرادیت یقیناً دنیا سے مٹ رہی ہے، اس لئے کہ وہ مٹنے والی تھی ہی۔ لیکن صحیح انفرادیت کی جو تعریف ابھی میں نے کی ہے وہ باقی ہے اور اس وقت تک باقی رہے گی جب تک انسانیت کی ہیئت نہ بدل جائے۔ یہ انفرادیت ادب کا ایک لازمی عنصر ہے جو ادب کی نشوونما میں مدد دیتا ہے۔ بغیر اس کے ادب میں تنوع کے بجائے ایک تھکا دینے والی یک رنگی آ جائےگی جو ادب کی ماہیت اور غایت دونوں کو فنا کر دےگی۔
اب سے کچھ عرصے پہلے انقلابیوں کی انتہاپسند جماعت ادب میں کسی قسم کے تنوع کی قائل نہیں تھی۔ وہ اپنے ادیبوں کے لئے موضوع اور اسلوب دونوں خود متعین کئے ہوئے تھی اور جو ادیب مقررہ موضوعات واسالیب سے الگ ہوکر کچھ لکھتا تھا اس کو یہ جماعت ادیبوں کے زمرہ میں شامل نہیں کرتی تھی، یا زیادہ سے زیادہ غیرانقلابی یا رجعت پسند ادیب کہہ کر اس کو رسوا کرنے کی کوشش کرتی تھی۔ لیکن اب یہ جماعت بھی صحیح راستے پر لگ چلی ہے اور ادب میں تنوع اور تنوع کے لئے انفرادیت کی ضرورت محسوس کرنے لگی ہے۔ اس کے علاوہ ادب فلسفہ اور تصوف کی طرح عالم تجرید کی چیز نہیں ہے۔ محض دھیان گیان کو ادب نہیں کہتے۔ مجرد اور خالص تصورات ادب کے صحیح موضوعات نہیں ہیں۔
ادب کا تعلق مادی دنیا کے محسوس اور عامۃ الورود واقعات سے ہے۔ جان اسٹریچی (John Strachey) نے اپنی معرکۃ الآرا تصنیف ’’اقتدار کی آئندہ جدوجہد‘‘ (The Coming Struggle For Power) میں بہت صحیح لکھا ہے کہ ’’ادب کسی خاص جگہ کسی خاص وقت میں کسی خاص مرد یا کسی خاص عورت کی کسی خاص صورت حال پر روشنی ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔‘‘ یعنی تنوع اور انفرادیت سے ادب کا خمیر ہوتا ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ پاگلوں اور مجذوبوں کی دنیا سے نرالی نفسیات اور ان کے محیرالعقول زندگی کے حالات کو ادب کا موضوع بنایا جائے تاوقتیکہ یہ نفسیات و حالات کوئی جمہوری اہمیت نہ رکھتے ہوں اور ان کے ذکرسے عوام الناس کا کوئی بھلا نہ ہوتا ہو۔
دنیا نے اب ادب کی ماہیت اور اس کی غایت کو سمجھ لیا ہے۔ ادب یقینا ًجماعت کے ہاتھ میں حربہ ہوتا ہے اور ہرعہد میں کسی نہ کسی حد تک ادب یہی رہا ہے یہ اور بات ہے کہ اس حربے اور دوسرے حربوں میں فرق ہے۔ لیکن اس کا مقصد یہی ہے کہ وہ اجتماعی زندگی کی توسیع و ترقی اور اس کی تہذیب و تکمیل میں مدد دے۔ پہلے وہ جماعت جس کے ہاتھ میں ادب ایک ہتھیار تھا، اقلیت کی جماعت تھی۔ اب یہ اکثریت یا جمہور کی جماعت ہوگی اور بہت جلدکل بنی نوع انسان کی ایک جماعت ہوگی جس میں نہ کہیں اقلیت ہوگی نہ ا کثریت۔ زندگی اور زندگی کا ہر شعبہ اس وقت جمہوریت اور انسانیت کی طرف مائل ہے اور اس کے اندر آفاقی وسعت روز بروز بڑھ رہی ہے۔
