ادب میں قدروں کا مسئلہ
اقبال نے ایک دفعہ کہا تھا کہ ’’جب شاعر کی آنکھیں کھلی ہوتی ہیں تو سماج کی آنکھیں بند ہوتی ہیں اور جب شاعر کی آنکھیں بند ہو جاتی ہیں تو سماج کی آنکھیں کھلتی ہیں۔‘‘ میں یہ قول ایک کلیے کی طرح نہیں دہرا رہا ہوں، بلکہ صرف اس بات پر زور دیناہے کہ شاعر یا ادیب جن قدروں کی علم برداری کرتا ہے، وہ ضروری نہیں کہ رائج قدریں ہوں، ان قدروں کا اعتراف اس کے بعد کے زمانے میں بھی ہو سکتاہے۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ شاعر یا ادیب کسی ایسی قدر پر زور دے جسے آج ترقی کے دور میں دقیانوسی کہنے میں فخر محسوس کیا جارہا ہے۔ اقبالؔ ہی کی ایک نظم سے اس کی مثال دینا چاہتا ہوں۔ وہ اپنی نظم ’عصر حاضر کا انسان‘ میں کہتے ہیں،
عشق ناپید و خردمیِ گز دش صورتِ مار
عقل کو تابعِ فرمانِ نظر کر نہ سکا
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی فطرت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلۂ نفع و ضرر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا
آج سے تریپن سال پہلے جب یہ نظم شائع ہوئی تھی تو تہذیب کے فرزند، سائنس اور ٹیکنالوجی کے مرید، مادی خوشحالی کے علمبردار اور عقلیت کے پرستار اس نظم کو رجعت پرستی کا صحیفہ کہتے تھے مگر اب گنگا میں بہت پانی بہہ گیا۔ ترقی کے جنون، سائنس اور ٹیکنالوجی کی منطق، مشین کی حکمرانی، شہروں کی بڑھتی ہوئی آبادی، قدرتی وسائل کے بے دریغ استعمال، جدید آلات ہلاکت، حکومتوں کے بڑھتے ہوئے اختیارات نے ایسی صورت حال پیدا کردی ہے کہ ہارورڈ کے کچھ پروفیسر تو اس صدی کے آخر تک انسان کے خاتمے کی پیشین گوئی کرنے لگے ہیں اور گو کچھ ماہرین اس رائے کو ضرورت سے زیادہ قنوطی قرار دیتے ہیں مگر رابرٹ ہائیل برونیر ROBERT HEIL BRONIER نے جنوری ۱۹۴۷ء کے نیو یارک ریویو آف بکس میں انسان کے مستقبل پر اظہار خیال کرتے ہوئے جو کہا، اسے کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
وہ کہتا ہے، ’’انسان کے لیے آنے والا زمانہ تکلیف دہ، مشکل بلکہ غالباً مایوس کن ہے اور اس کے مستقبل کے لیے جو امید ظاہر کی جاسکتی ہے وہ بہت زیادہ نہیں ہے۔‘‘
…THE OUT LOOK FOR MAN, IT PAINFUL, DIFFICULT, PERHAPS DESPARATE, AND THE HOPE THAT CAN BE HELD OUT FOR HIS FUTURE SEEM VERY SLIM INDEED،
اب اقبال کے ان دو اشعار پر غور کیجئے،
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
حسن بے پروا کو اپنی بے نقابی کے لیے!
ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن
دیکھیے نویں صدی کا ایک چینی شاعر پو، چو، ای PO-CHU-I کہتا ہے، ’’اس میں کوئی حرج نہیں کہ میرا گھر چھوٹا ہے۔ آدمی ایک سے زیادہ کمرے میں تو نہیں سوسکتا۔ اس میں کوئی حرج نہیں کہ میرے پاس بہت سے گھوڑے نہیں ہیں۔ کوئی ایک ساتھ دو گھوڑوں پر تو سواری نہیں کرسکتا۔۔۔‘‘
مشہور شاعر ڈبلیو بی یٹیس سے جنگ پر ایک نظم لکھنے کے لیے کہا گیا، اس نے جو نظم لکھی اور میں نے اس کا جو ترجمہ کیا ہے، وہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں،
ON BEING ASKED FOR WAR POEM،
I THINK IT BETTER THAT IN TIMES LIKE THESE/A POET’S MOUTH BE SILENT/FOR INTRUTH/WE HAVE NO GIFT TO SET A STATESMAN RIGHT/HE HAS HAD ENOUGH OF MEDDLING/WHO CAN PLEASE A YOUNG GIRL IN THE INDOLENCE OF HER YOUTH/OR AN OLD MAN. UPON A WINTER’S NIGHT''
اس زمانے میں یہ شاعر کے لیے بہتر ہے
کہ وہ خاموش رہے، کچھ نہ کہے
ان سیاست کے اماموں کو راہ راست پہ لانے کے لیے
اس کے اندر نہیں شکتی کوئی
اس کو فرصت ی کہاں ملتی ہے
جو کسی شوخ حسینہ کی جوانی کی ترنگوں کا نشہ
اور بڑھا سکتا ہے، اس کو تلوار بنا سکتاہے
یا کسی بوڑھے کی جاڑے کی کٹھن راتوں میں
کوئی کھوئی ہوئی جنت، کوئی بے باک قدم یاد دلاکر
اس کی تنہائی مٹا سکتا ہے
اس کو فرصت ہی کہاں ملتی ہے؟
حالی نے مسدس میں یہ بشارت دی تھی،
گنہگار سب چھوٹ جائیں گے سارے
جہنم کو بھردیں گے شاعر ہمارے
حالی ہمارے بہت بڑے شاعر اور نقاد ہیں مگر ان کا سچائی کا تصور بڑی حد تک وقتی ضروریات کےتحت تھا۔ اختر رائے پوری نے ادب اور زندگی میں کہا تھا کہ ’’اقبال اور ٹیگور کی شاعری بیماروں کی طرح زندگی سے گریز کرتی ہے۔‘‘ اور اکبر کے متعلق ان کا ارشاد تھا کہ ’’اکبر کی شاعری طنزیہ تک بندی کے پردے میں کفر کے فتوے صادر کرتی ہے۔‘‘ ایسی بے شمار مثالیں دی جاسکتی ہیں مگر ان سے یہ بات تو ضرور واضح ہو گئی ہوگی کہ ادبی قدروں کو سکہ رائج الوقت کے معیار سے پرکھنے کی وجہ سے کچھ لوگ کیا کیا غلطیاں کرتے ہیں۔
ادب میں قدروں کے مسئلے کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے ہمیں ادب کے حقیقی اور مخصوص تصور کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔ ادب زبان کے تخیلی اور تخلیقی استعمال کا نام ہے۔ ادب میں زبان کا کام معلومات عطا کرنا نہیں، تاثرات دینا ہے۔ اس زبان کی بنیاد تو عام زبان پر ہوتی ہے مگر اس میں لفظ گنجینہ معنی کا طلسم ہوتاہے۔ اس مخصوص زبان کے استعمال کی وجہ سے لفظ کائنات بن جاتاہے اور کائنات لفظ میں سمٹ آتی ہے۔ ادب اس وقت وجود میں آتا ہے، جب موضوع اور ہیئت، مواد اور فارم شیرو شکر ہوکر ایک وحدت بن جائیں، کوئی موضوع خواہ کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو، ادب کی عظمت میں اضافہ نہیں کرتا۔ ادیب کا تخیل مانوس جلوؤں میں نئی کرن اور نئے چہروں میں جانے پہچانے نقوش تلاش کر لیتا ہے۔ ادب براہِ راست افکار پر اپنی بنیاد نہیں رکھتا۔ وہ ان افکار پر اپنا رنگ محل بناتاہے جو واردات بن جائیں۔ خیال کے بجائے محسوس خیال کی اہمیت ہے۔
کانٹ نے اپنی کتاب CRITIQE OF JUDGMENT WITHOUT میں آرٹ کی لامقصد مقصدیت پر زور دیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آرٹ کا مقصد تو ہے مگر یہ مقصد کسی عمل کی طرف نہیں لے جاتا۔ آرٹ اور پروپیگنڈہ میں یہی فرق ہے۔ آرٹ اور ادب، کسی فلسفے، کسی سیاسی نظریے، کسی اخلاقی صحیفے، کسی مذہبی تصور سے فائدہ اٹھاسکتا ہے مگر وہ ان کی پٹری پر چلنا پسند نہیں کرتا۔ ان سے توانائی اور تب و تاب لیتا ہے مگر اپنے تخیل کی طلسمی چاندنی میں انھیں ایک نیا رنگ و آہنگ عطا کردیتا ہے۔ اسی بات سے یہ بات نکلتی ہے کہ ادب علوم سے کمتر ہے نہ افضل، ان سے مختلف ہے۔ علوم اپنے منطقی استدلال، مشاہدے، تجربے اور معروضیت کے وسیلے سے ہمارے علم میں اضافہ کرتے ہیں۔
ادب اپنے تخیل، احساس، ذاتی تجربے، ذاتی نظر اور اپنے جام جہاں نما کے ذریعے ہمیں اپنی ذات سے بلند ہوکر دوسرے انسانوں، انسان اور فطرت کے گوناگوں رشتوں، اس کے درد و داغ اور سوز وساز، اس کے خوابوں اور ان کی شکست سے ہمیں آشنا کرتاہے۔ وہ ماضی کے دھندلکے کو منور کرتا ہے اور حال کی بھول بھلیاں میں ماضی کے پیچ و خم دیکھتا ہے۔ وہ جادو کے دور کے آدمی سے لے کر مشین کے عہد کے انسان تک کارزمیہ اور المیہ لکھتا ہے۔ وہ تقدیر امم کے راز بھی فاش کرتا ہے اور خدائی کے راز بھی۔ وہ انسان میں آدمی اور آدمی میں انسان دیکھتا اور دکھاتا ہے۔ وہ فکر کو فن اور فن کو حسن بناتا ہے۔ وہ اپنے خوابوں اور تجربات کے ذریعہ سے حقائق کی توسیع کرتا ہے۔ وہ ہمیں ان حقائق سے آنکھیں چار کرنے کی جرأت عطا کرتا ہے جن سے ہم کسی خوف یا کسی پابندی یا کسی تنگ نظری کی وجہ سے چشم پوشی کرتے رہے ہیں۔
ادب کی ایک اور دلچسپ خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اس طرح ترقی نہیں ہوتی جس طرح مثلاً سائنس میں ہوتی ہے۔ سائنس کا اگلا قدم پچھلے قدم کو باطل کر دیتا ہے۔ آئین سٹاین نے نیوٹن کو اور جدید طبعیات نے قدیم طبعیات کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اقتصادیات میں بھی ترقی ہوتی ہے مگر جس طرح افلاطون اور ارسطو، کانٹ اور ہیگل کے باوجود اسی طرح سربلند ہیں، اسی طرح ہومر اور کالی داس، دانتے اور گویٹے اور اقبال اور ٹیگور ہر ایک کی الگ عظمت ہے جو کسی دوسری عظمت کے سامنے سرنگوں نہیں ہے۔ یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ ادب میں بھی تعداد اور اصناف کے لحاظ سے اضافہ ہوتا ہے مگر اس اضافے کے باوجود ترقی یا بڑھوتری کاسوال نہیں ہے۔
میں نے کہا تھا کہ ادب اس وقت وجود میں آتا ہے جب موضوع اور ہیئت، مواد اور فارم شیر و شکر ہوکر ایک وحدت بن جائیں۔ اس وحدت کے بغیر ادب کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ میں جانتاہوں کہ کچھ لوگ ادب میں موضوع کو یا مواد کو یا معنی کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ کچھ لوگ ہیئت کو یا فارم کو یا الفاظ کو۔۔۔ میرے نزدیک یہ انتہا پسندی ہے۔ براہِ راست مواد کی اہمیت نہیں، مواد کے فارم بن جانے کی اہمیت ہے۔ فارم نام ہی مواد کے حسن کے سانچے میں ڈھل جانے کا ہے۔ اس لیے فارم مواد کے پگھل کر ربط اور پیچیدگی کے ذریعہ سے ایک جادوئی قالب، ایک سمفنی بن جانے کا عمل ہے۔
اس ربط اور پیچیدگی کو ہی وارن اور ویلک نے ادب کی بنیادی قدر کہا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہےکہ چونکہ فلسفے میں بھی ربط اور پیچیدگی ہوتی ہے اس لیے فلسفے سے ادب میں گہرائی پیدا ہوسکتی ہے مگر یہ لازمی نہیں ہے کیونکہ ادب جذبے سے زیادہ اور خیالات سے کم سروکار رکھتاہے مگر لانیل ٹرلنگ اپنی کتاب ’’لبرل تخیل LIBERAL IMAGINATION میں اس بات پر زور دیتا ہے کہ افکار کی بھی ادب میں اہمیت مسلم ہے کیونکہ فن کاری اور ادب میں بہرحال ایک شعوری عمل ہوتا ہے۔ وارن اور ویلک نے اس سلسلے میں گوئٹے اور ٹامس مان کی مثال دی ہے۔ گوئٹے کے فاوسٹ کی پہلی کتاب اور ٹامس مان کے ناول جادوئی پہاڑ MAGIC MOUNTAIN کا پہلا حصہ ادب کے بلند ترین معیار پر پورا اترتا ہے مگر فاوسٹ کی دوسری جلد اور ٹامس مان کے ناول کا نصف آخر غیر منہضم فلسفے کی وجہ سے اعلیٰ درجے کا ادب نہیں بن پایا۔
کروچے تو یہاں تک لکھتا ہے کہ دانتے کی طربیہ خداوندی، چند اعلیٰ ترین نظموں کا ایک مجموعہ ہے جس میں بیچ بیچ میں طویل مذہبی مباحث آ گئے ہیں۔ کہنا یہ ہے کہ جمالیات کا ایک اسکول، ادب کی صرف جمالیاتی قدر کا قائل ہے مگر ایسے بھی بہت سے عالم ہیں جو ادب کے اس ’’خالص‘‘ تصور کو تسلیم نہیں کرتے اور جو فارم کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس میں جذب افکار کو بھی مناسب اہمیت دیتے ہیں۔ میرے نزدیک فن میں اولین شرط تو یہی جمالیاتی قدر ہے مگراس کے علاوہ بعض افکار، مثلاً اخلاقی یا سماجی افکار کی اہمیت بھی مسلم ہے۔
میں یہ تو نہیں مانتا کہ ادب کسی فلسفے، سیاسی نظریے یا نظام اخلاق کا چاکر ہے مگر وہ فلسفیانہ یا سماجی یا اخلاقی افکار کو اپنے طور پر جذب کرکے، اپنی نظر میں گہرائی ضرور پیدا کرلیتا ہے۔ یہ رشتہ حاکم اور محکوم کا نہیں بلکہ ایک آزاد رشتہ ہے۔ ادیب کسی سماج کی پیداوار ہے مگر ادب ایک فرد کا کارنامہ ہے۔ ادیب کو کچھ افکار وخیالات اور ایک اجتماعی لاشعور، ایک زبان اور ایک ادبی روایت ورثے میں ملتی ہے یعنی وہ کچھ قدروں کے نظام میں اس طرح تیرتا ہے جس طرح مچھلی دریا میں تیرتی ہے۔ پھر اس کی مخصوص نظر اور منفرد بصیرت اسے کچھ خاص احساسات وتجربات دیتی ہے جن کی وجہ سے وہ کسی فکر کو رد کرتا ہے اور کسی کو قبول۔
ہربرٹ ریڈ نے جدید ادیب یا شاعر کی تقدیر اس طرح بیان کی ہے کہ شروع میں زندگی ایک نقطہ تھی اور اس نقطے میں شاعر بھی شریک تھا۔ پھر اس نقطے کے گرد دائرہ بنا اور شاعر یا ادیب اس دائرے میں مرکزی نقطے کی حیثیت سے رہا۔ بعد میں وہ مرکز سے ہٹ گیا مگر رہا دائرے کے اندر۔ جدید شاعر اب اس دائرے کو توڑکر باہر نکل گیا ہے۔ کچھ لوگ اس کے یہ معنی لیتے ہیں کہ ادیب سماج سے کٹ گیا ہے اور اس بات پر بہت سے سماج کے ٹھیکے دار اس پر تبرا بھی کرنے لگے ہیں مگر میری گزارش یہ ہے کہ ادیب سماج سے نہیں کٹا، وہ سماج سے کٹ بھی نہیں سکتا۔ ہاں اس نے سماج کے مروجہ اور مقررہ دائرے کے بجائے ایک دوسرا دائرہ بنالیا ہے مثلاً قوم پرستی یقیناً قبیلہ پرستی سے بہتر ہے مگر شروع سے ادیب انسانی برادری کی وحدت اور مساوات پر زور دیتا ہے۔ اگر وہ جارحانہ قوم پرستی کی مخالفت کرے اوربین الاقوامیت یا انسان دوستی کی حمایت تو در اصل یہ ایک چھوٹی وفاداری کے بجائے بڑی وفاداری کی حمایت ہے اور چھوٹی وفاداری کے مبلغ اسے وطن دشمن بھی کہہ سکتے ہیں۔
اسی طرح ایک قدر گروہ سے مطابقت کی بھی ہے جس کے مقابلےمیں انفرادیت کے بھی تقاضے ہیں۔ کرٹ بایر اور نکولس ریشر KURT BAIER AND NICHOLAS RASCHER نے اپنی کتاب مستقبل کی قدریں VALUES OF THE FUTRE میں دو قسم کی قدروں کی ایک فہرست دی ہے۔ ایک کو وہ اوپر لے جانے والی۔ UPGRADING اور دوسری کو نیچے لے جانے والی DOWN GRADING قدریں کہتا ہے۔ اوپر لے جانے والی قدروں میں انسانی برادری کی طرف مائل MANKIND ORIENTED شامل ہیں۔
یعنی انسان دوستی اور بین الاقوامیت، ذہنی خوبیاں، معقولیت اور عقلیت، مدنی خوبیاں، گروہ سے مطابقت، سماجی فلاح، سماج کے سامنے جواب دہی، تنظیم، پبلک سروس اورجمالیاتی قدریں ہیں۔
نیچے لے جانے والی قدریں قوم کی طرف مائل ہیں، جس میں حب وطن اور مقامیت CHAUVINISM شامل ہیں۔ گھریلو خوبیاں، ذمے داری، اور جواب دہی، آزادی (اپنے تمام مفاہیم میں)، ذات کی ترقی، اقتصادی تحفظ، ملکیت کے حقوق اور انفرادی آزادی عموماً ترقی پسندی اور رجائیت یعنی انسان کی اپنے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت آتی ہیں۔ فی الحال اس نکتے کو نظرانداز کر دیجئے کہ اوپر اور نیچے میں بھی ایک قدر شناسی ہے۔ بہرحال یہ بات صاف ہے کہ اگر ادب کی مخصوص بصیرت اور ادیب کی مخصوص نظر اور اس کی اپنے تخیل کی مدد سے زندگی کے تجربات کی معنی خیزی اور تہہ داری کو جمالیاتی روپ دینے میں کلام نہیں تو اسے یہ حق ہونا چاہیے کہ وہ بعض مروجہ سماجی اور اخلاقی، یا سیاسی قدروں کی نفی اس لیے کرے کہ اسے رومی کی طرح بنائے کہنہ کو آباد کرنے کے لیے دیوار کو پہلے مسمار کرنا پڑتا ہے۔
اس کے کفر میں کوئی اور ایمان، اس کے انکار میں کوئی اور اقرار، اس کی تخریب میں کوئی اور تعمیر، اس کے مزاج میں کوئی اور تنظیمی شعور ضرور ہوتاہے۔ اس کا مسالہ اس کے الفاظ ہیں اور جب وہ ایسے الفاظ کو جنھیں خطیبوں، پیشہ ور رہنماؤں، سیاسی مداریوں اور دفترشاہی نے کثرت استعمال سے بے روح بنادیا ہے، ترک کرکے ارسطو کی ہدایت کے مطابق کبھی اجنبی، کبھی توسیع یافتہ، کبھی پرانے مگر بھولے ہوئے الفاظ استعمال کرتاہے تو گویا وہ زبان کو ایک حیات آفریں غسل دیتا ہے اور ذہن کو خیالات کی نت نئی کرن۔ اس لیے فکر وفن میں آزادی، میرے نزدیک سب سے بڑی قدر ہے۔ یہ آزادی مکمل آزادی نہیں ہے، بلکہ رائج، مقبول، وقتی اور محدود وفاداریوں سے آزادی ہے تاکہ فن کار اور ادیب زندگی کے تجربات کو نئے معنی اور مفاہیم دے سکے یا نئے حقائق کو ازلی اور ابدی صداقتوں سے مربوط کرسکے۔
فن اور فن کار کی یہ آزادی محض انفرادیت کا رجز نہیں ہے۔ اس کے پیچھے زندگی اور فن سے گہری عقیدت اور محبت چھپی ہوئی ہے۔ آندرے مالرو نے جب کہاتھا کہ آرٹ اپنی تقدیر کے مقابلے میں ہماری بنیادی مدافعتوں میں سے ایک مدافعت ہے تو اس کا یہی مطلب تھا اور یہی وجہ ہے کہ صنعتی دور کے فروغ کے زمانے سے بڑا ادب زیادہ تر احتجاجی رہا ہے۔ یورپ میں صنعتی انقلاب کے اثرات جب ظاہر ہونے لگے تو رومانیت کا دور آیا جس نے فرد کو محض عقل کا پتلا اور مشین کا محکوم ماننے سے انکار کر دیا اور عقل پرستی اور فطرت کی تسخیر کے مقابلے میں تخیل کی تازہ کاری اور لالہ کاری اور فطرت اور انسان کے ایک ناقابل شکست رشتے پر زور دیا۔
انیسویں صدی کے ادب میں حقیقت پسندی REALISM کے ساتھ ساتھ رومانیت یا تخیل کی پرستش کو بھی فروغ ہوا، جس نے آگے چل کر اشاریت پرستی یا علامت پرستی کے امکانات بھی روشن کئے۔ سرمایہ دار سماج نے ادب پر زیادہ پابندی عاید کرنا ضروری نہ سمجھا کیونکہ اسے اطمینان تھا کہ عوامی وسائل MASS MEDIA اورتجارتی ادارے، ادیب کے طوطی کو نقارخانے کے شور میں گم کر سکتے ہیں۔ سوشلسٹ سماج میں لفظ کی طاقت کو شروع سے پہچان لیا گیا تھا۔ اس لیے اس پر پابندی لگانے اور اسے اپنے فوری سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کو ضروری قرار دیا گیا۔ دونوں نظاموں میں اعلا ترین قدر حکومتوں کا مفاد ہے، جس کے معنی سرمایہ دارانہ سماج میں صنعتوں کے مالک اور برسراقتدار عناصر کے ہیں اور سوشلسٹ سماج میں سیاسی پارٹی کے اعلیٰ ترین کارکن جنھیں جلاس DIGILAS ایک نیا طبقہ کہتا ہے۔ یہ حکومتیں ایک ایسی نوکر شاہی کو جنم دیتی ہیں جس میں فرد، اس کی امنگوں اور آرزؤں کی کوئی قیمت نہیں۔ اسے تو مشین کا ایک پرزہ بن کر ہی رہنا ہے۔ شاد عظیم آبادی کا ایک شعر ہے،
تمناؤں میں الجھا گیا ہوں
کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں
چنانچہ دونوں سماجوں میں فرد کو کچھ کھلونے دیے گئے ہیں۔ ترقی کا کھلونا، مادی خوش حالی کا زینہ، جس کی سیڑھیاں بڑھتی ہی جاتی ہیں، فطرت کائنات اور خلا کی تسخیر ایسے ہی کھلونے ہیں، جن کے لئے سائنس اور ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے اور یہ سمجھا یا جارہا ہے کہ اس راستے پر چلنے سے انسان کے سارے دلدّر دور ہوجائیں گے، گو ترقی پذیر ملک اب جاکر یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ ترقی یافتہ ملکوں میں اور ان میں اپنے سارے وسائل لگانے کے باوجود خلیج باقی رہے گی اور اس لیے اب درمیانی اور خود کفیل ٹیکنالوجی کی اہمیت کو سمجھنے لگے ہیں۔
اسی طرح صارف سماج CONSUMER SOCIETY کا تصور ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ فرد اپنی ضروریات اور خرچ بڑھائے۔ یہاں یہ بات واضح کردینا ضروری ہے کہ منصفانہ سماج کے تصور میں جو ہرطرح قابل قدر ہے اور صارف سماج کے تصور میں جو اپنی ہوس بڑھاتا رہتا ہے، بہرحال فرق ہے۔ پھر ترقی کا وہ تصور ہے جو انیسویں صدی کے نیم سائنسی اور نیم سرمایہ دارانہ ذہن کی پیداوار ہے اور جسے سوشلسٹ سماجوں نے بھی اپنا لیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ کام مشین سے لینے کی وجہ سے اس نے تفریح اور پھر بوریت کا مسئلہ پیدا کیا ہے۔ اس نے تیز رفتاری کا جنون پیدا کیا جس کی وجہ سے آدمی نہ فطرت کے مناظر سے لطف اٹھانےکا اہل رہا، نہ ٹھہر کر اپنے کو دیکھنے کا، نہ سکون سے غور کرنے کا۔ اس نے فضا کو اتنا گرد آلود بنادیا کہ چاند اور ستارے نظر نہ آسکیں۔ ترقی کی اس دوڑ کے متعلق جگر کے دو شعر دیکھیے،
زمانہ گرم رفتار ترقی ہوتا جاتا ہے
مگر ایک چشم شاعر ہے کہ پرنم ہوتی جاتی ہے
جہلِ خرد نے دن یہ دکھائے
گھٹ گئے انسان، بڑھ گئے سائے
یہ نہ سمجھیے کہ کھٹے انگوروں والی بات ہے۔ یورپ اور امریکہ کے دانشوروں کے یہاں بھی یک رخے آدمی ONE DIMENSIONAL MAN ترقی کے جنون، سائنس اور ٹیکنالوجی کے پیدا کردہ مسائل، زندگی کی میکانیکیت کے خلاف ایک لہر دوڑی ہے۔ نوجوانوں کی ۱۹۶۸ء کی بغاوت اس کا ایک مظہر تھی۔ اربابِ نظر یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ بڑی چیز کے معنی لازمی طور پر بہتر کے اور چھوٹی چیز کے معنی گئی گزری کے نہیں ہیں۔ اس طرح ترقی کا خط مستقیم والا تصور بھی اب اتنا مقبول نہیں رہا ہے۔ یونیسکو کی ایک رپورٹ میں تو ترقی کی رفتار کو خط مستقیم کے بجائے پیرا بولا (PARA BOLA) کے مانند قرار دیا گیا ہے۔
پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آدمی اگر چند چیزوں میں ترقی کرتا ہے تو چند چیزوں میں تنزل بھی۔ پھر انسان کی فطرت کے متعلق ترقی کے علمبرداروں نے جو فتوے صادر کیے تھے ان کی صحت میں بھی شبہ کیا جانے لگا ہے اور غالب کے اس مصرعے کے مصداق کہ مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی، یہ کہا جاسکتا ہے کہ انسان اتنا عقلی جانور نہیں جتنا غیر عقلی ہے۔ اس کے اندر جارحانہ جبلتیں نہ صرف کام کررہی ہیں بلکہ ترقی نے ان کی ہلاکت خیزی میں اضافہ کردیا ہے۔ فرائیڈ اور مارکس دونوں کو بیسویں صدی کا پیمبر کہا گیا ہے۔ شروع شروع میں مارکسی نقادوں نے فرائیڈ کو گمراہ کن کہہ کر نظرانداز کر دیا مگر اب مارکوزے اور نارسن براؤن امریکہ میں اور فرانس کے نومارکسی دونوں کے درمیان پل بنا رہے ہیں۔
ترقی کی دوڑ نے ایک اور مسئلہ پیدا کیا ہے اور یہ ہے کہ قدرتی وسائل کا وہ بے دریغ استعمال، جن کی وجہ سے ایک طرف ان کے ذخیروں کے ختم ہو جانے کا اندیشہ قوی ہو گیا ہے۔ دوسری طرف ان کی وجہ سے فضا کے توازن میں خلل کا بھی اندیشہ ہے، اس لیے اب فطرت کے آداب کو برتنے پر زور دیا جارہا ہے۔ غرض مشینی نظام، مادی خوش حالی کے زینے، سائنس اور ٹیکنالوجی کے پیدا کردہ مسائل، حکومتوں کا رفتہ رفتہ افراد کے طرز زندگی اور طرزِ فکر پر بڑھتا ہوا اثر، قدروں کے تصور کو بدل رہا ہے اور ادب نے اس تبدیلی میں نمایاں رول ادا کیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ادب کسی انقلاب کا باعث ہو، نہ ادب کی رکنی ڈال کر تبدیلی کا ٹکٹ مل سکتا ہے، مگر بہرحال ادب ایک ذہنی لہر، ایک احساس کی رو تو دے سکتا ہے۔
ادب چونکہ جذبے کی کفایت سکھاتا ہے۔ چونکہ اس میں ذہن کی تنظیم بھی کرتاہے اور انھیں معنی خیز اور سطحی حقایق اور تجربات میں فرق کرنا بھی سکھاتا ہے۔ جب ادب تبلیغ یا تلقین کی طرف زیادہ مائل تھا تو اسے لوگوں کو کسی نہ کسی طرف لے جانے کا بھی شوق تھا مگر اب اسے چاہیے کے بجائے ہے پر قناعت آگئی ہے۔ اس طرح وہ بقول کامیو تاریخ لکھنے والوں کے مقابلے میں تاریخ کو بھگتنے والوں کے ساتھ ہے، ہیرو کے بجائے اینٹی ہیرو کی طرف دھیان دے رہا ہے۔ خوب و زشت اور سیاہ وسفید والی آئیڈیالوجی کی حد بندی، یہ یا وہ کے تحکم، چوکھونٹی شے کو کسی نہ کسی گول خانے میں جما دینے کی ادعائیت پر وار کرکے زندگی کی سادہ سچائیوں، تضادات اور اس کے قول محال کی طرف ہماری توجہ مبذول کرا رہا ہے۔ علم کی سست رو منطق کے ساتھ عشق کی جست کو منوانا چاہتا ہے۔
کامیو کا اجنبی OUTSIDER اس لیے سنگسار کیا جاتا ہے کہ اسے پھولوں اور عورتوں سے شغف ہے۔ کافکا کا مسٹر کے اپنے کو مجرم نہیں سمجھتا مگر اس کا جیلر یہ کہہ کر اسے خاموش کرنا چاہتاہے کہ سب مجرم اپنے آپ کو بے قصور سمجھتے ہیں۔ غرض مطابقت یا CONFORMITY کے دور میں خواہ وہ کسی سیاسی نظام سے ہو، خواہ سماجی ڈھانچے سے، خواہ کسی ادارے کی ترہیمات سے، ادب میں ذہنی آزادی، عدم مطابقت، بلکہ احتجاج کی قدر کی اہمیت مسلم ہے، کیونکہ یہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ آج کے باغی ذہن کل کی روشنی کے معمار ثابت ہوئے ہیں اور ہراحتجاج اور عدم مطابقت میں کسی دوسری تنظیم یا تعمیر کی طرف اشارہ ملتاہے۔ اس بات کو طریقت کی اصطلاح کی مدد سے بھی سمجھا جاسکتا ہے کیونکہ ادیب ایک طرح کا صوفی ہوتاہے۔ ویسے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہر بڑے ادب میں ایک صوفیانہ نظر MYSTIC VISION ہوتی ہے جو ظاہر کے بجائے باطن کو دیکھتی ہے اور جو سرگشتہ خمار رسوم وقیود نہیں ہوتی۔
فرد کی آزادی کا مسئلہ یورپ کی نشاط الثانیہ کے بعد ابھرا اور جدید مغربی فکر میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔ فرد کی آزادی کا تصور انسان دوستی کے تصور سے ہی پیدا ہوا ہے۔ بعض مغربی مفکرین فرد کی آزادی اور انفرادیت پرستی میں فرق کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ فرد کی آزادی کا تصور مطلق نہیں ہے۔ اقبال بھی فرد کی خودی کی تربیت کے قائل تھے اور ان کے فلسفے میں فرد کا مقام بہت بلند ہے مگر انھوں نے پھر رموز بے خودی کی ضرورت محسوس کی اور فرد اور جماعت کے درمیان ہم آہنگی کو لازمی سمجھا اور جماعت کے لیے کچھ روحانی اور اخلاقی قدروں کو اساس ٹھہرایا۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ فرد کی آزادی کے نصب العین کو انفرادیت پرستی INDIVIDUALISM کی وجہ سے نظر انداز کرنا کسی طرح مناسب نہ ہوگا۔ آخر مارکس بھی تو ایسے سماج کا تصور کرتا ہے جو آزاد افراد پر مشتمل ہو۔ یہ دوسری بات ہے کہ یہ غیرطبقاتی سماج CLASSLESS SOCIETY میں ہی ممکن ہے جس کی منزل موجودہ سوشلسٹ سماجوں کو دیکھتے ہوئے بہت دور معلوم ہوتی ہے۔
یہاں ایلیٹ کے ایک مشہور قول پر نظر ڈالنی ضروری معلوم ہوتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ’’ادب کی عظمت صرف ادبی معیاروں سے نہیں جانچی جاسکتی، لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اس بات کافیصلہ کہ یہ ادیب ہے یا نہیں، صرف ادبی معیاروں سے ہی ہوسکتاہے۔‘‘ ایلیٹ کا مطلب یہ ہے کہ ادب کا تعین صرف ادبی معیاروں سے ہی کیا جاسکتا ہے لیکن ادبی فارم کے لیے جو وحدت، ربط، اور پیچیدگی کی شرطیں ہیں، انہی کی بنا پر ادبی اور غیر ادبی کا فیصلہ کیا جانا چاہیے۔ اس وحدت، ربط اور پیچیدگی کے نتیجے میں ایک مسرت ملتی ہے جو جمالیاتی ہے۔ فراسٹ نے جب کہا تھا کہ شاعری مسرت سے شروع ہوتی ہے اور بصیرت پر ختم ہوتی ہے تو اس نے بھی پہلے جمالیاتی احساس کی طرف ہی اشارہ کیا تھا، جس کا انجام، ایک مخصوص سوجھ بوجھ، ایک خاص قسم کی دانشمندی یا ایک بصیرت ہی ہوتاہے۔
ایلیٹ کے قول کے پہلے حصے میں ایک فتویٰ سا ہے جس سے ویلک اور بعض دوسرے علماء چراغ پا ہوئے ہیں۔ مگر ایلیٹ ادب کے اسرار کا محرم ہے۔ وہ کوئی معمولی نقاد نہیں، بڑا شاعر اور تخلیق کے عمل کا رمز شناس بھی ہے۔ وہ جب یہ کہتا ہے کہ ادب کی عظمت صرف ادبی معیاروں سے ہی نہیں جانچی جاسکتی تو وہ بات صرف ادب کی نہیں ادب میں عظمت کی کر رہا ہے اور مجھے یہ کہنے میں کوئی پس وپیش نہیں کہ وہ درست کہہ رہا ہے۔
کچھ لوگوں نے ادب اور زندگی، ادب اور سیاست، ادب اور سماج کے نام پر وہ غدر مچایا ہے کہ چند اشخاص چڑھ کر ادب اور زندگی کے تعلق سے ہی انکار کرنے لگے ہیں۔ یہ غلط بات ہے۔ ادیب بہرحال ایک سماج کا فرد ہے، اس کے پاس جو آلہ ہے یعنی زبان، وہ بھی ایک سماجی آلہ ہے، جیساکہ میں نے اوپر کہاہےوہ جب کسی مخصوص سماجی حد بندی یا آئیڈیالوجی کے خلاف بغاوت کرتاہے تو کسی اور بڑی سماجی وفاداری کی بنا پر۔ وہ ایسے فارمولے کا قائل نہیں جو انسان سے اس کی آزادی یا اس کے تخیل کی بوقلمونی یا اپنے ذاتی باغ کو اپنے طورپر سجانے کا حق چھین لے۔
تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ انقلاب کے نام پر بھی بہت سے مظالم ڈھائے گئے ہیں اور برکتوں کے نام پر زحمتیں ہاتھ آ گئی ہیں۔ ادیب یا شاعر اگر تصویر کے دوسرے رخ کی طرف اشارہ کرتا ہے تو اس کے اس حق، اس مشن، اس فرض کو ہم برا کیسے کہہ سکتے ہیں۔ روس کے انقلاب کی حمایت کرتے ہوئے بھی اسٹالن کے مظالم کی طرف سے چشم پوشی کس طرح جائز ہو سکتی ہے۔ اسی طرح پاسٹرناک اور سولزے نت سن جب یہ کہتے ہیں کہ ظاہری حالات میں انقلاب کافی نہیں، انسان کے باطن میں بھی انقلاب ضروری ہے تو اس نکتے کو کس طرح نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔
ادیب سیاست سے رشتہ رکھتا ہے مگر اس کے لیے کسی آئیڈیالوجی کے پیچھے دوڑنا یا اسے کسی حکیم کے نسخے کی طرح استعمال کرنا ضروری نہیں۔ آکٹے ویو پاز OCTAVIEW PAZ نے بھی یہ تسلیم کیا ہے کہ آئیڈیا لوجی شاعر یا ادیب کے لیے خلیج کا کام کرتی ہے، فلسفہ اور سماجی علوم، بہرحال تجریدات ABSTRACTIONS سےکام لیتے ہیں، وہ ماڈل بناتے ہیں اور انسان کو، اس کے ذہن کو، اس کے احساس اور جذبے کو، اس کے کردار کو بھی انہی نظریات، تجریدات، یا ماڈلوں کی روشنی میں دیکھتے ہیں مگر ادب زندہ انسانوں سے، ان کے اندر فرشتے اور شیطان سے، ان کے آدرشوں اور ان کے روز مرہ زندگی کے تضادات سے سروکار رکھتا ہے۔ اس پر کوئی فلسفہ، کوئی سیاسی فارمولا، کوئی اخلاقی صحیفہ، کوئی دو اور دوچار والی علمی منطق لادنا کہاں کی دانشمندی ہے۔
مجھے یہاں فن کار یا ادیب کے اپنے میلانات سے غرض نہیں، اس کے ادب اور فن سے غرض ہے کیونکہ ادب اور فن کی زندگی اور ادیب کے خیالات و میلانات میں رشتہ ہوتا ہے مگر ادب اور فن کا ایک آزاد وجودہے، اس لیے جدید تنقید اب فنکار کی شخصیت اور افکار اور اس کے زمانے کے میلانات کا سراغ لگانے سے زیادہ فن کی اپنی تنظیم، اس کی اپنی منطق اور اس کی اپنی زندگی پر زور دیتی ہے۔ یہ بات ایک مثال سے واضح ہو جائےگی۔ فیض نے ’’یہ داغ داغ اجالا‘‘ کے نام سے آزادی کے بعد جو نظم لکھی، اس میں کہا تھا،
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
بڑھے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
اس پر سردار جعفری نے اعتراض کیا تھا کہ یہ بات تو جماعت اسلامی، مسلم لیگ یا جن سنگھ کا حامی کہہ سکتا ہے۔ مگر سردار کے نزدیک فیض کی جو کمزوری تھی، دراصل وہی اس نظم کی طاقت ہے۔ شاعری عمومی صداقتوں سے بحث کرتی ہے۔ اسے مخصوص واقعات سے سروکار نہیں۔ فیض کے یہاں مخصوص کیفیت میں عمومی کیفیت ہے اور یہی اس نظم کی خوبی کی دلیل ہے۔
اس طرح فیض کی ایک اور نظم ہے ’’ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے‘‘ یہ نظم مشہور کمیونسٹ سائنس دانوں جولیس اور ایتھل روز ین برگ کے متعلق لکھی گئی تھی۔ ان میاں بیوی کو امریکہ کے ایٹمی توانائی کے راز روس کو دینے کے الزام میں سزائے موت دی گئی تھی۔ فیض کہتے ہیں،
جب گھلی تیری راہوں میں شام الم
ہم چلے آئے لائے جہاں تک قدم
لب پہ حرف غزل، دل میں قندیل غم
اپنا غم تھا گواہی تیرے حسن کی
دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
یہ بہرحال ایک ایسے جوڑے کا ماتم ہے جو اپنے نصب العین کی خاطر جان پر کھیل گیا۔ نظم اپنے آدرش کے ایک فدائی کا مرثیہ ہے اور ہر آدرش کے فدائی پر اس کا اطلاق ہوسکتا ہے۔ یہی اس نظم کی خوبی ہے۔ یہاں بھی ایک مخصوص واقعہ شاعر کے ذہن میں فرض اور فرض کی خاطر قربانی کا رجز بنتا ہے اور اس کی اپیل عمومی اور آفاقی ہے۔
غرض ادب کا سروکار عمومی قدروں سے ہے، مخصوص واقعات سے نہیں۔ قدروں کے سلسلے میں فلسفیوں میں خاصی بحث رہی ہے اور یہ بحث اب تک جاری ہے۔ ایک تاریخی درجہ بندی ان قدروں کی اکائی کو تسلیم کرتی ہے جو ایک ادارہ بن چکی ہے، مثلاً اقتصادی، سیاسی، مذہبی قدریں خودکفیل ہیں اور اخلاقی، جمالیاتی اور منطقی قدریں ایک دوسرے سے بنیادی اشتراک رکھتی ہیں۔ انھیں قطعی طورپر ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جمالیاتی اظہار اپنی ایک منطق رکھتا ہے اور اس میں ایک اخلاقی پہلو بھی ہوتا ہے۔ قدر کاپرانا تصور صداقت، خیر اور حسن کا تھا اور ان تینوں میں بھی ایک بنیادی تعلق تسلیم کیا گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہےکہ یہ پرانا تصور پھر مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ اس تصور میں یہ بات ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ صداقت، خیر اور حسن کاکوئی قطعی روپ نہیں ہے اور ان میں سے ہرایک کے ایسے مظاہر ہو سکتے ہیں جو کسی مروجہ مقررہ اور محدود، گو کسی دور میں مقبول مظہر سےمختلف ہوں۔
حالی جب ہمارے متوسط دور کے شاعروں کے کلام کو جھوٹ کی پوٹ کہتے تھے تو ان کے نزدیک انیسویں صدی کے اصلاحی، مقصدی اور حقیقت پسندانہ نقطۂ نظر سے یہ گردن زدنی تھا۔ انھوں نے تخیلی امکانات اور واقعی امکانات کے فرق کو نظر انداز کر دیا تھا۔ پھر حالی اور اکبر کے فرق کو ملحوظ رکھیے۔ حالی نئے افکار و خیالات کے علمبردار ہیں۔ وہ اس معاملے میں سرسید کے ساتھ ہیں۔ اکبر قدیم تہذیب کے عاشق ہیں۔ ہمارے لیے یہ صحیح نہ ہوگا کہ حالی کے سچ کو تسلیم کرتے ہوئے اکبر کے سچ کو ماننے سے انکار کردیں۔ ادب میں حالی کے سچ اور اکبر کے سچ دونوں کی جگہ ہے اور اس کے ساتھ غالب کے سچ اور یگانہ کے سچ اور اقبال کے سچ کی اور نئے شعراء کے سچ کی بھی گنجایش ہے کیونکہ ادب کا سچ، سائنس کا سچ نہیں ہے جس کو ماننے کے لیے پہلے کی صداقتوں کو رد کرنا پڑتا ہے۔ ہرادیب اپنی نظر کے مطابق سچ بولتا ہے۔ اس کے خلوص میں کلام نہیں مگر صرف خلوص سے کام نہیں چلتا، ضرورت کھرے پن کی ہے یعنی AUTHENTICITY کی۔ ٹرلنگ نے اپنی کتاب SINCERITY AND AUTHENTICITY میں اس فرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کھرے پن کو زیادہ اہمیت دی ہے۔ اقبال نے جب کہاتھا،
رنگ ہو خشت وسنگ، چنگ ہو یا حرف وصوت
معجزۂ فن کی ہے خون جگر سے نمود
قطرۂ خون جگر سل کو بناتا ہے دل
خون جگر سے صدا سوز و سرور و سرود
تو میرے نزدیک ان کا اشارہ اس کھرے پن کی طرف تھا۔ سارتر نے ستر سال کی عمر میں مائیکل کانتے MICHEL CONTAI کو جو انٹرویو دیا تھا، اس میں اس نے کہا تھا، ’’اب وقت آ گیا ہے کہ میں سچ بات کہوں مگر میں اس کو ایک فکشن کے روپ میں ہی بیان کرسکوں گا۔‘‘ سارتر ایک فلسفی ہے اور اس کا وجودیت کا فلسفہ اس دور کے ادب پر بہت اثرانداز ہوتا ہے مگر سارتر نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں فکشن کے ذریعہ سے ہی سچ کہنے کی ضرورت کیوں محسوس کی۔ یہ سوچنے کی بات ہے۔
کامیو کا باغی زندگی کو اس کی کمیوں کی بنا پر رد کرتا ہے اور کبھی کبھی جن چیزوں سے وہ عبارت ہے، ان کی بنا پر بھی سمویل بیکٹ، آئی نیس کو، ایڈورایلبی اور ہیرالڈ پینٹر لامعنویت کے ڈرامے کے چار درویش ہیں۔ ان کے یہاں زندگی کا کھیل بظاہر بے معنی نظر آتا ہے مگر غور سے دیکھا جائے تو ان کی بغاوت صرف موجودہ سانچوں اور پیمانوں اور مقررہ معنی و مفاہیم کے خلاف ہے۔
اقبال کےیہاں زندگی کا روشن تصور ہے۔ ان ڈارما نویسوں کے یہاں زندگی کے کھیل میں جو ستم ظریفی ہے، اس کا کچھ اس طرح احساس ہوتا ہے کہ آدمی کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔ ہم یہ کہہ کر ان ڈراما نویسوں کو رد نہیں کر سکتے کہ ان کی نظر میں کمی ہے۔ زندگی اتنی وسیع، اتنی پراسرار، اتنی متضاد اور آدمی ایسا عجوبۂ روزگار ہے کہ ہمیں ان سب سچائیوں کی ضرورت ہے۔ غالب کے الفاظ میں ہی عارف کا کام یہی ہونا چاہیے کہ پیمانۂ صفات کی گردش کے مطابق وہ مست مے ذات رہے۔
صداقت کی طرح خیر کا بھی مسئلہ ہے۔ خیر کی تعبیر بدلتی رہی ہے مگر اس تعبیر کی وجہ سے اس قدر کی بنیادی اہمیت میں فرق نہیں آتا۔ ہر دور کی نیکی، پچھلی نیکی سے کچھ مختلف ہوتے ہوئے بھی خیرکے مجموعی تصور کی ایک شکل ہوتی ہے۔ پھر ہر دور میں اپنی ذات کے علاوہ برادری یا قوم یا انسانیت کے لیے باعث خیر ہونے کا نصب العین ملتاہے جسے ادب میں پیش کیا گیا ہے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ جدید دور میں خیر کے اجتماعی پہلو پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔ سرسید کی نادان خدا پرست اور دانا دینار کی تمثیل اس بات کا ثبوت ہے کہ اجتماعی خیرکی قدروں کی اہمیت زیادہ ہوتی جا رہی ہے، مگر نئے ادب میں اس بڑھتی ہوئی روش کے خلاف احتجاج بھی ملتا ہے اور ایک معمولی آدمی کی چھوٹی چھوٹی راحتوں اور خوشیوں کو سراہا گیا ہے جن کو سماج کے ٹھیکے دار مجروح کرتے رہتے ہیں۔
نیا ادیب خیر اور شر کی اس دوئی کا قائل نہیں جو اٹھارویں صدی تک رائج تھا۔ وہ خیر میں شر اور شر میں خیر بھی دیکھتا اور دکھاتا ہے۔ فرائڈ کے اثر سے جنسی جبلتوں کی طاقت کا جو علم ہوا ہے اس کی وجہ سے اخلاقی مفروضات میں بڑی تبدیلی ہوئی ہے اور ایک نئی اخلاقیات وجود میں آئی ہے، جو فطری تقاضوں اور میلانات پربند باندھنے کے بجائے ان کو مناسب راستوں میں لےجانا چاہتی ہے۔ اس کی وجہ سے بہت سی بے اعتدالیاں بھی ظہور میں آئی ہیں مگر مجموعی طورپر اخلاقیات ایک تو صرف مذہب کی پابند نہیں رہی، دوسری طرف مجموعی خیرکی خاطر اس نے تھوڑے بہت شر کو گوارا کر لیا ہے۔
جدید ادب کی یہ دیانت بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ جن حقائق پر پردہ ڈالا جاتا تھا یا جن کو راز درونِ پردہ کہہ کر خاموشی اختیار کر لی جاتی تھی، ادیب انھیں بے روک بیان کرتا ہے، وہ اس کنول کی طرح ہے، جس کی جڑیں گو کیچڑ میں ہوں مگر اس کا پھول سطح آب پر تیرتا اور اپنا حسن دکھاتا ہے۔ باوجود اتھل پتھل کے اس طرح جدید ادب میں ایک روحانی پاکیزگی اور طہارت کا بھی احساس ہوتا ہے، گو یہ اعتراف بھی ضروری ہے کہ یہ ہر جگہ موجود نہیں۔
صداقت اور خیر کے ساتھ ادب حسن کی قدر کی علمبرداری کرتا ہے بلکہ وہ صداقت اور خیر کو بھی حسن کی ہی صورت میں دیکھتا ہے۔ ادب کی تاریخ میں حسن کاروں کے آداب بدلتے رہتےہیں مگر حسن کے نصب العین سے وفاداری برابر رہی ہے۔ ادیب ایک تو اپنے ادب میں فارم کے ذریعہ سے حسن پیدا کرتا ہے۔ اس فارم میں ایک وحدت ہوتی ہے۔ جو ربط اور پیچیدگی کے ذریعہ سے حسن پیدا کی جاتی ہے۔ یہ وحدت ایک مسرت دیتی ہے۔ اس کے علاوہ ادیب جو زبان استعمال کرتا ہے اس میں حسن آہنگ بن کر بھی ظاہر ہوتا ہے۔ اس کا سب سے خاص آلہ استعارہ اور علامت ہے۔
ارسطو کے وقت سے یہ بات تسلیم کر لی گئی ہے کہ استعارہ کا استعمال ہی شاعر کا خاص وصف ہے مگر عرصے تک استعارے کو ایک آرایشی چیز، ایک زیور سمجھا گیا، اب جاکر یہ احساس عام ہوا ہے کہ استعارہ محض آرایش و زیبایش کے لیے نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک جہان معنی پیدا کرتا ہے۔ استعارے میں مشابہت اور فرق دونوں مل کر ایک تیسری خصوصیت کو جنم دیتے ہیں جس میں ذہن جھولتا ہے اور معنی کی ایک سطح سے دوسری سطح تک سفر کرتا ہے۔
استعارے کے علاوہ علامت بھی خلاق حسن ہے۔ علامتی اظہار کو کچھ کم بیس نقادوں نے زوال آمادہ کہہ کر مطعون کرنا چاہا مگر یہ روحانی تحریک کی قدرتی پیداوار تھی۔ یوں تو بقول غالب مشاہدۂ حق کی بات بادہ و ساغر کے پردہ میں شروع سے بیان کی جاتی رہی ہے مگر فرانسیسی علامت پرستوں کا احسان یہ ہےکہ انھوں نے ابہام AMBIGUITY کو جان بوجھ کر ایسی کیفیات کے اظہار کے لیے برتا جن کو کوئی نام دینا آسان نہیں مگر جن کی صداقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ قدرتی طورپر ان علامات کے سلسلے میں ذاتی نظر اور من مانی تمثیلوں سے بھی کام لیا گیا مگر شاعر کی کوئی مخصوص واردات ہے تو اسے یہ حق ہے کہ وہ اسے مخصوص اور ذاتی علامات کے ذریعہ سے بھی بیا ن کرے۔
علامتی شاعری کی دو روایتیں ہیں۔ ایک سنجیدہ اور جمالیاتی ہے، جیسی کہ بودلیر کے یہاں ملتی ہے۔ دوسری مکالماتی اور طنزیہ جیسی کہ کبھی کبھی ڈان کے یہاں نظر آتی ہے۔ اس شاعری پر زیادہ تر اعتراضات ان لوگوں نے کیے ہیں جو شاعری کے لیے منطقی ترتیب کو ضروری سمجھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہےکہ منطقی ترتیب اور نفسیاتی ترتیب میں فرق ہے۔ شاعر منطقی ترتیب سے بھی کام لیتا ہے مگر اس کا کمال نفسیاتی ترتیب میں ہی ظاہر ہوتا ہے۔ اس ترتیب میں معنی اپنے وسیع مفہوم میں استعمال ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے یہ مشکل بھی ہوتی ہے اور بظاہر کچھ شکستہ زبان میں بھی، مگر اس کے ابہام اور اشکال کی وجہ سے اس کو مشکل OBSCURE کہہ کر نظرانداز کرنا درست نہ ہوگا۔ سادگی شاعری کی کوئی بنیادی قدر نہیں ہے۔ بنیادی قدر شعریت ہے اور یہ شعریت بڑی پرکار سادگی رکھتی ہے اور ضرورت پڑنے پر مشکل بھی ہو سکتی ہے۔
غرض ایک طرف تو ادیب اور شاعر اپنی مخصوص زبان اور اپنے فارم کے ذریعہ سے حسن کو تخلیق کرتا ہے اور اس حسن کو ایک ابدیت عطا کرتاہے، دوسری طرف وہ زندگی اور فطرت کے حسن کے بھی نئے نئے پہلو دکھاتا رہتا ہے۔ مصوری کی تاریخ خاص طور سے یہ ظاہر کرتی ہے کہ مختلف ادوار میں ارباب نظر نے کس طرح حسن کے مختلف روپ دکھائے ہیں، جب مانوس جلووں کی وجہ سے احساس حسن مردہ ہوجاتا ہے تو کوئی پکا سویونانی اور رومن تصور حسن کے خلاف بغاوت کرتا ہے اور بدصورتی میں حسن دکھاتا ہے جب کلاسکیت کے خانہ باغ میں چمن بندی کے آئین روح کے بجائے قاعدے پر اصرار کرنے لگتے ہیں تو رومانیت قانون باغبانی صحرا لکھتی ہے اور جب رومانیت جذباتیت کی شکار ہونے لگتی ہے تو اشاریت اور علامت پسندی اسے نئی جہت اور سمت عطا کرتی ہے۔ جب روح کی تقدیس آسمان کی باتیں کرتے کرتے ایک دھندلکے میں تبدیل ہو جاتی ہے تو جسم کے دائرے اور خطوط اپنا جادو جگاتے ہیں مگر یہ یاد رہے کہ ادب میں حسن صرف آرائش خم و کاکل سے نہیں آتا، بلکہ اندیشہ ہائے دور دراز سے بھی آتا ہے اور اندیشہ ہائے دور دراز ہی اس جمالیاتی فاصلے کو جنم دیتے ہیں جو ادب اور فن کی معراج ہے۔
آج کی دنیا ہرذات میں کچھ مروجہ صفات دیکھنا چاہتی ہے۔ وہ سب کو برابری کے نام پر ایک سے رد عمل کا عادی بنانا چاہتی ہے۔ وہ مخصوص نظر، انفرادی تجربے کو شبہ کی نظر سے دیکھتی ہے۔ وہ ایسی بات کو پسند کرتی جو سب کی سمجھ میں آجائے اور جس کے لیے زندگی کی کسی مصروفیت اور کسی مہم میں خلل نہ پڑے، وہ مطابقت چاہتی ہے۔ یکسانیت تلاش کرتی ہے۔ ادیب زندگی کے تنوع، تضادات، عجائبات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ وہ مقبول زبان، مقبول رویے، مقبول مسلک سے آگے جاتا ہے۔ وہ ذاتی تجربے کو کائناتی معنویت عطا کرنا جانتا ہے۔
آج کی دنیا آزادی، صداقت، خیر اور حسن کا نام ضرور لیتی ہے مگر وہ ان ناموں کو صرف اشتہار کے طورپر استعمال کرتی ہے۔ ادیب ان کی خاطر ہر طرح کی صعوبتیں برداشت کرتا ہے۔ ناقدری، کس مپرسی، حقارت، عتاب، بلکہ سزا بھی، مگر وہ اپنے شعلے سے وفادار رہتا ہے۔ وہ اپنے دور کے اسطور MYTH کا پابند نہیں، وہ پرانے اسطور MYTH سے بھی کام لے سکتاہے۔ وہ جانتا ہے کہ کعبہ کار استہ ترکستان سے بھی ہوکر جاتا ہے کیونکہ ترکستان کے تناظر میں کعبے کی معنویت کچھ اور بڑھ جاتی ہے۔ ادیب زندگی سے، اس کی سچائی سے، اس کے حسن سے نہیں کٹا، بلکہ موجودہ سیاسی اور سماجی حالات کی شکار پبلک اس سے کٹ گئی ہے۔ وہ اپنی جذباتی زندگی کو، اپنے من کی دنیا کو عملی دنیا اور اس کے تقاضوں سے الگ کرکے دیکھنے کی عادی ہوتی جا رہی ہے، اسی لیے وہ نعروں کا ادب یا خوبصورت الفاظ کا ادب یا سستا رومانی ادب پسند کرتی ہے، جو اسے کچھ دیر کے لیے بہلائے یا سلائے۔
ادیب ذہن، جذبے اور زندگی سے آنکھیں چار کرنے اور اس کے ہر رنگ کو سمجھنے پر اصرار کرتا ہے۔ وہ رومانیت سے بھی کام لیتا ہے اورحقیقت پسندی سے بھی۔ مگر ان کو سفر کا سنگ میل سمجھتا ہے، منزل نہیں۔ اس کی منزل آدمی کی پہچان ہے جو خوئے آدم رکھتاہے اس لیے گنہگار بھی ہے مگر جو آداب بندگی میں آداب خداوندی برت سکتا ہے، ادیب جانتا ہے کہ آگہی نے بھی کتنے ہی آشوب پیدا کیے ہیں، اس لیے وہ عقل کو دل کا رمز شناس بنانا چاہتا ہے۔ آج کی ترقی کی دیوانی دنیا تن کی دنیا ہے۔ تن کی دنیا اور من کی دنیا کی قدروں کا فرق اقبال کی زبان سے سنیے،
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن!
من کی دنیا من کی دنیا سوز و مستی جذب وشوق
تن کی دنیا تن کی دنیا سو دو سودا مکر وفن
من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں
تن کی دولت چھاؤں ہے، آتا ہے دھن جاتا ہے دھن
من کی دنیا میں نہ پایا میں نے افرنگی کا راج
من کی دنیا میں نہ دیکھے میں نے شیخ و برہمن
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.