چند لمحے بیدی کی ایک کہانی کے ساتھ: ایک باپ بکاؤ ہے
راجندر سنگھ بیدی کے کردار اکثر و بیشتر محض زمان ومکاں کے نظام میں مقید نہیں رہتے بلکہ اپنے جسم کی حدود سے نکل کر ہزاروں لاکھوں برسوں کے انسان کی زبان بولنے لگتے ہیں۔ اس طرح ایک معمولی واقعہ، واقعہ نہ رہ کر انسان کے ازلی اور ابدی رشتوں کے بھیدوں کا اشاریہ بن جاتا ہے۔
بیدی اس سے پہلے بھی عمرانیاتی معاہدوں کے تحت دیے گئے انسانی رشتوں کے ناموں کے بارے میں سوال اٹھا چکے ہیں اور شادی کے مرکزی ادارے کی سماجی نوعیت اور معنویت کو معرض بحث میں لا چکے ہیں۔ زیر نظر کہانی میں بیدی نے اس سے بھی آگے جانے کی کوشش کی ہے اور رشتوں کے رشتے یعنی آبائی رشتے کے بارے میں بعض بنیادی سوال اٹھائے ہیں۔ عورت اور مرد کا رشتہ عروج کو پہنچ کر ماں اور باپ کے رشتے میں ڈھلتا ہے اور اسی رشتے سے دوسرے سارے رشتے جڑے ہوئے ہیں۔ قدیم ہندوستانی فکر کی رو سے بنیادی عنصر شکتی یعنی عورت یعنی جنس ہے جو تخلیق کائنات کا رمز ہے۔ شکتی پر اصرار مادری بنیاد کی وجہ سے ہے۔ پدری بنیاد پر اصرار آریائی اور سامی اقوام سے لے کر جدید مغربی اقوام تک میں رائج ہے۔ اس میں اصل عنصر آدم یعنی مرد ہے۔ یہ آویزش شاید کہانی لکھتے ہوئے بیدی کے تحت الشعور میں رہی ہو۔
لیکن اصل سوال یہ ہے کہ جب سب رشتے ناتے عمرانیاتی معاہدوں کے طور پر امتداد زمانہ سے بن بنا گئے اور انسان نے انھیں قبول کر لیا ہے یعنی ان میں سے کسی کا تعلق فطری جبریت سے نہیں اور انسان نے انھیں سماجی سمجھوتوں کے طور پر اختیار کر رکھا ہے تو کیا انھیں پلٹا بدلا جا سکتا ہے؟ اگر ایسا ممکن ہو سکے تو اس کے نتائج کیا ہوں گے، نیز کیا کوئی رشتہ ایسا بھی ہے جو عمرانیاتی معاہدوں سے بےنیاز ہو یعنی فطری جبریت سے متعلق ہو اور جس سے سب دوسرے رشتوں کے تقاضے پورے ہو جاتے ہوں؟
بیدی مرد سے زیادہ عورت کے آرکی ٹائپ کے مرقع نگار ہیں، لیکن یہاں ماں کے ذکر سے بات نہ بنتی، عورت خواہ ماں ہو، بیٹی، بہن یا بیوی ہو، مرد کے وضع کردہ عمرانیاتی نظام میں وہ بکاؤ چیز ہے اور اس کا مول ٹکے پیسے سے لے کر زندگی دے دینے تک سے چکایا جاتا ہے۔ چنانچہ ماں کو بکاؤ کہنے سے کوئی بات نہ بنتی، جبکہ ’’باپ بکاؤ ہے‘‘ کہنے سے بنیادی سوال قائم ہو جاتا ہے اور یک لخت ایک تحیر زا صورت حال سامنے آ جاتی ہے۔ یعنی عورت (ماں، بیٹی، بہن، بیوی) تو بِک سکتی ہے، جیساکہ مرد کی دنیا میں آئے دن ہوتا ہے، لیکن کیا کبھی کوئی باپ بھی بکاؤ ہو سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر سماج و رواج پر چوٹ پڑےگی یا کوئی بات اس کی توقعات کے خلاف ہوگی تو سب سے پہلے انتظامیہ یعنی پولیس والے پوچھ تاچھ کریں گے لیکن باپ گاندھرو داس موجود ہے اور پولیس سے دو ٹوک کہتا ہے کہ وہ بکنا چاہتا ہے۔
چنانچہ قانون بے بس ہے۔ گاندھرو داس کی بیوی کی موت ہو چکی ہے۔ وہ اپنی زیادتیوں کو یاد کرکے راتوں میں اٹھ جاتا ہے اور اپنا گریباں پھاڑ کر تیز تیز ٹہلتا ہے۔ اس کے بچے جو سب بڑے ہو چکے ہیں، اپنے اپنے کام سے لگ چکے ہیں، وہ اپنے باپ کو رنڈوا نہیں ’’مرد بدھوا‘‘ کہتے ہیں۔ بیدی یہاں بھی طنز کرتے ہیں کہ بدھوا صرف عورت ہی نہیں مرد بھی ہو سکتا ہے کیونکہ سارا معاملہ اختیاری سہاروں کا ہے۔ اشتہار پڑھنے والے سوچتے ہیں اگر باپ خریدیں گے تو اس کو پالنا بھی پڑےگا، لیکن پالے بچے جاتے ہیں کہ باپ؟ نیز باپ تو وہ ہوتا ہے جس کے نطفے سے اس کا بیٹا ہو۔ عمرانیاتی نظام میں بیٹاتو حرامی ہو سکتا ہے، لیکن کیا باپ بھی ’’حرامی‘‘ ہو سکتا ہے۔
گاندھرو داس کو طرح طرح کے لوگ خریدنے آتے ہیں۔ ان میں چند لوگ ایسے بھی ہیں جو انسان سے زیادہ اس کے مذہب کو اہم جانتے ہیں اور پہلا کام یہ کرنا چاہتے ہیں کہ گاندھرو داس کا مذہب بدلا جائے۔ خریدنے والوں میں عورتیں بھی ہیں۔ یہاں دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ جب مرد عورت کو خرید سکتا ہے تو کیا ہمارے سماجی سمجھوتے اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ عورت مرد کو خریدے۔ بیدی کے فن کا ایک خاص پہلو چونکہ عورت اور مرد کے ازلی رشتے کے بھیدوں کی گرہ کشائی ہے، بیدی یہاں نہایت سہولت سے اشارہ کرتے ہیں کہ ہمارے سماجی معاہدوں نے عورت کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں جو ’’وہ کہتی ہے اس سے اُلٹ چاہتی ہے۔‘‘ اس میں بدن کو سلانے اور روح کو جگانے کی صلاحیت ہی نہیں رہی۔ جس طرح میر اپنے شعر شور انگیز سے پہچانے جاتے ہیں، میرے نزدیک بیدی کی پہچان ان کے ایسے جملوں سے ہوتی ہے جہاں وہ انسانی روح کی گہرائیوں میں سفر کرتے ہیں۔ اردو کے افسانوی ادب میں ذیل کی قسم کے جملے بیدی ہی کے قلم سے نکل سکتے ہیں،
’’تم پلنگ کے نیچے کے مرد سے ڈرتی ہو اور اسے چاہتی ہو۔ تم ایسی کنواریاں ہو جو اپنے دماغ میں عفت کی رٹ ہی سے اپنی عصمت کو بے مہار لٹواتی ہو۔۔۔ دراصل تمھارے ہجّے ہی غلط ہیں!‘‘
’’عورت کو کیا ہوتا ہے جب وہ عورت نہیں رہتی۔ وہ مرد ہی سے اپنے عورت نہ رہ جانے کا بدلا لیتی ہے۔ وہ اسے عین اس وقت بیچ چوراہے کے ننگا اور ذلیل کرتی ہے، جب اسے عورت کی ضرورت ہو۔ وہ اس وقت اسے کوسنے دیتی ہے، جب وہ ناشتہ کرکے باہر جانے کی تیاری کر رہا ہو۔ گویا باہر کی بے رحم دنیا سے لڑپانے سے پہلے ہی وہ اسے ادھ موا کر دیتی ہے۔ پھر شام کو جب وہ اپنا مردہ کشاں کشاں گھر لاتا ہے تو پھر اسے جلی کٹی کا کفن اڑھا کے لٹاتی اور خود رو نے، بین کرنے میں تسکین پا لیتی ہے۔‘‘
یوں عمرانیاتی رشتوں کی چادر ہٹا دینے کے بعد عورت مرد کی کشش کا سارا معاملہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے اساطیری ہے۔ زیر نظر کہانی پڑھتے ہوئے بھی ذہن کئی مقدس اور غیرمقدس روایتوں کی طرف راجع ہوتا ہے، لیکن لگتا ہے کہ کہانی لکھتے ہوئے بیدی کے ذہن پر کچھ نہ کچھ بوجھ خدا کے آبائی تصور کا رہا ہوگا کیونکہ اصل باپ اور بڑا باپ تو خدا ہی ہے، اور حق تو یہ ہے کہ خدا بھی اپنے وجود کے لیے خریداروں یعنی اپنانے والوں کا محتاج ہے، کیونکہ اگر خدا کو اپنانے والے نہ ہوں گے تو اسے تسلیم کون کرےگا۔ ’’بنا بیٹے کے کون باپ ہو سکتا ہے۔‘‘