آج ادب سے بجا طور پر یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اس کو پروپیگنڈہ یا آلہ تبلیغ واشاعت ہونا چاہئے۔ میں ادب کو اس معنی میں پروپیگنڈہ نہیں سمجھتا جس معنی میں اخبارات پروپیگنڈہ ہوتے ہیں، یا جس معنی میں مارک کا ’’اشتراکی اعلان‘‘ (Communist Manifesto) پروپیگنڈاتھا اورنہ ہر پروپیگنڈا ادب ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ادبیات میں سب سے پہلے اخبارات کو جگہ دی جاتی اور ان سیاسی تقریروں کو ادبی شہ پاروں میں شمار کیا جاتا جو خاص جماعت یا خاص فرقہ کی حمایت اور تائید میں آئے دن ہوا کرتی ہیں۔ آج کٹر سے کٹر انقلابی بھی اخبارات کو ادب میں کوئی جگہ نہیں دیتا۔ روس کے مشہور اجتماعی آلہ نشرواشاعت ’’پروڈا‘‘ کو کوئی ادبی کارنامہ نہیں سمجھا جاتا۔ ادب ڈھنڈورے کے قسم کی چیز نہیں اور ادیب نہ کوئی ڈھنڈورا یا ہوتا ہے نہ مبلغ۔ لیکن اس اعتبار سے ادب یقینا ًایک طرح کی تبلیغ و اشاعت ہے کہ اس کے اندر ایک چھپا ہوا اور غیر محسوس غایتی میلان ہوتا ہے جو اس کا ایک اہم ترکیبی جزو ہوتا ہے اور جو ادب اس میلان سے خالی ہے وہ ادب نہیں ہے۔
میں خالص ’’جمالیت‘‘ (Aestheticism) ’’ادب برائے ادب‘‘ کے نظریے کاقائل نہیں۔ اس دنیائے اسباب و علائق میں کوئی چیز نہ آپ اپنا سبب ہو سکتی ہے، نہ آپ اپنی غایت۔ ادب کا کام زندگی کی نمائندگی کرنا اور اس کو فروغ دینا ہے۔ لیکن میں اس گروہ کی ہاں میں ہاں نہیں ملا سکتا جو ادب کو سیاسیات کی طرح صرف عصری حالات کا آئینہ تصور کرتا ہے اور اس کو وقتی اور عارضی چیز بنائے رہنا چاہتا ہے۔ یہ گروہ ماضی کے اکتسابات کی قدوقیمت کو تسلیم نہیں کرتا اور ان کو حرف غلط کی طرح مٹا دینا چاہتا ہے۔ یہ کم ظرفوں اور سبک سروں کا گروہ ہے جو اپنے وقت کے ہیجان و انتشار میں کھوکر رہ گیا ہے۔ ماضی سے نہ انسان کی زندگی کبھی انکار کر سکتی ہے نہ ادب۔ انسان جو کچھ ہے ماضی کا بنایا ہوا ہے اور آئندہ جو کچھ ہوگا ماضی اور حال کی بدولت ہوگا۔ اقبال کی ’’شمع‘‘ نے شاعر سے کیا کہا تھا،
گل بداماں ہے مری شب کے لہو سے میری شمع
ہے ترے امروز سے ناآشنا فردا ترا
یہی مجھے اس جماعت سے کہنا ہے جو مستقبل کے جنون میں ماضی کی اہمیت کو بھول گئی ہے اور جو بغیر تاریخ اور ارتقا کے راز کو سمجھے ہوئے ترقی کی پکار لگارہی ہے۔ ماضی میں کھوکر رہ جانا تو موت کا پیغام ہوتا ہے۔ لیکن آج تک اس قوم کا بھی کوئی مستقبل نہیں ہوا جس کے پاس اپنا کوئی ماضی نہ ہو اور وہ ادب ترقی نہیں کر سکتا جس میں روح عصرکے ساتھ ساتھ ماضی کی روح بھی نہ موجود ہو۔ ترقی پسند جماعت کے اکثر لوگ ہم سے پوچھتے ہیں کہ ہم شعر و قصائد کے اس ناپاک دفتر کو کیا کریں جو ہمیں ترکے میں ملا ہے۔ آخر میر اور سودا، ذوق اور غالب، داغ اور امیر ہمارے کس کام کے ہیں؟ یہ ایسا سوال ہے جو اب انقلابی روس میں بھی نہیں اٹھایا جاتا۔ شروع شروع میں روس میں ایک جماعت تھی جو اسلاف کے کارناموں کو کوڑا کرکٹ سمجھ کر پھینکے ہوئے تھی لیکن اب اسی روس کو اپنے اسلاف کے ادبی فتوحات پر ناز ہے۔
