دنیا کی کہانی میں حضرت آدم ؑ کا زمانہ وہ وقت ہے جب آدمی جانور سے انسان ہوا۔ سائنس کے پجاری حضرت آدم ؑ کو نہیں مانتے۔ لیکن یہی لوگ جب پرانی قوموں کے عقیدوں اور دھرم کو بیان کرتے ہیں تو ہمیں ہر جگہ کسی نہ کسی شکل میں ایک ایسے بزرگ کا نام ملتا ہے جنہوں نے آدم ؑ کی طرح نیکی اور بدی کا پھل چکھ کر، یونانی سورما پرومے تھی نس کی طرح آسمان سے آگ لاکر اور آدمی کو کھیتی باڑی کا فن سکھاکر، یم کی طرح سورگ کا رستہ تلاش کرکے آدمی اور جانور میں ایسا فرق پیدا کر دیا کہ پھر یہ دونوں ایک سے نہ ہو سکیں۔
پرانی قوموں کی روایتوں، پرانوں یا دیومالا میں یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ آدمی کو دنیا آباد کیے بہت دن نہیں ہوئے تھے جب ایک طوفان آیا، جس میں تھوڑے سے لوگوں کے سوا سب ڈوب گئے۔ اگلے وقتوں میں عقل کی دھار اتنی تیز نہیں تھی کہ جہاں پر رکھی جائے وہیں کاٹ دے۔ شاید لوگ اس دھار سے کاٹنے کے علاوہ اور کام بھی لینا چاہتے تھے اور اس لیے ہمیں مذہبی عقیدے اور قصے کہانیاں، تاریخ اور خیالی باتیں سب ایک میں گتھی ہوئی ملتی ہیں۔ یایہ سمجھیے کہ یہ ایک باغ ہے جسے ہم اتنی دور سے دیکھ رہے ہیں کہ چمن میں چمن، رنگ میں رنگ، پھول میں پھول مل جاتا ہے۔ ان قصے کہانیوں میں کانٹ چھانٹ کرنا بے ادبی معلوم ہوتی ہے۔ یہاں تو بس دیکھیے، لطف اٹھائیے اور سبق حاصل کیجئے۔
طوفان کی لہروں اور گردابوں میں جب دنیا متھی جاچکی تھی تو زندگی کی اکھڑی ہوئی جڑیں پھر جمنے لگیں اور کہیں کہیں پر خاصی مضبوط جمیں۔ دریائے نیل کی وادی میں، جنوبی عراق میں، ہندوستان میں دریائے سندھ کے کناروں پر اور چین میں دریائے ہوانگ ہو اور انگ ٹسی کیانگ کے دہانوں پر۔ لیکن دنیا کی آبادی بس انہیں بستیوں میں نہیں تھی، ایسی بھی بہت سی نسلیں تھیں جنہیں کہیں کوئی ٹھکانا نہیں ملا۔ انہیں خانہ بدوش کہتے ہیں، گویاوہ اپنا گھر کاندھوں پر لادے، مویشیوں کو چراتی گھوما کرتی تھیں۔ جب ان کی تعداد بہت بڑھ جاتی یاوہ پھرتے پھرتے بڑی بستیوں کے پاس پہنچ جاتیں تو ان میں اور بستی والوں میں، جنہیں وہ ظاہر ہے لوٹنا چاہتے تھے خوب لڑائیاں ہوتیں۔ ان میں آخر کار خانہ بدوش ہی جیتتے تھے۔ وہ بستی والوں کو مار ہٹاتے اور خود ان کی جگہ آباد ہو جاتے۔ پھر تین چار سو برس بعد کسی اور قوم کے ہاتھوں یہ نئی بستی بھی اجاڑ کر نئے لوگوں سے بسائی جاتی۔
تہذیب کے پرانے مرکز گھڑے بھرپانی میں شکر کے دو چار ڈلے تھے۔ پانی ہلا دیا جاتا تو وہ گھل جاتے، پھرجب وہ ٹھہر جاتا تو شکر بیٹھ جاتی۔ لیکن پانی کو ہلانے والے کچھ نہ کچھ مٹھاس بھی اپنے ساتھ لاتے تھے۔ گھلنے کے بعد جو شکر جمع ہوتی وہ پہلے سے کچھ زیادہ ہی ہوتی اور گھڑے کا پانی بھی ذرا اور میٹھا ہی ہو جاتا۔ اس طرح تہذیب پھیلتی رہی۔ عراق، مصر، ہندوستان کے علاوہ بحر روم، جسے انگریزی میں (MEDITERRNEAN SEA) کہتے ہیں، کے ساحل پر فلسطین میں، شام میں، کریٹ کے جزیرے میں، اٹلی کے ضلع ایڑوریا میں، شمالی افریقہ میں آج کل کے شہر تونس کے قریب تہذیب کے مرکز قائم ہوئے۔
ہمارے عالم ابھی یہ نہیں طے کر پائے کہ مصر کی تہذیب سب سے زیادہ پرانی ہے یا جنوبی عراق کی سو میری تہذیب۔ لیکن یہ دونوں بہر حال آٹھ دس ہزار برس پرانی مانی جاتی ہیں۔ اور ہندوستان کے اندر ہڑپا اور موہنجوڈارو میں جن بستیوں کے نشان ملے ہیں، ان میں سب سے پرانی ان سے کچھ کم نہ ہوں گی۔ مصر کے پرانے شہر تھیبز، ممفس اور ہیلی اوپولس، جنوبی عراق میں بابل اور شمال میں نینوا، کریٹ میں شہر کنوسوس تہذیب کے اس دور میں آباد ہوئے اور سیکڑو ں برس آباد رہے۔
اب سے کوئی ساڑھے چار ہزار برس پہلے ایک نئی نسل نے جس کا ہمیں نام تک معلوم نہیں ہے اور جو اپنے آپ کو آریہ یعنی پاک یا پوتر کہتی تھی خدا جانے کہاں سے نکل پڑی۔ اس نے جنوبی یورپ، عراق، ایران اور ہندوستان پر قبضہ کیا۔ پرانی تہذیب کو کچھ مٹایا، بہت کچھ اختیار کرکے اپنے رنگ میں رنگ دیا۔ ہندوستانی، ایرانی، یونانی اور رومی آریہ تھے تو سب ایک ہی خاندان کے لوگ، مگر سب نے الگ الگ طبیعت اور مزاج پایا تھا اور سب نے دنیا میں مختلف یادگاریں چھوڑیں۔ آریوں کاسب سے پہلا سامراج ایران میں قائم ہوا اور شام سے لے کر ہمارے دریائے سندھ تک پھیلا۔ پھر اسے یونانی آریوں کے مشہور بادشاہ سکندر نے مٹایا اور اسی کے تھوڑے دن کے بعد ہندوستان میں موریا سامراج کی بنیاد پڑی۔
یہ ادھر ختم ہوا تھاکہ مغرب میں رومی سلطنت کا ستارہ چمکا۔ اسی زمانے میں نئی خانہ بدوش نسلوں نے منگولیاں کی چراگاہوں سے نکل کر ذرا سی مدت میں ہندوستان، ایران، ترکی اور مشرقی یورپ کو برباد اور پھر آباد کیا۔ یہ ہیں شروع سے حضرت عیسیٰؑ کے زمانے تک کی تاریخ کی موٹی موٹی باتیں۔ اب آیئے اسی زمانے پر دوسرے پہلو سے نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ ان چھ سات ہزار برس میں انسان نے کتنی ترقی کی۔
جدید پتھر کا زمانہ ۸۰۰۰ق م
پہلے مکان بنے ۷۰۰۰ق م
سو میری تہذیب کی ابتدا ۶۰۰۰ق م
سو میریوں نے لکھنا شروع کیا۔ مصر کا پہلا شاہی خاندان ۵۰۰۰ق م
موہنجوڈارو اور ہڑپا کے پہلے شہر بنے۔ فونیقی تہذیب کا آغاز
پہلے جہاز بنے ۳۰۰۰ق م
عراق، مصر، ہندوستان اور بحر روم کے ساحل پر شہری زندگی، فونیقی تجارت کے ساتھ وہ ابجد پھیلی جو انہوں نے عراقی،، مصری طرز تحریر کو ملا کر تیار کی تھی۔
آریہ زبانیں پھیلیں ۲۰۰۰ق م
ایران، ہندوستان اور یونان میں آریہ مذہب اور تہذیب کی بنا۔ فونیقی تہذیب کا خاتمہ۔ ایرانیوں اور یونانیوں کی جنگ ۵۰۰ق م
سکندر اعظم ۳۲۰ق م
ہم جسے تہذیب کہتے ہیں اس کے معنی ہیں دین ایمان کے، دھرم، قانون اور علم کے سائے میں اپنی زندگی بسر کرنا، اپنی محنت سے اس زندگی کو سرسبز رکھنا، نیک حوصلوں سے اس کو رونق دینا اور صنعت و تجارت کے ذریعہ سے وہ چیزیں حاصل کرنا جن سے آرام پہنچتا ہے یا جن کی خوبصورتی دل کو خوش کرتی ہے۔ ہر قوم اپنی زندگی اپنی طبیعت اور مذاق کے ڈھنگ پر بناتی ہے اور سنوارتی ہے، مگر پھر بھی آدمی تو ہر جگہ رہتا ہے اور اگر نام اور چند خصوصیات کا پردہ ہٹا دیا جائے تو ہمیں ہر جگہ قریب قریب ایک ہی سی زندگی نظر آئےگی۔ مصر، سومیریا، بابل، قدیم ہندوستان اور ایران میں مذہب امید اور خوف کی وہی دورخی تصویر تھی، اس میں ان قوتوں سے لگاؤ بڑھایا جاتا تھا جو زندگی کو قائم رکھتی اور اسے پروان چڑھاتی ہیں۔
ان قوتوں کو رام کرنے کی فکر کی جاتی تھی، جن سے نقصان اور موت کا اندیشہ ہوتا ہے لیکن آدمی ان قوتوں کو پوری طرح جانتا پہچانتا نہیں۔ وہ اتنی بڑی ہیں اور اسے ہر طرف سے اس طرح گھیرے ہوئے ہیں کہ اس کی عقل حیران رہتی ہے۔ وہ انہیں طرح طرح کی شکلوں میں تصور کرتا ہے، طرح طرح کے نام دیتا ہے اور جس بات کو وہ صاف صاف کہہ نہیں سکتا اس لیے کہ وہ صاف صاف سمجھتا نہیں، اسے وہ ایک کہانی بنا دیتا ہے۔ پرانی قوموں کی دیو مالا میں ہزاروں ایسی کہانیاں ہیں اور ایسی ملتی جلتی کہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ سب ایک ہی حقیقت کو بیان کرنے کی الگ الگ کوششیں ہیں۔
مذہب کے اس شاعرانہ پہلو کے ساتھ ہمیں ہر جگہ دھرم اور قانون بھی شروع ہی سے ملتے ہیں اور انہیں آپ دیکھیے تو وہ آج کل کے قانون سے بہت مختلف نہیں، بلکہ بعض باتوں میں آج کل سے بہتر بھی ہیں۔ مصر میں اوسی رس اور اس کے بعد کئی بادشاہوں نے، بابل میں شاہ ہموربی نے، یہودیوں کے لیے حضرت موسیؑ نے، کریٹ کے جزیرے میں می نوس نے مذہبی، اخلاقی اور معاشرتی یعنی سماجی قانون بنائے۔
شاہ ہموربی کا قانون ایک پتھر پر نقش کیا ہوا ملاہے۔ اس میں بعض جرم جیسے چوری، ایسے ہیں جن کی سزا آج کل بہت سخت معلوم ہوتی ہے۔ بعض باتیں ایسی ہیں کہ ہم ترقی کرکے بھی ان تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔ مثلا یہ کہ شہر میں کسی کے یہاں ڈاکہ پڑے تو حکومت کا فرض ہے کہ مجرم کو پکڑ کر مال واپس پہنچائے یا اپنے پاس سے نقصان پورا کرے۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ عورتوں کو بہت آزادی تھی، ان کے حق مردوں سے کسی طرح کم نہ تھے۔ ان کو جائداد اور ورثے میں حصہ ملتا تھا۔ وہ کاروبار کر سکتی تھیں اور کرتی تھیں۔ اور مصر کی ملکہ ’’ہتھ سے پت‘‘ اور ملکہ تئی اور بابل کی ملکہ سمیرمس کے حالات پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ان ملکوں میں عورتیں راج پاٹ کی اہل مانی جاتی تھیں۔
مصری قصوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ اپنی عورتوں سے ڈرتے اور دبتے تھے، اور یہ خیال صحیح نہ ہو تب بھی ہم یہ تو جانتے ہیں کہ مصر اور بابل میں عورتیں شادی کے بعد شوہر کی ذات یا اس کے خاندان میں گم نہیں ہو جاتی تھیں، بلکہ ان کا اصل رشتہ اپنے ماں باپ ہی سے رہتا تھا اور وہ آسانی سے طلاق لے سکتی تھیں۔
قانون کے بعد ہم اس زمانے کی زندگی اور شعبوں کو دیکھیں تو بڑی حیرت ہوتی ہے۔ مصر اور بابل میں حکومت کی طرف سے آب پاشی کا پورا انتظام تھا۔ دریاؤں سے نہریں کاٹ کاٹ کر دور تک پانی پہنچایا گیا تھا اور سیلاب اور بارش کے پانی کو جمع رکھنے کے لیے بڑے بڑے تالاب بنے تھے۔ جان و مال کی حفاظت کو ہر بستی میں پولس اور شہروں میں فوج تھی۔ اور ہم تک مصر اور بابل کے کئی ایسے قصے پہنچے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ خود قاعدے اور قانون کا بہت لحاظ کرتے تھے اور سرکاری ملازموں کو ظلم و زیادتی سے روکتے رہتے تھے۔ مقدموں کا فیصلہ کرنے کے لیے عدالتیں موجود تھیں اور ان کا مرتبہ ایسا تھا کہ وہ اپنا فرض خوبی سے انجام دی سکتی تھیں۔
قانون اور ملکی انتظام کی طرح اس علم کی، جس پر ہم ناز کرتے ہیں اسی زمانے میں داغ بیل ڈالی گئی۔ مصر اور بابل میں لکھنے کا طریقہ ایجاد کیا گیا۔ بابل والے مٹی کی تختیاں بناکر جب وہ گیلی ہوتیں اسی وقت ان پر ایک نکیلے اوزار سے گڑو گڑو کر لکھتے تھے، پھر ان تختیوں کو سکھا لیتے۔ جیسا ان کا کاغذ قلم تھا ویسا ہی ان کا خط بھی تھا، اور بابل میں تو خط و کتابت کی رسم بھی جاری تھی اور لوگ انہی تختیوں کو مٹی کے ڈبوں میں بند کرکے ڈاکیوں کے ذریعے ایک دوسرے کے پاس بھیجتے تھے۔ لکھنے کے اس طریقے میں بڑی طوالت تھی۔
مصر میں ایک قسم کی نرم تنے کی بانسی ہوتی تھی جسے پپی رس کہتے ہیں، اس کی چھال سے آسانی کے ساتھ ایک طرح کا کاغذ تیار کیا جا سکتا تھا۔ مصری شروع میں تو جس چیز کا ذکر کرنا ہوتا اس کی تصویر بناتے تھے۔ مگر آہستہ آہستہ انہی تصویروں سے ایک ایسا لکھنے کا طریقہ نکالا گیا جس میں آدمی جلدی اور صفائی سے اپنا مطلب ادا کر سکتا تھا۔ بابل اور مصر کی کوششوں سے فائدہ اٹھاکر ایک قوم نے جو فونیقی کہلاتی ہے، پورے پورے لفظوں کی جگہ الگ الگ حرف بنائے جن میں سے ہر ایک کسی خاص آواز کی علامت تھی۔ فونیقی تاجر تھے، انہوں نے تجارت کے ساتھ لکھنے کے اپنے خاص طریقے کو پھیلایا اور چینی اور جاپانی کے سوا دنیا میں جتنی زبانیں ہیں ان سب میں یہی حرف شکلیں بدل کر اور کچھ کمی بیشی کے ساتھ رائج ہوئے۔
لکھنے پڑھنے کے علاوہ اور علم بھی تھے جو اس زمانے میں حاصل کیے گئے۔ وقت کو سالوں میں، سال کو مہینے اور ہفتے، دن کو پہروں میں سب سے پہلے بابل والوں نے تقسیم کیا اور دھوپ گھڑی سب سے پہلے انہی نے بنائی۔ ستاروں اور برجوں کے نام انہی نے رکھے اور شبھ گھڑی نکالنے اور ستاروں سے فال دیکھنے کی رسم انہوں نے شروع کی، مصریوں نے جنتری بنائی، اورحساب اور اقلیدس یا (GEOMETRY) میں انہوں نے جو کمال حاصل کیا اس کے ثبوت کے لیے اہرام مصر یعنی PYRAMIDS موجود ہیں۔ ان میں جو سب سے بڑا ہے وہ سیکڑوں من وزنی پتھروں سے بنا ہے جن کی کل تعداد ۲۰ لاکھ کے قریب ہوگی۔
یہ پتھر بغیر چونے مسالے کے ایسی صفائی سے بٹھائے گئے ہیں کہ ان کے جوڑ مشکل سے دکھائی دیتے ہیں اور ہزاروں برس میں اپنی جگہ سے رتی بھر بھی نہیں سرکے ہیں۔ یہ عمارت نیچے ۷۴۸ فٹ مربع ہے اور اونچائی میں ۴۴۰ فٹ یعنی قطب مینار سے کوئی دوسو فٹ زیادہ ہے۔ جن لوگوں نے ان وزنی پتھروں کو کاٹ کر اور تراش کر اتنی بلندی پر پہنچایا وہ اناڑی نہیں تھے اور ان کی اس یادگار کو دیکھ کر ہمیں اپنے علم پر زیادہ گھمنڈ نہ کرنا چاہیے۔ کہتے ہیں کہ بابل میں بھی ایسی ہی ایک اونچی اور عالیشان عمارت تھی، مگر آسمان نے اس کی بلندی پر رشک کھاکر اسے زمین میں سے ملا دیا۔
جہاں ایسی عمارتیں بنائی جا سکتی تھیں وہاں سمجھیے خوبصورت شہر اور مکان بنانا بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ مصر، عراق، کریٹ اور ہمارے ہندوستان کے اندر موہنجوڈارو اور ہڑپامیں شہر کے شہر زمین سے کھود کر نکالے گئے ہیں۔ ان کے کھنڈروں سے ہم اس رونق کاکوئی اندازہ نہیں لگا سکتے جو زندگی اور آبادی کے ساتھ آتی اور جاتی ہے، مگر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ شہر پھیلاؤ میں آج کل کے قصبوں سے کچھ کم نہیں، مکان اینٹ اور چونے کے بنے ہوئے اور تین تین چار چار منزل اونچے ہیں۔ سڑکیں چوڑی ہیں اور گندے پانی کے نکاس کا اچھا انتظام ہے۔
اب اس میں کیا شک ہو سکتا ہے کہ جو لوگ یہاں رہتے تھے وہ نہایت ہی شائستہ تھے۔ ان کھنڈروں میں ہمیں بہت ہی خوش نما برتن اور زیور ملے ہیں اور جس طرح آج کل ایک ملک کی بنی ہوئی چیزیں دوسرے ملکوں میں پہنچتی ہیں ویسے ہی اس وقت بھی ایک جگہ کی چیزیں دوسری جگہ جاتی تھیں اور ایک جگہ کے فیشن اور رسم کی دوسری جگہ نقل کی جاتی تھی۔ ریل اور ہوائی جہاز نہ ہونے پر بھی اس زمانے کی دنیا تنگ یا چھوٹی نہیں تھی۔
سب سے زیادہ تعجب تو اس وقت ہوتا ہے جب ہم مورتوں اور تصویروں میں اس زمانے کے لوگوں کی صورتیں دیکھتے ہیں اور ان کی صحبتوں اور دلچسپیوں کا نقشہ ہمارے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ عراق، مصر اور کریٹ کے لوگوں نے بس یہی نہیں کیا کہ ایسے قانون اور زندگی کے ایسے اصول بنائے جن سے ان کی تہذیب مدتوں قائم رہی یا علم اور فن کو ایسے درجے پر پہنچایا کہ ان کے کارنامے دیکھنے والوں کو حیرت میں ڈال دیں۔
زندگی کی تمام ضروریات کو پورا کرنے کا انہوں نے ایسا انتظام کر لیا تھا کہ انہیں اپنی معاشرت کو طرح طرح کی نفاستوں سے سنوارنے کا موقع تھا، ان کی صورتوں سے شائستگی ٹپکتی تھی، وہ مہذب میل جول کے آداب سے واقف تھے، ان کی عورتوں نے وہ تمام ترکیبیں معلوم کر لی تھیں جن سے ناک نقشے یا ڈیل ڈول کی کسر پوری کی جاتی ہے اور آرائش کے اس فن کے قدردان بھی کم نہ تھے۔ دریا اور باغوں کی سیر، دعوتیں، محفلیں، یہ سب روزمرہ کی باتیں تھیں۔ اہل فن کی قدر، پردیسیوں کی خاطر مدارات، محتاجوں کی مدد، اس میں ہم آج تک کوئی ایسا ڈھنگ نکال نہیں سکے جس کی انہیں خبر نہ تھی۔ تہذیب کا اجالا جیسااب ہے ویسا ہی کچھ تب بھی تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.