جدیدیت کی روح یہ اصول ہے کہ کسی بات کواس بنا پر تسلیم نہ کیا جائے کہ وہ ہم سے پہلے سے چلی آ رہی ہے، یا ہم پر خارج سے عائد کی گئ ہے یا ہم سے بالاتر ہے بلکہ ہر چیز کے حسن وقبح، خیروشر، منفعت ومضرت کا فیصلہ تجربے کی روشنی میں کیا جائے۔ اس لیے جدیدیت کے معنی زیادہ سے زیادہ ’’تجرباتی‘‘ ہونے کے ہیں۔ لیکن تجربہ کس کا؟ ہمارا اپنا۔۔۔ اور اگر ہم کسی دوسرے کے تجربے کو قبول بھی کرتے ہیں تو اس شرط پر کہ ہم جب چاہیں اپنے تجربے کی بنا پر اسے رد کر دیں۔
ظاہر ہے کہ ان معنوں میں جدیدیت مذہب کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ مذہب کی بنیاد عقیدہ، وحی، ایک مافوق الفطرت قوت کے اقرار اور اس کے احکام کے سامنے بے چوں وچرا سر جھکانے پر ہے۔ اسی طرح جدید یت اخلاقی قیود کو بھی تسلیم نہیں کرتی کیونکہ اخلاق کا تعلق بھی بالعموم مذاہب ہی سے رہا ہے اور جہاں براہ راست مذہب نہیں ہے، وہاں ایک بالاتر ہستی یا کم از کم خارجی دباؤ کے اثرات ضرور موجود رہے ہیں۔ بالفرض اخلاق کے معنی صرف معاشرتی اصولوں کے لیے جائیں تو بھی معاشرے کا خارجی دباؤ اپنی جگہ موجود رہتا ہے۔ مذہب اور اخلاق کی طرح جدیدیت معیارات کو بھی نہیں مانتی۔ کیوں کہ معیار کے معنی پھر کسی خارجی پیمانے کو تسلیم کرنے کے ہیں۔ جدیدیت ان سب چیزوں کا انکار کرتی ہے۔ اس بنا پر کہ یہ ذاتی تجربے کی راہ کے پتھر ہیں لیکن انکار کے معنی اثبات کا دروازہ بند کرنے کے نہیں ہیں۔ جدیدیت ان میں سے کسی کا بھی اثبات کر سکتی ہے، بشرطیکہ ذاتی تجربہ اس کی تصدیق کرے۔
لیکن جو آدمی حسن وقبح اور خیروشر کے معاملات میں ذاتی تجربے کو بنیاد بناتا ہے وہ انفرادیت پسند ہوتا ہے۔ جدید ہونے کے معنی انفرادیت پسند ہونے کے ہیں۔ یہاں انفرادیت پسند ہونے کے معنی وہ نہیں ہیں جو عام طور پر مراد لیے جاتے ہیں۔ انفرادیت پسند اسے نہیں کہتے جو صرف دوسروں سے مختلف ہونا چاہتا ہے بلکہ اسے جو ہر چیز کا پیمانہ اپنی ذات کو سمجھتا ہے لیکن یہ ذات بھی کوئی مقررہ یا طے شدہ چیز نہیں ہے۔ ہمارے محسوسات اور جذبات بدلتے رہتے ہیں، پسند اور ناپسند میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں، خیالات وافکار میں تغیروتبدل ہوتا رہتا ہے۔ اس لیے انفرادیت پسندی کے معنی تغیرپسندی کے بھی ہیں۔ تو جدیدیت کے معنی زیادہ سے زیادہ تجرباتی، زیادہ سے زیادہ انفرادیت پسند اور زیادہ سے زیادہ تغیرپسند ہونے کے ہیں۔ نشاۃ ثانیہ کے بعد کی مغربی تہذیب کو ہم ان ہی معنوں میں جدید کہتے ہیں۔
اچھا، اس لفظ کواب اپنی تاریخ کے پس منظر میں دیکھئے۔ غدر سے پہلے جدید کا لفظ صرف ’’نئی چیز‘‘ یا ’’نئی بات‘‘ کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا۔ اس کے معنی صرف اتنے تھے کہ ہر نئی چیزیا نئی بات یا نیا کام مزیدار معلوم ہوتا ہے لیکن غد ر کے بعد اس لفظ کا استعمال اس سے مختلف معنوں میں ہونے لگا، مثلاً جدید شاعری کے معنی اس شاعری کے ہوئے جو ’’پیروی مغربی‘‘ میں کی جائے۔ یا جدید مذہب کے معنی اس مذہب کے ہوئے جو سائنس یا عقل کے مطابق ہو۔ اس اختلاف معنی کے علاوہ ایک اور فرق یہ پیدا ہوا کہ اس سے پہلے جدید ہونا انفرادی اپج کا نتیجہ ہوا کرتا تھا، لیکن اب جدید ہونا ایک مستقل رجحان بن گیا ہے اور اس رحجان کے ساتھ یہ ضرورت محسوس ہونے لگی کہ ہر بار لفظ جدید کی ایک نئی تعریف کی جائے۔ چانچہ حالی کے زمانے کی جدیدیت اور چیز ہے، نیاز فتح پوری اور ان کے ساتھیوں کی جدیدیت اور چیز- ۱۹۳۶ء کے ادیبوں کے جدیدیت اور ہے، ۱۹۴۷ء کے بعد کے ادیبوں کی اور۔
اور اب تویہ نوبت ہے کہ ادیبوں اور شاعروں کے جتنے گروپ ہیں، جدیدیت کے اتنے ہی معنی ہیں۔ بظاہر یہ صورت حال پریشان کن معلوم ہوتی ہے لیکن ہے جدیدیت کی روح کے عین مطابق۔ بعض لوگ سوال اٹھاتے ہیں کہ اس صورت میں تو تہذیب، اخلاق اور فن کے سارے معیارات تباہ ہو جائیں گے۔ ہمارا واضح اور حتمی جواب یہ ہے، اگر ایسا ہوا تو یہ جدیدیت کے تقاضوں کے عین مطابق ہوگا۔ لیکن فی الحال اس بحث میں الجھنے کے بجائے ہم اردو شاعری میں جدیدیت کا سلسلہ نسب متعین کرنا چاہتے ہیں۔
اردو شاعری میں جدیدیت کا سب سے پہلا اورسب سے بڑا شاعر غالب ہے۔ غالب سے پہلے جو کچھ ہے، روایتی معاشرے کی روایتی شاعری ہے۔ اس کے بعد کوئی ایسا شاعر پیدا نہیں ہوا جس کی ذات واحد میں جدیدیت کی اتنی خصوصیات جمع ہوں۔ مذہب، عقیدہ، احکام، اخلاق اور معیارات سب کے سب اس بت شکن کی سبک دستی کے بہانے ہیں اور وہ ان چیزوں کو کسی خارجی کسوٹی پر رد نہیں کرتا بلکہ صرف اپنی ذات کے پیمانے پر۔ یہاں بعض لوگوں کو غالب کی انانیت یاد آئےگی۔ لیکن گھسے پٹے خیالات نے ہر بات کی تفہیم ناممکن بنا دی ہے۔ انانیت ہو یا کوئی اور صفت، شاعری میں تو یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ شاعر نے اسے تشخیص حقیقت یا انکشاف ذات کا ذریعہ بنایا ہے یا نہیں۔ انانیت پسند تو غالب سے پہلے بھی گزرے ہوں گے اور اپنی تمام زندگی میں میر، غالب سے زیادہ انانیت پسند تھے اور یوں کہنے کو انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ’’حیف بندے ہوئے خدا نہ ہوئے۔‘‘ یا ’’اہل نظر ہمیں کو معبود جانتے ہیں۔‘‘ لیکن یہ سب روایتی معاشرے کے روایتی خیالات ہیں۔ غالب کی انانیت پرستی صرف ومحض انانیت پرستی نہیں تھی۔ یہ غالب کی وہ قوت تھی جس کی مدد سے وہ ہر خارجی معیار کو رد کرکے ذاتی حقائق کی اجنبی سرزمین میں داخل ہوتا ہے۔
اپنی ہستی ہی سے جو ہو کچھ ہو
یا
ہنگامہ زبونی ہمت ہے انفعال
حاصل نہ کیجے دہر سے عبرت ہی کیوں نہ ہو
اور ان معنوں میں وہ جن حقائق تک پہنچتا ہے، ان کے بارے میں اس کا یہ دعویٰ سچا ہے کہ میں عندلیب گلشن ناآفرید ہ ہوں۔ یہ گلشن ناآفریدہ کیا ہے؟ ایک بے حد جدید دنیا ہے جس میں حق و باطل کا تعین مافوق الفطرت عقیدوں کی بنا پر نہیں ہوتا۔ نہ خیروشر کے معیارات خارجی طور پر عائد کیے جاتے ہیں، نہ اجتماعی واہموں کو قانون کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ دنیا ایک حددرجہ آزاد فرد کی دنیا ہے جس کا خالق، حاکم اور قانون وہ آپ ہے اور یہ فرد انتہا کا انفرادیت پسند ہے۔ انفرادیت پسند اور تغیر پسند۔ اسے ایک طرف وبائے عام میں مرنا قبول نہیں ہے اور دوسری طرف جنت اس لیے قبول نہیں ہے کہ ’’ہے ہے اقامت جاودانی ہے۔‘‘ غالب کے زمانے میں یہ دنیا صرف غالب کے خوابوں میں بستی تھی۔ غالب نے خواب اور حقیقت کو اس طرح ملایا کہ آج یہ دنیا ہم سب کی تقدیر ہے۔ جدید دنیا غالب کی دنیا ہے۔
