Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

انیس کے مرثیوں کا سماجیاتی مطالعہ

شارب ردولوی

انیس کے مرثیوں کا سماجیاتی مطالعہ

شارب ردولوی

MORE BYشارب ردولوی

    شاعری کو کوئی ’’نوائے سروش‘‘ سے تعبیر کرتا ہے، کوئی بیداری اور خواب کے درمیان وجود میں آنے والا الہام قرار دیتا ہے، کوئی لاشعور کی پیداوار کہتا ہے، کسی کی نگاہ میں وہ ’’لاشریک اور ناموجود‘‘ سے ابھرنے والی ایک حقیقت ہے، کسی کے لیے غیب سے خیال میں آنے والے مضامین اور کسی کے لیے جزو پیغمبری۔ شاعری کی یہ تو جیہات تھوڑی دیر کے لیے یقیناً قاری کو الجھن میں ڈال دیتی ہیں۔ اگر یہ سارے دعوے صرف شاعر کی انا، احسا س برتری اور نفسیات کے پرتو نہیں ہیں تو تفہیم شعر یا تعبیر شعر کا کام دشوار ہی نہیں تقریباً ناممکن ہے۔ اس لیے کہ جس فعل پر خود شعوری گرفت نہ ہو اس کے محاسن ومعائب کا کسی فرد کو ذمہ دار کیوں ٹھہرایا جا سکتا ہے۔

    دراصل اس طرح کے تمام دعوے شاعرانہ اظہار سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے جس میں شاعر اپنے کو عام فکری سطح سے بلند ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جس کو ماہرین نفسیات نے دوسروں سے زیادہ شہرت و عزت حاصل کرنے کی اس کی تمنا پر محمول کیا ہے۔ ادبی سماجیات کے مفسرین اس کی بالکل مختلف توجیہ کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں ادبی تخلیق اپنے گردوپیش اور سماجی حالات کی پروردہ ہوتی ہے بلکہ اس کے اظہار کے سانچے بھی مخصوص عہد اور سماجی حالات کے متعین کردہ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی مخصوص زمانے اور حالات میں کوئی صنف وجود میں آتی ہے اور ان حالات کے ختم ہونے کے بعد یا سماجی حالات کے بدل جانے سے رفتہ رفتہ وہ صنف بھی ختم ہو جاتی ہے۔

    مثلاً قصیدہ اپنے مخصوص سماجی حالات میں وجود میں آیا اور ایک زمانے تک شاعری کے سب سے بلند مرتبے پر فائز رہا لیکن جاگیردارانہ نظام کے زوال کے ساتھ وہ بھی رفتہ رفتہ ختم ہو گیا۔ اسی طرح ایک زمانے تک واسوخت، مثنوی، شہر آشوب اور ریختی کا شمار مقبول اصناف سخن میں ہوتا تھا لیکن سماجی تبدیلیوں کے ساتھ ان کا چلن بھی نہیں رہا اور بعض نئی اصناف نے ان کی جگہ لے لی۔ اس طرح ادب پر سماجی اثرات کی حقیقت سے انکار کرنا مشکل ہے۔

    دی بونالدد DE BONALD کا خیال ہے کہ ’’ادب سماجی اظہار کا ایک ذریعہ ہے۔‘‘ 1اور پلیخنوف PLEKHANOV کا کہنا ہے کہ ’’فن زیادہ تر سماجی زندگی کا عکس ہوتا ہے۔‘‘ 2اس طرح کے بیانات کی عمومیت سے بھی غلط فہمی پیدا ہونے کا امکان ہے۔ اگر اس کے یہ معنی ہیں کہ ادب اپنے مخصوص زمانے کا آئینہ ہے تو کیا میر یا غالب کا کلام اس زمانے کے سماج کی تصویر پیش کرتا ہے؟ یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ مکمل طور پر اس مخصوص سماج کی تصویر اس میں تلاش کی جا سکتی ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ اس عہد کے تصورات، توہمات، رسومات اور بنیادی فکر کی جھلکیاں اس میں ضرور دیکھی جا سکتی ہیں اور اس طرح اس عہد کو سمجھنے میں ان کی تخلیقات معاون ہو سکتی ہیں۔ یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی عہد کے ادب کے سماجیاتی مطالعے کی عصری معنویت کیا ہے؟

    سماجیاتی مطالعہ کسی بھی مصنف کو اس کے عہد کی سماجیاتی طاقتوں کی پیداوار سمجھتا ہے اور اس کی فکر کا مطالعہ اسی نقطہ نظر سے کرتا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اندازفن کار کی اہمیت کو کم کر دیتا ہے اور عصر کی اہمیت کو بڑھا دیتا ہے حالانکہ یہ درست نہیں ہے۔ سماجیاتی مطالعہ دوسرے مطالعوں کی طرح ادب کو بہتر طور پر سمجھنے کا ایک طریقہ ہے۔ شوکنگ SCHUCKING کا کہنا ہے کہ ’’وجود، اس کی رنگینیاں اور انفرادیت زیادہ تر سماجیاتی ماحول SOCIOLIGIACAL SOIL سے پیدا ہوتی ہے جہاں سے ادبی تخلیق کے سوتے پھوٹتے ہیں۔‘‘ فنکار سماجی ادارے ک ااسی طرح رکن ہوتا ہے جس طرح دوسرے، لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ اس میں ان کے مقابلے میں بہتر شعور، فنکاری اور حسیت ہوتی ہے وہ اپنے عہد کے مخصوص سماجی طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ اس عہد کے کرب کو جھیلتا اور اپنی تخلیقات میں کبھی براہ راست اور کبھی اشارتاً، کنایتاً یا استعارے اور علامت کے ذریعے ان کو پیش کرتا ہے۔

    ’’سماجیاتی مطالعے پر ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ ادب کا سماجیاتی مطالعہ مصنف کے سماجی قوتوں کے شعور پر منحصر ہے، جس میں تعصب اور ترجیحات دونوں کا امکان ہے۔ اس طرح سماج کی جو تصویر بنے گی وہ غیر متعلق IRRELEVENT ہوگی۔ اس کے علاوہ یہ طریقہ کار جو دکھانا چاہتا ہے اس کو پہلے سے فرض کر لیتا ہے۔ اس سلسلے میں کہا جا سکتا ہے کہ کسی بھی عہد کے بارے میں معلومات کا ذریعہ صرف ادبی تخلیقات نہیں ہیں بلکہ اور بھی بہت سے ذرائع ہیں جن سے کسی زمانے کی سماجیاتی طاقتوں کا علم ہوتا ہے۔‘‘ 3

    یہ صحیح ہے کہ کسی عہد کے بارے میں معلومات کا واحد ذریعہ ادبی تخلیقات نہیں ہیں اور نہ اس کا دعویٰ سماجی مفسرین نے کیا ہے۔ انسان کا سماج سے تعلق کسی قدر الجھا ہوا ہوتا ہے۔ اس پر مختلف واقعات کا ردعمل مختلف ہو سکتا ہے۔ جذباتی وابستگی یا کسی واقعے کو محسوس کرنے کی شدت مختلف سماجی تصویریں پیش کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی تصویر میں کوئی حقیقت اور کسی میں کوئی دوسری حقیقت ہو سکتی ہے۔ اس نقطہ نظر سے بھی بہت سی چیزوں میں سماجیاتی مطالعہ ضروری ہو جاتا ہے۔

    ادب کے سماجیاتی مطالعے کی اس اہمیت کے باوجود مرثیوں کے سماجیاتی تجزیے کے وقت بعض باتیں دشواریاں پیدا کرتی ہیں، اس لیے کہ مرثیہ عام شعری اصناف سے بعض معاملات میں مختلف صنف ہے۔ مرثیے کا تعلق مذہبی عقائد اور تاریخی واقعات سے ہے۔ ایک طرف مذہبی عقائد کی وجہ سے اس میں قاری یا سامع کے عقائد سے سرموانحراف کی گنجائش نہیں ہے، دوسرے تاریخ سے تعلق کی بنا پر تخیل انہیں واقعات تک محدود ہے۔ نہ اس کے کرداروں میں کوئی ردوبدل ہو سکتا ہے اور نہ ان کی خوبیوں میں۔ جو کردار خوبیوں کی علامت ہیں انہیں اسی طرح ہر مرثیے میں پیش کیا جاتا ہے اور جو بدی کی نمائندگی کرتے ہیں وہ ہمیشہ اسی طرح نظم کئے جائیں گے۔ اپنی تاریخیت اور مذہبیت کی وجہ سے شاعری کے لیے وہ غیر متحرک کردار ہیں اور خیروشر کی کشمکش میں گرفتار ہر لمحہ تبدیل ہونے والے عام سماجی کرداروں سے بالکل الگ ہیں۔ یہاں جو کچھ بھی ہے وہ کسی سماجی عمل یا ردعمل کا نتیجہ نہیں بلکہ قدرت کی طرف سے متعین ہے اور ہر ایک کو اپنا انجام معلوم ہے۔

    مرثیہ بیانیہ ہونے کی وجہ سے سماجیاتی مطالعے کے لیے بہتر موضوع ہو سکتا تھا لیکن اس صورت حال نے اسے مشکل بنا دیا۔ اس کے باوجود انیس کے مرثیوں کا مطالعہ کرتے وقت بہت سی باتیں ایسی سامنے آئی ہیں جو اس وقت کی سماجی قدروں کی آئینہ داری کرتی ہیں۔ ایسی چیزیں دوسرے مرثیہ نگاروں کے یہاں بھی مل جاتی ہیں۔ بعض لوگوں نے انیس کے مرثیوں کے اس پہلو پراعتراض کیا ہے۔ ان اعتراضات کے سلسلے میں صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ مرثیہ واقعہ کربلا کی تاریخ نہیں ہے بلکہ شہادت امام حسینؑ اور دوسرے شہدائے کربلا کا ذکر ہے۔ عام طور پر سانحہ شہادت اور اس کے بعض اسباب کو لے کر مرثیے لکھے گئے ہیں اور مختلف شعرا نے مختلف انداز سے انہیں پیش کیا ہے۔

    میر انیس کے مرثیوں یا کسی عہد کے ادب کا سماجیاتی مطالعہ کرتے وقت اس عہد کی سماجیاتی، تاریخی اور سیاسی قوتوں، ان کے عمل اور ردعمل پر نگاہ رکھنا ضروری ہے، اس لیے کہ یہ قوتیں صرف اس عہد کی عام زندگی ہی کو متاثر نہیں کرتیں بلکہ اپنے عہد کے فن اور فکر پر بھی اثرانداز ہوتی ہیں۔ آرنلڈ نے POWER OF THE MOMENT AND POWER OF THE MAN یعنی قوت عصر اور قوت فرد کا ذکر کیا ہے۔

    قوت عصر سے مراد کسی مخصوص زمانے اور سماج کے رسم ورواج، توہمات اور مطالبات کا ذکر ہے اور قوت فرد سے مراد شاعر کی تخیل آفرینی، جدت طرازی اور انفرادیت ہے۔ یہ دونوں قوتیں ادب کی تخلیق میں معاون ہوتی ہیں۔ اعلیٰ ادب دونوں کے امتزاج سے وجود میں آتا ہے۔ اگر قوت عصرغالب آ جائے تو شاعر وقت کے ساتھ بہہ جاتا ہے جسے آج کی اصطلاح میں ’’فیشن اور فارمولا‘‘ کہا جا سکتا ہے اور اس کی شاعری اس کی جدت طبع اور جولانئی فکر کی مظہر نہیں بن پاتی۔ اسی طرح اگر قوت فرد قوت عصر پرغالب آ جائے تو شاعر وقت کے مطالبات نہیں پورے کر پاتا، جس کے نتیجے میں اس کی تخلیقات رومانی انتہاپسندی، عینیت اور خود مرکزی کا شکار ہوکر رہ جاتی ہیں۔ میر انیس کی شاعری میں قوت عصر اور قوت فرد کا سب سے بہتر اور سب سے کامیاب امتزاج نظر آتا ہے۔

    میر انیس ۱۷۰۳ء میں پیدا ہوئے اور ۷۱ سال کی عمر میں ۱۸۷۴ءمیں انتقال کیا۔ ۱۸۵۶ء میں انتزاع سلطنت اودھ کا سانحہ ہوا اور ۱۸۵۷ء میں فوجی بغاوت اور اس کے بعد کے ہنگامے لیکن اس کے پہلے کی سو ڈیڑھ سو برس کی تاریخ پر اگر نگاہ ڈالی جائے تو سارے ملک میں سوائے قتل و غارت گری، لوٹ مار، دغا و فریب، بے یقینی و بےاطمینانی کے کچھ نظر نہیں آتا۔ یہاں پر ان تفصیلات میں جانے کا موقع نہیں ہے، اس لیے کہ ان میں بیشتر واقعات لوگوں کی نگاہ میں ہیں لیکن اتنا یاد دلا دوں کہ یہ وہ زمانہ ہے کہ جب مرکز میں بادشاہ کا اثر نہ ہونے کے برابر رہ گیا تھا۔ وہ دوسروں کا دست نگر اور محتاج تھا۔ مرہٹوں اور راجپوتوں کی لوٹ مار نے زندگی اجیرن کر دی تھی۔ صرف اودھ میں شجاع الدولہ کی ایک حکومت ایسی تھی جسے مضبوط کہا جا سکتا تھا۔ وہ بھی بکسر کی شکست کے بعد کمپنی کی چالبازیوں سے کمزور پڑنے لگی تھی۔ بنگال، بہار اور اڑیسہ انگریزو ں کے ہاتھوں میں چلے گئے تھے۔ شجاع الدولہ کی فوج کی تعداد پر پابندی عائد کر دی گئی تھی اور دھیرے دھیرے انگریز نے مکمل قبضے کی طرف بڑی ہوشیاری سے قدم بڑھانے شروع کر دیے تھے۔

    دوسری طرف روہیلوں اور مرہٹوں سے جنگ، تلنگوں کی لوٹ مار، جھلنگوں اور ثابت خانیوں کی لڑائی تھی۔ حافظ رحمت خاں سے لڑائی میں ہزاروں بلکہ لاکھوں آدمیوں کی جانیں تلف ہو گئی تھیں۔ جدھر جو فوجیں جاتیں، آبادیوں کو لوٹ لیتیں، کھیتیوں کو جلا دیتیں۔ نہ عزت وناموس محفوظ تھی اور نہ جان و مال۔ ہر گھر ماتم کدہ بنا ہوا تھا۔ کوئی گھر ایسا نہیں تھا جہاں ایک سے زائد عزیزوں کا ماتم نہ ہو۔ عام زندگی امراء و ریاست سے وابستہ تھی۔ وہ خود غداری، آپس کی سازشوں اور بداعتمادیوں کا شکار تھے۔ جسم لباس سے، پیٹ غذا سے اور خزانے دولت سے خالی ہو چکے تھے۔ شجاع الدولہ نے اپنی بہادری، دور اندیشی اور ہوشیاری سے اودھ کی حکومت کو کسی قدر مستحکم کر دیا تھا لیکن وہاں بھی سکون مدنی زندگی تک محدود تھا۔ علم وادب کا بھی چرچا تھا، فن اور تہذیب کا بھی ذکر تھا لیکن اندرونی بے چینی اور قرب وجوار کے اثرات وہاں بھی پوشیدہ نہیں تھے۔

    ۱۷۷۵ء میں شجاع الدولہ کے انتقال کے بعد آصف الدولہ تخت نشین ہوئے۔ انہوں نے باپ کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کی۔ بظاہر اودھ میں فارغ البالی رہی لیکن انگریزوں کی سازشوں اور چیرہ دستیوں نے انہیں بھی ایک لمحہ سکون کا سانس نہ لینے دیا۔ انہوں نے ایک کوشش شاہ افغان کی مدد سے انگریزوں کو نکال دینے کی کی، لیکن غداروں نے راز فاش کر دیا اور آصف الدولہ کے دست راست راجہ جھاؤلال کو انگریزوں نے ملک بدر کر دیا۔ ۱۷۹۷ء میں آصف الدولہ کا انتقال ہو گیا۔ وہ آخری حکمراں تھے جنہوں نے اتنے طویل عرصے تک حکومت کی۔ ۱۷۹۷ء میں وزیر علی تخت نشین ہوئے لیکن انگریزوں نے تھوڑے ہی عرصے میں انہیں بر طرف کر دیا اور جےپور کے راجہ بھگت سنگھ جنہوں نے وزیر علی کو پناہ دی تھی اور جن کی ماں نے وزیر علی کو اپنا بیٹا بنایا تھا، بدعہدی کرکے ان کے مال و دولت پر قابض ہو گئے اور انہیں ۱۸۰۰ء میں انگریزوں کے حوالے کر دیا، جن کی قید میں ۱۷ سال سے زیادہ گزارنے کے بعد ۳۶سال کی عمرمیں وزیر اعلی کا انتقال ہو گیا۔

    اب مکمل طور پر اودھ کی حکومت انگریزوں کے قبضے میں آ گئی۔ وہ جس کو چاہتے تخت پر بٹھاتے۔ اس سے جس طرح کے معاہدے پر چاہتے دستخط لیتے اور جب چاہتے اس کو معزول کر دیتے۔ ۱۸۲۷ء میں غازی الدین حیدر کے انتقال سے لے کر ۱۸۴۷ء میں واجد علی شاہ کی تخت نشینی (ت ن ۱۸۱۴ء) تک، غازی الدین حیدر ۱۸۲۷ء میں، نصیرالدین حیدر جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انگریزوں نے انہیں زہر دلواکر مار ڈالا ۱۹۳۷ء میں، فریدوں بخت اور ۱۹۳۷ء میں ہی محمد علی شاہ، ۱۸۴۲ء میں امجد علی شاہ اور ۱۸۴۷ء میں واجد علی شاہ۔ یعنی ۲۰ سال میں ۶ حکمراں۔ اور ہر حکمراں کے بعد معاہدے میں ردوبدل کرکے انگریز اپنی حیثیت کو مضبوط کرتے گئے، جس کا نتیجہ ۱۸۵۶ء میں انتزاع سلطنت اودھ کی صورت میں سامنے آیا۔

    اس ساری صورت حال میں جو چند باتیں ہمارے سامنے آتی ہیں، ان میں پہلی بات یہ ہے کہ سیاسی ناپائیداری، سازشوں اور روز کی آپسی جنگوں نے اندر سے زندگی کو کھوکھلا کر دیا تھا۔ کسی کو کسی پر اعتماد نہیں رہ گیا تھا۔ مستقبل کا کوئی بھروسہ نہیں تھا۔ ہر وقت موت کا سایہ تھا۔ ہر جنگ میں ہزاروں جانیں تلف ہو جاتی تھیں۔ مرنے والوں کا نہ کوئی وارث تھا نہ زخمیوں کا کوئی پرسان حال۔ سازشوں کا بازار گرم تھا۔ کوئی کسی کا معاون و مددگار نہیں تھا۔ لوگ اپنے امیر اور حاکم کو چاہتے تھے لیکن معتوب ہونے کے خوف سے نہ اظہار کی جرأت تھی اور نہ حالات کو بدلنے کی طاقت۔ ایسی صورت میں انسانی نفسیات کا ردعمل دوہی صورتوں میں ظاہر ہو سکتا تھا۔ ایک یہ کہ زندگی کے جو لمحات باقی ہیں اور جو اثاثہ موجود ہے اس سے زیادہ سے زیادہ عیش کیا جائے اور کل کی طرف سے آنکھ بند کرکے جتنی خوشی لمحہ موجود سے حاصل کی جا سکتی ہے وہ حاصل کی جائے۔ اس کی تصویر اس سو برس کی تاریخ کے ورق ورق پر دیکھی جا سکتی ہے۔

    دوسرے غم غم کو کم کرتا ہے۔ ہر زندگی عیش وعشرت کے باوجود سوگوار ہے۔ اگر کوئی مرا نہیں تو لٹ جانے اور تباہ ہو جانے کا غم ہے۔ عزت و مرتبے کے ختم ہو جانے کا دکھ ہے۔ دوسروں ک غمگین اور اداس دیکھ کر اپنے دکھ کے بوجھ کا احساس کم ہو جاتا ہے، اس لیے زیادہ بڑے غم میں شامل ہوکر اپنے غم کو بھول جانے کی کوشش عام ہے۔

    اس بات کی طرف توجہ کی ضرورت ہے کہ تاریخ اودھ کی روشنی میں یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس پورے عہد میں مرثیے کے عروج اور مقبولیت کا سبب صرف شیعی حکومت نہیں تھی بلکہ بڑی حد تک وہ سماجی اور سیاسی حالات ذمہ دار تھے جن سے اس عہد کا انسان دوچار تھا اور چونکہ واقعہ کربلا زیادہ بڑا اور غم اندوہ واقعہ تھا، اس لیے اس میں انہیں سکون ملتا اور خراب حالات میں جینے اور مصائب برداشت کرنے کی سکت ملتی تھی۔ اس کے لیے اس سے زیادہ تسلی اور حالات سے سمجھوتہ کرنے کی اور کیا بات ہو سکتی تھی کہ جب نواسہ رسول نے اتنی اذیتیں برداشت کیں تو ایک عام آدمی کی کیا حیثیت ہے۔

    اودھ میں مرثیے کی اتنی ترقی اور مقبولیت کو لوگوں نے سلطنت کے عقائد سے وابستہ کیا ہے لیکن اگر یہ بات صرف شیعی عقائد کی ہوتی تو اس کی مقبولیت بھی انہیں عقائد سے وابستہ لوگوں تک محدود رہنی چاہئے تھی اور مرثیے کو شام، مصر، لبنان، عراق اور ایران میں، جہاں شیعوں کی بڑی تعداد موجود تھی زیادہ مقبولیت حاصل ہوتی، جو ہندوستان میں ہوئی۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ مرثیہ اور مراسم عزا بلاتفریق مذہب وملت اس عہد کے بیشتر غیر شیعہ اور یہاں تک کہ بے شمار غیر مسلم گھروں میں بھی اسی طرح نظر آئیں گے جس طرح شیعہ گھروں میں۔ اس لیے یہ بات شاید غلط نہ ہوکہ اس عظیم قربانی اور واقعہ کربلا کی اپنی اخلاقی، روحانی اور مذہبی اہمیت اور اثر انگیزی کے ساتھ اس کی مقبولیت میں اس سماج کا بھی حصہ ہے جو خود مصائب اور ظلم اور آلام کا شکار تھا۔

    یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ سانحہ کربلا ایک قطعی مختلف تہذیبی و سماجی حالات کے پس منظر میں واقع ہوا لیکن جب ہم مرثیے کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں ان تہذیبی و سماجی حالات کے بجائے زوال آمادہ جاگیردارانہ تہذیب و دربار کے آداب، اس وقت کے اعلیٰ اور اوسط طبقے اور مسلم معاشرے کی قدریں، خوشی وغم کے رسوم، معتقدات اور توہمات نظر آتے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہی ہے کہ وہ کوئی صنف ہو، عصری، سماجی اور تہذیبی طاقتوں کے اثر سے قطعی بے نیاز نہیں رہ سکتی۔ میر انیس کے مرثیوں کو کہیں سے کھول لیجئے، اس کی توانائی دلکشی اور اثر آفرینی، اس کے عصر سے تعلق اور میر انیس کے قوت اظہار میں پوشیدہ نظر آئےگی۔

    اس پس منظر کی روشنی میں میر انیس کے مرثیوں کا سماجیاتی مطالعہ کئی طرح سے کیا جا سکتا ہے۔ میر انیس کا عہد زبان کے اعتبار سے کلاسیکی اقدار یا کلاسیکی قوت عصر کا عہد تھا، جس میں زبان وبیان کی باریکیاں، الفاظ، محاوروں کی صحت، رعایت لفظی ومعنوی پر زور، صنعتوں کا التزام اور فصاحت وبلاغت کے سخت اصول تھے، جن سے انحراف ممکن نہیں تھا۔ میر انیس نے اپنے کلام کو ایک مرصع ساز کی طرح ان محاسن سے آراستہ کیا۔ ان کی زبان اس عہد کی مثالی، شستہ و پاکیزہ زبان تھی۔ انیس نے ان اقدار کا اپنے مرثیوں میں ذکر ہی نہیں کیا ہے بلکہ اس پر فخر بھی کیا ہے،

    طبع ہر ایک کی موزوں قد زیبا موزوں 
    صورت سرو ازل سے ہیں سراپا موزوں 
    نثر بے سجع نہیں، نظم معلی موزوں 
    کہیں سکتہ نہیں آ سکتا کجا ناموزوں

    تول لے عقل کی میزاں میں جو فہمیدہ ہے 
    بات جو منہ سے نکلتی ہے وہ سنجیدہ ہے

    یہ فصاحت یہ بلاغت یہ سلاست یہ کمال
    معجزہ گر نہ اسے کہئے تو ہے سحر حلال

    روز مرہ شرفا کا ہو سلاست ہو وہی
    لب ولہجہ وہی سارا ہو فصاحت ہو وہی
    سامعیں جلد سمجھ لیں جسے صنعت ہو وہی
    یعنی موقع ہو جہاں جس کا عبارت ہو وہی

    لفظ بھی چست ہوں مضمون بھی عالی ہوئے 
    مرثیہ درد کی باتوں سے نہ خالی ہوئے

    یا

    داند آنکس کہ فصاحت بہ کلامے دارد
    ہر سخن موقع و ہرنکتہ مقامے دارد

    کلاسیکیت کا دوسرا نام PERFECTION ہے یعنی جو بات کہی جائے وہ تمام خوبیوں سے آراستہ اور ہر طرح مکمل ہو۔ جو تشبیہ، استعارہ یا علامت استعمال کی جائے وہ اپنے معنی کی ترسیل کرے اور ہر طرح سے مکمل تصویر پیش کرے۔ اسی زمانے میں اودھ میں فن رقص وموسیقی نے عروج پایا۔ یہ دونوں فن بھی کلاسیکی روایت اور سخت اصول اور ضابطے کے فن ہیں۔ رقص میں ایک قدم لغزش کر جائے یا گانے میں ایک سر کی غلطی ہو جائے تو وہ رقاص یا موسیقار معتبر نہیں ہو سکتا۔ وہ عہد ہر فن میں معیار یا اصول کی سخت گیری کا عہد تھا۔ موسیقی، شہ سواری، تیغ زنی کا علم شرفا کی تہذیب و تربیت کا اہم جز تھا۔ مرثیے میں زبان کے جس معیار پر زور ملتا ہے وہ اس عہد کی کلاسیکیت کی دین ہے۔ میر انیس کے ایک بند کی بیت سے اس اثر کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ حضرت علی اکبر کی آواز کی تعریف میں کہتے ہیں،

    شعبے صدا میں پنکھڑیاں جیسے پھول میں 
    بلبل چہک رہا ہے ریاض رسول میں

    یہ میر انیس کی مہارت ہے کہ انہوں نے ’’شعبے صدا‘‘ کی تشبیہ سے اس پورے تہذیبی و سماجی SOPHISTICATION کو مرثیے میں پیش کر دیا ہے۔ جس کی نگاہ میں اس وقت کی تہذیب اور موسیقی کے لوازمات نہیں ہیں وہ اس سے لطف اندوز ہو سکے، اس میں شبہ ہے۔ اسی طرح سلام کا ایک شعر ہے کہ،

    قلم بھی رہ گیا ہر بار نقطہ دے کے ناخن پر
    نہ سوجھی جب کوئی تشبیہ روئے شہ کے خالوں کی

    آج فاؤنٹن پن اور بال پن کے زمانے میں قلم کے ہر بار ناخن پر نقطہ دے کر رہ جانے کے حسن کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ اس زمانے میں کلک کے قلم بنانا، اس پر قط رکھنا اور شگاف دینا ایک فن تھا۔ قلم تراشنے والے اور قط دینے والے ماہر ہوا کرتے تھے۔ لکھتے وقت کچھ سوچنے کی صورت میں قط پر روشنائی خشک ہو جاتی تھی، اس لیے روشنائی کو رواں کرنے کے لیے قلم کو ناخن پر رکھ کر ہلکا سا دباؤ دیتے تھے جس سے ناخن پر نقطہ بن جاتا تھا۔ شعر کی کیفیت کو نثرمیں بیان کرنا بہت مشکل ہے کہ بار بار کوئی تشبیہ ذہن میں آتی ہے، شاعر قلم کو ناخن پر دبا کر لکھنے کے لیے روشنائی کو رواں کرتا ہے لیکن پھر طبیعت مطمئن نہیں ہوئی اور نئی تشبیہ کی فکر میں قلم پھر خشک ہو جاتا ہے اور شاعر امام حسینؑ کے چہرے کے تل کی تشبیہ تلاش کر پانے میں اس طرح اپنے کو ناکام قرار دیتا ہے اور ناخن کے نقطوں کواس گواہی میں پیش کرتا ہے کہ خود اس تل کے علاوہ کوئی دوسری چیز نہیں ہے جس سے تشبیہ دی جا سکے۔

    اس طرح میر انیس نے قلم کے ہر بار نقطہ دے کر رک جانے میں اس سماج اور تہذیب کے ایک نفیس پہلو کو متشکل کر دیا ہے۔ سلام ہی کے ایک اور شعر میں میر انیس نے اس عہد کی تہذیب وشائستگی کو جس طرح پیش کیا ہے، اس سے بہتر کوئی دوسری مثال اردو شاعری سے دینی ممکن نہیں ہے اور نہ اس تہذیب کو پوری طرح جانے بغیر اس سے لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے،

    یہ جھریاں نہیں ہاتھوں پہ ضعف پیری نے 
    چنا ہے جامہ اصلی کی آستینوں کو

    اس عہد کی زندگی کی ساری نفاست اور لبا س کا اہتمام ایک طرف اور ضعف پیری کے جامہ اصلی کے چننے میں فطری زوال آمادگی کا جو پہلو ہے، اس کی اس سے بہتر مثال ممکن نہیں ہے۔ یا اس عہد کی تباہ کاریوں، بدعہدیوں، انقلابات اور انگریزوں کے عہد ناموں کے باوجود ہر نئے حکمراں کے تخت نشیں ہونے پر کچھ نہ کچھ علاقوں کو غصب کر لینے کی تصویر سلام ہی کے ان اشعار میں ملاحظہ کیجئے،

    بلا کسی طرف آئے پہ رخ ادھر ہوگا
    نشانہ ہوں گے ہمیں تیر جس کماں سے چلے

    انہیں کو آج نہیں بیٹھنے کو جا ملتی
    معاف کرتے تھے جو لوگ کل زمینوں کو

    خبر نہیں انہیں کیا بندوبست پختہ کی
    جو غصب کرنے لگے غیر کی زمینوں کو

    زمینوں کی معافی جاگیردارانہ نظام کی مخصوص اصطلاح ہے۔ اسی طرح بندوبست پختہ کے باوجود زمینوں کا غصب کر لینا شاعرانہ تعلی نہیں بلکہ کمپنی کی بدعہدیوں کی نشاندہی ہے۔ اسی سلسلے میں، پھولا شفق سے چرخ پہ جب لالہ زار صبح کا ایک بند ملاحظہ کیجئے۔ جس میں میر انیس نے کلاسیکی زبان کی روایت کو ایک لفظ میں بڑی خوبصورتی اور معنویت کے ساتھ سمیٹ لیا ہے۔ یہ موقع وہ ہے کہ ایک مشہور شامی پہلوان، جس کے نام سے شجاعان شام کانپتے تھے، حضرت قاسم سے جنگ کرنے کے لیے آتا ہے اور شدید جنگ کے بعد حضرت قاسم کے ہاتھوں مارا جاتا ہے،

    عباس نامدار نے پہلو سے دی صدا
    ہاں اب نہ جانے دیجیو احسنت مرحبا
    دشمن کے مار ڈالنے کی بس یہی ہے جا
    سنتے ہی یہ فرس سے فرس کو کیا جدا

    گھوڑا بھی اس طرف کو ادھر ہوکے پھرپڑا
    مارا کمر پہ ہاتھ کہ دو ہوکے گرپڑا

    غازی نے دی صدا کہ وہ مارا ذلیل کو
    بچے نے آج پست کیا مست فیل کو
    کیا منہدم کیا رہ عصیاں کے میل کو
    لو کوفیو گرا دیا حرف ثقیل کو

    دو ہو گئی کمر نہیں تسمہ لگا ہوا
    دیکھو تو آکے لاش کے ٹکڑے یہ کیا ہوا

    ’’حرف ثقیل‘‘ کو گرا دینے کی تشریح اس عہد کی شعریات اور بدیع وبیان کی کلاسیکی روایت سے واقفیت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

    میر انیس کے مرثیوں میں اس عہد کی سماجی وتہذیبی تصویر جاگیردارانہ عہد کے آداب نشست وبرخاست، نفاست وشائستگی، خوردی وبزرگی کا پاس، عورت ومرد، آقا و غلام، عزیز اور دوست کے انداز تکلم میں ملتی ہے۔ درباروں میں بادشاہ اور امراء کے سامنے آنے، کھڑے ہونے، بیٹھنے، بات کرنے اور واپس جانے کے کچھ آداب تھے۔ واقعہ کربلا کا اصل تہذیبی پس منظر کچھ بھی رہا ہو لیکن میر انیس نے اس سارے واقعے کو اپنے تہذیبی منظرنامے میں پیش کیا ہے۔ اس کا اصل سبب قوت عصر کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے جس سے کسی عہد کی ادبی تخلیقات الگ نہیں ہو سکتیں۔ اس کی چند مثالیں، جب کربلا میں واخلہ شاہ دیں ہوا سے ملاحظہ ہوں۔ حضرت امام حسینؑ سخت گرمی میں طویل سفر کے بعد کربلا پہنچتے ہیں اور حضرت عباس ان سے خیمے لگانے کی اجازت طلب کرتے ہیں،

    بولے یہ ہاتھ جوڑ کے عباس نامور
    خیمہ کہاں بپا کریں یا شاہ بحر وبر
    ایذا ہے محملوں میں بہت اہل بیت پر
    بچے ہیں تازگی میں گلوں سے زیادہ تر

    کب سے عماریوں کے ہیں پردے چھٹے ہوئے 
    گرمی کے مارے دم ہیں سبھوں کے گھٹے ہوئے

    کچھ سوچ کر امام دوعالم نے یہ کہا
    زینب جہاں کہیں وہیں خیمہ کرو بپا
    پیچھے ہٹے یہ سنتے ہی عباس با وفا
    جاکر قریب محمل زینب یہ دی صدا

    حاضر ہے جاں نثار امام غیور کا
    برپا کہاں ہو خیمہ اقدس حضور کا

    اور جب حضرت زینب انہیں جگہ طے کرنے کا اختیار دے دیتی ہیں تو کہتے ہیں،

    یہ سن کے خادموں کو پکارا وہ مہ جبیں 
    فراش آکے جلد مصفی کریں زمیں 
    حاضر ہوں آب پاش محل دیر کا نہیں 
    یاں ہوگا خیمہ حرم بادشاہ دیں

    جلد ان کو بھیجو لوگ جو ہیں کاروبار کے 
    لے آؤ اشتروں سے قناتیں اتار کے

    اور اسی درمیان جب شام کا لشکر وہاں پہنچتا ہے تو حضرت عباس کہتے ہیں،

    بولے ملازموں سے یہ عباس با وفا
    دریافت تو کرو کہ ارادہ ہے ان کا کیا
    آتے ہی سرکشی یہ طریقہ ہے کون سا
    کہہ دو کہ اہل بیت کے خیمے کی ہے یہ جا

    لازم رسول زادیوں کا احترام ہے 
    اتریں الگ کہیں یہ ادب کا مقام ہے

    کرسی نشیں ہے لخت دل سیدالبشر
    آئین خسروی سے یہ واقف نہیں مگر
    آتی ہے اڑ کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے گرد ادھر
    کیاہے جو روکتے نہیں باگیں یہ خیرہ سر

    بھولے ہوئے ہیں اس پہ کہ ہم خاکسار ہیں 
    شاید ہوا کے گھوڑے پہ ظالم سوار ہیں

    انیس نے ان بند میں اجازت وتعمیل حکم کی جو صورت پیش کی ہے اور جن آداب خسروی کا ذکر کیا ہے، وہ اس وقت کے جاگیردارانہ معاشرے کا ایک حصہ اور اس وقت کی زندگی کا اہم ترین جز تھا۔ ایک دوسرے مرثیے، فرزند پیمبر کا مدینے سے سفر ہے، میں اس وقت کی تہذیبی زندگی کی تصویر ملاحظہ کیجئے۔ حضرت امام حسین مدینے سے سفر کے لیے تیار ہیں، روانگی کے تمام انتطامات مکمل ہو چکے ہیں، محلے کی عورتیں اور مرد ملنے کے لیے چلے آ رہے ہیں۔

    حاضر در دولت پہ ہیں سب یاوروانصار
    کوئی تو کمر باندھتا ہے اور کوئی ہتھیار
    ہودج بھی کسے جاتے ہیں محمل بھی ہیں تیار
    چلاتے ہیں درباں کوئی آئے نہ خبردار

    ہر محمل وہودج پہ گھٹا ٹوپ پڑے ہیں 
    پردے کی قناتیں لیے فراش کھڑے ہیں

    بیت الشرف خاص سے نکلے شہ ابرار
    روتے ہوئے ڈیوڑھی پہ گئے عترت اطہار
    فراشوں کو عباس پکارے یہ بہ تکرار
    پردے کی قناتوں سے خبردار، خبردار

    باہر حرم آتے ہیں رسول دوسرا کے 
    شقہ کوئی جھک جائے نہ جھونکے سے ہوا کے

    لڑکا بھی جو کوٹھے پہ چڑھا ہو وہ اتر جائے 
    آتا ہو ادھر جو وہ اسی جاپہ ٹھہر جائے 
    ناقے پہ بھی کوئی نہ برابر سے گزر جائے 
    دیتے رہو آواز جہاں تک کہ نظر جائے

    مریم سے سوا حق نے شرف ان کو دیے ہیں 
    افلاک پہ آنکھوں کو ملک بند کیے ہیں

    پہنچی جو ہیں ناقے کے قریں دختر حیدر
    خود ہاتھ پکڑنے کو بڑھے سبط پیمبر
    فضہ تو سنبھالے ہوئے تھی گوشہ چادر
    تھے پردہ محمل کو اٹھائے علی اکبر

    فرزند کمربستہ چپ و راست کھڑے تھے 
    نعلیں اٹھا لینے کو عباس کھڑے تھے

    دربان اور فراش، ہودج اور محمل، پردے اور قناتیں، آقا اور غلام، لڑکوں کو بھی کوٹھے پر سے اتر جانے کا حکم، آنے جانے والوں پر روک، خبردار اور ہوشیار کی آوازیں، عورتوں کے سوار ہونے کے لیے گوشہ چادر کو سنبھال کر کھڑے ہونا اور انہیں سہارا دے کر سواری پر بٹھانا، بیٹوں کا دائیں بائیں دست بستہ کھڑے ہونا، نعلین اٹھانے کے لیے عباس کا مستعد رہنا، یہ تمام باتیں اسی جاگیردارانہ عہد کی سماجی و تہذیبی اقدار ہیں جس سے میر انیس تعلق رکھتے تھے۔

    میر انیس کے ہر مرثیے میں چند ایسے بند ضرور مل جاتے ہیں جو اس عہد کی سماجی و تہذیبی زندگی کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ ان تصاویر کو کہیں امام حسین اور انصار حسین کی گفتگو سے ظاہر کیا گیا ہے، کہیں عورتوں اور بچوں کی گفتگو سے۔ جاگیردارانہ تہذیب میں حفظ مراتب کی بہت زیادہ اہمیت تھی۔ اس حفظ مراتب کا ایک نمونہ، جب قطع کی مسافت شب آفتاب نے۔۔۔ میں عون ومحمد کی اپنی والدہ حضرت زینب سے گفتگو اور حضرت عباس کو فوج حسینی کا علم دیے جانے کے موقع پر دیکھا جا سکتا ہے۔

    تیغیں کمر میں دوش پر شملے پڑے ہوئے 
    زینب کے لال زیر علم آکھڑے ہوئے

    گہہ ماں کو دیکھتے تھے گہہ جانب علم
    نعرہ کبھی یہ تھا کہ نثار شہ امم

    کرتے تھے دونوں بھائی کبھی مشورے بہم
    آہستہ پوچھتے کبھی ماں سے وہ ذی حشم

    کیا قصد ہے علی ولی کے نشان کا
    اماں کسے ملےگا علم نانا جان کا

    کچھ مشورہ کریں جو شہنشاہ خوش خصال
    ہم بھی محق ہیں آپ کو اس کا رہے خیال

    پاس ادب سے عرض کی ہم کو نہیں مجال
    اس کا بھی خوف ہے کہ نہ ہو آپ کو ملال

    آقا کے ہم غلام ہیں اور جاں نثار ہیں 
    عزت طلب ہیں نام کے امیدوار ہیں

    اور جب حضرت زینب حضرت عباس کو علم دیے جانے کی سفارش کرتی ہیں،

    آنکھوں میں اشک بھر کے یہ بولے شہ زمن
    ہاں تھی یہی علیؑ کی وصیت بھی اے بہن
    اچھا بلائیں آپ کدھر ہے وہ صف شکن
    اکبر چچا کے پاس گئے سن کے یہ سخن

    کی عرض انتظار ہے شاہ غیور کو
    چلیے پھوپھی نے یاد کیا ہے حضور کو

    تہذیب کی اس تصویر کو ایک بہت اندوہ ناک موقع پر ملاحظہ کیجئے۔ عون ومحمد جنگ میں شہید ہو چکے ہیں۔ ان کی لاشیں امام حسین خیمے میں لاتے ہیں۔ حضرت زینب گریہ کرتے ہوئے کہتی ہیں،

    یہ بے حجابیاں شہ والا کے سامنے 
    پھیلائے پاؤں سوتے ہو آقا کے سامنے

    اس میں ایک بات اور توجہ طلب ہے کہ ہر تہذیب کی زبان الگ ہوتی ہے بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ ہر زمانے کی زبان کا اپنا ایک کلچر ہوتا ہے۔ وہ ایک طرف اپنے زمانے کے سماج اور تہذیب کو پیش کرتی ہے اور دوسری طرف وہ خود بھی اس زمانے کے سماج اور تہذیب کی شناخت ہوتی ہے۔ میر انیس اپنے مرثیوں میں جس طرح کی گفتگو، محاورے، زبان تراکیب اور الفاظ کا استعمال کرتے ہیں وہ ان کے عہد کی اور اس تہذیب کی شناخت ہیں۔ اسی موضوع پر ایک دوسرے مرثیے، جاتی ہے کس شکوہ سے رن میں خدا کی فوج، سے یہ بند ملاحظہ کیجئے۔ ان کا ایک ایک لفظ اور گفتگو کا انداز اور آداب اپنے عہدکے سماجی و تہذیبی منظرنامے کی تصویر ہیں،

    پھر کر ادھر سے ماں نے جو بیٹوں پہ کی نظر
    سمجھیں علم نہ ملنے سے بیدل ہیں یہ قمر
    ہٹ کر کیا اشارہ کہ آؤ ذرا ادھر
    آئے عقب سے شہ کے سعادت نشاں پسر

    بولیں کہ اب نہ ہوش نہ مجھ میں حواس ہیں 
    قربان جاؤں کیا ہے جو چہرے اداس ہیں

    پردا ہے تو سناؤ الگ چل کے دل کا حال
    دونوں نے عرض کی کہ نہیں کچھ نہیں ملال
    ہاں ہم کوآج بھول گئے شاہ خوش خصال
    اوروں کی پرورش ہے ہمارا نہیں خیال

    کیا ورثہ دار جعفر طیار ہم نہ تھے 
    اس عہدہ جلیل کے حقدار ہم نہ تھے

    انگشت رکھ کے دانتوں میں ماں نے کہا کہ ہا! 
    اب اس کا ذکر کیا ہے جو ہونا تھا ہو چکا
    دیکھو سنیں نہ زوجہ عباس باوفا
    اچھا یہ ہے خوشی کی جگہ یا گلے کی جا

    غصہ نہ اس میں چاہئے جو امر خیر ہو
    واری وہ کون غیر ہے تم کون غیر ہو

    لو اپنے دودھ کی تمہیں دیتی ہوں میں قسم
    اب کچھ کہوگے منہ سے تو ہوگا مجھے بھی غم
    سنتے تھے تم جو کہتے تھے عباس ذی حشم
    دو جاکے ان کو تہنیت عہدہ علم

    صدقے گئی خلاف ادب کچھ سخن نہ ہو
    میری خوشی یہ ہے کہ جبیں پرشکن نہ ہو

    کنبے میں ایک نے بھی اگر سن لیا یہ حال
    کہتی ہوں صاف میں، مجھے ہوگا بہت ملال
    ننھے سے ہاتھ جوڑ کے بولے وہ نونہال
    ہم باوفا غلام ہیں کیا تاب کیا مجال

    دیجے ہمیں سزا جو بل ابرو پہ پھر پڑیں 
    کہئے تو چھوٹے ماموں کے قدموں پہ گر پڑیں

    ہٹ کر اشارہ کرنا، عقب سے آنا، قربان جانا، الگ دل کا حال سنانا، دانتوں میں انگلی رکھ کر ہاں کہنا، واری ہونا، اپنے دودھ کی قسم دینا، صدقے جانا، ننھے سے ہاتھوں کو جوڑنا، چھوٹے ماموں کے قدموں پر گر پڑنا، باوفا غلام ہونا، زبان کے اس کلچر کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس سے اس کے عہد کا تعین کیا جا سکتا ہے۔

    کسی عہد کا سماجیاتی مطالعہ زمانے کے رسم ورواج، معتقدات، توہمات سے بھی کیا جاتا ہے، اس لیے کہ ان کا تعلق صرف زمانی عقائد سے ہوتاہے۔ رسم ورواج اور توہمات مخصوص تہذیبی وسماجی حالات میں وجود میں آتے ہیں اوران حالات کی تبدیلی کے ساتھ رفتہ رفتہ ان کا اثر اور اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں عرصے تک شادی و غمی، سفر، جنگ یا کسی نئے کام کے شروع کرنے کے وقت بعض ایسی رسوم رائج رہی ہیں جنہیں آج کوئی اہمیت حاصل نہیں رہ گئی ہے۔ کسی مخصوص تاریخی وسماجی عہد کے یہ رسم ورواج اور معتقدات اس عہد کی ادبی تخلیقات میں بھی نظر آتے ہیں۔

    موضوع کے لحاظ سے گوکہ مرثیے کا کوئی تعلق اس طرح کی باتوں سے نہیں ہے لیکن کوئی صنف اپنے عہد کے سماجیاتی اثرات سے قطعی طور پر باہر نہیں رہ سکتی۔ کوئی ادب قوت عصر کی نفی کرکے اپنے قاری کے جذبات تک نہیں پہنچ سکتا۔ اس لیے مرثیے میں بھی معتقدات اور رسوم ورواج کا نظر آنا فطری بات ہے۔ پھر میر انیس نے مرثیے میں مختلف طرح کے کرداروں کی کثرت سے اس کا ایک جواز پیدا کر لیا۔ مثلاًیہ تین بند ملاحظہ کیجئے۔ حضرت عباس کوعلم ملا ہے اور زوجہ حضرت عباس ان کی باتیں سن کر وہا ں آتی ہیں،

    یہ سن کے آئی زوجہ عباس نامور
    شوہر کی سمت پہلے کنکھیوں سے کی نظر
    لیں سبط مصطفے کی بلائیں بہ چشم تر
    زینب کے گرد پھر کے وہ بولی یہ نوحہ گر

    فیض آپ کا ہے اور تصدق امام کا
    عزت بڑھی کنیز کی رتبہ غلام کا

    سر کو لگا کے چھاتی سے زینب نے یہ کہا
    تو مانگ کوکھ سے ٹھنڈی رہے سدا
    کی عرض مجھ سی لاکھ کنیزیں ہوں تو فدا
    بانوئے نامو ر کو سہاگن رکھے خدا

    بچے جئیں ترقی اقبال و جاہ ہو
    سائے میں آپ کے علی اکبر کا بیاہ ہو

    قسمت وطن میں خیر سے پھر شہ کو لے کے جائے 
    یثرب میں شور ہوکہ سفر سے حسینؑ آئے 
    ام البنین جاہ وحشم سے پسر کو پائے 
    جلدی شب عروسی اکبر خدا دکھائے

    مہندی تمہارا لال ملے ہاتھ پاؤں میں 
    لاؤ دلہن کو بیاہ کے تاروں کی چھاؤں میں

    بلائیں لینا یا کسی کے گرد پھرنا یعنی کسی پر صدقے ہونا ایک مخصوص سماجی تہذیب SOCIAL CULTURE کی علامت ہے۔ اسی طرح ’’مانگ کوکھ‘‘ سے ٹھنڈی رہنے کی دعا، دولہا کے ہاتھ پاؤں میں مہندی ملنا اور تاروں کی چھاؤں میں دلہن کو بیاہ کرلانا اس عہدکے رسم ورواج کو پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح جب حضرت قاسم شامی پہلوان پر فتح پاتے ہیں تو امام حسین اور والدہ حضرت قاسم کے جذبات کو جن الفاظ میں پیش کیا ہے وہ خود اپنے عہد کی نشاندہی کرتے ہیں،

    فرمایا جان عم یہ بشر تھا کہ دیو زاد
    ڈھایا ہے تم نے کفر کا گھر خانہ عناد
    آؤ کہ تم یہ پھونک دیں پڑھ کر و ان یکاد
    چلائی در سے ماں کہ بر آئی مری مراد

    بیوہ کا لال بچ گیا صدقے حسینؑ پر
    اسپند کوئی کر دے مرے نور عین پر

    یا

    میری طرف سے کوئی بلائیں تو لینے جائے 
    عین الکمال سے تجھے بچے خدا بچائے

    اس طرح کی بہت سی مثالیں خاص طور پر حضرت قاسم کی شادی کی تفصیلات یا دولہا کی شہادت کے ذکر سے مرثیے میں ہندوستانی تہذیب یا مقامی اثر کے تحت دی جاتی رہی ہیں۔ یہاں انہیں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ یہ مثالیں ہندوستانی تہذیب اور مقامی اثرات سے بھی تعلق رکھتی ہیں لیکن دراصل ان کی جڑیں زیادہ گہری ہیں اور وہ سماجیاتی مطالعے سے واضح ہوتی ہیں کہ یہ اثر اس وقت کے سماج میں رائج معتقدات اور توہمات کا تھا اور جس صورت میں ان کا ذکر آتا ہے وہاں اگر اسے پیش نہ کیا جاتا تووہ اثر انگیزی نہ پیدا ہوتی۔ اس سلسلے میں یہ بات قابل غور ہے کہ اگر آج کا شاعرانہیں حالات کو مقامی اثرات یا ہندوستانی تہذیب کے سلسلے میں نظم کرے تو وہ اثرنہیں ہوگا۔ کیونکہ آج ان رسم ورواج کی وہ معتقدانہ حیثیت نہیں رہ گئی ہے۔

    جاگیردارانہ عہد میں دو چیزیں شرافت، عزت وآبرو، شان وشوکت، شائستگی، دولت و شجاعت کی شناخت سمجھی جاتی تھیں اور کسی کی حیثیت اور جاہ ومنصب کا اندازہ اسی سے کیا جاتا تھا، جس میں ایک تلوار تھی اور دوسرا گھوڑا۔ میرانیس نے ان دونوں چیزوں کو بڑے ہی اہتمام کے ساتھ پیش کیا ہے۔ یہاں پر صرف ایک بندکی بیت پیش ہے جس میں انہوں نے مختلف طبقوں کے لیے تلوار کی اہمیت کو نظم کیا ہے،

    اشراف کا بناؤ رئیسوں کی شان ہے 
    شاہوں کی آبرو ہے سپاہی کی جان ہے

    اس بیت میں تلوا رکی جو صفت جس طبقے کے لیے استعمال ہوئی ہے، اسے اس عہد کے سیاق وسباق میں دیکھئے تو اس کی سماجی اہمیت اور میر انیس کی بلاغت کا اندازہ ہوگا۔

    جاگیردارانہ عہد کی ایک خصوصیت مدنیت ہے۔ یعنی شہر، زندگی، شرافت اور شائستگی کا محور بن جاتا ہے۔ سارے صناع اور فنکار، امراء اور درباروں کے گرد وپیش اکٹھا ہو جاتے ہیں، جن میں شاعر بھی شامل ہیں۔ اس لیے ان کی شاعری اسی مدنی زندگی کے آثاروتہذیب سے اپنی غذا حاصل کرتی ہے۔ میر انیس کے مرثیوں کی بھی یہی صورت حال ہے۔ اس لیے اس میں استعمال ہونے والی تمام تشبیہات، استعارات، علامات اور پیکر مدنی زندگی سے مستعار ہیں۔ میر انیس کے مرثیوں میں بار بار آنے والی تشبیہات، استعارات اور علامات کو شعلہ طور، کنار شوق، شعلہ رنگ، کنعاں، یاقوت، مشک، نرگس، درشہوار، شمع، پتنگ، مانی، بہزاد، رزم و بزم، گل وگلزار، سروشمشاد، نسیم سحری اور اس طرح سے ان گنت تراکیب وتشبیہات سب مدنی زندگی سے عبارت ہیں۔ تاریخی وسیاسی سانحات و واقعات کی طرف براہ راست اشارہ کرنے والے اشعار،

    بازار بند ہو گئے جھنڈے اکھڑ گئے 
    فوجیں ہوئیں تباہ محلے اجڑ گئے

    افسر سے فوج فوج سے افسر چھٹے ہوئے 
    سب چھاؤنی اجاڑ محلے لٹے ہوئے

    کے ساتھ انیس کے مرثیوں کا پورا جمالیاتی نظام اس عہد کی ایسی قدروں سے جڑا ہوا ہے جس کی تمام معنوی تہوں سے سماجیاتی مطالعے کے بغیر لطف اندوز نہیں ہوا جا سکتا۔ اس کے علاوہ اودھ کی سماجی تاریخ اور جاگیردارانہ تہذیب کی قدریں ان کے متن مضمون میں اس طرح شیروشکر ہو گئی ہیں کہ وہ واقعہ کا ایک حصہ بن گئی ہیں۔

     

    حاشیہ

    (۱) Rene Wellek and Austin Warre 'Literature and Society' Theory ov Literature Page, 90

    (۲) Plakhanov Art and Social Life, Page 60

    (۳) Livin L. Schucking The Sociology of Literary Taste, Page 9

    (۴) S N A Rizvi, The Sociology of Literature of Politick Edmund Burk Vol-I 1982 Page 5-6

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے