فرائڈ کا نظریۂ ادب
نفسیات نسبتاً ایک نوعمر علم ہے۔ انیسویں صدی کے وسط تک نفسیات، فلسفہ کی ایک شاخ سمجھی جاتی تھی۔ اور اس کاطریقۂ کار، استدلالی اور مابعدالطبیعاتی تھا۔ ۱۸۷۹ء میں مشہور جرمن مفکر اور ماہر نفسیات وانٹ نے ایک نفسیاتی دارالتجربہ قائم کیا اور اس کے بعد اس علم نے راہِ ترقی پر گامزن ہونا شروع کیا۔ موجودہ صدی میں تو نفسیات نے اس قدر ترقی کرلی ہے کہ زندگی کے اکثر شعبوں پر اس کے اثرات نمایاں ہیں۔ ہم نفسیات کی روشنی میں زندگی کے مختلف شعبوں اور پہلوؤں کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن نفسیات ایک عمرانی علم ہے اور پھر نوعمر۔ اس لیے مختلف مدارسِ فکر کے نظریات میں نہ صرف اختلاف ہے بلکہ یہ اختلاف، تضاد کی حدتک پہنچا ہوا ہے ان اختلاف کا یہ فائدہ تو ضرور ہے کہ تحقیق کی نئی نئی راہیں کھلتی جارہی ہیں اور یہ علم نہایت تیزی کے ساتھ ترقی کی منزلیں طے کر رہا ہے۔ لیکن ان حالات میں کسی نظریہ پر متفق ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
نفسیات نے جمالیات کے دونوں موضوعات، حسن اور فن کے مختلف مسائل پر کافی روشنی ڈالی ہے۔ لیکن چونکہ ماہرینِ نفسیات میں آپس میں زبردست اختلافات ہیں اس لیے جمالیاتی نظریات میں بھی ان اختلافات کا درآنا لازمی اور ضروری امر ہے۔ یوں تو نفسیات مجموعی طور پر جمالیات کے اکثر مسائل کو زیربحث لائی ہے لیکن فلسفہ اور نفسیات کے کچھ مدارسِ فکر ایسے ہیں جنہوں نے خاص طو رپر فن، ادب، تنقید اور جمالیات پر بہت گہرا اثر ڈالا ہے۔ ان میں سب سے قدیم تجربیت کا مدرسۂ فکر ہے۔ جہاں تک جمالیات کا تعلق ہے۔ اس مدرسۂ فکر کے مفکرین کو دو گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ اول وجدانی اور دوم تجزیاتی۔ وجدانی مفکرین، حسن کے معروضی نظریہ کے قائل ہیں، ان کے لحاظ سے حسن، اشیاء کی ایک ناقابلِ تجزیہ صنف اور اصول کانام ہے، اس گروہ میں شیفٹبری ہچیسن، ریڈ، ہملٹن وغیرہ کو شامل کرسکتے ہیں۔ ان کے برخلاف تجزیاتی مفکرین ایڈیسن، لارڈ کیمز، رینالڈز، ہوگارتھا برک ایسن، بین۔ نفسیاتی اور تجزیاتی طریقے سے حسن کاتجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں حسن، ایک ایسا مرکب جذبہ ہے جو مختلف عناصر سے مل کر ظہور پذیر ہوتا ہے۔ دوسرا مدرسۂ فکر تجرباتی نفسیات کا ہے۔ ان کے نزدیک حسن اجزاء میں نہیں ہوتا بلکہ ان اجزاء کی باہمی تشکیل میں۔ یہ ہیئت کو نہ صرف مقدم سمجھتے ہیں بلکہ مواد کو فراموش کردیتے ہیں۔ ان خیال میں فنی ذوق، اجزاء کی ترکیب سے وجود میں آنے والے تناسبات کے مکمل ادراک کا نام ہے۔ ان مفکرین میں ہم اڈولف، زائیرنگ، زمرمن، ولہلم انگر کو شامل کرسکتے ہیں۔ تیسرا قابل ذکر مدرسۂ فکر ان مفکرین کا ہے جن کے لحاظ سے حسن، شاہد کے تخیل کے آزادانہ عمل سے پیدا ہوتا ہے۔ فن کی بنیادیں کھیل کی جبلت پر استوار ہیں اور کھیل زائد جسمانی قوت کے انخلاء کا ذریعہ ہے اور تخیل زائد ذہنی قوت کے نکاس کا۔ اس طرح بنیادی طور پر فن، تخیل اور کھیل ایک ہی ہیں۔ اس نظریے کی ابتدائی شکل تو ہمیں کانٹ کے یہاں ملتی ہے۔ لیکن شلر، ہربرٹ اسپنسر، کارل گروس، کانواڈلنگے نے اس نظریے کو آگے بڑھایا اور اسے مکمل طریقے سے پیش کیا۔ ایک اور نظریہ EMPATHY کا ہے۔ ایمپتھی کا مطلب تحت الشعوری احساسات کامعروض میں ظل پذیر ہونا ہے۔ حسن اس ظل پذیری کانام ہے اور فن اس کی تجسیم کا۔ اس نظریہ کے حامی رابرٹ وشر، والکاٹ، ورنن کی ورنگر اور وکٹر باخ ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسے لپس نے پوری وضاحت سے پیش کیا ہے۔ موجودہ زمانے میں یہ نظریہ کافی مقبول ہے لیکن اس نظریہ سے بھی زیادہ آج کل جو نظریہ مقبول ہے وہ نظریۂ اظہاریت ہے۔ یہ نظریہ اگرچہ بہت قدیم ہے جسے سب سے پہلے فلاطونیس نے ابتدائی شکل میں پیش کیا۔ بام گارٹن نے اسے آگے بڑھایا۔ لیکن اطالیہ کے مشہور مفکر کروچے نے اسے پوری طرح علمی طور پر پیش کیا۔ اس نظریے کی رُو سے حسن اور فن، شاہد کے جذبات کے مکمل اظہارکانام ہے۔ اظہار اور وجدان ایک ہی ذہنی عمل کے دو نام ہیں۔ اظہار کا مطلب معروضی اظہار یا خارج میں صورت گری نہیں بلکہ کسی تصور کو مکمل طریقے سے ذہن نشین کرنا اور کسی جذبے کو پوری طرح ذہن پر منعکس کرنا ہے اور اس مکمل اظہار کا نام ہی حسن ہے۔ نفسیاتی نظریات میں جس نظریے نے کم از کم کچھ عرصہ کے لیے فن اور ادب کو کافی متاثر کیا وہ تحلیلِ نفسی کانظریہ ہے۔ اور اس میں خاص طور پر فرائڈ کا۔ فرائڈ نے اپنے نفسیاتی نظریات کو بنیاد بناکر فن اور ادب کاایک نیا نظریہ پیش کیا اور اس وقت ہمارا مقصد اجمالی طور پر فرائڈ کے نظریۂ فن وادب ہی کو پیش کرنا ہے۔
فرائڈ نے نفسیات کے بعد جن علوم پر سب سے زیادہ بحث کی ہے وہ فن و ادب، تہذیب و تمدن اور مذہب و اخلاق ہیں۔ اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ ان تمام مباحث میں بھی اس کے بنیادی نقطہ ہائے نظر اس کے نفسیاتی نظریات ہی پر مبنی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ ممکن ہے کہ جس طریقے سے اس نے اپنے نفسیاتی نظریات کو ادب اور فن پر منطبق کیا ہے اس طریقے سے اتفاق ممکن نہ ہو۔ اس لیے ہم اس کے ادبی نظریات کو پیش کرتے ہوئے پہلے اس کے ان نفسیاتی نظریات کو پیش کریں گے جن کا براہِ راست تعلق اس کے ادبی نظریات سے ہے اور اس کے بعد یہ دیکھیں گے کہ اس نے ان نظریات کو فن اور ادب پر کس طرح منطبق کیا ہے۔
فرائڈ نے دو نظریات کو ہم بنیادی کہہ سکتے ہیں۔ اول جبلتِ جنس میں انسان کی تمام قوتِ محرکہ کا مرکوز ہونا اور دوم انسانی زندگی میں لاشعور کی برتری۔ فرائڈکے یہاں جنس کا مطلب اس لفظ کے عام مفہوم سے کچھ وسیع ہے اور غالباً کچھ مبہم بھی۔ ’’اس سے وہ جبلی قوت مراد ہے جس کا تعلق ہر قسم کی محبت سے ہے اس میں وہ محبت بھی شامل ہے جو آدمی کو اپنے بچوں اور نوعِ انسانی سے ہوتی ہے اوروہ خلوص اور لگاؤ بھی جو اسے بعض چیزوں اور مجرد تصورات سے ہوتا ہے۔ چنانچہ فرائڈ کے یہاں انگوٹھا چوسنا، نگلنا بلکہ اخراج جیسا جسمانی فعل تک جنسی لذتیت کا مظہر ہے۔‘‘ جبلت جنس کی نشوونما کی تین منزلیں ہیں۔ خود فریفتگی، خفیہ وقفہ اور بلوغت۔ ان تینوں منازل میں سب سے اہم منزل خودفریفتگی کی ہے، کیونکہ انسان کو جو کچھ بننا ہوتا ہے وہ اس منزل میں بن چکا ہوتا ہے۔ اس زمانے میں وہ بہت سی الجھنوں کاشکار ہوجاتا ہے جن سے وہ عمر بھر پوری طرح آزاد نہیں ہوسکتا۔ یہ منزل پانچ سال تک رہتی ہے۔ دوسری منزل میں جبلتِ جنس خوابیدہ رہتی ہے اور پھر بارہ سال کی عمر میں تیسری منزل شروع ہوتی ہے جس میں انسان اپنی پہلی منزل کے تجربات کو معمولی ردّوبدل کے ساتھ دہراتا رہتاہے اور اب اس پر ماحول وغیرہ کا کوئی خاص اثر نہیں ہوتا۔
یہاں ہمیں صرف دوباتیں دیکھنی ہیں۔ کیا انسان کی قوتِ محرکہ صرف جبلتِ جنس ہے اور کیا انسان پہلی جنسی منزل کی الجھنوں سے کبھی آزاد نہیں ہوسکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جبلتِ جنس ایک زبردست قوت کی مالک ہے لیکن اگر جبلت کے نظریے کو صحیح مان بھی لیا جائے تو کیا یہ حقیقت نہیں کہ تلاشِ رزق، تحفظ، تعمیر، تجسس، تحصیل، مادری اور برتری کی جبلتیں بھی کسی طرح جنسی جبلت سے کم قوت کی مالک نہیں۔ انیسویں صدی میں یورپ میں جو معاشی اور تمدنی حالات تھے۔ ان کا لازمی نتیجہ جنسی ذہنی الجھنیں تھا۔ فرائڈ نے ان کو بنیاد بناکر اپنا نظریہ جبلتِ جنس پیش کیا اور ذہنی الجھنوں کو انسانی فطرت کاتقاضا قرار دیا۔ اور یہ مخصوص سماجی ماحول کے اثرات کو تمام نوعِ انسانی سے منسوب کردیا، ذہنی الجھنیں فطرت کاتقاضہ نہیں ہیں بلکہ ماحول کے اثرات ہیں۔ صحیح قسم کے ماحول میں یہ الجھنیں زیادہ پیدا ہی نہیں ہوتیں اوراگر وہ پیدا ہو بھی جائیں تو صحیح تعلیم و تربیت اور مناسب ماحول ان الجھنوں کو بہت جلد اور بہت حد تک دور کردیتا ہے۔
فرائڈ کایہ خیال صحیح نہیں کہ انسان پہلی جنسی منزل کی الجھنوں سے کبھی آزاد نہیں ہوسکتا اور ہر انسان کچھ نہ کچھ حدتک ضرور ان کاشکار ہوتاہے اس مسئلے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ادب اور فن کا سرچشمہ یہی جنسی ناآسودہ خواہشات ہیں یعنی فن کار ذہنی الجھنوں کاشکارہوتا ہے اور اپنی تخلیقات میں ان الجھنوں کو پیش کرتا ہے۔ بہرحال اس مسئلے پر ابھی بعد میں کچھ عرض کیا جائے گا۔
فرائڈ انسانی شخصیت کو تین حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ جبلی حرکتِ ارادی، انایا خودی اور ضمیر، جبلی حرکتِ ارادی، انسان کی تمام خواہشات اور شہوانی قوت کاسرچشمہ ہوتی ہے۔ ہماری تمام جبلتوں، عادتوں اور ہیجانات کا مرکز یہی ہے۔ یہ غیر منطقی اور غیراخلاقی ہے۔ یہ بالکل آزاد ہے، اس کی خواہشات کسی نہ کسی طرح اپنے آپ کو تسکین دینا چاہتی اور لذت کی جو یارہتی ہیں۔ انا یا خودی کاتعلق مہذب سماجی زندگی سے ہے۔ یہ سماجی زندگی کی بظاہر ناخوش گوار حقیقتوں کو قبول کرتی اور شعوری عمل کو تہذیب کے معیار پر پہنچاتی ہے۔ ضمیر، جبلی حرکتِ ارادی کو ہمیشہ قابو میں نہیں رکھ سکتیں۔ جبلی حرکتِ ارادی اور خودی میں ایک قسم کی رسہ کشی ہمیشہ قائم رہتی ہے۔ ایک طرف جبلی حرکتِ ارادی کے فطری جارحانہ رجحانات ہوتے ہیں اور دوسری طرف خودی کے پیش کردہ سماجی معیار اور نصب العین۔
یہاں فرائڈ پھر وہی غلطی کرتاہے، وہ اڈ یعنی جبلی حرکتِ ارادی کے جارحانہ رجحانات کو فطری قرار دیتا ہے۔ حالانکہ وہ سماج کے پیدا کردہ ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کسی ضرورت کے پورا ہونے میں رکاوٹ پیش آتی ہے تو ردِّعمل کے طور پر انسان میں جارحانہ رجحانات پیدا ہوتا ہے۔ اگر حالات سازگار ہوں اور کسی قسم کی بیرونی مزاحمت کامقابلہ نہ کرناپڑے تو جارحانہ رجحانات کے آگے بڑھنے بلکہ پیدا ہونے تک کا کوئی موقع ہی نہ ہوگا۔ انسانی سماج میں جارحانہ رجحان کے ساتھ ساتھ بلکہ اس سے بہت زیادہ تعاون اور میل ملاپ کے رجحانات بنیادی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ کوئی بھی انسانی ضرورت اس کے بغیر پوری نہیں ہوسکتی، البتہ اگر زندگی کی بنیادی ضرورتوں کے پورا ہونے میں رکاوٹ ہوگی تو جارحانہ رجحان فروغ پائے گا۔
ابھی عرض کیاجاچکا ہے کہ فرائڈ کے لحاظ سے انسان کی تمام خواہشات کاتسکین پانا ناممکن ہے۔ تمام خواہشات اور خاص طور پر جنسی خواہشات کا بے روک ٹوک اظہار ممکن نہیں۔ خود فریفتگی کی پہلی منزل میں ان خواہشات کو دبانا، جن کی نوعیت جنسی ہوتی ہے، لازمی اور ضروری امر ہے۔ دبی ہوئی یہ خواہشات آہستہ آہستہ تعداد اور قوت دونوں میں بڑھتی رہتی ہیں اورلاشعور کانام پاتی ہیں۔ لاشعور ایک طرف دبی ہوئی خواہشات کاگودام ہے اور دوسری طرف قوت کاسرچشمہ۔ شعور، لاشعور کاایک بہت ہی کمزور حریف ہے۔ اور شکست کھانا اس کی قسمت میں لکھا جاچکا ہے۔ دبی ہوئی اور پوشیدہ خواہشات لاشعور میں چلی جاتی ہیں۔ شعور کی نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہیں اور اپنے آپ کوتسکین دینے کے مواقع کی تلاش میں رہتی ہیں۔ ذہنی بیماریاں، خواب، ہوائی قلعے، روزمرہ کی بہت سی معمولی غلطیاں، یہ سب لاشعور کی کرشمہ سازیاں ہیں اور دبی ہوئی خواہشات اپنے آپ کو ان مختلف ذرائع سے تسکین دینے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان تمام حالات میں کیفیت کے لحاظ سے علت و معلول ایک ہی معیار کے ہوتے ہیں۔ لیکن بعض حالات میں معلول، کیفیت کے لحاظ سے علّت سے ارفع اور برتر ہوجاتاہے۔ جسے فرائڈ ارتفاع SUBLIMATION کہتا ہے اور اس کا نتیجہ ادب اور فن کی تخلیق ہوتا ہے۔ بالفاظِ دیگر جبلتِ جنس کی ناآسودگی ادب اور فن کی بنیاد ہے اور یہ ذہنی پراگندگی کانتیجہ ہے۔
فرائڈ کے لحاظ سے قدرت کی اصل منشاخواہشات کی بے روک ٹوک تسکین ہے۔ خواہشات کو دبانے کالازمی نتیجہ اعصابی بیماری کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن تہذیب و تمدن کے موجودہ دور میں خواہشات کی بے روک ٹوک تسکین ممکن نہیں۔ اس لیے ہر شخص کسی نہ کسی حدتک اعصابی بیماری اور ذہنی پراگندگی میں مبتلا ہے۔ لیکن اگر ایک شخص اپنی دبی ہوئی جنسی خواہشات کارخ سماجی مقاصد اور ادبی اور فنی تخلیقات کی طرف موڑدے، تو یہ دبی ہوئی خواہشات اسے اعصابی مریض کی بجائے ادیب اور فن کار بنادیتی ہے۔ فرائڈ نے کلاک یونیورسٹی میں دیے ہوئے پانچویں لیکچر میں اس نکتہ پر مفصل بحث کی ہے۔ لیکن لطف یہ ہے کہ ایک ہی لیکچر میں وہ متضاد باتیں کہہ جاتا ہے۔ ایک طرف تو وہ کہتا ہے کہ جنسی اور شہوانی قوت کو جنسی مقاصد کے علاوہ دوسرے اعلیٰ مقاصد کے لیے بھی استعمال کیاجاسکتاہے۔ لیکن وہ اسی لیکچر میں یہ بھی کہتا ہے کہ ہمیں اپنی فطرت کے حیوانی عنصر کے طالبات کو فراموش نہ کرناچاہیے کیونکہ لذت کاحصول ہر فرد کاجائز حق ہے او رہر شخص جبلی طور پر لذت کاجویا اور متلاشی ہے۔ علاوہ ازیں فرائڈ اس معاملے میں خاموش ہے کہ شہوانی قوت کارُخ اعلیٰ مقاصد کی طرف کس طرح موڑاجاسکتاہے۔ بلکہ وہ تو صاف صاف کہتا ہے کہ ’’عوام تحلیلِ نفسی سے کچھ ایسی چیزوں کے متمنی ہیں، جن کے متعلق وہ ان کی کچھ زیادہ مدد نہیں کرسکتی۔ یہ ماننا پڑتا ہے کہ تحلیلِ نفسی ان دو مسائل پر کچھ بھی روشنی نہیں ڈالتی، جن میں وہ بہت زیادہ دلچسپی لیتے ہیں، نہ تو یہ فنی صلاحیت کی تشریح کے سلسلے میں کچھ بتاسکتی ہے اور نہ ہی یہ فن کی تکنیک کے متعلق ہماری کچھ رہنمائی کرسکتی ہے۔‘‘
فرائڈ کے نظریۂ ارتفاع کی ایک خامی تو یہی ہے کہ وہ اس نکتہ کے متعلق کچھ نہیں بتاتا کہ جنسی قوت کو دوسرے اعلیٰ مقاصد کے حصول کی طرف کس طرح موڑا جاسکتاہے۔ اس کے علاوہ ایک اور بڑی خامی یہ ہے کہ جیسا کہ عرض کیاجاچکا ہے اس کے خیال میں جنسی جذبہ، سماجی بندشوں یا اور وجوہ کی بنا پر عموماً قدرتی انداز سے تسکین نہیں پاتا۔ اور جب اس جذبے اور خارجی بندشوں میں ٹکر ہوتی ہے تو اس جذبے کے ساتھ مختلف طریقوں سے عمل کیا جاتا ہے۔ یا تو اس جذبے کو دبادیاجاتا ہے، یا پھر وہ کسی پہلی منزل پر مراجعت کرجاتاہے یا پھر اس کو کسی اور مقصد کی طرف منتقل کردیا جاتا ہے یا پھر اسے ارتفاع کردیاجاتا ہے۔ اس آخری صورت میں لاشعوری طور پر اس جذبے کی قوت فنونِ لطیفہ، ادب، علمی نظریات وغیرہ کی تخلیق کاموجب بنتی ہے۔ جنسی جبلت کاارتفاع ہی انسان کی تمام تہذیب و تمدن کا سنگِ بنیاد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے لطیف فن اور ہمارا ادب قدرتی نہیں ہے۔ ان کا دارومدار جنسی جبلت کے تسکین نہ پانے پر ہے۔ جنسی جبلت اگر قدرتی اور فطری انداز میں تسکین پاسکے تو نہ علم رہے نہ فن۔ نہ ادب رہے نہ فلسفہ۔ تہذیب و تمدن اور ترقی سب ختم۔ بالفرض اگر یہ ختم نہ بھی ہوں جب بھی یہ تمام چیزیں مصنوعی ہیں قدرتی اور اصل نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ فن اور ادب کامنبع جبلتِ جنس اور اس کا ارتفاع نہیں، بلکہ جذبہ تخلیق ہے جو میلان کی شکل میں ہر شخص میں موجود ہوتاہے۔ لیکن صرف مناسب ماحول کی بناپر بروئے کار آسکتا ہے ورنہ اپنی ابتدائی حالت سے آگے نہیں بڑھتا۔ بہرحال یہ موضوع بالکل مختلف ہے اور اس کے متعلق یہاں کچھ عرض کرنامناسب نہیں۔
لاشعور دبی ہوئی خواہشات کا گودام ہے۔ یہ دبی ہوئی خواہشات سنسر کی نظر بچاکر کسی نہ کسی طرح اپنے آپ کو ظاہر کرکے تسکین حاصل کرہی لیتی ہیں۔ اگر یہ دبی ہوئی خواہشات تعداداور قوت میں کم ہوتی ہیں، تو خواب، ہوائی قلعے اور قلم اور زبان کی عام غلطیوں کے ذریعے تسکین حاصل کرلیتی ہیں۔ بصورتِ دیگر انسان اعصابی امراض میں مبتلا ہوجاتا ہے اور پھر اس مرض کی حالت میں یہ خواہشات تسکین حاصل کرتی ہیں۔ ادب اور فن کی تخلیق بھی ان دبی ہوئی خواہشات کا نتیجہ ہے۔ اسی بناپر فرائڈ فن کار کو ذہنی الجھن میں گرفتارقرار دیتا ہے۔ ایک ناول کے ہیرو کے متعلق وہ رقمطراز ہے کہ تخیل اور ذہنی صلاحیت کے اختلاف کی بنا پر اس کی قسمت میں ایک شاعر یا اعصابی مریض ہونا لکھا تھا اور وہ ان افراد میں سے ایک ہے جن کے لیے یہ دنیا مناسب مقام نہیں۔ فرائڈ کے لحاظ سے خواب اور فن و ادب دونوں دبی ہوئی خواہشات کے ذرائع ہونے کی حیثیت سے ایک دوسرے سے بالکل مشابہ ہیں۔ ان دونوں میں تخیل کی کارفرمائی مسلم ہے۔ لیکن ان دونوں میں جو تخیل درکار ہے وہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ ادب اور فن میں منضبط تخیل درکار ہے اور خواب میں آزاد تخیل۔ علاوہ ازیں فرائڈ آخر میں اس بات کا بھی قائل ہوگیا تھا کہ خواب اور بچوں کے کھیل، خواہشات کی صرف تسکین کاذریعہ نہیں بلکہ حقیقت سے مقابلہ کی تیاری کا ایک وسیلہ بھی ہے اور اگر بچوں کے کھیل او رخواب میں اصولِ حقیقت کارفرما ہے تو ادب اور فن میں اس کی کارفرمائی سے انکار ناممکن ہے اور اگر فن اور ادب میں اصولِ حقیقت کارفرما ہے تو انہیں ذہنی الجھن اور دبی ہوئی خواہشات کا نتیجہ قرار دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
فرائڈ کے لحاظ سے ادب، حقیقت نہیں بلکہ التباسِ حقیقت ہے۔ یہ ضرور ہے کہ یہ التباس بعض دوسرے التباسات کی طرح مضرت رساں نہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حقیقت اور فریب نظر ہے تو معلوم نہیں کہ دنیا میں پھر حقیقت کیا ہے اور کون سی چیز حقیقت ہوسکتی ہے۔ پھر توانا اور خودی کے تمام مظاہر اور افعال التباس بن کر رہ جائیں گے اور فرائڈ بھی کم از کم خودی کے مظاہر کو التباس کہنا پسند کرے گا۔ ادب تو ایک ایسی حقیقت ہے، جس کی افادیت، صداقت اور خلوص سے انکارممکن نہیں ہے۔
