Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ادبی تنقید اور اسلوبیات

گوپی چند نارنگ

ادبی تنقید اور اسلوبیات

گوپی چند نارنگ

MORE BYگوپی چند نارنگ

    بعض لوگ اسلوبیات کو ایک ہوّا سمجھنے لگے ہیں۔ اسلوبیات کا ذکر اردو میں اب جس طرح جاوبیجا ہونے لگا ہے، اس سے بعض لوگوں کی اس ذہنیت کی نشاند ہی ہوتی ہے کہ وہ اسلوبیات سے خوف زدہ ہیں۔ اسلوبیات نے چند برسوں میں اتنی ساکھ تو بہرحال قائم کرلی ہے کہ اب اس کو نظر انداز کرنا آسان نہیں رہا۔ اردو کے ایک جدید نقاد جنہوں نے بالقصد تنقید کو ’’خار زار‘‘ بنایا ہے تاکہ لوگ ’’آبلہ پائی کی لذت‘‘ سے آشنا ہو سکیں، اس بات کا اکثر ماتم کرتے ہیں کہ جدیدیت ایک ’’شعلہ بکف بغاوت‘‘ تھی، لسانی نقادوں نے اسے ٹھنڈا کر دیا۔

    اول تو اردو میں لسانی نقاد ہی کتنے ہیں اور اگر ہیں بھی تو انہوں نے اسلوبیاتی مضمون ہی کتنے لکھے ہیں۔ تعجب ہے کہ وہ ’’شعلہ بکف بغاوت‘‘ جس کی مقدس آگ کو دو درجن جید نقاد روشن رکھے ہوئے تھے بقول ہمارے دوست کے، اسے دوایک لسانی نقادوں کی شکستہ بستہ تحریروں نے ٹھنڈا کر دیا۔ یہ اگر صحیح ہے تو پھر یقیناً اسلوبیات میں کوئی خاص بات ہوگی۔ کیونکہ جو چیز گرم رجحانات کو ٹھنڈا کر سکتی ہے، وہ سردزمین میں گرم چنگاریاں بھی بو سکتی ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اسلوبیات ایسا کوئی دعویٰ نہیں کرتی۔ ایک اور کرم فرما ہیں جنہیں اونچی سطح سے بات کرنے کامرض ہے گویا انوار انہیں پر نازل ہو رہے ہوں۔ وہ’’اخلاقیات تنقید‘‘ کی دہائی دیتے ہوئے نہیں تھکتے، حالانکہ ادبی ریاکاری کو آرٹ بنانے میں انہیں ملکہ حاصل ہے۔ ان کے نزدیک ’دانشوری‘ یہی ہے کہ اسلوبیات کے بارے میں جملہ بازی کرتے رہیں اور یوں اپنے احساس کمتری کے زخموں کو سہلاتے رہیں۔

    تنقیدنگار توخیر سمجھ میں آتا ہے کیونکہ بقراط بننے کا اسے حق ہے، لیکن اس لائق احترام قبیلے میں ایک سربرآوردہ تخلیق کار بھی ہیں جو فکشن میں اپنی ناکامیوں کا بدلہ اکثروبیشتر تنقید سے لیتے رہیں اور تنقید میں بھی لسانی تنقید کو برا بھلا کہہ کر اپنی بھکشوؤں والی بے تعلقی کا ثبوت دیتے رہتے ہیں۔ اگر ایسا کرنے سے ان کے فکشن کا بھلا ہو سکتا ہے تو لسانی تنقید کو ان کی معصومیت پر کوئی اعتراض نہ ہو نا چاہیے۔ واضح رہے کہ زیر نظر مضمون کاروئے سخن ایسے دانشوروں سے نہیں، کیونکہ یہ پہنچے ہوئے لوگ ہیں، یہ اس منزل پر ہیں جہاں ہر منزل بجز خودپرستی کے ختم ہو جاتی ہے۔

    یوں تو اس مضمون میں خاکسار نے بنیادی مباحث کو بھی چھیڑا ہے اور ان مآخذ و مصادر کا بھی ذکر کیا ہے جن سے میں نے بہت کچھ حاصل کیا ہے اور دوسرے بھی چاہیں تو حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ مضمون یا وہ کتب جن کا حوالہ دیا گیا ہے، بھلا ایسوں کا کیا بگاڑ سکتی ہیں جو سب کچھ پہلے ہی سے جانتے ہیں۔ ایسے حضرات سے استدعا رہے کہ ان اوراق پر اپنا وقت ضائع نہ کریں۔ البتہ یہ ان لوگوں کے لیے ہیں جو میری طرح طالب علمانہ تجسس رکھتے ہیں، نئے علم کے جو یا ہیں یا نئے لسانی مباحث کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کے خواہش مند ہیں۔ تو آئیے دیکھیں کہ اسلوبیات کیا ہے اور کیا نہیں ہے اور ادبی تنقید سے اس کا کیا رشتہ ہے۔

    اسلوبیات کی اصطلاح تنقید میں زیادہ پرانی نہیں۔ اس صدی کی چھٹی دہائی سے اسلوبیات کا استعمال اس طریق کار کے لیے کیا جانے لگا ہے، جس کی رو سے روایتی تنقید کے موضوعی اور تاثراتی انداز کے بجائے ادبی فن پارے کے اسلوب کا تجزیہ معروضی، لسانی اور سائنٹفک بنیادوں پر کیا جاتا ہے۔

    لسانیات، سماجیات اور نفسیات سے جو نئی روشنی پچھلی دو دہائیوں میں حاصل ہوئی ہے، بالخصوص نظریۂ ترسیل (Communication Theory) میں جو اضافے ہوئے ہیں، ان سے ادبی تنقید نے گہرا اثر قبول کیا ہے۔ تنقید کے دو نئے ضابطے جو اسلوبیات اور ساختیات کے نام سے جانے جاتے ہیں اور جن کے حوالے سے ادب کی دنیا میں نئے فلسفیانہ مباحث پیدا ہوئے ہیں، وہ انہیں اثرات کا نتیجہ ہیں۔ تاریخی اعتبار سے اسلوبیات کے مباحث مقدم ہیں اور نظریہ ساختیات یا اس سے متعلقہ نظریات جو پس ساختیات (Post-Structuralism) کے نام سے جانے جاتے ہیں، بعد میں منظر عام پر آئے، لیکن اسلوبیات کو سمجھے بغیر یا لسانیات کے بنیادی اصول وضوابط کو جانے بغیر نظریۂ ساختیات کو نیز ان تمام فلسفیانہ مباحث کو جو’’پس ساختیات‘‘ کے تحت آتے ہیں، سمجھنا ممکن نہیں ہے۔

    یہ اعتراض اکثر کیا گیا ہے کہ ان مباحث سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اسلوبیات کی سرحد کہاں ختم ہوتی ہے اور ساختیات کی کہاں سے شروع ہوتی ہے۔ لیکن دراصل جولوگ لسانیات سے واقف ہیں یا بعض بنیادی لسانیاتی معلومات رکھتے ہیں، ان کے نزدیک یہ اعتراض بے اصل ہے کیونکہ نظریہ اسلوبیات اور نظریہ ساختیات اگر چہ دونوں اپنے بنیادی فلسفیانہ اصول وضوابط لسانیات سے اخذ کرتے ہیں، لیکن دونوں کا دائرۂ عمل الگ الگ ہے۔ اسلوبیات یا ادبی اسلوبیات ادب یا ادبی اظہار کی ماہیت سے سروکار رکھتی ہے، جب کہ ساختیات کا دائرہ عمل پوری انسانی زندگی، ترسیل وابلاغ اور تمدن انسانی کے تمام مظاہر پر حاوی ہے۔ ساختیات کا فلسفیانہ چیلنج یہ ہے کہ ذہن انسانی حقیقت کا ادراک کس طرح کرتا ہے اور حقیقت، جو معروض میں موجود ہے، کس طرح پہچانی اور سمجھی جاتی ہے۔

    یہ بات خاطر نشان رہنا چاہیے کہ ساختیات صرف ادب یا ادبی اظہار سے متعلق نہیں بلکہ اساطیر، دیومالا، قدیم روایتیں، عقائد، رسم ورواج، طور طریقے، تمام ثقافتی ومعاشرتی مظاہر، مثلاً لباس وپوشاک، رہن سہن، خوردونوش، بودوباش، نشست وبرخاست وغیرہ یعنی ہر وہ مظہر جس کے ذریعے ذہن انسانی ترسیل معنی کرتا ہے یا ادراک حقیقت کرتا ہے، ساختیات کی دلچسپی کا میدان ہے۔ ادب بھی چونکہ تہذیب انسانی کا مظہر بلکہ خاص مظہر ہے، اس لیے ساختیات کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے۔ ساختیاتی مباحث میں ادب کو جو مرکزیت حاصل ہے اس کی وجہ یہی ہے۔

    اسلوبیات کا بنیادی تصور اسلوب ہے۔ اسلوب (Style) کوئی نیا لفظ نہیں ہے۔ مغربی تنقید میں یہ لفظ صدیوں سے رائج ہے۔ اردو میں اسلوب کا تصور نسبتاً نیا ہے۔ تاہم ’’زبان وبیان‘‘، ’’انداز‘‘، ’’اندازِ بیان‘‘، ’’طرزبیان‘‘، ’’طرزتحریر‘‘، ’’لہجہ‘‘، ’’رنگ‘‘، ’’رنگ سخن‘‘ وغیرہ اصطلاحیں اسلوب یا اس سے ملتے جلتے معنی میں استعمال کی جاتی رہی ہیں۔ یعنی کسی بھی شاعر یا مصنف کے انداز بیان کے خصائص کیا ہیں، یا کسی صنف یا ہیئت میں کس طرح کی زبان استعمال ہوتی ہے یا کسی عہد میں زبان کیسی تھی اور اس کے خصائص کیا تھے، وغیرہ، یہ سب اسلوب کے مباحث ہیں۔ ادب کی کوئی پہچان اسلوب کے بغیر مکمل نہیں۔ لیکن اکثر اس بارے میں اشاروں سے کام لیا جاتا رہا ہے اور تنقیدی روایت میں ان مباحث کے نقوش کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔

    اس روایت کے مقابلے میں جدید لسانیات نے اسلوبیات کا جو نیا تصور دیا ہے، اس کے بارے میں یہ بنیادی بات واضح ہونا چاہیے کہ اسلوبیات کی رو سے اسلوب کا تصور، اس تصور اسلوب سے مختلف ہے جو مغربی ادبی تنقید یا اس کے اثر سے رائج رہا ہے، نیز یہ اس تصور سے بھی مختلف ہے جو علم بدیع وبیان کے تحت مشرقی ادبی روایت کا حصہ رہا ہے۔ مزید برآں یہ اس تصور سے بھی مختلف ہے جس کا کچھ نہ کچھ ذہنی تصور ہم موضوعی طور پر یعنی تاثراتی طور پر قائم کر لیتے ہیں۔ مشرقی روایت میں ادبی اسلوب بدیع وبیان کے پیرایوں کو شعروادب میں بروئےکار لانے اور ادبی حسن کاری کے عمل سے عہدہ برآ ہونے سے عبارت ہے، یعنی یہ ایسی شے ہے جس سے ادبی اظہار کے حسن ودلکشی میں اضافہ ہوتا ہے۔ گویا اسلوب زیور ہے ادبی اظہار کا جس سے ادبی اظہار کی جاذبیت، کشش اور تاثیر میں اضافہ ہوتا ہے، یعنی مشرقی روایت کی رو سے اسلوب لازم نہیں بلکہ ایسی چیز ہے جس کا اضافہ کیا جا سکے۔

    پس اسلوب کے قدیم اور جدید تصور یعنی اسلوبیات کے تصور میں پہلا بڑا فرق یہی ہے کہ اسلوبیات کی رو سے اسلوب کی حیثیت ادبی اظہار میں اضافی نہیں بلکہ اصلی ہے، یعنی اسلوب لازم ہے یا ادبی اظہار کا ناگزیر حصہ ہے، یا اس تخلیقی عمل کا ناگزیر حصہ ہے جس کے ذریعے زبان ادبی اظہار کا درجہ حاصل کرتی ہے، یعنی ادبی اسلوب سے مراد لسانی سجاوٹ یا زینت کی چیز نہیں جس کاردیا اختیار میکانکی ہو، بلکہ اسلوب فی نفسہ ادبی اظہار کے وجود میں پیوست ہے۔

    اسلوبیات وضاحتی لسانیات (Descriptive Linguistics) کی وہ شاخ ہے جو ادبی اظہار کی ماہیت، عوامل اور خصائص سے بحث کرتی ہے اور لسانیات چونکہ سماجی سائنس ہے، اس لیے اسلوبیات اسلوب کے مسئلے سے تاثراتی طور پر نہیں، بلکہ معروضی طور پر بحث کرتی ہے، نسبتاً قطعیت کے ساتھ اس کا تجزیہ کرتی ہے اور مدلل سائنسی صحت کے ساتھ نتائج پیش کرتی ہے۔

    اسلوبیات کا بنیادی تصور یہ ہے کہ کوئی خیال، تصور، جذبہ، یا احساس زبان میں کئی طرح بیان کیا جا سکتا ہے۔ زبان میں اس نوع کی یعنی پیرایۂ بیان کے اختیار کی مکمل آزادی ہے۔ شاعر یا مصنف قدم قدم پر پیرایۂ بیان کی آزادی کا استعمال کرتا ہے۔ پیرایۂ بیان کی آزادی کا استعمال شعوری بھی ہوتا ہے اور غیرشعوری بھی اور اس میں ذوق، مزاج، ذاتی پسند و ناپسند، صنف یاہیئت کے تقاضوں نیز قاری کی نوعیت کے تصور کو بھی دخل ہو سکتا ہے، یعنی تخلیقی اظہار کے جملہ ممکنہ امکانات جو وجود میں آ چکے ہیں اور وہ جو وقوع پذیر ہو سکتے ہیں، ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا (جس کا اختیار مصنف کو ہے) دراصل اسلوب ہے۔

    یہ بھی واضح رہے کہ اسلوب کا یہ تصور نہ صرف قدیم روایت کے اسلوب کے تصور سے مختلف ہے بلکہ جدید تنقید کے اس دبستاں سے بھی’’جو نئی تنقید‘‘ (New Criticism) کے نام سے جانا جاتا ہے، بنیادی طور پر متصادم ہے۔ اسلوبیات میں پیرایۂ بیان کے جملہ ممکنہ امکانات کا تصور زماں، مکاں اور سماج کے تصور کو راہ دیتا ہے جس کی’’نئی تنقید‘‘ میں کوئی گنجائش نہیں۔ ’’نئی تنقید‘‘ کا تصور لسان جامد ہے، کیونکہ یہ یک زمانی ہے، جب کہ اسلوبیات زبان کے ماضی، حال، مستقبل یعنی جملہ امکانات کو نظر میں رکھتی ہے، دوسرے لفظوں میں اسلوبیات میں اسلوب کا تصور تجزیاتی معروضی نوعیت رکھنے کے باوجود تاریخی سماجی جہت کو کھلا رکھتا ہے، جب کہ ’’نئی تنقید‘‘ میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ ’’نئی تنقید‘‘ کی رو سے فن پارہ خود مکتفی اور خود مختار ہے اور جو کچھ بھی ہے فن پارے کے وجود کے اندر ہے اور اس سے باہر کچھ نہیں۔ اسلوبیات بھی اگرچہ ’’متن‘‘ پر پوری توجہ مرکوز کرتی ہے لیکن ’’نئی تنقید‘‘ کی پیدا کردہ تاریخی اور سماجی تحدید کو قبول نہیں کرتی۔

    ادبی اسلوبیات تجزیاتی طریق کار کے استعمال سے تخلیقی اظہار کے پیرایوں کی نوعیت کا تعین کرکے ان کی درجہ بندی کرتی ہے۔ وہ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ فن کار نے ممکنہ تمام لسانی امکانات میں سے اپنے طرز بیان کا انتخاب کس طرح کیا اور اس سے جو اسلوب خلق ہوا، اس کے امتیازات یا خصائص کیا ہیں۔ یعنی وہ کون سی لسانی خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے کسی پیرایۂ بیان کی الگ سے شناخت ممکن ہے، یا لسانی اظہار کا جو عمومی فطری انداز (Norm) ہے، اس سے کسی مصنف یا شاعر کا کوئی پیرایۂ بیان کتنا مختلف ہے، یا کسی مخصوص طرز اظہار میں کون کون سے لسانی خصائص پس منظر میں چلے گئے ہیں اور کون کون سے پیش منظر میں آ گئے ہیں، اسلوبیات میں یہ عمل (Foregrounding) کہلاتا ہے۔

    زبان کے فطری انداز کی درجہ بندی کی روشنی میں کسی خاص متن یا متون کو پرکھا جا سکتا ہے، یا منتخبہ متون کا باہمی تقابلی مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ اسلوبیاتی تجزیہ زبان کی کسی بھی سطح کو لے کر ممکن ہے۔ لسانیات میں زبان کی چار سطحیں خاص ہیں۔

    صوتیات Phonology

    لفظیات Morphology

    نحویات Syntax

    معنیات Semantics

    زبان ان چاروں سے مل کر مشکل ہوتی ہے۔ خالص لسانیاتی تجزیوں میں کسی بھی سطح کو الگ سے بھی لیا جا سکتا ہے، لیکن ادبی اظہار کے تجزیے میں ہر سطح کے تصور میں زبان کا کلی تصور شامل رہتا ہے۔ اس لیے معنی لفظ ہے اور لفظ معنی۔ معنی کی اکائی کلمہ ہے اور کلمہ لفظ یا لفظوں کا مجموعہ ہے اور خود لفظ آواز یا آوازوں کا مجموعہ ہے۔ یعنی اسلوبیاتی تجزیے میں خواہ ایسا ظاہر نہ کیا گیا ہو اور سائنسی طور پر محض کسی ایک سطح کا تجزیہ کیا گیا ہو، جیسا کہ راقم الحروف نے اپنے مضامین ’’اسلوبیات انیس‘‘ یا ’’اقبال کا صوتیاتی نظام‘‘ میں عمداً کیا ہے۔ لیکن زبان کا کلی تصور بشمول معنی کے اس میں مضمر (Latent) رہتا ہے، اور اس کا اخراج لازم نہیں، جیسا کہ ناسمجھی کے باعث عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔

    غرض اسلوبیاتی تجزیے میں ان لسانی امتیازات کو نشان زد کیا جانا ہے جن کی وجہ سے کسی فن پارے، مصنف، شاعر، ہیئت، صنف، یا عہد کی شناخت ممکن ہو۔ یہ امتیازات کئی طرح کے ہو سکتے ہیں۔ (۱) صوتیاتی (آوازوں کے نظام سے جو امتیازات قائم ہوتے ہیں، ردیف وقوافی کی خصوصیات، یا معکوسیت، ہکاریت یاغنیت کے امتیازات یا مصمتوں اور مصوتوں کا تناسب وغیرہ۔)

    (۲) لفظیاتی (خاص نوع کے الفاظ کا اضافی تواتر، اسما، اسمائے صفت، افعال وغیرہ کا تواتر اور تناسب، تراکیب وغیرہ۔)

    (۳) نحویاتی (کلمے کے اقسام میں کسی ایک کا خصوصی استعمال، کلمے میں لفظوں کا وروبست وغیرہ۔)

    (۴) بدیعی (Rhetorical) بدیع وبیان کی امتیازی شکلیں تشبیہ، استعارہ، کنایہ، تمثیل، علامت، امیجری وغیرہ۔)

    (۵) عروضی امتیازات (اوزان، بحروں، زحافات وغیرہ کا خصوصی استعمال اور امتیازات۔)

    اسلوبیات کے ماہرین جو سائنسی طریق کار اور معروضیت پر زور دیتے ہیں، لسانی خصائص کے اضافی تواتر اور تناسب کو معلوم کرنے کے لیے کمیتی اعدادوشمار کو بنیاد بناتے ہیں۔ اب تو تجزیوں کے لیے کمپیوٹر کے استعمال سے نتائج کو اور بھی زیادہ صحت اور تیقن کے ساتھ اخذ کیا جانے لگا ہے۔ کچھ ماہرین صرفی لسانی تصورات کو بھی تجزیے کی بنیاد بناتے ہیں، مثلاً تصریفی (Paradigmatic) اور کلماتی (Syntagmatic) شکلوں کا فرق یا چامسکی کی تشکیلی گرامر کی بنا پر ظاہر اور داخلی ساختوں کا فرق اور ان کے امتیازات وغیرہ۔

    زبان میں اظہار کے امکانات لامحدود ہیں۔ کوئی بھی مصنف ممکنہ امکانات میں سے صرف چند کا انتخاب کرتا ہے۔ یہ انتخاب مصنف کے لسانی عمل کا حصہ ہے اور اس کی اسلوبیاتی شناخت کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اسلوبیاتی تجزیے سے مصنف کی پہچان بعینہ اسی طرح ممکن ہے جس طرح انسان اپنے ہاتھ کی لکیروں سے پہچانا جاتا ہے۔ اسلوبیات کے ذریعے مصنف کے لسانی اظہار کے انگلیوں کی چھاپ (Fingerpirnts) کا پتا چلایا جا سکتا ہے، اور اس کی شناخت حتمی طور پر متعین کی جا سکتی ہے۔ اشخاص کی طرح اصناف کا بھی مزاج ہوتا ہے۔ چنانچہ اسلوبیات کی مدد سے یہ بھی معلوم کیا جا سکتا ہے کہ باہم دگر مختلف اصناف کا اسلوبیاتی امتیاز کیا ہے اور پیرایۂ بیان کی سطح پر وہ کس طرح ایک دوسرے سے الگ ہیں۔

    اشخاص اور اصناف سے ہٹ کر اسلوبیاتی تجزیے کی ایک جہت اور بھی ہے۔ چونکہ ادبی ارتقا میں اظہار کے لسانی پیرایے عہد بہ عہد تبدیل ہوتے رہتے ہیں، اسلوبیات کی مدد سے یہ معلوم کیا جا سکتاہے کہ کس عہد میں کون سا اسلوب رائج تھا یا کس عہد کی زبان کے لسانی اختیارات کیا تھے۔ لسانی امتیازات کی نشاندہی ادبی اظہار میں تخلیقی عمل کو سمجھنے میں ادبی انفرادیت کی بنیادوں کے تعین کے لیے بھی بیش بہا مدد فراہم کرتی ہے۔ ادبی اظہار بھی بہت کچھ رقص وموسیقی کی طرح ہے۔ رقص وسرود کی ظاہری سطح پر لطف ونشاط اور کیف وسرور کی محسور کن فضا چھائی رہتی ہے جس میں اکثر ہم خود فراموشی کے عالم سے گزرتے ہیں اور کھوسے جاتے ہیں۔ تاہم اگر سطح کے نیچے غور سے دیکھیں تو تال آہنگ (Rhythm) اور صوتی امتیازات کا (بظاہر پیچیدہ لیکن اصلاً سادہ) جال سا بچھا ہوا نظر آئےگا، جیسے طرح طرح کے رنگوں کا کوئی مشجر (Tapestry) ہو یا جیومیٹریکل ڈیزائن کا کوئی خوبصورت رنگا رنگ فرش (Mosaic) بنا ہوا ہو۔

    ادبی اظہار میں لفظوں کی ظاہری سطح کے نیچے لسانی امتیازات سے طرح طرح کے ڈیزائن بنتے ہیں۔ ان کی پہچان ادبی اسلوبیات کا خاص کام ہے۔ عروضی تجزیے سے اگر کسی شعری ہیئت یا صنف کے بارے میں عمومی نتائج (Generalisation) اخذ کیے جائیں یا کسی مصنف یا فن پارے کے لسانی خصائص کے تعین میں مدد لی جائے تو ایسے تجزیے اسلوبیات کے ذیل میں آئیں گے۔

    اسلوبیات میں نتائج اخذ کرتے ہوئے اس خطرے سے آگاہ رہنا ضروری ہے کہ اسلوبیاتی تجزیہ محض ہیئتی تجزیہ نہیں جس پر’’نئی تنقید‘‘ کا دارومدار ہے، کیونکہ اسلوبیات کی رو سے فن پارہ صرف لفظوں کا مجموعہ یا ہیئت محض (Verbal Construct) نہیں ہے، نہ ہی وہ کسی بھی طرح کے ’’پیغام کاسٹ‘‘ (Set of Message) یا اطلاع محض یا معنی محض (Pure Semantic Information) کی مثال ہے، بلکہ اس کی نوعیت ان دونوں کے بیچ کی ہے اور اسلوبیات اس کے لیے (Discourse) کی اصطلاح وضع کرتی ہے۔

    اسلوبیاتی تجزیوں پر جو اعتراضات کیے جا سکتے ہیں، ان کی ایک خاص مثال Michael Riffaterre کا وہ مضمون ہے جس میں بودلیئر کے سانٹ Les Chats پر رومان جیکٹ سن اور کلاؤڈ لیوائی سٹراس کے تجزیے سے بحث کی گئی ہے۔ ملاحظہ ہو، Structuralism, ED. Jacques Ehrmann,1966, رفائیٹر نے سوال اٹھایا تھا کہ اسلوبیات یہ تو بتا سکتی ہے کہ مختلف لسانی خصائص میں سے کسی فن پارے کے اپنے امتیازی خصائص کیا ہیں لیکن اس کا فیصلہ کیسے کیا جائےگا کہ وہ کون سے خصائص ہیں جو کسی فن پارے کو جمالیاتی اعتبار سے زیادہ مؤثر بناتے ہیں اور ان کا تعین کس طرح کیا جائےگا؟ اس کا جواب بعد کے ماہرین اسلوبیات نے یہ دیا کہ یہ اعتراض ہی دراصل غلط توقعات پر مبنی ہے، کیونکہ اسلوبیات اس طرح سے جمالیات سے علاقہ نہیں رکھتی جس طرح ادبی تنقید رکھتی ہے۔ اسلوبیات کے پاس خبر ہے نظر نہیں، جمالیاتی قدر شناسی اسلوبیات کا کام نہیں۔

    اسلوبیات کا کام بس اس قدر ہے کہ وہ لسانی امتیازات کی حتمی طور پر نشان دہی کر دے۔ ان کی جمالیاتی تعین قدر ادبی تنقید کا کام ہے۔ اس کی توقع ادبی تنقید سے کرنا چاہیے نہ کہ اسلوبیات سے۔ رہی یہ بات کہ اسلوبیات اور ادبی تنقیدمیں کیا رشتہ ہے تو اس کو میں اس سے پہلے بھی کئی بار واضح کر چکا ہوں کہ اسلوبیات ادبی تنقید کا بدل نہیں ہے۔ اردو میں یہ غلط فہمی عام ہے کہ اسلوبیات ادبی تنقید کا بدل ہے۔ غالب نے کہا تھا، ضد کی ہے اور بات مگرخوبری نہیں۔ اسلوبیات کو ادبی تنقید کا بدل سمجھ کر اس سے بھڑکنا ناسمجھی کی بات ہے۔ اور یہ اکثر وہ لوگ کرتے ہیں جو لسانیات کے تفاعل سے ناواقف محض ہیں، یا وہ لسانیات اور اسلوبیات سے خائف ہیں۔

    اکثر دیکھا گیا ہے کہ کسی بھی نئے علم سے پرانی اجارہ داریوں کو ٹھیس پہنچتی ہے، چنانچہ کچھ کرم فرما طنزواستہزا سے کام لیتے ہیں، لیکن زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو بات کو جانے اور سمجھے بغیر کھلم کھلا غیر علمی یا دانش دشمن (Anti-Intellectual) رویہ اپناتے ہیں۔ ایسے لوگ ہماری ہمدردی کے مستحق ہیں کیونکہ مسائل ومباحث کو سمجھنے کی مخلصانہ اور ایماندارانہ کو شش انہوں نے نہیں کی۔ یہ حضرات شاید نہیں جانتے کہ غیر علمی رویہ اختیار کرنے اور اس نوع کی جملے بازی سے دراصل خود انہیں کی ذہنی کم مایگی اور مایوسی ظاہر ہوتی ہے۔ اسلوبیات نے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ تنقیدہے یا ادبی تنقید کا بدل ہے۔ البتہ اتنی بات صاف ہے کہ اسلوبیات تنقید کی مدد کر سکتی ہے اور اس کو نئی روشنی فراہم کر سکتی ہے۔

    اسلوبیات کے پاس متن کے سائنسی لسانی تجزیے کا حربہ ہے۔ اس کے پاس ادبی ذوق کی نظر نہیں ہے۔ جب بھی ہم کسی فن پارے کو پڑھتے ہیں تو اپنے مزاج، معلومات اور احساس یعنی اپنے ادبی ذوق کے مطابق اس کے بارے میں کچھ نہ کچھ تاثر قائم کرتے ہیں۔ یہ جمالیاتی تاثر ہے جو دراصل ادبی تنقید کا نقطۂ آغاز ہے۔ اس کی نوعیت خالص موضوعی ہے جو ہماری ذہنی کیفیت کو ظاہر کر سکتی ہے۔ یہ تاثر صحیح بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی۔ اس کے بعد اسلوبیاتی تجزیے کا کام شروع ہوتا ہے جو خالص معروضی ہے، یعنی اسلوبیات ادبی تنقید کے ہاتھ میں ایک معروضی حربہ ہے۔ جیسے جیسے تجزیے کی فراہم کردہ معروضی معلومات سامنے آنے لگتی ہیں، یہ معلوم ہونے لگتا ہے کہ ابتدائی موضوعی تاثر صحیح خطوط پر تھا یا غلط خطوط پر۔

    اگر تاثر غلط خطوط پر تھا تو اسلوبیات کوئی دوسرا مفروضہ یا اس سے بالعکس مفروضہ قائم کرکے از سر نو تجزیے کا آغاز کرکے دوسرے مفروضے کو آزما سکتی ہے لیکن جب توثیق ہو جائے کہ تجزیاتی سفر غلط راہ پر نہیں تھا، تو تجزیاتی معلومات سے ابتدائی جمالیاتی تاثر بتدریج زیادہ واضح اور شفاف (Refined) ہونے لگتا ہے اور لسانی خصائص کے بارے میں نئے نئے نکات سوجھنے لگتے ہیں جن سے بالآخر حتمی طور پر تخلیقی عمل کی لسانی نوعیت اور فن پارے کے امتیازی نقوش کا تعین ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلوبیات کا کام نمٹ جاتا ہے اور ادبی تنقید اور جمالیات کا کام شروع ہو جاتا ہے۔ ادب کی تحسین کاری اور تعین قدر کا کام ادبی تنقید اور جمالیات کا کام ہے، اسلوبیات کا نہیں۔

    اسلوبیات ادبی تنقید کو لسانی حسن کاری کے رازوں، لفظوں کے تخلیقی استعمال کے نازک فرق اور ہلکے گہرے لفظیاتی اور معنیاتی امتیازات سے آگاہ کر سکتی ہے۔ رچرڈ دوتاں کا اصرار ہے کہ اسلوبیات ایسا ان مصنوعی قیود کے بغیر کر سکتی ہے جو ’’نئی تنقید‘‘ کے دبستاں نے عائد کی ہیں، یعنی اسلوبیات فن پارے کا تجزیہ خلا میں نہیں کرتی۔ مزید یہ کہ اسلوبیات ابہام (Ambiguity)، علامت نگاری (Symbolism)، امیجری (Imagery)، قول محال (Paradox) یا Irony کی موجودگی کی بنا پر ترجیحات قائم نہیں کرتی، یعنی اسلوبیات اگرچہ ان سب سے بحث کرتی ہے لیکن ہرگز یہ حکم نہیں لگاتی کہ فلاں پیرایہ اعلا ہے اور فلاں ادنا، یا فلاں اسلوب بہتر ہے اور فلاں کمتر، بلکہ اسلوبیات اظہار کے لسانی امتیازات جیسے وہ ہیں، ان کا تعین کرکے اور ان کی شناخت کے کام کو پورا کرکے اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو جاتی ہے اور ادنا اعلا کا فرق قائم کرنے کے لیے ادبی تنقید کے لیے راہ چھوڑ دیتی ہے۔

    البتہ اسلوبیات کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ بسیط فن پاروں کے لیے اس کا استعمال نہایت ہی مشکل ہے۔ یعنی غزل یا نظم کا تجزیہ آسان ہے اور ناول اور افسانے کا مشکل۔ نثر کے تجزیے میں یہ بھی دقت ہے کہ تصنیف کے کس حصے کو نمائندہ سمجھا جائے اور کس کو نظرانداز کیا جائے۔ جامع تجزیے کے لیے مواد (Corpus) کا محدود ہونا اس کے حق میں ہے۔ اسلوبیات پر اعتراض کا ایک دروازہ اس وجہ سے بھی کھل جاتا ہے کہ یہ مخصوص اصطلاحات کا استعمال کرتی ہے جو کلیۃً لسانیات سے ماخوذہیں اور ادبی نقاد اکثروبیشتر ان سے باخبر نہیں (اردو میں بے خبری پر اترانے والوں کی کمی نہیں) چنانچہ ترسیل کی اپنی مشکلات ہیں۔ جب عام نقادوں کا یہ حال ہے تو عام قارئین سے رشتے کی نوعیت کیا ہوگی۔ ظاہر ہے کہ اسلوبیات عام قاری کی دسترس سے باہر ہے۔ قاری سے رشتے کا انقطاع وہ قیمت ہے جو اسلوبیات کواپنی سائنسی بنیادوں کی وجہ سے بہرحال چکانی پڑتی ہے۔

    اگر غور سے دیکھا جائے تو ہر ضابطۂ علم یا سائنس کی اپنی اصطلاحات ہیں۔ اگر اس علم سے استفادہ کرنا ہے تو اس کی اصطلاحات کا جاننا ضروری ہے، ورنہ اس علم کی کلید ہاتھ نہ آئےگی اور ہم اس سے استفادہ نہ کر سکیں گے۔ یہی حال اسلوبیات کا بھی ہے۔ اصطلاحات دراصل تصورات ہیں جن پر کسی بھی ضابطۂ علم کی بنیاد ہوتی ہے۔ ان اصطلاحات کو نرم کرکے یعنی سمجھا کر بیان تو کیا جا سکتا ہے، لیکن ان کو چھوڑا نہیں جا سکتا۔ چنانچہ علم کے سائنسی مزاج کی خاطر کچھ توقیمت ادا کرنی ہوگی اور کوئی قیمت اتنی بھاری نہیں ہے کہ اس کی خاطر اسلوبیات کے ذریعہ حاصل ہونے والی معروضی سائنسی بنیادوں کو ترک کر دیا جائے۔

    خالص اسلوبیاتی مطالعے بالعموم اسلوبیاتی شناخت کو مقدم سمجھتے ہیں اور کسی بھی مصنف یافن پارے کے لسانی امتیازات کو نشان زد کر دینے (Fingerprinting) کے بعد کسی نوع کی رائے زنی نہیں کرتے، تاہم ایسے مطالعات کی بھی کمی نہیں، جن میں اعدادوشمار اور اضافی تواتر (Relative Frequency) سے اخذ ہونے والے اسلوبیاتی حقائق کو مصنف کی سائیکی سے یا اس کی نفسیاتی اور ذہنی ترجیحات سے مربوط کرکے دیکھا گیا ہے اور نتائج اخذ کیے گئے ہیں کہ تجربے کی لسانی تقلیب کس طرح ہوئی ہے۔ ملاحظہ ہو،

    LEO SPITZER, LINGYISTICS AND LITERARY HISTORY,1968

    یا یہ کہ اسلوبیاتی امتیازات کا مصنف کی آئیڈلوجی سے کیا تعلق ہے، یا اس کا نظریہ حیات کیا ہے، یا حقیقت کے تئیں اس کا رویہ کیا ہے۔ ملاحظہ ہو،

    ERICHAUERBACH, MIMESIS.1953

    یالسانی امتیازات کا جمالیاتی اور جذباتی تاثیر سے کیا ربط ہے۔ ملاحظہ ہو،

    (حوالۂ ماسبق MICHAEL RIFFATERRE)

    بہرحال اس بارے میں متعدد رویے اور رجحانات ہیں۔ ایک عام رویہ وہ ہے جس کورینے ویلیک ’’The Imperialism of Modern Linguistic‘‘ کہتاہے، یعنی اسلوبیات کے حدود کو اس قدر وسیع کرنا کہ ادبی تنقید میں جو کچھ ہے، اسلوبیات کا اس پر اطلاق ہو سکتا ہے یا یہ کہ اسلوبیات کو ہر دور کی دوا سمجھ لیا ہے۔ ظاہر ہے یہ رویہ غلط ہے۔ اسلوبیات بس اس حد تک مفید ہے جس حد تک وہ مفید ہے اس مسئلے سے بحث کرتے ہوئے Stanely fish نے

    (WHAT IS STYLISTICS AND WHY ARE THEY SAYING SUCH TERRIBLE THINGS ABOUT IT APPROACHES TO POETICS, ED., SEYMOUR CHATMAN.1973)

    میں وضاحت کی ہے کہ اصل اسلوبیات جس کو وہ Affective Stylistic کہتا ہے، یہ ہے کہ قاری جب متن کا مطالعہ کرتا ہے تو اسلوب اور معنی کا مطالعہ الگ الگ نہیں کرتا، بلکہ لفظ، کلمہ، ہیئت، معنی، سب مجموعی طور پر بیک وقت قاری کے ذہن پر اثر انداز ہوتے ہیں گویا قاری کاذہنی ردعمل (Response) کلی ردعمل (Total Response) ہوتا ہے جزوی نہیں۔ اسلوب اورمعنی کی بحث کو الگ کرنا ممکن ہی نہیں، اس لیے اصل اسلوبیات وہی ہے جو قاری کے کلی رد عمل (Total Response) کا احاطہ کرتی ہو۔ غرض دونوں طرح کی آرا ملتی ہیں اور ہر فریق نے اپنے دعوے کے حق میں مد لل بحث کی ہے۔ اس مقدمے کی وضاحت کے لیے کہ اسلوب کو معنی سے الگ نہیں کیا جا سکتا، دیکھیے،

    “BENNISON GRAY. STYLE: THE PROBLEM AND ITS SOLUTION, 1969. AND STYLISTICS: THE END OF A TRADITION”, JOURNAL OF AESTHETICS AND ART CRITICISM, 31, 1973.

    اس کے برعکس اس مقدمے کی مدلل بحث کے لیے اسلوب کی بحث الگ سے ممکن ہے، اور خاص اسلوبیاتی تجزیے ادبی جواز رکھتے ہیں۔ ملاحظہ ہو،

    E.D.HERISCH,‘‘STYLISTICS AND SYNONYMITY’’ IN THE AIMS OF INTERPRETATION.1976

    یہاں مختصر وضاحت اردو اور اسلوبیات کے ضمن میں بھی ضروری ہے۔ اردو میں اسلوبیات کا ذکر اگرچہ بالعموم کیا جانے لگا ہے اور عام نقاد بھی اکا دکا لسانیاتی اصطلاحیں استعمال کرنے لگے ہیں لیکن درحقیقت اردو میں اسلوبیات کا سرمایہ زیادہ وقیع نہیں ہے۔ اگرچہ لسانیات جاننے والوں کی تعداد اردو میں خاصی ہے، مگر ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے جو لسانیات کو ادبی مطالعے میں برت سکنے پر قادر ہوں۔ اردو میں اس نوع کے مطالعات کا آغاز مسعود حسین خاں نے کیا۔ مغنی تبسم اسے اپنی تنقید میں استعمال کرتے ہیں۔ مرزا خلیل بیگ نے بھی متعدد تجزیے کیے ہیں لیکن یہ سارا کام زیادہ تر صوتیات کے حوالے سے ہے اور کسی قدر عروض کے حوالے سے۔ گیان چند جین لسانیات کے ماہرہیں لیکن روایتی تنقید ہی کو تنقید سمجھتے ہیں، جب کہ شمن الرحمن فاروقی باقاعدہ لسانیات سے علاقہ نہیں رکھتے، لیکن ان کے لسانی اور عروضی مباحث میں اسلوبیات کا اثر ملتا ہے۔

    یہاں اس مضمون کا ذکر ضروری ہے جو گیان چند جین نے لکھا تھا، ’’اسلوبیاتی تنقید پر ایک نظر‘‘ (نیادور لکھنؤ، اکتوبر۱۹۸۴ء) اور جس کا جواب مرزا خلیل بیگ نے دیا تھا، ’’ اسلوبیاتی تنقید پر ایک ترچھی نظر‘‘ (نیا دور لکھنؤ، اپریل ۱۹۸۹ء) گیان چند جین نے اردو کے گنتی کے نمونوں کو سامنے رکھا، اور اسلوبیات سے بہ حیثیت ضابطۂ علم کے بحث نہیں کی، نہ ہی اسلوبیات اور ادبی تنقید کا رشتہ ان کے پیش نظر رہا، جس کی ان سے توقع تھی۔ بعض کمزور نمونوں کے پیش نظریہ بحث کی جا سکتی ہے کہ اسلوبیات کا اطلاق ٹھیک ہوا ہے کہ نہیں لیکن اس سے ضابطۂ علم کی معروضی بنیاد پر کوئی حرف نہیں آتا۔ راقم الحروف کے نام اپنے خط میں جین صاحب نے وضاحت کی کہ اس بارے میں ان کی معلومات مکمل نہیں تھیں اور انہیں صرف ٹرنر کی کتاب دستیاب ہو سکی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس موضوع پر ٹرنر کی کتاب نہ صرف ناکافی ہے بلکہ اس اعتبار سے ناقص ہے کہ اس کا اصل موضوع اسلوبیات اور ادبی تنقید ہے ہی نہیں۔

    راقم الحروف نے اپنے زیر نظر مضمون میں مصادرومآخذ کا ذکر قدرے تفصیل سے عمداً کیا ہے تاکہ ادبی تنقید کے سنجیدہ طالب علم کو معلوم ہو کہ اسلوبیاتی مباحث کا دائرہ کتنا وسیع ہے اور ان کی سرحدیں کتنی پھیلی ہوئی ہیں۔ ان مباحث یا ان کے مبادیات کو جانے اور سمجھے بغیر اسلوبیات سے متعلق کوئی سنجیدہ گفتگو ممکن ہی نہیں، چونکہ خاکسار سے اکثر اسلوبیات اور ساختیات کے حوالے سے ادبی تنقید کے بارے میں پوچھا جاتا ہے، ضروری ہے کہ مختصراً ہی سہی، خاکسار اپنے موقف کی وضاحت بھی کر دے۔

    اس بارے میں سب سے اہم یہ ہے کہ اردو میں اسلوبیاتی طور پر جو کچھ بھی لکھا گیا ہے راقم الحروف کا معاملہ اس سے الگ ہے۔ مسعود حسین خاں کا تعلق چونکہ ادبی تنقید سے نہیں تھا، انہوں نے جو نمونے پیش کیے وہ میکانکی تھے اور ادبی تعین قدر میں اس سے کوئی مددنہیں ملتی۔ راقم نے مجرد کسی فن پارے یعنی غزل، نظم یا افسانے کا بطور ادبی اکائی کے اسلوبیاتی تجزیہ نہیں کیا۔ ایسا تجزیہ مصنف کے پورے تخلیقی عمل کو نظر میں رکھ کر ہی ممکن ہے۔

    تفصیل کے لیے تو دفتر درکار ہے، مثلاً عرض کرتا ہوں، خواہ ’’راجندر سنگھ بیدی کے فن کی استعاراتی اور اساطیر ی جڑیں‘‘ ہویا ’’انتظار حسین کا فن: متحرک ذہن کا سیال سفر‘‘ نیز’’اقبال کی شاعری کا صوتیاتی نظام‘‘ یا ’’اسلوبیات اقبال: نظریۂ اسمیت وفعلیت کی روشنی میں‘‘ یا ’’نظیر اکبرآبادی: تہذیبی دید باز‘‘ یا ’’اسلوبیات انیس‘‘ یا ’’اسلوبیات میر۔‘‘ خاکسار نے کبھی کسی فن پارے سے مجرد بحث نہیں کی، بلکہ میر، انیس، نظیر، اقبال، بیدی یا انتظار حسین کی تخلیقی شخصیت کے تناظر میں گفتگو کی ہے اور شاعریا مصنف کی تخلیقی انفرادیت یا اسلوبیاتی شناخت کے تعین کی کوشش کی ہے، اور کہیں انفرادی فن پارے کے تجزیے کی بحث آئی بھی ہے تو وہ یا تو ادبی انفرادیت اور تخلیقی عمل کے لسانی امتیازات کے ضمن میں ہے یا پھر کسی ادبی مسئلے کو واضح کرنے کے لیے اسلوبیاتی تجزیے سے مدد لی ہے، جیسا کہ ’’ پریم چند کے فن میں Irony کا عنصر‘‘ یا ’’نیا افسانہ: علامت، تمثیل اور کہانی کا جو ہر‘‘ والے مضمون میں کیا گیا ہے۔

    اتنی بات ظاہر ہے کہ کسی فن پارے کا مجرد اسلوبیاتی تجزیہ کرنا جتنا آسان ہے، فن پارے یا فن پاروں کو مصنف یا شاعر کی تخلیقی کیفیت سے جوڑنا اور انفرادی لسانی امتیازات کی نشان دہی کرنا یا کسی صنف یا عہد کے تناظر میں ان کا تجزیہ کرنا اتناہی مشکل اور صبر آزما کام ہے۔ خاکسار نے جو بھی برا بھلا کام کیا ہے، وہ اسی نوعیت کا ہے۔ یہ بنیادی فرق ہے اور اس تنقیدی فرق کو چونکہ بالعموم محسوس نہیں کیا جاتا اور ساری لسانی تنقید کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک دیا جاتا ہے، اس لیے اس کی وضاحت ضروری تھی۔

    دوسرا اہم فرق یہ ہے کہ جہاں دوسروں نے زیادہ تر شاعری کی تنقید سے سروکار رکھا، خاکسار نے فکشن کے مطالعے میں بھی اسلوبیات سے کام لیا ہے اور اس کے جوبھی اچھے برے نمونے پیش کیے ہیں، وہ سب کے سامنے ہیں۔

    تیسری بات یہ ہے کہ خاکسار نے اگر چہ صوتیات سے مدد لی ہے، لیکن صرف صوتی سطح پر تکیہ نہیں کیا بلکہ لفظیاتی اور نحویاتی سطحوں سے بھی مدد لی ہے۔ ’’ذاکر صاحب کی نثر‘‘ اور ’’خواجہ حسن نظامی‘‘ والے مضامین سے قطع نظر’’اسلوبیات اقبال‘‘ اور’’اسلوبیات میر‘‘ کے تجزیات میں ساری بحث ہی لفظیاتی اور نحویاتی ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو وہ نتائج سامنے نہ آتے جو اخذ کیے گئے ہیں۔

    چوتھی اور آخری بات یہ ہے کہ خاکسار نے اگرچہ بعض تجزیے بلاشبہ انتہائی تکنیکی پیش کئے ہیں (مثلاً ’’اقبال کی شاعری کا صوتیاتی نظام‘‘ یا ’’اسلوبیات انیس‘‘) لیکن یہ خاکسار کا عام انداز نہیں ہے۔ چند تکنیکی تجزیے اس لیے ضروری تھے کہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ تنقید کو، جو موضوعی اور ذہنی عمل ہے، سائنسی معروضی بنیادوں پر استوار کیا جا سکتا ہے۔ مجھے اعتراف ہے کہ یہ تجزیے عام قارئین کے لیے نہیں تھے۔ لیکن یہ تجزیے عمداً کئے گئے تھے اور ان کا مقصد تنقید کی سائنسی معروضی بنیادوں کو واضح کرنا تھا۔ بالعموم خاکسار نے ایک الگ راہ اختیار کی ہے اور اسلوبیات کو ادبی تنقید میں ضم کرکے پیش کیا ہے۔ ایسا میرے ادبی مزاج کی وجہ سے بھی ہے۔

    فکشن پر تنقید کے علاوہ اس نوع کی نسبتاً تفصیلی مثال ’’اسلوبیات میر‘‘ والا مقالہ ہے، جس سے یہ بات واضح ہو جائےگی کہ میرا عام انداز اسلوبیات اور ادبی تنقید کو ملا کر بات کرنے کا ہے۔ ’’اسلوبیات میر‘‘ میں سارے ادبی مباحث اپنی ذہنی غذا اسلوبیاتی تجزیے سے حاصل کرتے ہیں اور یہ اسلوبیاتی تجزیہ نحوی بھی ہے، صرفی بھی اور صوتیاتی بھی، لیکن تجزیہ زیادہ تر آنکھوں سے اوجھل رہتا ہے اور اگر کہیں سطح پر ظاہر ہوا بھی ہے تو تکنیکی معلومات سے گراں بار نہیں ہوتا اور قاری کا دامن کہیں بھی ہاتھ سے نہیں چھوٹتا۔ میں اس کو’’جامع ادبی اسلوبیات‘‘ کہتا ہوں۔

    یعنی ادبی مطالعے میں میرا ذہنی ردعمل (Response) کچھ اس طرح کاہے کہ میں اسلوب اور معنی کا مطالعہ الگ الگ نہیں کرتا۔ بلکہ صوت، لفظ، کلمہ، ہیئت، معنی مجموعی طور پر بیک وقت کارگر رہتے ہیں اور کسی نکتے کو واضح کرنے یا ان کا سراغ لگانے کے لیے کسی ایک لسانی سطح کو الگ کرنے کی کوئی خاص ضرورت پیش نہ آئے تو میرا ذہنی ردعمل کلی ہوتا ہے جزوی نہیں اور کسی ایک سطح کو الگ کرنا ضروری بھی ہو تو اس عمل کے دوران بہرحال یہ احساس حاوی رہتا ہے کہ سطحوں کا الگ کرنا مبحث کی تہہ تک پہنچنے کے لیے ہے ورنہ بذاتہ یہ ایک مصنوعی عمل ہے اور ہر سطح یعنی جز اپنے کل کے ساتھ مل کر لسانی وحدت بنتا ہے اور ترسیل حظِ معنی میں کارگر ہوتا ہے۔

    گویا اسلوبیات میرے نزدیک محض ایک حربہ ہے، کل تنقید ہرگز نہیں۔ تنقیدی عمل میں اس سے بیش بہا مدد لی جا سکتی ہے۔ اس لیے کہ تاثراتی اور جمالیاتی طور پر جو رائے قائم کی جاتی ہے، اسلوبیات اس کا کھرا کھوٹا پرکھ کر تنقید کو ٹھوس تجزیاتی سائنسی معروضی بنیاد عطا کر سکتی ہے۔ واضح تکنیکی تجزیوں کا جواز فقط اتنا ہے کہ ان سے تنقیدی نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن اگر اسلوبیات کا جو ہر ذہن میں جاگزیں ہو گیا ہے تو غیر تکنیکی تجزیہ متن کی قرأت کے دوران ذہن وشعور میں احساس کی رو کے ساتھ ساتھ چلتا ہے اور میں اسی کو ’’جامع ادبی اسلوبیات‘‘ کہتا ہوں۔

    یہ بھی حقیقت ہے کہ مجھے اپنے تنقیدی عمل میں زبان کی ظاہری سطحوں کو کلی معنیاتی نظام کے ساتھ ساتھ لے کر چلنے میں ساختیات سے بھی مدد ملتی ہے، جس کی کھلی ہوئی مثالیں ’’سانحۂ کربلا بطور شعری استعارہ‘‘ یا ’’فیض کا جمالیاتی احساس اور معنیاتی نظام‘‘ یا فکشن پر خاکسار کے مضامین میں مل جائیں گی۔ لیکن ساختیات ایک الگ موضوع ہے اور اس کو کسی دوسرے وقت کے لیے اٹھا رکھا جاتا ہے۔

    جہاں تک مصادر کا تعلق ہے، اسلوبیات پر انگریزی اور فرانسیسی میں سیکڑوں مضامین اور کتابیں ہیں۔ ان میں لسانیات کے ماہرین کی تصانیف بھی ہیں اور ادبی نقادوں کی بھی۔ اسلوبیات کے موضوع پر کئی بین الاقوامی سمینار اور کانفرنسیں منعقد ہو چکی ہیں جن کی رودادوں میں وہ اہم مقالات بھی ملیں گے جنہوں نے ان مباحث کو آگے بڑھانے اور اسلوبیات کو ایک ضابط علم کی حیثیت سے مستحکم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ذیل کے مجموعہ ہائے مضامین اس بارے میں کتب حوالہ کا درجہ رکھتے ہیں۔ اسلوبیات کو جاننے کے لیے ان سے اور اوپر جن کتابوں کا حوالہ دیا گیا ہے، ان سے رجوع کرنا بہت ضروری ہے،

    (۱) THOMAS A.SEBEOK. ED., STYLE IN LANGUAGE,1960

    (۲) ROGER FOWLER, ED.,ESSAYS ON STYLE AND LANGUAGE,1966

    (۳) GLEN A.LOVE, AND MICHAEL PAYN,EDS., CONTEMPORARY ESSAYS, ON STYLE,1969,

    (۴) DONALD C.FREEMAN,ED., LINGUISTIC AND LITERARA STYLE,1970

    (۵) SEYMOUR CAHTMAN, ED., LITERARY STYLE:A SYMPOSIUM,1971

    (۶) HOWARDS. BABB,ED., ESSAYS IN STYLISTIC ANALYSIS,1972

    اسلوبیات پر بعض تعارفی کتابیں بھی لکھی گئی ہیں، ان میں سے میرے نزدیک ذیل کی کتابیں اہم ہیں،

    (۱) EPSTEIN,E.L.,LANGUAGE AND STYLE, LONDON,1978

    (۲) ENKVIST, SPENCER AND GREGORY,LINGUISTICS AND STYLE,OXFORD,1964

    (۳) WIDDOWSON, H.G., STYLISTICS AND THE TEACHING OF LITERATUE,LONDON,1988.

    (۴) CHAPMAN RAYMOND, LINGUISTICS AND LITERATURE, LONDON,1975

    (۵) ENKVIST, N.E., LINGUISTIC STYLISTICS,HAGUE,1973.

    (۶) HOUGH,G., STYLE AND STYLISTICS, LONDON,1969,

    اسلوبیات کو کسی خاص ملک، قوم یا نظریے سے وابستہ کرنا بھی بے خبری کی وجہ سے ہے۔ اس کو ترقی دینے والوں میں سب شامل رہے ہیں۔ اسلوبیات پر لکھنے والوں میں روسی ہیئت پسندوں (Russian Formallists) نے بھی نمایاں حصہ لیا ہے اور فرانسیسی، برطانوی، جرمن اور امریکی ماہرین لسانیات بھی پیش پیش رہے ہیں۔ ان میں ممتاز ترین نام رومان جیکب سن، لیوسپٹزر، مائکل رفائٹر، سٹیفن المان اور رچرڈ اوہمان کے ہیں۔ ان کے اور دوسرے بہت سے اہم نام لکھنے والوں کے مقالات اور مباحث ان کتابوں میں دیکھے جا سکتے ہیں جن کا ذکر اس مضمون میں کیا گیا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے