Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

فسادات کے افسانوں کا پروپیگنڈائی پہلو

انتظار حسین

فسادات کے افسانوں کا پروپیگنڈائی پہلو

انتظار حسین

MORE BYانتظار حسین

    فسادات کے افسانوں کے بارے میں سب سے پہلا اور بنیادی سوال یہ ہے کہ وہ فسادات کے افسانے ہیں یا نہیں۔ یہ صحیح ہے کہ ان افسانوں کا موضوع فسادات ہی ہیں لیکن دقت یہ آپڑتی ہے کہ ان میں فسادات کو محض قتل و غارت گری، آتش زدگی، اور عصمت دری کے واقعات سے عبارت کیا گیا ہے۔فسادات کایہ ایک بہت محدود سا مفہوم ہے۔

    آگ اور خون کا یہ ہنگامہ جو گرم ہوا تھا وہ خلا میں نہیں اُگا تھا۔ اس کا ایک آگا پیچھا تھا۔ اور اس آگا پیچھا کے سلسلے میں صرف یہ کہہ کر پیچھا نہیں چھڑایا جاسکتا کہ یہ سب انگریز سامراج کی کارستانی تھی۔ پھر اس کی وجہ سے چیزوں کی دنیا میں جو انتشار اور بے ترتیبی پیدا ہوئی، وہ بھی اس واقعہ کاایک اہم جزو ہے۔ تو یوں سمجھیے کہ جس چیز کو ہم فسادات کہتے ہیں وہ ایک پیچیدہ قومی واقعہ ہے جس کے مختلف خارجی اور داخلی پہلو ہیں۔ آگ اورخون کا یہ ہنگامہ، اس کے خارجی پہلو کا ایک جزو تھا۔ ہمارے افسانہ نگار نے اس ایک پہلو کے ایک جزو کو پوری حقیقت سمجھا۔ گویا فسادات کے بارے میں جو افسانے لکھے گئے ہیں، وہ زیادہ تر فسادات کے ایک ٹکڑے کے بارے میں لکھے گئے ہیں۔

    دوسری بات یہ ہے کہ اردو افسانہ کاجو عام معیار ہے، اس کے مقابلے میں مجموعی طور پر ان فسادات کے افسانوں کا معیار پست ہے۔ اس کی وجہ دریافت کرنا ایسی زیادہ مشکل بات نہیں ہے۔ ایسے موقعوں پر آدمی خواہ مخواہ رقیقِ القلب ہوجاتا ہے۔ یہ رقیق القلبی اس ضبط اور سوچ بچار کو بڑی حدتک زائل کردیتی ہے جس کے بغیر ادب کی تخلیق بہت مشکل ہوجاتی ہے۔ فسادات نے لکھنے والوں اور پڑھنے والوں دونوں کو رقیق القلب بنادیا ہے۔ اس چکر میں بعض اخبار نویس بھی ’میں کون ہوں؟ میں انسان ہوں‘ قسم کی جذباتی چیخیں مار مار کے افسانہ نگار بن گئے۔ تو گویا ادبی اعتبار سے ان افسانوں کی ایک بڑی تعداد بہت زیادہ اہم نہیں ہے۔ لیکن ان افسانوں کا ایک پروپیگنڈائی پہلو بھی ہے جس کی بناپر وہ سیاسی نقطۂ نظر سے بہت زیادہ اہم ہوجاتے ہیں۔ پس اگر قومی نقطۂ نظر کے تحت میں ادبی لحاظ سے کمتر درجہ کے افسانوں پر بھی سنجیدگی سے بحث کروں تو شاید قابلِ اعتراض بات نہ ہوگی۔

    فسادات کے بارے میں جتنے منہ ہیں اتنی باتیں ہیں۔ مسلمان اپنے آپ کو سب سے زیادہ مظلوم سمجھتے ہیں۔ ہندوؤں کی مسلمانوں کے بارے میں پہلے ہی سے کچھ اچھی رائے نہ تھی، اس لیے اگر وہ وحشت اور بربریت کاالزام مسلمانوں کے سر چپکتے ہیں تو ایسی غیر متوقع بات نہیں ہے۔ پھر مسلمانوں کا نقطۂ نظریہ ہے کہ ہندو فرقہ پرست عناصر مسلمانوں کے خلاف نفرت کاجس شدومد سے پرچار کر رہے تھے، اس کالازمی نتیجہ اس خون خرابہ کی شکل میں نمودار ہونا تھا۔ہندو نفرت کا مبلغ مسلم لیگ کو گردانتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس جماعت نے خون سے لیں گے پاکستان کا نعرہ لگایا تھا اور بالآخر ملک کو تقسیم کراکے خانہ جنگی کی آگ میں جھونک دیا۔ چنانچہ یہ لوگ فساد کی تاریخ ڈائرکٹ ایکشن ڈے سے شروع کرتے ہیں۔

    ایک تیسری بظاہر غیرجانبدار جماعت ہندوستانی کمیونسٹ پارٹی ہے، جس کا کہنا یہ ہے کہ ہندو اورمسلمان رجعت پرست رہنماؤں نے برطانوی سامراج سے سمجھوتہ کرکے معصوم عوام کو، جنہیں فرقہ پرستی کی ہوا بھی نہ لگی تھی، آپس میں لڑادیا۔ میں اس بحث میں الجھنا نہیں چاہتا کہ اس قیامت کی ذمہ داری ان لوگوں پر ہے جنہوں نے ہندو مسلم مسئلہ کے وجود سے ہی انکار کیا یا ان لوگوں پر ہے جنہوں نے اس مسئلہ کی اہمیت پر اصرار کیا۔ میں نے سیدھے سادے الفاظ میں تین نظریوں کو پیش کردیا۔ تین شاید میں نے غلط کہا۔ یہ دو نظریے ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی اور ہندو جماعتوں کے نقطۂ نظر میں بس اتنا فرق ہے کہ اول الذکر نے ذرا غیر جانبداری کا رنگ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور اس لیے برطانوی حکومت کی شرانگیزی پر ضرورت سے زیادہ اصرار کیا ہے۔

    مسلمانوں کے ساتھ ایک بڑی ٹریجڈی یہ ہوئی ہے کہ ان کی سیاسی جدوجہد میں ان کے ادیب ان سے ٹوٹ گئے۔ ملت کی سیاسی جدوجہد سے وابستگی کی روایت اقبالؔ پر ختم ہوگئی۔ اس کے بعد کانگریس کا پروپیگنڈا یہ رنگ لایا کہ اس قسم کی وابستگی فرقہ پرستی شمار کی جانے لگی۔ اُدھر ترقی پسند تحریک نے ملی تصور کو مردود قراردے دیا تھا۔ لیکن براعظم میں آزادی کے لیے جو جدوجہد ہو رہی تھی، وہ اس منزل میں تھی کہ ایک طرف مسلمان حقِ خوداِرادیت مانگ رہے تھے اور دوسری طرف کانگریس متحدہ قومیت کے نعرہ کے بل پر مسلمانوں کی الگ حیثیت کو ہی نظر انداز کردینے پر تلی ہوئی تھی۔ ہمارے ادیب چونکہ غیرجانبداری کی فکر میں گھلے جارہے تھے اور کانگریس نے پروپیگنڈا اس نفاست کے ساتھ کیا تھا کہ حق خودارادیت کا مطالبہ فرقہ پرستی نظر آتا تھا اور متحدہ قومیت کا نظریہ ایک بے لاگ اور غیرجانبدارانہ نظریہ معلوم دیتا تھا، اس لیے وہ متحدہ قومیت کے نظریہ سے ہی وابستہ ہوگئے۔