روس اپنے جدید انقلابی ادب کی تعمیر کے لئے ضروری سمجھنے لگا ہے کہ قبل انقلاب جتنے شاعر اور ادیب گزرے ہیں ان کو نہ صرف محفوظ رکھا جائے بلکہ کثیر سے کثیر تعداد کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ ان کی تصنیفات پڑھ سکیں اور ان کے بہترین اثرات کو اپنے اندرجذب کرکے زندگی کے نئے رجحانات اور نئی ضرورتوں میں کام لا سکیں۔ میر اور غالب سے بھی ہم یہی کام لے سکتے ہیں۔ ان کا مطالعہ ہمارے نئے شاعروں اور ادیبوں کی تہذیب کرےگا اور خود ان کے کارناموں کی قدر کو مستحکم کرےگا۔ اس کے علاوہ قدما کا مطالعہ ہمارے اندر تاریخی بصیرت پیدا کرےگا۔ اگر ادب کو ترقی کرنا ہے اور زندگی کی تعمیر و تکمیل میں نمایاں حصہ لینا ہے تو اس کو چاہئے کہ ماضی کا بار بار جائزہ لیتا رہے، حال میں مشغول رہے اور مستقبل کو پیش نظر رکھے۔ جن ملکوں میں ادب روبہ ترقی ہے وہاں یہ ہو رہا ہے اور جن ملکوں میں ایسا نہیں ہے وہاں ادب مفقود ہو رہا ہے۔
جرمنی کی مثال سامنے رکھئے جہاں ڈاکٹر گوئبل لوگوں کو یہ سمجھا رہا ہے کہ ’’ہمار ے دماغی مشاغل نے ہماری قوم کو مسموم کر رکھا ہے۔‘‘ جہاں ایک شاعر کے انگوٹھے اس لئے کاٹ دیے گئے کہ بیچارے نے قیدخانے سے اپنی بیوی کو خط لکھنے کی اجازت مانگی تھی، جہاں لوگوں کے ذاتی کتب خانے اس لئے ضبط کر لئے گئے کہ ان میں انگریزی کے مشہور مصنف ڈی ایچ لارنس D.H.LA WRENCE اور روس کے رشی فسانہ نگار داسفسکی کی کتابیں بھی نکل آئیں۔ ایسے ملکوں میں ادب کا جو حال ہوگا ظاہر ہے۔ لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جرمنی کو ادب کے ساتھ اپنا برتاؤ بدلنا ہوگا۔ ورنہ بہت جلداس کو تسلیم کرنا پڑےگا کہ وہ دنیا کی مہذب اور ترقی یافتہ قوموں میں کسی حیثیت کا مالک نہیں ہے۔ اٹلی اس معاملے میں جرمنی سے صرف کسی قدر زیادہ ہوش مند اور عاقبت اندیش نظر آتا ہے۔
جس قوم کے پاس اپنا کوئی تاریخی ادب نہیں اس کی مثال ایسے شخص کی ہے جس کی ایک پسلی غائب ہو اور جس قوم کا ادب زمانے کے ساتھ ترقی نہیں کر رہا ہے وہ قوم ایک مہنط لاش سے زیادہ قدر و قیمت کی چیز نہیں۔ ادب انسانیت کی نشوونما کے لئے اسی قدر ضروری ہے جس قدر زندگی کا کوئی اور شعبہ اور ادب اسی وقت زندہ رہ سکتا ہے اور ترقی کر سکتا ہے جب کہ وہ جمہوری اور مجموعی زندگی کی توسیع و ترقی میں مددگار ثابت ہو۔
قدرتی طور پر اس وقت پھر ہمارا ذہن اردو ادب کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ اردو ادب کہاں تک زمانے کے ساتھ ہے اور اس کے حال سے کس مستقبل کا اندازہ ہوتا ہے؟ میں یقین اور اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس کی حالت اتنی مایوس کن نہیں ہے جتنی کہ ہم سمجھ رہے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ اس کی رفتار بہت سست رہی ہے اور اب ممکن ہے کہ اس کو جست لگانا پڑے لیکن غدر کے بعد سے وہ مستعدی کے ساتھ برابر ترقی کے راستے پر چلتا رہا ہے۔ اردو نثر کے ہر شعبے میں جدید میلانات سرایت کئے ہوئے ہیں۔ اردو افسانہ نگاری اور اردو تنقید نئے میلانات و امکانات کو جس طرح اپنے اندر سمو رہی ہے وہ باوجود خاطر خواہ نہ ہونے کے ہم کو اطمینان دلانے کے لئے کافی ہے۔
ہم کو سب سے زیادہ اردو شاعری کی طرف سے اندیشہ تھا، اس لئے کہ اول تو شاعری یوں بھی نثر کے مقابلے میں روایات و رسوم کی زنجیروں میں زیادہ جکڑی ہوتی ہے، دوسرے اردو شاعری تو سرے سے روایات کے بوتے پر زندہ تھی اور اختراع و ایجاد کو اپنے اوپر حرام کئے ہوئے تھی۔ لیکن گزشتہ پچیس تیس برس سے اس کی جو رفتار رہی ہے، اس کو دیکھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کی حالت اتنی خراب نہیں ہے جتنی کہ ہم سمجھتے ہیں اور وہ اس قدر پیچھے نہیں جس قدر کہ اس پر الزام لگایا جاتا ہے۔
ارو شاعری میں ترقی کی جو لے پہلے پہل حالی نے چھیڑی تھی اور جس کو اقبال نے اپنے حکیمانہ پیغام عمل سے اور چکبست نے اپنی وطنیت سے فروغ دیا، وہ اب بھی جاری ہے اور اس میں روز بروز زیادہ وسعت اور گہرائی پیدا ہو رہی ہے۔ جو لوگ غزل سے بیزار ہیں ان کو اطمینان رکھنا چاہئے کہ اب اردو شاعری غزل سے باہر اور میدانوں کا بھی جائزہ لے رہی ہے اور اپنے لئے نئے امکانات اور نئی طاقتیں پا رہی ہے۔ غزل باقی اب بھی ہے اور باقی رہےگی۔ اس لئے کہ ہماری انفرادی زندگی کی شدید کیفیتوں کو بیان کرنے کے لئے غزل کی ضرورت ہمیشہ رہےگی۔ لیکن ہم کو اس حقیقت کا بھی احساس ہو گیا ہے کہ غزل ہماری زندگی کی اور ضرورتوں پر قادر نہیں ہے، خاص کر ہماری غیرذاتی اور خارجی زندگی کا غزل کسی طرح احاطہ نہیں کر پاتی۔ اس احساس کے ماتحت نظم کو جو رواج مل رہا ہے وہ بڑی حوصلہ افزا علامت ہے۔
اس وقت نظم نگاروں کی ایک پوری جماعت ہے جو زندگی کی نئی صلاحیتوں سے اثر قبول کر رہی ہے اور شاعری کو نئی صورت دے رہی ہے۔ جو لوگ اردو شاعری کو محض تحریک خواب (Hypnosis) سمجھے ہوئے ہیں وہ جوش، احسان دانش، روش صدیقی، مجاز اور علی سردار کی نظموں کو پڑھیں اور خود فیصلہ کریں کہ اردو شاعری جدید ترین انقلابی میلانات کے اظہار پر قادر ہے یا نہیں؟ غرض کہ اردو ادب میں بھی ترقی کے کافی آثار ظاہر ہو چکے ہیں اور آئندہ ظاہر ہوتے رہیں گے۔ ہم کو صرف اس بات کو ملحوظ رکھنا چاہئے کہ زندگی کس سمت میں جا رہی ہے اور اس میں کون کون سے نئے اسباب و محرکات پیدا ہو رہے ہیں۔
اب آخر میں ادب کے متعلق چند عام باتیں ذہن نشین کرا دینا چاہتا ہوں۔ اب تک کے ادب پرنئی نسل کا یہ اعتراض ہے کہ اس کا بیشتر حصہ تفریحی یا فراری (Escapist) ہے۔ یہ اعتراض غلط نہیں۔ ادب کی تفریحی غایت پر اب تک ضرورت سے زیادہ زور دیا جاتا رہا ہے اور اس کے افادی اور عملی مقصد کو ہم بھولے رہے ہیں۔ اب ادب کی حقیقت کو دنیا نے سمجھ لیا ہے۔ ادب زندگی کی ایک غایتی حرکت ہے اور وہ محض تفریح نہیں ہو سکتا۔ لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ادب کی ایک غایت تفریح اور زندگی کی تکان دور کرنا بھی ہے۔ مارکس جوہر چیز کو اقتصادی اور معاشرتی نقطہ نظر سے دیکھتا ہے وہ بھی ادب کی تفریحی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے۔
فرانز مہرنگ (Franz Mehring) نے کارل مارکس کی جو سوانح عمری لکھی ہے اس میں اس نے لکھا ہے کہ مارکس ادب کے مطالعے سے دماغی تفریح اور تازگی حاصل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ مارکس کی ادبی بصیرت اس کے سیاسی اور اجتماعی تعصبات سے بالکل پاک تھی۔ البتہ وہ خالص جمالیت (Pure Aestheticism) کا قائل نہیں تھا اور’’ادب برائے ادب‘‘ کو خطرناک نظریہ سمجھتا تھا۔ لیلن کی نجی زندگی کے جو غیرمربوط حالات مکیسم گورکی اور کلیرازٹکن (Clarazetkin) نے لکھے ہیں ان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کے شدید بحرانی اوقات میں بھی لینن ادب کی تفریحی اہمیت کا قائل تھا اوراس سے وہ سکون اور تازگی حاصل کرتا تھا جس کو نفسیات کا ماہر ولیم جیمس ’’اخلاقی تعطیل‘‘(Moral Holiday) کہتاہے اور جس سے ہمارے اندر عملی زندگی کی ایک نئی تاب پیدا ہو جاتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ادب کے دو عنصر ہوتے ہیں۔ ایک تو داخلی یا انفرادی یا جمالیاتی ہے، دوسرا خارجی یا اجتماعی یا افادی ہے۔ چونکہ افراط تفریط کا خطرہ زندگی کی ایک عام خصوصیت ہے، اس لئے ادب میں بھی کبھی ایک عنصر غالب رہتا ہے اور کبھی دوسرا۔ اب تک ادب میں جس عنصر کی افراط رہی ہے وہ داخلی اور جمالیاتی تھا۔ اسی لئے ادب کے تفریحی رخ پر ا ب تک زیادہ زور دیا گیا ہے۔ اب اس کے برعکس ادب میں خارجی عنصر کا غلبہ ہو رہا ہے اور اس کے عملی اور افادی رخ پر ضرورت سے زیادہ زور دیا جا رہا ہے لیکن کامیاب ادب وہی ہے جس میں یہ دونوں عناصر ایک مزاج ہوکر ظاہر ہوں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.