Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

علامتوں کا زوال

انتظار حسین

علامتوں کا زوال

انتظار حسین

MORE BYانتظار حسین

    مشہور انگریز مؤرخ مسٹر گبن نے کہا ہے کہ دنیا میں دو بڑے پہلوان گزرے ہیں۔ رستم اور حضرت علی۔۔۔ مجھے نہیں معلوم کہ گبن نے واقعی یہ بات کہی ہے یا نہیں، اس کے راوی ہماری بستی کے ذاکر صاحب ہیں جو مجلس میں گرمی پیدا کرنے کے لئے گبن کا یہ قول سنایا کرتا تھے۔ بڑے ہونے پر جب میں نے ’مقدمہ شعروشاعری‘ پڑھی تو معلوم ہوا کہ ہمارے ذاکر صاحب سے پہلے مولانا حالی گزرے ہیں جنہوں نے مل، ملٹن اور میکالے کی مدد سے اردو کی جھوٹی شاعری کے بارے میں سچی سچی باتیں کہیں ہیں۔

    یہ وہ زمانہ تھا جب رسول اللہ کو سرسید احمد خاں، محمد صاحب اور ڈپٹی نذیر احمد پیغمبر صاحب لکھا کرتے تھے۔ پھر سیرت لکھنے والوں کو آنحضرت کے بارے میں کارلائل، ٹالسٹائی اور برنارڈشا کے چند فقرے دستیاب ہو گئے۔ اس عرصے میں مسلمان نوجوانوں نے کچھ اور مہارت پیدا کر لی اور تعلیم کے سلسلے میں لندن تک گئے۔ لندن سے واپس آنے والے انگریز بیویاں، بیرسٹری کی ڈگریاں اور ادب کی چند نئی تکنیکیں اور بہت سے نئے نام لائے۔ پس اردو میں نئے ادب کی تحریک شروع ہوئی اور گور کی اور موپساں کی ادیبوں میں وہی عزت ہوئی جو مولویوں میں گبن اور کارلائل صاحب کی ہوئی تھی۔ تنقیدی مضامین پہلے تو میتھیو آرنلڈ کے اس فقرے سے شروع ہوتے تھے کہ ادب زندگی کی تفسیر ہے پھر وہ ٹی ایس ایلیٹ کے اقوال زریں پر ختم ہونے لگے اور اب بات سارتر کے حوالے سے ہوتی ہے۔

    اصل میں سرسید احمد خاں اور ان کے رفقا اس کوشش میں تھے کہ ہماری اجتماعی زندگی کے نشانات کا کسی طرح بھرم رہ جائے اور سن ستاون میں گیا ہوا اعتبار بحال ہو جائے، لیکن وظیفہ الٹ گیا۔ اس عمل میں گبن اور کارلائل ضرور معتبر بن گئے پر ہمارا گیا ہوا اعتبار واپس نہ آیا۔ ایلیٹ اور سارتر کی بات تو جانے دیجئے، اردو کے ادیبوں نے تو مغرب کے پھسڈی ادیبوں کی بھی بہت عزت کی۔ حالانکہ اب تو ان کے کردار ماشاء اللہ انگریزی کی پوری پوری نظمیں منہ زبانی مکالموں میں سنا دیتے ہیں۔ اصل میں ہمارے یہاں مولویوں اور ادیبوں کا ذہنی ارتقا ایک ہی خطوط پر ہوا ہے۔

    یہ اپنے اور پرایے نام گناکر میں اردو ادب کی ایک مخصوص صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اردو کے پرانے ادب میں جو بہت سے نام علامتی رنگ اختیار کر گئے تھے اب گم ہوتے نظر آتے ہیں۔ پرانی غزل میں تلمیحات کی افراط پر غور کیجئے اور آج کی غزل کو دیکھئے کہ کوئی کوئی تلمیح اندھرے میں جگنو کی طرح اڑتی نظر آ جاتی ہے مگر وہ بھی پورا اجالا نہیں کرتی۔ ناموں کی ایک برات تھی جو رخصت ہو گئی اور اب مغرب کے نام تاتاریوں کی طرح ہمارے ادب اور ہماری پوری تہذیبی زندگی پر یلغار کر رہے ہیں۔ ناموں کا جانا اور ناموں کا آنا معمولی واقعہ نہیں ہوتا۔ نام میں بہت کچھ رکھا ہے۔ اپنے مستند ناموں کو رد کرکے کسی دوسری تہذیب کے ناموں کو سند سمجھنا، افکار و خیالات کے ایک نظام سے رشتہ توڑ کر کسی دوسرے نظام کی غلامی قبول کرنا ہے، اور جب ہم کسی اجنبی تہذیب کی ایک تلمیح کو قبول کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس باطنی واردات پر ایمان لے آئے ہیں جس سے وہ تلمیح عبارت ہے۔

    شاید اس خطرہ کو سب سے پہلے اقبال نے سونگھا تھا۔ انہوں نے اردو کی پرانی تلمیحات کے ساتھ اور بھی مختلف شہروں اور شخصیتوں کے نام اسلامی تاریخ سے اخذ کئے اور انہیں ہماری داخلی اور خارجی زندگی کی مختلف صورتوں کی علامتیں اور نشانات ٹھہرایا۔ اقبال کی شاعری علامتوں کی تجدید کی ایک تحریک تھی۔ یہ تحریک ان کے ساتھ ختم ہو گئی۔ ان کے بعد حقیقت نگاری کی تحریک نے زور باندھا، جس کے نزدیک خارجی حقیقت پوری حقیقت تھی اور اس لئے علامتیں اور اشارات، جو باطنی وارداتوں کے امین ہوتے ہیں، ان کے لئے معنی نہیں رکھتے تھے۔

    نام، اسم معرفہ سے تلمیح کی منزل تک کے سفر میں بہت سا ساز و سامان اکٹھا کر لیتے ہیں۔ روحانی واردات کو سمیٹتے ہوئے ان کے اردگرد ان گنت اشارے، کنایے اور لہجے جمع ہو جاتے ہیں۔ گویا زبان کے اندر ایک زبان پیدا ہو جاتی ہے جو اس معاشرے کی باطنی زندگی کی نشاندہی کرتی ہے۔ لکھنے والے اس کے بل بوتے پر اندر کی دنیا کا سفر کرتے ہیں اور غیرشعور کو شعور کے دائرے میں لاتے ہیں۔ جب کسی زبان سے علامتیں گم ہونے لگتی ہیں تو وہ اس خطرے کا اعلان ہے کہ وہ معاشرہ اپنی روحانی واردات کو بھول رہا ہے، اپنی ذات کو فراموش کرنا چاہتا ہے، اردو میں حقیقت نگاری کی تحریک اصل میں اپنی ذات کو فراموش کرنے کی تحریک تھی۔

    لیکن حقیقت نگاری کے مسلک کا تقاضا یہ ہے کہ خارجی حقیقتوں کو ان کے واقعی اور اصلی رنگ میں پیش کیا جائے۔ اردو کے حقیقت نگار یہ ہمت پیدا نہ کر سکے۔ لکھنے والے نے حقیقت نگاری کے جوش میں باطنی زندگی کے سفر سے منہ موڑ لیا اور خارجی حقیقت کو براہ راست دیکھنے کی اس میں تاب نہیں تھی۔ اس نے اس سے کتراکر جذباتیت میں پناہ لی۔ جذباتیت حقیقت نگاری کی مابعد الطبیعات ہے۔ حقیقت نگار جب حقیقت سے گریز کرتے ہیں تو جذباتیت میں پناہ لیتے ہیں۔

    اس صدی کی تیسری اور چوتھی دہائی کا اردو افسانہ حقیقت نگاری اور جذباتیت کے اس گھپلے کی پیداوار ہے۔ اس عمارت کی اینٹ ٹیڑھی رکھی گئی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پریم چند اردو افسانے کی ٹیڑھی اینٹ ہیں۔ اصل میں اردو میں حقیقت نگاری کا اسلوب حقیقت نگاری کی تحریک سے پہلے پروان چڑھ چکا تھا۔ یہ اسلوب داستانوں میں تخیلی اسلوب کے پہلو بہ پہلو پھلتا پھولتا نظر آتا ہے پھر اسے ڈپٹی نذیر احمد اور پنڈت رتن ناتھ سرشار نے رونق بخشی، مگر اس اسلوب کو پریم چند کا افسانہ لے بیٹھا۔ اردو زبان نے پیچ در پیچ انسانی رشتوں اور انسانی ذات کی گہرائیوں کو دائرہ اظہار میں لانے کے لئے جو اسالیبِ بیان، جو اشارے، کنایے، جو لہجے بنائے سنوارے تھے، پریم چند کے یہاں ان کا اثر نہیں ملتا۔ شاید اردو کا یہ سرمایہ بیان ان کے کام آ بھی نہیں سکتا تھا، کیونکہ ان کے یہاں انسانی زندگی رشتوں کا پیچ در پیچ عمل ہے ہی نہیں اور نہ انسانی ذات کوئی تہہ دار چیز ہے۔ ظالم زمیندار، مظلوم کسان، ظالم کے لئے نفریں، مظلوم کے لئے چند موٹے موٹے آنسو۔ یہ ہے منشی پریم چند کی بصیرت کا سارا سرمایہ۔

    مگر ستم ظریفی تو یہ ہے کہ سماج کا یہ افسانہ نگار اس سرمایہ بیان سے بھی استفادہ نہ کر سکا۔ جو اُستانوں (؟) سے پنڈت رتن ناتھ سرشار تک رنگا رنگ سماجی رشتوں کے اظہار کے عمل میں فراہم ہو گیا تھا۔ منشی پریم چند اردو کچھ اس انداز سے لکھتے ہیں جیسے وہ بے چاری دیسی رنگوں رشتوں اور چیزوں کے ناموں تک سے ناآشنا ہے۔ بس یوں سمجھئے کہ عین مین راجندر سنگھ بیدی کی سی زبان لکھتے ہیں جس کی ساری چولیں ڈھیلی ہوتی ہیں اور فقرہ کھڑا ہونے سے پہلے بیٹھ جاتا ہے۔ زبان وبیان اور انسانی بصیرت کا جو ترکہ جو منشی پریم چند نے چھوڑا، نئے اردو افسانے نے متاع عزیز جان کر سینے سے لگا لیا اور کچھ یادیں کچھ آنسو بن کر رہ گیا۔ اس باعث کیا زبان و بیان اور کیا انسانی بصیرت دونوں کے اعتبار سے اردو افسانہ اردو شاعری کے مقابلہ میں پھسڈی نظر آتا ہے۔ پریم چند کی تقسیم کے مطابق اس نے اب تک انسانوں کو انہیں سیدھے سادھے خانوں ظالم اور مظلوم یانیک و بد میں بانٹ رکھا ہے۔ یوں اسے رونے کا بھی بہت شوق ہے مگر رونے کا سلیقہ اسے اب تک نہیں آیا ہے۔ اردو افسانے میں کوئی میر پیدا نہیں ہوا۔ پریم چند کی رقیق القلبی سے اس کی رونے کی روایت نے جنم لیا ہے۔

    افسانے کا المیہ تو یہ ہے کہ اس میں منشی پریم چند پیدا ہو گئے۔ شاعری کے ساتھ یہ گزری کہ وہ مختلف تحریکوں کے ہاتھوں خراب و خستہ ہوکر پریم چند کے افسانے کے انجام کو پہنچ گئی۔ پاکستان کے بعض زرخیز علاقے سیم کی زد میں آ گئے ہیں۔ سیم کا عمل یہ ہوتا ہے کہ زمین کی تہہ میں پانی کی سطح اونچی ہوتی چلی جاتی ہے۔ ادب میں جذبات کا مقام وہی ہے جو زرخیز زمین کی تہہ میں پانی کا مقام ہوتا ہے۔ انہیں تہوں کی گہرائی میں جذب ہونا چاہیے۔ مروجہ ادب کو پڑھتے ہوئے کچھ ایسا احساس ہوتا ہے کہ پانی کی سطح بہت اوپر آ گئی ہے اور لکھنے والا جذبات کو ہتھیلی پر رکھ کر پیش کر رہا ہے۔ رومانی شاعری اور رومانی افسانہ اردو ادب کے سیم زدہ علاقے ہیں۔

    گہرائی اور گیرائی علامتوں سے پیدا ہوتی ہے۔ ادب میں بھی، زندگی میں بھی اور علامتیں دونوں علاقوں سے جا رہی ہیں۔ یوں تنگ پتلون پہننے میں کیا حرج ہے اور اگر آدمی محکمہ خارجہ پاکستان میں ملازم نہ ہوتو بے شک انگریز بیوی بھی لے آئے۔ ویسے یونانی دیومالا سے سول میرج کرنے پر محکمہ خارجہ کو بھی اعتراض نہیں۔ ان تینوں کاموں میں قابل اعتراض بات تو کوئی بھی نہیں۔ بس ذرا یہ وسوسہ ہوتا ہے کہ کہیں یہ علامتوں کے ایک نظام سے رسہ تڑانے کی کوشش تو نہیں ہے۔ لاہور کے ٹریفک حکام نے پچھلے دنوں یہ طے کیا ہے کہ تانگوں کادفتر اب مٹا دینا چاہیے کہ شہر میں نئی سواریاں آ گئی ہیں۔ ٹریفک کے کچھ حکم اردو ادب میں پہلے ہی سے آئے ہوئے ہیں۔ جنہوں نے یہ طے کیا کہ غزل کی پرانی علامتیں فرسودہ ہو گئیں، اب نئی علامتیں اور نئے استعارے ہونے چاہئیں، اور یہ نئی علامتیں اور نئے استعارے وہیں سے درآمد کئے جا رہے ہیں جہاں سے نئی بے بی ٹیکسیاں اور بسیں درآمد کی جا رہی ہیں۔

    یوں تو یہ شور حالی و آزاد کے وقت سے اٹھ رہا ہے کہ نئی سائنسی ایجادات کو غور سے دیکھو اور انہیں شاعری میں جگہ دو مگر وہ زبانی جمع خرچ تھا۔ مولانا محمد حسین آزاد یہ نقطہ نظر رکھنے کے باوجود گھوڑے پر سوار ہوکر گورنمنٹ کالج جایا کرتے تھے۔ مگر فیض احمد فیض کار میں بیٹھ کر آرٹ کونسل جاتے ہیں۔ نئی ایجادات معاشرہ میں اس قدر عام ہوئی ہیں کہ ادیبوں تک کے استعمال میں آنے لگی ہیں۔ مگر عجب بات ہے کہ ان میں سے کسی کو ہماری علامتوں کی معزز برادری میں جگہ نہیں ملتی۔

    اس کے بظاہر دو سبب ہو سکتے ہیں۔ یا تو اردو کے ادیب بہت غبی ہیں کہ سوا سو سال کی محنت شاقہ کے باوجود صورتوں اور چیزوں کی نئی ترتیب کو اب تک اپنے شعور میں جذب نہیں کر سکے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ اردو ادب میں صورتوں اور چیزوں کی نئی ترتیب کو قبول کرنے اور اسے تخلیقی طور پر برتنے کی صلاحیت باقی نہیں رہی ہے۔ یا پھر ان نئی صورتوں اور چیزوں میں کوئی بنیادی خرابی ہے کہ انہیں تخلیقی سطح پر برتا ہی نہیں جا سکتا۔ اردو ادب کے ماضی سے بیزار اور مستقبل سے مایوس حضرات پہلے سبب کو جائز بتائیں گے۔ لیلیٰ مجنوں کے استعارے سے چپکے ہوئے روایتی شاعر دوسری بات پر آمنا و صدقنا کہیں گے۔ مگر ممکن ہے کہ یہ دونوں ہی باتیں غلط ہوں اور حقیقت کچھ اس طرح سے ہو کہ چیزوں کا محض استعمال میں آنا اس بات کی ضمانت نہیں ہے کہ وہ تخلیقی شعور کا حصہ بن جائیں گی بےشک وہ استعمال صدیوں میں پھیلا ہوا ہو۔

    ریل گاڑی، موٹر، بسیں، سائیکل، ٹیلی فون، ریڈیو اب یہ ہمارے روز مرہ کے استعمال کی چیزیں ہیں۔ لیکن ہمارے ذہن کے کسی گوشے میں یہ خیال بھی مستقل موجود ہے کہ یہ چیزیں ہماری نہیں ہیں۔ یہ کسی دوسری قوم کی کسی دوسری تہذیب کی تخلیق ہیں۔ ہم نے انہیں مفید پاکر مستعار لے لیا ہے۔ ان میں ہمارا پیسا لگا ہے، خون جگر شامل نہیں ہے۔ اشیا آج کی ہوں یا ہزار سال پہلے کی، چیزوں اور انسانی ذہن کی ترتیب نئی ہو یا پرانی، تخلیقی سطح پر تو اسے اس صورت میں برتا جا سکتا ہے کہ اس نے خود آپ کی پسلی توڑ کر جنم لیا ہو۔ یا پھر اسے اپنانے میں آپ اسی کرب سے گزرے ہوں۔

    محمل کی سواری کو جس تہذیب نے جنم دیا تھا، اسی تہذیب نے اسے علامت کے پیکر میں ڈھالا تھا۔ وہ انسانی چلن بےشک بدل گیا ہو اور ترتیب اشیا اب قائم نہ ہو جس نے محمل کی سواری کو جنم دیا تھا اور محمل بےشک ہم نے اور آپ نے نہ دیکھا ہو، اس سے کیا ہوتا ہے۔ اس کا علامت کی صورت میں ست نکال کر جو ہم نے محفوظ کر لیا ہے۔ کربلا میں بھی تو آخر شہر بس گیا ہے اور پانی کے نل لگ گئے ہیں مگر اس مقام سے جو تجربہ منسوب ہو گیا ہے اس پر اس سے کیا اثر پڑتا ہے۔ کربلا تو یک اجتماعی روحانی تجربہ قرار پا گئی ہے، ایک علامت بن گئی ہے۔ اب وہاں کچھ بھی ہوا کرے۔

    ہماری علامتیں کچھ براہ راست ہمارے مذہبی تجربے سے ماخوذہیں اور کچھ ان تہذیبی روایتوں سے جن کی گہری تہہ میں یہ مذہبی تجربہ پانی کی رو کی طرح جاری ہے۔ یونانی دیومالا پر میں کیا کھاکر اعتراض کروں گا مگر اتنا تو شاید اطمینان سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ دیومالا ایک اجنبی تہذیب کی روحانی واردات ہے۔ کسی دوسری تہذیب سے کوئی علامت مستعار لے کر اس میں اپنی واردات کو بیان کیا جا سکے تو کیا برا ہے۔ لیکن اجنبی تہذیب کی علامت اکثر ٹرائے کے گھوڑے کی مثال شہر میں داخل ہوتی ہے۔ اس کے اندر تصورات کا ایک لشکر چھپا ہوتا ہے، جو پوری تہذیب کو فتح کر سکتا ہے۔

    علامتوں کے زوال اور اس باعث فکر، احساس اور عمل کے سانچوں کے بکھرنے کا احساس آج سے مخصوص ہے۔ گم ہوتی ہوئی علامتوں کو پھر سے شعور کا حصہ بنانے اور بکھرتے سانچوں کو پھر سے منظم دیکھنے کی خواہش، یہ ہے آج کی حسرتِ تعمیر۔ یہ احساس اور حسرت اپنی ماہیت کے اعتبار سے ان پچھلی تحریکوں کے خلاف بھی ایک رد عمل ہے جو زوال کے اس عمل کی مظہر تھیں اور جنہوں نے اس عمل کو تیز کیا۔ جس لکھنے والے نے ان پچھلی تحریکوں کے طرزِ فکر کو اپنا رکھا ہے اور اس رنگ میں شعر اور افسانہ لکھ رہا ہے اس کے لئے یہ نئی آگہی ممکن نہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ آج کا لکھنے والا نہیں ہے بے شک وہ آج کے زمانے میں پیدا ہوا ہو۔

    ترقی پسند تنقید ہوتی تو اس آگہی کو فراریت کہتی۔ اس تنقید کے سایے میں پلنے والے اسے نوسٹالجیا کہتے ہیں۔ میں اسے علامہ اقبال کی زبان میں آتش رفتہ کا سراغ کہوں گا۔ جنگلی سور اور مغرب کی صنعتی تہذیب دونوں کی صورت ایک ہے کہ مڑکر نہیں دیکھ سکتے اور ادنیٰ حیوانی مخلوقات حافظہ سے محروم ہوتی ہیں۔ ان کے یہاں تجربہ جنم لیتے ہی فنا ہو جاتا ہے۔ ان پر جو واردات گزرتی ہے گزرنے کے ساتھ تمام ہو جاتی ہے۔ لیکن ہم نے تجربات اور واردات کو یاد رکھا تھا اور انہیں علامتوں اور استعاروں میں محفوظ کر لیا تھا۔ پھر یہ کیا افتاد پڑی کہ غزل سے قیس و فرہاد ہجرت کر گئے اور کوہ طور پر ایسی بجلی گری کہ غزل میں اب اس کا نشان نہیں ملتا۔ قیس و فرہاد کے استعاروں کے مر جانے کے معنی یہ ہیں کہ ایک بنیادی انسانی جذبہ ہمارے معاشرے میں ایک پیہم تہذیبی اثر کے ماتحت جس سانچے میں ڈھل گیا تھا وہ سانچا بکھر گیا ہے۔ جب ایسا سانچا بکھرتا ہے تو اخباروں میں اغوا اور قتل کی خبرو ں اور رسالوں میں رومانی نظموں اور افسانوں کی بہتات ہو جاتی ہے۔ رومانی شاعری اور رومانی افسانہ جذبات کے اغوا اور قتل کی واردات ہیں۔

    ہمارے اجتماعی علامتی نظام کی بڑی امین غزل چلی آتی ہے۔ مگر اب نئی غزل کے نام پر اس علامتی نظام سے رشتہ توڑنے کا عمل شروع ہے۔ کتنی تلمیحات اب غزل سے گم نظر آتی ہیں۔ ہاں ایک منصور کی تلمیح اور دارورسن کے استعارے میں سیاسی معنویت دیکھ کر ترقی پسند شاعروں نے سینے سے لگا لیا۔ باقی علامتی ذخیرے کو یاروں نے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ پھر وہ شعر ہیں جو غزل کی ساری پرانی علامتوں کو اسی طور استعمال کرتے ہیں جیسے داغ دہلوی استعمال کرتے تھے۔ اس غزل سے روایتی شاعری کی بساند آتی ہے۔ لیکن روایت سے وابستگی نے اسے روایتی شاعری نہیں بنایا ہے۔ روایت کوئی روایتی چیز تو ہے نہیں۔ ماضی جامد نہیں ہے ایک نامیاتی طاقت ہے۔ وہ ہر صبح نئے معانی کے پس منظر میں طلوع ہوتا ہے۔ اسی ماضی کو جب علامہ اقبال برتتے ہیں تو وہ نئے شعور کا حامل بن جاتا ہے۔ وہی ماضی دوسری جگہ اسلامی تاریخی ناول بن کر رہ جاتا ہے، اس لئے کہ پہلی صورت میں وہ نئے معانی کے پس منظر میں طلوع ہوتا ہے، دوسری صورت میں اس کا عالم روایتی غزل کا ہے۔

    یا یوں کہہ لیجئے کہ اقبال کے یہاں ماضی زمانہ حاضر کا ماضی ہے۔ اسلامی تاریخی ناول میں زمانہ ماضی کا ماضی ہے۔ روایتی غزل اور اسلامی تاریخی ناول کا معاملہ چنداں مختلف نہیں۔ روایتی غزل میں اجتماعی علامتی نظام کے ساتھ وہی سلوک ہوتا ہے جو اسلامی تاریخی ناول میں تاریخ کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ شاعر جو نئے شعور کے ساتھ غزل کہنے کی کوشش کرتا ہے، وہ ان علامتوں سے نبٹنے کی کوشش نہیں کرتا یا ان میں نئے معانی دریافت کرنے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ دامن بچاکر نکل جاتا ہے۔ یعنی اس کا حال یہ ہے کہ محمل سے وہ شرما جاتا ہے اور موٹر ڈرائیو کرنا اس سے آتی نہیں۔

    پس اس وقت غزل کی علامتیں روایتی غزل کے انبار میں دبی پڑی ہیں۔ یہ نظامِ علامات اس نجات دہندہ کا منتظر ہے جو اس سے روایتی غزل کے جوئے کو اٹھائے کہ یہ علامتیں شاعری میں نئے معانی کے پسِ منظر میں طلوع ہوتی نظر آئیں۔ علامتیں قومی رہنماؤں کی مثال رحلت کرتی ہیں۔ ان کی موت ایک طرزِ احساس کی موت ہوتی ہے اور میں سوچ رہا ہوں کہ پیر میں زنجیر، ایک ہاتھ میں کاسہ، دوسرے ہاتھ میں اینٹ، ریگ زاروں میں پھرنے والا وہ مجنوں کدھر نکل گیا اور اردو ادب کا بازار کیوں سرد ہے۔

    مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اُداس ہے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے