Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

فن کے مقاصد

سعید احمد رفیق

فن کے مقاصد

سعید احمد رفیق

MORE BYسعید احمد رفیق

    انسان کے ہر عمل کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے۔ یہ مقصد شعوری یا نیم شعوری طور پر بھی اس کے پیش نظر ہوسکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اسے اس مقصدکا شعور نہ ہو۔ بہرحال مقصد کی غیرموجودگی نفسیاتی طور پر ناممکن ہے۔ فن کی تخلیق بھی ایک ذہنی اور مادی عمل ہے۔ اس لیے اس کا مقصد نہ موجود ہونا محال ہے۔ یہ کیا مقصد ہے یا کیا مقاصد ہیں۔ جن کے حصول کے لیے فن کی تخلیق کی جاتی ہے۔ اس مسئلہ کے متعلق کچھ عرض کرنے میں سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ جمالیات اور فن کے مختلف مدارس فکر کے لحاظ سے یہ مقاصد نہ صرف مختلف ہیں بلکہ متضاد فن کے مقاصد جمالیات کے مختلف مدارسِ فکر کو بنیاد بناکر متعین کیے جاسکتے ہیں اور چونکہ مختلف مدارس فکر میں نہ صرف فروعی بلکہ بنیادی اختلافات تک موجود ہیں اس لیے فن کے مقاصد و متعین کرنے میں بھی یہ اختلافات درآتے ہیں۔ فن کے کسی ایک مقصد کے متعلق بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ تمام مدارسِ فکر اس پر متفق ہیں۔ اس لیے یہ بہتر ہے کہ فن اورجمالیات کے مختلف مدارس فکر کے لحاظ سے مقاصد کو متعین کرنے کی کوشش کی جائے اور دیکھا جائے کہ کس نظریہ میں کتنی صداقت پوشیدہ ہے اورآخر میں فن کے اصل مقاصد کو پیش کیا جائے۔

    جمالیات کے متعلق سب سے پہلے علمی طور پر افلاطون نے بحث کی ہے۔ اس سے پہلے بھی یونانی ادب میں اگرچہ فن کے جمالیاتی پہلو کے متعلق ہمیں کچھ اشارے ملتے ہیں، لیکن صرف اشارے۔ افلاطون نے جمالیات کے دونوں پہلوؤں یعنی حسن اور فن کے متعلق اپنےنظریات پیش کیے۔ اپنا نظریۂ فن وہ ’ریاست‘ کے دسویں باب میں پیش کرتا ہے۔ اس کے خیال میں فن ’نقل کی نقل‘ اور ’پرتو کا پرتو‘ ہے، اور اس لیے ناقابل ستائش۔ شاعروں اور مصوروں کو اپنی عینی ریاست سے جلاوطن کرنےکی وجہ اخلاقی اسباب کے علاوہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے آپ کو صرف ’نقل کی نقل‘ تک محدود رکھتے ہیں۔ سمیوزیم اور ’فیدروس‘ میں وہ حسن پر بحث کرتاہے۔ اس کے خیال میں خدا حسنِ مطلق ہے۔ حسن کو خیر پر ترجیح حاصل ہے۔ حسن کی تعریف وہ ان الفاظ میں کرتاہے۔ ’’حسن کامل، منفرد، سادہ اور غیرفانی ہے۔ جو خود نہ بڑھتاہےاور نہ ہی گھٹتا ہے۔ اور دنیا کی تمام چیزوں کو جن کی خوب صورتی بڑھتی یا گھٹتی رہتی ہے۔ عطا کیا گیا ہے۔‘‘ ایم۔ایم۔ شریف، افلاطون کے نظریۂ حسن کی تشریح کرتے ہوئے رقمطراز ہیں، ’’حسن کے بے شمار درجے ہیں۔ لیکن ان سب کی اصل وہی حسنِ مطلق ہے۔ حسنِ منفرد، قابل تغییر، فناپذیر ہوتاہے۔ لیکن الوہی حسن ابدی ہے۔ اس لحاظ سے ہر حسین شے ابدی ہے کیونکہ وہ الوہی حسن میں شریک ہوتی ہے۔ یا یہ کہ الوہی حسن اس شئی میں ظہور پذیر ہوتا ہے۔ فطرت حسین ہے اس لیے کہ وہ اس حسنِ قدیم واحد میں شریک ہے۔ ہر شئی حسین کا نظارہ ہمیں حسنِ ازل کی یاد دلاتا ہے اور یہی بنا ہے۔ اس پر اسرار خط، جذبے اور خوشی کی جو کسی حسین شئی کو دیکھ کر ہمیں حاصل ہوتی ہے۔‘‘ غرض حسن نہ صرف قدر بالذات اور اعلیٰ ترین قدر ہے۔ بلکہ تمام اعلیٰ اقدار کا منبع حسن کی موجودگی تمام اقدار کی موجودگی کی ضامن۔ چاہے یہ حسن فطرت میں ہو، زندگی میں یا فن میں۔ فن میں حسن کی موجودگی اسے خیر بنا دیتی ہے۔ اور اس طرح ہر اعلیٰ فن خیر ہے۔ بغیر خیر کےنہ حسن کی تخلیق ممکن ہے۔ اور نہ ہی اس سے محظوظ ہونا۔ کانٹ نے فن کے اس پہلو پر زور دیا اور رسکن اور ٹالسٹائے نے افلاطون کے اس نظریہ کواس کی منطقی انتہا تک پہنچا کر فن کا مقصد اخلاق کی تربیت قرار دیا۔

    حقیقت یہ ہے کہ افلاطون کے مندرجہ بالا دونوں نظریات میں ایک ایسا تضاد موجود ہے۔ جسے دور کرنا محال ہے۔ ایک طرف وہ فن کو ’نقل کی نقل‘ کہتا ہے۔ اور دوسری طرف اسے حسن کامل اور الوہی حسن کا پرتو قرار دیتا ہے۔ ’ریاست‘ میں فن قابل مذمت ہے اور کمپوزیم میں قابلِ ستائش بلکہ قابل پرستش۔ افلاطون کے پہلےنظریہ میں کچھ اصلاح کرکے ارسطوؔ نے اسے قبول کرلیا۔ اور دوسرے نظریہ نے وہ عالمگیر حیثیت حاصل کی کہ ارسطو رسکن اور ٹالسٹائے نے اسے اپنالیا۔ جمالیاتی اور تاثراتی نظریہ والوں نےفن کا مقصد تخلیق حسن اور جمالیاتی خط قرار دیا۔ دوسری طرف فن اور ادب کے علاوہ پلوطینس کی وساطت سے افلاطون کا نظریۂ حسن تصوف کا بنیادی اصول بن گیا۔

    ارسطو نے اپنا ’نظریۂ مشابہت‘ افلاطون کے ’نظریۂ نقل‘ ہی سے لیا ہے۔ افلاطون فن کو ’نقل کی نقل‘ قرار دیتا ہے اور ارسطو اسے حقیقت اور زندگی کی مشابہت۔ بنابریں افلاطون کے نزدیک فن فطرت اور زندگی سےکمتر ہے۔ لیکن ارسطو اس کے اس نظریہ سے متفق نہیں کہ فکر فنِ زندگی کی نقل نہیں بلکہ اس کی مشابہت اور مطابقت ہے۔ اس لیے وہ اصل سے زیادہ دلچسپی کاموجب ہے،

    آں ہنرمندی کہ بر فطرت فزود

    رازِ خود رابر نگاہِ ماکشود!

    حورِاواز حورِ جنت خوشتراست

    منکر لات و مناتش کافراست

    افلاطون کی طرح ارسطو بھی حقیقت کی اہمیت کا قائل ہے۔ اور فن کی تخلیق کاسبب وہ ہیئت ہی کو قرار دیتا ہے۔ افلاطون اور ارسطو کے اس نظریہ سے بعد میں آنے والے ہیئت پسند فریڈرک ہربرٹ، ہنسلک، فیلڈر، روجر فرائی متاثر ہوئے اور فن کو صرف ہیئت پرستی تک محدود کرکے رکھ دیا۔

    افلاطون نے فن کے مقاصد واضح طور پر بیان نہیں کیے۔ لیکن ارسطو کےخیال میں شاعری اور اس طرح فنونِ لطیفہ کے چارمقاصد ہیں۔ (۱)خط اور انبساط (۲)اخلاقی تعلیم۔ (۳) خط اور انبساط حاصل کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا۔ اور (۴) جذبات کی بالیدگی۔ یونانیوں کے نزدیک فنونِ لطیفہ کاایک بڑا مقصد خط اور انبساط حاصل کرنا تھا۔ اگرچہ وہ اسے واحد مقصد نہ مانتے تھے۔ بہرحال فن کے مقاصد میں اسے سب سے اونچا درجہ حاصل تھا۔ زمانے کے رجحان کے مطابق ارسطو نے بھی اس مقصد کو سب سے اونچا مقام دیا ہے۔ اور نہ صرف یہ بلکہ تیسرا مقصد بھی حقیقتاً پہلے مقصد ہی کا ایک پہلو ہے۔ فنونِ لطیفہ کا یہ مقصد اس قدر بنیادی ہے یہ جمالیاتی خط جسمانی لذت اور ذہنی انبساط سے مختلف ہوتا ہے۔ اور فنونِ لطیفہ کی تخلیق اور اس سے محظوظ ہونے سے حاصل ہوتا ہے۔ انیسویں صدی میں فن برائے فن کے حامیوں فلوبیڑ، پشکن، والٹر پیڑ۔ آسکر وائلڈ نے صرف ان دو نکات ہیئت اور خط و انبساط پر بہت زیادہ زور دیا اور فن کے اعلیٰ مقاصد کو پسِ پشت ڈال دیا۔

    ارسطو کے خیال میں فن لطیف کا دوسرا مقصد اخلاقی تعلیم ہے وہ خیر اور حسن کو ایک ہی اعلیٰ قدر کے دومظاہر سمجھتا ہے بلکہ بنیادی طور پر وہ انہیں ایک ہی مانتا ہے۔ فنونِ لطیفہ چونکہ تخلیق حسن کا باعث ہوتے ہیں۔ اس لیے یقینی طور پر ان کا نتیجہ اخلاق کو بہتر بنانا ہے۔ افلاطون تو اس مقصد کے متعلق اس قدر انتہا پسند تھا کہ اس نے اس کے لیے شاعری اور مصوری تک کو قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا، موجودہ زمانہ میں بھی اس مقصد پر کافی زور دیا گیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ مقصد ہے بھی اس قدر بنیادی کہ اگرچہ اس مقصد کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا فن کی اعلیٰ تخلیقات کی راہ میں حائل ہوسکتا ہے۔ لیکن اس مقصد کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ پیش نظر رکھنے سے میرا مطلب کسی اخلاقی نظریہ کو صحیح ثابت کرنے کے لیے یا اس کی تبلیغ کے لیے فن کو وقف کردینا ہے۔ اور یقیناً یہ فن کے ساتھ ظلم ہے اور فراموش نہ کرنے سے یہ مراد ہے کہ کوئی تخلیق بنیادی اخلاقی نظریات کے خلاف نہ ہو۔ اور جذبات کو مشعل نہ کرے بلکہ انہیں ارتفاع بخشے۔ ہر اعلیٰ فن بنیادی طور پر اخلاقی ہوتا ہے لیکن اس کی حیثیت ایک مشفق، مہربان، چارہ ساز، غم گسار اور دوست کی ہوتی ہے نہ کہ ایک استاد اور ناصح کی۔ فن کا اخلاقی مقصد براہِ راست حاصل نہیں ہوتا۔ بالکہ بالواسطہ۔ ارسطو یہ مقصد جذبات میں توازن اور بالیدگی پیدا کرکے حاصل کرتا ہے۔ اس کی اپیل ہمارے جذبات اور احساسات سے ہوتی ہے۔ آہستہ آہستہ دھیمے دھیمے وہ ہم پر اس طرح اثر انداز ہوتا ہے کہ فنکار اور شاہد کو اس کے اثر کا شعور بھی نہیں ہوتا اور وہ رفتہ رفتہ بلند سے بلند تر ہوتے جاتے ہیں۔ ’’فنکار کااخلاقی فرض اس بات میں مضمر نہیں ہے کہ وہ کسی ایک یا دوسرے نظریہ اخلاق کی حمایت کرے بلکہ اس بات میں پوشیدہ ہے کہ وہ اپنےآپ سے ایمانداری برتے‘‘ اس کایہ مطلب نہیں کہ فنکار کے پیش نظر کوئی مقصد نہ ہو۔ فنکار کے دل و دماغ میں کسی خاص مقصد کی موجودگی تو اعلیٰ فن کی ایک زبردست خصوصیت ہے۔ عرض صرف یہ کرنا ہے کہ اس مقصد کا اظہار جذبات اور احساسات کے توسل سے کیا جائے اور وہ مقصد غیراخلاقی بھی نہ ہو۔

    ارسطو فنونِ لطیفہ کا چوتھا مقصد جذبات میں بالیدگی، توازن، نفاست اور لطافت پیدا کرنا سمجھتا ہے۔ یہ مقصد سب سے زیادہ انخلاء جذبات کی (KATHARSIS) وساطت سے المیہ کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے۔ لیکن دوسرے فنونِ لطیفہ بھی اس مقصد کو حاصل کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ جذبات میں نفاست اور لطافت انخلاء جذبات کے ذریعہ پیدا ہوسکتی ہے یا نہیں۔ یہ تو دوسرا مسئلہ ہے۔ بہرحال اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ یہ مقصد ایک عظیم مقصد ہے اور اس قدر عظیم کہ اس کے متعلق کچھ زیادہ کہنا تحصیل حاصل ہے۔

    افلاطون اور ارسطو کے نظریات کے متعلق مندرجہ بالا سطور میں نسبتاً تفصیل سےعرض کیا گیا ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ فن کے موجودہ نظریات میں سے اکثر ان کے نظریات کی ارتقائی شکلیں ہیں۔ یونان کے بعد روم میں اگرچہ بعض فنونِ لطیفہ کو ترقی ہوئی۔ لیکن فن کے نظری پہلو پر کوئی خاص غور و خوض نہیں کیا گیا۔ سِسرو، ہوریس اور کوئنٹلین نے ارسطو ہی کے خیالات کو اپنےالفاظ میں پیش کیا۔ اور فن کے قواعد پر زیادہ زور دیا۔ یونان کے لان جائی نس نے فن کے متعلق ایک نیا نظریہ پیش کیا۔ وہ فن کی بنیاد تخئیل ۔ جوش ’’غیبی دیوانگی‘‘ اور الہامی کیفیت پر رکھتا ہے۔ اور فن میں افادیت کا منکر ہے۔ لان جائی نس مستقبل کے رومانی نظریہ پر کافی اثرانداز ہوا۔ اور انہوں نے اس کے خیالات پر فن اور ادب کی ایک خوبصورت عمارت تعمیر کی۔ جو اگرچہ حسین و جمیل تو بہت ہے۔ لیکن زیادہ شاندار ہے اور نہ افادیت کی حامل۔

    عہد وسطیٰ کا مذہبی مفکر سینٹ اگسٹائن ارسطو کی تقلید میں فن کا مقصد حظ اور انبساط سمجھتا ہے۔ اور اسے حاصل کرنے کا ذریعہ تخلیقِ حسن، دانتے شاعری کے معنوی پہلو پر کافی زور دیتا ہے۔ اس کے لحاظ سے شاعر کے خیالات میں رفعت، خلوص، محبت اور اخلاقی بلندی ہونی چاہیے۔ شاعر کی زبان آسان ہو۔ لیکن اندازِ بیان میں شان و شوکت ہونا ضروری ہے۔ جو الفاظ کے مناسب استعمال اور صحیح انتخاب سے پیدا ہوتی ہے۔ ساونرولا نے افلاطون کی پیروی کی اور شاعری کا مقصد اصلاح بتایا۔ اور البریٹ ڈیودر نے فطرت کی نقالی کو نقطۂ عروج سمجھا۔ حقیقتاً از منہ وسطےٰ میں فن۔ ادب۔ علم غرض زندگی کا کوئی بھی اعلیٰ پہلو ترقی نہ کرسکا۔ نشاۃ الثانیہ کے شروع ہوتے ہی زندگی میں بہار آئی۔ یا یوں کہیے کہ بہار کی آمد آمد کانام نشاۃ الثانیہ رکھا گیا۔ قدرتی طور پر یہ دور کلاسکیت ہی سے شروع ہوا۔ بن جانس، سرفلپ سڈنی اور جوائن آپس کے اختلافات کے باوجود قدما کے راستے پر چلنا ضروری سمجھتے ہیں، لیکن سترہویں صدی تک زندگی کی رفتار اس قدر تیز ہوگئی تھی۔ کہ صرف کلاسکیت تک اپنے آپ کو محدود رکھنا ناممکن ہوگیا تھا۔ ڈرائیڈن۔ پوپ۔ ایڈلسین نے کلاسکیت کی اس انتہا پسندی کو بنظر احسن نہ دیکھا۔ اور ان کے بعد جرمن میں گوئٹے۔ شلر۔ لیسنگ۔ ہرڈر۔ خودالس۔ شیلیگل۔ انگلستان میں کولرج۔ ورڈسورتھ۔ بلیک۔ شیلے بائرن۔ براؤننگ۔ سکاٹ۔ فرانس میں روسو۔ شاتوبری آں۔ ھیوگو۔ ٹین۔ سینٹ بیو۔ مادام دی اسٹیل اور لیمارتین نے کلاسکیت کے مقاصد۔ قواعد کی پابندی۔ رکھ رکھاؤ۔ پرتصنع ہیئت۔ سرد مہری اور معروضیت۔ غیر شخصیت۔ قدما کی پیروی۔ روایت۔ عقلیت۔ داخلی اور خارجی کشمکش کافقدان کے خلاف آواز اٹھائی اور اس طرح رومانیت کو فروغ دیا۔ ’’اس تحریک نے عقل کا جانشین ایسے وجدان اور تخئیل کو قرار دیا۔ جو جذبات سے مملو ہوں۔ اور نئے تصورات۔ نئے سانچوں۔ اظہار میں خلوص اور جذبات کی آمیزش۔ فطرت سے والہانہ لگاؤ۔ اور حسن کے لطیف احساس کی قدر و منزلت بڑھائی۔‘‘

    غرض روحانیت کی یہ تحریک فن اور ادب کے میدان میں ایک زبردست انقلاب کا موجب بنی۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں۔ فن۔ ادب اور تنقید میں جو ترقی ہوئی وہ کافی حد تک اس تحریک کی مرہونِ منت ہے۔ اس تحریک کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور زندگی کی ارتقا پذیر بلکہ انقلابی رو نے کلاسکیت کو بھی اپنے محفوظ قلعہ سے نکلنے پر مجبور کیا اور میتھو آرنلڈ جیسے کلاسیکی نے بھی شاعری کو زندگی کی تنقید سے تعبیر کیا۔ ’’شاعر کے لیے دنیا اور زندگی سے واقفیت ضروری ہے۔ کیونکہ بغیر اس کے وہ ان کو اچھی طرح اپنی تخلیقات کا موضوع نہیں بنا سکتا اور چونکہ آج کل کے زمانے میں، دنیا کے حالات میں بے شمار پیچیدگیاں ہوگئی ہیں۔ اس لیے شاعر کے پاس، ان کو موضوع بنانے اور اپنی شاعری سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ایک تنقیدی شعور کا ہونا بہت ضروری ہے۔ ورنہ اس کی تخلیقات معمولی درجہ کی ہوں گی۔ جن کا زیادہ دنوں تک باقی رہنا مشکل ہے۔‘‘

