احوال برق و صاعقہ
برق مخصوص کسی ایک جوت سے نہیں ہے بلکہ تمام جوتیں موجود ہیں۔ بعض اشیاء ارضی میں ایسا خاصہ ہے کہ جس وقت ابر نزدیک زمین کے پہنچتا ہے تو وہ برق کو اپنی طرف جذب کر لیتی ہیں اور برق اس جذب کی تاثیر سے سحاب کو چھوڑ کر میل نیچے کی طرف کرتی ہے۔ بادل کے پھٹنے اور اس سے آواز ہولناک پیدا ہونے کا نام صاعقہ ہے۔
جس وقت کہ برق سحاب کو پھاڑ کر باہر نکلتی ہے، آواز ہوتی ہے لیکن وہ آواز بعد ایک لمحہ کے ہم کو سنائی دیتی ہے کیونکہ آواز مذکور عرصہ دو دقیقہ میں چھ کوس تک پہنچتی ہے مگر روشنی برق کی زیادہ جلد چلتی ہے۔ ہر چند آواز اور روشنی ایک وقت حادث ہوتے ہیں لیکن روشنی قبل آواز کے محسوس ہوتی ہے۔ اگر کوئی یہ بات دریافت کیا چاہے کہ درمیان ظہور روشنی اور آواز کے کس قدر تفاوت ہے، چاہئے کہ بطور مذکور حساب کرے، معلوم ہوجاوے گا کہ برق کس قدر دور ہے۔ پس اگر وقت ظہور روشنی سے آواز تک اڑھائی دقیقہ گذرے تو برق زمین سے چھ کوس کے فاصلے پر ہوگی۔ صاعقہ بڑی بڑی چیزوں پر پڑتی ہے اس وجہ سے بوقت طوفان درخت کے نیچے کھڑا ہونا مناسب نہیں۔
بعض اشیاء میں یہ خاصیت ہے کہ وہ بجلی کو اپنی طرف کشش کرتی ہیں اور سب فلزات یہی خواص رکھتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ جو صاعقہ میان تلوار پر پڑے، میان نہیں جلتی اور تلوار جل جاتی ہے۔ حکماء فرنگ نے ایک ایسی کل بنائی ہے جس سے بجلی پیدا ہوتی ہے۔ جب اس کل کو پھراتے ہیں، چنگاریاں نمودار ہوتی ہیں اور بجلی ایک شیشے کے برتن میں جمع ہو سکتی ہے۔ جب اس برتن کو دونوں ہاتھوں سے چھوتے ہیں تو چھونے والے کو ایک صدمہ پہنچتا ہے۔ اگر ایک آدمی کو شیشے کے پائیوں کی چوکی پر بٹھا دیں اور وہ اس آلے کو ایک جانب سے پکڑے رہے تو اس کے جسم میں بجلی جمع ہوجاتی ہے اور اس کے جسم سے بھی چنگاریاں نمودار ہوجاتی ہیں اور یہ کل بڑے بڑے مدرسوں سرکاری میں موجود ہے۔ جو شخص چاہے وہاں جاکر ان سب باتوں کا امتحان کرے۔ جب تک ان چیزوں کو آدمی اپنی نظر سے نہ دیکھے، تب تک اس کو ان کا بخوبی یقین نہیں ہوتا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.