غالبؔ کی شخصیت پر ہم اپنے خیالات واضح طور پر بیان کر چکے ہیں، اس شخصیت نے اس کی شاعری، اسلوب، فن، فکر پر عصریت پر کیا اثر ڈالا۔ یہ بھی ہم تفصیلاً دکھا چکے ہیں۔ ایک بار ان خیالات کا خلاصہ کر لیجیے،
(۱) غالبؔ کی شخصیت بہت بڑی ہے مگر اتنی بڑی نہیں جتنی بن سکتی تھی، وہ کسی نہ کسی حد تک منفی، غیر متوازن اور مریض ہے۔
(۲) غالبؔ اپنی شخصیت کو نہ غیر انا یا حقیقت کے حوالے کرنا چاہتا ہے، نہ اس کے تابع بنانا چاہتا ہے، اس کی خواہش تو یہ ہے کہ وہ ہمیشہ شخصیت یا انا کے قلعے ہی میں محبوس رہے لیکن۔۔۔
(۳) غیر انا اور حقیقت کی قوتیں غالبؔ پر حملہ کر دیتی ہیں اور اس کا قلعہ مسمار کر دیتی ہیں۔ یہاں غالبؔ کا فنکار غالبؔ کے خلاف گواہی دیتا ہے اور غیر انا اور حقیقت کی فتح کا بیان کرنے لگتا ہے۔ غالبؔ کا یہی فنکار اس کی چشم تماشا ہے، یہی اس کا دیدۂ بینا ہے۔ یہی وہ غالبؔ ہے جس نے اردو شاعری کو الٹ پلٹ کر دیا ہے۔
دوسرے لفظوں میں غالبؔ فریضۂ قربانی سے روگردان ہے۔ اس نے جانور بہت بڑا پکڑا ہے، دوسرے اردو شاعروں کے جانور اس کے آگے چھوٹے موٹے ہیں۔ سوائے میرؔ کے جانور کے۔ کسی کا جانور بکری ہے، کسی کا دنبہ، کسی کا مینڈھا، کسی کا گائے اور جرأت تو مرغی پکڑ کر لائے ہیں۔) مگر غالبؔ نے اونٹ پکڑا ہے۔ جانور بڑا ہے مگر اس میں کئی خرابیاں ہیں۔ بیمار ہے، آنکھوں کی بینائی جاتی رہی ہے، کانوں نے جواب دے دیا ہے، قویٰ بھی مضمحل ہیں، لاغر ہو گیا ہے، ہڈیاں نکل آئیں ہیں۔ میرؔ کا اونٹ تگڑا ہے اور کھا پی کر تیار ہے، اس کی نگہداشت بھی اچھی ہوئی ہے اور آنکھ، ناک، کان بھی درست ہے۔ پھر میرؔ کا جذبۂ قربانی غالبؔ سے بہت بڑا ہے اتنا بڑا جانور لے کر آیا ہے مگر چھری پکڑ کر قربانی کے لیے تیار ہے۔ غالبؔ ہچر مچر کر رہا ہے، کبھی چھری کو دیکھتا ہے، کبھی جانور کو۔ زبان سے چچ چچ بھی کرتا جاتا ہے۔ غالبؔ نے کہا تھا فرزندِ آذرؔ را نگر۔ غالبؔ کو فرزند آذرؔ کی جو بات پسند آئی، وہ ان کا دینِ بزرگان سے انحراف ہے مگر فرزند آذرؔ کی ایک صفت قربانی بھی ہے۔ غالبؔ دینِ بزرگاں کے خلاف تو خوف اچھلا کودا مگر فریضۂ قربانی میں پچک گیا، حالانکہ اس کے بغیر دینِ بزرگان کی نفی کے بھی کوئی معنی نہیں۔ اردو شاعری میں فرزند آذرؔ تو ایک آدمی پیدا ہوا۔ میرؔ، غالبؔ میں یہ امکان تھا مگر وہ تو آذرؔ کی طرح شخصیت اور انا کا بت تراش کر بیٹھ گیا اور اس کی پوجا شروع کر دی۔ ہمیں غالبؔ کی قسمت پر افسوس ہے۔ میرؔ نے قربانی کی اور پورے دل کے ساتھ کی اور خدائے سخن بن گیا لیکن غالبؔ۔۔۔ غالبؔ نے قربانی سے گریز کیا، پھر قربانی مجبوری بن گئی تو غالبؔ نے بے دلی سے چھری پھیری۔ میرؔ کی قربانی رنگ لائی۔ میرؔ اردو شاعری کی عظمت و دوام کے پلِ صراط پر بجلی کی طرح گزر گیا۔ غالبؔ گزر رہا ہے مگر دیکھیے آئندہ کیا ہوتا ہے۔
بیسویں صدی کے خاتمے میں انیس سال باقی ہیں اور وہ دنیا اپنے خاتمے کے قریب ہے جس کے ایک گوشے میں غالبؔ کا گلشنِ ناآفریدہ، آفریدہ ہو کر آباد ہے۔ یہ جدیدیت کی وہ دنیا ہے جو مغرب نے پیدا کی ہے۔ غالبؔ کی تقدیر مغرب کی تقدیر سے جدیدیت کی تقدیر سے وابستہ ہے اور مغرب کی تقدیر کے بارے میں خود مغرب کے لوگ کہہ چکے ہیں کہ یہ اپنے دن پورے کر چکی ہے۔ یہ اعلان اسپنگلر کا بھی ہے، ٹوائن کا بھی، لارنس کا بھی، پال والیری اور شیخوں کے شیخ رینے گینوں عبد الواحد یحییٰ کا بھی۔ اقبال نے کہا تھا،
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے، لب پہ آ سکتا نہیں
اقبالؔ کے اس مصرعے پر میرا بھی دل دھڑک رہا ہے۔ پردۂ در کو جنبش ہے اور میں نہیں جانتا کہ پردے سے کیا نمودار ہونے والا ہے، بس صرف پردۂ در کو ہلتا ہوا دیکھ رہا ہوں اور اقبالؔ کا شعر گنگنا رہا ہوں۔
دیکھیے اس بحر کی تہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبد نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا
شاید غالبؔ کو بھی، جو کچھ ہونے والا ہے، اس سے ڈر لگ رہا ہے۔ دیکھیے کس درد سے کہتا ہے،
رات دن گردش میں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.