    اگرچہ کانگریس کی پالیسی کے خلاف بددلی عام تھی لیکن کمیونسٹ پارٹی جو ہندو مسلم مسئلہ کے وجود سے ہی منکر تھی، کانگریس کی مخالفت کے ساتھ ساتھ اس تصور کو سینے سے لگاتی رہی۔ اردو ادب میں ترقی پسند تحریک چونکہ اسی کے زیر نظریہ پل رہی تھی، اس لیے اس نے مسلمان ادیبوں کو اس تصور سے بچھڑنے نہیں دیا۔ اکا دکا ادیب اگر ٹوٹ کر ’مرتاکیا نہ کرتا‘ کی مثال مسلم لیگ کی طرف آیا بھی تو وہ ادب کے کسی ایسے نظریہ کا مقصد ہی نہ تھا جس میں ادب کو پروپیگنڈائی ہتھیار کی حیثیت سے استعمال کیا جاتا ہے یا جس میں وقت کے سیاسی مسائل سے متاثر ہونا مذہبی فریضہ سمجھا جاتاہے۔

    اُدھر مسلم لیگ میں چونکہ ہڑبونگ کا سلسلہ زیادہ تھا، اس لیے کسی کو یہ خیال نہ آیا کہ ایک تحریک سے ادیبوں کی وابستگی یا غیروابستگی کیا معنی رکھتی ہے۔ لیگی رہنما اس بات سے پورے طور پر مطمئن تھے کہ لیگ کے ہر جلسے میں کوئی طالب علم یا شہر کاکوئی شاعر ضرور قومی نظم پڑھ دیتا ہے۔ پروپیگنڈائی ادب کااس سے بلند تصور کاسوال ان کے سلسلے میں یوں بھی پیدا نہیں ہوتاتھاکہ انہوں نے کبھی اس مسئلہ پر سوچ بچارکرنا مناسب سمجھا ہی نہیں۔

    ایسی صورت میں تقسیم ہند سے پہلے اور بعد میں ہونے والے فسادات کے متعلق ادیبوں کاجو رویہ رہا ہے، وہ ایسا غیرمتوقع نہیں ہے۔ انہوں نے فسادات کی ساری ذمہ داری تقسیم ہند کے سرتھوپ دی اور تقسیم کو انہوں نے برطانوی سامراج کاتحفہ تصور کیا۔ پس اردو افسانہ میں متحدہ قومیت کے نظریہ کی موت پر ٹسوے بہا لیے گئے، برطانوی سامراج کو گالی کوسنے دیے گئے اور اس برعظیم کے پھر ایک ملک ہوجانے کے خواب دیکھے گئے۔

    کرشن چندر نے افسانہ پڑھنے والوں اور افسانہ لکھنے والوں دونوں کو گہرے طور پر متاثر کیا ہے اور کرشنؔ چندر اس نظریہ کا سب سے بڑا مبلغ ہے۔بات سیدھی سادی تبلیغ پر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ اس نے مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے کا بھی اہتمام کیا ہے۔ ’ہم وحشی ہیں‘ کی اشاعت سے اردو ادب میں فرقہ پرستی کی باقاعدہ ابتدا ہوتی ہے۔ میں تو کرشن چندر کے ہر نئے افسانہ کو راشٹریہ سیوک سنگھ کا ادبی بلیٹن سمجھ کر پڑھتا ہوں۔ ان کے افسانہ ’’پشاور اکسپریس‘‘ کو ہی لے لیجیے، جس کی تعریف میں ترقی پسندوں سے لے کر ممتازؔ شیریں تک سب کے منہ سوکھے جاتے ہیں۔ اس افسانے میں کرشن چندر نے دو قوموں کے کردار کا موازنہ کیا ہے۔اسی لیے تو اسے ترازو کے استعمال کی ضرورت پیش آئی۔ اس کامقصد برابر تولنا تھا ہی نہیں۔ وہ تو یہ دکھانا چاہتا تھا کہ ہندو قوم کے مقابلہ میں مسلمانوں کا کرداربہت پست ہے۔ ’’پشاور اکسپریس‘‘ کے مسلمان کرداروں کو اپنی جان اس قدر پیاری ہے کہ وہ اس پر سے قومی غیرت اور خودداری تک کو نچھاور کردینے میں عذر نہیں سمجھتے۔ ہندو کرداروں میں قومی غیرت ہے، ضبط اور حوصلہ ہے۔ ہندو لٹ پٹ کر گاڑی میں سوار ہوئے ہیں لیکن انہیں وطن سے چھٹنے کاغم ہے، اپنی عزت و آبرو کا پاس ہے، اپنی عورتوں کی آبرو کاخیال ہے۔ موت کا وہ خاموشی سے مقابلہ کرتے ہیں۔ عورتوں کی عصمت کا سوال آجاتا ہے تو وہ جان کی بازی لگادیتے ہیں۔

    لیکن مسلمانوں کے سامنے صرف ایک سوال ہے اور وہ جان کا سوال ہے۔اس سے بچنے کے لیے وہ برہمنوں کا بھیس بدلتے ہیں، چوٹی رکھاتے ہیں۔یہ فرق مردوں میں ہی نہیں عورتوں میں بھی موجود ہے بلکہ وہاں اور زیادہ شدت کے ساتھ نمودار ہوتاہے۔ ہندو عورت ننگی ہوکر دروپدی بن جاتی ہے، مسلمان عورت جان بچانے کی خاطر ایمان اور عزت کاسودا کرتی ہے۔ ہندو عورتوں کے ننگے جلوس کو دیکھ کر کرشن چندر کی خطیبانہ حس بیدار ہوجاتی ہے اور وہ فصاحت و بلاغت کے دریا یوں بہاتا ہے،

    ’’ان کی نگاہوں کاجلال دروپدی کو بھی شرماتا تھااور ہونٹ دانتوں کے اندر یوں بھنچے ہوئے تھے گویا کسی مہیب لاوے کامنہ بند کیے ہوئے ہیں۔ شاید ابھی یہ لاواپھٹ پڑے گا اور اپنی آتش فشانی سے دنیا کوجہنم زار بنا دے گا۔‘‘

    لیکن جب مسلمان لڑکی پر جو ’اشتراکیت‘ عمل اور فلسفہ، پڑھتی ہے، حملہ کیاجاتا ہے تو وہ کرشنؔ چندر کو یہ کہتی نظر آتی ہے، ’’مجھے مارتے کیوں ہو؟ مجھے ہندو کرلو۔ میں تمہارے مذہب میں داخل ہوئی جاتی ہوں۔ تم میں سے کوئی ایک مجھ سے بیاہ کرلے۔ میری جان لینے سے فائدہ؟‘‘