تو کیا اس کا یہ مقصد ہے کہ فرائڈ کے نظریہ ادب میں کوئی نکتہ ایسا نہیں جو قابل قبول یا کم از کم قابل قدر ہو۔ اور کیا تحلیلِ نفسی، ادب اور فن کے کسی پہلو پر بھی صحیح زاویے سے روشنی نہیں ڈالتی۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ تحلیل نفسی، کسی تخلیق کے عمیق مفہوم تک پہنچنے اور فن کار کو بحیثیت ایک فرد کے پوری طرح سمجھنے میں ہماری معاون و مددگار ہوسکتی ہے اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ بعض تخلیقات ایک سے زیادہ مفاہیم کی حامل ہوتی ہیں۔ ان تخلیقات کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ان کے عمیق مفہوم تک پہنچنا بہت ضروری ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ عمیق مفہوم، حقیقی مفہوم ہوتا ہے اور کیا ہم اس عمیق مفہوم تک پہنچنے کے بعد اس ادبی تخلیق سے پوری طرح محظوظ بھی ہوسکتے ہیں یا نہیں؟ شیکسپیئر کے مشہور ڈرامے ’’ہیملٹ‘‘ کی مثال لیجیے اور اس مثال کو خود فرائڈ نے پیش کیا ہے۔ مان لیا کہ ہملیٹ، اوڈپیس کمپلکس میں مبتلا ہے اور چچاکے قتل میں تاخیر کی وجہ یہ ہے کہ اس کے لاشعور میں شکرگزاری کا جذبہ موجود ہے کہ اس کے چچا نے اس کے باپ کو قتل کرکے اس کی راہ سے اس کے رقیب کو ہٹادیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس تشریح کے ذریعہ المیہ ہمیلٹ سے محظوظ ہوسکتے ہیں؟ جہاں تک دوسرے نکتے یعنی فن کار کو بحیثیتِ فرد کے پوری طرح سمجھنے کا تعلق ہے کیا یہ ممکن ہے کہ اس طرح ہم شیکسپیئر کے ذہن تک پہنچ سکتے ہیں۔ اور اسے بھی اس ذہنی الجھن کاشکار سمجھتے ہوئے ڈاکٹر جونز کی طرح کہہ سکتے ہیں کہ اس المیہ کی تخلیق کی اصل وجہ شیکسپیئر کے باپ کی موت ہے جو اس المیہ کے رقم ہونے سے کچھ ہی عرصہ پہلے وقوع پذیر ہوئی تھی۔ لیکن قدرت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ فرائڈ اپنی آخر عمرمیں اس بات کاقائل ہوگیا تھا کہ یہ تمام ڈرامے شیکسپیئر کے نہیں بلکہ ارل آف آکسفورڈ کے رقم کردہ ہیں اور اس طرح ڈاکٹر جونز کانظریہ بالکل ختم ہوجاتا ہے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ فن کار کے ذہن کو پوری طرح سمجھے بغیر ہم اس کی تخلیقات کو اچھی طرح نہیں سمجھ سکتے لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ فن کار صرف اپنی ذہنی الجھنوں کا شکار ہوتا ہے اوراس کی تخلیق صرف اس کی دبی ہوئی خواہشات کی ارتفاعی شکل ہوتی ہے۔
فن اور ادب کی تخلیق ایک شعوری عمل ہے۔ ہیئت اور مواد کا انتخاب شعوری کوششوں کا نتیجہ ہوتاہے۔ فن کار کے سامنے کچھ نہ کچھ مقاصداور کوئی نہ کوئی نصب العین ہوتا ہے۔ ان مقاصد کے لیے وہ کوشاں ہوتا ہے۔ اب اگر ہم تخلیق کو پوری طرح سمجھنا چاہیں تو صرف فن کار کے ذہن تک رسائی کافی نہیں۔ بلکہ اصل چیز تو وہ سماجی قوتیں، وہ عصری رجحانات، وہ اجتماعی مقاصد ہیں جن سے فن کار اور اس کا ذہن متعین ہوتا ہے۔ اگر ہم اپنے آپ کو صرف فن کار کے ذہن کے مطالعہ تک محدود کردیں تو ادب اور فن کی عالمگیریت اور معروضیت بالکل ختم ہوکر رہ جاتی ہے۔
آخر میں صرف ایک بات اور! فرائڈ جہاں ایک طرف ادب پر اثرانداز ہوا، تو دوسری طرف اس نے ادب سے بہت کچھ حاصل بھی کیا۔ اسکی سترویں سال گرہ کے موقع پر جب ایک مقرر نے اپنی تقریر میں اسے لاشعور کا دریافت کرنے والے کاخطاب دیا تو فرائڈ نے اپنی جوابی تقریر میں اس کی تصحیح کرتے ہوئے کہا ’’مجھ سے پہلے شعراء اور مفکرین لاشعور کاپتہ لگاچکے ہیں، میں نے جس چیز جو دریافت کیا وہ علمی طریقہ کار ہے جس سے لاشعور کامطالعہ کیا جاسکتا ہے۔‘‘ جہاں تک مفکرین کاتعلق ہے شوپنہار اور نطشے کے یہاں ہمیں لاشعور کاوجود ملتا ہے۔ ہیگل بھی دیدیرو کی مشہور تصنیف ’’رامیو کا بھتیجا‘‘ کاذکر کرتے ہوئے بھتیجے کو ’’منتشر شعور‘‘ اور دیدیرو کو ’’خالص شعور‘‘ کے نام سے موسوم کرتا ہے۔ اسی طرح جہاں تک شاعروں اور ادیبوں کاتعلق ہے۔ شیلے، شیگل اور ابسن کے یہاں لاشعور کا پتہ ملتا ہے۔ لاشعور کے علاوہ بھی فرائڈ کے بہت سے نظریات ہمیں اس سے پہلے ملتے ہیں۔ شوپنہار، جنسی قوت کو فن کی بنیاد سمجھتا ہے۔ شیکسپیئر کے ڈراموں میں اوڈیپس کمپلیکس، شیلے، پیو، بودیلیئر کے یہاں ہیبت ناکی، نودیلے کی تصانیف میں خواہشِ مرگ، دوستووسکی کے ناولوں میں ذہنی پراگندگی۔ یہ سب چیزیں ہمیں فرائڈ سے پہلے ہی ادب میں ملتی ہیں۔ رمزئیت اور اشاریت تو قرونِ وسطیٰ اور نشاۃ الثانیہ میں بہت ہی زیادہ مقبول تھی۔ کسی چیز کی تشریح چار مختلف انداز سے کی جاتی تھی۔ لفظی، تمثیلی، اخلاقی، اور حقیقی۔ دانتے بھی مفاہیم کے اس فرق کو مانتا ہے۔ فرائڈ سے پہلے بودیلیئر نے رمزئیت کو دوبارہ خاصا مقبول بنادیا تھا۔ اسی طرح ادب اور تنقید کی مشہور تحریک، رومانیت، اور انیسویں صدی کی فلسفہ کی تحریکوں، ایجابیت اور ’وجودیت‘ سے فرائڈ نے جس قدر افادہ کیا ہے اس کے متعلق کچھ کہنا تحصیل حاصل ہے۔ فرائڈ کے جنسی قوت کے نظریے کو ہم انیسویں اور بیسویں صدی کے نظریۂ روحیت کی ایک کڑی قرار دے سکتے ہیں۔ کانٹ کانظریۂ آزادی ارادہ، کارلائل کی بطل پرستی، مارکس کی جدلی فعالیت، نطشے کا نظریۂ فوق البشر، مارگن کا ارتقاء خارجی، برگساں کا جوشِ حیات، میکڈوگل کااحساسِ انا، برنارڈ شا کی قوتِ حیات، ایڈلر کا ارادہ برتری، اقبال کانظریۂ عشق۔ یہ سب اس سلسلے کی مختلف کڑیاں ہیں۔ مختلف مفکرین نے مختلف انداز سے اس کی تشریح کی۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں سے بعض مفکرین نے متضاد نظریات پیش کیے ہیں۔ بہرحال اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ یہ تمام مفکرین روحیت کے حامی تھے اور انسان میں عملی پہلو کی برتری کے متمنی۔
غرض ہم دیکھتے ہیں کہ اگرچہ فرائڈ نے ادب اور فن کے ایک ایسے پہلو کو اجاگر کیا ہے جو اس سے پہلے کافی حدتک نظروں سے اوجھل تھا۔ لیکن اس نے ادب اور فن کو زندگی میں جو مقام دیا ہے وہ اس قابل نہیں کہ اسے قابلِ فخر کہا جاسکے۔ اسی طرح نظریۂ تحلیلِ نفسی کو ادب پر منطبق کرنا بھی کچھ فائدہ مند نہیں۔ اس سے ادب میں معروفیت، عالمگیریت اور اجتماعیت سب ختم ہوجائے گی اور وہ موضوعیت اور انفرادیت میں مقید ہوکر رہ جائے گا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.