Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

فارسی عربی رسم الخط

محمد مجیب

فارسی عربی رسم الخط

محمد مجیب

MORE BYمحمد مجیب

     

    (اب جبکہ اردو میں کمپیوٹر چھپائی عام ہوتی جا رہی ہے اس مضمون کی حیثیت تاریخی اور معلوماتی ہے۔) (م۔ ذ)

    ’’میراقلم معجزے دکھاتا ہے، میرے لفظ کی ’شکل‘ کو اپنے پر فخر ہے کہ وہ ’معنی‘ سے برتر ہے۔ میرے حروف کی ہر گولائی کی خوبی کا گنبد آسماں بھی معترف ہے۔ میرے قلم کی ہر جنبش کی قیمت بقائے دوام ہے۔‘‘ یہ ہیں دربار جہانگیر کے خطاط میر علی کے الفاظ۔ بظاہر یہ مضحکہ خیز خودستائی ہے۔ لیکن خطاط (یا خوش نویس) کی قدر اتنی ہی ہوتی تھی جتنی شاعر، مصور اور فن تعمیر کے ماہر کی اور حسن کی ہردل عزیز صورتیں پیش کرنے والوں میں اس کا بلند رتبہ ہوتا تھا۔

    واقعی وہ دوسروں سے برتر تھا کیونکہ اس کا پیشہ قانون اور مذہب کے اعتبار سے سب سے زیادہ قابل قدر پیشوں میں تھا۔ قرآن شریف کی نقل کرنا اتناہی قابل تعریف (وتعظیم) تھا جتنا اسے پڑھانا اور اس کی تلاوت کرنا۔ جو کوئی مقدس کتاب کی خوش نویسی کر لیتا تھا تویہ سمجھا جاتا تھا کہ اس نے عبادت کا سب سے زیادہ قابل قبول کام کر لیا۔ خوش نویسی یا خطاطی ایک آرٹ یا فن بھی تھی جس میں (حروف کی) ترتیب کی جمالیات، خط اورحرکت کو سمو لیا گیا تھا اور اس سے امید یہ کی جاتی تھی کہ مہذب لوگوں کو ویسی ہی خوشی ہو جتنی شاعری سے ہوتی ہے۔ اس لیے خطاطی کے ماہر کو عاجز ی دکھانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

    یہ با ت نہیں ہے کہ مسلمانوں نے سب سے پہلے اسے آرٹ یا فن کی سطح پر پہنچایا ہو۔ ایرانیوں اور خاص طور پر مانی کے پیرووں Manichaeans نے اس کی آبیاری کی تھی اور انہیں اس کا ذوق ملا تھا وسط ایشیا کے لوگوں سے اور وہ لوگ غالباً متاثر ہوئے تھے ہان اور ٹئانگ کے خاندان کے فنکاروں اور خطاطوں سے۔ خالصتاً مادی (یا دنیوی) نقطہ نظر سے خطاطی کی آبیاری کا سراغ کاغذ سازی اور قلم اور سیاہی کے استعمال کے شروع ہونے سے لگایا جا سکتا ہے اور اس کے لیے ہمیں پھر چین کا ذکر کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ سب سے پہلے کاغذ وہیں بنایا گیا تھا اور پہلی کتاب بھی وہیں سن ۶۰۰ عیسوی کے آس پاس چھپی تھی۔

    بطور ایک پیشے کے خطاطی کی اہمیت اور وسیع پیمانے پر اس کا روا ج مسلمانوں میں ہوا کیونکہ ان میں کتابوں کی مانگ بہت بڑھ گئی۔ سیکڑوں ہزاروں کی تعداد میں قرآن شریف کے نسخوں کی ضرورت ہوتی تھی۔ ہر مسلمان کے لیے لازم تھا کہ وہ مقدس کتاب پڑھے جس کا مطلب یہ تھا کہ قرآن شریف ہر گھر میں ضرور ہونا چاہئے۔ خطاط یا خوش نویس کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنا فن اچھی طرح جانے کیونکہ لکھائی کو جاذب نظر بنانے کی ایماندارانہ کوشش نہ کرنے کو مقدس کتاب کی بے حرمتی سمجھا جاتا تھا۔ رسم الخظ میں حسن کے تصور کے ارتقا کا مطالعہ بذات خود ایک دلچسپ پہلو ہے۔

    اسلام سے پہلے عرب میں جو زبان بولی جاتی تھی، اس پرعرب والوں کو بہت ناز تھا لیکن لکھائی عام نہیں تھی۔ اسلام آنے کے بعد سب سے پہلی دستاویز جو دستیاب ہوئی ہے، اس کی لکھائی بعد کی نفیس لکھائی کے مقابلے میں گھیسٹ لکھائی کی سی ہے۔ شامی اور ایرانی لوگوں سے جب تعلقات قائم ہوئے تو ایک ایسی معیاری لکھائی (یارسم الخط) کا تصور پیدا ہوا جس میں جمالیاتی کشش ہو۔ اس طرح رسم الخط کے مختلف اسالیب سامنے آئے جسے کو فی کہتے ہیں۔ کوفی رسم الخط میں قرآن شریف کے نسخے دستیاب ہیں لیکن قرآن شریف کو توصحیح صحیح پڑھا جانا چاہئے اور اگرچہ کوفی رسم الخط میں بہت زیادہ آرائشی صورتیں نکل سکتی تھیں لیکن یہ ایسا نہ تھا کہ بالکل ٹھیک ٹھیک پڑھا جاسکے۔ اس لیے وہ رسم الخط وجود میں آیا جسے نسخ کہتے ہیں۔ اس میں حروف الگ الگ شناخت کیے جا سکتے تھے، اعراب کا استعمال ہو سکتا تھا، اور یہ اور آسانی اور جلدی سے لکھا جا سکتا تھا۔

    کوفی اور نسخ دونوں رسم الخط مختلف ممالک کے مسلمانوں نے اپنی اپنی پسند کے مطابق اپنالیے تھے۔ لیکن جب تیرہویں صدی سے مصوری بطور آرٹ یا فن کے شروع ہو گئی تو خوش نویسوں نے محسوس کیا کہ نسخ رسم الخط میں خط اور گولائی کی پوری خوبی نہیں دکھائی جا سکتی۔ اس لیے لکھائی کا تیسرا اسلوب ایجاد ہوا جسے نستعلیق کہتے ہیں۔ اس نے خوش نویسی کو خط کشی Line-drawing سے قریب کر دیا اور اس طرح مطلاو مذہب مسودہ ادب، مصوری اور آرائش کا امتزاج بن گیا۔

    ہندوستان میں لکھائی (یاتحریر) کے سارے اسالیب کے نمونے موجو دہیں۔ دہلی میں التمش کے مقبرے میں کوفی اسلوب کے کتبے میں اتنے ہی نفیس جتنے دنیا میں اور کہیں ہیں اور قرآن شریف کے صفحات کو جمائے ہوئے یعنی imposed چھپائی کے نسخے بھی ملتے ہیں۔ وہ کوفی میں ہیں لیکن انہیں ٹھیک ٹھیک پڑھا نہیں جا سکتا۔ نسخ کا استعمال بہت ہوا آرائشی اسلوب میں بھی اورافادی utiliatarian اسلوب بھی۔ لیکن فارسی اور اردو والوں نے ہندوستان میں جس رسم الخط کو دل سے اپنایا ہے وہ نستعلیق اور اس کی مختصر نویسی یعنی شارٹ ہینڈ یا خط شکست ہے۔ سوائے عربی کی کتابوں کے تمام کتابیں نستعلیق ہی میں چھپتی ہیں۔

    سرکاری خط کتابت میں، شاہی فرمانوں اور قانونی دستایزوں میں یہی رسم الخط استعمال ہوتا تھا، اردو کے لیے اب یہی استعمال ہوتا ہے۔ شاہی درباروں اور بعد میں قانونی عدالتوں میں نوٹس یعنی مختصر یادداشتیں لکھنے کے لیے خط کتابت میں اور نجی کاغذات یا ریکارڈ میں اسی خط کی مختصر نویسی یعنی شارٹ ہینڈ /خط شکست استعمال کیا جاتا تھا۔ اردو بولنے والے ہندوستانیوں کے لیے بنیادی خواندگی کا مطلب یہی ہے کہ وہ خط نستعلیق اور خط شکست لکھ پڑھ سکیں۔

    ایک بات جس کے لیے میں شکر ادا کرتا ہوں، یہ ہے کہ جب مجھے اردو کے حروف تہجی سکھائے جا رہے تھے تو مجھے بد نویسی یا خراب لکھنے پر سزا ملتی تھی۔ اب مجھے احساس ہوتا ہے کہ مجھے صرف بے پروائی یا نالائقی کی سزا نہیں ملتی تھی بلکہ تہذیب کی میں نے پوری طرح عزت نہیں کی تھی، اس کی سزا ملتی تھی۔ کسی بھی شخص کا خط یا تحریر اس کے اظہار نفس کی بھی ایک صورت ہوتی ہے اور اس صدی کے ابتدائی زمانے تک جو لوگ فارسی عربی رسم الخط استعمال کرتے تھے، وہ یہ سمجھتے تھے کہ تحریر سے بے پروائی علامت ہے کلچر یا تہذیب سے بےپروائی کی، اس حقیقت سے بےپروائی کی کہ کلچر یا تہذیب امتزاج ہوتی ہے مختلف قسم کی فضیلتوں کا۔

    میرا خیا ل ہے کہ وہ صحیح سمجھتے تھے۔ ہروہ شخص جو لکھ سکتا تھا اسے کسی نہ کسی حد تک خوش نویس بھی ہونا ضروری تھا، اسے یہ جاننا بھی ضروری تھا کہ (سرکنڈے یا) نیزے کو کس طرح تراش کر قلم بنائی جاتی ہے اور کس طرح اپنے استعمال کے لیے سیاہی تیار کی جاتی ہے، اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ یہ سمجھ لے کہ اپنی تحریر (یا لکھائی) میں لطافت کے ان معیاروں سے کیسے مطابقت پیدا کی جاتی ہے جن میں کسی سے خطاب کیا جاتا ہے یا اپنا مطلب بیان کیا جاتا ہے۔ فارسی عربی رسم خط محض تحریر (یا لکھائی) کا ایک طریقہ نہیں ہے جس کی لمبی تاریخ ہے، یہ صرف جمالیاتی اقدار کا ورثہ نہیں ہے بلکہ علامت ہے تہذیب اور آرٹ کی بنیادی وحدت کی، یہ ایک قومی محرک (یاشوق) ہے فضیلت حاصل کرنے کا، ہراس عمل میں جو کیا جائے۔

    (لیکن ہم جانتے ہیں کہ) ہم سائنس، ٹیکنالوجی اور بنیادی طور پرافادیت پسندی Utilitarianism کے زمانے میں رہ رہے ہیں۔ (افادیت سے مطلب یہ ہے کہ جو کچھ ہم کریں وہ کسی مقصد یا فائدے کے لیے ہو) بہت سے سوال ہیں جن (پر غور کرنا)، جن کا جواب دینا ضروری ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ معلوم کیا جائے کہ فارسی عربی رسم الخط کی اور دوسرے رسم الخطوں کی بھی آج کتنی اہمیت ہے؟ رسم خط کو پڑھنا اور لکھنا سیکھنے میں کتنا وقت لگتا ہے؟ اس کی صحیح صحیح اور عمدہ چھپائی میں غیرضروری لاگت اور پریشانی تو نہیں ہوتی؟ کیا سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کے تقاضوں کو یہ پورا کر سکتا ہے؟ صحیح صحیح پڑھے جانے میں رومن رسم خط کے مقابلے میں یہ کیسا ہے؟ ہندوستان میں مختلف رسم الخطوں کی وکالت کرنے والے عام طور پر ان سوالوں کے جو جواب دیتے ہیں وہ اتنے معروضی (عقل پر مبنی) نہیں ہوتے، زیادہ تر جذبات اور سیاسی پالیسی کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔

    روش عام کے مطابق میں کہہ سکتا ہوں کہ فارسی عربی رسم خط اتناہی اچھا ہے جتنا اور کوئی رسم خط۔ جو تجربے کیے گئے ہیں ان کی روشنی میں کہا جاتا ہے کہ وہ نوجوان جن کی ذہانت اوسط درجے سے کم ہو وہ آدھے آدھے گھنٹے کے سبق کے لحاظ سے پینتیس گھنٹوں میں یا پورے ایک ایک گھنٹے کے سبق کے حساب سے سترہ گھنٹوں میں اردو رسم خط سیکھ سکتے ہیں اور وہ لوگ جو اردو یا ہندوستانی کی کوئی بھی قسم بولتے ہیں مگر لکھ نہیں سکتے تو وہ اسے دس دن میں لکھنا سیکھ سکتے ہیں۔ اردو سیکھنے والے ہجے کی جتنی غلطیاں کرتے ہیں وہ تعداد میں یقیناً ان سے زیادہ نہیں ہوتیں جو انگریزی سیکھنے والے کرتے ہیں۔

    اگر لیتھو گرافک طریقہ اپنایا جائے تو فارسی رسم خط کی چھپائی زیادہ سستی ہو سکتی ہے اور اتنی ہی جلدی جتنی ٹائپ میں۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں بالکل صحیح صحیح چھپائی تو قسمت کی بات ہے لیکن فارسی عربی رسم خط کا سب سے پر جوش عاشق بھی یہ کہتے ہوئے گھبرائےگا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی کتابیں چھاپنے کے لیے عام لیتھو گرافک طریقہ مناسب ہے۔ جہاں تک پڑھ لیے جانے کا سوال ہے تو فارسی عربی رسم خط کی حمایت میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کے بارے میں اپنے اپنے ذاتی رجحان کے مطابق فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ جہاں تک میرا سوال ہے میں بات یہ کہہ کر ختم نہیں کرتا۔ (میں سمجھتا ہوں کہ) فارسی عربی رسم خط ایک خاص سائز size سے چھوٹا نہیں کیا جا سکتا ورنہ وہ پڑھا نہیں جائےگا۔ ہو سکتا ہے کہ اس لحاظ سے وہ ہندی رسم خط سے کمتر نہ ہو لیکن یہ کسی بھی طرح (اس معاملے میں) رومن رسم خط سے مقابلہ نہیں کر سکتا۔

    تو کیا سائنسی تعلیم اورسائنس اور ٹیکنالوجی کی کتابیں وغیرہ اردوزبان میں تیار کرنے کے لیے فارسی عربی رسم خط کو ترک کر دیا جائے ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر فارسی عربی خط سے مرادنسخ رسم الخط ہے جو سارے عربی بولنے والے ممالک میں اور ایران میں رائج ہے تو رسم خط کی تبدیلی کا سوال پیدا نہیں ہوتا، لیکن ہندوستان میں اگر اکثریت نہ سہی مگر ایک بڑی اقلیت ان لوگوں کی ہے جو اردو بولتے ہیں اور اس کی بقا بھی چاہتے ہیں اور وہ غیرمسلم ہیں۔ وہ نستعلیق رسم الخط کو تو جواب رائج ہے ہندوستانی سمجھتے ہیں مگر نسخ کو اسلامی۔ اردو چونکہ ہندوستانی زبان ہے اس کا رسم خط بھی ہندوستانی ہونا چاہئے۔ ان کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ اردو کی ابتدا وارتقا کی کیا تاریخ ہے یا یہ کس کس رسم الخط میں لکھی جا سکتی ہے اور اگر انہیں اردو کے لیے نسخ یا رومن رسم خط چننا پڑے تو ہو سکتا ہے کہ وہ رومن کا انتخاب کریں۔

    مسلمانوں کو جو اردو کی بقا چاہتے ہیں، انتہائی سنجیدگی سے اس مسئلے پر غور کرنا چاہئے۔ انہیں خود نسخ کے استعمال کی عادت نہیں ہے اور سوائے چند مثالوں کے وہ کتابیں اور رسالے جو نسخ میں چھپتے ہیں مقبول نہیں ہیں۔ نستعلیق کی ساری خوبصورتی کو ترک کیے بغیر اس کا ٹائپ نہیں بنایا جا سکتا اور اس کی خوبصورتی کو قربان بھی کر دیا جائے تب بھی اس کے استعمال میں سخت تکنیکی مشکلات ہیں۔ فارسی عربی رسم خط بہت خوبصورت ہیں لیکن اردو زبان زیادہ قیمتی ہے اس رسم خط سے جس میں وہ لکھی جائے۔ اس کی بقا کو اور زبانوں سے خطرہ نہیں ہے، نہ ہی فارسی عربی رسم خط کو ہندوستانی رسم خطوں سے خطرہ ہے۔ اصل خطرہ یہ ہے کہ اس کا رسم خط اردو زبان کو آج کی سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا سے علیحدہ نہ کر دے اور اردو زبان کے ذریعے وہ علم حاصل کرنے میں دیر نہ ہو جائے جس سے زندگی کے پہیے چلتے ہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے