آج کی صورت حال کا ایک جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ باغی آرٹسٹ کا ڈائیلیما ابھی تک جاری ہے۔ یہ ڈائیلیما ہے کس کس سے بغاوت کرے اور ترسیل کے کیا ذرائع استعمال کرے؟ یعنی سماج کے کس استحصالی طبقے سے برسرپیکار ہو اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو ALIENATION علیحدگی کے کرب ناک عذاب کو کب تک برداشت کرتا رہے؟
اصل میں آج کی سماجی تصویر اس وقت دھندلی نظر آتی ہے جب آرٹسٹ اپنی آنکھوں کے بجائے کسی سیاسی پارٹی کی عینک سے حقیقت کا جائزہ لینا شروع کرتا ہے۔ یہاں سیاسی پارٹی سے مراد وہ سیاسی جماعت ہے جس کو حکومت وقت اپنے بنائے ہوئے دائرہ میں کام کرنے کی سہولت دیتی ہے یعنی یہ سیاسی جماعت لاکھ انقلابی نعرے لگائے لیکن آئین کے دائرہ میں رہ کر ہی وہ حکومت سے مقابلہ کر سکتی ہے۔ اس طرح بغاوت اپنی اصطلاحات کے سانچے میں ڈھل کر خاصی بےضرر ہو جاتی ہے۔
کرالا کے الیکشن کا تجزیہ کیجئے تو یہ بات صاف ظاہر ہو جائے گی کہ ایک زمانے کا باغی نمبودری پد مسلم لیگ کے نمائندہ کو ہرانے کے لیے کانگریس سے مفاہمت کر لیتا ہے جبکہ چند برس پہلے یہی سیاسی رہنما مسلم لیگ کو فرقہ پرست جماعت کہنے کے حق میں نہیں تھا۔ دوسری طرف اندرا گاندھی آپس میں ’’انقلابیوں‘‘ کی آویزش سے فائدہ اٹھاکر ایک کمیونسٹ پارٹی سے مل کر دوسری کو شکست دینے کے درپے ہیں۔ اب متحدہ محاذ سیاسی مصلحتوں اور سازشوں کے گٹھ جوڑ کا ایک ٹوٹتا اور بنتا ہوا بے معنی سلسلہ معلوم ہوتا ہے، جو ملک میں جمہوریت کے نام پر STATUS QUO میں تھوڑی بہت تبدیلی کرنا چاہتا ہے۔
ظاہر ہے یہ موٹی موٹی باتیں خاصی پامال ہیں اور روزانہ اخبارات کا مطالعہ کرنے والا ہر شخص ان سے واقف ہے لیکن جس ملک میں ستر فیصدی لوگ لکھنا پڑھنا نہ جانتے ہوں، وہاں کی جمہوریت کے سرپرست زیادہ تر متوسط طبقے اور اونچے طبقے کے UPPER MIDDLE CLSS لوگ ہوں گے۔ ایسی صورت میں اکثر وبیشتر ادیب وشاعر بھی اسی طبقے سے ابھر کر یا ٹوٹ کر آتے ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ وہ اپنے طبقے کے مفادات سے الگ ہو گیا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کسی سماجی ادارے میں مجبوراً کام کرتا ہو لیکن دل ہی دل میں اس ناقابل برداشت سماج کوب دلنے کا خواہاں ہو۔
یہاں ایک اور پریشانی لاحق ہو جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ادب براہ راست سماج کو نہیں بدل سکتا۔ یہی نہیں ادب کی تخلیق ایک غریب ملک میں پیشہ بھی نہیں بن سکتی اور اس طرح بیشتر ادیب و شاعر اتواری مصور SUNDAY PAINTERS کی زندگی بسر کرتے ہیں یعنی ضروری کاموں سے فرصت ملی تو پڑھ لکھ لیا۔ ظاہر ہے کہ ایسے ماحول میں کمٹ منٹ اور اینٹی کمٹ منٹ کی بحث اتوار کو ضائع کر دینے کے مترادف بن جاتی ہے۔ لیکن جیسا کہ میں نے شروع میں کہا ہے کہ باغی آرٹسٹ کا ڈائیلیما جاری ہے یعنی اسے اتوار کو بھی چھٹی نہیں ملتی۔
اس ڈائیلیما کا ایک اور رخ بھی دیکھنے کے قابل ہے اور وہ ہے بین الاقوامی سین۔ جس لمحہ میں مضمون لکھ رہا ہوں تو اسی لمحہ فدائین زندگی اور موت کی کشمکش سے دوچار ہیں۔ ویت نام میں جنگ جاری ہے۔ سوویت روس کا باغی ادیب الیگزنڈر گنزبرگ نہایت خطرناک قیدخانے میں پڑا ہوا ہے۔ کاسترو اپنی طویل تقریر میں ٹراٹسکی ماؤزے تنگ سارتر اور مارکوز کی شدید مذمت کر چکا ہے یعنی دور دور تک بظاہر کوئی ایسی امید نظر نہیں آتی کہ یہ ڈائیلما کم ہو لیکن یہی قومی اور بین الالاقوامی کشا کش کے ڈرامائی مناظر آرٹسٹ کے لیے تخلیقی سامان کرتے ہیں اور وہ اپنے علم اور تجربہ کو بار بار پرکھتا ہے اور اس طرح ایک اندھی تقلید سے بچ جاتا ہے۔ دوسری طرف خود کمٹ منٹ کے مسائل سے آزاد (جتنا کہ سامراجی نظام میں ممکن ہے) فرد کی حیثیت سے دو چار ہوتا ہے۔
اس سے پہلے کہ میں کمٹ منٹ کے مسائل کا جائزہ لوں، اردو ادیب و شاعر کی کس مپر سی پر اگر آنسو بہانا اور مرہم رکھنا ممکن نہ ہو تو زخموں پر نمک تو چھڑکا جا سکتا ہے، اس لیے کہ یہ نمک پاشی کا عادی سا ہو گیا ہے۔ اردو زبان اور رسم الخط کا مسئلہ سیاسی گتھیوں میں الجھ چکا ہے۔ اچھے خاصے ادیب جیسے راہی معصوم رضا تک اس کے مخالف ہیں۔ اس کے بہی خواہوں کی حکومت وقت کی خوشامد کا یہ حال ہے کہ جس سے مطالبہ کرتے ہیں اسی سے کانفرنس کا افتتاح کراتے ہیں۔ اور آپس میں اتحاد کا یہ عالم ہے کہ کئی گھنٹوں کی بحث کے بعد بھی ایک ڈرافٹ تیار نہیں ہو پاتا۔ بہرحال یہاں بھی وہی سیاسی گٹھ جوڑ چل رہا ہے جو عام سیاسی فضا میں ہو رہا ہے۔
اس کے علاوہ اردو بولنے والوں کا ایک بڑ اطبقہ یعنی مسلمان دن رات فسادات کے خوف اور اس سے پیدا ہونے والی مذہبی عصبیت کا شکار ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے پراگندہ لوگوں سے کمٹ منٹ پر کوئی بحث کرنے کی کوشش عجیب سی معلوم ہوتی ہے لیکن مجھے تو یہ ضد ہے کہ انہیں لوگوں کے سامنے آج کا ایک اہم موضوع پیش کروں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ترقی پسند کمٹ منٹ کا شکار ہو کر خاصے بدنام ہو چکے ہیں، اس لیے کہ ترقی پسندوں کا کمٹ منٹ زیادہ تر سیاسی تھا۔ اور وہ بھی ایک ایسی جماعت سے منسلک تھا جس کی رہنمائی سوویت روس کے سیاسی اور ثقافتی رہنما کرتے تھے۔ یہ بات ایک مثال سے ثابت کی جا سکتی ہے۔
روجر گارودی 1 نے جب چیکو سلاویہ پر سوویت روس کے حملے کی شدید مذمت کی اور ایک نہیں بلکہ کئی زوردار مضامین لکھے تو اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ سوویت کمیونسٹ پارٹی نے فرانسیسی کمیونسٹ پاری کے بہت سے عام ممبروں کے نام خط بھیجے تھے کہ وہ گراودی کے خلاف ہو جائیں اور گراودی نے یہاں تک کہا کہ پارٹی کے اتنے ممبروں کے پتے آخرسوویت روس کو ملے کیسے اور پھر وہی ہوا جو ایک باغی ادیب کا انجام ہوتا ہے۔ اگر وہ اپنی آزادانہ روش کو ترک کرکے کسی سیاسی پارٹی کا ممبر بن جاتا ہے یعنی اسے پارٹی سے نکال دیا گیا اور اس کے عزیز دوست لوئی اراگاں 2 یہ سب خاموشی سے دیکھتے رہے۔ یہ مثال دینے کا مطلب صرف یہ تھا کہ کمٹ منٹ کی بحث کا ایک پہلو سامنے آسکے اور یہ پہلو ہے انفرادی بغاوت یعنی اس بغاوت کی رہنمائی کوئی بنی بنائی آئیڈیالوجی نہیں کرتی بلکہ ادیب وشاعر خود اپنے کمٹ منٹ کے سلسلے میں خطرناک اقدام کرتا ہے جس سے اس کا سیاسی اور کبھی کبھی ثقافتی مستقبل خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ کمٹ منٹ ایک معنی میں خطرے کو مول لینے کا نام ہے۔
کمٹ منٹ کی تفصیلی بحث کے سلسلے میں پہلا سوال جو اٹھایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ آخر’’ادب کا کاروبار‘‘ تو بغیر کسی قسم کے کمٹ منٹ کے چل سکتا ہے اس لیے کہ کمٹ منٹ کے جو بھی معنی ومفہوم بیان کیے جائیں اسے ’’خالص‘‘ ادبی کہنا دشوار ہے۔ اس سلسلے میں مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ اگر ادب کی صرف جمالیاتی بحث بھی کی جائےگی تو بھی کمٹ منٹ سے بچنا خاصا دشوار ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک ادیب علیحدگی ALIENATION میں مبتلا ہے تو وہ اپنے کمٹ منٹ کی وجہ سے سماج سے کٹا کٹا سا رہتا ہے۔ ورنہ اگر وہ اپنے سماج کا ایک کارآمد یا مجہول حصہ بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پھر ALIENATION کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
وہ تو اپنے ماحول سے بد ظن ہو کر اپنی ’’ذات‘‘ میں پناہ ڈھونڈتا ہے (اس کے ہرگز یہ معنی نہیں ہیں کہ کوئی خوش ہو کر اپنی ذات میں پناہ نہیں ڈھونڈتا) اور اس طرح سماجی ہیبت سے ڈر سا جاتا ہے مگر ALIENATION کوئی مستقل صورت نہیں ہے، اس لیے کہ یہ تو ایک بڑا کرب ناک عذاب ہے اور اس میں کوئی ہمیشہ پڑا رہنا نہیں چاہےگا جب تک کہ وہ قید خانے سرمایہ دارانہ فسطائی نظام یا سوویت روس میں نہ ہو۔ وہ ہر بار اپنے سماج سے اپنے رشتے پیدا کرنے کی کوشش کرےگا اور یہ ردو قبول کا سلسلہ جاری رہےگا اور یہی اس کے کمٹ منٹ کو تقویت پہنچاتا رہے گا۔
کمٹ منٹ پر پروفیسر ایم ایڈرتھ M.ADERTH کی مشہور کتاب ہے COMMITMENT IN MODERN FRENCH LITERATURE اس میں ایڈرتھ نے کیتھو لک شاعرو ادیب CHARLES DUGBY کمیونسٹ شاعر اور ناول نگار لوئی اراگاں اور وجودی فلسفی اور ادیب سارتر کے خیالات سے تفصیلی بحث کی ہے۔ یہاں اس کتاب کا خلاصہ نہیں پیش کرنا ہے البتہ اس کے چند اہم دلائل کا نچوڑ ضرور پیش کرنا چاہوں گا تاکہ کمٹ منٹ کے خدو خال واضح ہو سکیں۔
(۱) کمٹ منٹ اور ادب ایک دوسرے سے ناقابل تقسیم حد تک ملے ہوئے ہیں اس لیے کہ COMMITTED ادیب فرد اور سماج کی کشمکش، الجھے ہوئے مسائل اور جذبات کا جارحانہ اظہار کرتا ہے۔ اس کی عظمت اسی میں ہے کہ وہ اس خلفشار کا خاموش تماشائی نہیں ہے بلکہ اس ڈرامے کا ایک باشعور اداکار ہے۔ (ص:۱۵)
(۲) کمٹیڈ ادیب و شاعر صرف سیاسی یا سماجی موضوعات ہی کو نہیں اپناتا بلکہ ان افراد کی جدو جہد، بے کسی اور چھوٹی چھوٹی بے نام خوشیوں کو پیش کرتا ہے جن کا بظاہر موجودہ سیاست یا سماجی الجھنوں سے سروکار نہیں ہے۔
(۳) کمٹ منٹ پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ آج کوئی CAUSE ایسا نہیں ہے کہ ادیب اس کو اپنا سکے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مسئلہ نہایت بحث طلب ہے اور ’’خالص‘‘ ادیب اس کو پیش کرکے خود یہ ثابت کر دیتے ہیں کہ ادبی مسائل کا صرف لسانی حل نہیں پیش کیا جا سکتا بلکہ اس کو بدلتے ہوئے حالات، شعور اور ادیب کی ذات کے ’’ٹوٹے آئینے‘‘ میں رکھ ہی دیکھنا ہوگا۔
(۴) روب گریے کا کہنا ہے کہ یہ کوئی معقول بات نہیں۔ ’’ہمارے ناولوں کو ایک سیاسی CAUSE مقصد کے لیے استعمال کیا جائے، خواہ وہ ہمیں معقول ہی کیوں نہ معلوم ہوتا ہو اور خواہ ہم اپنی سیاسی زندگی میں اس کی فتح کے لیے جدو جہد کریں۔‘‘ آگے چل کر وہ اپنے کمٹ منٹ کی وضاحت کرتا ہے، ’’ادیب کے لیے کمٹ منٹ یہ ہے کہ وہ اپنی زبان کے مسائل سے پوری طرح آگاہ ہو اور اس کا ایمان CONVICTION ہو کہ یہ بہت اہم ہیں اور عزم ہو کہ وہ ان مسائل کو اسی کے دائرہ ہی میں رہ کر حل کرےگا۔‘‘
اس کا جواب دیتے ہوئے کمٹیڈ ادیب کہتا ہے کہ یہ رائے اس FALLACY پر مبنی ہے کہ فنی مسائل سماج سے باہر رہ کر اٹھتے ہیں۔ ان کو صرف TECHNICAL ISSUES مسائل سمجھنا چاہیے۔ یعنی انہیں LINGUISTIC مسائل تک ہی محدود رکھنا ہوگا۔ ایسی صورت میں بھی یہ صرف فنکاری کا مسئلہ نہیں ہے اس لیے کہ ناول کو کسی نہ کسی طرح کی ترسیل ضرور کرنی ہے خواہ وہ بے معنویت ہی کا خارجی اظہار ہو۔
سارتر کا موقف سب سے زیادہ قابل غور ہے۔ وہ کہتا ہے، ’’لکھنا ایک طرح کی گفتگو ہے اور گفتگو دنیا کے ایک پہلو کو پیش کرتی ہے تاکہ اس کو بدلا جا سکے۔ اس لیے ادب ایک رویہ ATTITUDE کا نتیجہ ہے خواہ شعوری ہو یا لاشعوری۔ کمیٹڈ ادیب دنیا میں صرف INVOLVED ہی نہیں ہے بلکہ وہ اس سے آگاہ بھی ہے۔‘‘ سارتر کے الفاظ میں، ’’وہ (یعنی کمیٹڈ ادیب) اپنے کمٹ منٹ کو فوری ردعمل کی سطح سے شعورکی سطح پرلے جاتا ہے۔‘‘
سارتر پر صرف یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ وہ کمیٹڈ ادیب کے لیے صرف ایک ہی موضوع کو پیش کرتا ہے اور وہ ہے آزادی کا مسئلہ LIBERTY ظاہر ہے کہ یہ بات سارتر نے آج سے ۲۳ سال پہلے اپنی کتاب WHAT IS LITERATURE میں کہی تھی۔ آج اس کا موقف بدل چکا ہے لیکن اس کا بنیادی کمٹ منٹ ابھی تک وہی ہے۔ مجھے سارتر کے موقف کی حمایت نہیں کرنی ہے، اس لیے کہ سارتر خود اپنے خیالات کی بار بار نئی وضاحتیں کرتا رہتا ہے۔
میرا مسئلہ تواس کمٹ منٹ کی نئی بحث سے ہے جس کا اظہار شمس الرحمن فاروقی نے کیاہے۔ میں نے پروفیسر ایڈورتھ کا حوالہ اس لیے دیا تھا کہ اس موضوع پر ایک مفصل کتاب موجود ہے جسے کمٹ منٹ کے مخالفین 3 بھی ’’استعمال‘‘ کر سکتے ہیں۔ فاروقی کے مضمون کا عنوان ہے: ’’ادب کے غیرادبی معیار۔‘‘ شاید یہ فاروقی کا پہلا مضمون ہے کہ کمٹ منٹ کی بحث کرتے وقت انہوں نے بھولے سے بھی جدیدیت کی اصطلاح کا نام تک نہیں لیا ہے مگر اس پورے مضمون میں اس کا اظہار نہ کرتے ہوئے بھی یہ ظاہر کیا ہے کہ جیسے جدیدیت کمٹ منٹ کو برداشت نہیں کر سکتی۔ ان کے مضمون کا تفصیلی جائزہ لینا اس لیے ضروری ہے کہ آج جدیدیت کی بحث نئی منزل میں داخل ہو چکی ہے اور کمٹ منٹ کے مسائل سے فرار ممکن نہیں ہے۔
(۱) فاروقی نے اس مضمون میں کمٹ منٹ کو ناقابل برداشت ثابت کرنے کے لیے نہایت غیرضروری مسائل کا ذکر کیا ہے۔ جیسے اچھے آدمی کا تصور جوکہ اخلاقیات کا مسئلہ ہے اور پھر اچھی شاعری کی کہیں بھی وضاحت نہیں کرتے۔
(۲) کمٹ منٹ کو ہرجگہ انہوں نے وابستگی کے نام سے یاد کیا ہے جو میری رائے میں صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہ ATTACHMENT کا ترجمہ ہو سکتا ہے، کمٹ منٹ کا نہیں۔ اسی لیے میں نے یہی اصطلاح استعمال کرنا مناسب سمجھی ہے تاکہ جواس کے اولین معنی تھے وہ برقرار رہیں۔
(۳) فاروقی کا ارشاد ہے، ’’کسی خالص ادبی نظریے سے وابستگی کا نام وابستگی نہیں کیونکہ ایسی وابستگی زندگی کے دوسرے عوامل پراثر انداز نہیں ہوتی۔‘‘
اس جملے کے بعدایک نہایت مضحکہ خیز مثال دی ہے۔ کہتے ہیں، ’’اگر میرا ادبی نظریہ اس اصول کا پابند ہے کہ غزل ایک نامستحسن صنف سخن ہے تو اس کے اثر سے میری روزمرہ زندگی، حیات وکائنات کے مسائل، میر ے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں واقع ہو سکتی۔‘‘
اب آئیے مندرجہ بالا بیان اور مثال پر تھوڑی سی بحث کر لی جائے۔
(۱) پہلی بات تویہ ہے کہ خالص ادبی نظریے کو خالص بنانے کے لیے انہیں شعوری عمل کرنا ہوگا، اس لیے کہ انسانی ذہن میں ہر چیز گڈمڈ ہے اور ہمیں اس کے اظہار کے لیے اسے ملحقہ خیالات اور اشیاء کے نام وماہیت سے الگ کرنا ہوگا اور وہ شعوری فعل کو ناپسند کرتے ہیں۔
(۲) اگر وابستگی مضر ہے تو وہ خالص نظریے ہوں یا غیرخالص نظریے، دونوں کے لیے مضر ہونی چاہیے۔ روب گریے کے سلسلے میں اس کا جواب دیا جا چکا ہے۔ وہ اپنے کو یہ کہہ کر پاک نہیں کر سکتے کہ ادبی مسائل محض ادبی مسائل ہیں، اس لیے کہ جمالیات کا وہ مکتبہ فکر بھی جو نفسیاتی مارکسی اور عمرانی نقطہ ہائے نگاہ کو رد کرتا ہے، اس کا اعتراف کرتا ہے کہ انسانی علوم جیسے نفسیات، عمرانیات اور معاشیات کسی نہ کسی طرح سے اثرانداز ضرور ہوتے ہیں۔ کم اور زیادہ کی بحث الگ ہے۔
(۳) اب رہی غزل کی مثال تو انہیں بخوبی علم ہے کہ کلیم الدین نے غزل کو ایک نیم وحشی صنف سخن کہا تھا اورآج تک کلیم الدین کے اس بیان کی وجہ سے تنقید کی جاتی ہے۔ اگر وہ یہ چاہتے ہیں کہ ان کے اس بیان کی وجہ سے انہیں نوکری سے الگ کر دیا جائے یا حکومت ان سے EXPLANATION طلب کرے تو یہ نہایت مضحکہ خیز بات ہے، اس لیے کہ ان کی روزمرہ زندگی پر اسی وقت کسی قدر اثر پڑ سکتا تھا جب کہ وہ صنف غزل کو مروجہ اخلاق وتہذیب کے قوانین پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کرتے۔
(۴) اسی پیراگراف میں آگے چل کر یہ بھی لکھتے ہیں: ’’یہ کہنا کہ جو لوگ خود کو کسی ادبی نظریے کا پابند کر لیتے ہیں وہ بھی بہرحال وابستہ ہیں۔ عمومی طور پر یہ صحیح ہو سکتا ہے لیکن جس مخصوص مفہوم میں یہ اصطلاح استعمال کی جا رہی ہے وہاں یہ درست نہ ہوگا۔ اس طرح ناوابستگی یا وابستگی کے معنی یہ نہیں ہیں کہ آپ کا نظریہ حیات ہی نہ ہو۔ ناوابستگی کا تقاضا صرف یہ ہے کہ آپ کسی بھی نظریہ حیات کے اس درجہ پابند نہ ہو جائیں کہ حیات وکائنات کے مسائل پر سوچنے کی جو انفرادی قوت وصلاحیت آپ میں ہے، وہ بالکل مسلوب ومفلوج ہوکر رہ جائے۔‘‘
اس طویل جملے کا تجزیہ نہایت ضروری ہے، اس لیے کہ فاروقی نہ تو اپنے مخصوص نظریے کی وضاحت کر پاتے ہیں اور نہ کمٹ منٹ کو رد کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ وہ نظریہ حیات کو قبول کرنے پر تیار ہیں بشرطیکہ وہ انفرادی فکر کو ختم نہ کرے۔ اب ان سے کوئی یہ پوچھے کہ کوئی باہوش (فنکار کی بات تو بعد کو آئےگی) ایسا نظریہ حیات قبول کیوں کرےگا جو اس کو مجہول بنا دے اور اگر وہ ایمان بالغیب کی بات کر رہے ہیں تو اس میں بھی جواز اور تفاسیر کی بڑ ی گنجائش ہے، ورنہ مذہبی رہنماؤں کا کاروبار کیسے چلتا۔۔۔ مگر ان کو تو اپنے مضمون میں کمٹ منٹ کو’’اصلی گناہ‘‘ ORIGINAL SIN ثابت کرنا ہے جو اس مضمون کے آخر میں وہ ثابت کر دیتے ہیں۔ یہی نہیں کمٹ منٹ کو مطعون کرنے کے لیے انہوں نے اسے ہر طرح کی بحث سے آزاد ایک DOGMA کی صورت میں پیش کیا ہے۔
ظاہر ہے کہ سارتر نے کبھی نہیں سوچا تھا اورنہ سارتر کے مخالفین نے اس پر یہ الزام لگایا ہے کہ وہ اپنے کمٹ منٹ کے تصور کو ’’بے چوں چرا قبول کرنے‘‘ (فاروقی کے الفاظ) کا اظہار کرتا ہے۔ اصل میں فاروقی ’’مارکسزم‘‘ پر تنقید کرنا چاہتے تھے مگر انہوں نے جس طرح ’’جدیدیت‘‘ کے استعمال سے شعوری گریز کیا ہے اسی طرح مارکسزم کا نام تک لینے کی بھول نہیں کی ہے۔
(۵) اب کمٹ منٹ کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی بحث شروع ہو جاتی ہے اور اس پیراگراف کے آخر میں وہ یہ ثابت کرتے ہیں : ’’اگر یہی حساب رہا تو سوائے نکسلی نوجوانوں کے سب کسی نہ کسی طرح اسٹیبلشمنٹ کا حصہ قرار پائیں گے۔‘‘
اسٹیبلشمنٹ کا ایک محدود اور ہمیشہ کے لیے تصور نہیں بنایا جا سکتا جیسا کہ کسی بھی سماجی تصور کو نہیں پیش کیا جا سکتا مگر یہاں بھی انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ہندوستان میں کسانوں کی ۸۰ فیصدی آبادی ہے اوراس میں تقریباً ۵۰ فیصدی کسان بے کھیت مزدور LANDLESS PEASANTS ہیں۔ یہاں پانچ سو روپے کمانے والا شخص ملک کی ۱۰فیصدی آبادی میں شمار کیا جاتا ہے۔ یعنی ایک بہت بڑ حلقہ اسٹیبلشمنٹ سے دور ہے۔ دوسرے شہروں میں مزدوروں اوران کے ہمدرد، باغی دانشور، پروفیسر اورادیب بھی اسٹیبلشمنٹ کاحصہ نہیں ہیں جب تک کہ وہ شعوری طور سے اس کی حمایت نہ کریں۔
ایک ایسے ملک میں جہاں تقریباً مکمل باروزگاریFULL EMPLOYMNET ہے جیسے متحدہ امریکا، وہاں کا تجزیہ کرتے ہوئے ہربرٹ مارکوز کہتا ہے کہ امریکا میں سب سے زیادہ مخالف طالب علموں کا گروہ ہے اور اس کی بغاوت کی پرورش میں مارکوز ایسے کتنے ہی باغی دانش وروں اور استادوں کا حصہ ہے مثلاً چومسکی، نارمن میلمر وغیرہ۔
فاروقی کا یہ ارشاد ہے کہ ہر وہ شخص اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ہے جو کسی نہ کسی طرح بر سر اقتدار طبقے کا ہاتھ مضبوط کرتا ہے، اس کے منافع میں حصہ دار ہے اور اس کی تقسیم کردہ آسائشوں میں شریک ہوتا ہے۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ موصوف نے اپنا معاشیات کا سبق ٹھیک سے نہیں پڑھا ہے، آخر برسر اقتدار طبقے کی مشینیں کون چلاتا ہے، اس کے منافع کا کون ذمہ دار ہے، صرف اس کا مالکMANAGEMENT اور مزدور اور مشینیں۔ مجھے تو یہ جان کر ایک لمحہ کے لیے افسوس ہوتا ہے کہ شمس الرحمن فاروقی نے آج کے سامراجی نظام کا اتنا بھی گہرا مطالعہ نہیں کیا جتنا کہ بیشتر کمٹ منٹ کے دشمنوں نے کیا ہے۔ انہیں چاہئے تھا کہ وہ یہ ثابت کرتے کہ سرمایہ کی تشکیل FORMANTION OF CAPITAL میں صرف برسراقتدار طبقے کا ہاتھ ہے اور انہیں یہ ثابت کرنے کے لیے کسی اہم مغربی ماہر معاشیات کا مطالعہ کرنا چاہئے تھا مگر انہوں نے اپنا HOME WORK نہیں کیا اور اسی لیے ایسی مضحکہ خیز باتوں پر اتر آئے۔
(۶) کمٹ منٹ اور اسٹیبلشمنٹ کی بحث کرتے ہوئے یہ لکھتے ہیں :’’ممکن ہے آپ یہ سوچیں کہ ادبی سوالوں کا جواب غیرادبی استدلال سے دینا کیا معنی رکھتا ہے۔ کیا یہ ثابت کرنے کے لیے اقبال کی تصنیف مسجد قرطبہ ایک نظم ہے ہم غیرادبی استدلال کو کام میں لاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ نہیں، لیکن اس کو کیا کیجئے کہ اس دنیائے دنی میں مذہب کے مسائل تلوار سے، فلسفہ کے مسائل مذہب سے اور شاعری کے مسائل فلسفہ سے حل کیے جاتے رہے ہیں۔‘‘
فاروقی کا مطلب ہے کہ شاعری کی بحث کو شاعری کے مسائل تک محدود رکھا جائے۔ ظاہر ہے اگر صرف جمالیاتی دائرہ میں رکھ کر شاعری کی بحث کی جائےگی تو شعری سانچے POETIC PATTERN کی بحث ہی رہےگی لیکن وہ اپنے مضمون کے ابتدا ہی میں کہہ چکے ہیں کہ ’’شاعری انفرادی تجربات ومحسوسات کے اظہار کا عمل ہے۔‘‘ اس سلسلے میں تجربات اور محسوسات کی بحث ضرور آئےگی اور یہ بحث صرف لفظوں کے استعمال، امیجری، علامت اور اظہار کی نزاکتوں تک محدود نہیں رہ سکتی (گوکہ محدود رکھا جا سکتا ہے۔)
کم از کم مجھے اس بات پراصرار نہیں ہے کہ شاعری کی بحث کو شاعری کے دائرے سے نکال کر بحث کی جائے۔ مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ ادب کے گرد ایک آہنی دائرہ کھینچنے کی اتنی ضرورت کیوں ہے؟ اس لیے کہ غیرادبی مباحث آ جاتے ہیں تو کیا شاعر ی کا تجربہ خالص شعری ہوتا ہے اور اس میں ان محسوسات کا دخل نہیں ہوتا جو خالص آرٹ کے دائرے میں نہیں آتے ہیں۔ ایلیٹ نے کہا تھا PURE POETRY IS A PHANTOM خالص شعری ایک واہمہ ہے‘‘ یہی نہیں اس نے یہ بھی کہا،
Both in creation and enjoyment, much always enters which from the point of view of art, is irrelevant.
تخلیق اور تفریح دونو ں میں کتنے ہی ایسے اجزا شامل ہو جاتے ہیں جو آرٹ کے نقطہ نظر سے غیرضروری ہیں۔
یعنی آپ لاکھ چاہیں تخلیق کرنے والے اور لطف لینے والے کے عمل اور ردعمل میں خالص آرٹ کے علاوہ بھی کئی چیزیں داخل ہو جائیں گی، جیسے اس کا ماحول، اس کی شخصیت اور اگر وہ کسی طبقے سے منسلک ہے یا آزاد۔ غرض کہ ہوائی قلعہ بنایا تو جا سکتا ہے، اس میں رہا بھی جا سکتا ہے مگر پھر شاعری صرف جمالیاتی تجزیہ کا ایک کھیل بن جائےگی اور میرا خیال ہے کہ کٹر سے کٹر جمالیات کے ماہر شاعری کو صرف جمالیات کے دائرے میں محدود رکھنا بھی نہیں جانتے ہیں۔ اس کے اثرات اور تخلیقی عمل کی بحث اتنی ہوئی ہے کہ نفسیات کی بحث تک پہنچ جاتی ہے۔
(۷) اس مضمون میں مثال کے طور پر کہا گیا ہے کہ ایک اینٹی اسٹیبلشمنٹ بہترین شاعر ہے اور جب اس کی پارٹی برسراقتدار آ جاتی ہے تو کیا وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ رہےگا۔ اس پر غور کرنا اس لیے ضروری ہے کہ باغی آرٹسٹ کا ڈائیلیما اس سوال سے وابستہ ہے، اس لیے کہ اندرے مالرو کا انجام سب کو معلوم ہے لیکن یہ بھی تو دیکھئے کہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف شاعروں اور ادیبوں کا ایک اور گروہ پیدا ہو چکا ہوگا۔
جہاں تک بہترین شاعری کا سوال ہے تو اس کی بڑی ذمہ داری ذاتی اوصاف پر منحصر ہے۔ کیا شاعر اپنے فن سے واقف ہے؟ کیا وہ نئے تجربات کو کامیابی کی سند دے سکتا ہے اور میرے خیال میں یہ اسی وقت ممکن ہے کہ وہ اپنے دور کے مروجہ شعری اصولوں سے واقف ہوکر ان سے بغاوت کر لے اور اس طرح ایک نئی طرز کی بنیاد ڈالے یعنی بغاوت سے چھٹکارا نہیں ہے، خواہ یہ ادبی روایت ہی تک کیوں نہ محدود رہے لیکن نئی حسیت کی تشکیل میں اس کا بڑا دخل ہوتا ہے اور اس طرح یہ بغاوت شعروادب تک محدود نہیں رہتی۔ فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں میں پھیلتی ہے اور ایک خاموش تغیر کو جنم دے کرعام مذاق تک کو بدلتی جاتی ہے۔
(۸) فاروقی نے اپنے دلائل کی حمایت میں برٹرنڈرسل کے ایک قول کو استعمال کرنے کی کوشش کی ہے، جب کہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ رسل اپنے فلسفے اورعمل میں اکثر کمیٹڈ COMMITED رہا ہے۔ رسل کا قول ہے :’’ہرعہد میں برسراقتدار طبقہ یا غرض مند لوگ ادیبوں اور دانشوروں کو اپنی ضرورت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔۔۔‘‘ ظاہر ہے یہ بات کہنے کے لیے رسل کا حوالہ دینے کی ضرورت نہیں تھی۔ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ادیب یہ شروع سے کہتے آئے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ سوال اٹھایا گیا ہے: ’’بڑ ے بڑے ادیبوں کا کسی نظریے کا حامی ہونا سماجی اور نفسیاتی حیثیت سے PRESTIGE کا بھی حامل ہے۔ یہ قصور دراصل اس سامراجی نظام کی یادگار ہے۔ حاکموں کی PRESTIGE اور ان کی ہردلعزیزی کی یادگار ہے۔۔۔‘‘
فاروقی کا مطلب یہ ہے کہ بڑے بڑے ادیبوں کو استعمال کیا جاتا ہے اور وہ استعمال ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ اس کی مثالیں دے سکتے ہیں بالکل اسی طرح میں ایسے ادیبوں کی مثالیں دے سکتا ہوں جو تمام عمر برسراقتدار طبقے سے لڑتے رہے جیسے خود رسل، سارتر، شا۔ تو اس سے کیا ثابت ہوا، یہی ناکہ برسراقتدار طبقہ اپنے فروغ کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے خواہ اسے شعروادب سے دلچسپی ہو یا نہ ہو۔
(۹) فاروقی نے بار بار اچھے انسان، اچھے ادب، کمٹ منٹ اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ کی بحث کو ملانے اور ان سے غلط نتائج نکالنے کی کوشش کی ہے۔ منطقی ربط کا اس سے اندازہ لگا لیجئے کہ سیفو کے فوراً بعد آڈن کا نام لیتے ہیں اور اتنی مضحکہ خیز بات کہتے ہیں کہ اس کا دہرانا ضروری ہے۔ فرماتے ہیں: ’’آخر عرفی اور نظیری غدار وطن ہی تو تھے جو ایران کی عظمت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے صرف روٹی کی خاطر ہندوستان میں آئے تھے۔‘‘
اب اس بیان پر قہقہہ نہ لگایا جائے تو کیا کیا جائے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ قومیت کا تصور انیسویں صدی کا تصور ہے، جس کا سب سے زیادہ فروغ بیسویں صد ی میں ہوا ہے اور BRAIN DRAIN کا مسئلہ تو دوسری جنگ عظیم کے برسوں بعد پیدا ہوا ہے جبکہ امریکہ نے دنیا کے اعلیٰ ماہرین کو بڑی تنخواہیں دے کر اپنے ملک میں جگہ دی ہے مگر وہ کمٹ منٹ کو غلط ثابت کرنے کے لیے ہر قسم کے حربے استعمال کرتے ہیں۔ یہی نہیں غالب کے بارے میں یہ تحریر کیا ہے۔ ’’انگریزوں اور دوسرے امیروں کی دریوزہ گری تو الگ رہی، دستنبو میں ہندوستانی حریت پرستوں کو جن ناموں سے یاد کیا گیا ہے وہ پوری ہندوستانیت پر بدنما داغ ہیں۔‘‘
اب فاروقی کو کون سمجھائے کہ غالب ان معنوں میں وطن پرست نہیں تھے جن معنوں میں ٹیگور اور یہ مثال صرف اس لیے پیش کی ہے کہ غالب کی کمزوریوں کو پیش کرکے ثابت کیا جائے کہ وطن پرستی کا اچھی شاعری سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن میں سوال کرتا ہوں کہ ایک تو غالب نے دستنبو سے پہلے اردو اور فارسی شاعری کے دیوان بڑی حد تک مکمل کر لیے تھے۔ دوسرے کیا غالب کے زمانے میں وطن پرستی کا کوئی واضح تصور تھا؟
(۱۰) بغیر فرائیڈ کا نام لیے انہوں نے فرمایا ہے: ’’۔۔۔ والدین اور بچوں کے درمیان کسی پاکیزہ (یعنی غیرجنسی) ربط کا تصور مہمل اور محال ہے۔‘‘ میں نے کسی ادبی ناقد کو فرائیڈپراتنا ایمان رکھتے نہیں دیکھا ہے۔ حال ہی میں افتخار جالب نے فرائیڈ اور یونگ کے قضیے میں لکھا ہے: ’’فرائیڈ کے تشخیصی طریق کار کی اساس وہ لوگ تھے جو بورژوا میکانیت سے ہم آہنگ نہیں تھے۔ اکھڑ ے ہوئے غیرمعمولی حساس لوگ، اس تحقیق سے مستحسن نتائج کو الٹا پلٹا کر تمام لوگوں پر لاگو کرتے ہوئے فرائیڈ سے بھول ہوئی تھی۔‘‘ (آہنگ نمبر ۵ صفحہ ۴۳)
مگر فاروقی فرائیڈ کے خیالات کو ’’خالص ادبی نقطہ نظر‘‘ سے پیش کرتے ہیں۔ اسی مضمون کے افتخار جالب کے یہ جملے بھی قابل غور ہیں :’’ترقی پسند تحریک جن جن صداقتوں کی داعی تھی، مخالفین نے ان میں سے ہرایک کو رد کرنے کی کوشش کی ہے۔ صداقت سے، دھاندلی سے، جھوٹ سچ سے، ترقی پسند تحریک نے صداقتوں کو صداقت، سماج کو جو اولیت اور بنیادی اہمیت دی تھی وہ کسی طور ختم نہ ہو سکی۔‘‘ (صفحہ ۴۶)
(۱۱) فاروقی کے مضمون کے آخری پیراگراف کے پہلے اور آخری جملے ملاحظہ ہوں: ’’۔۔۔ اصل معاملہ شاعری اور شاعرانہ ذات کے اظہار کا ہے اگر آپ وابستہ رہ کر اور اسٹیبلشمنٹ کا فرد بن کر بھی کر سکتے ہیں تو شوق سے کیجئے۔‘‘
’’اس لیے اصل گناہ وابستگی کا گنا ہ ہے۔ آپ اس کے مرتکب نہ ہوں توآپ کی شاعرانہ عاقبت میں فلاح ہے۔‘‘
یعنی اپنے خیال سے فاروقی نے کمٹ منٹ اوراسٹیبلشمنٹ کو ملا دیا ہے اور پھر ’’اصل گناہ‘‘ سے خبردار کر دیا ہے۔ آخری جملے میں ’’اصل گناہ اور فلاح‘‘ کے الفاظ بھی قابل غور ہیں۔ فاضل مصنف کی عجیب منطق نے ایک دوسرے کے مخالف کو ایک کر دیا ہے۔ آج دنیا کے کمیٹڈ ادیب شاعر اسٹیبلشمنٹ (جسے SYSTEM بھی کہا جا رہا ہے) کے شدید مخالف ہیں مگر اردو کا ایک ’’جدید ناقد‘‘ یہ ماننے کو تیار نہیں اور ’’فلاح‘‘ کا راستہ کمٹ منٹ کی شدید مذمت میں ڈھونڈتا ہے۔۔۔ چلئے قصہ ختم ہوا۔
اور میں یہاں پر مضمون ختم کر سکتا ہوں لیکن میری رائے میں کمٹ منٹ اور جدیدیت کی بحث ضروری ہے، اس لیے کہ ایک بڑے گروہ کا خیال ہے کہ جدیدیت کا کمٹ منٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے جو صرف ایک گروہ کا خیال ہے۔ ایک جدید رجحان کمٹ منٹ کا شدید حامی بھی ہے۔
اصل بات تو یہ ہے کہ فاروقی اوران کے ہم نوا یہ جان گئے ہیں کہ جدیدیت کی سرکشی کو ’’خالص ادبی‘‘ کے وار سے ختم کیا جا سکتا ہے یا کوشش کی جا سکتی ہے اور انہیں یہ بھی علم ہے کہ جدیدیت کسی ’’خلیفہ‘‘ کسی ’’مقدس کتاب‘‘ اور کسی ’’مذہب‘‘ کو نہیں مانتی تو اس کو ایک ’’حلقے‘‘ میں رکھنے کا ایک ہی کارگر حربہ ہے، وہ ہے ’’خالص ادب کا نعرہ‘‘ جو اس بار جمالیات کی نقاب پہنے ہے۔
ترقی پسندی سے منحرف اپنی ذات میں الجھے نئے ادیب اس ’’فردوس‘‘ میں ضرور چلے جائیں گے مگر آج کے نئے ادیب ترقی پسندی سے منکر ہونے کے باوجود زندگی کے خلفشار میں ہر قدم پر ہر لمحہ مبتلا ہیں اور یہ کشاکش ہی انہیں کمٹ منٹ سے وابستہ کرتی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ کمٹ منٹ کو اپنانے کے بعد بھی ’’فلاح‘‘ ممکن نہیں ہے، اس لیے کہ فلاح کا کوئی دروازہ کھلا ہوا نہیں اور برسرپیکار ہونے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں ہے۔
اسی لیے جدیدیت کا بغاوت سے گہرا رشتہ رہاہے۔ الفریڈولینر ALFRED WILLENER نے حال ہی میں جدیدیت کی شروع سے آج تک کی بغاوت کی داستان تفصیل سے اپنی کتاب THE ACTION IMAGE OF SOCIETY ON CULTURAL POLITICALIZATION میں بیان کی ہے جس سے بخوبی اندازہ ہو جائےگا کہ ہندوستان میں جدیدیت کو رجعت پسندی سے منسلک کرنے کی کوششیں یقیناً جمالیاتی نہیں بلکہ سیاسی ہیں اور یہ صرف ایک حلقہ کر رہا ہے۔
جدیدیت اور ترقی پسندی کے کمٹ منٹ میں نمایاں فرق یہ ہے کہ آج بھی ترقی پسندوں کا ٹوٹا ہوا حلقہ پرانے طریقے سے استعمال کرکے جدیدیت کو منفی اور بیمار رجحانات کا نام دے کر رد کرنے کی کوشش میں ہے۔ دوسرے ترقی پسندوں کے پاس اب بھی ریڈی میڈ نظریہ (سوویت مارکسزم) موجود ہے اوراسی عینک کو ذرا سی تبدیلی کے ساتھ ’’ادبی بصارت‘‘ کے لیے استعمال کیا جا رہاہ ے۔ جدیدباغی ادیب کمٹ منٹ کے رشتوں کو خود استوار کرتا ہے۔ اس کی پشت پناہی کوئی حکومت یا سرپرست نہیں کرتا اور کمٹ منٹ کی تشکیل اور فروغ میں اسے نہایت کرب ناک مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، اس لیے کہ کمٹ منٹ خطرناک اقدام کا ایک نام ہے۔
جدید شاعر ی کے سلسلے میں OCTAVE PAZ کے خیالات کی بڑی اہمیت رہی ہے۔ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ انہوں نے مکسیکو میں طلبا پر گولیاں چلانے کی مذمت کرتے ہوئے سفارت کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ ان کایہ فیصلہ ایک شاعر کی حیثیت سے کیا گیا تھا۔ پاز کے جملے ملاحظہ ہوں،
’’جدید شاعری دو قطبین کے درمیان گردش کرتی ہے (۱) طسلماتی اور (۲) انقلابی۔ ذاتی شعور ہمیں اس سے الگ رکھتا ہے تاکہ کوئی چاہے تو تاریخ سے بچ جائے۔ دوسری طرف انقلاب کا تقاضہ ہوتا ہے کہ تاریخی دنیا اور فطرت کو مسخر کر دیا جائے۔ دونوں ایک ہی خلیج کو پاٹنے اور علیحدہ شعور ALIENATED CONSCIOUSNESS کو باہر دنیا سے ملانے کے مختلف طریقے ہیں۔ وہ خصوصیت جو ایک نظم کا انحصار الفاظ پر ضروری سمجھتی ہے، وہی یہ بھی چاہتی ہے کہ ان (الفاظ) سے آگے نکل جانے کی جدوجہد جاری رکھے۔ یہ انحصار شاعر کے سماج اور تاریخ سے وابستگی سے متعلق ہے۔ ان سے آگے نکل جانے کا طلسماتی مختصر راستہ فطرت کو واپسی۔۔۔ الفاظ اور اشیا کے ابتدائی اتحاد کی طرف سے لے جاتا ہے۔ دونوں کوعام انسانی حالت کی فکر ہے گوکہ بہت سے لوگ پنہاں پیچیدگیوں اور تناؤ سے بےخبر ہیں جو الفاظ یا اشیا کے تعلق سے پیدا ہوتا ہے۔۔۔‘‘ (یہ اقتباس مائیکل ہیمبرگر کی کتاب ’’شاعری کی صداقت‘‘ سے لیا گیا ہے۔ صفحہ ۴۱۔ ۴۰)
کمٹ منٹ کا تصور ایک انقلابی تصور ہے اور یہ ایک مرکز، ایک راہ، ایک منزل پر رک کر نہیں رہ جاتا ہے بلکہ ادب، انقلاب اور سماج کے بنتے، ٹوٹتے اور بنتے رشتوں کو فروغ دیتا ہے،
چلو کہ پھر نئے شب خوں کی رات آپہنچی
حصار توڑ کے تنہا سا قافلہ نکلا
(یہ مضمون ۲۰ ستمبر ۷۰ء کو ایک ادبی نشست میں محترمہ قرۃ العین حیدر کے ڈرائنگ روم میں پڑھا گیا تھا)
حاشیے
(۱) روجرگارودی وہ مارکسی مفکر ہے جس کی مشہور کتاب ’’قبرستان کا ادب‘‘ کو ترقی پسند ہر جاو بےجا موقع پراستعمال کرتے تھے۔ صد افسوس کہ اس کی رائے سننے والا آج کوئی ترقی پسند اردو ادیب نہیں ہے۔
(۲) حال ہی میں اراگاں نے ایک بیان میں کہا ہے، ’’چک عوام ایک طرح کے ’ذہنی بایا فرا‘ میں مبتلا ہیں۔‘‘ ( دلیپ پٹگانو کر۔۔۔ ٹائمز آف انڈیا۔ ۹ فروری ۷۱ء)
(۳) کمٹ منٹ کے خلاف کمیونسٹ دشمن ادیب JOHN MANDER کی کتاب WRITER & COMMITMENT بھی قابل ذکر ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.