    کرشنؔ چندر مسلمان عورت کے کردار پر اس سے بڑا کیا حملہ کرتا۔ ’اندہے‘ میں کرشنؔ چندر نے لاہور کے ایک مسلمان غنڈے کی نفسیات پیش کی ہے۔ مسلمان غنڈہ اپنی تمام برائیوں کے باوجود بنیادی طور پر صحیح سوچتاہے۔کرشنؔ چندر نے ایمانداری اور ہمدردی سے اس کا مطالعہ نہیں کیا ہے اور اس لیے چھانٹ چھانٹ کر اس کے خراب پہلوؤں کو ہی پیش کیا ہے۔ ’ہم وحشی ہیں‘ میں اس افسانہ کے فوراً بعد ’لال باغ‘ افسانہ ہے۔ اس میں کملاکر بھی کچھ اسی ڈھب کاکردارہے۔ کرشن چندر نے اس سے خاصی ہمدردی جتائی ہے۔ ’اندہے‘ کا ہیرو مجسم شیطان ہے۔ لیکن کملاکر کے دماغ کے اندر کسی تہہ میں بار بار چبھن پیدا ہوتی ہے۔

    ’جانور‘ میں کرشنؔ چندر نے حکومت ہند کے مقاصد کا تھوڑی سی اور خوش سلیقگی کے ساتھ پروپیگنڈا کیا ہے۔ وہاں وہ قبائلیوں کے نام نہاد مظالم کی بڑی دردناک تصویر کھینچتا ہے۔ لیکن جب اسے توازن قائم کرنے کی فکر ستاتی ہے تو وہ مہاراجہ ہری سنگھ کے مقبوضہ کشمیر سے کتراکر مشرقی پنجاب اور بہار کا رخ کرتا ہے۔ لیکن بہار کے مظالم کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ یہ بتانا نہیں بھولتا کہ یہ سب کچھ نواکھلی کے بدلے کے طور پر ہوا تھا۔ البتہ اسے اس بات کا افسوس ضرور ہے کہ بہار کے فسادات میں ’’اچھے اور برے کی تمیز‘‘ اٹھ گئی۔ گویا کرشنؔ چندر بنیادی طور پر بہار فسادات کا مخالف نہیں ہے۔ اس کا اصرارصرف اتنا ہے کہ کانگریسی اور لیگی مسلمانوں میں امتیاز کیا جانا چاہیے تھا۔

    میرے خیال میں پروپیگنڈائی نقطۂ نظر سے کرشن چندر کا ’نیا مدرسہ‘ سب سے زیادہ کامیاب افسانہ ہے۔ اس نے اس افسانے میں اچھے اچھے پاکستانیوں کو جُل دیا ہے۔ ممتازؔ شیریں بھی اس بات پہ خوشی سے پھولی نہیں سماتیں کہ کرشنؔ چندر نے کم از کم کشمیر میں تو استصواب رائے عامہ کااصول مان ہی لیا۔ یہ ان کی بھول ہے۔ یہ افسانہ سب سے زیادہ زہریلاپروپیگنڈا ہے۔ ’نیا مدرسہ‘ کے طلبا ہیں تو بچے ہی لیکن ہیں اتنے استاد کہ بڑے بڑوں کے کان کترتے ہیں۔ وہ بار بار یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ آزادی کے بعد ہندوستان کانقشہ چھوٹا کیوں رہ گیا۔ انہیں یہ غم بھی کھائے جاتا ہے کہ آدھا پنجاب پاکستان میں کیسے رہے گا۔ وہ ذہنی طور پر اس بات پر بھی آمادہ نہیں ہیں کہ کشمیر ہندوستان کی سرحد سے باہر ہو۔ بات یہاں آکر ختم نہیں ہوجاتی۔ کرشنؔ چندر یہ جتانے کا بھی اہتمام کرتا ہے کہ پہلے سیلون بھی ہندوستان میں ہی شامل تھا۔ گویا کرشن چندر کے پروگرام میں پنڈت نہروؔ کے ایشیائی اقتدارکے خواب کاپروپیگنڈا بھی شامل ہے۔

    کرشنؔ چندر نے شاید سب سے زیادہ سینہ زنی پنجاب کی تقسیم پر کی ہے۔ پنجاب پر پہلی قیامت تو یہ ٹوٹی کہ اس کا بٹوارہ ہوگیا۔ دوسری قیامت یہ ٹوٹی کہ کرشن چندر نے اسے سیاسی اسٹنٹ کے طور پر استعمال کیا۔ اس کے یہاں سوہنی مہینوال اور اجنتا اورایلورا کے الفاظ ایک ہی قسم کاشور پیدا کرتے ہیں۔ ہندو کلچر کی طرح پنجاب کا بھی کوئی رچاہوا احساس اس کے یہاں نظر نہیں آتا۔ پورا افسانہ تو درکنار، کوئی ٹکڑا، کوئی فقرہ اس کے ان افسانوں میں ایسانہیں ملتا جس میں پنجاب نظر آتا ہو۔ پنجاب تو بس بلونتؔ سنگھ کے یہاں نظر آتا ہے۔ باقی کرشن چندر نے تو لفظوں کاطلسم کھڑا کیا ہے۔ قاری کواس کی خطابت مرعوب کرلیتی ہے۔ لیکن خالی خطابت سے تو کام نہیں چلتا۔ فضاکو الفاظ میں تو اسی صورت میں گوندھا جاسکتا ہے کہ لکھنے والے کے ذہن میں اس فضا کا ایک رچاہوا تصور ہو۔

    اب یوں لے لیجیے کہ کرشنؔ چندر کی ’پشاور اکسپریس‘ اگر کلکتہ سے پٹنہ تک کاسفر بیان کرتی تو اسے صرف اس وجہ سے دقت پیش آتی کہ کرشن چندر نے اسے ترازو کے انداز میں سوچنا سکھایا ہے ورنہ باقی تو اسمائے معرفہ ہیں جنہیں بآسانی بدل کر وہ ’پشاور اکسپریس‘ کی تحریر کو جوں کاتوں دہراسکتی تھی۔ ایک فضا کا، ایک کلچر کا رچا ہوااحساس اگر فسادات کی نثری نگارشات میں کہیں نظر آتاہے تو وہ آغا محمد اشرفؔ کامختصر رپورتاژ، جنہیں ہم وہاں چھوڑ آئے ہیں، ہے۔

    آغا محمد ؔاشرف نے کرشن چندر کی طرح سینہ زنی نہیں کی ہے، نہ واویلا صد واویلا کاشور بلند کیا ہے۔ اس نے صرف چند گمشدہ چیزوں کی طرف اشارے کیے ہیں جو بظاہر بہت معمولی چیزیں ہیں لیکن جو درحقیقت دلّی کی زندگی کی نمائندگی ہیں۔ اِن اڑتے اڑتے اشاروں سے ہی اس نے ایک فضا پیدا کردی ہے اوراس پوری بربادی کی داستان بیان کردی ہے۔ ۱۵/اگست ۴۷ء کی ماری ہوئی دلی کا یہ بڑادردناک نوحہ ہے۔ کرشن چندر چند سیاسی اغراض کی خاطر پنجاب کا نوحہ پڑھتا ہے اور اسی لیے وہ بار بار پنجاب کو بھول کر دوسری باتیں کہنی شروع کردیتا ہے۔ اس سلسلے میں دوخاتمے دیکھیے۔ کرشن چندرکاافسانہ ’امرتسر‘ یوں ختم ہوتاہے،

    ’’ہم انسان ہیں، ساری کائنات میں ہم تخلیق کے علم بردار ہیں اور کوئی تخلیق کو مارنہیں سکتا، کوئی اس کی عصمت دری نہیں کرسکتا۔ کوئی اسے لوٹ نہیں سکتا کیونکہ ہم تخلیق ہیں اور تم تخریب ہو، تم وحشی ہو، تم درندے ہو، تم مرجاؤگے لیکن ہم نہیں مریں گے کیوں کہ انسان کبھی نہیں مرتا۔ وہ درندہ نہیں ہے، وہ نیکی کی روح ہے، خدائی کاحاصل ہے، کائنات کاغرورہے۔‘‘

    اب شاہدؔ احمد کے رپورتاژ ’’دلی کی بنیاد کا خاتمہ‘‘ دیکھیے،

    ’’میں اپنی ماں کی گود میں دل شکستہ لے کر آیا تھا اور دل مردہ لے کر واپس آیا۔ ماں کا رنڈ سالہ دیکھا، بیوگی کے آنسو دیکھے، شاہجہانی مسجد کو ملگجی چاندنی میں دیکھا تو سمجھاکہ ماں کے دونوں ہاتھ دعا کے لیے آسمان کی طرف اٹھے ہوئے ہیں اورمریم کی طرح اس کے دل میں شعلے بھڑک رہے ہیں۔ یہ تصور کچھ ایسا بندھاہے کہ بھلائے نہیں بھولتا اوربار بار دل میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے، ماں کیا تیرا سہاگ ہمیشہ کے لیے اجڑگیا۔‘‘

    اول الذکر خاتمہ میں مصنف امرتسر سے نکل کر کمیونسٹ پارٹی کے جلسے میں پہنچ جاتا ہے اوراسٹیج پر کھڑے ہوکر تقریر شروع کردیتاہے۔ ثانی الذکر خاتمہ میں مصنف دلی سے نکل کر بھی دلی میں ہی رہتاہے۔ شاہجہانی مسجد کا غمناک تصور اس کے ذہن کو کسی اور طرف بھٹکنے ہی نہیں دیتا۔ یہ تصور ہی اس کی تحریر میں زور اور اثر پیدا کرتاہے۔ لیکن کرشنؔ چندر کے ذہن میں امرتسر کا، امرتسر کے کسی محلہ کا، امرتسر کی زندگی کے کسی پہلو کا کوئی تصور بسا ہوا ہے ہی نہیں۔ اس لیے اس کے لیے تقریر میں مصروف ہوجانا بہت آسان ہے۔ کرشنؔ چندر کے یہاں ’تخلیق، نیکی کی روح، خدائی کاحاصل، کائنات کاغرور‘ جیسے پرشکوہ جملے تقدس کا وہ تاثر پیدا نہیں کرسکتے جو شاہدؔ احمد کے یہاں صرف مریم کی تلمیح نے پیدا کردیا ہے۔

    کرشنؔ چندر کے فسادی افسانے شروع میں تو بہت ہی مقبول ہوئے۔ فسادات پہ افسانہ لکھنے کی آدھا تیتر آدھا بٹیر قسم کی تکنیک کی جو اس نے بنا ڈالی تھی وہ اردو میں عام ہوگئی۔ اس نے ایک روایت کی شکل اختیار کرلی۔ کرشنؔ چندر نے افسانہ نگاروں کو ایک سانچہ دیا تھا اور افسانہ نگار اس سانچہ کا استعمال اندھادھند کرنے لگے۔ کم از کم پاکستان کے افسانہ نگاروں کو تو اس سانچہ کے استعمال سے پہلے بہت سوچنا سمجھنا اور اس کے عواقب و نتائج پر نظر ڈالنا چاہیے تھا۔ ایسے کرشن چندر کے پیش کیے ہوئے سانچہ کی مقبولیت کے وجوہ سمجھ میں آتے ہیں۔

    ایک بڑی بات تو یہ ہے کہ کرشن چندر کی تحریرمیں چند ایسے اوصاف ہیں جو نوخیز لکھنے والوں کوبہت اپیل کرتے ہیں۔اس کی خطابت، سطحی جذباتیت مرثیہ کاچٹخارہ، رنگین فارسی الفاظ کا دھوم دھڑکا۔۔۔ یہ چیزیں ایسی ہیں جو عام قارئین اور نئے لکھنے والوں کو شدت سے اپیل کریں تو کوئی تعجب کی بات نہ ہونی چاہیے۔ پھر یہ سانچہ اس نقطۂ خیال کے عین مطابق تھا جو ترقی پسند مصنفوں کو ہندوستانی کمیونسٹ پارٹی سے ورثہ میں ملا تھا۔ اس کے علاوہ یہ سانچہ منصف مزاجی اور غیرجانبداری کی ایک فضا سی پیدا کردیتا ہے۔ اور ایسے زمانوں میں جب منصف مزاجی اور غیرجانبداری ختم ہوجاتی ہے، کچھ فراریت پسند طبیعتیں اس قسم کی فضا کو پسند کرکے اپنے آپ کو ماحول سے کچھ اوپر اٹھی ہوئی محسوس کرتی ہیں اور اس طرح اپنی ذہنی آسودگی کا سامان کرتی ہیں۔

    پس چھوٹے موٹے قسم کے افسانہ نگاروں میں اس سانچہ کارواج پاجانا کوئی ایسا بڑا سانحہ نہیں ہے۔ سانحہ دراصل یہ ہے کہ بعض بہت ہی سنجیدہ قسم کے افسانہ نگار اس غیرسنجیدہ روش کے شکار ہوگئے۔ مجھے سب سے زیادہ غم عصمت چغتائی کی موت کا ہے۔ جہاں تک ڈہانی، بانکپن کا تعلق ہے تو میرے ذہن میں یہ سوال اب بھی جوں کاتوں قائم ہے کہ آیا یہ ڈرامہ عصمت کا لکھا ہوا ہے یا نہیں۔ اس سوال کااثبات میں جواب دینے والے خارجی شہادتیں تو بیشک بہت سی پیش کرسکتے ہیں۔ لیکن میری نظر میں داخلی شہادت کا پہلو ہے۔ اس ڈرامہ میں شروع سے آخر تک کہیں بھی تو یہ پتہ نہیں چلتا کہ اس میں عصمت کا قلم لگاہے۔ ’جڑیں‘ کی زبان البتہ یہ ضرور بتادیتی ہے کہ یہ افسانہ ہے عصمتؔ کے ہی قلم سے نکلا ہوا۔ ممتازؔ شیریں نے اس افسانہ کی تعریف میں اور تو جو کچھ کہا ہے وہ کہا ہی ہے لیکن انہوں نے یہ بھی کہہ ڈالا ہے کہ یہ افسانہ ’’خود عصمت چغتائی کے بہت اچھے افسانوں میں سے ایک ہے۔‘‘

    نہیں معلوم اسے ’جڑیں‘ کی تعریف سمجھاجائے یا عصمتؔ چغتائی کے آرٹ کی تنقیص۔ ’جڑیں‘ میں عصمتؔ کاقلم اس قدر رک رک کر چلاہے کہ اس میں وہ بات پیدا ہونے ہی نہیں پائی جو اس کے آرٹ کی صفت ہے۔ ایک ہندو اورایک مسلمان خاندان کے باہمی میل جول کا جو ماحول اس نے پیش کیا ہے اس میں ہی ایک تکلف اور تصنع سا جھلکتا ہے۔ عصمت نے اس تصنع کو زبان کی بے ساختگی میں چھپانے کی کوشش کی ہے۔ اور افسانہ کاانجام تو کچھ اسٹنٹ فلم کا سا ہے۔ شاید عصمتؔ نے یہ افسانہ قومی ضروریات کے احساس کے ماتحت لکھا ہے، اس لیے اس نے یہ طے کرلیا ہے کہ اس مسلمان گھرانے کو بھٹک کر صرف ا سپشل تک پہنچنے دیا جائے گا۔ روپؔ چند موٹر میں بیٹھ کر کچھ اس انداز سے روانہ ہوتے ہیں جیسے کسی تیسرے درجہ کے فلم میں ہیروئن کا چاہنے والا اس کے ڈوبنے کے عزم کی اطلاع پاکر موٹر لے کر دریا کا رخ کرتا ہے۔

    یہ صحیح ہے کہ یہ ترازو والا نسخہ بڑا دقت خیز اور محدود سا ہے۔افسانہ نگار کو بڑے نپے تلے انداز میں بات کہنی پڑتی ہے۔ کرشنؔ چندر کو تو خیر ڈنڈی مارنے کا گر آتا ہے لیکن دوسرے افسانہ نگار تول جھوک کے اس فلسفہ کو زیادہ سلیقہ سے نہ نبھاسکتے تھے۔ ناپ تول کے اس جھنجھٹ سے بچنے کے لیے ایک دوسراسانچہ وضع کیا گیا۔ اس کا وصف یہ ہے کہ افسانہ نگار حقائق و واقعات سے گریز کر کے ’میں انسان ہوں‘ کی رٹ لگاتا ہے اور اس بات کا اہتمام کرتا ہے کہ اس کے کرداروں کامذہب ظاہر نہ ہونے پائے۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے کہ فسادات کے زمانے میں بعض لوگ یہ اہتمام کرکے گھر سے نکلتے ہیں کہ ان کا مذہب نہ پہچاناجائے اور اگر کہیں یہ لوگ غنڈوں میں گھر جاتے ہیں تو عجیب بدحواسی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان افسانوں کا ہیرو اسی بدحواسی کا مظہر ہوتا ہے۔

    ’ہم وحشی ہیں‘ اور ’میں انسان ہوں‘ دونوں نعرے ایک ہی ذہنیت کی پیداوار ہیں اور دونوں نعرے غلط ہیں۔ یہ کہنا کہ ’ہم وحشی ہیں‘اس بات کی دلیل ہے کہ ہم وحشی نہیں ہیں۔ یہ نعرہ لگانا کہ ’میں انسان ہوں‘ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم انسان نہیں ہیں۔ آدمی وحشی نہیں ہے۔اور آدمی کو انسان ہونا بھی ابھی میسرنہیں ہوا ہے۔ انسان پرست ادیبوں نے درحقیقت انسان کے مسئلے پر غور کیا ہی نہیں ہے۔ وہ تو ننگی عورتوں کے جلوس کی داستانیں سن کر بوکھلا گئے ہیں اور متذکرہ بالادونوں نعرے اسی بوکھلاہٹ کے مظاہرے ہیں۔ مذہب اورانسانیت دو متضاد چیزیں نہیں ہیں۔ آدمی، آدمی بننے کے لیے ہی سکھ اور مسلمان اور ہندو بنتا ہے۔ پھر یہ بھی صحیح ہے کہ اس برعظیم کے رہنے والے ہندو اور مسلمان اور سکھ ’ہیں۔‘

    انسانیت پر اصرار کرنے والے افسانہ نگاروں میں کم از کم احمدندیمؔ قاسمی نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے۔ اس افسانہ کا ’میں انسان ہوں‘ یوں شروع ہوتاہے، ’’میں انسان ہوں، کلائی پر کھدے ہوئے ’اوم‘ ٹوپی پر ٹکے ہوئے چاندستارے اور پہلو میں لٹکتی ہوئی کرپان کے باوجود میں انسان ہوں۔‘‘ لیکن ندیم قاسمی نے شاید اسے عیب کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ میں اگر اس فقرے کا مصنف ہوتاتو یہ فقرہ یوں ہوتا، ’’میں انسان ہوں، کلائی پر کھدے ہوئے اوم، ٹوپی پر ٹکے ہوئے چاند ستارے اور پہلومیں لٹکتی ہوئی کرپان کی بناپر میں انسان ہوں۔‘‘

    ندیمؔ قاسمی نے اس قبولیت کے باوجود اس بات کا انتظام کیا ہے کہ قارئین کو افسانے کے ہیرو کے مذہب کا پتہ نہ چلنے پائے۔ ہاجرہؔ مسرور کے افسانے ’’بڑے انسان بنے بیٹھے ہو‘‘ میں بھی یہ التزام نظر آتا ہے لیکن اس افسانے میں شاید ’’پشاور اکسپریس‘‘ سے زیادہ خلوص جھلکتاہے۔ ویسے تو دونوں افسانوں میں غیر انسانی چیزیں انسانوں کے رویہ پر تبصرہ کرتی ہیں لیکن پشاور اکسپریس اپنے ہندو ڈرائیور کے اشاروں پر چلتی ہے اورقمقمہ میں چھپی ہوئی بجلی برا بھلا سوچتی ہے، بے تکان کہتی چلی جاتی ہے۔ مذہب کو چھپانے کاتکلف ’سیاہ حاشئے‘ میں بھی جابجا کیا گیا ہے لیکن وہاں یہ بات یوں نبھ جاتی ہے کہ ہجوم چند لمحوں کے لیے آتا ہے اورہماری نگاہوں کے سامنے سے گزر جاتا ہے۔

    میں یہاں ’میں کون ہوں‘ کے ہیرو کی فرقہ پرست ذہنیت کاتجزیہ کرنے کا تکلف نہیں کروں گا۔ خواجہ احمدعباس کی حیثیت ایک صحافی کی ہے۔ اردو افسانہ کی تاریخ میں وہ بڑا منحوس دن تھا، جب احمد عباسؔ نے افسانہ لکھ کر اردو کے قارئین کا مذاق خراب کرنا شروع کیا تھا۔ اس ذیل میں زیادہ کامیاب افسانہ شاید عزیزؔ احمد کا’کالی رات‘ ہے۔ اس نوع کے دوسرے افسانوں اور ’کالی رات‘میں بڑا فرق ہے۔ دوسرے افسانوں میں ایسی باتیں کہنے کے لیے مناسب فضا تیار نہیں کی گئی ہے۔ افسانہ نگار بے تکے پن سے خطابت کرنی شروع کردیتا ہے۔ لیکن ’کالی رات‘ میں عزیزؔ احمد پہلے مناسب فضا پیداکرتا ہے اور ایک ڈھب سے انسان کے ارتقا اورانحطاط پر تبصرہ کرتاہے۔ انسانی تاریخ کے چندچوٹی کے معلمین کی تعلیمات کا فسادات سے جس انداز سے سلسلہ جوڑا گیا ہے، وہ ان تصویروں میں ایک طنز اور اثر پیدا کردیتا ہے۔ عزیزؔ احمد نے کرشنؔ چندر والی تکنیک پر عمل نہیں کیا ہے کہ ٹیکسلا یونیورسٹی کانام لیا اور بیس ہندو گروا دیے، بدھ کانغمۂ عرفاں کہا اور پچیس ہندو ختم کرادیے۔

    فسادات پر افسانہ لکھنے کا یہ دوسرا نسخہ ہے تو غیرجانبداری کا ہی پہلو لیے ہوئے لیکن مشکل یہ پیدا ہوگئی ہے کہ فسادات کے ادب میں تقسیم کے خلاف اتنااور اس انداز سے پروپیگنڈا ہوا ہے کہ یہ گول مول افسانے بھی بالواسطہ طور پر اس پروپیگنڈے کو تقویت پہنچانے کاذریعہ بن جاتے ہیں۔ ویسے بھی یہ طریق کار زیادہ دیر تک نہیں نبھایا جاسکتا۔ ’میں انسان ہوں‘ کانعرہ سانس جلدی ہی پھلا دیتا ہے۔ افسانہ میں مطلق اور مجردانداز میں آخر کتنی دیر تک باتیں کی جاسکتی ہیں اور اس مطلق اور مجرد انداز سے گریز کرنے پر ہندوؤں سکھوں اور مسلمانوں سے لازمی طور پر مڈھ بھیڑ ہوتی ہے۔ پھر مشتبہ مذہب کے کردار کتنے افسانوں میں نبھ سکتے ہیں۔ شروع میں یہ بات بہتوں کو بری لگی تھی۔ ادیب دوسری قوم کے لیے دل نہ کڑھائے بلکہ اپنی قوم کی فکر سے ہی غرض رکھے لیکن وقت ادیب کو اب اسی منزل کی طر ف لے جارہا ہے۔

    یہ صحیح ہے کہ ادب میں قومیت اور مذہب کی بنا پر موضوعات کا بٹوارہ نہیں کیا جاسکتا۔یہ اہتمام تو کیا جاسکتا ہے کہ ایک مسلمان ووٹر ایک ہندو امیدوار کو ووٹ نہ دے سکے لیکن یہ اہتمام نہیں کیا جاسکتا کہ ایک ہندو ادیب مسلمانوں کی زندگی اور مسائل کو چھونے کی کوشش نہ کرے۔ لیکن میرا اعتراض تو یہ تھا کہ اردو کے افسانہ نگار نے دوسری قوم کے دکھ درد کو سمجھا اور محسوس کیا ہی نہیں ہے۔ وہ محض رواداری کے طور پر اس کی مظلومیت کا ذکر کرتاہے۔

    اگر کرشن چندر مسلمانوں کے دکھ درد کومحسوس کرتا اور پیش کرتا تو مجھے یا کسی اور فرقہ پرست کو کیا اعتراض ہوسکتاتھا۔اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کرشنؔ چندر نے دیانت داری اور دردمندی کا ثبوت نہیں دیا۔ اس نے مسلمان قوم کے عزائم اور آدرشوں کی بے حرمتی کی۔ اس نے اس کی تاریخ پر، اس کے کردار پر حملے کیے ہیں۔ کرشنؔ چندر مسلمانوں کے زخموں پر مرہم نہیں لگاتا، ان پر نمک چھڑکتا ہے۔اس رویہ کو یقیناً برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ ادب کے نام پر سب کچھ برداشت کیا جاسکتا ہے ریا کاری برداشت نہیں کی جاسکتی۔

    میرا خیال ہے کہ راماؔنند ساگر اورنندوگھوش کارویہ زیادہ صحت مندانہ اور زیادہ ترقی پسندانہ ہے۔’فیرس لین‘ کے دیباچہ میں بھی نندوگھوش بڑی ایمانداری سے یہ اعلان کردیتا ہے کہ اس نے صرف ہندوؤں پر مظالم ہوتے دیکھے ہیں۔ اس افسانے میں یہ بات قابل غور ہے کہ اگرچہ اس میں ہندوؤں کی مظلومی کانقشہ کھینچا گیا ہے اور فسادات کو براہِ راست مسلم لیگ کے ڈائرکٹ ایکشن کانتیجہ بتایا گیا ہے لیکن اس کے باوجود اس میں جو مسلمان کردار آئے ہیں وہ زندہ اور جان دار کردار ہیں۔ مصنف کو اپنے ان کرداروں سے محبت اور انس ہے۔ کرشنؔ چندر کی طرح وہ انہیں ذلیل کرنے پر آمادہ نہیں ہے بلکہ انہیں سر آنکھوں پر جگہ دیتا ہے۔نندوؔ گھوش پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرتاہے، اپنی قوم کی مظلومی پر آنسو بہاتا ہے لیکن وہ اپنے مسلمان کرداروں سے اچھا برتاؤ کرنا جانتا ہے۔

    راماؔنند ساگر کا پورا ناول میرے پیش نظر نہیں ہے۔’بھاگ اِن بردہ فروشوں سے‘ میں ایک ہندو لڑکی کی داستان پیش کی گئی ہے جو مسلمان مفسدوں کو اپنی عزت و عصمت سپرد کرکے جب گھر واپس پہنچتی ہے تو وہاں بھی ٹھکرائی جاتی ہے۔ شاید پورے ناول میں مصنف کا رویہ وہی ہے جو اس ٹکڑے میں نظر آتا ہے، جب ہی توعصمتؔ چغتائی نے ترقی پسندی کے جوش میں اس پر فرقہ پرستی کا فتویٰ عاید کردیا ہے۔ اور میں یہ کہتاہوں کہ اس زمانے میں ایک افسانہ نگارکا غیر فرقہ پرستانہ رویہ ہوسکتا ہے تو اس کی شکل وہی ہوگی جو رامانند ساگر اورنندوؔ گھوش کے یہاں ہے۔

    رامانندؔ ساگرنے اگر اپنی قوم کے دکھ درد کو شدت سے محسوس کیا ہے اور اس شدت احساس نے اسے دوسری قوم کے خلاف محسوس کرنے پر بھی آمادہ کردیا ہے تواس میں فرقہ پرستی کی کون سی بات ہوئی۔ اپنی قوم سے محبت کرنے والے ایک دیانت دار ادیب کااس کے علاوہ رویہ اور ہو بھی کیا سکتاہے۔ فرقہ پرستانہ رویہ تو کرشنؔ چندر کا ہے۔ جوچیز فرقہ پرستی کو جنم دیتی ہے وہ ریاکاری اور شرانگیزی ہے نہ کہ دیانتداری اور خلوص۔

    اپنی قوم کے دکھ درد کو سمجھنے اور پیش کرنے کا میلان سرحد کے اِدھر بھی ادیبوں میں کچھ فروغ پاتا جارہا ہے۔ عصمتؔ چغتائی نے رامانند ساگر کے ’اور انسان مرگیا‘ اور ایم اسلمؔ کے ’رقصِ ابلیس‘ کو ایک خانہ میں رکھا ہے، لہٰذا اگر میں ’رقصِ ابلیس‘ سے ہی بات شروع کردوں تو ایسا زیادہ بیجا نہ ہوگا۔ عصمتؔ چغتائی نے ’ہم وحشی ہیں‘ میں شہ پارے دریافت کیے ہیں اور ’میں کون ہوں‘میں چھینٹوں کی شادابی محسوس کی ہے، رہا رقصِ ابلیس کامعاملہ تو نہ وہ شہ پارہ ہے نہ چھینٹا۔ گناہ تو ایک ہی تھا لیکن خواجہ احمد عباسؔ کی قسمت کو اس کی بخشش ہوگئی۔ اور ایمؔ۔ اسلم کے کھوٹے نصیب کہ وہ راندہ درگاہ قرارپایا۔

    ’رقصِ ابلیس‘ کے بارے میں سب سے پہلے ہمیں یہ بات قبول کرلینی چاہیے کہ وہ ایک پروپیگنڈائی چیز ہے۔ وہ قومی ضروریات کے ماتحت لکھی گئی ہے۔ اس کے سلسلے میں یہ بات اتنی زیادہ اہم نہیں ہے کہ اس کا ادب میں کیا مقام ہے، جتنی زیادہ اہم یہ بات ہے کہ ایک سال کے اندر اندر اس کے تین اڈیشن نکل چکے ہیں۔ ’ہم وحشی ہیں‘ کے زہریلے پروپیگنڈے کا انسداد اور کون سے طریقے سے ممکن تھا۔ کرشنؔ چندر نے تو ہندوستان کے ایک ادیب کی حیثیت سے اپنا فرض اداکردیا۔ آخر پاکستان کے ادیب کا بھی تو کوئی فریضہ ہے۔ ایک ایمؔ اسلم پہ ہی کیا ہے، جس نے بھی پاکستان سے ہمدردی جتادی، وہی مردودِ بارگاہ قرار پایا۔ شہاب کی کتاب ’’یاخدا‘‘ کے متعلق بھی یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ ایک قوم کے خلاف نفرت پھیلاتی ہے حالانکہ اس پر بڑی سنجیدگی سے یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ وہ ایک قوم کے خلاف نفرت کیوں نہیں پھیلاتی ہے۔

    ’یاخدا‘ کامصنف ہے تو کرشنؔ چندر سکول کا ہی پروردہ۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ اس کتاب پر ’اَن داتا‘ کا سایہ پڑا ہے، ’ہم وحشی ہیں‘ کا نہیں۔ کرشن چندر کارنگ جواب بالکل بے رنگ ہوگیا ہے، اس افسانہ میں اپنی پوری شگفتگی کے ساتھ نظر آتا ہے اور ’اَن داتا‘ کا اثر تو خیرعنوان اور زیرینی عنوانات تک میں نظر آتا ہے۔ ’یاخدا‘ پروپیگنڈا تو ضرور ہے لیکن تیسرے درجہ کا پروپیگنڈا ہرگز نہیں ہے۔ اس میں کسی پرائی قوم کے کردار پر حملے نہیں ہیں بلکہ خود اپنی قوم کے کردار کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ادبی نقطۂ نگاہ سے اس کا مرتبہ ’ہم وحشی ہیں‘ سے کہیں زیادہ بلند ہے۔ ’ہم وحشی ہیں‘ اور دوسرے فساداتی افسانوں میں اخبار کی خبروں اور سنی سنائی داستانوں پر بھروسہ کیا گیا ہے لیکن ’یاخدا‘ میں فسادات کے جس پہلو کو پیش کیا گیا ہے، اس سے مصنف کے قرب کا بھی پتہ چلتا ہے۔

    قدرت اللہ شہابؔ نے کیمپ میں رہنے والے مہاجروں کو شاید زیادہ قریب سے دیکھا ہے اور زیادہ شدت سے ان کے دکھ درد کو محسوس کیا ہے۔ ہاجرہؔ مسرور کا افسانہ ’امت مرحوم‘ بورژوا طبقے کے اس رویہ پر طنز ہے جو اس کا مہاجرین کے متعلق رہا ہے۔ ’ان داتا‘ کے اثر سے یہ افسانہ بھی آزاد نہیں ہے۔ اس افسانے کو پڑھتے ہوئے ’ان داتا‘ کے دوسرے حصہ کا یاد آجانا تقریباً ناگزیر ہے۔ یہ افسانہ ان کے افسانہ ’’بڑے انسان بنے بیٹھے ہو۔‘‘ سے بہر صورت بڑھا ہوا ہے۔ اب خلامیں پر پھڑپھڑانے کی بات نہیں رہی بلکہ ایک واقعی مسئلہ کو چھوا گیا ہے۔ دلی کی بربادی پر بھی مختلف ادیبوں نے قلم اٹھایا ہے۔

    آغا محمد اشرف کے رپورتاژ ’جنہیں ہم چھوڑ آئے ہیں‘ کا ذکر میں ابھی کرآیا ہوں۔ یہ ر پورتاژ جتنامختصرہے اتنا ہی پراثر بھی ہے۔ اس میں چند چھوٹی چھوٹی تصویریں جوڑ کر اس انداز سے پیش کی گئی ہیں کہ گمشدگی اور مفارقت کااحساس بڑا شدید ہوجاتاہے۔ اگرچہ مصنف نے کھینچ تان کر تان رجائیت پر توڑی ہے لیکن مجموعی تاثر بڑامسرت انگیز اور پاس آمیز ہے۔ ایک دوسرا رپورتاژ ’دلّی کی بپتا‘ کے عنوان سے شاہدؔ احمد دہلوی نے لکھا ہے۔ اس کا لہجہ فکر تونسوی کے رپوتاژ ’چھٹا دریا‘ کے لہجہ کا بالکل متضادہے۔ فکر تونسوی کی آواز میں تو اتنی رقت پیدا ہوگئی ہے کہ اسے محرم کے مرثیہ خواں کی آواز سے ممیز کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ لیکن شاہدؔ احمد نے دلّی کے اجڑنے کی قیامت خیز کہانی بڑے صبر اور ضبط سے سنائی ہے۔

    مصنف کی دلّی سے بے پناہ محبت یہ رنگ لائی ہے کہ وہ سارا الزام باہر والوں کو دیتا ہے۔ دلّی کے ہندوؤں پہ آنچ نہیں آنے دیتا اور فرقہ پرستی کے فتویٰ کی تو یہ کہ وہ تو پبلک سینٹی ایکٹ ہے، اس کے بل پر جتنے مرضی میں آئے دہرا دیے۔ مجموعی تاثر اس رپورتاژ کا بھی بڑا غمناک ہے لیکن اگرآخری فقرہ کو رک رک کر پڑھا جائے تو شاید اس کاخاتمہ قنوطیت پر نہیں ہوتا۔ جو خلوص اور احساس کی شدت ان دو رپوتاژوں میں نظر آتی ہے وہ ’ترے کوچے سے ہم نکلے‘ میں ناپید ہے۔ دلّی کی اس کہانی کی سب سے بڑی خامی تو یہ ہے کہ اس میں دلّی نظر نہیں آتی۔ اور کرداروں کو تو خیر جانے دیجیے، ابا جان بھی ٹیٹھ دہلوی نہیں ہیں۔ عصمتؔ کی ’جڑیں‘ کی اماں جان ان ابا جان سے کہیں زیادہ جاندار ہیں۔ ’سیاہ حاشیے‘ کا بظاہر کوئی پروپیگنڈائی پہلو نہیں ہے لیکن اگر بہترین ادب بہترین پروپیگنڈا بھی ہوتا ہے تو پھر اس کتاب کی پروپیگنڈائی حیثیت سے بھی بہت زیادہ اہمیت ہوجاتی ہے۔

    سیاہ حاشیے کے ساتھ ایک ٹریجڈی یہ ہوئی ہے کہ لوگوں نے دیباچہ کو اصل سمجھ کر پڑھا ہے اور اصل کتاب کو چھوڑ دیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ انتساب کو لوگوں نے رسمی سی چیز سمجھ کر چھوڑ دیا ہے۔ لیکن یہ رسمی چیز نہیں ہے۔ منٹوؔ کا اس کتاب میں جو رویہ، جو نقطۂ نظر ہے اس کا انتہائی شدت اور خوبصورتی کے ساتھ اسی انتساب میں اظہار ہوا ہے۔ ایک لحاظ سے دیکھیے تو ’سیاہ حاشیے‘ ہم وحشی ہیں اور ’میں انسان ہوں‘ دونوں نعروں کا جواب ہے۔ منٹو کانقطۂ نظریہ ہے کہ انسان نہ تو وحشی ہے اورنہ انسان ہے، وہ آخر انسان ہے۔ میرا مطلب یہ ہے کہ منٹوؔ نے انسان کو فرشتہ کے معنوں میں نہیں بلکہ انسان کے معنوں میں لیا ہے، جو آتش و آب و باد و خاک کا پتلا ہے اور اس لحاظ سے کثافتوں اور نفاستوں کا بیک وقت حامل ہے۔ ’سیاہ حاشیے‘ کے انتساب کو دیکھیے،

    اس آدمی کے نام

    جس نے اپنی خونریزیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا،

    ’’جب میں نے ایک بڑھیا کومارا تو مجھے ایسا لگا مجھ سے قتل ہوگیا ہے۔‘‘

    اس آدمی کے بارے میں یہ بات اتنی اہم نہیں ہے۔ اس نے ان گنت قتل کرنے کے بعد ایک بڑھیا پہ ہاتھ اٹھایا۔زیادہ اہم یہ بات ہے کہ اس نے اس بڑھیا کو قتل کرکے یہ محسوس کیا کہ اس سے قتل ہوگیا ہے۔ یہ لمحہ اس کی روحانی زندگی میں ایک موڑ کی حیثیت سے نمودار ہوتا ہے۔ منٹو یہ کہتا نظر آتا ہے کہ انسانی احساس دب جاتا ہے مرتانہیں ہے۔ آدمی پرشیطان سوار ضرور ہوجاتا ہے لیکن کب تک کے لیے۔ کوئی حادثہ اسے چونکا دیتا ہے اور آدمی پھر آدمی بن جاتا ہے۔ فسادات کے پورے ادب میں اس قدر پر اثر، فکر انگیز اور رجائیت خیز ادب پارہ دوسری جگہ شاید ہی ملے۔ ’سیاہ حاشیے‘ کو اردو میں دوسرا آدمی نامہ سمجھیے۔ منٹو کاانسان کاتصور بھی تقریباً وہی ہے جو نظیر اکبر آبادی نے اپنے آدمی نامہ میں پیش کیا ہے۔

    پاکستانی نقطۂ نظر سے جو افسانے لکھے گئے ہیں اور جن میں سے چند ایک کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے، ان کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ دوسروں پر لعن طعن نہیں کی گئی ہے بلکہ اپنا ہی گریبان چاک کیا گیا ہے۔ جنہیں ہم چھوڑ آئے ہیں، اور دلی کی بپتا، کو پڑھ کر ایک اور دل خراش حقیقت کا پتہ چلتا ہے، وہ یہ کہ ہم جیتے ویتے نہیں ہیں۔ یہ محض ڈھونگ ہے، خود فریبی ہے ہم ہارے ہیں۔ ہمارے سیاسی قائدین نے قوم سے یہ بات چھپانی چاہی ہے۔ لیکن اس بات کا چھپانا زیادہ خطرناک ہے۔ متاع کارواں کاجاتے رہنا اتنی بڑی ناکامی نہیں ہے جتنی بڑی ناکامی کارواں کے دل سے احساسِ زیاں کارخصت ہوجانا ہے۔ پھر شکست پر شرمانا بھی کچھ بے معنی ساہے۔ سیدھی سادی بات یہ ہے کہ ہم نے ایک لڑائی لڑی تھی اور ہم وہ لڑائی ہار گئے۔

    فتح و شکست تو نصیبوں سے ہوتی ہے۔ سوال سارا یہ ہے کہ دلِ ناتواں نے بھی مقابلہ خوب کیا تھا یا نہیں؟ ہارا ادیب اس کاجواب نفی میں دیتا ہے۔ لیکن ادیب کا قومی فریضہ یہاں آکر ختم نہیں ہوجاتا۔ ’کھول دو‘ کے سلسلے میں منٹو پر یہ بھی اعتراض کیا گیا ہے کہ اس نے ہماری قومی زندگی کے ایک مذموم پہلو پر حملہ کیا ہے اور خاموش ہوگیا ہے۔ قوم میں صرف برائیاں دیکھنا اور پیش کردینا ایک تخریبی رویہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس اعتراض میں ایک اہم مطالبہ چھپا ہوا ہے۔ یہ قوم آج اپنے ادیبوں سے یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ صرف اس کی برائیاں گنانا اپنا فرض قرارنہ دیں بلکہ اس کی ڈھارس بندھائیں، اسے اس شکست کاداغ دھونے کے طریقے بتائیں۔ اس مطالبہ پر اب تک صرف قدراللہ شہابؔ نے کان دھرا ہے اوردلّی سے متعلق ایک افسانہ لکھ کر اسے پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔

    مجھے معلوم ہے کہ میری اس بات پر بہت سے ادیب ناک بھوں چڑھائیں گے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے بہت سے سنجیدہ ادیب ادب میں پروپیگنڈے کے نام سے ہی بدکتے ہیں۔ اپنی ذاتی معلومات کی بناپر میں مختارؔ صدیقی، یوسفؔ ظفر اور قیومؔ نظر کے نام گنوا سکتاہوں۔ مختار صدیقی کا کہنا یہ ہے کہ ہم ادیب پمفلٹ بازی کے چکر میں پھنس کر رہ جائیں۔ میں یہ کہتا ہوں کہ اگر قومی ضرورت یہ ہے کہ خندقیں کھودی جائیں تو ادیب کو یہ کام بھی کرنا ہوگا۔ پمفلٹ بازی واقعی بڑی مکروہ چیز ہے۔ عام حالات میں تو اس کے نام سے ہی ادیب کو ابکائی آجانی چاہیے۔ لیکن دقت یہ ہے کہ آج کے ہمارے حالات عام حالات نہیں ہیں۔ افراد کو ہی نہیں بلکہ قوموں کو زندہ رہنے کے لیے بہت اچھے برے کام کرنے پڑتے ہیں۔ یہ قوم زندہ رہنا چاہتی ہے اور اپنی گزشتہ ناکامیوں کے داغوں کو دھونا چاہتی ہے۔ اس وقت وہ پروپیگنڈائی ادب کی محتاج ہے اور پاکستان کاادیب اگر پاکستانی ہونے میں شرم محسوس نہیں کرتا تو اسے پمفلٹ بازی پر اترنا پڑے گا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے