ادب، روایت، جدت اور جدیدیت
جدیدیت کی جو ایک لہر ان دنوں چل رہی ہے اس کے مدنظر ذرا کچھ ہمیں اپنی ادبی روایات ک ابھی جائزہ لینا چاہئے، لیکن اس سے پہلے ہمیں روایت کے مفہوم کو متعین کر لینا چاہئے، تاکہ جدت کو ’’جدیدیت‘‘ سے جدا کرکے بھی دیکھا جا سکے۔ کیوں کہ میرے نزدیک جدت، روایت کا ایک تکوینی حصہ ہے۔ کوئی بھی روایت ایسی نہیں ہے جس میں بے شمار جدتوں کا اضافہ نہ ہوا ہوا اور جو ان کے امتزاج سے وجود میں نہ آئی ہو۔ اس کے برعکس ’جدیدیت‘ ایک کلٹ (Cult) ہے اور اس کے پیچھے ایک فلسفہ ہے۔ جس کو ہم معرض بحث میں ذرا بعد میں لائیں گے۔
چنانچہ میری تنقید ’’جدیدیت‘‘ کے فلسفے اور اس کے ادبی مظہر پر ان کی کمزوریوں سے متعلق ہوگی، نہ کہ اس لئے کہ ’’جدیدیت‘‘ بت شکنی کا ایک سمبل ہے۔ کیوں کہ بت شکنی کا تومیں بھی حامی ہوں اور اس بات پر ایمان رکھتا ہوں کہ تغیر و تبدل کے عمل یا ارتقا کے عمل سے دنیا کی کوئی چیز آزاد نہیں ہے اور جب کوئی قوم کسی روایت یا وضع کہن پر اڑ جاتی ہے، اس میں کسی قسم کی تبدیلی قبول کرنے کی روادار نہیں ہوتی ہے اور اس وضع کہن کی مدافعت اور معذرت میں اپنا سارا زور صرف کر دیتی ہے تو وہ منزل قوموں کی زندگی میں نہ صرف کٹھن ہوتی ہے، جیسا کہ علامہ اقبال نے کہا ہے کہ،
طرز کہن پر اڑنا، آئین نو سے ڈرنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
بلکہ خودکشی کے مترادف بن جاتی ہے۔
آدمی کسی نہ کسی معاشرے میں زندگی بسر کرتا ہے اور کوئی بھی معاشرہ ایسا نہیں ہے، جس پر ایک خول روایات کہن کا نہ چڑھا ہوا ہو۔ جس میں زندگی بسر کرنے، اشیا بنانے، پیدا کرنے اور ذہنی تخلیقات کو وجود میں لانے کی کوئی روایت، کمزور یا مضبوط نہ ہو، اس کا کوئی تاریخی چلن نہ ہو۔ چنانچہ اس روایت یا تاریخی چلن کو گزرنے والی نسل، نئی نسل اور آنے والی نسلوں کو منتقل کرتی رہتی ہے۔ خواہ اس منتقلی کا طریق کار زبانی ہو، تحریری ہو یا عملی مظاہرے کا ہو۔ یہ بات بہت سامنے کی ہے کہ ہرفن اور ہر ہنر کی ایک روایت ہوتی ہے اور جب کسی معاشرے میں کسی فن یا ہنر کی روایت نہیں ہوتی ہے اور فن یا ہنر بقائے حیات اور تکمیل حیات کے لئے ضروری ہوتا ہے تو اسے دوسرے معاشروں سے قرض لیتے ہیں اور اپنے معاشرے کی نفسی کیفیت یاجینیئس (Genius) کے مطابق اس کو پروان چڑھانے کی کوشش کرتے ہیں، اس کی متعدد مثالیں دی جا سکتی ہیں۔
اس کے یہ معنی ہوئے کہ لین دین کا عمل مختلف تہذیبوں اور معاشروں کے درمیان، رسم و ررواج اور روایات کی دنیا میں بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ کسی بھی روایت کے بارے میں یہ کہنا کہ اس کی نظیر کسی دوسرے معاشرے میں نہیں ملتی ہے، بہت مشکل ہے۔ شاید اس طرح کی ایک ریت جس کی نظیر کسی دوسرے معاشرے میں نہ ملتی ہو، ہندو معاشرے میں ستی کی رسم ہے، جسے اول اول اکبر بادشاہ نے، پھر انگریزوں نے اور خود ہندوؤں نے بذریعہ قانون ختم کر دیا ہے۔ اوراب تو ذات پات کے امتیازات، چھوت چھات کی تفریق، عورتوں کی سماجی غلامی وغیرہ کو بھی ختم کر رہے ہیں جو کبھی یہ سب ان کے دین دھرم کا حصہ تھیں۔
اس کے یہ معنی ہوئے کہ روایت خواہ وہ کسی ادارے کی ہو، کسی طرز زندگی کی ہو یا کسی تخلیقی ہنر کی۔ مثلاً گانے بجانے اور شعروشاعری کی، وہ اپنے اندر جہاں بہت سی پیوندکاریوں اور تبدیلیوں کو جگہ دیتی رہتی ہے، وہاں کبھی کبھی ایک نئی بساط آہنگ بچھانے پر بھی مجبور ہو جاتی ہے۔ باربُد کے ترانوں کے اوزان آج ناپید ہیں مگر ایران کے دیہاتوں میں وہاں کے دہقان جن اوزان کے تحت شعر کہتے ہیں، وہ فارسی میں عربی کے مروجہ اوزن سے مختلف ہیں۔ ان میں چھندوں کے ساتھ تکیوں (Accents) کا بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس طرح کی پیوندکاریاں ہمیں اپنی شاعری کی روایت میں بھی ملتی ہیں۔ میر تقی میر نے جہاں فارسی کے مروجہ اوزان میں شعر کہے ہیں، وہاں ہندی اوزان میں بھی غزلیں کہی ہیں، لیکن آج اردو کے شعرا کے درمیان ہندی اوزان کا کوئی چلن کم از کم غزلوں میں نہیں ہے۔ لیکن جب وہی شعرا فلمی گانے یا گیت اور دوہے وغیرہ لکھتے ہیں تو ہندی شاعری کے تال وسم کو اپنے سامنے رکھتے ہیں اور اس نئے زمانے میں جو ہمارے پاپ سنگرز (POP-SINGER) ہیں وہ تو انگریزی تال پر اردو کے بول وضع کر رہے ہیں۔
ان چندمثالوں سے جوبات میں واضح کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ جہاں یہ بات صحیح ہے کہ ہم روایت کی دنیامیں سانس لیتے ہیں، وہاں یہ بھی صحیح ہے کہ روایت کی جکڑ بند سے آدمی گھٹ کر رہ جاتا ہے، دریا سے ایک جوئے کم آب بن کر رہ جاتا ہے۔ زندگی ایک مسلسل عمل ہے تجدید زندگی کا۔ وقت گو کوئٹے نے یزدان کا پیرہن قرار دیا ہے جسے وہ ہر صبح بدلتا رہتا ہے۔ اقبال کا بھی خیال وقت کے بار ے میں کچھ ایسا ہی ہے۔ وقت جہاں ہرشے کو مٹانے کے درپے ہوتا ہے، وہاں وہ ہر لمحہ نیا، ماضی کے لمحات سے مختلف ہوتا ہے۔ اقبال کے نظام فکر یا حوالہ فکر میں تاریخ اپنے کو دہراتی نہیں ہے۔ وہ نیٹشے کے ’’ابدی تکرار‘‘ کے تصور کے مخالف اور برگساں کے اس خیال کے حامی تھے کہ تاریخ کبھی بھی اپنے کو دہراتی نہیں۔ ارتقا میں بھلا تکرار کہاں، ہر لمحہ منفرد ہوتا ہے۔
پھر بھی بقول مارکس، تاریخ میں ایک رجحان دہرانے کا ہوتا ہے۔ مگر پہلی باربہ حیثیت المیہ (ٹریجڈی) بار دیگر بہ حیثیت مزاحیہ کھیل (FARCE) میں یہاں تاریخ کے کسی فلسفے کو بیان کرنا نہیں چاہتا۔ کیوں کہ فلسفے کو سمجھنے اور سمجھانے کی بھی ایک روایت ہوتی ہے اور وہ روایت ہمارے یہاں کئی صدیوں سے موقوف ہے۔ چنانچہ ہم نے گزشتہ چھ سات سو سال میں کوئی بڑی فکر عقل کے ذریعے نہیں، بلکہ جذبے یا عشق کے حوالے سے کی ہے اور روشنی جو خدا کا پیرہن ہے، اس کے بجائے، وحشت اور جنون کی آرزو کی ہے، جو لباس اہرمن ہے، ایک غالب نے کہیں کہیں شمع یونانیاں اور فلسفہ اشراق سے کچھ روشنی بکھیری ہے اور اثبات کو نفی سے ٹکرایا ہے۔ جو ایک عمل تجدید حیات کا ہے، لیکن شاعری ان فلسفیانہ خیالات کی متحمل کب ہو سکتی ہے، تاہم وہی حافط صہبا گسار جس کے مے خانے کامے کش ’’زبورعجم‘‘ کا باغی شاعربھی تھا اس کے اس قول کا اعادہ کوئی چھوٹی بات نہ تھی کہ ’’وجود جملہ اشیا بضداست۔‘‘
غالب نے اس فکر کو بڑی آب و تاب کے ساتھ دہرایا ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ ہر وجود کے اندر اس کو نفی کرنے والی قوت پوشیدہ ہوتی ہے، ان دونوں قوتوں کے درمیان اتحاد و تخالف، دونوں ہی ہوتا ہے۔ اسی کشمکش سے ان کا وجود ہے لیکن آٓخرکار متخالف قوت پرانے کو اپنے اندر جذب کر لیتی ہے۔ یعنی اس کی قوت اور توانائی کو ہضم کرکے ایک نئے وجود کو جنم دیتی ہے، جو پرانے سے زیادہ پر مایہ، توانا اور مختلف ہوتا ہے۔ اس اصول سے کسی بھی روایت کا وجود آزاد نہیں ہے۔ لیکن اس سلسلے میں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ کوئی بھی پرانی شے اس وقت تک دم نہیں توڑتی ہے، جب تک کہ وہ اپنی تمام امکانی قوت کو صرف نہیں کر چکتی ہے۔
چنانچہ اس جدلیات کے پیش نظر ہیگل (HEGEL) غالباً کچھ قبل از وقت اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ شاعری اپنی ممکنہ قوت کو صرف کرکے عصر حاضر کی اس جدید نثر کو جنم دے رہی ہے جو اظہار حقیقت اور حقیقی فکر کے لئے شعر سے زیادہ مناسب، موزوں اور قوی ہے۔ اس کی دلیل وہ یہ دیتا ہے کہ شاعری کا تعلق تخیل، یعنی غیر حقیقی باتوں سے ہوتا ہے۔ نثر کا تعلق حقیقت یا ٹھوس حقیقی باتوں سے ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ تاریخ کو نثر بتاتا ہے۔ (History is prose) اس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان تاریخی حقائق سے نبرد آزما نثر ہی کے ذریعے ہوتا ہے اور نثر ہی کے ذریعے کی گرفت تاریخ پر مستحکم ہوتی ہے۔ مگر بہت دنوں تک لوگوں نے ہیگل کی یہ بات نہ مانی۔ یہ کہتے رہے، شاعری کا تعلق جذبہ حیرت سے ہے اور جب تک کہ حیرت کدہ کائنات قائم ہے، شاعری کا سہاگ بھی قائم رہےگا۔
لطف یہ ہے کہ یہی بات ارسطو نے فلسفے کے بارے میں کہی تھی کہ فلسفہ جذبہ حیرت سے پیدا ہوا۔ بہرحال اب یہ بات خاصی پرانی ہو چکی ہے۔ اب تو شاعری کی نئی ضرورتوں کو دریافت کیا جا رہا ہے یا یہ کہ تلاش کیا جا رہا ہے۔ فرد اور کائنات کے درمیان توازن قائم کرنے کی ضرورت بذریعہ شعر خواب دیکھنے کی ضروریات، نفسی توانائی میں اضافہ کرنے کی ضرورت، آئینہ شعور کو مجلا کرنے کی ضرورت، داخلیت کو تیز کرنے کی ضرورت، اتنی بہت سی باتوں کو شاعری کی ضرورتوں کے تحت لایا جا رہا ہے۔ چنانچہ میں یہ نہیں کہتا کہ ہیگل کی بات تمام تردرست ہے۔ تاہم اس میں سچائی موجود ہے۔ سارتر نے بھی شاعری کو ادب سے الگ کر دیا ہے اور شاعری کو تمام تر تخیل کی شے قرار دیا ہے اور صرف نثر کے ادب کو ادب کہتا ہے۔ ہمارے حالی نے بھی اپنے کسی مضمون میں یہ لکھا ہے کہ اب شاعری چلتی ہوئی نظر نہیں آتی ہے۔ ان کا یہ احساس اپنی جگہ درست تھا۔ وہ تخیل کی وادی سے نکل کر حقیقت کے میدان میں اتر آئے تھے۔ اس وقت سے شاعری ہمارے یہاں بھی کرب اور بحران میں مبتلا ہے۔
جب کوئی بڑا شاعر، حقیقی فکر، یعنی تاریخ سے نبرد آزما ہونے والی فکر، شاعری کی میڈیم میں کرتا ہے تو وہ خاصا نثرنگار بن جاتا ہے اور چھوٹا شاعر، جو شاعری کا رسیا بنا ہوا، یا تو فکر سے محروم رہت اہے یا معمولی معمولی باتوں کی شاعری کرتا ہے، یا پھر شخصی الہام کا سہارا لیتا ہے۔ کیا اس طرح ہیگل کایہ خیال صحیح ثابت ہو رہا ہے کہ شاعری نثر کو جنم دے رہی ہے یا یہ کہ فرانسیسیوں کی یہ بات صحیح ثابت ہو رہی ہے کہ شاعری موسیقی کی طرف لوٹ جائےگی اور صرف گانے بجانے کی شے، جذبے کی سیرابی کی ایک شے اور تخیل کی شعبدہ گری کی ایک شے ہوکر رہ جائےگی اور حقیقی فکر یعنی تاریخ سے نبرد آزما ہونے کا کام اس سے نہ لیا جا سکےگا۔ مگر فی الحال چھوڑیے اس بات کو، شاعری ہزار روپ ہے۔ یہ ہمارے وجود کا پیرہن ہے۔ ہائیڈگر تو اسے کاشانہ وجود قرار دے چکا ہے، یہ کوئی نیا چولا بدل لےگی۔ چنانچہ اس سے زیادہ اہم یہ سوال ہے کہ جب ہم کسی صنف سخن کی روایت کا ذکر کرتے ہیں تو اس سے ہماری مراد کیا ہوتی ہے؟
کیا اس سے مراد صنف سخن کی خارجی ہیئت کی روایت ہوتی ہے یا اس کی معنوی دنیا کی روایت بھی۔ میری نظر میں اس کا اطلاق دونوں پر ہوتا ہے۔ حالی کے زمانے سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ غزل کی پرانی ہیئت میں ایک نئے جہان معنی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ غزل کی زندگی بہت کچھ رہین منت ہے اس بات کی کہ اس میں اظہار معنی پر سے قیدوبند اٹھادی گئی ہے۔ حتی کہ اس کا روایتی انتشار بھی ختم ہو رہا ہے اور اب ایک کوشش اسے نظم جدید میں تبدیل کئے جانے کی دکھائی دیتی ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ ہرچند کہ روایت کا تعلق صورت اور معنی دونوں ہی سے ہوتا ہے، لیکن جس تیزی سے تبدیلی اس کے جہان معنی میں پیدا ہوتی ہے، اتنی تیزی سے تبدیلی اس کی خارجی ہیئت میں رونما نہیں ہوتی ہے۔ کیونکہ جدید خیالات کو معروف صورتوں میں دیکھنا لوگ زیادہ پسند کرتے ہیں، لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ خارجی ہیئت میں تبدیلی واقع نہ ہوتی ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو کسی بھی خارجی ہیئت کی کوئی تاریخ نہ ہوتی۔ کیونکہ تاریخ توعبارت ہے تغیروتبدل ہی سے۔
ایلیٹ نے ایک موقع پر یہ کہا ہے کہ شاعر کا ذہن بدلتا ہے، آرٹ نہیں بدلتا، مگر اس موقع پر ایلیٹ نے آرٹ کی کوئی وضاحت نہیں کی مگر ایک دوسرے موقع پر جیمس جوائس کے ناول ’’یولی سز‘‘ کے فارم پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا۔ خواہ آپ اسے ناول کہیں یا نہ کہیں، اب ناول کا فارم چلتا ہوا نظر نہیں آتا۔ یہاں ایلیٹ فنکار کے ذہن اور اس کے آرٹ کے درمیان بدلتا ہوا رشتہ دریافت کر لیتے ہیں۔ چنانچہ
’’یولی سز‘‘ (ULYSSES) کے غیر روایتی طرز بیان (ANTI NARRATIVE) یعنی شعور کی رو والے طرزبیان کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھاتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں کہ ناول کا بیانیہ انداز (NARRATIVE DICTION) اپنی ممکنہ قوت کو صرف کرکے دم توڑتا ہوا نظر آتا ہے۔
میں ایلیٹ کو ذرا کم ہی اپنی گفتگو کے درمیان برائے آرائش لاتا ہوں۔ یہاں ان کا ذکر بالخصوص اس لئے کیا کہ وہ روایت پرستی یا نوکلاسکیت کے بہت بڑے حامی ہیں، جس کی تعریف ان کی نظر میں یہ ہے کہ نئی نسل کے شعرا ماضی کے عظیم شاعرو ں کا جھنڈا اپنی شاعری میں بلند کرتے ہوئے نظر آئیں۔ یہ تعریف بھی ہے اور ترغیب عمل بھی، اورجب انہوں نے خود انگریزی کے شاعر پوپ کی نقالی شروع کی تو ان کے دوست ازراپانڈ نے ان کو تنبیہ کی کہ بڑے شاعروں کی پیروڈی لکھنا نہ صرف بڑے شعرا بلکہ فن کی بھی توہین ہے۔ شاعر وہی اچھا ہے جو اپنی کھال میں رہے۔ بہرحال یہاں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جب معنی بدلتے ہیں تو اس کے اظہار کی صورت میں بھی تبدیلی کے آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں۔ اظہار اور بیان کے نئے تجربات اسی طرح وجود میں آتے ہیں جنہیں جدت کا نام دیا جاتا رہا ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر تحریر کامیاب ہو جائے تاہم نئے تجربات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔
ان دنوں چونکہ ہمارے تنقیدی ادب میں اظہار ذات کی بات بیشتر کی جاتی ہے، اس لئے فن شاعری کو ذرا اس رشتے، یعنی اظہار ذات کے رشتے سے بھی دیکھنا، جانچنا اور پرکھنا چاہئے۔ ہائیڈگر (HEIDEGGER) نے لکھا ہے کہ ’’فن سے فن کار ہے، نہ کہ فن کار سے فن۔‘‘ اس قسم کے جملوں سے فن کی قدامت تو ظاہر ہوتی ہے لیکن یہ بات ظاہر نہیں ہوتی ہے کہ انسان اپنے فنون اور ہنر کا خالق نہیں۔ کسی فن کی تاریخ اگر ماضی کے دھندلکے میں ملفوف ہو گئی ہے تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ شاید فن کسی پراسرار طریقے سے انسان کو ملا ہے اور انسان اس کا موجد نہیں ہے۔
فنون لطیفہ کی اصل کو سمجھنے کا ایک طریقہ کار یہ بھی ہے کہ ہم اس فن کی اندرونی ضرورت کو بھی سمجھیں، اگر موسیقی کی اندرونی ضرورت یا اس کا تقاضا ہمارے حواس کی دنیا میں نہ ہوتا تو اس کا وجود میں آنا ممکن نہ ہوتا۔ موسیقی اس لئے وجود میں آئی اور اس نے معروضی صورتیں اختیار کیں کہ اس کی ضرورت ہمارے حواس کی دنیا میں ہے۔ یہ ایک الگ مسئلہ ہے کہ موسیقی سے کیا کیا کام تاریخ میں لئے جاتے رہے ہیں یا یہ کہ اس سے کیا کیا کام لیا جا سکتے ہیں۔ اب تو موسیقی سے پودوں اور جانوروں کے امراض کا بھی علاج کیا جا رہا ہے، لیکن موسیقی کچھ ان کاموں کے لئے وجود میں نہیں آئی، وہ اس لئے وجود میں آئی کہ ا س کی ضرورت، اس کا تقاضا ہمارے حواس کی دنیا میں تھا۔ وہ جو ایک گوش نغمہ نیوش ہم نے پایا ہے، وہ جو ایک احساس آہنگ اور ہارمونی ہماری فطرت میں ہے، ہماری قوت سامعہ کو نصیب ہوا ہے، اس قوت کی تحصیل اور اس کی تسکین کے لئے موسیقی وجود میں آئی۔ موسیقی ہمارے احساس آہنگ اور ہارمونی کی ایک معروضی صورت ہے۔ چنانچہ کوئی اور خدمت انجام دینے سے پہلے اس داخلی ضرورت کو پورا کرنا یعنی ہماری قوت سامعہ کو لذت بخشنا موسیقی کا لازمی کام ہے۔ اس خدمت کے بغیر وہ موسیقی نہیں بلکہ کھڑاگ ہے۔
اس طرح کی بات شاعری سے متعلق بھی کہی جا سکتی ہے۔ مگر شاعری کے ساتھ یہ دشواری ہے کہ اس کا تعلق کسی ایک حس سے نہیں بلکہ ہماری متحدہ حسیات سے ہے۔ یہ ہمارے تمام حواس ظاہری اور حواس باطنی سے تعلق رکھتی ہے۔ پھر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ بہت نمایاں طور سے اس کا تعلق موسیقی، تخئیل، خیال (IDEA) اور جذبے سے ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ اس کا بیشتر تعلق دنیائے مجاز اورعالم خواب سے ہے۔ میرا خیال ہے کہ شاعری کا نمایاں تعلق ان ساری مؤخرالذکر باتوں سے بھی ہے کیونکہ ابتدائی عہدوں میں جہاں تک سراغ ملتا ہے، شاعری سحرانگیزی کا ایک فن تھی۔ جادو ٹونے سے اس کا گہرا تعلق تھا۔ چنانچہ یہی سبب ہے کہ اس فن میں موضوع معروض کے ساتھ متحد ہو جاتا ہے۔ دونوں ایک وحدت میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ جو باتیں غیر حقیقی، تخیلی اور خیالی ہوتی ہیں، وہ حقیقی معلوم ہونے لگتی ہیں۔ شاعری آج بھی کیمیا اثر اور سحرانگیز ہے، اگروہ واقعتاً شاعری ہے۔
چنانچہ اسے کسی خارجی مقصد کو پورا کرتے ہوئے خواہ اس مقصدکی تکمیل پنہاں ہو یا عریاں، اسے ہماری اس داخلی ضرورت کو پورا کرنا ہے کہ وہ اپنی سحرانگیزی سے ہمیں ایک ایسی دنیا میں لے جائے، ایک ایسی کیفیت سحر زدگی سے دوچار کر دے کہ ہم آئیڈیلسٹک باتوں کو حقیقی روپ میں دیکھ سکیں۔ شاعری ہماری تحصیل ذات کا ذریعہ بن جائے۔ شاعری توجد ذات اور بالیدگی ذات کا ذریعہ بن جائے۔ اس ضرورت کو پورا کئے بغیر وہ شاعری نہیں بلکہ شاعری سے کچھ کم ہوگی۔ اچھی شاعری سے یہ دونوں مقاصدیعنی احساسات کی بالیدگی یا تسکین روح کے مقصد کے ساتھ ساتھ سماجی مقاصد، جن کا ذکر اوپر کیا جا چکاہے، بیک وقت بلا امتیاز این اوآں پورے ہوتے ہیں۔
یہاں یہ نہ بھولنا چاہئے کہ شاعری ایک زبان بھی ہے اور وہ زبان کے فریضے کو نظرانداز نہیں کرتی ہے۔ زبان کے فریضے کو ادا کئے بغیر شاعری مہمل ہے۔ اظہار تابع ابلاغ ہے۔ مہارت زبان یہ ہے کہ ابلاغ آسان ہو جائے۔ عجز کا نام شاعری نہیں۔ ابہام بے شک اس کا زیور ہے لیکن عجز نہیں۔ مگر اظہار ذات کی نسبت سے فن کی یہ تشریح ادھوری رہ جائےگی، اگر ذات کی تشریح نہ کی جائے۔ شعروشاعری کے مباحث میں ہمارے شعرا اکثر اظہار ذات کی باتیں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ ان کی مراد ذات سے کیا ہوتی ہے۔ وہ اس سے مرادصرف ’’میں‘‘، ’’انا‘‘ لیتے ہیں یا کچھ اوربھی۔ فرد صرف ’میں ‘ ہی نہیں بلکہ اپنی نوع یا ’’کل‘‘ کا ایک جزو بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ شعروشاعری سے متعلق بہت سے نظریاتی اختلافات ذات کی تفسیر اور تشریح سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔ دور حاضر میں جو وجودی یا ’’موجودی جدیدیت‘‘ ہے اس کی اساس بعض فلسفیانہ مبادیات پر ہے۔
ان میں سے ایک یہ ہے کہ کسی فرد کا کوئی جوہر (ESSENCE) ہستی سے پہلے نہیں ہوتا ہے۔ یعنی فرد ہستی سے متصف ہونے کے بعد اپنا کوئی جوہر پیدا کرتا ہے۔ چنانچہ جوہر ذاتی کی نسبت سے کوئی بھی فرد کسی دوسرے فرد کے ساتھ کوئی بھی چیز مشترک نہیں رکھتا ہے جس کی بنیاد پر اس کی نوعی تخصیص ہو سکے۔ چنانچہ وہ تمام تر تنہا ہے۔ اس کا کوئی ثانی یا نظیر نہیں۔ اس کے برعکس ارسطاطلیسی علم الوجود (ONTOLOGY) میں، انسان ایک نوعی فرد ہے۔ وہ شعور ذات سے متصف ہونے کی وجہ سے ایک فرد یعنی دوسروں سے مختلف ہی نہیں بلکہ اپنی نوع کا ایک نمائندہ فرد بھی ہوتا ہے۔ وہ بہت سی چیزیں اپنی نوع کے ساتھ مشترک رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں اور ایک دوسرے کے غم اور خوشی میں شریک ہوتے ہیں اور جہد البقا میں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون سے کام لیتے ہیں۔
چنانچہ جب وہ از روئے شعور ذات اپنے اندر دیکھتا ہے تو اپنے ذہن اور اپنے نفس کے آئینے میں دوسروں کو بھی دیکھتا ہے اورجب وہ دوسروں کی حرکات و سکنات، محرکات وعوامل پرغور کرتا ہے تو وہ ان کی تصویر میں خود اپنے کو بھی دیکھتا ہے۔ کیونکہ فرد، نوعی فرد ہونے کے باعث صرف منفرد اور یکتا ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کے تمثال بھی ہے۔ اس کی انفرادیت اس کی اجتماعیت کی رہین منت ہے۔ کوئی بھی فرد دوسرے فرد سے اتنا انوکھا نہیں ہوتا ہے کہ اس پر اس کی نوع کی عمومی خصوصیت کا اطلاق نہ ہوسکے۔ چنانچہ انہی مشترکہ خصوصیات یا مشترکہ ذہن یا سماجی شعور کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کے جذبات اور خیالات کو سمجھتے ہیں اور جس کی بنیاد پر وہ ایک مجلسی زندگی بسر کرتے رہتے ہیں۔ ان سارے کاموں کا وسیلہ زبان ہے جو کسی ایک فرد کی ایجاد نہیں اور جونہ کسی عمرانی معاہدے کی صورت میں وجود میں آئی ہے بلکہ یہ اس کے تعاون اور شرکت ذہنی سے وجود میں آئی ہے۔
قبل اس کے کہ انسان نے کوئی اوزار ایجاد کیا ہو، اس نے زبان کو مقاصد حیات کی تکمیل میں، بہ حیثیت اوزار استعمال کیا ہے۔ اس کا مجتمع ہونا کسی مقصد کے حصول کے لئے، زندگی کا یہ اولین مقصد زبان کے ذریعے حاصل ہوا ہے۔ یہاں یہ بات بھی یا درکھنی چاہئے کہ زبان شعور کی معروضی صورت ہے اور شعور زبان کی داخلی حقیقت ہے، ا ن میں سے کوئی بھی مؤخر یا مقدم نہیں ہے۔ زبان جہاں لوگوں کو مجتمع کرنے، باہم گفتگو کرنے، محفل اور مجلس کا ایک ذریعہ ہے، علم وعرفان اور سحرکاری کا ایک ذریعہ ہے، وہاں وہ خلوت کدہ ذات میں خود اپنے سے ہم کلام ہونے یا خودبینی کا بھی ایک ذریعہ ہے۔ شاعری ان دونوں عمل کا مظہر رہی ہے مگر کیٹس کی یہ بات غلط بھی نہیں ہے کہ ہمارے بہترین نغمے خلوت کدہ غم کے رہے ہیں۔ کیونکہ اس عالم میں انسان، بلکہ یوں کہیے کہ خلوت کدہ ذات میں وہ اپنی ذات کے آفاقی یا کائناتی رشتے یا جوہر کو زیادہ اچھی طرح سمجھ سکتا ہے۔
چھوڑیئے غم کوکہ اب غم دنیاسے گھٹتا بھی جا رہا ہے۔ طرب انگیزی CULT بڑھتا جا رہا ہے اور یہ برا بھی نہیں ہے، مگر یہ بات یاد رکھیے کہ شاعری تمام تر بیداری اور جدوجہد کی شے نہیں ہے بلکہ عزلت نشینی، تفکر، گیان دھیان کی بھی شے ہے۔ انسان جہاں فطرت سے الگ ہوتا ہے وہاں اس کے ساتھ متحد بھی ہوتا ہے۔ اس کا یہ عمل داخلی اور خارجی دونوں ہی ہے۔ بہرحال یہاں یہ بات نتھر کر کچھ سامنے آئی کہ فرد ایک تمام تر اتفاقیہ غیر مربوط فرد، تاریخ سے غیر مربوط فرد، کائنات سے غیر مربوط فرد، وجود (BEING) سے غیر مربوط فرد نہیں ہے، بلکہ اپنی نوع کا اور اپنے معاشرے کا ایک مربوط اور نمائندہ فرد ہوتا ہے۔ تاریخ اور کائناتی وجود سے ایک منطقی ربط رکھتا ہے۔ چنانچہ جب دور حاضر کی وجودیت انسان کی مجلسی فطرت سے انکار کرتی ہے، اس کے سماجی وجود سے انکار کرتی ہے، ان کے درمیان کسی مشترک ذہن اور شعور کے وجود سے انکار کرتی ہے اور اس بات پر غور نہیں کرتی ہے کہ شعور ذات اصل میں سماجی شعور ہے۔ کیوں کہ انسان نے شعور ذات، سماجی زندگی کے عمل میں حاصل کیا ہے تو وہ انسانی وجود کا ایک پر مذاق اور سطحی مطالعہ پیش کرتی ہے۔ اب وجود یوں کے چند بیانات اس سیاق وسباق میں انسان کے بارے میں ملاحظہ ہوں۔
آدمی کو وجود کے گھورے پر پھینک دیا گیا ہے جہاں نیستی نے اسے اپنے حصار میں لے لیا ہے۔ اس کی تنہائی کے سماجی اسباب نہیں جنہیں دور کیا جا سکے۔ وہ تنہا ازروئے وجود ہے۔ اس کی اس تنہائی کا کوئی مداوا نہیں۔ غیر اس کا دشمن ہے اور وہ اس سے بالکل خارج میں ہے، ان کے درمیان کوئی اندرونی شتہ ذہن یا شعور کا نہیں ہے اور نہ کوئی رابطہ زبان اور سماجی رشتوں کا ہے۔ وہ ایک دوسرے کے احساسات میں شریک نہیں ہو سکتے بلکہ ایک دوسرے کو دشمن کی طرح گھورتے رہتے ہیں اور اس تا ک میں رہتے ہیں کہ کیونکر ایک دوسرے کو مقصود بالذات سے متصرفہ میں تبدیل کر دے۔ اسے اپنے تصرف میں لائے۔ اس طرح ایک غیر منعکس شیشہ ان کے درمیان حائل رہتا ہے۔ وہ نہ توایک دوسرے کے لئے آئینہ ہیں اور نہ ایک دوسرے کی تمثال۔
اس وجودی صورت حال میں جہاں غیراس کا دشمن ہے اور اس کے لئے جہنم بنا ہوا ہے اور وہ خودنیستی کے خول میں مقید ہے، اس کے لئے اس زندگی میں بجز خوف و ہراس، خوف و دہشت، تشویش اور پریشانی، اکتاہٹ اور تنہائی، حبر و اکراہ کچھ بھی نہیں ہے۔ انسان جیسا کہ آج ہے ویسا ہی وہ ماضی میں تھا اور ویسا ہی ہمیشہ وہ مستقبل میں رہےگا 1 کوئی بھی تغیر و تبدل اس کی زندگی میں نہیں ہے۔ وہ نیستی کے ایک خلائے محیط میں گھرا ہوا ہے، جہاں ہر شے ساکن اورساکت ہے اور اس گنبد بے در سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں، کوئی مداوا، کوئی امید نہیں۔ چنانچہ یورپی جدیدیت کا ایک مشہور شارح اور شاعر گاٹ فرائڈبن (GOTT FRIED BEN) اپنے ایک مضمون میں ’’کیا فنکار دنیا کو بدل سکتے ہیں‘‘ لکھتا ہے،
’’میرا خیال ہے اور یہ بات کسی بھی باہمت آدمی کے لئے بڑی انقلابی ہوگی، اگر وہ یہ سچائی دنیا والوں تک پہنچا سکے کہ تم وہ ہو جو کچھ کہ تم ہو، اور تم کبھی بھی اس سے مختلف نہیں ہو سکتے ہو۔ یہ ہے تمہاری زندگی اور یہ رہےگی ہمیشہ تمہاری زندگی۔ ایک دولت مند آدمی علاج معالجے سے اپنی زندگی کو کچھ طول دے سکتا ہے۔ جو صاحب اقتدار ہے وہ کبھی کوئی غلط کام نہیں کرتا ہے، جو طاقتور ہیں وہ ہی حق کو تسلیم کراتے ہیں۔ یہی تاریخ (ماضی) بتاتی ہے۔ یہی حال ہے۔ اس کے جسم سے چمٹ جاؤ۔ اس کو کھاؤ اور مر جاؤ۔‘‘
بن (BENN) کے ان خیالات میں خاصی تلخی ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے جبر و استحصال کے خلاف اور اس کی پیدا کردہ کلی (TOTAL) بے گانگی کے خلاف ان جملوں میں ایک شدید ردعمل ہے اور ساری باتیں طنز کے لب ولہجہ میں کہی گئی ہیں لیکن غالباً اس سے کسی کو بھی انکار نہیں ہوگا کہ اس قسم کے غم وغصے کا اظہار ایک قسم کی متحرک مجہولیت ہے۔ اس متحرک مجہولیت میں بظاہر حرکت نظر آتی ہے لیکن سفر مفقود ہوتا ہے۔ سفر پیدا کہاں سے ہو۔ جبکہ ان کے یہاں کوئی تاریخی تناظر نہیں ہے، جبکہ ماضی کا کوئی شعور نہیں ہے۔
وجودیت میں ماضی کا کوئی شعور نہیں ہے۔ صرف حال اور مستقبل ہے اور جو مستقبل ہے وہ ایک امراتفاقی ہے نہ کہ حال کا کوئی منطقی ارتقا۔ ان کی نظر میں نہ توہستی وابستہ قانون ہے اور نہ کائنات۔ چنانچہ وہ تو اس سے بھی انکار کرتے ہیں کہ فرد کا کوئی رشتہ اسلاف اور اخلاف سے بھی ہو سکتا ہے۔ ان کے تصور کا فرد نہ صرف اپنے کل سے، اپنی اجتماعی زندگی سے غیر مربوط اور منقطع ہوتا ہے، بلکہ اپنے اسلاف اور اخلاف سے بھی۔ چنانچہ گاٹ فراڈ بن (GOTT FRIED BEN) اپنے ایک شعر میں کہتا ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے، ’’دانا تغیر اور ارتقا سے نابلد ہوتے ہیں، ان کے اخلاف ان کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔‘‘
روایت کا شعور اسلاف اور اخلاف دونوں ہی کے رشتوں سے پیدا ہوتا ہے۔ جبکہ دور حاضر کے وجودیوں کے فلسفے میں اسلاف اور اخلاف کے درمیان کوئی رشتہ ناتا ہی نہیں تو پھرنفئ روایت اور نفئ ادب ان کا جزوایمان کیوں نہ ہو۔ یہاں یہ یاد رہے کہ نفئ روایت، روایت شکنی سے مختلف شے ہے۔ روایت شکنی اضافہ روایت، تخلیق روایت کاعمل ہے اور نفئ روایت نفئ حیات ہے۔
روایت جیسا کہ میں نے پہلے بتایا، صرف ایک پیمانہ، ایک کی بورڈ (KEY BOARD) سروں کی جدول ہی نہیں جو نئے نغمات کی تخلیق کے لئے کار آمد ہو، وہ ان تجربات کا بھی نچوڑ پیش کرتی ہے جو اظہار خیالات کی کوششوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس عمل میں جب کوئی فارم (ہیئت یاصورت) خیال سے متحد ہو جاتا ہے، دونوں ایک دوسرے کے غماز بن جاتے ہیں، تو پھر وہ فارم صدیوں تک اپنا جادو جگاتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہیئت کئی جہان معنی کو سہار جاتی ہے۔ چنانچہ کسی روایت کا انتخاب بذات خود اس بات کو متعین کرتا ہے کہ فنکار اپنے ماضی سے اور اپنے معاشرے کے لوگوں سے کسی قسم کا رشتہ قائم کرنا چاہتا ہے۔ وہ انہیں اپنے جذبات اور خیالات میں شریک کرتا رہتا ہے، یاان سے بے نیاز ہوکر اور اپنے ماضی سے بھی منطقع ہوکر اپنی انوکھی راہ نکالنا چاہتا ہے۔ جو صرف اس کے لئے جیسا کہ جدیدیت کے فنکاروں کا ایک نعرہ یہ بھی ہے کہ فن صرف فنکاروں کے لئے ہوتا ہے نہ کہ غیر کے لئے۔ لیکن عجیب معاملہ یہ ہے کہ وہ اسے مسلط غیروں ہی پر کرتے ہیں۔
جدیدیت کے ان فنکاروں کے برعکس وہ ادیب اور شاعر جو اپنے معاشرے کے لوگوں کو ساری دنیا کے لوگوں کو اپنے خیالات اور جذبات میں شریک کرنا چاہتے ہیں، وہ کسی نہ کسی مقبول عام (POPULAR) روایت کا سہارا لیتے ہیں۔ ایک ایسی روایت کا جو اہل محفل سے ذریعہ ارتباط کا کام دیتی ہے۔ یہ بڑا انتخابی کام ہے۔ یعنی اس کے انتخاب کرنے میں دقت پیش آتی ہے۔ جو لوگ کسی روایت میں گفتگو کرتے ہوئے اپنی انفرادیت کو برقرار نہیں رکھ پاتے ہیں یا یہ کہ اس روایت میں اضافہ نہیں کر پاتے ہیں، وہ اپنے کو روایت کے سمندر میں غرق بھی کر دیتے ہیں۔ بارہا دہرائی ہوئی باتوں کو دہرانے لگتے ہیں۔ میروغالب کی نقالی شروع کر دیتے ہیں۔ مصحفی اور آتش کی نقالی شروع کر دیتے ہیں۔ جرمنی میں نیوکلاسیزم کسی زمانے میں تخلیقی قوت کی حامل رہی ہے۔ چنانچہ اگر نقالی تخلیقی قوت کے ساتھ ہو، کچھ زیادہ بری نہیں، لیکن بری نقالی میں تو شاعر کا اپنا چہرہ بھی بگڑ جاتا ہے۔
فرانس میں نیوکلاسیزم تخلیقی قوت کے حق میں مضر ثابت ہوئی۔ چنانچہ اسی وجہ سے وہاں کے شعر نیوکلاسیزم کو چھوڑ کر، جدیدیت یعنی بودیلئر کی جدیدیت کی طرف بڑھے، لیکن فرانس کی اس جدیدیت اور جرمنی کی ’’اظہاریت‘‘ کے متوازی ایک دوسری روایت انقلابی رومانیت اور حقیقت نگاری کی بھی یورپ میں تیزی سے بڑھی اور ان دونوں نے ساری دنیا کو ایک ایسے ادب سے روشناس کیا، جس کا تعلق فرد کی خلوت ہی سے نہیں بلکہ اس کی محفل سے بھی تھا، جس میں تحرک مجہول (PASSIVE ACTIVITY) نہیں، بلکہ ایک سفر منزل کی طرف ہے۔ حرکت کے ساتھ ساتھ سفر بھی ہے۔ یہ دونوں ادبی روایتیں، شاعری کی دنیا میں بالخصوص انقلابی رومانیت کی روایت اورافسانوں اور ناولوں میں حقیقت نگاری کی روایت جواب ہمارے ادب اور شاعری کی مضبوط روایتیں ہیں، انہیں بہت کچھ ہم نے مغرب سے مستعار لیا ہے۔ جب ہم نے ناول کا فارم قرض لیا، تو پھر اس کے ساتھ ساتھ سروینٹیز (CERVANTES) ڈکینس (DICKENS) اسکاٹ اور پھر فرانس اور روس کے ناول نگاروں کے بیانیہ ڈکشن کی روایت یعنی عوامی زندگی اور معاصر زندگی کو پیش کرنے کی روایت بھی قرض لینی پڑی۔
انیسویں صدی کے نصف آخر کے زمانے میں ہمارا ادب ایک بڑے پیمانے پر مغربی ادب اور افکار سے متاثر ہوا۔ چنانچہ ہم نے جہاں صحافت نگاری ’’جرنلزم‘‘ مضمون نگاری وغیرہ مغرب سے سیکھی، وہاں ناول نگاری، جدید افسانہ نگاری اور ڈرامہ نگاری وغیرہ بھی مغرب سے سیکھی۔ جدید شاعری کی روایت اس عمل سے مستثنی نہیں ہے۔ اس پر بھی مغرب کا پیوندصاف نظر آتا ہے۔ لیکن اب ہم نے جدید شاعری کی ایک مضبوط روایت تخلیق کر لی ہے، جسے اب اردو کی جدید شاعری کا نام دیا جاتا ہے۔ چنانچہ آج بہت سے تجربات ہماری ان ادبی روایات کے میدان میں کئے جا رہے ہیں۔ غزل کی روایت میں ہیئت کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے بہت سی نئی باتیں جہان معنی میں دیکھنے میں آتی ہیں اور اب تو کچھ تجر بے ہیئت میں بھی کئے جا رہے ہیں۔
اس غزلیہ شاعری کے پہلو بہ پہلو ایک روایت جدید منظومات کی ہے، جونئے استعاروں، نئی تشبیہات اور امیجز میں بامعنی گفتگو کرنے کی ہے اور اہل محفل کو اپنے جذبات اور خیالات میں شریک کرنے کی ہے۔ یہ جدید شاعری قدرآفریں اورحیات پرور ہے۔ اس کے پہلو میں ایک جوئے کم آب یا گم آب کے مانند ’’جدیدیت‘‘ یا نیستی محض کی شاعری بھی نظر آتی ہے۔ وجودیت ایک ہم عصر فلسفہ ہے اور اسے بھی فلسفہ حیات (EXISTENTIALISM) کا نام دیا گیا۔ اس فلسفے سے بہت زیادہ الرجک (ALLERGIC) ہونے کی بھی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ شاعری میں فلسفہ نہیں بلکہ زندگی اہم ہوتی ہے اور جہاں زندگی ہے وہاں موت بھی ہے۔ غالب ’’دستنبو‘‘ میں لکھتے ہیں، ’’نیستی محض بخشندہ ہستی است۔‘‘ پھر کیوں نہ کچھ نیستی کو بھی ہم ہستی میں شامل کر لیں۔ اس سے منظر ہستی کچھ اور کشادہ ہو جائےگا۔ بقول غالب،
کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملا لیں یارب
سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی
حاشیہ
(۱) سارتر کا فلسفہ اس سے قدرے مختلف ہے۔ تاہم کچھ باتیں سارتر اور وجودیوں کے درمیان قدر مشترک کی بھی ہیں۔ (مصنف)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.