Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

فراق گورکھپوری: کہاں کا درد بھرا تھا تیرے فسانے میں

گوپی چند نارنگ

فراق گورکھپوری: کہاں کا درد بھرا تھا تیرے فسانے میں

گوپی چند نارنگ

MORE BYگوپی چند نارنگ

    فراق گورکھپوری ہمارے عہد کے ان شاعروں میں سے تھے جو کہیں صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ ان کی شاعری میں حیات وکائنات کے بھید بھرے سنگیت سے ہم آہنگ ہونے کی عجیب وغریب کیفیت تھی۔ اس میں ایک ایسا حسن، ایسا رس اور ایسی لطافت تھی جو ہر شاعر کو نصیب نہیں ہوتی۔ فراق نے نظمیں بھی کہیں اور رباعیاں بھی، لیکن وہ بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے۔ ہندوستانی لہجہ اردو شاعری میں پہلے بھی تھا، فراق کا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے خدائے سخن میر تقی میر کی شعری روایت کے حوالے سے اس کی بازیافت کی اور صدیوں کی آریائی روح سے ہم کلام ہوکر اسے تخلیقی اظہار کی نئی سطح دی اور آج کے انسان کے دل کی دھڑکنوں کو اس میں سمو دیا۔

    رگھوپتی سہائے ۱۸۹۶ء میں گورکھپور میں پیدا ہوئے۔ تعلیم الہ آباد سے حاصل کی۔ بعد میں انڈیا سول سروس میں منتخب ہو گئے۔ چاہتے تو ڈپٹی کلکٹر بن جاتے لیکن انھوں نے تحریک آزادی میں حصہ لینے کو ترجیح دی اور کانگریس میں شامل ہو گئے۔ کچھ مدت تک انھوں نے جواہر لال نہرو کے ساتھ کام کیا، جیل بھی گئے، انگریزی میں ایم اے کرنے کے بعد الہ آباد یونیورسٹی میں انگریزی پڑھانے لگے اور یہاں سے ۱۹۵۹ء میں ریٹائر ہوئے۔ ان کے کلام کے کئی مجموعے شائع ہوئے جن میں روح کائنات، رمزوکنایات، غزلستان، شبنمستان، گل نغمہ اور روپ بطور خاص لائق ذکر ہیں۔

    ہندوستان کا کون سا ایوارڈ اور اعزاز ہے جو فراق کو حاصل نہیں ہوا۔ ساہتیہ اکادمی ایوارڈ انھیں ۱۹۶۲ء میں دیا گیا تھا۔ حکومت ہند کی طرف سے انھیں پدم بھوشن کا اعزاز بھی عطا ہوا۔ بعد میں ہندوستانی ادبیات کا سب سے بڑا اعزاز گیان پیٹھ ایوارڈ بھی ان کو پیش کیا گیا۔ انتقال سے چند مہینے پہلے غالب ایوارڈ لینے کے لیے وہ دہلی تشریف لائے تھے، اس کے بعد علاج معالجے کے لیے دہلی ہی میں رک گئے اور یہیں ۳مارچ ۱۹۸۲ء کو ان کا انتقال ہوا۔

    فراق نے اردو کی عشقیہ شاعری کو ایک آفاقی گونج دی۔ ان کی شاعری میں انسانی تہذیب کی صدیاں بولتی ہیں۔ وہ انگریزی کے رومانی شاعروں ورڈ زورتھ، شیلی، کیٹس سے متاثر تھے تو دوسری طرف سنسکرت کاویہ کی روایت کا بھی ان کے احساس جمال پر گہرا اثر تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ شاعر کے نغمے وہ ہاتھ ہیں جو رہ رہ کر آفاق کے مندر کی گھنٹیاں بجاتے ہیں۔ فراق کے بنیادی موضوعات حسن وعشق، انسانی تعلقات کی دھوپ چھاؤں، فطرت اور جمالیات ہیں۔ وہ جذبات کی تھرتھراہٹوں، جسم وجمال کی لطافتوں اور نشاط ودرد کی ہلکی گہری کیفیتوں کے شاعر ہیں۔ ان کی آواز میں ایک ایسا لوچ، نرمی اور دھیما پن ہے جو پوری اردو شاعری میں کہیں اور نہیں ملتا۔

    کس لیے کم نہیں ہے درد فراق

    اب تو وہ دھیان سے اتر بھی گئے

    تم مخاطب بھی ہو، قریب بھی ہو

    تم کو دیکھوں کہ تم سے بات کروں

    ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں

    اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں

    ہم سے کیا ہو سکا محبت میں

    خیر تم نے تو بے وفائی کی

    غرض کہ کاٹ دیے زندگی کے دن اے دست

    وہ تیری یاد میں ہوں یا تجھے بھلانے میں

    فضا تبسمِ صبحِ بہار تھی لیکن

    پہنچ کے منزلِ جاناں پہ آنکھ بھر آئی

    بہت دنوں میں محبت کو یہ ہوا معلوم

    جو تیرے ہجر میں گزری وہ رات رات ہوئی

    شام بھی تھی دھواں دھواں حسن بھی تھا اداس اداس

    دل کو کئی کہانیاں یاد سی آکے رہ گئیں

    اب دورِ آسمان نہ دورِ حیات ہے

    اے دردِ ہجر تو ہی بتا کتنی رات ہے

    ہزار بار زمانہ ادھر سے گزرا ہے

    نئی نئی سی ہے کچھ تری رہ گزر پھر بھی

    کس کا یوں تو ہوا کون عمر بھر پھر بھی

    یہ حسن و عشق تو دھوکا ہے سب مگر پھر بھی

    فراق سیاسی شاعر نہیں تھے۔ انھیں ایک ایسا آزاد خیال، لبرل شاعر کہا جا سکتا ہے جو انسان دوستی کا گہرا احساس رکھتا ہے۔ ان کاکہنا تھا، ’’میری کوشش رہی ہے کہ ایک بلند ترین، پاکیزہ ترین اور خیروبرکت سے معمور کائنات کی تخلیق کروں اور اپنی شاعری کے ذریعے انسانیت کو گہرا اور بلند بناؤں۔‘‘ ان کا دل ایک چوٹ کھائے ہوئے انسان کا دل تھا۔ جمالیاتی کیفیتوں کے ساتھ دکھ کی ایک دھیمی لہر ان کی پوری شاعری میں رواں دواں ہے جو آج کی زندگی کی پیچیدگی اور آج کے انسان کے دردوکرب سے ہم آہنگ ہے۔ یہ ٹیس ان کے ہاں دب دب کر ابھرتی ہے۔

    فراق دوڑ گئی روح سی زمانے میں

    کہاں کا درد بھرا تھا مرے فسانے میں

    یہ زندگی کے کڑے کوس یاد آتا ہے

    تری نگاہ کرم کا گھنا گھنا سایہ

    زندگی کیا ہے، آج اسے اے دوست

    سوچ لیں اور اداس ہو جائیں

    اس دور میں زندگی بشر کی

    بیمار کی رات ہو گئی ہے

    دیکھ رفتار انقلاب فراق

    کتنی آہستہ اور کتنی تیز

    یہ نگاہ غلط انداز بھی کیا جادو ہے

    دیکھنے والے ترے جی نہ سکیں مر نہ سکیں

    جینے والو یہ بھی جینے میں ہے کوئی جینا

    کچھ بھی کر دھر نہ سکیں مٹ نہ سکیں مر نہ سکیں

    اے معنی کائنات مجھ میں آ جا

    اے راز صفات وذات مجھ میں آ جا

    سوتا سنسار جھلملاتے تارے

    اب بھیگ چلی ہے رات مجھ میں آ جا

    کسی کی بزم طرب میں حیات بٹتی تھی

    امیدواروں میں کل موت بھی نظر آئی

    غزلوں اور نظموں کے علاوہ فراق نے رباعیوں میں بھی امتیاز حاصل کیا۔ ’’روپ‘‘ کے نام سے ان کی رباعیوں کا ایک مجموعہ الگ سے شائع ہوا تھا جو بےحد مقبول ہوا۔ ان رباعیوں میں سنسکرت کے شرنگار رس اور ہندی کے ریتی کال کی شاعری کا اثر ہے۔ گھریلو محبت کے ایسے مرقعے اس سے پہلے اردو شاعری میں نہ تھے۔ ان میں ہندوستانی عورت جسم وجمال کی تمام رعنائیوں کے ساتھ اور گھر پریوار تمام لطافتوں کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ عورت کا کنوار پن، بیاہتا بیوی کا سگھڑاپا، ماں کا پیار دلار ان رباعیوں میں طرح طرح سے بیان ہوا ہے۔ ان میں ممتا کی کسک بھی ہے اور جسم وجمال کی رنگینیوں سے آباد آنند اور رس بھری کیفیتیں بھی،

    دوشیزہ فضا میں لہلہایا ہوا روپ

    آئینۂ صبح میں چھلکتا ہوا روپ

    یہ نرم نکھار، یہ سجل دھج، یہ سگندھ

    رس میں کنوارے پن کے ڈوبا ہوا روپ

    ہر جلوے سے اک درس نمو لیتا ہوں

    چھلکے ہوئے صد جام و سبو لیتا ہوں

    اے جانِ بہار تجھ پہ پڑتی ہے جب آنکھ

    سنگیت کی سرحدوں کو چھو لیتا ہوں

    آنسو بھرے بھرے وہ نینا رس کے

    ساجن کب اے سکھی تھے اپنے بس کے

    یہ چاندنی رات یہ برہ کی پیڑا

    جس طرح الٹ گئی ہو ناگن ڈس کے

    موتی کی کان رس کا ساگر ہے بدن

    درپن آکاس کا سراسر ہے بدن

    انگڑائی میں راج ہنس تولے ہوئے پر

    یا دودھ بھرا مانسروور ہے بدن

    ڈھلکتا آنچل دمکتے سینے پہ الک

    پلکوں کی اوٹ مسکراہٹ کی جھلک

    وہ ماتھے کی کہکشاں وہ موتی بھری مانگ

    وہ گود میں ننھا سا ہمکتا بالک

    ہے بیاہتا پر روپ ابھی کنوارا ہے

    ماں ہے پر ادا جو بھی ہے دوشیزہ ہے

    وہ موہ بھری، مانگ بھری، گود بھری

    کنیا ہے، سہاگن ہے، جگت ماتا ہے

    فراق نے تنقید میں بھی ایسے نقوش چھوڑے جو برابر ان کی یاد دلاتے رہیں گے۔ ’’اندازے‘‘ کے مضامین میں انھوں نے کئی کلاسیکی شاعروں کی بازیافت کی اور اپنی تاثراتی تنقید کے ذریعے ان کی قدر سنجی میں اہم کردار ادا کیا۔ ’’اردو کی عشقیہ شاعری‘‘ پر فراق کی کتاب کلاسیک کا درجہ رکھتی ہے۔ ان کے خطوط کا مجموعہ ’’من آنم‘‘ پاکستان سے شائع ہوا تھا۔ پاکستان میں ان کے شیدائیوں کا بہت بڑا حلقہ ہے۔ ناصر کاظمی کی زبردست مقبولیت سے جس نئی غزل کو فروغ حاصل ہوا، اس کا سیدھا سچا رشتہ میر تقی میر کی روایت کے واسطے فراق سے ہے۔

    زبان کے بارے میں فراق کا ایک خاص نظریہ تھا۔ ان کی شاعری نے اپنا رس جَس کھڑی بولی کے واسطے سے پراکرتوں کی صدیوں پرانی روایت سے لیا تھا۔ وہ فارسی جانتے تھے اور ان کے یہاں فارسی ترکیبوں کا خاصا استعمال ملتا ہے۔ لیکن وہ کھڑی کے ٹھیٹھ ٹھاٹ اور اردو کے اس اردو پن پر جان دیتے تھے جو صدیوں کے تہذیبی لین دین اور لسانی اور تاریخی عمل سے وجود میں آیا ہے۔ وہ مصنوعی زبان کے اس لیے خلاف تھے تاکہ ہندی والے اردو کے لسانی تمول اور جمالیاتی حسن کو پہچانیں، ایک خوبصورت ہندوستانی زبان کے طور پر اس کی قدر کریں اور قومی زبان ہندی کی تشکیل میں اس سے مدد لیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ اردو نے سات سو آٹھ سو برس کے سماجی، تاریخی عمل میں کھڑی کو نکھارا، بنایا اور سنوارا ہے اور اسے شائستہ وشستہ روپ دیا ہے۔ اس لیے اردو کے روز مرہ اور لسانی اصولوں کی خلاف ورزی خوش مذاقی کے خلاف ہے۔ فراق کی اردو ایسی ہندوستانی ہے جو آسانی سے ہندی بھی کہی جا سکتی ہے۔ ان کے لہجے میں ایک ایسی کھنک اور گھلاوٹ ہے کہ بات فوراً دل میں اتر جاتی ہے۔ فراق کے پایے کے شاعر کہیں صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ بے شک ایسے منفرد اور باکمال شاعر کے اٹھ جانے سے اردو شاعری کا ایک دور ختم ہو گیا۔ فراق اب ہم میں نہیں لیکن ان کی آواز فضاؤں میں ہمیشہ گونجتی رہےگی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے