Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چراغ بجھ گیا دود چراغ باقی ہے، سریندر پرکاش کی یاد میں

سلام بن رزاق

چراغ بجھ گیا دود چراغ باقی ہے، سریندر پرکاش کی یاد میں

سلام بن رزاق

MORE BYسلام بن رزاق

    ’’اس بات سے تو خیر سبھی متفق تھے کہ وہ مکمل طور پر آزاد آدمی ہے۔ اور آزاد سے مراد ایسی شخصیت تھی جس پر زمین کی کشش بھی اثر انداز نہ ہو سکتی ہو۔ وہ ہم سے جب بھی ملتا کچھ اس طرح جیسے سمندر سے کوئی لہر اٹھ کر آئے اور پھر ساحل کی ریت پر پھیل جائے اور دور دور تک سمندر کے گمبھیر پانی کے سوا کچھ بھی دکھائی نہ دے۔ اس کی باتوں میں لوگوں پر جادو کر دینے کی طاقت تھی۔‘‘

    یہ پیرگراف سریندر پرکاش کی ایک کہانی ’’آپ بیتی‘‘ کی ابتدائی سطریں ہیں مگر جو لوگ سریندر پرکاش کو ذرا قریب سے جانتے ہیں، انھیں اندازہ ہوگا کہ مذکورہ بالا سطروں میں ان کی شخصیت کی کیسی سچّی جھلک موجود ہے۔

    سریندر پرکاش کی شخصیت طرحدار بھی تھی اور تہہ دار بھی اگرچہ کہ وہ دوستوں سے بہت بے تکلفی سے ملتے تھے اور جی کھول کر باتیں کرتے تھے۔ اس کے باوجود ہر ملاقات کے بعد ایسا لگتا، ان کی شخصیت کا کوئی نہ کوئی گوشہ ان چھوا، ان دیکھا رہ گیا ہے۔ وہ اپنے افسانوں کی طرح کبھی پوری طرح منکشف نہیں ہوتے تھے۔

    سریندر پرکاش سے میرے پچیس تیس برس کے مراسم تھے۔ ان برسوں میں ہماری سیکڑوں ملاقاتیں اور ہزاروں باتیں ہوئی ہوں گی مگر جب میں نے ان کی شخصیت پر مضمون لکھنا شروع کیا تو اندازہ ہوا کہ میں انہیں کتنا کم جانتا تھا۔

    مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کہ سریندر پرکاش سے میری پہلی ملاقات کب اور کیسے ہوئی؟ سریندر پرکاش غالباً بمبئی میں ۷۳۔ ۱۹۷۲ ؁ء کے آس پاس وارد ہوئے تھے۔ بمبئی آنے سے قبل ان کے افسانوں کی شہرت بمبئی میں اپنے قدم جما چکی تھی اور ان کے پہلے افسانوی مجموعہ ’’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘‘ ادبی حلقوں میں موضوع بحث بن چکا تھا۔ انور خاں، انور قمر، علی امام نقوی اور خاکسار کے ادبی سفر کا آغاز ہوچکا تھا اور ہماری تخلیقات آج کل، شاعر، کتاب اور آہنگ جیسے ادبی پرچوں میں شائع ہونے لگی تھیں مگر جدید افسانے کا ترجمان ’’شب خون‘‘ ابھی ہمارے افسانوں کی دست رس سے باہر تھا اور اس پر سریندر پرکاش، بلرج مینرا، انور سجاد، احمد ہمیش اور خالدہ اصغر کے علامتی اور استعاراتی افسانوں کا غلبہ تھا۔

    ادھر بمبئی میں مکتبہ جامعہ کی ہفتہ واری محفلیں ہر سنیچر کو بلا ناغہ منعقد ہو رہی تھیں۔ جن میں جناب باقر مہدی، فضیل جعفری، ندا فاضلی، یوسف ناظم، محمود چھاپرا، ابوبکر مرچنٹ اور زکریا شریف کے علاوہ انور خان اور میں باقاعدگی سے شریک ہوتے تھے۔ انہیں دنوں ایک دن مکتبہ کے سامنے فٹ پاتھ پر باقرمہدی، جتیندر بلو، ندافاضلی اور محمود چھاپرا کے ساتھ ایک وجیہ شخص کو دیکھا جو سگریٹ کو دائیں ہاتھ کی مٹھی میں دبائے زور دار سُٹے لگاتا ہوا کسی موضوع پر پُرجوش انداز میں محو گفتگو تھا۔ انور خاں نے مجھے بتایا کہ یہ سریندر پرکاش ہیں۔ ان کے افسانوں کی دلکش اور استعاراتی فضا کی مانند ہی ان کی شخصیت بھی دلچسپ اور پرکشش تھی۔

    ۱۹۷۷ء میں میرا پہلا افسانوں کا مجموعہ ’’ننگی دوپہر کا سپاہی‘‘ منظر عام پر آیا۔ محمود چھاپرا کے مکان پر ایک نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں عزیز قیسی، باقر مہدی، فضیل جعفری، اصفر علی انجینئر، ڈاکٹر عبدالستار دلوی کے علاوہ میرے معاصرین میں انور خاں، مشاق مومن، حفیظ آتش، اور جاوید ناصر وغیرہ بھی شریک تھے۔ صدارت کے لیے سریندر پرکاش کا نام تجویز ہوا۔ کتاب پر کھل کر بحث ہوئی۔ بے لاگ تاثرات پیش کئے گئے۔ بعض نے سراہا بعض نے مشورے دئے، نصیحتیں کی گئیں، ڈانٹا پھٹکارا بھی گیا۔ جناب باقر مہدی نے میرے افسانے انجام کار کے اختتام سے اختلاف کیا۔ ان کے نزدیک راوی یا مرکزی کردار آخر میں سرینڈر ہوکر مصلحت اندیشی کا شکار ہوجاتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ سریندر پرکاش نے اپنی صدارتی تقریر میں بطور خاص اس افسانے کو پسند کیا اور کہا کہ۔۔۔ ’’افسانہ نگار نے بالکل حقیقت بیانی سے کام لیا ہے۔ افسانہ نگار چاہتا تو وہ کردار بھی کسی فلمی ہیرو کی طرح دشمن کے اڈے پرجا کر دس بیس لوگوں کی پٹائی کرکے کامیاب و کامران واپس آسکتا تھا۔‘‘ سریندر پرکاش جو اپنے جونیئر افسانہ نگاروں کی تحریروں کو سراہنے کے قائل نہیں تھے، اس روز اپنے افسانے کے تئیں ان کا مثبت رویہ دیکھ کر حیرت آمیز خوشی ہوئی تھی۔ اس کے بعد سریندر پرکاش سے گاہے گاہے ملاقاتیں ہوتی رہتیں۔

    بمبئی میں ایک نووارد کو قدم جمانے میں جو دقتیں پیش آتی ہیں، وہ سریندر پرکاش کو بھی پیش آئیں۔ روزگار کی تلاش کے ساتھ رہائش کا مسئلہ بمبئی میں سب سے بڑا مسئلہ ہوتا ہے اور یہ دونوں چیزیں سریندر پرکاش کے پاس نہیں تھیں۔ بمبئی میں وہ فلم رائٹنگ کو اپنا ذریعۂ معاش بنانا چاہتے تھے۔ انہیں فلم ’انامیکا‘ میں بریک بھی ملا مگر اس کے بعد وہ کوئی بڑا کام حاصل نہیں کرسکے۔ وہ روزانہ صبح گلے میں جھولا ڈال کر کام کی تلاش میں نکل جاتے اور غالباً دل ہی دل میں غالب کا یہ شعر بھی دہراتے،

    اگر لکھوائے کوئی اس کو خط تو ہم سے لکھوائے

    ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے

    سر چھپانے کے لیے کالینہ میں ملٹری کیمپ کے پاس ایک چھوٹے سے فلیٹ میں ایک چھوٹا سا کمرہ کرائے پر مل گیا تھا۔ اسی میں وہ اپنی پتنی اور تین بچوں کے ساتھ رہنے لگے تھے۔ اس کمرے کے سامنے ایک چھوٹی سی گیلری بھی تھی جس میں بمشکل دو آدمی کرسی ڈال کر بیٹھ سکتے تھے۔ اس گیلری میں اکثر شام کو انور قمر، مشتاق مومن اور میں اکٹھا ہوجاتے۔ سریندر پرکاش اپنی دیسی بادۂ خاص کی بوتل کھولتے۔ چاکھن کے طور پر بھابھی نمک اور چاٹ مسالہ چھڑکا ہوا چٹ پٹا سلاد تیار کرتیں۔ مونگ پھلی اور فرسان کی پلیٹیں لگ جاتیں اور پھر چل پڑتا گفتگو کا سلسلہ۔

    سریندر پرکاش بڑی دلچسپ گفتگو کرتے تھے خاص طور پر جب وہ اپنے ماضی کے قصے سناتے تو بس وہ کہیں اور سنا کرے کوئی فلم انڈسٹری پر انہوں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ بھینٹ چڑھا دیا مگر بدلے میں فلم انڈسٹری سے انہیں جو ملنا چاہیے تھا وہ نہیں ملا۔ اس کا انہیں ملال بھی تھا۔ مگر وہ فطرتاً زندہ دل تھے اس لیے اپنے مخصوص طنز و مزاح میں ڈوبے ہوئے انداز میں اپنی ناکامیوں کو بھی گلوری فائی کرنے کا فن جانتے تھے۔ بادو وہ جام کی محفلوں میں تو ان کی گفتگو دو آتشہ ہوجاتی تھی اور وہ بات بات میں ایسے ایسے چٹکلے سناتے کہ ہنستے ہنستے پیٹ میں بل پڑجائیں۔ لائل پور سے بمبئی تک ان کے پاس سنانے کے لیے سیکڑوں قصّے تھے۔ بطور خاص لائل پور کے قصّے اس محبت اور اشتیاق سے سناتے کہ تقسیم سے پہلے کا ہندوستان اور شمالی ہند میں ہندو مسلم کلچر کی ایک تصویر سی آنکھوں کے سامنے کھنچ جاتی۔

    سریندر پرکاش نے اپنی چند یادداشتیں بھی لکھی تھیں جو اردو ٹائمز میں قسط وار شائع ہوئیں مگر بوجوہ چند قسطوں کے بعد ہی وہ سلسلہ منقطع ہوگیا۔ جس کی وجہ سے اردو ادب ایک دلچسپ اور وقیع سوانح سے محروم، رہ گیا۔ سریندر پرکاش کی گفتگو میں ظرافت کا عنصر ہمیشہ غالب رہتا۔ مگر بعض اوقات ظرافت ستم ظریفی کی حدوں کو چھونے لگتی تھی۔ کبھی کبھی وہ اس قدر موڈ میں ہوتے کہ انہیں یہ بھی پتہ نہیں چلتا تھا کہ وہ اپنی فقرے بازی سے کسی کی دل آزاری کا سبب بھی بن رہے ہیں۔ اسی لیے ان سے ملنے والوں میں کئی ان سے بدظن رہتے اور بعض ملنے سے کتراتے بھی تھے۔ وہ جتنی جلدی دوست بناتے، اتنی ہی جلدی لوگوں کو ناراض بھی کردیتے مگر ان کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ اپنے دوستوں کو زیادہ دنوں تک ناراض نہیں رکھ سکتے تھے۔ جب دیکھتے کہ کوئی بندہ زیادہ ہی خفا ہوگیا ہے اور ملنا بھی ترک کردیا ہے تب خود ہی پیش رفت کرتے اور اس سے اس طرح تپاک سے ملتے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ مجبوراً سامنے والے کو بھی اپنی ناراضگی بھول کر نارمل ہوجانا پڑتا۔ یہ خوبی انہیں لوگوں میں ہوتی ہے جن کا ذہن وسیع اور دل کشادہ ہوتا ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ سریندر پرکاش کا دل کشادہ تھا۔ وہ کرائے کے چھوٹے موٹے کمروں اور کھولیوں میں گزارہ کرتے رہے مگر دوستوں کے لیے ان کے گھر کا دروازہ کھلا رہتا تھا۔

    ان کی مالی حالت کبھی اچھی نہیں رہی مگر اس تنگ کھولی میں بھی جب شام کی محفلیں جمتی تھیں، چائے ناشتے کے بعد شراب کا دور چلتا تھا تو شرکاء کو اکثر کھانا کھلائے بغیر جانے نہیں دیا جاتا تھا۔ شریک محفل کبھی دو تین بھی ہوتے تھے اور کبھی آٹھ دس بھی مگر خاطر مدارات میں کسی قسم کی کمی نہیں ہوتی تھی۔ لطف کی بات یہ کہ بیگم سریندر پرکاش جنہیں احباب ’بھابھی‘ کہتے ہیں، مہمان نوازی میں سریندر پرکاش سے بھی زیادہ سرگرم رہتیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ بعض اوقات آٹھ آٹھ دس دس لوگوں کے لیے وہ پورے اہتمام اور دل جمعی کے ساتھ کھانا بناتیں۔ سبزی چھیلنے سے لے کر کھانا پروسنے تک وہ پورے کمرے میں پھر کی کی طرح گھومتی رہتیں کہ مہمانوں کو کسی چیز کی کمی نہ پڑ جائے۔ ان کے بچے ڈمپل اور وندنا بھی مہمانوں کی دلنوازی میں والدین کی برابر مدد کرتے رہتے۔ چائے ناشتے سے لے کر کھانا پروسنے تک ان کا بیٹا ڈمپل اصرار کر کرکے مہمانوں کی خاطر داری کرتا رہتا۔ بیرون بمبئی یا بیرون ملک سے جب بھی کوئی ادیب بمبئی آتا وہ سریندر پرکاش سے ملنے کا خواہش مند ضرور رہتا۔ اور سریندر پرکاش پورے خلوص سے اسے اپنے چھوٹے سے گھر میں ضرور مدعو کرتے۔ ہندوستان کے ادیبوں کے علاوہ پاکستان سے انتظار حسین، احمد ہمیش، احمد داؤد، حسن رضا، ڈاکٹر آصف فرخی وغیرہ بھی ان کے مہمان رہ چکے ہیں۔

    وہ شراب، سگریٹ اور مٹھائی کے زبردست شوقین تھے۔ افسوس ذیابطیس کے موذی مرض نے زندگی کے آخر برسوں میں یہ تینوں چیزیں ان سے چھین لی تھیں۔ اپنے اسٹرگل کے ابتدائی دنوں میں وہ اپنی دن بھر کی کدوکاوش، تھکن اور شکستگی کو دیسی شراب کے سیال میں ڈبو کر جرعہ جرعہ حلق سے اتارتے اور اپنی ناکامیوں کو سگریٹ کے مرغولوں میں اڑا دیتے۔ اگر کوئی دیسی شراب کی تلخ کامی یا اس کی تیزابیت کا شاکی ہوتا تو وہ اپنے زور بیاں سے یہ ثابت کرتے کہ دیسی اور بدیسی کے پروسیس میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ دونوں کا جوہر ایک ہے ’’الکحل۔‘‘ بالآخر شکایت کرنے والا ان کی دلیلوں سے متاثر ہوجاتا اور اسے دیسی شراب میں بھی اسکاچ ہی کی سی لذت ملنے لگتی۔ وہ دیسی شراب کو چھان چھون کر اس میں زعفران، الائچی اور جانے کیا کیا اجزاء ملاتے تھے کہ جب وہ کسی کے سامنے اسے گلاسوں میں ڈھالتے تو اس کا رنگ اور خوشبو دونوں دامن دل کو اپنی طرف کھینچنے لگتے۔ اس تقطیر شدہ شرابِ خاص کو انہوں نے راجستھانی کیسر کا نام دے رکھا تھا۔ شرکائے جام اسے کمیاب جنس سمجھ کر چکھتے اور خوب داد دیتے۔

    مشتاق مومن بھی شراب کے رسیا تھے۔ انہوں نے سریندر پرکاش کی تقلید میں اسی طرح دیسی شراب کو کیسر الائچی کی آمیزش کے ساتھ بوتلوں میں بھر کر دھوپ میں رکھا تاکہ اس میں سورج کی کرنوں کی تاب کاری بھی اتر آئے۔ تابکاری تو کیا اترتی البتہ دھوپ کی حدت سے بوتلیں چٹخ کر پھٹ گئیں اور دیسی شراب کی تیز مہک خواہ مخواہ پاس پڑوس کے دروازوں پر بھی دستک دے آئی۔

    یہاں کنایتاً کہا جاسکتا ہے کہ سریندر پرکاش راجستھانی کیسر کی طرح اپنے افسانوں کو بھی ایک خاص ٹریٹمنٹ سے گزارتے تھے۔ اگر کوئی ان کی تقلید کرنے کی کوشش کرے تو وہ اسی دھوپ میں رکھی بوتل کی طرح ٹوٹ کر بکھر سکتا ہے۔

    سریندر پرکاش گزشتہ تیس سال سے فلم انڈسٹری کے کوچہ وبازار کی خاک چھانتے رہے مگر وہ آخر تک اسٹرگلر ہی رہے۔ اگر چہ وہ اپنا آذوقہ حیات اسی انڈسٹری کی سخت زمین سے ریزہ ریزہ قطرہ قطرہ حاصل کرتے رہے مگر انڈسٹری نے ان کے ٹیلنٹ، ان کے فن اور ان کی صلاحیتوں کی خاطر خواہ قدر نہیں کی۔ وہ چھوٹے موٹے بینروں تلے چھوٹے موٹے کام ضرور کرتے رہے مگر کسی بھی بینر نے انہیں کوئی بڑا کام نہیں دیا۔ وجہ صاف ہے۔ فلم انڈسٹری میں صرف انہیں گھوڑوں پر داؤ لگایا جاتا ہے جن کی فتح مندی کا سابقہ ریکارڈ موجود ہو۔ اسے شومئی قسمت کہیے، اتفاق کہیے یا وقت کی ستم ظریفی کہیے کہ اپنی ساری قابلیتوں کے باوجود وہ اس ریس میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکے۔ ایک دوسری وجہ بھی ہوسکتی ہے۔ سریندر پرکاش نہایت صاف گو بلکہ دو ٹوک گفتگو کے عادی تھے۔ لاگ لپیٹ، للو چپو، خوشامد پسندی یا جی حضوری ان کی سرشت میں شامل نہیں تھی۔ وہ کھری بات کرنے کے عادی تھے اور اس کے اظہار میں پس و پیش نہیں کرتے تھے۔ اس لیے وہ بہت جلد اپنے مخالف پیدا کر لیتے تھے۔ ایک پروڈیوسر کو انہوں نے کوئی کہانی سنائی۔ پروڈیوسر نے کہا ’’مزا نہیں آیا کچھ اور سنائیے۔ میں تو صرف اپنی پسند کی فلمیں بناتا ہوں۔‘‘ وہ اس سے یہ کہہ کر چلے آئے کہ۔ ’’ابھی تک آپ نے اپنی پسند کی فلمیں بنائی ہیں کوئی فلم لوگوں کی پسند کی بھی تو بنائیے۔‘‘ بیچارہ پروڈیوسر ان کا منہ دیکھتا رہ گیا۔

    فلمی لٹکوں سے وہ صرف ایک حد تک ہی سمجھوتہ کرسکے۔ وہ ادب کے آدمی تھے اور ہر حال میں ادب کو افضیلت دیتے تھے۔ ایک بار وہ کسی پروڈیوسر کو سبجیکٹ سنا رہے تھے۔ جیسا کہ پروڈیوسروں کی عادت ہوتی ہے وہ سبجیکٹ میں مین میخ نکالتا رہا۔ سریندر پرکاش بڑے ضبط و تحمل سے اسے قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے مگر جب دیکھا کہ پروڈیوسر قابو سے باہر ہوا جا رہا ہے تو یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے کہ۔ ’’شریمان اگر سبجیکٹ پسند نہیں ہے تو جانے دیجئے مگر سبجیکٹ کی ایسی تیسی مت کیجیے کیوں کہ یہ سبجیکٹ چیخوف کی مشہور کہانی وارڈ نمبر سِکس سے ماخوذ ہے۔‘‘

    بظاہر ہنسی ہنسی میں وہ کوئی فقرہ کس دیتے تھے مگر ان کے فقروں میں ایک گہری کاٹ ہوتی تھی۔ ایک دفعہ وہ غریب خانے پر اپنا افسانہ سرنگ سنا رہے تھے۔ سامعین میں میرے علاوہ بشر نواز، انور قمر، جاوید ناصر وغیرہ موجود تھے۔ افسانہ سنانے کے بعد افسانے پر اظہار خیال کی باری آئی۔ اس وقت بشر نواز پان کی پیک تھوکنے اٹھے۔ سریندر پرکاش نے پوچھا۔‘‘ کہاں چلے ؟‘‘ بشر نواز نے اشارے سے بتایا کہ پیک تھوکنے جارہے ہیں۔ فوراً بولے۔ ’’یار! باہر جانے کی زحمت کیوں کرتے ہو۔ میرے منہ پر تھوک دو۔ ایسے افسانے لکھنے کی یہی سزا ہونی چاہیے۔‘‘

    ایسا ہی ایک واقعہ خود انہوں نے سنایا تھا۔

    وہ یش چوپڑا کے پاس اسکرپٹ رائٹنگ کرتے تھے۔ ایک بار شوٹنگ میں ایک شاٹ کے لیے کسی ایکسٹرا کی ضرورت تھی۔ سریندر پرکاش وہاں موجود تھے۔ یش چوپڑا نے ان سے کہا۔ ’’پاپے تسی کیوں نہیں کھڑے ہوجاتے ؟‘‘

    سریندر پرکاش راضی ہوگئے اور میک اپ کے بعد شاٹ کے لیے تیار ہوگئے۔ شاٹ میں انہیں صرف ایک چھوٹا سا مکالمہ بولنا تھا مگر وہ ہر بار مکالمہ ادا کرتے ہوئے نظریں جھکا لیتے تھے۔ جب بار بار ایسا ہوتا رہا تو یش چوپڑا نے جھنجھلا کر کہا۔ ’’یار نظریں ملا کے مکالمہ بولا کرو۔۔۔‘‘

    سریندر نے برجستہ جواب دیا۔ ’’پاپے پچھلے کئی برس سے آپ کے سامنے نظریں جھکا کر بات کرنے کی عادت پڑ گئی ہے۔ اب اچانک نظریں ملا کر کیسے بات کرسکتا ہوں۔‘‘

    کسی نقاد نے بجا لکھا ہے کہ ان کی کہانیوں کے مکالموں میں بلیک ہیومر یا طنز ملیح کی عمدہ مثالیں ملتی ہیں۔ اس کی جھلکیاں ان کی گفتگو میں بھی پائی جاتی تھیں۔ ان کا بیان کیا ہوا ایک اور واقعہ یاد آتا ہے۔

    ہندی کے مشہور کہانی کار اور ’ہنس‘ کے ایڈیٹر راجیندر یادو نے ایک بار ان کی کوئی کہانی ’ہنس‘ میں شائع کی۔ شاید ان سے معاوضہ کی بات بھی ہوئی ہو۔ لیکن کئی ماہ گزر جانے کے بعد بھی انہیں معاوضہ نہیں ملا۔ اتفاق سے سریندر پرکاش کا دلی جانا ہوا۔ وہ ٹہلتے ٹہلاتے ’ہنس‘ کے دفتر دریا گنج پہنچ گئے۔ راجیندر یادو سے ملے۔ دونوں دیر تک باتیں کرتے رہے۔ ہندی اردو کی موجودہ صورت حال سے لے کر دلی اور بمبئی کے موسم تک گفتگو ہوچکی۔ چائے بھی آئی، چائے بھی پی گئی۔ کئی سگریٹیں پھونک دی گئیں مگر معاوضہ کا کوئی ذکر نہیں آیا۔ آخر اٹھتے اٹھتے سریندر پرکاش نے بڑی معصومیت کے ساتھ راجیندر یادو سے پوچھا۔ ’’آپ کے دفتر میں جھاڑو ہے ؟‘‘

    ’’جھاڑو؟‘‘ راجیندر یادو نے حیرانی سے کہا۔

    ’’جی ہاں۔۔۔ جھاڑو۔۔۔‘‘

    ’’ہوگی۔۔۔ مگر کس لئے ؟‘‘

    ’’دیجئے میں آپ کے آفس میں جھاڑو لگانا چاہتا ہوں۔‘‘

    ’’یار! کیسی باتیں کرتے ہو؟‘‘ راجیندر یادو نے بوکھلا کر کہا۔

    سریندر پرکاش بولے۔ ’’اگر ادیب کو اس کے لیکھن سے کوئی معاوضہ نہیں ملتا تو پھر اسے کچھ تو کرنا پڑے گا تاکہ اس کا گزارہ بھی ہوسکے۔‘‘ راجیندر یادو بہت شرمندہ ہوئے اور جھٹ سے مقررہ معاوضہ ادا کرکے ان سے معذرت طلب کی۔

    سریندر پرکاش مزاجاً ایک آزاد منش شخص تھے۔ گرہستی کی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے انہوں نے گجرے بیچنے سے لے کر اپنی فلمی کہانیاں بیچنے تک چھوٹے بڑے کئی کام کئے مگر کبھی کسی کی ملازمت کا طوق اپنے گلے میں نہیں ڈالا۔ آل انڈیا ریڈیو پر ایک مختصر سے وقفے کے لیے کام ضرور کیا مگر وہ کام بھی ایک طرح کانٹریکٹ تھا مستقل ملازمت نہیں تھی۔ وہ صرف اپنے قلم سے روٹی کمانا چاہتے تھے۔ ایسا انہوں نے کیا بھی مگر ادب روزی کا ذریعہ بن نہیں سکتا تھا اور وہ آخر تک اپنی شخصیت اور اپنے فن کو فلم انڈسٹری سے ہم آہنگ نہیں کرسکے۔ نتیجاً اس کے لیے انہیں بہت بڑی قیمت چکانی پڑی۔ وہ زندگی بھر لفظوں کی فصل کاٹتے رہے مگر اس فصل سے ’’گندم اگر بہم نہ رسد جو غنیمت است‘‘ کی مصداق ان کے ہاتھ اناج کم اور خس و خاشاک ہی زیادہ آیا۔

    وہ سماج اور ادب میں اپنی پذیرائی تو چاہتے تھے مگر اس کے لیے مروجہ اصولوں اور ضابطوں کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ وہ اکیڈمیوں سے مالی امداد طلب کرنے یا انعامات کے لیے اکیڈمیوں میں اپنے مسودے اور کتاب جمع کرنے کے خلاف تھے۔ کسی نازک مرحلے پر ایک آدھ بار انہوں نے ایسا کیا مگر اس کا انہیں ہمیشہ ملال رہا۔

    وہ زندگی بھر ایک مستقل مکان کے لیے خانہ بدوشوں کی طرح بھٹکتے رہے۔ وہ چاہتے تو انہیں سرکار کے کسی خصوصی کوٹے سے مکان بھی مل سکتا تھا اور وہ بجا طور پر اس کے مستحق تھے مگر اس کے لیے جن ضابطوں کی خانہ پری کرنی ہوتی ہے اسے انہوں نے کبھی پورا نہیں کیا۔ شاید منسٹروں اور سرکاری افسروں کے سامنے اپنی نجی ضرورتوں کا بکھان کرنا ان کی انا پسند طبعیت کو کبھی گوارا نہیں تھا اور ہماری سرکار ابھی اتنی بالغ نظر نہیں ہوئی ہے کہ وہ مستحق فنکاروں کی ضرورتوں کی تمکیل کے لیے از خود قدم اٹھائے۔ یہ ہماری زبان ہمارے ملک اور سماج کے لیے کس قدر شرم کی بات ہے کہ ایک اہم ادیب زندگی بھر، بے مکانی کی صعوبتیں جھیلتا رہا البتہ قدرے اطمینان کی بات یہ ہے کہ ان کی بیٹی اور بیٹے کی کوششوں سے انہیں زندگی کے آخری ایام میں ایک قابل رہائش چھت نصیب ہوگئی تھی۔

    وہ بر صغیر کی تقسیم کے بعد بھارت آگئے تھے۔ اس وقت ایک اندازے کے مطابق ان کی عمر ۱۷؍برس کی رہی ہوگی۔ یہ عمر کا وہ حصہ ہوتا ہے جب انسان کی آنکھوں میں ہر دم قوس قزح کے رنگ تیرتے رہتے ہیں اور زندگی کا ہر دن ایک دلکش خواب کی طرح گزرتا ہے۔ مگر سریندر پرکاش کو اس عمر میں تقسیم اور ہجرت کے عذاب سے گزرنا پڑا جس سے ان کا ہر خواب چکنا چور ہوگیا۔ وہ آخر تک اپنے لائل پور کو نہیں بھولے تھے۔ وہ ایک بار پاکستان جاکر ان گلیوں کی خاک کو اپنی آنکھوں سے لگانا چاہتے تھے جہاں ان کی عمر کا عزیز ترین حصہ گزارا تھا۔ انہوں نے کوشش بھی کی مگر حسب عادت ضابطوں کی تکمیل کبھی نہ کرسکے۔ ظاہر ہے پاسپورٹ اور ویزا کے بغیر وہ ملک سے باہر کیوں کر جاسکتے تھے مگر سریندر پرکاش کا آزاد ذہن یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ تاریخ کے جابر ہاتھوں سے نقشے پر صرف ایک لکیر کھینچ دینے سے وہ اپنی جڑوں سے کیسے جدا ہوسکتے ہیں۔

    ایک بار انہوں نے سیدھے صدر پاکستان ضیاء الحق کو خط لکھ دیا تھا۔ کہ۔ ’’میں اپنے آبائی وطن لائل پور کو ایک بار پھر دیکھنا چاہتا ہوں لہذا مجھے پاکستان آنے کی اجازت دی جائے۔‘‘ خیر اجازت تو کیا ملتی ایک دن خفیہ پولیس کا ایک آدمی ان کی ملٹری کیمپ والی کھولی پر آدھمکا۔ وہ خط پاکستان پہنچنے سے پہلے سنسر ہوکر خفیہ پولیس کے حوالے کریا گیا تھا۔ پولیس والے نے ان سے پوچھا۔ ’’تم بغیر پاسپورٹ ویزا کے پاکستان کیسے جاسکتے ہو؟‘‘

    انہوں نے جواب دیا۔ ’’اسی لیے تو میں نے سیدھے صدر پاکستان کو خط لکھا ہے تاکہ پاسپورٹ ویزا کی رسمی کاروائی سے متشنیٰ کردیا جاؤں۔‘‘ سی آئی ڈی والا ان کی جرأت معصومانہ پر حیران رہ گیا۔

    ویسے بھی کھولی میں بکھری چند کتابیں، دوچار فائلیں اور معمولی سا فرنیچر دیکھ کر وہ شاید سمجھ گیا ہوگا کہ اس شخص سے مزید باز پرس کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ وہ تھوڑی دیر ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوا الٹے قدموں لوٹ گیا۔

    انتظار حسین ہی کی طرح سریندر پرکاش نے بھی ہجرت کے کرب کو اپنے کئی افسانوں کا موضوع بنایا ہے، بالخصوص ان کے آخری برسوں کے افسانوں میں یہ کرب شدت سے ابھر کر آیا ہے۔ انتظار حسین کے افسانوں میں اپنی جڑوں سے اکھڑنے کے کرب کے ساتھ ایک نئی سر زمین پر بس جانے وہاں کی فضاؤں میں گھل مل جانے کا احساس پایا جاتا ہے جب کہ سریندر پرکاش کے افسانوں میں کبھی نہ ختم ہونے والی در بدری کا اضطراب موجود ہے۔ اس مختصر سے مضمون میں اس کی تفصیل میں جانا ممکن نہیں۔

    لائل پور سریندر پرکاش کے رگ وپے میں اس طرح بسا ہوا تھا کہ وہ کسی بھی طور اسے اپنے سے جدا نہیں کر سکتے تھے نہ اپنے افسانوں سے نہ اپنی گفتگو سے مجھے تو کبھی کبھی لگتا ہے ہم ۹؍نومبر ۲۰۰۲ کی صبح جس شخص کی چتا کو کالینہ کے شمشان میں آگ دے آئے تھے وہ تو محض ہاڑمانس کا ایک پنجر تھا۔ سریندر پرکاش تو لائل پور ہی میں رہ گئے تھے۔ وہ تو کبھی بھارت آئے ہی نہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے