اپنے ایک مضمون ’’غالبؔ اور نیا آدمی‘‘ میں، میں نے لکھا تھا کہ غالبؔ ہماری تہذیبی شکست و ریخت کا نمائندہ ہے اور جب تک اس تہذیب کی ٹوٹ پھوٹ اپنی انتہا کو پہنچ کر ختم نہیں ہو جائے گی یا ہماری تاریخ کا نیا تہذیبی دور شروع نہیں ہوگا۔ بیسویں کیا ہر صدی غالبؔ کی ہوگی۔ جس طرح مغرب میں نئے انسان کی پیدائش کی علامت شیکسپیئر ہے، اسی طرح ہمارے یہاں موجودہ تہذیب کی پہلی علامت غالبؔ ہے۔ غالبؔ میں ہمارے یہاں موجودہ تہذیب کی پہلی علامت غالبؔ ہے۔ غالبؔ میں ہمارے دور کی ذہنیت بند ہے۔ اس کی روح غالبؔ کی روح ہے۔ در اصل یہ غالبؔ ہی ہے جو پھیل کر ہمارا دور بن گیا ہے۔ غالبؔ کی یہ اہمیت ایسی نہیں ہے جیسی تاریخی اہمیت کے شاعروں کی ہوتی ہے۔ غالبؔ ۱۷۹۷ء میں پیدا ہوا اور ۱۸۶۹ء میں مرا۔ مگر وہ پیدا ہونے اور مرنے والا غالبؔ، مرزا عبد اللہ بیگ کا بیٹا تھا۔ اسد اللہ خاں نہ تھا۔ عبد اللہ بیگ کا بیٹا مر گیا۔ مگر غالبؔ اپنے دیوان ہی میں نہیں، ہمارے وجود میں بھی زندہ ہے۔ ہم جو دیکھتے ہیں، اسی کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ جو سوچتے ہیں، اسی کے دماغ سے سوچتے ہیں، جو محسوس کرتے ہیں، اسی کے دل سے محسوس کرتے ہیں۔ دراصل وہ جو غالبؔ تھا، وہ ہمارا ہی خلاصا تھا۔ جس طرح نقطۂ میں خطوط، مثلثیں، مربعے اور مستطیلیں بند ہوتی ہیں۔ اسی طرح غالبؔ وہ نقطہ ہے۔ جس میں ہم بند ہیں۔ غالبؔ ہماری بسم اللہ ہے اور تمت بھی۔ اسی لیے ہمیں میں سے ایک عبد الرحمن بجنوری کو دیوان غالبؔ دید مقدس کا ہم پلہ نظر آیا ہے، کچھ لوگوں کی شہادت ہے کہ ہندوستان و پاکستان ہی نہیں، اُدھر پورا یورپ بھی ’’گالب گالب‘‘ کر رہا ہے۔ اس عالم میں ہمارے عسکری صاحب کو یہ دل لگی سوجھی کہ انہوں نے ذوقؔ کو ایک اعتبار سے غالبؔ سے بہتر شاعر کہہ دیا۔ عسکری صاحب کی یہ بات لوگوں کو ایسی لگی جیسے انہیں بدترین گالی دی گئی ہے۔ میں چونکہ اپنے ایک مضمون میں پندرہ سال پہلے اعلان کر چکا ہوں کہ میں تو لکھتا ہی گالیاں دینے اور گالیاں کھانے کے لیے ہوں، اس لیے عسکری صاحب کی ہم نوائی میں ذوقؔ کی حمایت کروں یا نہ کروں، غالبؔ کی مخالفت ضرور کرنا چاہتا ہوں یعنی خود اپنے زمانے کی بلکہ اپنی۔
لیکن اس سے پہلے آیئے ذرا اپنے زمانے یا خود اپنے اندر جھانک کر دیکھ لیں۔ کہ ہم کیا ہیں۔ ہماری قدیم تہذیب میں معاشرے ایک فطری چیز تھا۔ جیسے مچھلی کے لیے سمندر ہوتا ہے، اس وقت افراد تو تھے مگر فرد پرستی پیدا نہیں ہوئی تھی، یہ ایک جما جمایا معاشرہ تھا۔ جس میں ہر چیز کی حیثیت اور جگہ متعین تھی، کوئی چیز یا انسان نہ اس حیثیت اور جگہ سے آگے بڑھ سکتا تھا، نہ اس کی اپنی حیثیت اور جگہ چھینی جا سکتی تھی۔ باپ باپ ہے، بیٹا بیٹا ہے، بھائی بھائی ہے، شوہر مجازی خدا ہے، بیوی گھر کی مالکہ ہے، استاد باپ کا قائم مقام ہے۔ ہمسایہ ماں جایا ہے، دوست منہ بولے بھائی ہیں۔ خیرات کرو تو پہلا حق ذوی القربیٰ کا ہے، دوسرا یتیموں کا، تیسرا مسکینوں کا، چوتھا مسافروں کا۔ محبت کرو تو پہلا حق خدا کا ہے، دوسرا نفس کا، تیسرا بندگان خدا کا۔ سوچنا بولنا اچھا ہے مگر فتنہ انگیز سچ سے مصلحت آمیز جھوٹ بہتر ہے۔ قتل برا ہے مگر فتنہ قتل سے بدتر ہے۔ غرض یہ تہذیب ایک نظام مراتب پر قائم تھی، اس میں جو چیز جہاں تھی، اس کی جگہ نہ کوئی غصب کر سکتا تھا، نہ وہ کسی کی جگہ غصب کر سکتی تھی۔ اس سوسائٹی میں شاعری کا بھی ایک مقام تھا۔ وہ نہ پیغمبری تھی، نہ بازی گری، نہ سب سے اہم کام تھی، نہ سب سے بے کار۔ اس کا مقام درمیان میں تھا۔ وہ پیغمبری کا ایک جزو تھی اور شعرا تلمیذ الرحمن تھے۔ میں اس تہذیب کو روایتی تہذیب کہتا ہوں۔ اس کے مقابلے پر ہم جس تہذیبی ماحول میں سانس لے رہے ہیں، وہ اس کا بالکل الٹ ہے، یہاں کسی چیز کی کوئی جگہ نہیں اور ہر جگہ ہر چیز کے لیے ہے، گھریلو زندگی کا خاتمہ ہو چکا ہے یا ہونے کے قریب ہے، خاندانی اقدار الٹ پلٹ ہو گئی ہیں۔ باپ ماں، بہن بھائی، شوہر بیوی، دوست استاد سب کے رشتے ٹوٹ کر بکھر گئے ہیں۔ نظام اخلاق کا بند و بست چوپٹ ہو گیا ہے۔ معاشرہ یا تو فرد کی شکارگاہ بن گیا ہے یا فرد کو شکار بنا رہا ہے۔ مذہب من مانی تاویلات کا کھیل بن گیا ہے، شاعری کبھی پیغمبری سمجھی جاتی ہے، کبھی بازی گری بھی نہیں رہتی۔ ایک طرف اسے سب سے اہم اور مقدس چیز کہا جا رہا ہے، دوسری طرف ہر جگہ اسے دیس نکال مل رہا ہے۔ روایتی تہذیب کے مقابلے پر یہ کسری تہذیب ہے۔
اس کسری تہذیب کی بنیاد میں اتر کر دیکھیے تو یہ صرف ایک پتھر پر کھڑی ہوئی ہے، وہ ہے فرد پرستی۔ فرد پہلے اپنے شعور کے کسی گوشے میں، یا احساس و جذبہ کے کسی چھپے ہوئے کونے میں یا روح کے کسی عمیق غار میں معاشرے کے خلاف ہو گیا۔ اسے محسوس ہونے لگا کہ معاشرہ اس پر ایک جبر ہے، ایک اوپر سے تھوپی ہوئی، ایک خارج سے عائد کی ہوئی چیز ہے۔ یہ وہ سمندر نہیں جس میں مچھلی تیرتی ہے بلکہ وہ جال ہے جس میں مچھلی پھنسی ہوتی ہے، یہ احساس پیچیدہ بن کر جذبہ بنا۔ پھر شعور میں پھیلا۔ پھر روح میں اتر گیا۔ چنانچہ اس کے نتیجے کے طور پر فرد میں معاشرے میں بے اطمینانی، بے زاری، بے دلی دشمنی پیدا ہوئی۔ یہ احساس پیچیدہ بن کر جذبہ بنا، پھر شعور میں پھیلا، پھر روح میں اتر گیا۔ چنانچہ اس کے نتیجے کے طور پر فرد میں معاشرے میں بے اطمینانی، بے زاری، بے دلی دشمنی پیدا ہوئی، آپ چاہیں تو میں اس کے لیے ایک لفظ استعمال کر لوں، بغاوت حالانکہ بغاوت بہت بعد کی منزل ہے۔ مگر بغاوت کی تیاری یا ضرورت کا احساس بھی بغاوت ہی ہے۔ تب سے فرد معاشرے کے جال کو توڑنے لگا ہے۔ ماہرینِ عمرانیات کہتے ہیں کہ فرد پرستی صنعتی معاشرے کا نتیجہ ہے۔ سرمایہ داری کی بنیاد بھی یہی ہے۔ اشتراکیت فرد پرستی کے خلاف ہے اور اجتماعیت پرستی پر مبنی ہے مگر اجتماعیت پرستی وہ چیز نہیں جو فرد اور معاشرے کے درمیان فطری یا روایتی معاشرے میں موجود تھی، مگر اجتماعیت پرستی اس فرد کو جو اندر سے معاشرے سے ٹوٹ کر الگ ہو گیا ہے۔ دوربارہ اسے معاشرے میں باندھتی ہے مگر اس طرح جیسے کوئی کسی کو زنجیر میں باندھے۔ یعنی اجتماعیت پرستی فرد کو اندر سے نہیں بدلتی، صرف اسے خارج میں پابند کر دیتی ہے، بس بنیادی طور پر مسئلہ زیر بحث میں سرمایہ داری اور اشتراکیت میں اتنا ہی فرق ہے۔ اس روشنی میں دیکھیے تو ’’آزاد دنیا‘‘ اور ’’آہنی پردہ‘‘ وغیرہ کی اصطلاحیں روشن ہو جاتی ہیں۔ آزاد دنیا فرد کی آزادی کو تسلیم کرتی ہے۔ آہنی پردے کی دنیا فرد کو مار باندھ کر رکھتی ہے، آزاد دنیا میں فرد کی آزادی کا مطلب سرمایہ داری کی آزادی ہے۔ آہنی پردے کی پابندی کا مطلب سرمایہ بنانے پر پابندی ہے، بس اس سے زیادہ اس میں کچھ نہیں اور اگر کچھ ہے تو ممتاز حسین سے پوچھیے،
اب روایتی معاشرے کا بنیادی پتھر خاندان تھا۔ یہ وہ پہلی اکائی تھی جس پر معاشرہ تعمیر ہوا تھا۔ چند خاندان مل کر گاؤں بناتے۔ گاؤں مل کر شہر بنتے، شہر مل کر تحصیلیں، ضلع اور صوبے بنتے ہیں اور پھر سب مل کر پورا ملک یا پورا معاشرہ۔ خود خاندان میں مرکزی حیثیت باپ کی تھی۔ خاندانی نظام شمسی اس کے گرد گھومتا تھا۔ چنانچہ معاشرے سے بے زاری، بے دلی، بے اطمینانی، یا بغاوت کی پہلی لہر باپ کے خلاف اُٹھی۔ (فرزند آور رنگر) پھر خاندان اور پورے معاشرے میں پھیل گئی (رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو) لیکن باپ کو چھوڑنے کا عمل آسان ہے، نہ معاشرے کو، دونوں بہت بڑی قوت کا مطالبہ کرتے ہیں۔ باپ چھوڑ بھی دیا جائے تو معاشرے کیسے چھوڑا جائے۔ چنانچہ باپ اور معاشرہ کو چھوڑنے کا عمل ہمارے اندر ہی اندر ہوتا ہے، اندر ہی اندر اپنی روح کی گہرائیوں میں، جذبہ و احساس کی تاریکیوں میں ہم اپنے سارے رشتوں کو توڑ دیتے ہیں۔ ویسے خارج میں عموماً یہ رشتے قائم رہتے ہیں، مگر شعور و احساس، جذبہ و روح میں ہم ان سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ غالبؔ کی شاعری اسی اندرونی عمل کی مظہر ہے۔ غالبؔ کی روح میں سب رشتے ٹوٹ گئے ہیں یا رفتہ رفتہ ٹوٹ رہے ہیں، پہلے یہ عمل غالبؔ میں رونما ہوا، لیکن جب کسری تہذیب آگے بڑھی تو یہ عمل خارج میں بھی رونما ہونے لگا اور آہستہ آہستہ بڑھتا ہوا موجودہ صورت حال تک آ پہنچا تو کیا اب ہم یہ کہہ دیں کہ ہمارے یہاں پچھلے سو سوا، سو برس میں جو کچھ ہوا، وہ اسی اندرونی عمل کا نتیجہ ہے جس کا پہلا مظہر غالبؔ ہے۔
لیکن شاید یہ ایک ایسی بات ہے جسے نہ سرمایہ دار تسلیم کریں گے، نہ اشتراکی، کیوں کہ دونوں میں وہی رشتہ ہے جو باپ بیٹے میں ہوتا ہے۔ سرمایہ دار جدید باپ ہے، اشتراکی جدید بیٹا جس طرح بعض پرانے قبیلوں میں دستور تھا کہ اولاد باپ کو مار کر کھا جاتی تھی اور اس کی ملکیت پر خود قابض ہو جاتی تھی۔ اسی طرح اشتراکیت بھی سرمایہ داری کا خاتمہ کر کے اس کے سرمایہ پر قبضہ جمانا چاہتی ہے۔ ہمارے یہاں چونکہ سرمایہ داری بغیر کسی فلسفے کے آئی ہے اور سر سید اور حالیؔ کی تحریروں میں جہاں تہاں اشاروں کے سوا اس کا کوئی مربوط نظام فکر نہیں ملتا، اس لیے ہم اشتراکیوں کے خیالات سنیں گے، جنھیں ۳۶ء کی تحریک کے بعد ہمارے ادب کی دنیا میں نمایاں جگہ مل گئی ہے اور اجتماعی فکر پر اگر کوئی کام کیا ہے تو انہوں نے ہی کیا ہے، اشتراکی کہتے ہیں کہ ہندوستان میں یہ تبدیلیاں انگریزوں کے لائے ہوئے صنعتی نظام سے رونما ہوئیں، صنعتی نظام نے شہروں کو روزگار کا مرکز بنا دیا جس کی وجہ سے گاؤں اُجڑنے لگے اور ان کی جگہ شہری آبادی بڑھنے لگی۔ صنعتی نظام نے معاشرتی رشتوں کو بھی بدل دیا اور پرانے رشتوں کی جگہ نئے رشتے پیدا کیے۔ نئے رشتے ذرائع پیداوار کی تبدیلی سے پیدا ہوتے ہیں۔ انگریز اپنے ساتھ ذرائع پیداوار کو بدلنے والی چیزیں لائے تھے، یہ چیزیں بنیادی انسانی تعلقات پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ انگریزوں کی آمد کے بعد ہمارا پرانا معاشرہ آہستہ آہستہ بدلنے لگا اور یوں ہم رفتہ رفتہ صنعتی دور میں داخل ہو کر اس کی آخری منزل اشتراکیت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ چنانچہ غالبؔ جو اس صنعتی نظام کی ابتدا پر کھڑا ہے، در اصل ان تبدیلیوں کا مظہر ہے جنہوں نے ہندوستان کو زرعی ملک کے بجائے صنعتی ملک بنانے کا عمل شروع کیا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاتا ہے کہ غالبؔ انگریزوں کے لائے ہوئے نظام سے متاثر ہوا ہے۔ اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے غالبؔ کی زندگی سے وہ واقعات اور شواہد ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالے جاتے ہیں جن سے ثابت ہو کہ غالبؔ کو انگریزوں کے لائے ہوئے صنعتی نظام کی آگاہی تھی۔ چنانچہ کبھی اس کے انگریزوں سے تعلقات پر زور دیا جاتا ہے، کبھی ‘سفر کلکتہ کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں’ والی غزل کا۔ مراد یہ کہ غالبؔ چونکہ یہ سب چیزیں دیکھ چکا تھا، اس لیے صنعتی نظام سے ہونے والی تبدیلیوں کو تاڑ گیا اور ان کا اظہار شروع کر دیا۔ اس فارمولے پر ہمارے محترم ممتاز حسین صاحب نے پوری کتاب لکھ ماری ہے۔ اور بہر حال ان کی محنت کی داد دینی پڑتی ہے کہ کسی اور ترقی پسند سے بھی یہ کام نہ ہو سکا۔ ممتاز حسین کی انہیں خوبیوں کی بنا پر میں ان کا مداح اور مقر ہوں۔ یہ خیال صحیح ہو یا غلط، مجھے اس خیال سے لڑنے کی چنداں ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ لیکن میرے دو ایک سوالات ضرور ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے کہ صنعتی نظام کی جن تبدیلیوں کو ہم لوگ صنعتی نظام کے بیچ میں رہنے کے باوجود نہیں سمجھ پاتے یا ان کا اظہار نہیں کر پاتے، انہیں غالبؔ ابتدا ہی یں دیکھ کر سمجھ گیا۔ میرے خیال میں اگر انگریزوں سے واقفیت اور کلکتہ کا سفر اس تفہیم کا باعث ہے۔ تو یہ تفہیم بعد کے آنے والے شاعروں کو زیادہ ہونی چاہیے تھی۔ مثلاً حسرتؔ کو جو نہ صرف بعد میں پیدا ہوئے بلکہ علی گڑھ میں پڑھے اور فرانس تک گھوم آئے یا پھر رضا علی وحشتؔ کو۔ یقینا ماننا پڑے گا کہ اس کے لیے صرف انگریزوں سے واقفیت اور سفر کلکتہ ہی کافی نہیں ہیں، کچھ اور بھی چاہیے۔ شاید دیدہ وری! غالبؔ دیدہ ور تھا، آشوبِ آگہی رکھتا تھا۔ گرمی نشاطِ تصور سے نغمہ سنج ہوتا تھا۔ شاید حسرتؔ، وحشتؔ، فانیؔ، جگرؔ، جوشؔ، یگانہؔ، کسی کو یہ دیدہ وری نہیں ملی اور شاید اقبالؔ کو بھی کم ملی۔ حالانکہ وہ یورپ کے تعلیم یافتہ تھے۔ ترقی پسند ترقی غالبؔ کی دیدہ وری کو تسلیم کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سی فکری یا ادبی رجحان کے لیے صرف خارجی حالات کافی نہیں۔ اس کے لیے ایک اندرونی عمل بھی چاہیے، خواہ اسے ہم کچھ بھی نام دیں۔ اس اندرونی عمل کے بغیر خارجی حالات کچھ بھی ہوں، کوئی غالبؔ نہیں بن سکتا۔ تو اب سوال کی صورت یہ ہے کہ خارجی حالات اور اندرونی عمل میں اہمیت کس کی ہے؟ اس کے بعد ایک دوسرا سوال یہ ہے کہ ہمارے یہاں تو صنعتی نظام انگریز لے آئے مگر یورپ میں صنعتی نظام کون لایا۔ اور تاریخ کے وہ کون سے عوامل تھے جنہوں نے اس کی صورت گری کی اور اندرونی تبدیلیاں پہلے پیدا ہوئیں یا صنعتی انقلاب پہلے آیا؟ اگر میرے ان سوالات کو اشتعال انگیزی پر محمول نہ کیا جائے اور تعصب کے بغیر دیکھا جائے تو میں ایک سوال اور بھی پوچھنا چاہتا ہوں، کیا خارجی حالات اور اندرونی عمل کی دنیا میں تقدیم و تاخیر کا فیصلہ اتنا حتمی ہے کہ اس پر آخری قطعیت کے ساتھ بات کی جا سکے۔
شاید اب ہم مرغی پہلے یا انڈا قسم کے حکایتی سوال کے آس پاس پہنچ گئے ہیں۔ افسوس کہ میرے اندر اتنی زیادہ بقراطیت موجود نہیں ہے کہ انڈا اور مرغی کی پیدائش میں کسی ایک کو مقدم یا مؤخر کہہ سکوں۔ اس لیے میرے خیال میں بہتر صورت یہ ہے کہ ہم ان بحثوں کو چھوڑ کر ایک بار پھر غالبؔ سے رجوع کریں۔ غالبؔ کے بارے میں غالباً ترقی پسند اور غیر ترقی پسند دونوں انکار نہ کر سکیں گے کہ خواہ خارجی حالات کی بنا پر، خواہ گرمی نشاط و تصور کی وجہ سے۔ بہر حال وہ اس گلشن کا عندلیب بن گیا جو اس کے مرنے کے بعد پیدا ہوا اور جس کی شاخوں پر حالیؔ سے لے کر ممتاز حسین تک سب جھول رہے ہیں۔ تقدیم و تاخیر کے سوال کو ہم یوں ختم کریں گے کہ تھوڑی دیر کے لیے مان لیں گے کہ غالبؔ خارجی حالات سے بھی متاثر ہوا اور اس نے اس میں اپنی دیدہ وری بھی ملائی۔ ان دو باتوں کا نتیجہ غالبؔ کی شاعری ہے، اب چونکہ وہ خارجی حالات روز بروز زیادہ سے زیادہ واضح ہو جاتے ہیں جن کو غالب نے آغاز ہوتے دیکھا اور ترقی پسندوں کے نقطۂ نظر کے مطابق نئے پیداوار رشتوں نے معاشرے میں جگہ جما لی ہے اور پورے انسانی تعلقات کو متاثر کر رہے ہیں، اس لیے ہم آپ سب اس صورت حال کے اسیر ہیں جن سے پہلے صرف غالبؔ دوچار ہوا تھا اور اس عالم میں غالبؔ پر جو ذہنی، جذباتی، محسوساتی، کیفیات گزریں، ہم بھی انہیں سے گزر رہے ہیں۔ ہم یہ سب باتیں اس لیے مان لیں گے کہ ہمیں آم کھانے سے مطلب ہے، پیڑ گننے سے نہیں۔ ہمیں تو یہ دیکھنا ہے کہ غالبؔ کی ذہنی، جذباتی اور نفسی کیفیات کیا ہیں اور وہ اپنے تجربے میں کن کن مقامات سے گزرتا ہے۔ ہم دکھا چکے ہیں کہ غالبؔ کے کلام میں کئی قسم کے لہجے اور کئی قسم کے مضامین ہیں۔ مثلاً کبھی وہ بہت بلند آہنگ، پرجوش اور پرقوت انداز میں باتیں کرتے ہیں۔ دنیا اسے بازیچۂ اطفال نظر آتی ہے، صحرا اس کے خیال کی حدت سے جل جاتا ہے۔ دریا اس کے سامنے خاک پر ماتھا گھستا ہے، وہ در کعبہ کے وا نہ ہونے سے الٹا پھر آتا ہے۔ اور بیش از یک نفس غمگیں نہیں ہوتا۔ وہ منظر اک اور بلندی پر بنانا چاہتا ہے اور اپنی آہ آتشیں سے بال عنقا جلا دیتا ہے، اس کے دیدۂ بینا کو جزو میں کل نظر آتا ہے اور فکر رسا اندیشہ ہائے دور و دراز سوچتی ہے، لیکن اس بلند آہنگ جوشیلے اور پرقوت انداز کے ساتھ ہی ساتھ غالبؔ کا نچلا سُر بہت ہی مدھم ہے۔ یہاں وہ مردم گزیدگی کی بنا پر آئینے سے ڈرتا ہے۔ اسدؔ اللہ خاں تمام ہوا کا نوحہ کرتا ہے۔ کبھی مضحمل ہو گئے قویٰ غالبؔ کا رونا روتا ہے، کبھی مرنے کی فال نکالتا ہے۔ افسوس کہ یہ حسرت بھی پوری نہیں ہوتی۔ ستمگر اس کے مرنے پر راضی نہیں ہوتا۔ اس کی امید صرف مرنے پر منحصر ہے۔ مگر یہ امید بھی ناامیدی ہی رہتی ہے، اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ نہ گل نغمہ ہے، نہ پردۂ ساز، وہ تو صرف اپنی شکست کی آواز ہے۔ کبھی وہ اس ساری صورت حال سے پریشان ہو کر یہی چاہتا ہے کہ دنیا سے کہیں دور چلا جائے اور بے معنی در و دیوار سا ایک گھر بنائے جہاں بیماری میں تیماردار نہ ہوں اور مرنے میں نوحہ خواں۔ آخر عزیز و اب اللہ ہی اللہ ہے، کہتا ہوا اس جہانِ فانی سے رخصت ہوتا ہے۔ یہ دو کتنے متضاد انداز نظر ہیں۔ کتنے مختلف قسم کے تجربات ہیں۔ ایک غالب ویسا کیوں ہے، ایک غالبؔ ایسا کیوں ہے؟ کسی نے کہا ہے کہ دوسروں کے پڑھنے میں ہم آپ کو پڑھتے ہیں، کچھ اپنے رجائیت پسند لوگ غالبؔ کو پڑھتے ہیں تو رجائی اشعار نکال لیتے ہیں۔ کچھ قنوطی قسم کے لوگ پڑھتے ہیں تو قنوطی اشعار نکال لیتے ہیں۔ شاید ایک شاعر میں یہ اچھا بھی ہے کہ وہ مختلف لوگوں کی نمائندگی کر سکے۔ مگر غالبؔ کے ساتھ غالباً ایسا نہیں ہے کہ اس نے لوگوں کی ’’ضروریات‘‘ پیشِ نظر رکھی ہیں اور ان کے مطابق مال فراہم کیا ہے، شاید یہ سب کیفیات اس پر گزری تھیں۔ اگر گزری تھیں تو ہمیں معلوم کرنا ہوگا کہ ان میں سے کون سا سر سچا ہے، یا کون سا سُر نسبتاً زیادہ سچا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم یہ پوچھیں گے کہ اصل غالبؔ کہاں ہے، یا دونوں اصلی غالبؔ ہیں۔ اگر دونوں اصلی غالبؔ ہیں اور دونوں سُر سچے ہیں تو ہمیں ان کے اختلاف اور تضاد کا معما حل کرنا ہوگا۔ کچھ اس معمے کو اس طرح حل کرتے ہیں کہ بلند آہنگ، پُرجوش اور رجائی اشعار ’’نئے انسان‘‘ کے کھاتے میں ڈال دیے اور دوسری قسم کے اشعار یا تو نظر انداز کردیے یا انہیں غالبؔ کے ذاتی اعمال نامے میں لکھ دیا۔ غالبؔ اگر ایک اکائی ہے تو مسئلے کی یہ آسان تفہیم کام نہیں دے گی۔ ہم یہ سوال اٹھائیں گے کہ شاعری ذاتی زندگی کا اظہار کس حد تک کرتی ہے، کیا اس میں اس قسم کی تقسیم ممکن ہے کہ اس کے کچھ حصے کو ذاتی اور کچھ کو غیر ذاتی کہہ دیا جائے۔ شاعری، بڑی سے بڑی شاعری ذاتی تجربے کی تعمیم سے پیدا ہوتی ہے۔ فردوسیؔ تک نے رستم کو خواب میں دیکھا تھا اور تاریخی رسم کی بجائے خود اسے اپنے جوہر ذات سے پیدا کیا تھا۔ ورنہ یلے بود از سیستان جب رزمیہ کا یہ حال ہو تو غالبؔ کی شاعری تو غزلیہ شاعری ہے۔ یہاں تو ذاتی تجربہ ہی سب کچھ ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ غالبؔ یہ دو قسم کی تعمیمات کیوں کرتا ہے؟ اور انسان کے دو چہرے کیوں بناتا ہے۔ ایک چہرے پر عظمت لکھتا ہے، دوسرے پر فلاکت، ایک پر رجائیت، دوسرے پر قنوطیت، ایک پر نشاط، دوسرے پر غم۔ یہاں ہم پھر ایک مدرّسانہ انداز نظر سے دوچار ہوتے ہیں۔ مدرّس لوگ کہتے ہیں کہ آدمی پر خوشی اور غم، کامیابی اور ناکامی کے لمحات آتے رہتے ہیں اور شاعری ان لمحات کے اظہار کا نام ہے، اس لیے غالبؔ نے بھی ایسا کر دیا ہے۔ مگر اس مدرّس میں یہ بات نظر انداز ہو جاتی ہے کہ غم اور خوشی کے لمحات سے آدمی بدل نہیں جاتا۔ غم اور خوشیاں آتی جاتی رہتی ہیں۔ مگر خود آدمی قائم و دائم رہتا ہے اور ہر خوشی اور غم میں اپنے بنیادی ’’وجود‘‘ کو ظاہر کرتا رہتا ہے۔ یوں شخصیت کی اکائی قائم رہتی ہے۔ غم حسینؔ پر بھی آیا اور سقراطؔ پر بھی۔ مگر حسینؔ کو بھی دیکھو اور سقراطؔ کو بھی۔ کیا غم میں وہ کچھ اور ہو گئے ہیں بلکہ شاید غم میں ان کی بنیادی عظمت اور چمک اٹھی ہے۔ غالبؔ کے غم میں یہ کیفیت نہیں ہے۔ غم کی حالت میں وہ بھول جاتا ہے کہ وہ برق سے شمع ماتم رخانہ روشن کرنے کا دعویٰ کر چکا ہے۔ وہ تو ہائے ہائے کرنے لگتا ہے، طنز و تعریض پر اُتر آتا ہے، سنکی ہو جاتا ہے، خواہش مرگ کرنے لگتا ہے، کبھی کبھی اس میں حد درجہ مریضانہ خود رحمی جھلکنے لگتی ہے۔ اور یوں تو بہت ہوتا ہے کہ وہ اپنی بنیادی اقدار ہی کو چھوڑ بھاگتا ہے۔ زندگی میں ہی نہیں، شاعری میں بھی اس نے کہا تھا کہ عشق سے طبیعت نے زیست کا مزہ پایا۔ مگر یہ درد لادوا بھی سے خلل دماغ معلوم ہونے لگتا ہے۔ در کعبہ سے الٹا پھر آنے کا دعویٰ کرنے والا بہادر شاہ سے بھی ننگے بھوکے ہونے کی شکایت کرنے لگتا ہے جو خود ننگا بھوکا تھا۔ گرمی نشاط تصور پر ناز کرنے والا چیخنے لگتا ہے کہ غم زمانہ نے نشاط عشق کی مستی جھاڑ دی۔ وہ جو حسینوں کے بارے میں کہتا تھا کہ،
یہ اگر چاہیں تو پھر کیا چاہیے
اسے اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ ان کے چاہنے سے بھی کوئی تلافی نہیں ہوتی۔ میرؔ کو غالبؔ سے کم غم نہیں ہوئے۔ شاید زیادہ ہی ہوئے ہوں، مگر میرؔ کے بنیادی تیور ہمیشہ ایک رہے۔ وہ ہمیں دکھاتا ہے کہ نامرادانہ زیست کرنے کا حوصلہ کیا چیز ہے۔ غالبؔ میں یہ حوصلہ نہیں۔ وہ تو بڑے بڑے دعوے کرتے کرتے ایک دم جی چھوڑ بیٹھتا ہے، چیں بول جاتا ہے۔ اس وقت ہم ایک اور سوال سے دوچار ہوتے ہیں اور ہمیں کچھ ایسا محسوس ہونے لگتا ہے، جیسے اس کے بلند آہنگ دعوے بھی اتنے سچے نہیں تھے۔ شاید وہ اکڑ تکڑ جھوٹی تھی، شاید عظمت کا تصور صرف ایک غبارہ تھا جسے اس کے تخیل نے ہوا بھر کر چھوڑ دیا تھا جب غبارے کی ہوا نکل گئی تو وہ زمین پر آ رہا۔ اب ہمیں یاد آتا ہے کہ اس کے پرعظمت اشعار کے لہجے میں کچھ نہ کچھ تصنع، کچھ نہ کچھ بناوٹ، کچھ نہ کچھ تھیٹرانہ انداز ضرور تھا (تفصیل کے لیے ’’انداز بیاں اور‘‘ دیکھیے) ہملٹ نے بھی انسان کی عظمت پر ایک ایسی ہی تقریر کی ہے۔ کچھ ترقی پسند قسم کے نقاد ہملٹ کی اس تقریر کو اس اعتماد کا نتیجہ قرار دیتے ہیں جو صنعتی انقلاب سے انسانوں میں پیدا ہوا، اس کی آمد سے پہلے بھانپ لیا گیا کہ انسان اب نوامیس فطرت کا مالک بننے والا ہے۔ غالبؔ کے پرعظمت لب و لہجے والے کلام کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر ہم ایک سوال اور پوچھیں گے۔ اگر پرعظمت لب و لہجے والا کلام صنعتی انقلاب کی کامیابیوں کو بھانپ جانے یا تاڑ لینے کا نتیجہ ہے تو شکستہ لب و لہجے والا کلام کس چیز کا نتیجہ ہے۔ کیا ہم یہ کہیں گے کہ یہ صنعتی نظام کی اس توڑ پھوڑ کی پیش بینی سے پیدا ہوا ہے جو آئندہ ہونے والی تھی؟ اب ایک سوال اور ہے۔ اگر غالبؔ نے صنعتی نظام کی، ابتدا ہی میں اس کی فتوحات اور شکستوں کا اندازہ کر لیا تو کیا یہ ممکن ہے کہ آدمی صرف اپنے وجدانی شعور سے ان منزلوں کو بھی دیکھ لے جو ابھی خارج میں اشارے کے طور پر بھی ظاہر نہیں ہوئی ہیں یعنی ابھی جبکہ صنعتی فتوحات کی بھی ابتدا نہیں ہوئی تھی، اس کی شکست کا اندازہ کیسے ہوا۔ فتوحات کے بارے میں تو خیر کہا جا سکتا ہے کہ غالبؔ ریل گاڑی اور تار برقی کی قوت کو دیکھ چکا تھا مگر شکست کے اندازے کے بارے میں ایسا نہیں کہا جا سکتا کیوں کہ یہ ابھی خارج میں ابتدائی طور پر بھی موجود نہیں تھی۔ یہ سوال پوچھتے وقت مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں اپنی مانی ہوئی بات سے تھوڑا تھوڑا کھسکتا جا رہا ہوں، میں نے غالبؔ کے پرعظمت لب و لہجے والے کلام کے بارے میں یہ مان کر سلسلۂ گفتگو، شروع کیا تھا کہ چلیے اسے صنعتی انقلاب کی آمد کا اثر کہہ لیجیے۔ مگر غالبؔ کی شکست کی آواز نے دوسری طرف کھینچنا شروع کر دیا۔ میرے دل میں بار بار یہ سوال آتا ہے کہ غالبؔ اس کا اندازہ کیسے کر سکا کہ آگے چل کر صنعتی رشتے انسانی شکست سے دوچار ہو جائیں گے؟ یقیناً صرف خارج پسندانہ نقطۂ نظر اس کی توجیہ سے قاصر ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا شاعری صرف آنے والے حالات کو بھانپ کر ہو سکتی ہے۔ میں کہہ چکا ہوں، شاعری میں جوہرِ ذات اور شخصیت دونوں حصے ملتے ہیں اور شاعر اپنے تجربات کی تعمیم سے زیادہ اور کچھ نہیں کر سکتا۔ اگر یہ صحیح ہے تو ہمیں یہ سوچنا ہے کہ جو زندگی غالبؔ نے بسر نہیں کی اور ابھی خارج میں ظہور پذیر نہیں ہوئی وہ غالبؔ کی شاعری میں کیسے موجود ہے۔ وہ غالبؔ کا تجربہ کیسے نبی اور تجربہ بھی کیسا جو روح و دل میں اترا ہوا ہو۔
ان سوالات میں الجھ کر کبھی میں سوچتا ہوں کہ شاید یہ خیال ہی غلط ہے کہ غالبؔ جس ’’جدید روح‘‘ کا ترجمان یا مظہر ہے، اس کا انگریزوں کی آمد سے کوئی تعلق ہے۔ یہ تعلق نہ بھی ہوتا تو غالبؔ ایسی ہی شاعری کرتا کیوں کہ یہ سفر کلکتہ کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ سفر ذات کا۔ شاید یہاں ترقی پسندوں کی سہل پسندی نے دھوکا کھایا ہے۔ غالبؔ کے سلسلے میں بھی اور شیکسپیئر کے سلسلے میں بھی۔ غالبؔ کا کلام نئے انسان کا کلام ہے۔ اور ہملٹ بھی نیا انسان تھا جو صنعتی انقلاب سے دو سو سال پہلے پیدا ہوا۔ پھر جب ہملٹ صنعتی انقلاب سے پہلے پیدا ہو سکتا ہے تو غالبؔ کا کلام بھی کیوں نہیں پیدا ہو سکتا۔ شاید ترقی پسند خارجی صورت حال کو غیر ضروری اہمیت دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر خورشید الاسلام نے غالبؔ پر اپنی کتاب میں دکھا دیا ہے کہ اس کی شخصیت کے بنیادی اجزا بچپن اور عنفوان شباب ہی میں بن چکے تھے۔
لیکن غالبؔ نے ہمیں جس سوال سے دوچار کر دیا ہے، وہ ہمیں کلکتہ اور ریل گاڑی وغیرہ سے پیچھے ہٹا کر کچھ اور سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ کہیں روح جدیدیت اس سے بھی پہلے معاشرے میں موجود نہ ہو اور غالبؔ صرف اس کا پہلا نمایاں مظہر ہے۔ اگر ایسا ہے تو اس کا سراغ کہاں ہے اور کون سی گم شدہ کڑیوں کو جوڑ کر ہم اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں کہ غالبؔ جس نشاط تصور سے نغمہ سنج تھا، وہ انگریزوں سے ملاقات کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ خود اپنی ذات و شخصیت سے آگاہی کا۔ اس سلسلے کی شاید کوئی کڑی روشن ہو سکے، اگر ہم اس بات پر غور کریں گے کہ معاشرے میں تبدیلی کے محرکات کیا ہوتے ہیں، کچھ دیر پہلے میں نے سوال کیا تھا کہ اچھا صنعتی نظام تو ہندوستان میں انگریز لے آئے مگر مغرب میں کون لایا؟ اس کا منشا یہ ظاہر کرنا ہے کہ معاشرے میں انقلاب کے لیے کچھ اس سے لینے، کچھ اس سے چھیننے کی طرف شاید اتنی زیادہ نہیں ہوتی۔ شاید معاشرے میں انقلاب خود اس کے اندرونی عمل یا قانون سے ہوتا ہے، اشتراکی فلسفہ اس قانون کو مادے کی حرکت کا قانون کہتا ہے یعنی مادہ خود اپنے اندر سے اپنی ضد پیدا کرتا ہے۔ہم اس قانون کو کیا سمجھتے ہیں۔ اسے چھوڑیے لیکن ترقی پسندوں سے اور خاص طور پر ممتاز حسین صاحب سے میرا سوال یہ ہے کہ اگر ہندوستان میں انگریز نہ آتے تو کیا ہم خدو اپنے اندر سے انقلاب کو پیدا نہ کر لیتے؟ پھر اگر انقلاب انگریزوں کی مدد کے بیر معاشرے کے اندرونی قانون سے پیدا ہو سکتا ہے تو اس قانون کے نتیجے میں غالبؔ کیوں نہیں پیدا ہو سکتا اور اسے کلکتہ تک دوڑانے کی کیا ضرورت ہے۔
غالبؔ کی دیدہ وری غالبؔ کے جوہر ذات میں موجود تھی۔ یہ اس کی تعمیر میں مضمر اور اس کے وجود کی بنیاد میں شامل تھی۔ غالبؔ جو بولتا ہے، خارج سے نہیں بولتا۔ واقعی گرمی نشاط تصور سے بولتا ہے۔ اس تجربے سے بولتا ہے جو خود اس کی ذات میں موجود تھا، یہی تجربہ ہے جو پہلے کلام غالبؔ میں ظاہر ہوا اور پھر رفتہ رفتہ ہمارے پورے معاشرے کی تقدیر بن گیا۔ میں نے غالبؔ کے بارے میں ’’نئی نظم اور پورا آدمی‘‘ میں لکھا تھا کہ اس کے ڈیڑھ جزو کے دیوان میں جس کا مطلع و مقطع غائب ہے، ہماری تہذیب کا نہ جانے کیا کچھ گم ہو گیا ہے۔ جو کچھ گم ہوا ہے، وہ پھر دکھاؤں گا، اس وقت صرف یہ دیکھیے کہ یہ دیوان ہمارا قرآن کیوں ہے؟ یعنی غالبؔ کی عصریت کے کیا معنی ہیں؟
غالبؔ کی عصریت جیساکہ ہم جانتے ہیں، کئی دور سے گزری ہے وہ، حالیؔ کا ہم عصر تھا جس نے یادگار غالبؔ لکھی اور بتایا کہ غالبؔ اس کا شاعر ہے، وہ عبد الرحمن بجنوری کا ہم عصر ہے جس نے اعلان کیا کہ غالبؔ اس کا وید مقدس ہے۔ وہ اقبالؔ کا ہم عصر ہے جس نے اس میں شاعر المانوی کا مقابل پایا، وہ ہمارا ہم عصر ہے کہ ہم آم بھی کھاتے ہیں تو غالبؔ کا حوالہ دے کر پرعظمت لب و لہجے والے غالبؔ کو یوں تو ہم بھی سراہتے ہیں مگر در اصل وہ غالبؔ ہم سے پہلے لوگوں کا ہم عصر تھا یعنی عبد الرحمن بجنوری اور ان لوگوں کا جو ماہنامہ ’’نگار‘‘ میں لکھتے تھے اور نطشے، برنارڈشا اور آسکر وائلڈ وغیرہ سے متاثر تھے۔ اس نسل کا مزاج وہ تدمغ لیے ہوئے ہے جو غالبؔ کے بلند آہنگ کلام میں پایا جاتا ہے، یہ تدمغ نیاز فتح پوری میں بھی ہے اور ابو الکلام آزادؔ میں بھی۔ یہ لوگ کولن ولسن کی اصطلاح میں وہ لوگ تھے جو ’’ہیرو‘‘ پر یقین رکھتے تھے بلکہ خود کو ہیرو سمجھتے تھے۔ اس کے بعد غالبؔ ایک طرف فانیؔ کا غم پرست بلکہ مرگ پرست انسان بن گیا اور دوسری طرف اقبالؔ اور جوشؔ سے ہوتا ہوا ترقی پسند شاعری کی طرف نکل گیا۔ یہ سب بلند آہنگ، مثبت، پرعظمت غالبؔ کی چھوٹی بڑی شکلیں ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی دوسرا غالبؔ بھی بر سر عمل رہا۔ وہ فانی سے آگے بڑھ کر کچھ ویران لوگوں میں ظاہر ہوا جن پر ترقی پسند قنوطیت، شکست خوردگی اور مایوسی کا الزام لگاتے تھے، بظاہر ایسا لگا کہ جیسے یہ لوگ سردارؔ جعفری جیسے لوگوں سے ہار جائیں گے مگر یہ ایک دھوکا تھا، شکست کی آواز والا غالبؔ شاعروں کی نئی نسل میں پھر ظہور پذیر ہو گیا اور اس قوت کے ساتھ کہ ترقی پسند بھی بھونچکا رہ گئے بلکہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ سردارؔ اور مخدومؔ تک غم زدگی کی شاعری کی طرف پلٹ آئے۔ دیکھیے بقولِ فراقؔ، غالبؔ کیا پاجی پن دکھا رہا ہے۔
اب ہم ۷۱ء کی بات کریں تو ہمارے لیے غالبؔ کی عصریت غالبؔ کا وہ لہجہ نہیں ہے جس میں وہ بڑھ چڑھ کر بولتا ہے بلکہ اس کے برعکس وہ غالبؔ ہے جو شکست کا نوحہ پڑھتا ہے۔ ہم جس غالبؔ سے متاثر ہیں، وہ اقدار کو بحال کرنے والا غالبؔ نہیں ہے بلکہ اقدار کی شکست قبول کر کے ان سے بھاگنے والا ہمیں غالبؔ کی یہ بات پسند ہے کہ اس نے ’’عشق کو خلل ہے دماغ کا‘‘ کہا۔ ہمیں وہ غالبؔ پسند ہے جس نے غمِ زمانہ کو غمِ عشق پر ترجیح دی۔ ہمیں وہ غالبؔ پسند ہے جس نے معشوق فریبی کی داغ بیل ڈالی اور معشوق سے صاف کہہ دیا کہ اس کے ملنے سے غمِ زمانہ کی تلافی نہیں ہوگی۔ ہمیں وہ غالبؔ پسند ہے جو مرنے کا خواہش مند ہے اور بے در و دیوار سا اک گھر بنانا چاہتا ہے۔ غرض کہ دوسرے لفظوں میں ہم نغمۂ شادی والے غالبؔ کو نہیں، نوحۂ غم والے غالبؔ کو پسند کرتے ہیں اور اس کی کلبیت، دنیا بے زاری، احساسِ شکست، مایوسی اور نامرادی بلکہ خواہشِ مرگ سے متاثر ہوتے ہیں، اس کا کیا مطلب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ صنعتی انقلاب نے انسان اور معاشرتی رشتوں کو جس طرح بدلا ہے، اس میں ہمارے لیے فتح کا آہنگ نایاب ہے۔ شکست کی آواز نمایاں ہے۔ ترقی پسند کہیں گے یہ مرتے ہوئے متوسط طبقے کی روح شکست ہے اور چونکہ ابھی تک انقلاب کے ہراول دستے یعنی مزدوروں نے خود اپنا شاعر پیدا نہیں کیا ہے، اس لیے ابھی تک رونا دھونا چل رہا ہے۔ ہمیں توقع رکھنی چاہیے کہ یہ طبقہ جلد یا بہ دیر وہ شاعر پیدا کرے گا جو ایسے کمزوری کے لمحات اور کیفیات سے آماد ہوگا۔ خدا مبارک کرے۔ مگر شاید ہم اس بات پر غور کر رہے تھے کہ ہمارے یعنی ہماری عصریت کے لیے غالبؔ کا کون سا سُر سچا ہے اور در اصل جھوٹے منہ سے بلند آہنگ غالبؔ کو سراہنے کے باوجود ہم کس غالبؔ کو مانتے ہیں۔ میرے خیال میں اس سوال کا جواب ہمیں مل جائے گا، اگر ہم فیضؔ کی ‘تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے’ والی غزل کے بعد ان کے بعد آنے والے شعرا کی روح کا مطالعہ ان کے کلام کی روشنی میں کر ڈالیں۔ میں نے جدید شاعری زیادہ نہیں پڑھی مگر اتنا وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اس میں احساس فتح تو درکنار، غالبؔ جیسی برتری کا احساس بھی نہیں۔ یہ تو صرف شکست کی آواز کی شاعری ہے، یہ اس فرد کی شکست کی آواز ہے جسے کسری تہذیب نے خاندان سے، معاشرے سے الگ کیا تھا، اس علیٰحدگی کے وقت اسے اس قوت، طاقت پرواز اور رہائی و آزادی کا احساس ہوا تھا جو غالباً بس کے پہیے کو بس سے نکل کر ہوا میں اچھلتے ہوئے محسوس ہوتا ہوگا مگر اچھلنے کا زور ختم ہونے کے بعد پہیہ زمین پر گر چکا ہے اور بس کریش ہو گئی ہے۔ ہم ٹھیک اسی نقطے پر ہیں، ہم زمین پر پڑے ہوئے ہیں، بے سدھ، بے قوت اور ہمیں نہیں معلوم کہ نئی بس کب آئے گی اور آئے گی تو ہم اس میں فٹ ان ہو سکیں گے یا نہیں۔ بس غالبؔ کی ہم عصریت یہ ہے کہ وہ ہمارے زمین سے اچھلنے سے لے کر زمین پر گرنے تک سب منزلوں کو ایک ساتھ دکھا دیتا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.