لیکن غالب کے مقابلے میں جدید شاعری کرنے اور جدید شاعری کی بنیاد ڈالنے والے حالی کی شاعری کچھ یوں ہی سی جدید ہے۔ اس بنا پر نہیں کہ غالب بڑا شاعر تھا اور حالی چھوٹے شاعر تھے۔ اس بنا پر کہ حالی نے جدیدیت کے معنی قومی زبوں حالی یا مناظر فطرت پر نظمیں لکھنا سمجھا۔ یہ شاعر ی ان معنوں میں تو جدید ضرور تھی کہ اردو والوں کے لیے نئی تھی لیکن جدیدیت، حقیقی جدیدیت سے حالی کی طبیعت کو رتی بھر بھی مناسبت نہیں تھی۔ وہ کبھی خواب میں بھی نہیں سوچ سکتے تھے کہ فرد غالب کی طرح اتنی بڑی آزادی کا خواب دیکھ سکتا ہے۔ انہیں جدیدیت سے زیادہ اپنا مفلر عزیز تھا۔
پھر حالی میں یہ سکت بھی نہیں تھی کہ اپنی ذات کو پیمانہ اقدار بنا سکیں۔ ان کی زندگی میں سرسید اور کرنل ہالرائیڈ داخل نہ ہوتے تو وہ رنگ قدیم پر ہی قائم رہتے۔ وہ جدید شاعری اس لیے نہیں کرتے کہ ان کی فطرت کا تقاضا ہے۔ جدید شاعری وہ اس لیے کرتے ہیں کہ سرسید اور کرنل ہالرائیڈ کا تقاضا ہے۔ حالی میں اخلاق پرستی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ وہ تو میرے خیال میں بائیں ہاتھ سے پانی بھی نہیں پیتے ہوں گے۔ ایسے آدمی کا فطری جدیدیت سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔ حالی جدید نہیں تھے، زمانے اور سرسید کی ستم ظریفی نے انہیں جدید بنا دیا تھا۔
اور آپ چاہیں تو اسے میری ستم ظریفی کہہ لیں کہ مجھے حسرت، حالی سے نسبتاً زیادہ جدید معلوم ہوتے ہیں۔ میں نے ’’نسبتاً‘‘ کہا ہے۔ بظاہر یہ بات کچھ الٹی سی معلوم ہوتی ہے۔ حسرت نے حالی کی طرح نظم نگاری نہیں کی جسے عام طور جدیدیت کی ایک علامت سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے ایک قطعی روایتی ذریعہ اظہار یعنی غزل کو اپنایا اور اس میں بھی انفرادیت کے بجائے دوسروں کی تقلید کو یہاں تک کام میں لائے کہ ایک طرح سے پوری اردو غزل کو دوبارہ لکھ دیا لیکن اس کے باوجود یہ حسرت ہی ہیں جو،
قول کو زید وعمرو کے حد سے سوا اہم نہ جان
روشنی ضمیر میں عقل سے اجتہاد کر
کا اعلان کرتے ہیں۔ یہ ایک غیرروایتی خیال ہے اور خواہ اسے پوری طرح جدید نہ کہا جا سکے مگر اس کا سلسلہ کسی نہ کسی طرح انفرادیت پرستی سے مل جاتا ہے۔ یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ شاعرکی ذاتی زندگی اور اس کی شاعری میں کتنی مطابقت ہو سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ذاتی زندگی میں ایک شاعر قدیم ہو لیکن اس کی شاعری جدید ہو اور صورت حال اس کے برعکس بھی ہو سکتی ہے۔ حسرت کی شاعری پر ان کے تمام خیالات کا بہت زیادہ اثر نہیں معلوم ہوتا لیکن اتنا ضرور ہے کہ ان کی شاعری میں تجربے کا براہ راست بیان ان کی زندگی سے پیدا ہوا ہے۔ وہ حسن وعشق کو موضوع بناتے ہیں مگر ان کا حسن وعشق روایتی نہیں ہے، اس میں حسرت کی شان اجتہاد ہے اور اگر کہیں کہیں وہ روایتی حسن وعشق سے ہم آہنگ بھی ہوتے ہیں تواس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ انہوں نے روایت کو روایتی طور پر قبول کیا ہے بلکہ اس لیے کہ ان کے تجربے نے اس کی تصدیق کی ہے۔
حسرت کی جدیدیت کا ایک اور پہلو روایتی عشق حقیقی سے ان کا گریز ہے اور یہ گریز شعوری ہے۔ غزل کی روایت میں اس شعوری گریز کے معنی اس اعتبار سے اہم ہیں کہ حسرت کی غزل اس کے ذریعے قدیم غزل گوئی کے بجائے جدید غزل سے اپنا رشتہ جوڑ لیتی ہے۔ حالی کی جدید غزل ’’جدید‘‘ کا عنوان اپنے ماتھے پر سجانے کے باوجود اتنی جدید نہیں ہے جتنی حسرت کی غزل۔ حسرت کی غزل کا رشتہ آگے چل کر حسن وعشق کی بدلتی ہوئی روایت سے مل جاتا ہے جبکہ حالی کی جدید غزل اپنے قومی اور سیاسی مضامین کے باوجود جہاں کی تہاں رہ جاتی ہے۔ لیکن حسرت کی جدیدیت بہرحال ایک ایسے آدمی کی جدیدیت ہے جو کسی نہ کسی طرح قدیم روایتی تہذیب کی طرف لوٹنا چاہتا تھا یا کم ازکم اس سے اپنا رشتہ ضرور قائم رکھنا چاہتا تھا۔
اکبر کی شاعری میں روایتی معاشرے اور روایتی تہذیب کی طرف واپسی یا اس سے وابستگی کی کوشش بہت شعوری ہوکر نمایاں ہوئی ہے۔ ان معنوں میں اکبر جدیدیت کے ایک پر زور مخالف کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔ لیکن جدیدیت سے جنگ اکبر نے جدیدیت کے اپنے ہتھیاروں سے لڑی ہے اور غور سے دیکھا جائے تو یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک شاعر کا شعور جدیدیت کو خود کسی حد تک قبول نہ کر لے۔ اکبر روایت پسند یا روایتی اس لیے نہیں ہیں کہ ان کی تربیت نے انہیں ایسا بنا دیا ہے۔ وہ روایتی ان معنوں میں ہیں کہ روایت کو شعوری طور پر پسند کرتے ہیں۔ یعنی اس کی تصدیق اپنے تجربے میں ڈھونڈتے ہیں۔
رشید احمد صدیقی کہتے ہیں کہ حالی ماضی کے اور اکبر حال کے شاعر ہیں۔ محمد حسن عسکری کہتے ہیں کہ اکبر ان معنوں میں حالی سے جدید تر ہیں کہ انہیں جدید چیزوں میں نئی نئی علامتیں نظر آتی ہیں۔ میرے نزدیک اکبر کی جدیدیت ان کے ’’تجرباتی‘‘ ہونے میں پوشیدہ ہے۔ وہ ہر اس چیز کی صداقت کی گواہی دیتے ہیں جوان کے تجربے میں سچی ہے اور تجرباتی سچائی کے ساتھ ان حقائق کو بھی تسلیم کر لیتے ہیں جوان کی شعوری پسندیدگی کے خلاف جاتے ہیں، مثلاً یہ بات کہ،
شعر اکبر کو سمجھ لو یادگار انقلاب
اس کو یہ معلوم ہے ٹلتی نہیں آئی ہوئی
ایک سچے تجرباتی رویے کے بغیر نہیں کہی جا سکتی۔ اس کے علاوہ وہ ایک معنوں میں انفرادیت پرست بھی ہیں کہ جب تاریخ کا پورا دھارا ان کے خلاف جا رہا تھا اور زمانے کی عام روش ’’چلو اس طرف کو ہوا ہو جدھر کی‘‘ تھی، اس وقت وہ،
ناز کیا اس پہ زمانے نے جو بدلا ہے تمہیں
مرد وہ ہیں جو زمانے کو بدل دیتے ہیں
کہہ ہر زمانے کے خلاف کھڑے ہو گئے۔ دیکھئے کتنی عجیب بات ہے کہ حالی کے زمانے میں جدید کے معنی قدیم معاشرے سے منقطع ہونے کے ہیں اور اکبر کے زمانے میں جدید معاشرے سے شعوری جنگ کے۔ کہا جاتا ہے کہ اکبر اپنی پسندیدگی میں روایتی اور اپنے رویے میں جدید ہیں جبکہ حالی اپنی پسندیدگی میں جدید اور اپنے رویے میں روایتی تھے۔
مجھے احساس ہے کہ شاعری ایک بہت پیچیدہ چیز ہے۔ اسے انفرادی اور اجتماعی شعور اور لاشعورکی اتنی آڑی ترچھی لکیریں کاٹتی ہیں کہ کسی شاعر کے بارے میں ایک معمولی سی بات کہنا بھی ہزاروں اختلافات کا دروازہ کھولنے کے برابر ہوتا ہے، پھر زندگی کی جدلیات ہماری تعریفوں پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔ جدیدیت کے ایک معنی تو وہ ہیں جو میں نے غالب کے سلسلے میں متعین کیے ہیں یعنی مذہب، عقیدے، اخلاق اور طریقہ سلف کے خلاف آزادہ روی، انفرادیت پسندی اور تغیرپرستی۔ لیکن اقبال کے سلسلے میں آپ کیا کہیں گے۔ اقبال ایک طرف تو اس خیال کے حامی ہیں کہ ملت از ضبط روایت محکم گردد۔ اس کے علاوہ اسلام پسند ہیں اور اسلامی عقائد، اخلاق اور روایات کے زبردست حامی اور مفسر ہیں۔ یعنی اس سلسلے میں ان کا رویہ یکسر روایتی ہے۔ دوسری طرف وہ ’’گفتند جہان ما آیا بتومی سازد۔ گفتم کہ نمی سازوگفتند کہ برہم زن‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں۔ مارکس نے کہا تھا کہ فلسفہ اب تک دنیا کی تعبیر و تفسیر کرتا آیا ہے، اب اس کا کام دنیا کو بدلناہے۔ اقبال بھی دنیا کو بدلنا چاہتے ہیں۔ ہر نئی تعمیر کو لازم ہے تخریب تمام۔
پھونک ڈالے یہ زمین وآسمان مستعار
اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے
جو تھا نہیں ہے، جو ہے نہ ہوگا، یہی ہے اک حرف محرمانہ
قریب تر ہے نمود جس کی اسی کا مشتاق ہے زمانہ
اقبال دنیا کو بدلنا چاہتے ہیں اور دنیا کی تغیرپذیری کا شدید احساس رکھتے ہیں۔ یعنی اس سلسلے میں ان کا رویہ بالکل جدید ہے۔ کیا یہ فکر کا تضاد ہے یا پریشان خیالی ہے یا کوئی جذباتی یا نفسیاتی کشمکش ہے؟ یہ سب بھی ہو سکتا ہے مگر اس سے کچھ سوا بھی ہے۔ میں نے کہا ہے کہ جدیدیت کے معنی اثبات کا دروازہ بندکرنے کے نہیں ہیں۔ جدیدیت ہر چیز کا اثبات کر سکتی ہے بشرطیکہ تجربہ اس کی تصدیق کرے۔ ارونگ بیسٹ کا کہنا ہے کہ جھگڑا جدیدیت کے تصور میں نہیں ہے کیونکہ گوئٹے، سینٹ بیو، ویناں آرنلڈ اور ان جیسے تمام لوگ اس کے ایک تصور پر متفق ہیں۔ جھگڑا تو ادھوری جدیدیت اور پوری جدیدیت میں ہے۔
ادھوری جدیدیت تجربے کی فوقیت کے نام پر عقیدے، سند، روایت اور خارجی دباؤ کا انکار کرتی ہے لیکن پھر اپنے انکار کی اسیر ہوکر رہ جاتی ہے۔ اس کے مقابلے پر پوری جدیدیت انکار کی منزل سے گزرنے کے بعد اثبات کی طرف بڑھتی ہے اور جن چیزوں کو اس نے ’’تجربے‘‘ کا اصول منوانے کے لیے رد کر دیا تھا، انہیں تجربے ہی کی تصدیق سے مان لیتی ہے، یا کم از کم اس امکان کو تسلیم کرتی ہے کہ تجرباتی تصدیق کے بعد انہیں مان لیا جائےگا۔ بدقسمتی سے مغرب اور اس کے اثر سے مشرق میں جو جدیدیت سکہ رائج الوقت کی حیثیت رکھتی ہے وہ ادھوری جدیدیت ہے۔ یہ جدیدیت عقائد، اخلاق اور معیارات کو رد تو کرتی ہے لیکن ان کی جگہ کوئی اپنا نظام اقدار نہیں دے سکتی۔
ہمیں ماننا چاہئے کہ انسان اگر اس کرہ ارض پر زندہ رہنا چاہتا ہے تو اسے ایک نظام اقدار ضرور پیدا کرنا پڑےگا اور یہ جاننا کوئی جبر نہیں ہے بلکہ ا نسانیت کا اپنا انفرادی اور اجتماعی تجربہ ہے۔ پرانا نظام اقدار اگر ہمارے مطلب کا نہیں ہے یا فرسودہ اور ازکار رفتہ ہو گیا ہے تو ہمیں اسے بےشک رد کر دینا چاہئے۔ لیکن پوری جدیدیت کا تقاضا اس وقت تک پورا نہیں ہوگا جب تک اس کی جگہ نیا نظام اقدار نہ پیدا کیا جائے۔ ادھوری جدیدیت رد کرنے کا کام تو انجام دیتی ہے مگر اپنی کوتاہ دستی کے باعث نئے نظام اقدار تک پہنچ سکتی۔ اقبال جدید ہیں تو ان معنوں میں کہ وہ تخریب تمام کے بعد تعمیر ضروری سمجھتے ہیں۔ اسلام کے بارے میں ان کا رویہ روایتی پسندیدگی کا نہیں ہے بلکہ انہوں نے بار بار اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ وہ پورے غوروفکر کے بعد اسلام کو جدید دنیا کے تمام مسائل کا حل سمجھتے ہیں۔ ان کے اس خیال سے انکار کیا جا سکتا ہے مگر یہ طریق کار نہ صرف جدید ہے بلکہ پورا جدید ہے۔
مسئلے کی وضاحت کے لیے میں ایک بار پھر غالب کو سامنے رکھتا ہوں۔ غالب کو میں نے اردو کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا جدید شاعر کہا ہے۔ سب سے پہلا تو یوں کہ جدیدیت کے اصل اصول کی جو جنگ سب سے پہلے غالب نے اپنے شعور میں لڑی، وہ ابھی معاشرے میں مختلف سطحو ں پر لڑی جا رہی ہے اور اپنی تمام رنگارنگی میں غالب ہی کے مختلف عناصر کو جھلکا رہی ہے۔ گویا جدیدیت کے تمام رنگوں کو اگر ہم ایک واحد شعلے میں دیکھنا چاہیں تو وہ شعلہ غالب کا شعور ہے۔ اور سب سے بڑا شاعر یوں کہ غالب نفی سے اثبات کی طرف بڑھتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ نفی کی کاوش اس کے یہاں بہت زیادہ نمایاں ہے اور اثبات کا پہلو اتنا اجاگر نہیں ہوا مگر انانیت پسند، انفرادیت پسند، داخلیت پسند اور ہربت کو اپنی راہ کا سنگ گراں سمجھنے والے غالب کایہ اظہار ایک معنی رکھتا ہے کہ،
چاک مت کر جیب بے ایام گل
کچھ ادھر کا بھی اشارہ چاہئے
غالب کے اس قسم کے اشعار پر ابھی پورا غور نہیں کیا گیا کیونکہ معاشرے میں ابھی نفی کا اصول اپنی تکمیل تک نہیں پہنچا۔ ایک مشکل اور بھی ہے کہ جدید مغربی تہذیب نے اپنی روح کو پانے میں جو سفر کئی صدیوں میں کیا ہے، اسے ہمارے یہاں چند دہائیوں میں طے کیا گیا ہے اور وہ بھی پورے معاشرے میں نہیں بلکہ چند مخصوص طبقوں میں۔ اور معاشرے کی حالت یہ ہے کہ قدیم و جدید آپس میں اس طرح دست وگریباں ہیں کہ فیصلہ کسی ایک کے حق میں نہیں ہو سکتا۔ اس لیے روایتی تصورات اور جدیدیت کے اثباتی تصورات میں فرق کرنا بہت دشوار ہو جاتا ہے، یعنی یہ تمیز دشوار ہو جاتی ہے کہ مثلاً اقبال کے اسلام اور مولانا احتشام الحق کے اسلام میں کیا فرق ہے؟ اصولوں کے اعتبار سے نہیں، اصولوں تک رسائی کے اعتبار سے۔
بہرحال غالب اور اقبال کے تقابل میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ غالب جہاں جدیدیت کے منفی عمل کا عظیم ترین مظہر ہے، وہاں اقبال جدیدیت کے مثبت عمل کا سب سے بڑا نمائندہ ہے۔ اس اعتبار سے جن لوگوں نے اقبال کو غالب کا نقش ثانی کہا ہے وہ بہت بڑی حد تک سچائی کے نزدیک ہیں۔ یہ ایک ہی شعور کی دو مختلف منزلوں کے نام ہیں۔
اچھا تو نفی کے عمل سے جو جدیدیت پیدا ہوتی ہے، غالب کے بعد اس کے ایک بڑے نمائندے یگانہ ہیں۔ اس سلسلے میں فانی، اصغر اور جگر وغیرہ کا نام لینا مناسب نہ ہوگا۔ کیونکہ جس مخصوص زاویہ نظر سے ہم گفتگو کر رہے ہیں اس میں ان بزرگوں کے تذکرے کی گنجائش مشکل ہی سے نکلتی ہے۔ یگانہ کا منشور یوں تو ’’حق پرستی کیجئے یا خودپرستی کیجئے‘‘ ہے مگر حق پرستی کا ذکر برائے بیت ہے۔ اصل چیز اپنا تجربہ ہے۔
علم کیا علم کی حقیقت کیا
جیسی جس کے گمان میں آئی
اس تجربے کی بنا پر وہ معتقدات کو مسترد کرتے ہیں اور ان سارے رویوں پر تنقیدی نظر ڈالتے ہیں جو روایتی تہذیب سے پیدا ہوئے ہیں، خواہ یہ رویے حسن وعشق کے روابط کے ہوں یا عام انسانی تعلقات کے۔ غالب اور یگانہ میں فرق یہ ہے کہ یگانہ یکسر منفی رویے کے شاعر ہیں۔ اپنے شعور کی کسی منزل پر بھی وہ غالب کی طرح اثبات کی طرف کوئی اشارہ نہیں کرتے بلکہ بعض اوقات تو گمان ہوتا ہے کہ منفی رویے کو اپنی آخری منزل سمجھتے ہیں۔ ’’برا ہو پائے سرکش کا تھک جانا نہیں آتا۔‘‘ تھک جانے کے معنی کسی منزل کو قبول کرنے کے ہیں جس کے لیے یگانہ تیار نہیں ہوتے۔ اس لیے ان کی شاعری اردو دنیا میں جدیدیت کے ایک پہلو کی شدید آگہی دینے کے باوجود کسی نئے نظام اقدار کی تشکیل سے عاری رہتی ہے۔
لیکن یگانہ کے برعکس فراق ایک نئے نظام اقدار کی طرف بڑھتے ہیں۔ فرا ق کی شاعری کا مرکز چوں کہ حسن وعشق کے روابط ہیں، اس لیے ان کی شاعری میں نظام اقدار تک پہنچنے کا وسیلہ عشق ہے۔ یہ عشق روایتی عشق سے بہت مختلف اور اپنی روح میں نہایت جدید ہے اور عشق کے واسطے سے حسن بھی ایک نئی نفسیات، ایک نئی کائنات کا حامل ہے،
حسن سر تا پا تمنا، عشق سر تا پا غرور
اس کا اندازہ نیاز و ناز سے ہوتا نہیں
نہ رہا حیات کی منزلوں میں وہ فرق نازونیاز بھی
کہ جہاں ہے عشق برہنہ پا وہیں حسن خاک بسر بھی ہے
فراق کے یہاں نفی کے عمل کی صورت گری نہیں ملتی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ منزلیں انہوں نے اپنے تصور میں تو طے کی ہیں لیکن ان کا اظہار نہیں کیا۔ لیکن جدیدیت کے مثبت عمل کی آئینہ داری ان کے کلام میں بڑے حسن، رکھ رکھاؤ اور عظمت کے ساتھ ہوئی ہے۔ جوش کا ذکر رہا جاتا ہے لیکن ان کا تفصیلی مطالعہ میں کسی اور جگہ کر رہا ہوں۔
اب میں مختصراً ۱۹۳۶ء کے نئے ادیبوں کی تحریک سے متعلق چند باتیں کہنا چاہتا ہوں۔ یہاں میں ہیئت کے تجربوں، نظم آزاد اور نظم معری کے استعمال، نئی علامات اور نئی موسیقی کی تلاش کے بارے میں کچھ نہیں کہوں گا۔ یہ بات جدید سے زیادہ نئی کہلانے کی مستحق ہیں۔ لیکن یہ کہہ کر میں ان کوششو ں کی اہمیت گھٹا نہیں رہا ہوں، صرف اپنے متعین موضوع کی حدود میں رہنا چاہتا ہوں۔ نئے ادیبوں کی تحریک کے دو حصے ہیں۔ ایک وہ حصہ جو آگے چل کر ترقی پسند کہلایا اور دوسرا حصہ وہ ہے جسے آزاد ادیبوں کا گروہ کہنا چاہئے۔ ابتدا میں یہ دونوں حصے ایک دوسرے سے الگ تھلگ نہیں تھے اور ان کی جدیدیت کا مرکز ی نقطہ روایت سے ان کا شعوری انحراف تھا، روایتی معاشرے سے بھی اور روایتی فن سے بھی۔
روایتی معاشرے سے انحراف کا پہلو مذہب کی مخالفت، عقیدوں کی بیخ کنی اور اخلاقیات کی نفی میں ظاہر ہو رہا تھا اور روایتی فن سے انحراف فن کے نئے نئے نظریات اور شاعری کے نئے نئے تجربات میں۔ لیکن ابتدا میں نفی ہی کوسب کچھ سمجھ لیا گیا تھا۔ اس لیے یہ تحریک ادھوری جدیدیت کی تحریک تھی۔ بعد میں کچھ مثبت اقدار کی ضرورت محسوس ہوئی تو صرف نفی کا کام چھوڑکر اشتراکی اقدار کو اختیار کر لیا گیا۔ یہاں سے ترقی پسند نئے ادیبوں سے الگ ہو گئے۔ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ ترقی پسند ہمیشہ میراجی، ن م راشد اوران کے دوسرے رفقا پر نراجی، مریض، منفیت کا شکار ہونے کا الزام لگاتے ہیں لیکن اشتراکی اقدار کو جلدبازی میں یا سیاسی مصلحتوں کے تحت فوری طور پر قبول کرنے کا نتیجہ ادب کے حق میں اچھا برآمد نہیں ہوا۔ اس سے ایک تو معاشرے میں نفی کے عمل کی تکمیل نہیں ہو سکی۔ دوسری طرف جو اشتراکی اقدار قبول کی گئیں ان کی تجرباتی بنیاد واضح نہیں تھی۔
اشتراکیت پر کوئی تنقید میرا مقصود نہیں۔ لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ ہمارے یہاں اشتراکی اقدار کی قبولیت، جدیدیت کے تجرباتی اثبات کے حق میں اچھی ثابت نہیں ہوئی اور ترقی پسند تحریک ہمارے انفرادی اور اجتماعی شعور اور ہمارے تجربے کے درمیان ایک آڑ بن کر کھڑی ہو گئی۔ ترقی پسندوں نے تجربے کی کمی نظریے سے پوری کرنی چاہی، لیکن نظریے کی بندگی نمرود کی خدائی سے زیادہ بے نتیجہ ثابت ہوئی۔ تجربے کی جگہ اگر نظریہ لے سکتا تو روایتی معاشرے کے عقائد ہی کیا برے تھے۔ چند ہی برسوں کی ہنگامہ آرائی کے بعد وقت آ گیا کہ جدیدیت کی نئی رو اس نظریاتی جھانپلیت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دے۔ یہ ایک بڑی تبدیلی تھی۔
ترقی پسندوں کو اس کا احساس اس وقت تک نہیں ہوا جب تک بالکل جدید نسل نے ان کی کھوکھلی، مصنوعی اور خلوص کی کمی کے باعث خطیبانہ شاعری کے خلاف علم بغاوت بلند نہیں کر دیا سوائے فیض اور اخترالایمان کی شاعری کے کہ اشتراکی اقدار کے تجرباتی اثبات کی دلکش مثالیں ہیں یا ایک ہمارے احمد ندیم قاسمی ہیں جن کی شاعری میں پچھلے چند برسوں میں ایک نئی جان آئی ہے۔ اس سے برخلاف آزاد ادیبوں کا گروہ ان معنوں میں جدیدیت سے وفادار رہا کہ اس نے اپنے تجربے میں آئے بغیر کسی قسم کے جھوٹے اثبات کو قبول نہیں کیا۔ میراجی کے بعد راشد نے اس کام کو جاری رکھا ہے اور ان کے بعد کی نسل میں ضیا جالندھری ابھی تک اس راستے پر گامزن ہیں۔ گوکہ مختار صدیقی اور یوسف ظفر میں روایت کی ایک نئی تجرباتی قبولیت کا رجحان بڑھ رہا ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان میں سے کسی ایک میں بھی کسی نئے نظام اقدار کی تخلیق کی تھوڑی سی سکت بھی ہے یانہیں۔
۱۹۴۷ء کے بعد جدید شاعری کے دو گروہ ابھرے۔ ایک وہ جس کا کام پاکستان کے فوراً بعدمنصہ شہود پر آیا اور جنہوں نے ۵۸۔ ۱۹۵۷ء تک بہت بڑی حد تک پڑھنے والوں کے شعور میں جگہ پیدا کر لی۔ دوسرا گروہ ۵۸۔ ۵۷ء کے قریب ابھرا ہے اور ادبی تاریخ میں اپنی جگہ حاصل کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔ ان میں سے کچھ میراجی کی روایت میں لکھ رہے ہیں اور کچھ ترقی پسند تحریک کے جھوٹے اثبات کے ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔ اول الذکر پاکستان میں اور موخرالذکر ہندوستان میں۔ جدید شعرا کی اس نسل میں نفی کا رجحان بہت شدید ہے۔ ایک معنوں میں قدیم سے جدیدیت کی وہ لڑائی جس کا آغاز غالب سے ہوا تھا، اب شاعری میں اپنی تکمیل کو پہنچ رہی ہے۔ فرد سارے رشتوں کو توڑ کر اپنا پیمانہ اقدار آپ بن چکا ہے۔ مذہب، عقیدہ، اخلاق، قانون، معاشرتی اصول، فن وزبان کے ضابطے اور قاعدے، سب اس کے نزدیک بے معنی ہو چکے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو نہ کسی تہذیب کا نمائندہ تصور کرتا ہے نہ کسی قوم کا فرد۔ اس کی نہ کوئی جماعت ہے نہ کوئی تنظیم۔ وہ معاشرے میں بے آسرا، ہجوم میں تنہا اور شہر میں جنگل کا باسی۔
ان رجحانات کے نمائندہ شعرا کی تخلیقات شاعری کے اعتبار سے اپنی حدودمیں اچھی بری، پست وبلند ہرطرح کی ہیں جن کا تفصیلی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ سب کی سب اس بات کا مکمل اظہار کرتی ہیں کہ جدیدیت کا منفی پہلو جس شدت سے اب نمایاں ہوا ہے، اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ ذاتی طور پر میں اس شاعر ی کے بیشتر حصے کا قائل نہ ہونے کے باوجود نوجوانوں کویہ حق دینے کے حق میں ہوں کہ وہ اپنے تجربے کو بنیاد بناکر جس چیز کو رد کرنا چاہیں رد کر سکتے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ہی ہمیں نہ بھولنا چاہئے کہ یہ جدیدیت کا صرف ایک پہلو ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ ادھوری جدیت کبھی پوری جدیدیت بنتی ہے یا نہیں۔ لیکن یہ سوال شاید قبل ازوقت ہے کیونکہ ان کے یہاں نفی کا عمل ابھی اس سنجیدہ سطح پر نہیں پہنچا جہاں ادب کا کوئی سنجیدہ طالب علم زیادہ دیر تک ٹھہر سکے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.