خدا کے آبائی تصور پر اصرار یوں تو تمام سامی مذہبوں میں ملتا ہے، لیکن سب سے واضح اصرار مسیحی روایت کا حصہ ہے۔ خدا اور خدا کا بیٹا اور تیسرا عنصر روح القدس۔ لیکن یہ سب مقدس ہی مقدس ہے جبکہ خدا کے بیٹے تو گناہ کی سعادت سے بھی بہرہ اندوز ہیں۔ سامی اور ہندوستانی روایتوں کے اس لطیف فرق سے بیدی اپنے تخلیقی عمل کے دوران ضرور سرشار رہے ہوں گے۔ ابن مریم کو تو خدا کا بیٹا تسلیم کر لیا گیا لیکن خود مریم۔۔۔ ازلی ماں۔ بیدی جس کے تحت الشعور کے نہاں خانوں میں شکتی بسی ہوئی ہے، ازلی ماں کو کیسے بھول سکتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ بیدی ازلی ماں اور ازلی باپ کے آئینے میں کسی وحدت کی تلاش کر رہے ہوں یعنی یہ کہ دوسرے تمام رشتے ایک ہی رشتے کی مختلف پرتیں ہیں۔
عورت خواہ وہ کسی بھی روپ میں آئے، عورت ہے اور مرد یعنی باپ کے وجود کو مکمل کرتی ہے اور باپ کا تصور ظل ہے خدا کے تصور کا۔ لیکن یہ ظل ’’خدا کا بیٹا‘‘ نہیں بلکہ گناہ آلودہ انسان ہے۔ دوسرے یہ کہ خدا یعنی اصل باپ بھی بذاتہ کچھ نہیں جب تک انسان اسے دل میں بٹھائے نہیں اور یہ کہ سکھ شانتی نہ باپ/ خداکی ذات میں ہے نہ بیٹے / خریدار کی ذات میں بلکہ قبولیت یعنی اپنانے کے عمل میں ہے۔
گاندھرو داس اپنی پتنی کے بارے میں آخری خواب میں دیکھتا ہے کہ وہ دوسری عورت کو دیکھتے ہی واویلا شروع کردیتی ہے اور گھر سے باہر روتی چلاتی ہوئی بھاگتی جاتی ہے۔ پھر وہ لکڑی کی سیڑھی کے نیچے خود کو دفن کر لیتی ہے۔ مگر مٹی ہل رہی ہے اور وہ سانس لے رہی ہے۔ گاندھرو داس اپنی پتنی کو مٹی کے نیچے سے نکالتا ہے۔ یہ مٹی شاید موت کی نہیں، عورت مرد کے رشتے کے سرد ہو جانے کی بھی ہو سکتی ہے۔ اس کی تصدیق یوں ہوتی ہے کہ پتنی کے دونوں بازو غائب ہیں اور ناف کے نیچے دھڑ بھی نہیں۔ یعنی وہ جسمانی علائم ہی نہیں جن سے رشتہ استوار ہوتا ہے۔ گاندھرو داس اس پتلے سے پیار کرتا ہوا اسے زندگی کی سیڑھیوں سے اوپر تو لے آتا ہے لیکن گاندھرو داس جو بہت بڑا گائک ہے، اس کا گائن اس واقعے کے بعد بند ہو جاتا ہے اور یہ گائن برسوں بعد شروع ہوتا ہے اس وقت جب دروے، گاندھرو داس کو، باپ کی حیثیت سے خرید لیتاہے اور ’’آم کے پیڑوں پر بور پڑتا ہے اور کوئل کوکتی ہے۔‘‘
بیدی کے ہاں موسم کا بیان مجرد حیثیت سے آہی نہیں سکتا۔ وہ اسے ہمیشہ معنیاتی فضا کی توسیع کے لیے استعارتی رنگ میں پیش کرتے ہیں۔ اس سے پہلے رشتوں کے زوال اور سرد مہری کا ذکر پت جھڑ کے تناظر میں تھا۔ ’’سوکھے سڑے پتے اتنی تیزی سے گر رہے تھے کہ جھاڑو دینے والے اٹھاتے اٹھاتے تھک جاتے اور انھیں گھر لے جاکر جلانے کی بھی اجازت نہیں تھی۔‘‘ کیونکہ رشتوں کے زوال کی سردی میں گرمی کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ پت جھڑ میں چھینٹا پڑتا بھی ہے تو اس دن جب پجاری مسکراکر مہترانی چھبّو کو دیکھتا ہے اور اسے ’’پھول پتے‘‘ لے جانے کی اجازت دیتا ہے۔
بیدی نے اس کہانی میں انسانی رشتوں کو ایک ایسی پرزم سے گزارنے کی کوشش کی ہے جس کے بعد اگرچہ سب کی شکل بدل جاتی ہے لیکن رنگ سب کے نکھر کر سامنے آ جاتے ہیں۔ باپ تو بکا ہی بکا اور جب بکا یعنی دروے نے رضاکارانہ طور پر گاندھرو داس کو باپ اختیار کر لیا تو دروے کو گاندھرو داس نے بھی رضاکارانہ طور پر بیٹا اختیار کر لیا۔ انسانی رشتوں کا یہ اختیاری مرقع مکمل ہوتا ہے ایک ایسی عورت کے تصور سے جو نہ تو گاندھرو داس کی سماجی بیوی ہے نہ دروے کی سماجی ماں یعنی جو نہ نطفے کے رشتے کی سماجی بیٹی ہے نہ سماجی بہن ہے۔ لیکن باپ اور بیٹا اسے بالترتیب ان حیثیتوں میں قبولتے اور برتتے ہیں۔ یہ عورت دیویانی ہے۔
بیدی کے اساطیری تخیل کی پرواز دیویانی کے نام ہی سے ظاہر ہے۔ دیویانی سے معاً ازلی عورت کا تصور ابھرتا ہے۔ دیویانی اور یایاتی کے قصے کے یوں تو کئی استعاراتی پہلو ہیں لیکن یہاں اس کی معنیاتی رمزیت یہی ہے کہ دیویانی جو شنکر کی بیٹی ہے، اسے برہسپتی کے بیٹے کچ کا، جس کی محبت میں وہ گرفتار ہوگئی تھی، شراپ ہے کہ اس کا ازدواجی /جنسی تعلق برہمن سے نہیں، کھتری سے ہوگا یعنی اس کا جنسی سفر سماجی معاہدوں کی ڈگر پر نہیں ہوگا۔ زیرنظر کہانی میں گاندھرو داس بھی شاید محض اتفاقی نام نہیں۔ گاندھرووں کا گہرا رشتہ مرد کی ازلی اور جبلی خواہشات سے ہے۔ وہ سوریہ کی آگ کی تجسیم ہیں اور legendary طور پر سنگیت، نرتیہ اور راگ رنگ کے رسیا بتائے گئے ہیں۔ اندر کی محفلیں گاندھرو سجاتے ہیں اور تمام اپسرائیں ان کی محبوبائیں ہیں۔
گاندھرووں کے برہما کی ناک یعنی خالق کی سانس سے یا ارشٹھا کے بطن سے پیدا ہونے کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں، لیکن اتنی بات تمام روایتوں میں مشترک ہے کہ گاندھرو جنسی و مادی لذتوں کے پیکر ہیں، سوم رس یعنی زندگی اور صحت وقوت کا رس انھیں نے بنایا اور ان کی سب سے بڑی کمزوری عورت ہے۔ گاندھرو داس اور دیویانی کا تعلق ذہن کو عورت مرد کے ازلی رشتے کی طرف موڑ دیتا ہے۔ دیویانی اپنی سہیلی سرشٹھا سے اپنی بے عزتی کا بدلا لینے کے لیے اسے اپنی ملازمہ تو بنا لیتی ہے لیکن یایاتی کو اسی سرشٹھا سے محبت ہو جاتی ہے اور اس کی ہوس اتنی بڑھتی ہے کہ وہ اپنے بیٹوں سے جوانی ادھار لے لے کر ہزار برس تک جوان رہتا ہے اور جسمانی اور مادی لذتوں سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ دیویانی اگرچہ عمر میں گاندھرو داس کی بیٹی سے بھی چھوٹی ہے، لیکن گاندھرو داس عمر کے زوال کی منزل میں بھی اس سے تمام رشتوں کی لذتوں کا کسب فیض کرتا ہے۔
’’میرے پتا دراصل عورت کی جات ہی سے پیار کرتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے، جیسے انھوں نے پرکرتی کے چتون دیکھ لیے ہیں، جن کے جواب میں وہ مسکراتے ہیں اور کبھی کبھی بیچ میں آنکھ بھی مار دیتے ہیں۔ انھیں شبد بیٹی، بہو، بھابی، چاچی، للّی، منیا سب اچھے لگتے ہیں۔ وہ بہو کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اس کے گال بھی چوم لیتے ہیں اور یوں قید میں آزادی پا لیتے ہیں اور آزادی میں قید۔‘‘
دیویانی کی ایک سطح یہ ہے کہ وہ پر کرتی ہے اور گاندھرو داس پرش۔ دیویانی یعنی پرکرتی پرش کے مقابلے میں ہمیشہ نوخیز رہتی ہے۔ بیدی کہتے ہیں دیویانی بچپن ہی سے آوارہ ہو گئی تھی۔ جب سے اس کا باپ مرا تھا تب سے وہ گھبراکر ایک مرد سے دوسرے، دوسرے سے تیسرے کے پاس جاتی ہے۔ ’’اس کا بدن ٹوٹ ٹوٹ جاتا تھا، لیکن روح تھی کہ تھکتی ہی نہ تھی۔۔۔ دیویانی کو دراصل باپ کی تلاش تھی۔‘‘
بیدی کی کہانی اسی چونکا دینے والے احساس کے ساتھ مکمل ہوتی ہے کہ اصل رشتہ ایک ہی ہے، خلق کرنے کے process کا، جس کا دوسرا رخ اپنانا اور قبولنا ہے۔ یہی رشتہ پرش اور پرکرتی کا ہے۔ خدا اور خدا کے رشتے کا جو مسیحی استعارہ کہانی کے شروع میں ابھرا تھا، اختتام تک پہنچتے پہنچتے اپنے پھیلاؤ اور اٹکاؤ کے ساتھ پوری طرح سامنے آ جاتا ہے، کیونکہ دروے کا ورکس منیجر فلپ کیتھولک ہے۔ خدا اور خدا کے بیٹے کا مقدس آبائی رشتہ تو اس کی سمجھ میں آتا ہے، لیکن اس کا ذہن ایسے کسی آبائی تصور کو قبول نہیں کر سکتا جس کی تکمیل کے لیے جنس یعنی دیویانی کے وجود کی اتنی ہی ضرورت ہو جتنی خدا کی۔ ’’گناہ آلود‘‘ جنس کو تقدس کا درجہ صرف ہندوستانی روایت میں حاصل ہے اور تقدس بھی ایسا جو خدا یعنی آبائی باپ کا حصہ ہے۔
چنانچہ گاندھرو داس پرش ہے اور دیویانی پرکرتی، ازلی عورت، ازلی ماں، مریم یعنی وہ مریم جو پرش اور پرکرتی کے رشتے میں پرکرتی ہے اور تخلیق کا سرچشمہ ہے۔ رشتہ صرف ایک ہے۔ اس کے تمام دوسرے روپ ہمارے عمرانیاتی نظام اور فلسفوں کی بنائی ہوئی قیدیں ہیں۔ ’’میرا بیٹا وہ بھی باپ ہے۔‘‘ تبھی تو بیدی کہتے ہیں، ’’تم انسان کو سمجھنے کی کوشش نہ کرو، صرف محسوس کرو۔‘‘ دروے سمجھنے سوچنے کے پھیر میں نہیں پڑتا۔ وہ محسوس کرتا ہے۔ اس کو آنکھ ملانے کی ہمت ہی نہیں پڑتی۔ ’’وہ بس اپنا لیتا ہے۔‘‘ اپنانے اور قبولنے کا یہ عمل ہی اعتقاد ہے اور اسی دولت سے سرشار ہوکر دروے کہتا ہے کہ جب سے اس نے گاندھرو داس کو باپ کیا ہے یعنی قبولا ہے تب سے گاندھرو داس کی ’’نگاہوں کے مرم سے اسے کتنی شانتی کتنی ٹھنڈک ملتی ہے۔ وہ جوہر وقت ایک بے نام ڈر سے کانپتا رہتا تھا، اب نہیں کانپتا۔ اسے ہر وقت اس بات سے تسلی رہتی ہے۔۔۔ وہ تو ہے۔۔۔‘‘
گویا رشتوں کے نام انسان کے بنائے ہوئے ڈھکوسلے ہیں، رشتہ صرف ایک یعنی اپنانے یا قبولنے کا ہے۔ اسی سے زندگی میں سکھ شانتی کے دریچے کھلتے ہیں اور ٹھنڈک ملتی ہے۔ بیدی کا یہ امتیاز یہاں بھی قائم ہے کہ عام قاری کے لیے کہانی کی واقعاتی سطح پر دلچسپی کا خاصا سامان موجود ہے لیکن کہانی کا فکری اور استعاراتی نظام بھی اپنی جگہ پر ہے۔ اگرچہ اس سے لطف اندوز ہونے کے لیے ذوق وظرف کی اور ذہن سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.