ہم کہہ چکے ہیں، اسلوب شخصیت کا عطر ہے، جوہر ہے، یہ بجلی کی وہ رو ہے جو شخصیت سے پھوٹ رہی ہے۔ اپنے اسلوب میں ہم پورے کے پورے موجود ہوتی ہیں۔ یہ ہماری پوری سوانح عمری ہوتا ہے، اسلوب کے ذریعے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم نے کتنی زندگی بسر کی ہے اور کیسی۔ ہم خود کو کتنا ہی چھپائیں مگر ہمارا اسلوب ہمیں ظاہر کر دیتا ہے، یہ ہمارا ایسا پردہ در ہے کہ در انداز دشمن اور رازدار دوست بھی نہ ہوگا، اسلوب بتاتا ہے کہ ہم کیا ہیں، خود کو کیا سمجھتے ہیں، دوسروں کی طرف ہمارا رویہ کیا ہے، ہم دنیا سے کیسا تعلق رکھتے ہیں۔ در اصل اسلوب ہی ہماری شخصیت ہے۔
غالبؔ کی شاعری میں کئی اسلوب ملتے ہیں۔ مشکل ترین اسلوب، نیم مشکل اسلوب، سہل اسلوب اور سہل ممتنع۔ یہ غالبؔ کی شاعری کے ارتقا کو ظاہر کرتے ہیں۔ صرف شاعری ہی کے ارتقا کو نہیں۔ شخصیت کے ارتقا کو بھی۔ یہ ہمیں دکھاتے ہیں کہ خود آگاہی اور جہاں آگاہی کے راستے پر غالبؔ کس طرح بڑھا ہے۔ مشکل اسلوب معنوی اعتبار سے سہل تر اسلوب ہے، سہل ترین اسلوب معنوی اعتبار سے مشکل تر۔ غالبؔ کے مقلد نہیں پیدا ہوئے یا کم پیدا ہوئے، جو پیدا ہوئے وہ مضحکہ خیز بن کر رہ گئے۔ بقول فراقؔ، غالبؔ بڑا پاجی شاعر ہے جس پر اس کے اسلوب کی چھوٹ پڑ جائے، اسے خراب کر دیتا ہے۔ مگر غالبؔ کے یہ نام نہاد مقلد بھی اس کے مشکل اسلوب کی طرف دوڑتے ہیں کیوں کہ آسان ہے، آسان اسلوب کی پیروی کی ہمت کس کو نہیں ہوتی، کیوں کہ مشکل ترین ہے۔ بھاری پتھر کو سب چوم کر چھوڑ دیتے ہیں۔ غالبؔ جہاں سہل ہے، ایسا مشکل ہے کہ اردو کا کوئی شاعر اس تک نہیں پہنچتا، سوائے میرؔ کے۔ مفتی آزردہؔ نے میرؔ کے ایک شعر پر شعر کہتے وقت کہا تھا کہ قل ھو اللہ کا جواب لکھ رہا ہوں۔ میرؔ کا پورا اسلوب ہی قل ھو اللہ ہے۔ غالبؔ یہاں تک نہیں پہنچتا۔ وہ میرؔ کے مضامین سے مضامین اخذ کرتا ہے، ان کے برابر کا شعر کہنا چاہتا ہے مگر کمی رہ جاتی ہے۔ میرؔ کی پرعظمت سادگی نصیب نہیں ہوتی۔ سادگی، دردمندی اور ایک ایسی گمبھیر فضا جو آفاق پر محیط ہے، غالبؔ اپنی مجبوری جانت ہے، وہ شعر کو میرؔ کی روح نہیں دے سکتا۔ اس لیے شعر میں طراری پیدا کرتا ہے۔ طراری، شوخی ایک ٹکراؤ کی سی کیفیت اور کبھی کبھی ایک شوخ فقرے یا پھبتی کا سا انداز خواہ دوسروں پر، خواہ خود اپنے پر۔
چاہتے ہیں خوبرویوں کو اسدؔ
آپ کی صورت تو دیکھا چاہیے
یہ غالبؔ کی وٹ ہے اور اس کے مزے کا کیا کہنا۔ غالبؔ اس کا بادشاہ ہے، کسی اور کو یہ چیز نصیب نہیں ہوئی۔ مگر غالبؔ اور میرؔ کے دو اشعار پیش کرتا ہوں۔ ان سے میرؔ اور غالبؔ کے اسلوب کا فرق ظاہر ہو جائے گا۔ میرؔ کہتے ہیں،
بے خودی لے گئی کہاں ہم کو
دیر سے انتظار ہے اپنا
دیکھیے کیا سوچتا ہوا، گمبھیر، گہری آواز والا لہجہ ہے۔ بے خودی لے گئی۔ شعر کا آغاز ہی قیامت ہے، بے خودی لے گئی کہاں ہم کو۔ کہاں میں کتنی وسعت چھپی ہوئی ہے۔ یہ کہاں پورے آفاق پر حاوی ہے، شاید ماورا آفاق پر بھی۔ اس کے بعد ’’ہم کو‘‘، ’’کہاں‘‘ سے نول کی کیفیت ظاہر کر رہا ہے۔ ’’ہم کو‘‘ ایسا ہے جیسے کہاں کی وسعت ایک دم سمٹ گئی ہے لیکن نزول مکمل نہیں ہوتا۔ میرؔ کی بے خودی ختم نہیں ہوتی۔ میرؔ کا انتظار، انتظار ہی رہتا ہے۔ وہ کہاں کی وسعت سے واپس نہیں آتا، اس انتظار ہے اپنا۔ اپنا کے لفظ میں خاتمے کے الف کی آواز دیکھیے کتنی پھیلی ہوئی ہے، اب پورا شعر دیکھیے الفاظ سادہ ہیں، ایک لفظ بھی مشکل نہیں۔ بول چال کا انداز ہے جیسے کوئی دھیمے دھیمے باتیں کر رہا ہو۔ باتوں میں خودنمائی نہیں، کسی بھی چیز کا مظاہرہ نہیں۔ بولنے والا خود سے بول رہا ہے۔ دوسرے سھبی سن رہے ہیں، یہ دوسری بات ہے۔ بلکہ شاید دوسروں میں اور اس میں کوئی فرق نہیں رہا، دوسرے اور میرؔ ایک ہو گئے ہیں اور مکالمہ خود کلامی ہو گیا ہے۔ اب اس کے مقابلے پر غالبؔ کو دیکھیے،
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
شعر کا آغاز ہی ہم سے ہوا ہے۔ غالبؔ اس ہم کو کبھی نہیں بھولتا۔ وہ محبوب کو دیکھتا بھی ہے تو یہ جتائے بغیر نہیں رہ سکتا کہ،
تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں
اس ہم کے پیچھے ’’میں‘‘ چھپا ہوا ہے۔ بہت بڑا میں غالبؔ کبھی ’’میں‘‘ اور ’’ہم‘‘ سے نہیں نکل سکتا، اس شعر میں صرف ایک مصرعے میں ’’ہم‘‘ دوبارہ استعمال ہوا ہے۔ میرؔ نے ’’ہم‘‘ لکھا ہے۔ مگر مصرعے کے آخر میں ڈالا ہے، ’’اپنا‘‘ بھی آخر میں آیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بے خودی میں یہ دونوں غائب تھے۔ نزول کی کیفیت شروع ہونے پر موجود ہو گئے ہیں مگر اہمیت اختیار نہیں کرنے پائے۔ غالبؔ کے یہاں اصل اہمیت انہیں کی ہے، ہم اور ہماری۔ میں اپنے دوست ہمایوں مرزا کو ’’ہم ہم مرزا‘‘ کہتا ہوں مگر اصل’’ہم ہم مرزا‘‘ غالبؔ ہی ہے۔ اب پورے شعر کا لہجہ دیکھیے۔ شعر میں میرؔ جیسی گمبھیرتا سوچ اور دردمندی نہیں۔ پھڑکتا ہوا طرار لہجہ البتہ ہے۔ شعر اس سے زیادہ شوخ اور رنگیں ہو گیا ہے۔ مگر میرؔ جیسی معصومیت اور سچائی غالب ہو گئی۔ اب یہ میرؔ جیسی خود کلامی نہیں۔ دو ایسے آدمیوں کے درمیان مکالمہ ہے جس میں بولنے والا سننے والے پر اثر انداز ہونا چاہتا ہے۔ شاید اسے کچھ مرعوب بھی کرنا چاہتا ہے۔ لہجے میں ایک نمائش اور اکڑ سی موجود ہے جو میرؔ کے یہاں بالکل ناپید ہے۔ غالبؔ اور میرؔ کے بہترین اشعار میں یہی فرق پایا جاتا ہے۔ اب دونوں کا ایک ایک شعر اور دیکھیے۔ میر کہتے ہیں،
وجہ بیگانگی نہیں معلوم
تم جہاں کے ہو واں کے ہم بھی ہیں
اس شعر میں بحیثیت مجموعی وہ ساری خوبیاں موجود ہیں جو مذکورہ بالا شعر میں تھیں۔ یعنی سادگی، دردمندی، سوچتا ہوا انداز، معصومیت، سچائی اور ایک پرعظمت گمبھیرتا۔ پہلا مصرع دیکھیے، وجہ بیگانگی نہیں معلوم۔ مصرعے کا مخاطب کوئی نہیں ہے۔ یہ بیگانگی محبوب کی بھی ہے، دوستوں کی بھی اور عام آدمیوں کی بھی۔ شاید پوری دنیا یا کائنات کی میرؔ کو اس بیگانگی پر اچنبھا ہے، ایک معصوم سا استعجاب ہے۔ شاید اس پر درد بھی ہے۔ درد تو ہے مگر احتجاج نہیں۔ کچھ صبر و رضا کی سی کیفیت ہے، وجہ بیگانگی نہیں معلوم۔ میر اس بیگانگی کو یگانگت بنانا چاہتے ہیں۔ مگر یگانگت کس بنا پر پیدا ہو۔ میرؔ یگانگت کے طالب اس لیے نہیں ہیں کہ وہ میرؔ ہیں۔ یعنی ان میں کوئی ذاتی خوبی ہے۔ ذاتی خوبی کی بنا پر یگانگت، محبت یا تعلق میرؔ کا مسئلہ نہیں ہے، میرؔ کا مسئلہ تو یہ ہے کہ وہ یگانگت پیدا ہو جو ذاتی خوبی کے بغیر انسان اور انسان کے درمیان ہونی چاہیے۔ کیوں ہونی چاہیے، اس لیے کہ دونوں کی اصل ایک ہے، دونوں آدمی ہیں اور ایک ہی دنیا یا کائنات کے باشندے ہیں یا دونوں عالم ارواح سے آئے ہیں یا دونوں خلوقی راز نہاں ہیں۔ میرؔ کا کہنا ہے کہ دونوں کی اصل ایک ہے تو پھر بیگانگی کیوں ہے۔ بس میرؔ کا استفسار صرف اتنا ہے، استفسار تو ہے، مگر شاید جواب کے لیے نہیں۔ بس سوال ہی سب کچھ ہے، بحث مباحثہ، مناظرہ، قائل معقول کرنے کی خواہش کچھ نہیں پائی جاتی۔ بس مطلق استفسار ہے اور یہ استفسار بھی مکالمے سے خودکلامی بن گیا ہے۔ اب اس کے مقابلے پر غالب کا شعر دیکھیے،
ہم ہیں مشتاق اور وہ بے زار
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے
دیکھیے آغاز شعر پھر ’’ہم‘‘ سے ہے، ’’ہم‘‘ تو غالبؔ کی بسم اللہ ہے۔ شعر کا لہجہ حسب سابق طرار اور شوخ ہے، انداز مکالمے کاہے اور مکالمہ بھی گٹھائی کے لیے۔ غالبؔ اپنی گٹھائی کرنا خوب جانتا ہے۔ وہ تو ایک بات میں یہ جتا دیتا ہے کہ دیکھنا، غالبؔ بات کر رہا ہے اور غالبؔ کا انداز بیاں کچھ اور ہے اور غالبؔ غزل سرا نہ ہوا تو بڑی محرومی ہے۔ غالبؔ کے شعر میں بیگانگی پر استعجاب ہے۔ مگر میرؔ کے مقابلہ پر کچھ نمائشی سا۔ دیسی نمائش جو دو غیر مساوی آدمیوں کے درمیان مکالمے سے بہتر آدمی میں پیدا ہو جاتی ہے اور غالبؔ، میرؔ کی طرح بیگانگی پر صبر نہیں کرتا۔ احتجاج بھی ہے نمایاں ہے۔ احتجاج بھی ہے اور ہلکا سا تمسخر کا انداز بھی۔ اس کے علاوہ غالبؔ یہ نہیں کہتا کہ بیگانگی کی بجائے یگانگت اس لیے پیدا ہونی چاہیے کہ دونوں کی اصل ایک ہے یا دونوں کا وطن ایک ہے۔ یا دونوں کی بنیادی انسانیت ایک ہے۔ وہ تو اپنی مشتاقی کا دعویٰ رکھتا ہے۔ یہ کہتا ہے کہ میں مشتاق ہوں اور وہ بے زار ہیں۔ گویا غالبؔ جیسے آدمی کی مشتاقی تو بہت بڑی چیز ہے اور محبوب یا دوسرے انسان ایسے ویسے ہی ہیں۔ غالبؔ تو مشتاقی کا آسان دہر رہا ہے اور احسان فراموشی پر حیران ہے۔ اس کا خیال ہے کہ غالبؔ جیسے عظیم آدمی کی مشتاقی کے بعد تو محبوب کو قدموں پر جھک جانا چاہیے۔ یہ کیا تماشا ہے کہ محبوب کو الٹی بے زاری ہے۔ محبوب کو یا عام انسانوں کو یا پوری دنیا کو میرؔ کے استفسار و استعجاب اور غالبؔ کے استفسار و استعجاب میں یہ بنیادی فرق ہے۔ غالبؔ اور میرؔ کے بہترین اشعار میں یہ فرق ہر جگہ موجود رہتا ہے۔
میرؔ کے بارے میں استاد یگانہؔ کا کہنا ہے کہ میرؔ کے آگے زور چل نہ سکا۔ تھے بڑے مرزا یگانہ دبنگ لیکن غالبؔ کے بارے میں ان کا انداز مختلف ہے، ان کا دعویٰ ہے کہ غالبؔ کو بھی چچا بنا کر چھوڑا۔ جہاں صلح پر آمادہ ہوتے ہیں، وہاں بھی یہ انداز ہے،
صلح کر لو یگانہؔ غالبؔ سے
تم بھی استاد وہ بھی اک استاد
غالبؔ کی ’’اک استادی‘‘ میں کلام نہیں، غالبؔ بھی میرؔ کی برتری تسلیم کرتے ہیں تو اسی انداز میں۔
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا
’’کوئی‘‘ کو دیکھیے اور ’’تھا‘‘ کو دیکھیے۔ ’’تھا‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ کسی زمانے میں میرؔ تھا۔ اب میں ریختہ کا استاد ہوں اور ’’کوئی‘‘ میں ذرا ٹالنے کا سا انداز ہے۔ مگر یگانہؔ کہتے ہیں کہ غالبؔ پرلے درجے کا چور اور بے سُرا ہے۔ چوری کا جواب غالبؔ یہ کہہ کر دے چکے ہیں کہ چور غالبؔ نہیں، دوسرے ہیں جو اس کا مال اس سے پہلے نہاں خانۂ ازل سے لے اُڑے، بے سُرے پن کا جواب البتہ نہیں ملا ہے۔ غالبؔ کے اسلوب میں بے سُرے پن کی بے شمار مثالیں ہیں لیکن یہ بے سُرا پن اس کی شخصیت کا ہے۔ موسیقی کیا ہے، روح کی سپردگی ہے۔ موسیقار کا کمال یہ ہے کہ موسیقار خود غائب ہو جائے اور سرسوتی بولنے لگے۔ موسیقار کو سب سے پہلے اپنی انا کو بھینٹ چڑھانا پڑتا ہے۔ غالبؔ یہی نہیں کر سکتا، وہ دیوی کے ساتھ ساتھ خود بھی بولنے لگتا ہے۔ اس کے خود بولنے سے، انا کے بیچ میں گھس جانے سے موسیقی میں بدآہنگی اور بے سُرا پن پیدا ہو جاتا ہے۔ غالبؔ ایک اس سے بھی بری حرکت کرتا ہے۔ باورچی جب کھانا پکاتا ہے تو سارے مصالحوں کو ایک جان کر دیتا ہے یہاں تک کہ وہ صرف ایک ’’ذائقہ‘‘ بن جاتے ہیں۔ برے باورچی کے کھانے میں ہلدی کی بو الگ آتی ہے، پیاز کی جھل الگ۔ تیج پات الگ دکھائی دیتا ہے اور دارچینی الگ۔ اس سے بدمزہ اور بد رنگ قورمہ پکتا ہے۔ بعض باورچی چالاک ہوتے ہیں، کھانے کی بدذائقی چھپانے کے لیے نمک مرچ زیادہ جھونک دیتے ہیں۔ غالبؔ یہ سب کرتا ہے۔ میں ان سب کی مثالیں نہیں پیش کروں گا، لیکن میرؔ اور غالبؔ کے دو اشعار کا تقابل دیکھ لیجیے۔ میرؔ کہتے ہیں،
مرگِ مجنوں پہ عقل گم ہے میرؔ
کیا دوانے نے موت پائی ہے
پہلے مصرعے کا دوسرا ٹکڑا دیکھیے۔ عقل گم ہے میرؔ۔ بہت شدت سے کہا ہے۔ جذبہ صادق ہے۔ اس لیے لفظوں میں بھی سچائی کی روح بھری ہوئی ہے۔ اس سے زیادہ کہنا امکان میں نہیں۔ کہا جائے گا تو تصنع اور بناوٹ ہو جائے گا۔ بہت سے لوگ جذبے کے اظہار میں دور کی کوڑی لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسے غالبؔ گریہ اور رشک کے مضامین باندھتا ہے، غالبؔ نے کہا ہے۔ ہم بھی اک اپنی ہوا باندھتے ہیں۔ ایسے اشعار میں جذبہ غائب ہو جاتا ہے۔ صرف ہوا بندی باقی رہ جاتی ہے۔ ایسے اشعار میں رشک ہے نہ گریہ۔ تجربے کا پتہ نہیں، احساس مفقود ہے۔ صرف لفظ ہیں، وہ بھی نمائشی۔ مگر لوگوں میں سچی شاعری کا احساس اس طرح غائب ہو گیا ہے کہ رشید احمد صدیقی جیسے لوگ بھی انہیں سراہتے ہیں۔ عقل گم ہے میرؔ اس قسم کی ہوا بندی نہیں، عقل واقعی گم ہو گئی ہے اور اس کا گم ہونا شدت سے محسوس کیا گیا ہے۔ احساس کی کیمیا سے لفظ سونا بن گئے ہیں۔ کیا دوانے نے موت پائی ہے۔ کیا لفظ دیکھیے، کچھ کہے بغیر کتنا کچھ کہہ دیا ہے۔ اس ’’کیا‘‘ کی وسعت میں دنیا سمٹی ہوئی ہے۔ کیسی حیرت ہے، کیسی سچی تعریف ہے، عظمت کا کیسا زندہ احساس ہے۔ کیا دوانے نے موت پائی ہے۔ ’’پائی ہے‘‘ کمال کا ٹکڑا ہے۔ ’’کیا دوانے کو موت آئی ہے‘‘ کہتے تو بات نہ بن پاتی ’’پائی‘‘ میں کمال دکھا دیا۔ یہ پانا کیا ہے، گویا ساری زندگی اسی کے لیے کوشش کی تھی۔ اسی کی دعائیں مانگی تھیں۔ اسی کے لیے اپنا سب کچھ تباہ کیا تھا۔ اور اس کو وہ موت مل گئی۔ میرؔ کو اس موت پر حیرت بھی ہے اور رشک بھی۔ شاید یہ پہلو بھی نکلتا ہے کہ کاوش خود کو بھی ایسی موت ملتی۔ الفاظ ان سب خیالوں کی طرف لے جاتے ہیں۔ مگر خود واضح طور پر کچھ نہیں کہتے۔ وہ تو صرف اشارے ہیں، اشاروں میں جتنے معنی چاہیے، بھر لیجیے، اب اس کے بعد غالبؔ کا شعر دیکھیے،
ہے ہر مکاں کو اپنے مکیں سے شرف اسدؔ
مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہے
پہلے مصرعے میں کلیہ بنایا ہے، اس نے شعر کا ستیاناس مار دیا۔ یہ کلیہ کس چیز سے پیدا ہوتا ہے۔ احساس کچا رہ گیا ہے۔ اس لیے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے، دوسرا مصرع اچھا ہے۔ اداس کا لفظ سچا اور حساسیت سے بھرا ہوا ہے مگر مجنوں کے مرنے پر جنگل اداس ہے۔ شاید خود غالبؔ نہیں ہے، غالبؔ تو صرف جنگل کی اداسی کو دیکھ رہا ہے اور بیان کر رہا ہے۔ وہ متاثر ضرور ہے مگر جیسے ہم کسی غیر کی موت پر متاثر ہیں۔ میرؔ جس طرح متاثر ہوا، غالبؔ اس کے قریب نہیں پہنچتا۔ اس نے تو مجنوں کی موت دیکھی ہے۔ اور اس کی وجہ سے جنگل کی اداسی۔ اور اس مشاہدے سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ہر مکاں کا شرف اس کے مکیں سے ہوتا ہے۔ میرؔ کے لہجے میں مرگِ مجنوں پر جو رشک کا پہلو نکلتا تھا اور ایسی موت کی تمنا سی محسوس ہوتی تھی، وہ باریک سر غالبؔ کے شعر میں نہیں آنے پائے۔ یہ مجنوں کی موت پر ایک حساس آدمی کا بیان ضرور ہے۔ مگر وہ آدمی مجنوں کی موت کو اپنے لیے نمونہ نہیں بنانا چاہتا، وہ نہ تو صرف امرِ واقعہ بیان کر رہا ہے اور اگر جنگل کی اداسی خود اس کی اداسی بھی ہے تو ایسی نہیں جیسی ’’عقل گم ہے میر‘‘ میں پائی جاتی ہے۔ میرؔ تجربے میں ڈوب گیا ہے۔ غالبؔ ذرا الگ تھلگ کھڑا ہے۔ دوسرے مصرعے سے پہلے مصرعے کی بے آہنگی ظاہر ہے دونوں مصرعوں میں دو الگ الگ سُر لگے ہیں۔ ان کے تال میل سے نغمہ نہیں بننے پایا۔ دو الگ الگ سُر البتہ سنائی دے رہے ہیں۔ میرے ایک دوست کہتے ہیں کہ پورا اچھا شعر بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ کسی کو ایک مصرع ملتا ہے، کسی کو آدھا مصرع، کسی کو صرف ایک ترکیب، کسی کو صرف ایک لفظ۔ میرؔ کا پورا شعر اچھا ہے۔ غالبؔ کا صرف ایک لفظ ’’اداس‘‘ یا زیادہ سے زیادہ صرف دوسرا مصرع۔ یہ دونوں کی شخصیت اور شاعری دونوں کا فرق ہے۔
مذکورہ بالا شعر میں پہلے مصرعے کا آہنگ دوسرے مصرعے سے الگ ہے۔ دونوں مصرعوں میں دو الگ الگ سُر بول رہے ہیں، جو مل کر نغمہ بن جاتے ہیں۔ ایسی بے شمار مثالیں ہیں۔ مثلاً،
نہ ہو بہ ہرزہ بیاباں، نورد وہم وجود
ہنوز تیرے تصور میں ہے نشیب و فراز
شعر نسبتاً اچھا ہے۔ ورنہ برے اشعار میں تو ناقابل برداشت ہو جاتا ہے۔ برے اشعار اس لیے پیش نہیں کرتا کہ لوگ کہیں گے کہ یہ نمائندہ اشعار نہیں ہیں۔ نمائندہ اشعار برے اشعار نہیں ہو سکتے اور مثال برائی کی پیش کرتی ہے۔ پھر کیا کروں۔ یہ شعر اچھا ہے مگر لہجے کی شتر گربگی موجود ہے۔ دوسرا مصرع صاف اور سادہ ہے۔ ہنوز تیرے تصور میں ہے۔ نشیب و فراز لہجہ ذرا اتنا ہوا ضرور ہے۔ مگر برا نہیں لگتا، ذرا پڑھے لکھوں کی سی زبان ہے جس میں تھوڑا سا تصنع موجود ہے۔ مگر پھر بھی غنیمت ہے۔ اس کے مقابلے پر پہلا مصرع دیکھیے،
نہ ہو بہ ہرزہ بیاباں نورد وہم وجود
یہ سُر ہی کوئی اور ہے۔ دونوں مصرعے معنوی اعتبار سے مربوط ہیں مگر لفظی طور پر دو لخت ہیں۔ ایک روڑا کہیں اور کا ہے، دوسرا کہیں اور کا۔ غالبؔ کے اشعار میں ایسے اَن ملے، بے جوڑ کنبے بہت ملتے ہیں۔ اچھے اشعار میں گوارا ہو جاتے ہیں، برے اشعار میں ناقابل برداشت ہوتے ہیں۔ مثالیں خود تلاش کر لیجیے۔ بعض اشعار کے دو مصرعوں کا آہنگ ہی مختلف نہیں ہوتا۔ خود ایک مصرعے میں بھی آدھا مصرع ایک سُر میں ہوتا ہے، باقی آدھا دوسرے سُر میں۔ اس کی مثالیں اتنی کثرت سے ملتی ہیں کہ غالبؔ نہ ہوتا تو کوئی اس کے دیوان کو چھوتا بھی نہیں۔ پھر ایسا بھی ہے کہ پورا مصرع اچھا خاصہ چلا جا رہا ہے، اسی میں ایک لفظ ایسا رکھا ہوا ہے کہ مزہ کرکرا ہو گیا ہے۔ یہ بے سُرا پن یا بدآہنگی شاعری کے ابتدائی دور میں بہت نمایاں تھی۔ آہستہ آہستہ کم ہوتی گئی مگر بعض اچھے اشعار میں بھی آخر تک باقی رہی۔ مثلاً ایک اچھا مصرع تھا۔ سو رہتا ہے بانداز چکیدن سر نگوں وہ بھی۔ یہ ’’چکیدن‘‘ خوب آیا ہے۔ غالبؔ ایسے چکیدن پتیدن دمیدن کا بادشاہ ہے۔ یہ الفاظ اشعار میں دوڑوں کی طرح محسوس ہوتے ہیں۔ یا ایسے چاولوں کی طرح جن میں دو تین کنیں رہ گئی ہیں۔ مگر برا باورچی چالاک اتنا ہے کہ اشعار میں فارسی کی خوش آہنگ ترکیبیں کثرت سے بھرتا چلا جاتا ہے۔ یہ ترکیبیں تیز مرچوں کی طرح کھانے کا پورا ذائقہ محسوس نہیں کرنے دیتیں۔ زبان اور دماغ دونوں ترکیبوں میں الجھ جاتے ہیں اور غالبؔ کھانے کی بدذائقی چھپا جاتا ہے، فلم میں دیکھتا ہوں جو میوزک ڈائریکٹر سیدھا، پُرتاثیر نغمہ نہیں بنا سکتا۔ وہ آرکسٹرا کو پیچیدہ کر دیتا ہے۔ بعض اوقات بری آواز کو موسیقی کا شور چھپا لیتا ہے۔ بعض اوقات موسیقی کے شور کو بری آواز۔ غالبؔ اس چالاکی سے واقف ہے۔ اوّل تو سارے ترکیب پسند شعرا اس ترکیب سے کام لیتے ہیں کہ پورے تجربے کو محسوس کرنے کی بجائے ٹکڑوں میں سوچتے ہیں۔ پہلے سوچ کر ترکیب لکھ لی، پھر اسے شعر میں گانٹھ دیا۔ ذہن ترکیب کی داد فریاد میں رہ جاتا ہے اور وہ پورا شعر چلا دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ مگر غالبؔ کے یہاں یہ عم اس کی فطرت ثانیہ بن گیا ہے۔ ایک ایک شعر میں تین تین، چار چار ترکیبیں استعمال کرنے سے بھی نہیں چوکتا، اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں زیادہ تر اچھی ترکیبیں ہوتی ہیں۔ ان میں معنویت بھی ہوتی ہے اور خوش آہنگی بھی۔ مگر وہ پورے شعر میں ایسی ہوتی ہے جیسے موسم کے چھتے میں شہد۔ شہد ترکیبوں میں ہوتا ہے۔ باقی الفاظ موم ہوتے ہیں۔ یہ ترکیبیں نکال لیجیے، صرف موم باقی رہ جائے گا۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ غالبؔ کی فارسی دانی اس کا کمال ہے، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وبال ہے۔ یہ کمال یا وبال جو کچھ ہے، غالبؔ کی فارسی دانی کا نہیں۔ غالبؔ کی ذہنیت کا ہے۔ یہ ذہنیت احساس برتری کی ذہنیت ہے بلکہ احساس کمتری کی۔ غالبؔ اپنے زعم میں دوسروں سے الگ تھلگ رہنا چاہتا ہے مگر الگ تھلگ رہنا ایک دفاعی صورت بھی ہے، اس کا فارسی دانی سے کوئی تعلق نہیں۔ اردو شاعری کی روایت کو ٹھیٹ اردو بول چال کی روایت تھی۔ آپ کسی سے پوچھیے غالبؔ نے اس روایت کو کیوں توڑا۔ جواب ملے گا، اس کا مزاج فارسی میں رچا بسا ہوا تھا، لیکن اردو مکتوب نویسی کی روایت فارسی آمیز اردو کی روایت تھی۔ غالبؔ نے اسے کیوں توڑا۔ جہاں اردو کی ضرورت تھی وہاں فارسی لگائی، جہاں فارسی کا چرچا تھا، وہاں اردو داں ہو گئے۔ یہاں فارسی کا مزاج کہاں چلا جاتا ہے۔ یہ سب غالبؔ کے پھڈے ہیں۔ اردو کے نقاد بے چارے دھوکا کھاتے ہیں اور فارسی مفت بدنام ہوتی ہے۔ رشید احمد صدیقی کا بیان ہے کہ غالبؔ جب دہلی آیا تو اکبر آباد کا بانگڑو تھا، غالبؔ کو کیسی توہین محسوس ہوتی ہوگی۔ یہ لوگ کیسی سحل اردو بولتے تھے اور کیسے صاف سیدھے، مگر شستہ و شائستہ لب و لہجے میں بات کرتے تھے۔ غالبؔ یہ نہیں کر سکتا تھا۔ گاؤں سے شہر آئے ہوئے دیہاتی کی طرح اسے معلوم تھا کہ یہ لوگ جو کچھ کرتے ہیں اور جیسی آسانی سے کرتے ہیں، وہ اس کے بس کا روگ نہیں۔ کوئی اور ہوتا تو پچک جاتا اور اکبر آباد واپس چلا جاتا مگر غالبؔ، غالب تھا، وہ احساس کمتری میں مبتلا ہوا تو فارسی کی تلوار نکال لایا۔ اور الٹی سیدھی گھمانی شروع کر دی۔ دعویٰ یہ تھا کہ بیدلؔ کی تلوار ہے۔ کہاں بیدلؔ اور کہاں غالبؔ کی ابتدائی شاعری۔ غالبؔ کے پاس تلوار نہیں صرف نیام تھا۔ غالبؔ یہ خالی نیام باندھ کر شرفائے دہلی میں گھس آیا۔ اور بار بار نیام پر ہاتھ رکھتا ہے کہ نکالوں تلوار۔ دلّی کے لوگ کیا دھوکا کھاتے، مسکراتے تھے مگر غالبؔ بچہ تھا۔ چودہ چودہ برس کے بچوں کو دیکھتا ہوں کہ چار چار فارسی ترکیبوں کے اشعار سناتے ہیں اور ایسی قابلیت بگھارتے ہیں کہ لطف آ جاتا ہے۔ ایسے بچوں کو دیکھ کر غالبؔ کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ غالبؔ سیدھا سچا نہیں بول سکا تو جناتی زبان بولنے لگا بلکہ جنات بھی کاہے کو بولتے ہوں گے۔ وہ احساس کمتری میں مبتلا تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔
مگر غالبؔ کا احساس کمتری بیشتر اظہار برتری کی شکل اختیار کرتا ہے، وہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ وبائے عام میں مرنا بھی پسند نہیں کرتا مگر در اصل وہ آمیوں سے ڈرتا ہے، ایک سطح پر یہ دلّی کے عام لوگ ہیں، دوسری سطح پر شعرائے دلّی، تیسری سطح پر اہلِ قلعہ جو ذوقؔ کو مانتے ہیں اور چوتھی سطح پر کل نوع انسانی۔ غالبؔ کو شکایت ہے کہ آدمی انسان نہیں بنتا مگر در اصل وہ یہ کہتا ہے کہ لوگ غالبؔ جیسے نہیں بنتے۔ غالبؔ جیسا کون ہے؟ استاد ذوقؔ سے ایک مرتبہ بادشاہ نے تاسف سے کہہ دیا کہ استاد جب ہم نہیں رہیں گے تو کیا تم دوسروں کے قصیدے بھی اسی طرح کہو گے۔ ذوقؔ جب مرنے لگے تو آب دیدہ ہو گئے اور خدا کا شکر ادا کیا کہ بادشاہ سے پہلے مر رہا ہوں اور زبان خدا نے کسی اور کی مدح سے آلودہ نہیں کی۔ ذوقؔ بے چارے کے پاس دھرا ہی کیا تھا ایک غیرت اور اخلاص ہی تو تھا۔ غالبؔ ایسے افراسیابی اور ترکمانی تھے کہ جو قصیدے بادشاہ کے لیے لکھے تھے، انہیں نام بدل بدل کر کمشنروں کی خدمت میں پیش کیا کرتے تھے۔ رام پور سے مفتی آزردہؔ کی بیوہ کو وظیفہ ملتا تھا، غالبؔ نے نواب کو خط لکھا کہ یہ میرا حق ہے، عارفؔ کو بیٹا بنایا تھا، انہوں نے دو بیٹے چھوڑے تھے۔ کچھ جائیداد وغیرہ کا معاملہ درپیش ہوا تو انجم الدولہ دبیر الملک صاف مکر گئے۔ یہ ہے وہ انسان جو دوسرے نہیں ہوتے اور غالبؔ ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ شاعر کی زندگی نہیں دیکھی جاتی، شاعری دیکھی جاتی ہے۔ کچھ لوگ زندگی میں بڑے اور شاعری میں چھوٹے ہوتے ہیں، جیسے حسرتؔ۔ کچھ لوگ شاعری میں بڑے اور زندگی میں چھوٹے ہوتے ہیں جیسے غالبؔ۔ یہ فقرہ اتنی بار سنا ہے کہ جی متلانے لگا ہے۔ اس کو لوگ کچھ جنتر منتر کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ویسے اس فقرے کے پیچھے جو حقیقت ہے مجھے اس سے انکار نہیں۔ خود قرآن حکیم نے شاعروں پر الزام لگایا ہے یا تعریف بیان کی ہے کہ جو کچھ کہتے ہیں، وہ کرتے نہیں، یہ الزام یا تعریف جو کچھ بھی ہو، اسے غالبؔ کے معترضوں کا منہ کیلنے کے لیے استعمال کرنے کے بجائے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اصل میں شاعری دو چیزوں کی پیکار کا نام ہے، ذات اور شخصیت۔ ہم شاعری میں دو باتوں سے دوچار ہوتے ہیں،
(۱) شاعر جو ہے۔
(۲) اور شاعر جیساکہ وہ سمجھتا کہ وہ ہے۔
ہر آدمی میں یہ کش مکش ہوتی ہے۔ مگر بڑے لوگ وہ ہوتے ہیں جو اس کش مکش کو شعلہ بنا دیتے ہیں۔ ان بڑوں میں سے جو لوگ اس کش مکش کو عمل میں ڈھالتے ہیں۔ وہ سیاست داں، حکمراں وغیرہ بنتے ہیں۔ جو اسے دوسرے ذرائع اظہار میں استعمال کرتے ہیں، وہ شاعر، موسیقار، مصور وغیرہ اس طرح ان کی کش مکش اظہار تو پاتی ہے مگر عمل کے بجائے فن میں۔ ان معنوں میں فنکار عام طور پر غیر عملی زندگی بسر کرتے ہیں اور اقبال کا یہ کہنا درست ہوتا ہے کہ خود قوال کو وجد نہیں آنا چاہیے مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ شاعر کے جوہر ذات اور شخصیت کا اس کی شاعری سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ تعلق نہ ہو تو شاعری پیدا نہیں ہو سکتی۔ اب دراصل ہمارا اعتراض غالبؔ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو جیسا سمجھتا ہے، حقیقت میں ویسا نہیں ہے، اس کی ذات کچھ اور ہے، شخصیت کچھ اور۔ اور وہ اپنی شاعری کے غالب حصے میں شخصیت سے ذات کی طرف بڑھنے یا شخصیت اور ذات کو ٹکرانے یا شخصیت کو ذات پر قربان کرنے یا شخصیت اور ذات میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے بجائے شخصیت کا ڈھنڈورا پیٹنے میں لگا رہتا ہے۔ وہ صرف یہ دکھاتا ہے کہ وہ خود کو کیا سمجھتا ہے، وہ ہمیں یہ نہیں دیکھنے دیتا کہ وہ خود کیا ہے۔ ہمیں بھی نہیں دیکھنے دیتا اور خود بھی نہیں دیکھتا۔ یاد رہے کہ میں غالبؔ کے غالب رجحان کا ذکر کر رہا ہوں۔ غالبؔ کی شاعری میں دوسرے رجحانات بھی موجود ہیں جن کے بغیر وہ اتنا بڑا شاعر بن ہی نہیں سکتا تھا۔ لیکن ان کا ذکر بعد میں آئے گا، اب اس مسئلے کا اسلوب سے کیا تعلق ہے؟ تعلق یہ ہے کہ غالبؔ جب اپنے بڑک پن کا اظہار کرتا ہے تو کچھ کھوکھلا سا لگنے لگتا ہے جیسے میرے آگے والی غزل میں ہے۔ جو اشعار یقیناً بہتر ہیں، ان میں یہ کھوکھلا پن تو نہیں، مگر ایک جھوٹی اکڑ، دکھاوا اور مصنوعی انداز گفتگو ضرور پایا جاتا ہے۔ مثلاً ایک مشہور شعر دیکھیے،
غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس
برق سے کرتے ہیں روشن شمع ماتم خانہ ہم
پورا شعر مصنوعی ہے۔ حساس پڑھنے والا جانتا ہے کہ یہ اکڑ دکھاوے کی ہے، اس میں مبالغے کی مقدار ضرورت سے زیادہ پائی جاتی ہے۔ فارسیت زدگی اس دکھاوے میں مدد دے رہی ہے۔ یہی حال اس شعر کا ہے جس میں غالبؔ نے در کعبہ وا نہ ہونے پر اُلٹے پھر آنے کا دعویٰ کیا ہے۔ دونوں میں تصنع اور ساختہ بے ساختگی کی سی کیفیت ہے۔ غالبؔ اس کو اتنی بار دُہراتا ہے کہ ہم اس کی زبان سے ایسی باتیں سننے کے عادی ہو جاتے ہیں اور غور کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسے مضامین کو جب ایک ایسا آدمی جس کی زندگی سچ مچ ایسی ہی ہو، ادا کرتا ہے تو اس کا انداز ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ جیسے میرؔ ذرا میرؔ کا انداز دیکھیے،
آگے کسو کے کیا کریں دست طمع دراز
وہ ہاتھ سو گیا ہے سرہانے دھرے دھرے
*
نہ جانے کون ہوتے ہیں جنہیں ہے بندگی خواہش
ہمیں تو شرم دامن گیر ہوتی ہے خدا ہوتے
غالبؔ کے اسلوبی فارسیت کے بارے میں کہہ چکا ہوں کہ احساس کمتری کی پیداوار ہے۔ یہ احساس کمتری بیشتر احساس برتری کی صورت میں نمایاں ہوتا ہے۔ غالبؔ دکھانا چاہتا ہے کہ وہ دوسروں سے مختلف ہے۔ اسے اس اختلاف پر الجھن نہیں ہوتی۔ افسوس نہیں ہوتا بلکہ فخر۔ وہ اپنے اور دوسروں کے درمیان خلیج کو زیادہ سے زیادہ بڑھانا چاہتا ہے۔ اس کے برعکس میرؔ لوگوں سے مختلف تھے اور عام لوگوں سے کٹ کر بالکل الگ ہو گئے تھے۔ مگر خلیج کو کم کرنا چاہتے تھے۔ عام لوگوں کی زندگیوں میں شریک ہونا چاہتے تھے، اس خواہش سے میرؔ کا اسلوب پیدا ہوا ہے۔ میرؔ کا اسلوب انہیں لوگوں سے جوڑتا ہے، غالب کا اسلوب توڑتا ہے۔ میرؔ اپنے اسلوب کے ذریعے دوسروں کے قریب آ جاتا ہے، غالبؔ اپنے اسلوب کے ذریعے دوسروں کو پیچھے دھکیل دیتا ہے۔ میرؔ کا اسلوب چمکار ہے، غالبؔ کا ڈانٹ پھٹکار ہے۔ میرؔ کا اسلوب بتاتا ہے کہ وہ ہمارے لیے دل کھولے بیٹھے ہیں۔ غالبؔ کا اسلوب بتاتا تھا کہ غالبؔ کا یہ مدعا عنقا ہے۔ مختصر یہ کہ غالبؔ کا اسلوب وہ چابک ہے جو وہ نجم الدولہ دبیر الملک لوگوں کو دور رکھنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
لیکن ہم کہہ چکے ہیں کہ غالبؔ کا شاعر ہے۔ کیوں؟ یوں کہ رفتہ رفتہ شخصیت اصول حقیقت سے زیادہ ہم آہنگی حاصل کرتی جاتی ہے۔ اصول حقیقت سے بھی اور ذات سے بھی۔ دونوں کے درمیان شخصیت کا قلعہ ہے۔ مگر اندر باہر سے ایسی گولہ باری ہوتی ہے کہ قلعہ مسمار ہو جاتا ہے۔ غالبؔ بہت چیختا چلاتا ہے مگر فطرت کی قوتیں اپنے کام میں لگی ہیں۔ غالبؔ بڑا انسان تھا۔ وہ اسے آدمی بنانے کے در پے ہو جاتی ہیں۔ عشق سے غالبؔ نے بڑا اچھل قریب کیا تھا، وہ پندار کا صنم کدہ ویران کرنے لگتا ہے۔ دوسروں کو چابک مار کر بھگایا تھا، وہ پہلے نکتہ چیں اور پھر مشورہ دینے والے بلکہ مصلح بن جاتے ہیں۔ خدا پر بڑے اعتراض کیے تھے مگر معلوم ہو جاتا ہے کہ خدا سے لڑا نہیں جا سکتا، صرف اس کے آگے سر جھکایا جا سکتا ہے۔ یوں غالب سچ مچ آدمی بننے لگتا ہے۔ آدمی اور صوفی اس انجام تک پہنچنے کے کئی مرحلے ہیں اور ان میں کئی باتوں کی داغ بیل ابتدائی عمر ہی میں پڑ چکی تھی مگر آخر تک پہنچتے پہنچتے غالبؔ کئی لہجوں میں بولتا ہے خاتمۂ کلام اب اللہ ہی اللہ ہے۔ غالبؔ کی ان تبدیلیوں کے ساتھ اسلوب بھی بدلنے لگتا ہے۔ غالبؔ، میرؔ کی زبان بولنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ جناتوں کی نہیں، عام انسانوں کی زبان ہے، غالبؔ کا اسلوب سادگی کی طرف بڑھتا جاتا ہے اور کیسی سادگی کہ پُرکاری سے گلے مل رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کوشش کے باوجود غالبؔ عام آدمیوں سے پوری طرح ہم آہنگی نہیں حاصل کر پاتا اور اس کی زبان اور اسلوب کا میرؔ اور دوسرے سادگی پسند شعرا کی زبان اور اسلوب سے موازنہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ غالبؔ بہت بدل کر بھی لوگوں میں پوری طرح گھل مل نہیں سکا، لوگوں کے بہت قریب آ کر بھی ایسا نہیں لگتا کہ جیسے میر کی طرح وہ انہیں میں سے ہے، بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اپنے مقام برتر سے اتر کر نیچے آیا ہے اور ابھی اپنی برتری کو بھولا نہیں ہے۔ غالبؔ کے اشعار کا میرؔ سے بہت مقابلہ ہو چکا، اس کے اسلوب کو ایک بار یگانہؔ کے اسلوب کے سامنے رکھ کر دیکھ لیجیے۔ معلوم ہو جائے گا کہ غالبؔ کی زبان بہر حال اس جن کی زبان ہے جو لوگوں سے بات کرنے کے لیے اردو سیکھ گیا ہے۔ غالبؔ کی یہ کامیابی بھی عشق، تصوف اور اردو زبان کا معجزہ ہے، ورنہ غالبؔ گلشن ناآفریدہ کا عندلیب ہی رہتا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.