ادب اور زندگی
ادب کیا ہے؟ اس کا وجود دنیا میں کیوں ہوا؟ انسان کی زندگی سے اس کا کیا تعلق ہے یا ہو سکتا ہے یا ہونا چاہئے؟ یہ اور اسی قسم کے بہت سے سوالات جو اسی قدر پرانے ہیں جس قدر کہ خود ادب۔ اور ارباب فکر ہر ملک اور ہر دور میں ان کے جواب دیتے آئے ہیں۔ اگر آج ہم انہیں جوابات کو دہرا دیں تو ہم کو تشفی نہیں ہوگی۔ اس لئے کہ اب ان استفسارات کی نوعیت بدل گئی ہے اور مستفسر کے تیور کچھ اور ہیں۔
پہلے جو ہم ادب اور دوسرے فنون لطیفہ کی ماہیت اور غرض وغایت دریافت کرتے تھے تو اس کا محرک صرف ایک معصومانہ استعجاب ہوتا تھا، جس کی تشفی کسی ایسے جواب سے ہو سکتی تھی جو حسین اور دل نشین ہو۔ لیکن اب ہمارے جواب کودل نشیں نہیں دماغ نشیں ہونا ہے۔ اس لئے کہ اب یہ سوالات عمرانیات (SOCIOLOGY) کے سوالات ہو گئے ہیں۔ ان سے باضابطہ اور مفصل بحث آگے چل کر کی جائےگی۔ اس وقت صرف ایک سوال کو اٹھانا اور اسی سے بحث کرنا ہے یعنی ادب کا انسان کی زندگی سے کیا تعلق ہے؟
ادب کوئی راہب یا جوگی نہیں ہوتا اور ادب ترک یا تپسیا کی پیداوار نہیں ہے۔ ادب بھی اسی طرح ایک مخصوص ہیئت اجتماعی، ایک خاص نظام تمدن کا پروردہ ہوتا ہے جس طرح کہ کوئی دوسرا فرد اور ادب بھی براہ راست ہمار ی معاشی اور سماجی زندگی سے اسی طرح متاثر ہوتا ہے جس طرح ہمارے دوسرے حرکات و سکنات۔ ادیب کو خلاق کہا گیا ہے، لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ قادر مطلق کی طرح صرف ایک ’’کن‘‘ سے جو جی چاہے اور جس وقت جی چاہے پیدا کر سکتا ہے۔ شاعر جو کچھ کہتا ہے اس میں شک نہیں کہ ایک اندرونی اپج سے مجبور ہوکر کہتا ہے جو بظاہر انفرادی چیز معلوم ہوتی ہے۔ لیکن دراصل یہ اپج ان تمام خارجی حالات واسباب کا نتیجہ ہوتی ہے جس کو مجموعی طور پر ہیئت اجتماعی کہتے ہیں۔
شاعر کی زبان الہامی زبان مانی گئی ہے، مگر یہ الہامی زبان درپردہ زمانہ اور ماحول کی زبان ہوتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو تاریخ ادب کی اصطلاح کے کوئی معنی نہ ہوتے۔ جرمنی کے مشہور فلسفی ہیگل نے فلسفے کو تاریخ مانا ہے۔ یعنی فلسفہ نام ہے انسان کے خیالات و افکار کے آگے بڑھتے رہنے اور زمانے کے ساتھ بدلتے رہنے کا۔ اسی طرح ادب بھی تاریخ ہے جس میں کسی ملک یا کسی قوم کے دوربہ دور بدلتے ہوئے تمدن کی مسلسل تصویریں نظر آتی ہیں۔ البتہ اس کے لئے دیدہ بینا درکار ہے۔ فنون لطیفہ بالخصوص ادبیات کسی نہ کسی حد تک قوموں کے عروج وزوال کا آئینہ ضرور ہوتے ہیں۔
ایمرسن کہتا ہے کہ ہرور کو خود اپنا قومی ادب (Classics) پیدا کرنا چاہئے۔ یعنی ہر ادبی کارنامے میں ان عصری میلانات و خصوصیات کا ہونا ضروری ہے جن کے لئے جرمنی زبان میں (ZEITGIEST) کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور جس کے معنی ’’روح عصر‘‘ کے ہیں۔
آج محض حسن کاری کو ادب نہیں کہتے۔ ادب اگر ملک اور زمانے کے تازہ ترین فکریات (IDEOLOGY) یعنی اجتماعی خیالات و افکار کا حامل نہیں ہے تو وہ صحیح معنوں میں ادب نہیں ہے۔ اب یہ حقیقت روشن ہو چکی ہے کہ حسن، خیر اور حقیقت تینوں کو ایک آہنگ بناکر پیش کرنے کا نام ادب ہے اور سب سے بڑا ادیب وہ ہے جو بیک وقت ہمارے ذوق حسن، ذوق فکر اور ذوق عمل کو نہ صرف آسودہ کرے بلکہ حرکت میں لائے۔ اب خیال حسن اور حسن عمل کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور ادبیات کو بے غرض وغایت ہوتے ہوئے بھی غائتی ہونا ہے۔ اس کے اندر ایک دبے ہوئے غایتی میلان (PURPOSE BIAS) کا ہونا لازمی ہے۔
اس کو چند مثالوں سے سمجھئے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اس وقت کسی ملک میں ’الیڈ‘‘ یا ’’ڈوائن کامیڈی‘‘ یا ’’شاہنامہ‘‘ یا’’رامائن‘‘ نہیں لکھی جا رہی ہے؟ اس کا سبب صرف یہ ہے کہ ادیب یا شاعر زمان ومکان سے بغاوت نہیں کر سکتا، اگرچہ وہ ان چیزوں کا غلام بھی نہیں رہ سکتا۔ آج اگر کوئی ادیب ’’الف لیلہ‘‘ تصنیف کرے تونہ صرف اس کی ہم عصر نسل اس کو مجذوب کی بڑیابے وقت کا راگ سمجھ کر ہنسی اڑائےگی بلکہ تاریخ کے کسی دور میں بھی اس کو کوئی ادبی کارنامہ نہیں سمجھا جائےگا صرف اس لئے کہ اس کے اندر وہ ’’روح عصر‘‘ مفقود ہوگی جس کے بغیر ادب بے جان قالب ہو کر رہ جاتا ہے اور زندہ نہیں رہ سکتا۔
’’داستان امیر حمزہ‘‘ کے لئے عام طور سے مشہور ہے کہ وہ اکبر بادشاہ کی تفریح کے لئے لکھی گئ۔ لیکن بعض اہل تحقیق کی رائے ہے جو زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے کہ یہ داستان گیارہویں صدی میں، محمود غزنوی کو آمادہ جہاد کرنے کے لئے تصنیف کی گئی۔ بہرحال یہ داستان ایک ایسی معاشرت اور ایسی اجتماعی ذہنیت کی پیداوار ہے جو مذہب کے نام پر جانیں تلف کرانا کار ثواب سمجھتی تھی، جو زندگی کے ہر مسئلے کو کفر و اسلام کی روشنی میں حل کرتی تھی اور جوسحر و طلسم، دیو پری، گنڈہ تعویذ، آکاش پاتال اور اسی قسم کی اور بہت سی خیالی اور غیر واقعی چیزوں کے وجود پر صدق دل سے ایمان رکھتی تھی۔
میر و غالب اپنے اپنے وقت سے پہلے یا بعد نہیں پیدا ہوئے۔ دلّی کی شاعری اپنے دور کے بعد لکھنؤ میں رواج نہ پا سکی یا لکھنوی شاعری اپنے وقت سے پہلے دلّی میں جنم نہ لے سکی۔ یہ سب محض اتفاقی امور نہیں ہیں بلکہ تاریخی تقدیریں ہیں، جس طرح ہر چیز تاریخ یعنی زمانے سے مجبور ہے اسی طرح ادب بھی مجبور ہے۔ تاریخی جبریت ((HISTORICAL DETERMINISM)کچھ اقتصادیات اور عمرانیات ہی کا قانون نہیں ہے۔ ادبیات کی دنیا میں بھی قدرت کا یہی اٹل قانون جاری ہے۔ یعنی کوئی ادبی پیداوار نہ وقت سے پہلے ہو، نہ وقت کے بعد اور اگر ہوئی تو وہ شاہ کار تسلیم نہیں کی جائےگی اور اس کا تاریخ میں کوئی نام نہ ہوگا۔
دنیا کے ادبیات کا اگر تاریخی مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت دن کی طر ح روشن ہو جاتی ہے کہ زندگی کے اور شعبوں کی طرح ادب بھی انہیں حالات واسباب کا نتیجہ ہے جن کو مجموعی طور پر ہیئت اجتماعی یا نظام معاشرت کہتے ہیں۔ ادب انسان کے جذبات و خیالات کا ترجمان ہے اور انسان کے جذبات و خیالات تابع ہوتے ہیں زمانے اور ماحول کے۔ جیسا دور اور جیسی معاشرت ہوگی ویسے ہی جذبات و خیالات ہوں گے اور پھر ویسا ہی ادب ہوگا۔
تہذیب و معاشرت کی باگ ڈور زمانہ قبل تاریخ سے ہمیشہ ایک چیدہ اور برگزیدہ جماعت کے ہاتھ میں رہی جو ہدایت اور رہبری کے بہانے عوام الناس پر برابر حکومت کرتی رہی۔ عوام خیالات و افکار میں، قول وفعل میں، بودوباش میں اسی حکمراں جماعت کی تقلید کرنے کی کوشش کرتے رہے اور اسی کا نام تہذیب یا عمرانیت یعنی (CULTURE)رکھا گیا۔
انسانی تہذیب کا قدیم ترین دور وہ ہے جبکہ انسان صرف دہشت اور استعجاب کے عالم میں رہتا تھا، جبکہ نظام کائنات کی ہر وہ چیز جودلوں میں خوف یا حیرت پیدا کرتی تھی، دیوی یا دیوتا سمجھی جاتی تھی اور پوجی جاتی تھی اس کو ’’پروہت کال‘‘ یا دور کہانت کہتے ہیں۔ اس دورمیں اول اول تو تحریر کا وجودہی نہیں تھا۔ قدرت کے بے شمار عناصر کو دیویوں اور دیوتاؤں سے تعبیر کرکے ان کی شان میں جو بھجن اور گیت بنائے جاتے تھے، وہ سینہ بہ سینہ چلتے تھے۔ اس دور کے ادبی خدمات یہی بھجن اور گیت ہیں جو ایک منتخب اور مخصوص جماعت کے افکار ہیں۔ یہ پروہتوں یا کاہنوں کی جماعت تھی جو معاشرت اور اس کے ہر شعبے کی امین اور رہبر تھی، جو زندگی اور موت کی رازدار سمجھی جاتی تھی اور جمہور یعنی محنت کرنے والے گروہ کومرعوب کرکے قابو میں رکھنے کا طریقہ جانتی تھی۔
کچھ عرصے بعد جب لکھنا پڑھنا ایجاد ہوا تو اسی حکمراں جماعت نے اس کو اپنا موروثی حق بنا لیا اور عوام کو اس سے محروم رکھا۔ یہاں تک کہ لکھنے پڑھنے کی قابلیت ایک خاص توفیق خداوندی سے تعبیر کی جانے لگی۔ مصر میں کتابیں ایک خا ص قسم کے حروف میں لکھی جاتی تھیں جن کو مصری (HEIROGLYPHS) کہتے تھے اور جن کو صرف کاہن پڑھ سکتے تھے۔ ویدوں کی زبان دیوبانی یعنی زبان الہی کہلاتی تھی اور اتنی پاک اور مقدس تھی کہ شودروں کے لئے حکم تھا کہ اس کو پڑھنا تو ایک طرف کہیں سے اس کا کوئی لفظ سننے بھی نہ پائیں اور اگر کوئی شودر وید کا کوئی لفظ سن لے تو اس کے کان میں سیسہ پلا دیا جائے۔ یہ خرافات و اساطیر کا دور تھا۔ اسی دور میں غازی اور سورما بھی پیدا ہونے لگے اور رزمیاتی تہذیب (EPIC CIVILIZATION) کی بنیاد پڑی۔
جماعت کے وہ افراد جو شکار میں کوئی زبردست مہم کرتے تھے یا جو قدرت کی بھیانک قوتوں کا مقابلہ کرتے تھے، سورما یا غازی یا بطل سمجھے جاتے تھے اور ان کی بڑی تعظیم کی جاتی تھی۔ اس لئے کہ ان کارناموں کو خاص تائید غیبی سے منسوب کیا جاتا تھا۔ یہ کارنامے منظوم کئے جاتے تھے جن کو لوگ گاتے اور سنتے تھے۔ اس طرح ان بہادروں کی مستقل یادگاریں قائم رہتی تھیں۔ غرض کہ تہذیب کا یہ پہلا دور پروہتوں کا دور تھا۔ یونان میں ہومر کے بھجن اور اس کے مشہور رزم نامے ’’الیڈ اورادڈیسی‘‘ اور ہندوستان میں وید، مہابھارت اور رامائن اس تہذیب کی غیرفانی یادگاریں ہیں۔
کچھ عرصے بعد قدرت کی تمام موافق اور مخالف قوتوں کی جگہ صرف دو قوتوں نے لے لی گویا تمام موافق قوتیں مل کر ایک قوت میں تبدیل ہو گئیں جو یزداں یا خدا کہلائی اور تمام مخالف قوتوں نے مل کر ایک دوسری قوت کی صورت اختیار کر لی جس کا نام اہرمن یا شیطان رکھا گیا۔ اسی کے ساتھ ساتھ خرافات و اساطیر بھی زیادہ منضبط اور معقول و مدلل ہوتے گئے۔ یہ مذہبی دور تھا اور ژندواوستا، اسفارموسوی، انجیل اور دوسری الہامی کتابیں اس دور کے سب سے بڑے ادبی اختراعات ہیں۔
سیاسی نقطہ نظر سے یہ اس دور کی ابتداتھی جس کو’’سامنت کال‘‘ یا جاگیر شاہی دور (FEUDALAGE) کہتے ہیں۔ یہ دور ممالک مغرب میں تو اٹھارہویں صدی تک رہا۔ لیکن ہندوستان میں ۵۷ء کے غدر سے پہلے اس کا خاتمہ نہ ہو سکا۔ تمدن اور علم وادب برہمنوں اور کاہنوں کی گرفت سے آہستہ آہستہ آزاد ہو گیا اور بڑے بڑے سامنتوں اور جاگیرداروں کے قبضے میں آ گیا۔ تمدن کی نمائندگی پھر بھی ایک منتخب اور مخصوص جماعت کے ہاتھ میں رہی۔ جاگیرداروں کی جماعت اس عہد میں ذی اقتدار اور حکمراں جماعت تھی اور عمرانی اور معاشرتی معاملات میں ’جنتا‘ یا عوام الناس کی رہبری کر رہی تھی۔
اس دور کے ادبیات کا مطالعہ کیجئے تو معلوم ہوگا کہ خطاب اگرچہ اکثر و بیشتر عوام سے ہے، لیکن ہے ایک خا ص مقام سے اور خیالات و جذبات، رسوم و روایات اور تیور وہی ہیں جو جاگیرداروں اور امیروں کی معاشرت سے ماخوذ ہیں۔ جاگیرداری کی پشت و پناہ مذہب بنا ہوا تھا، اس لئے کہ اس پر یہ راز کھل چکا تھا کہ وہ تن تنہا اپنے پیروں پر کھڑا نہیں رہ سکتا۔ یہ سمجھ کر مذہب نے جاگیرداری کی حمایت کے پردے میں خود اپنے لئے سہارا ڈھونڈا۔ اس سے پہلے بھی پروہتوں نے سورماؤں سے مددلی تھی اور برہمن اور چھتری مل کر ہی جتنا پر حکومت کرتے تھے، لیکن اب تو مذہب نے سلطان وقت کو خدا کا نائب قرار دے دیا، اس کا فرمان حکم الہی ٹھہرا اور رعایا پر اس کی تعمیل ایک مذہبی فرض سے کم نہ تھی۔
اس دور کا ادیب یا تو راہبوں، فقیروں اور صوفیوں کے ہاتھ میں تھا جو اس دنیا سے ہمارا دل اچاٹ رکھنے کی کوشش کرتے تھے اور زندگی کی تاب ہم سے چھین لیتے تھے، یا پھر ان لوگوں کے ہاتھ میں تھا جو طبقہ اعلیٰ سے تعلق رکھتے تھے اور جن کے جذبات و افکار اس دنیائے امارت کے ساختہ و پرداختہ ہوتے تھے جو سر تا سر ریا اور تصنع کی دنیا تھی اور جہاں خزاں کی بے رنگیوں میں بھی صبح بہار کا رنگ قائم رکھا جاتا تھا۔
دنیا کے بہت سے مشہور روزگار ادبی اکتسابات اسی سامنتی تہذیب اور سامنتی دور کی یادگاریں ہیں جن کو دو قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک تو وہ جن میں ہم کو نرک اور درویشی کی تعلیم دی گئی ہے، دوسری وہ جن میں یا تو مجادلہ و مقاتلہ، کشت وخون کی ترغیب ہے یا عیش و امارت اور فرصت و فراغت کی زندگی کی تخئیل ہے۔ ڈانٹے کی ’’ڈوائن کامیڈی‘‘ یوکیچو کی ’’ڈیکمیران‘‘ چاسر کے ’’حکایات کینٹرربی‘‘اور فردوسی کا ’’شاہنامہ‘‘ سعدی کی ’’گلستاں‘‘ جامی کی ’’یوسف و زلیخا‘‘ جائسی کی ’’پدماوت‘‘ اسی تہذیب کے نقوش ہیں۔ رومی اور حافظ، کبیر اور میرابائی وغیرہ اسی ماحول کے تربیت یافتہ ہیں۔
۱۵۰۳ء میں کولمبس نے جمائیکا سے ایک مرتبہ لکھا تھا۔ سونا بھی عجیب و غریب چیز ہے۔ جس شخص کے پاس سونا ہے وہ اپنی خواہشوں کا خداوند ہے۔ سونے سے یہ بھی ممکن ہے کہ روحوں کے لئے فردوس کاراستہ کھول دیا جائے۔ یہ آواز ایک خاص میلان کا پتہ دیتی ہے۔ سولہویں صدی مسیحی قزاقوں کی صدی ہے۔ سارا یورپ سونے کے پیچھے دیوانہ ہو رہا تھا اور جہاں کہیں سونے کا سراغ لگتا تھا لوٹتا، مارتا خود اپنی اور دوسروں کی جانوں کو ہلاک کرتا ہوا پہنچ جاتا تھا۔ اب معاشرت اور تہذیب کی میزان زمینداری نہیں بلکہ زرداری تھی۔ سامنتی تہذیب کی بنیادیں ہل گئیں تھیں اور ساری عمارت ڈھہ رہی تھی۔ اس کی جگہ ایک نئی تہذیب تعمیر ہو رہی تھی جس کا نام ’’دولت شاہی‘‘ (CAPITALIST) تہذیب ہے۔ سولہویں صدی سے لے کر جو دور رہاہے وہ ’’مہاجن کال‘‘ یعنی سرمایہ داری کا دور ہے۔
اس طویل دور کا ابتدائی حصہ جو الیزبیتھ کا دور کہلاتا ہے دو باتوں کے لئے ممتاز ہے۔ ’’سودائے زر‘‘ اور’’جنون سیروسیاحت‘‘ کامطلب بھی سونے کی تلاش ہے، سلطنت کی توسیع تھا۔ اس وقت کے ادب کا مطالعہ کیجئے تواس سے شعوری یا غیرشعوری طور پر یا تو زراندوزی کی تحریک ہوتی ہے یا سیروسیاحت کی۔ شیکسپئر جیسا دنیا کا مسلم الثبوت خلاق ادب کہتا ہے کہ ’’یہ زرد چمکیلی دھات سیاہ کو سفید، کریہہ کو حسین، غلط کو صحیح، رذیل کو شریف، بڈھے کو جوان، بزدل کو جوان مرد بنا سکتی ہے۔ یہ زرد فام غلام مذہبوں کو بنا بگاڑ سکتا ہے۔‘‘
اسی شہرہ آفاق تمثیل نگار کی مشہور تمثیل ’’آتھیلو‘‘ میں ڈزڈیمونہ آتھیلو کے پیچھے صرف اس لئے باؤلی ہو گئی تھی کہ وہ دنیا دیکھے ہوئے تھا اور طرح طرح کی مہمات سر کئے ہوئے تھا۔ اس نے محض اپنی سرگزشت اور اپنے کارنامے بیان کرکے ڈزڈیمونہ کو اپنا فریفتہ بنا لیا تھا۔
بہرحال اب نظام معاشرت اور نصاب اخلاق ساہوکاروں کے ہاتھ میں آ گیا۔ اس انقلاب روزگار کا اثر ادب پر بھی پڑا۔ اب ادب متمول درمیانی طبقے کی زندگی کا آئینہ دارتھا۔ اسپنسر، شیکسپئر، ملٹن، سروانٹیز، کالڈراں سب اسی مہاجنی تہذیب کے تخئیلی پیکر ہیں۔ اسپنسر کی تخئیل پرستی اور ملٹن کی انقلاب پسندی دونوں کہیں محسوس اور کہیں غیر محسوس طور پر اسی دولت شاہی تحریک کے لطیف ارتعاشات ہیں جو نہایت خوبصورت اور دلکش اشاروں میں ہم کو بتاتے ہیں کہ کلیسا کا استبداد صرف اس لئے ختم ہو رہا ہے کہ اب اس کی جگہ کارخانوں کے استبداد نے لے لی ہے۔
اٹھارہویں صدی کے آخیر تک یہ دور بڑے استقلال اور اطمینان کی سانس لیتا رہا، لیکن سونے چاندی کا باندھا ہوا طلسم اس کے بعد اپنا راز فاش کرنے لگا۔ ہمارے بہت سے التباسات دور ہونے لگے۔ ہم کو احساس ہونے لگا کہ صنعتی فروغ نے اس کو کس طرح غلام بنا رکھا ہے۔ بظاہر کلیں اس کے اشاروں پر حرکت کرتی ہوئی نظر آتی ہیں لیکن دراصل وہ خود ان کلوں کے اشارے پر چل رہا ہے۔ اس احساس نے پھر ساری دنیا میں ایک بے چینی پھیلا دی اور ہر طرف ناآسودگی کی لہریں اٹھنے لگیں۔ علم وادب میں اس انتشار اور بے اطمینانی کا نتیجہ وہ عالم گیر تحریک تھی جس کو ’’رومانی بیداری‘‘ (ROMANTIC REVIVAL) کا نام دیا جاتا ہے اور جو مادیت اور ثروت پرستی کے خلاف محض ایک ردعمل تھا۔
اس تحریک کے علم برداروں میں فرانس کے مشہور مفکر اور ادیب روسو کا نام سب سے آگے رہےگا۔ انسان اپنی زندگی کی اصل و غایت کو بھول رہا تھا۔ اس کو چونکا دینے کی ضرورت تھی اور اس دور کے ادیبوں نے یہی کیا ہے۔ گیٹے، ورڈسورتھ، شیلی، بائرن، ٹینی سن، کارلائل، ڈکنس سب نے ایک آواز ہوکر اس تصنع اور کھوکھلے پن کا پردہ فاش کیا ہے جو سرمایہ داری کے ساتھ آیا تھا اور انسانی معاشرت کا جزوبن گیا تھا، لیکن اس دھن میں یہ لوگ دوسری جگہ چلے گئے اور بجائے اس کے کہ حالات و واقعات کا مقابلہ کرتے ان سے پناہ چاہنے لگے۔
اس سمجھ میں نہ آنے والی دنیا کے بھاری اور تھکادینے والے بوجھ کانعم البدل ان لوگوں نے اس خیالی اور ذہنی دنیا کو سمجھا جس میں صرف ہمارے جذبات ہماری رہبری کرتے ہیں اور جس میں اس جسمانی پیکر کی سانس اور انسانی خون کی حرکت بھی تھم جاتی ہے۔ انسان کی روح کو بیدار کرنے کی یہ تدبیر سوچی گئی کہ اس کے جسم کو سلا دیا جائے۔ اس کا لازمی نتیجہ داخلی عنصر کی وہ زیادتی تھی جو اس دور کی سب سے زبردست خصوصیت ہے۔ ’’اعترافات روسو‘‘ سے لے کر بائرن کے ’’چائلڈ ہیرلڈ‘‘ تک ہر ادبی کارنامہ ایک طرح کا ’’نفسیاتی معرکہ کربلا‘‘ ہے جس میں انسان کی اندرونی کشمکش اور ذہنی تصادمات کے نقشے پیش کئے گئے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہر شخص نے ایک خیالی یا ذہنی حصار تعمیر کر لیا ہے جس کے اندر اس نے اپنے کو محفوظ اور مامون کر لیا ہے اور اب وہ خارجی حالات و واقعات سے بالکل بے خبر رہ کر اس حصار کے اندر سے طرح طرح کی صدائے احتجاج بلند کر رہا ہے۔ یہ رومانی بغات (ROMANTIC REVOLT) ایک طرح کا اعتراف شکست تھی۔
اس دور میں روسی ادب کی کوششیں زیادہ مؤثر اور نتیجہ خیز رہیں اور اس کا سبب یہ ہے کہ اس نے ہم کو دنیائے واقعات سے دور ہٹ جانے کی تعلیم کبھی نہیں دی، بلکہ اسی میں مبتلا رہ کر اس کو بدلنے اور سنوارنے کی کوشش کرتا رہا۔ روس کے مزاج میں فطرتا ًواقعہ پرستی زیادہ ہے جو اس کے ادب میں بھی نمایاں رہتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ روس نے آج ساری دنیا کی تہذیب کا رخ بدل کر رکھ دیا ہے جو کوئی اور ملک نہ کر سکا۔ گوگول، ٹورگینف، ڈاسٹفسکی اور تولستائے کی آوازیں گیتے، ورڈس ورتھ، شیلی وغیرہ کی طرح مدر سے یا خانقاہ یاعالم بالا کی آوازیں نہیں معلوم ہوتیں۔ یہ سب اسی دنیا کی فریادیں ہیں جو اسی دنیا میں رہ کراسی دنیا سے کی گئی ہیں۔ ان تمام کوششوں اور تحریکوں سے سرمایہ داری اور امارت کی تہذیب کو جھٹکے تو کئی لگے، لیکن عمارت اتنی پرانی ہو چکی تھی اور بنیادیں اتنی گہری اور مضبوط تھیں کہ سارے جھٹکوں کو برداشت کر لےگئی اور جوں کی توں کھڑی رہی۔ مگر پہلی جنگ عظیم نے جو صدمہ پہنچایا اس کو وہ برداشت نہ کر سکی۔ اس جنگ نے دنیا کے تمدن کا رخ اسی طرح پھیر دیا ہے جس طرح کبھی فتح قسطنطنیہ نے پھیر دیا تھا۔
لینن کا خیال ہے کہ ۱۹۱۴ء کی جنگ صر ف یہ فیصلہ کرنے کی غرض سے چھڑی تھی کہ دنیاکے بڑے سے بڑے ملکوں کو کون غارت کرےگا؟ جرمن قزاق یا برطانوی قزاق؟ مگر دراصل کشت و خون کا یہ بازار اس لئے گرم ہوا تھا کہ ہم پر ہماری تہذیب کی حقیقت کھل جائے اور ہم کو معلوم ہو جائے کہ یہ صدیوں پرانی تہذیب صرف ایک لباس یا سنگار ہے انسانی درندگی اور نفسانیت کا۔ جنگ عظیم نے ہماری آنکھوں سے سارے پردے ہٹا دیے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس وقت دنیائے انسانیت کے پاس کوئی تہذیب نہیں ہے۔ موجودہ دور کی سب سے زیادہ نمایاں اور محسوس خصوصیت انتشار اور پراگندگی ہے۔ نہ کوئی ایک تخیل ہے، نہ کوئی ایک میلان، نہ کوئی ایک معیار اور کہنے کے لئے بے شمار میلانات ہیں جو مختلف اور متضاد سمتوں میں بکھر رہے ہیں۔
یہ انتشار اور ہیجان آج کل کے ادب میں بھی جھلک رہا ہے۔ ہر ادیب اپنی راہ جاتا ہوا معلوم ہوتا ہے، کوئی شدید قسم کی انفرادیت میں پناہ لینا چاہتا ہے، کوئی اشتراکیت کی پکار لگا رہا ہے، کوئی ہمارے غیرشعوری نفسیات کا جائزہ لے رہا ہے، کوئی سماجی اور معاشی تدبیریں سمجھا رہا ہے۔ کوئی قومیت اور جمہوریت کا نعرہ بلند کر رہا ہے، کوئی یوتوپیا کا خواب دیکھ رہا ہے اور ایک آفاقی سلطنت قائم کرنا چاہتا ہے۔ نقادوں کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ ادیب کا کام یہ ہے کہ اپنی شخصیت کو دباکر خود اپنے کو خارجی حقیقت کا ایک جزو بنائے، دوسری جماعت کہتی ہے کہ واہ یہی شخصیت اور یہی انفرادیت تو حاصل ادب ہے۔ غرض کہ جتنے دماغ اتنے خیالات اور جتنے منہ اتنی باتیں۔
ان تمام میلانات اور تحریکات میں دو زیادہ اہم اور عالمگیر ہیں۔ یہ فاشیت (FASCISM) اور اشراکیت (COMMUNISM) ہیں، اور دونوں پرانے بتوں کو توڑنے پر تلی ہوئی ہیں۔ جن ملکوں میں سرمایہ داری نے اپنے کو بچانے کے لئے فاشی آمریت (FASCIST DICTATOR SHIP) کا بھیس اختیار کر لیا ہے ان میں تو ادب سمجھئے مر چکا، اس لئے کہ اس کا خیال ہے ’ذہنی اور دماغی زندگی قوم کے لئے سم قاتل ہے۔ ‘ ہرہٹلر صاف کہتا ہے کہ ’’ادب عزلت نشین اور کاہل سیاہی پاشیوں کا ابلا ہوا پھین ہے۔‘‘ اس کی نگاہ میں ادب صرف تعیش اور تفریح کی چیز ہے۔
لیکن دوسری جماعت سنجیدگی کے ساتھ ادب کا جائزہ لے رہی ہے اور نئے اصول تنقید مرتب کرکے ایک بالکل نئے ادب کی تعمیر کرنا چاہتی ہے۔ اس کے خیال میں ادب کوصرف ایک منتخب اور مخصوص جماعت کی زندگی کا آئینہ نہ ہونا چاہئے، بلکہ جمہوری ذہنیت کی تصویر اور جمہوری زندگی کا حامی ہونا چاہئے۔ اشتراکیوں کی جو کانگریس ۱۹۳۲ء میں خارکاف میں ہوئی تھی اس میں کھلے الفاظ میں یہ طے پایا تھا کہ ادب کو جماعت کی خدمت میں ایک آلہ کار ہونا چاہئے اور اس کا کام تبلیغ اور تنظیم ہے۔
یہ واضح کیا جا چکا ہے کہ ادب آئینہ ہے زندگی کا، اب یہ سوال ہوتا ہے کہ ادب کی صحیح تعریف کیا ہے۔ زندگی اور ادب میں جو تعلق ہے وہ کس قسم کا ہے اور ادب اور زندگی میں امتیاز کیا ہے، کیا ادب کے معنی صرف زندگی کی تکرار یا نقل کے ہیں؟ اگر زندگی کے محض اعادہ یا مثنیٰ کو ادب کہتے ہیں تو پھر اصل اور مثنیٰ میں کیا فرق ہے؟ اور اس کی ہم کو کیا ضرورت ہے؟
ادب یا حسن کاری اگر زندگی کی محض ایک سادہ نقل ہے تو یقیناً ایک فعل عبث ہے جو زیادہ سے زیادہ تفریح کا ذریعہ بن سکتا ہے اور افلاطون نے اگر اس کو اپنی جمہوریت سے خارج کر دیا تو کچھ برا نہیں کیا۔ لیکن دوسرے کے فیصلے سے مرعوب ہوکر بہک جانا خطرے سے خالی نہیں۔ جمالیات (AESTHETICS) کے جتنے نظریے مختلف زمانوں میں مرتب کئے گئے ہیں ان پر ہم کو غور کرنا چاہئے اور تحقیق و تنقید کے بعد خود اپنی رائے قائم کرنا چاہئے۔
تنقید کا ایک معصومانہ دور وہ بھی تھا جبکہ بلاشرح و تفصیل اور بغیر فکر واستدلال کے ایک چیز کے موافق یا اس کے مخالف ایک حکم لگا دیا جاتا تھا اور لوگ اس کو مان لیتے تھے، مثلا شاعری کو پیغمبری کا ایک جزو بتا دیا گیا اور شاعر تلمیذ رحمن مان لیا گیا۔ یا اسی شاعر کو شیطان کا شاگرد سمجھ لیا گیا۔ لیکن اب اس قسم کی الہامی تعریف سے کام نہیں چلتا۔ سب سے بڑی مشکل تو یہ ہے کہ فنون لطیفہ اور بالخصوص ادبیات تمام تشریح و تجزیہ کے بعد بھی اپنا پورا راز ہم پر روشن نہیں ہونے دیتے، اور الہامی یا عینی چیزیں بنے رہتے ہیں۔
انیسویں صدی یورپ میں تنقید ادب کا دور رہا ہے۔ اس صدی میں شعروادب کی طرح طرح سے تعریفیں کی گئی ہیں اور کوشش کی گئی ہے کہ شعروادب کو علم و حکمت کے برابر لاکر کھڑا کر دیا جائے، لیکن اس کے لئے جس جنچے تلے اور منضبط استدلال کی ضرورت تھی، وہ کہیں نظر نہیں آتا۔ سب مجذوبوں کی سی باتیں کرتے ہیں۔ ورڈس ورتھ جو شاعر کو معلم سمجھتا تھا اور خود ایک معلم ہونا چاہتا تھا۔ آٓخر میں اس سے زیادہ نہ کہہ سکا کہ ’’شاعری سار ے علم کی جان اور اس کا لطیف ترین جوہر ہے۔‘‘
کولرج کی تنقید کا لب لباب یہ ہے کہ ’’شاعر کا کام ہمارے شکوک کو تھوڑی دیر کے لئے معطل کر دینا اور وقتی طور پر ہمارے اندر یقین کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا ہے۔‘‘ شیلی بڑے جوش و خروش کے ساتھ شاعری کی حمایت کرنے اٹھا تھا لیکن سب کچھ کہہ چکنے کے بعد بھی اس سے آگے نہ بڑھ سکا کہ شاعری ایک قسم کی ربانی چیز ہے اور تمام علوم کا مرکز و محیط شاعری ہے۔ اس قسم کی مبہم تعریفوں کو اگر آج مجذوبوں کی بڑیا صوفیوں کے ہو حق کی طرح عبث اور بےسود کہا جا رہا ہے تو کچھ زیادہ غلط نہیں ہے۔
سب سے پہلے جس نے ادیب کی معقول تعریف کی اور ’’ادب‘‘ اور ’’زندگی‘‘ میں مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کی وہ میتھوآرنلڈ تھا۔ ادب کی جو اس نے تعریف کی ہے وہ آج تک ضر ب المثل ہے۔ اس نے ادب کو زندگی کی تنقید بتایا ہے۔ یہ تعریف اگرچہ مبہم ہے لیکن ہے بہت گہری اور اس جدید میلان کی طرف اشارہ کر رہی ہے جس نے اسی زمانے میں کارل مارکس سے ’’اشتراکی اعلان‘‘ (COMMUNIST MANIFESTO) لکھوایا۔
’’اسی زمانے میں‘‘ حسن کاری برائے حسن کاری’’یا‘‘ ادب برائے ادب‘‘ کا خالص جمالیاتی نظریہ بھی وجود میں آیا جس کی ابتداکیٹس سے ہوتی ہے۔ کیٹس کو ایسی شاعری سے نفرت تھی جو کوئی محسوس غایت یا کوئی خاص مقصد پیش نظر رکھتی ہو۔ اس کے لئے حسین چیز بجائے خود ایک ابدی مسرت تھی۔ وہ کہتا ہے کہ ’’حسن حقیقت ہے اور حقیقت حسن۔ بس اتنی ہی سی بات ہے اور ہم کو اسی قدر جاننے کی ضرورت ہے۔‘‘ اس کے بعد یورپ کے بڑے بڑے نقادوں نے اس خیال کی حمایت اور اشاعت کی۔ سب نے ایک آواز ہوکر یہی کہا کہ حسن مقصود بالذات ہے اور نیکی اور بدی کے حدود سے بالکل باہر ہے۔
شعروادب کا کام ہمارے اندر حسن کا احساس پیدا کرنا اور اس کو قائم رکھنا ہے۔ یہ احساس حسن ہماری ابدی مسرت کی ضمانت ہے۔ زندگی میں جتنی کریہہ اور بدصورت چیزیں ہیں ان کو بھی حسین بنا دینے کا نام ’’حسن کاری‘‘ ہے۔ والٹرپیٹر اسی جماعت سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کا اصرار ہے کہ ادب کی غایت سوالذت و انبساط کے اور کچھ نہیں۔ آج کل اٹلی کا مشہور فلسفی ماہر جمالیات کروچے اسی ماورائی نظریے کا علمبردار ہے۔ اس کے خیال میں حسن کاری یعنی آرٹ ایک وجدانی تجربہ ہے جو آپ اپنی غایت ہے اور جس کو منطق و فلسفہ یامذہب واخلاق کے اصول سے نہیں جانچا جا سکتا۔ ’’یہ جمالیاتی ماورائیت (AESTHETIC TRANSCENDENTALISM) زندگی پر ایک غیرارضی سطح سے نظر ڈالتی ہے، اور ہر چیز کو حسین و جمیل بناکر پیش کرتی ہے۔ جو چیز زندگی میں کریہہ یا بری ہے وہ جمالیات میں حسین اور اچھی ہو جاتی ہے۔
یہ خالص تخئیلیت (IDEALISM) انسانی معاشرت کے لئے خطرات سے خالی نہیں۔ بدی کو نیکی، جھوٹ کوسچ، بدصورتی کو حسن، غم کو راحت بنانے کی عادت جب حد سے بڑھ جاتی ہے تو بیماری ہو جاتی ہے اور انسان اس کے ہاتھوں کاہلی، تعیش اور مجہولیت کا شکار ہوکر رہ جاتا ہے۔ تخئیلیت نے اگر دنیائے واقعات سے منہ پھیر لیا تو وہ دنیائے انسانیت کی تہذیب و تحسین میں کوئی حصہ نہ لے سکےگی اور ایک قسم کا فالج یا جنون ہوکر رہ جائےگی۔ دنیا کو اس فالج یاجنون سے محفوظ رکھنا ہے۔
تخئیلیت یا رومانیت انسانی تمدن کو جس خطرہ کی طرف لے جا رہی تھی اس کا احساس بہت جلد ہونے لگا اور دھیرے دھیرے یہ احساس ساری دنیا پر چھا گیا۔ سب سے پہلے مارکس اور انگلز نے ہم کو اس حقیقت سے آگاہ کیا کہ حسن کاری اور ادب ہیئت اجتماعی اور نظام تمدن کی خدمت میں آلہ نشر و تبلیغ ہوتے ہیں اور چونکہ تہذیب وتمدن کا اجارہ اب تک طبقہ اعلیٰ یا سرمایہ داروں کے ہاتھ میں رہا اس لئے ہمارے ادیب اور شاعر اب تک جس تہذیب کی نمائندگی کر رہے تھے وہ اقلیت کی تہذیب (MINORITY CULTURE) تھی اور صرف ایک کم تعداد فراغت نصیب جماعت کی پیدا کی ہوئی چیز تھی، جس کو جمہور کی زندگی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
اب چونکہ تمدن کی دنیامیں شدید انقلاب کی ضرورت ہے اور سرمایہ داری کی سربفلک عمارت منہدم ہو رہی ہے اور اس کی جگہ جمہوریت اور اشتراکیت کی نئی تعمیر لے رہی ہے، اس لئے ادب کے رسوم و روایات میں بھی انقلاب کی ضرورت ہے۔ اب تک ادیب سرمایہ دار کی عشرت گاہ کا مزدور تھا اور ایک چیدہ جماعت کے حرکات و سکنات اور اس کے نفسیات ومیلانات اس کی کل کائنات تھی۔ مگراب ادب کو اجتماعی شعور اور جمہوری ذہنیت کا آئینہ ہونا چاہئے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ واقعے کو تخئیل پر ترجیح دیں اور مادی دنیا پر اپنی نظر جمائے رہیں، ورنہ ہم جمہور کے ساتھ نہیں رہ سکیں گے۔
مارکس کے بعد اس کے شاگرد اس نظریے کو اتنی دور لے گئے کہ اس کا اصل مقصد کچھ سے کچھ ہو گیا۔ آج اشتراکیت ادب سے جو مطالبات کر رہی ہے وہ ادب کو ادب نہیں رہنے دیں گے۔ اب ادب کو بھی جماعت کا ایک آلہ جنگ سمجھنے کی تحریک ہو رہی ہے۔ ۱۹۳۲ میں خارکاف کے مقام پر جو اشتراکی کانگریس ہوئی تھی اس میں ایک مقرر نے کہا تھا، ’’قلم بکف ہم لوگ بین الاقوامی مزدوروں کی جماعت کی ناقابل شکست فوج کے سپاہی ہیں۔‘‘ اس کانگریس میں جو باتیں طے پائی تھیں ان کا خلاصہ یہ ہے، (۱) حسن کاری جماعت کا ایک ہتھیار ہے (۲) حسن کاروں اور ادیبوں کو انفرادیت ترک کر دینا چاہئے (۳) جمالیات کی اجتماعی تنظیم ہونی چاہئے اور اس کو فوج اور دفاتر کی طرح ایک مرکزی سرکار اور مرکزی قوانین کے ماتحت ہونا چاہئے اور یہ سب اشتراکی جماعت کے ماتحت انجام پائےگا۔
آپ نے سنا؟ اشتراکیت سپاہیوں کی طرح اپنے ادیبوں اور شاعروں کو بھی سرخ وردی پہنانا چاہتی ہے، اس لئے کہ ان سے بھی قواعد لے جائےگی لیکن یہ ہونا تھا۔ فرعون اور موسی دنیا میں ساتھ ساتھ آتے ہیں۔ خالص جمالیت (AESTHETICISM) نے جو افراط کی تھی اس کا جواب اسی تفریط سے دیا جاسکتا تھا۔ ادب برائے ادب کے نظریے نے ادب کو محض ایک من کی موج اور امیروں کے لئے تفریح کی چیز بناکر رکھ دیاتھا۔ لو گ دنیامیں رہ کر دنیا سے بیگانہ ہو رہے تھے۔ ایک مشہور روسی ادیب کا خیال بہت صحیح ہے کہ ’’ادب برائے ادب‘‘ کا میلان اس بات کی دلیل ہے کہ ادیب اور اس کے ماحول کے درمیان تصادم ہے۔ مادی دنیا سے انسان اس وقت بھاگتا ہے جب کہ وہ مشکلات کا سامنا کرنے کی تاب اپنے اندر نہیں پاتا۔ خالص جمالیات کے حامیوں نے ایک پرانی مثل سے بہت غلط فائدہ اٹھایا اور اس کی تاویل میں بڑی زبردستی کی۔
کہا گیا ہے کہ انسان صرف روٹی سے زندہ نہیں رہےگا۔ اس میں سب سے اہم لفظ ’’صرف‘‘ ہے۔ اس کے یہ معنی ہرگز نہیں تھے کہ انسان بغیر روٹی کے بھی زندہ رہ سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ادب بھی زندگی کا ایک شعبہ ہے، اور زندگی نام ہے ایک جدلیاتی حرکت (DIALCETIC PROCESS) کا جس کے ہمیشہ دو متضاد پہلو ہوتے ہیں۔ ادب بھی ایک جدلیاتی حرکت ہے اور اس کے بھی دو متضاد رخ ہیں۔ ایک تو خارجی یا عملی یا افادی۔ دوسرا داخلی یا تخئیلی یا جمالیاتی۔ حسن کار یا ادیب کا کام یہ ہے کہ وہ ان دو بظاہر متضاد میلانات کے درمیان توازن اور ہم آہنگی قائم کئے رہے ورنہ ان میں سے جہاں ایک کا پلہ بھاری ہوا وہیں فساد و انتشار پیدا ہونے لگےگا۔ مارکس نے جو کچھ کہا تھا اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ ادیب کو زمانے کے پیچھے نہ ہونا چاہئے۔ لیکن اس کے یہ معنی ہرگز نہ تھے کہ ادیب زمانے کا غلام ہے۔
ادب حال کا آئینہ دارضرور ہوتا ہے، لیکن اسی کے ساتھ ساتھ مستقبل کا اشاریہ بھی ہوتا ہے اور اس کے لئے بیک وقت واقعیت اور تخئیلیت، افادیت اور جمالیت، اجتماعیت اور انفرادیت سب کی ضرورت ہے۔ ماحول ادیب کو پیدا کرتا ہے، مگر ادیب ماحول کی ازسرنو تعمیر میں مدد کرتا ہے۔ ادب بیک وقت حال کی آواز اور مستقبل کی بشارت ہے۔ سب سے بڑا ادیب وہ ہے جو حال اور مستقبل کو ایک آہنگ بناکر پیش کرے۔ دنیا میں جتنے بڑے ادیب و شاعر گزرے ہیں وہ سب واقعات کی کثیف دنیا میں گردن تک ڈوبے کھڑے ہیں مگر ان کے ہاتھ ستاروں کو پکڑنے کے لئے آسمان کی طرف بڑھے ہوئے ہیں۔
ادب ایک آلہ نشرواشاعت، ایک ذریعہ تحریک و تبلیغ ضرور ہے، لیکن ایسا آلہ اور ہر ایسا ذریعہ ادب نہیں ہوتا۔ اخباروں سے بڑھ کر نشرواشاعت اور تحریک وتبلیغ کا ذریعہ کیا ہو سکتا ہے۔ مگر اخباروں کو ادب میں شمار کرنے کی جرأت انقلابی تنقید (REVOLETIONARY CRITICISM) بھی مشکل ہی سے کر سکتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اخبارات میں سوا روح عصر کے کچھ نہیں ہوتا اور ادب میں علاوہ ’’روح عصر‘‘ کے بھی ایک عنصر ہوتا ہے جس کا تعلق ’’ماورائے عصر‘‘ سے ہوتا ہے اور جس کی بدولت وہ ادب ہر زمانے کی چیز بن جاتا ہے۔ یعنی وہی واقعیت (REALISM) اور تخئیلیت (IDEALISM) کا شیروشکر ہونا ادب کا اصلی چہرہ ہے۔ آج کل کے مشہور انگریزی نقاد جے بی پریسٹلی (J.B.PRIESTLY) کا خیال بہت صحیح ہے کہ حسن کاری یعنی آرٹ کو زندہ رکھنے کے لئے تھوڑی سی افیون کی ضرورت ہمیشہ پڑےگی۔
میتھو آرنلڈ نے ادب کو جوزندگی کی تنقید کہا تھا تو اس کامطلب یہی تھا۔ ادب جماعت اور افرادکی زندگی کی نہ صرف تصویر ہے بلکہ اس کی تنقید ہے اور مارکس کے نظریے کا مطلب بھی اس سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ اس کا یہ کہنا بہت صحیح ہے کہ فلسفہ اور ادب دونوں صدیوں تک دنیا کی یا تو بجنسہ تصویریں پیش کرتے رہے ہیں یا اس کی تاویلیں کرتے رہے ہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا پر تنقیدی نظر ڈالی جائے اور اس کو بدلا جائے اور بہتر سے بہتر بنایا جائے۔
مارکس اصرار کے ساتھ ہم کو صرف یہ سمجھانا چاہتا تھا کہ زندگی ایک جدلیاتی حقیقیت (DIALECTIC REALITY) اور تغیر اور نمو اور ارتقا اس کی فطرت میں داخل ہیں۔ ادب کو اس کا ثبوت دینا چاہئے۔ اس نے قدیم یونانی فنون لطیفہ اور ادبیات کی مثال دے کر ہم کو سمجھایا ہے کہ یہ ادب صرف اس یونانی معاشرے کا نتیجہ ہو سکتا تھا جو بجائے خود خرافاتی (MY THOLOGICAL AGE) چیز تھی اور خرافاتی تصورات (MYTHOLOGICAL IDEOLOGY) پر مبنی تھی۔ آج کل کا صنعتی دور اور صنعتی تمدن اس ادب کو دہرا نہیں سکتا۔ اگر ادیب کو واقعی زندہ رہنا ہے اور وہ معاشرت کی تہذیب و ترقی میں کوئی نمایاں حصہ لینا چاہتا ہے تو وہ بھاگ کر ماضی میں پناہ نہیں لے سکتا۔
لیکن ادب اگر زندگی کی تنقید ہے تو وہ محض حال پر بھی نہیں اکتفا کر سکتا۔ تنقید کا مقصد ہمیشہ نئی تعمیر ہوتا ہے اور نئی تعمیر کے لئے ہمیشہ ایک استقبالی میلان (PROSPECTIVE ATTITUDE) کی ضرورت ہوتی ہے جس کا دوسرا نام تخئیل ہے۔ کامیاب ادب قدما کے نزدیک بھی دو متضاد عنصروں سے مرکب ہے۔ محاکات اور تخئیل۔ محاکات کا تعلق حال سے ہوتا ہے اور تخئیل کا تعلق مستقبل سے۔ واقعے کے ہمیشہ دورخ ہوتے ہیں ایک تو واقعی یا ساکن اور دوسرا امکانی یا متحرک اور ادیب کی بصیرت ان دونوں کو ایک کر دیتی ہے۔ گویا خواب اور حقیقت کے امتزاج کا نام ادب ہے۔
مارکس کے نظریے پر تبصرہ کرتے وقت ہم کو ہوشیار رہنا چاہئے۔ وہ اس وقت پیدا ہوا جبکہ جرمنی میں ماورائت (TRANSCENDENTALISM) بری طرح چھا رہی تھی اور حکما کائنات کا مرکز مادی سطح سے ایک دم ہٹاکر روحانی سطح پر قائم کرنا چاہتے تھے۔ وہ مادے سے انکار کر رہے تھے اور صرف ایک جوہر اعلی یاروح کو اصل حقیقت مانتے تھے۔ کائنات اور حیات انسانی کی روح رواں یہی جوہر اعلیٰ ہے جو خدا کا دوسرا نام ہے۔ مارکس کی مادیت اس تعلیم کے خلاف ایک بغاوت تھی۔ وہ کہتا ہے کہ زندگی کی ابتدا تصور سے نہیں بلکہ وجود سے ہوتی ہے، اور اس کی بنیاد مادی قوتوں پر ہے۔ ہیئت اجتماعی میں آ کریہ مادی قوتیں زیادہ تر اقتصادی (ECONOMIC) رنگ اختیار کر لیتی ہے۔
زندگی کے اقتصادی پہلو پر مارکس نے جو زور دیا وہ ایک خالص عصری چیز ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ادب اقتصادیات کی غلامانہ پیروی کرتا ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اقتصادیات کل زندگی نہیں ہے، بلکہ اس کا صرف ایک عنصر ہے جو لاکھ سہی لیکن کسی دوسرے عنصر پر غالب نہیں ہو سکتا۔ یہ سچ ہے کہ بغیر روٹی کے کوئی زیادہ عرصے تک زندہ نہیں رہ سکتا، لیکن پھر وہ صدیوں پرانی مثل بھی آج تک بدستور سچ ہے کہ انسان صرف روٹی سے زندہ نہیں رہ سکتا۔
آخر میں دو سوالات واضح کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ ایک تو یہ کہ ادب میں انفرادیت کی گنجائش ہے یانہیں؟ بعض نقادوں کا خیال ہے کہ حسن کار (ARTIST) کو اپنی شخصیت قربان کر دینا چاہئے۔ دوسروں کی رائے ہے کہ نہیں، حسن کار کی اپنی شخصیت اگر اس کے کام میں نہیں جھلکتی تو یہ شدید نقص ہے۔ اگر غور کیا جائے تو درپردہ یہ سوال پہلے ہی حل کیا چکا ہے۔ ادب یا حسن کاری کے دو متضاد پہلو بتائے گئے ہیں۔ ایک تو غایتی یا افادی دوسرا جمالیاتی (AESHETIC) جہاں تک ادب غایتی ہے وہاں تک اس کا تعلق اجتماعی ذہنیت اور معاشرتی میلانات سے ہے، لیکن اس کا جمالیاتی پہلو یقیناً ادیب کی انفرادیت کا ممنون ہوتا ہے۔ آخر اس کا کیا سبب کہ ایک ہی ملک، ایک ہی زبان اور ایک ہی معاشرتی دورکے دو مختلف شاعروں کے کلام ا س قدر مختلف ہوتے ہیں؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ ادب میں صورت اور اسلوب زیادہ ضروری ہیں یا موضوع اور مواد؟ موضوع اور مواد معاشرتی میلانات سے ملتے ہیں اور ادب کے خارجی یا اجتماعی عناصر ہوتے ہیں۔ صورت اور اسلوب کو ادیب کی انفرادیت مہیا کرتی ہے اور وہ ادب کے جمالیاتی عناصر ہوتے ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ ادیب کی انفرادیت خود معاشرتی حالات اور اجتماعی میلانات کی ساختہ و پرداختہ ہوتی ہے۔ یہ سچ ہے لیکن پھر یہ انفرادیت معاشرت اور ہیئت اجتماعی پر بھی اپنا اثر ڈالتی ہے۔ انفرادی مزاج اور اجتماعی میلانات عمل اور ردعمل کا ایک ایسا باہم مربوط سلسلہ ہے جس کو کہیں سے توڑا نہیں جا سکتا۔
مختصر یہ ہے کہ کامیاب ترین ادب وہ ہے جو حال کا آئینہ اور مستقبل کا اشاریہ ہو، جس میں واقعیت اور تخئیلیت، افادیت اور جمالیت ایک آہنگ ہوکر ظاہر ہوں، جس میں اجتماعیت اور انفرادیت دونوں مل کر ایک مزاج بن جائیں، جو ہمارے ذوق حسن اور ذوق عمل دونوں کو ایک ساتھ آسودہ کر سکے۔ اب تک ادب جو کچھ بھی رہا ہو، لیکن اب اس کو یہی ہونا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.