    انیسویں صدی کے شروع میں ایک طرف رومانیت کا دور دورہ تھا۔ اور دوسری طرف کارلائل فن اور ادب کے اخلاقی پہلو پر زور دے رہا تھا۔ کارلائل کے خیال میں ’’اگر فنونِ لطیفہ صداقت سے اپنا رشتہ توڑلیں تو وہ اگر ختم نہ بھی ہوں بہرحال بیکار تو ضرور ہو جاتے ہیں۔‘‘ وہ فن کو مقصد بالذات نہیں سمجھتا بلکہ اخلاق مذہب اور زندگی کو بہتر بنانے کا صرف ایک ذریعہ۔ رسکن نے انہی خیالات پر اپنے نظریہ کی بنیاد رکھی۔ اور فن کو وہ عظمت عطا کی۔ جو اس سے پہلے کبھی فن کو حاصل نہ ہوئی تھی۔ اگر کسی ایک ہستی کے متعلق استفسار کیا جائے جو خود بھی فن کی عظمت کا سب سے زیادہ قائل۔۔۔ ہو۔ تو رسکن کا نام لینے میں غائباً کسی قسم کی معذرت کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ اور لطف یہ ہے کہ وہ فن کو مقصد نہیں سمجھتا۔ بلکہ اخلاق۔ مذہب اور زندگی کا صرف ایک ذریعہ، لیکن ایک ایسا ذریعہ جس کے بغیر ان مقاصد اعلیٰ کا حصول اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے اور شاید ناممکن کی حدتک مشکل۔ افلاطون اور پلوطنیس نے حسن کو خیر بنایا اور رسکن نے خیر کو حسن۔ حسنِ کامل میں خیر کامل پوشیدہ ہے، حسن میں وہ قوت و طاقت اور جاذبیت و لطافت ہے جو انسان کو ہر قسم کی خامیوں اور برائیوں سے بچاکر خیر کی راہ دکھاتا ہے۔ اور نہ صرف دکھاتا ہے۔ بلکہ اس پر گامزن کراتا ہے۔ فن کے متعلق رسکن کی کچھ باتوں سے اختلاف ممکن ہے لیکن روح کی فطرت کی نقاب کشائی۔ فطرت اور انسان کا باہمی تعلق۔ فن کا پیغامِ اخلاق۔ فن کی عظمت۔ فن اور مذہب کی مطابقت۔ فن کی عظمت کا قائل ہوئے بغیر مذہبی اصولوں پر تیقن کا محال ہونا۔ نظارہ حسن کا مذہبی اور اخلاقی قدر ہونا۔ حسنِ فطرت کا حسنِ کردار پر انحصار۔ یہ وہ بنیادی نکات ہیں۔ جن سے اختلاف ممکن نہیں۔ رسکن فن کو حرف اخلاق اور مذہب ہی کے لیے لازمی اور ضروری نہیں سمجھتا بلکہ زندگی کے لیے بھی۔ صرف اعلیٰ اور ارفع زندگی ہی فن کے بغیر ممکن نہیں بلکہ فن زندگی کے لیے بھی۔ صرف اعلیٰ اور ارفع زندگی ہی فن کے بغیر ممکن نہیں بلکہ فن زندگی کے ہر ہر پہلو میں ہمارا معاون، مددگار اور راہبر ہے۔ ٹالسٹائے بھی فن کو صرف ایک ذریعہ مانتا ہے اور اس کا مقصد اخلاقی قرار دیتا ہے۔ وہ اس مقصد کو جذبات میں بالیدگی اور لطافت پیدا کرکے حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اور اس وجہ سے جنسی محبت۔ جذبۂ حب الوطنی اور مذہبی جذبہ وغیرہ کو فنونِ لطیفہ میں کوئی خاص مقام دنیا پسند نہیں کرتا۔ وہ فن کو کسی ایک قوم، نسل، مذہب یا جماعت کے لیے وقت کردینے کا سخت مخالف ہے۔ اس کے خیال میں فن کا مقصد تمام نوعِ انسان کی اخلاقی برتری کے لیے جد و جہد کرنا ہے۔

    رومانیت حقیقتاً کلاسیکت کے ردِّ عمل کے طور پر شروع ہوئی تھی۔ اور اس وجہ سے رومانی مفکرین اور فنکاروں میں آپس میں اختلافات ناگزیر تھے۔ میسنگ نے ادب کو قومی وار ملکی رنگ میں پیش کرنے پر زور دیا۔ روسو نے فطرت نگاری کو اپنایا۔ ٹین نے فن اور ادب کو ماحول کی پیداوار قرار دیا۔ اور شاعری کو سماجی۔ جغرافیائی، تاریخی اور اخلاقی پس منظر میں دیکھنے پر زور دیا۔ سینٹ بیو نے تاریخ اور نفسیات کی طرف توجہ مبذول کرائی۔ ’’برطانوی رومانیت پرستوں پر نوفلاطونی اثرات زیادہ گہرے ہیں۔۔۔ ان کے ہاں بات تحسین فطرت سے شروع ہوتی ہے اور وجودِ مطلق تک جا پہنچتی ہے۔۔۔ انہوں نے تخیل کو عقل و دانش کا گہوارہ قرار دیا اور وجدان کو علم حقیقی کا منبع گردانا۔ شاعری ان کے نزدیک پیغمبری تھی اور شاعر ہاتف۔‘‘ شاعر پر الہامی کیفیت طاری ہونے کے یہ سب قائل ہیں۔ درڈسورتھ کے خیال میں شاعری کی بنیاد جذبات و احساست پر ہے۔ کولرج بھی جذبات کو شاعری کا برر لاینفک سمجھتا ہے اور انفرادیت پر زور دیتا ہے۔

    رومانیت سے فن اور ادب کے مختلف نظریات متاثر ہوئے اور کچھ نئے مدارس فکر ظہور میں آئے۔ ان میں سب سے مشہور ’فن برائے فن‘ کا نظریہ ہے۔ اس تحریک کے سربراہ فلو بیئر کو بودلیٹر اور آسکر وائلڈ وغیرہ تھے۔ اس نظریہ کی رو سے ’’حسن فن کا خاصہ ہے۔ حسن بذاتہ ایک ایسی قدر ہے جو مطلق بھی ہے۔ اور ہر قدرے اعلیٰ اور برر بھی۔ باقی تمام اقدار مثلاً صداقت یا خیر، یا تو حسن کے ماتحت ہیں، یا بالکل غیر متعلق۔ اسی قدرِ اعلیٰ کی بناپر فن کا وجود بذاتہٖ مقصود بن جاتا ہے۔ زندگی کی وسعتوں میں اس کی اپنی حدود ہیں اور اپنے مقام پر آزاد اور مکمل ہے۔ نہ اس کی کوئی منزلِ مقصود ہے اور نہ یہ کسی مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے۔ اس کا کام صرف اس قدر ہے کہ فن کار کو حسنِ محض کے ادراک سے ہم کنار کرے۔ اور کیفیت استہزاز سے دوچار۔ یہ مقصد خود فن ہی میں داخل ہے۔ اور اس وقت حاصل ہوجاتا ہے جب فن تخلیق پذیر ہو۔ فن کی اپنی قدر کے علاوہ کسی اور مقصد مثلاً اخلاق، تعلیم، روپیہ پیسہ یا شہرت وغیرہ کا اس کے متعلق گرداننا دراصل اس کی اپنی قدر کی منفی ہے۔ یہ مقاصد فن کی قدر و قیمت گردانتے ہیں۔ اس میں اضافہ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘ گوتیر اور آسکر وائلٹ اس نظریہ کے پرجوش اور انتہا پسند مبلغ ہیں۔ گو تیر کے الفاظ میں ’’جب کوئی شے مفید بن جاتی ہے تو حسین نہیں رہتی۔‘‘ آسکر وائلڈ فن اور اخلاق میں حدِ فاصل قائم کردیتا ہے۔ ’’فن اور اخلاق کی حدود ایک دوسرے سے بالکل الگ تھلگ ہیں۔‘‘

    ’فن برائے فن‘ کا لازمی نتیجہ جذباتیت اور تاثریت ہے۔ جس کے لحاظ سے ادب اور فن تاثرات کے فنی اظہار کے نام ہے۔ ان تاثرات کی علل اور نتائج سے انہیں کوئی تعلق نہیں۔ اصل چیز تو تاثر۔ تفریح طبع اور لطف اندوزی ہے۔ یہ فن اور زندگی میں کسی تعلق کے قائل نہیں۔ کروچے کی اظہاریت کو ہم اس نظریہ کی انتہا پسندانہ شکل کہہ سکتے ہیں۔ اظہاریت کے لحاظ سے ’’فن ایک تخلیقی فعالیت ہے۔ جس کا نہ تو کوئی مقصد ہے اور نہ وہ کسی چیز کے حصول کا ذریعہ۔ افادیت۔اخلاق اور منطق ان میں سے کسی کے معیار پر فن کو نہیں جانچا جاسکتا۔ یہ تو فن کار کے جذبات کا کسی خیالی روپ۔ کسی تصویر یا کسی وجدان کی شکل میں ظاہر ہونے کانام ہے۔ وجدان میں ہیئت او رمافیہ (مواد) اس طرح گھل مل جاتے ہیں کہ ان کا الگ الگ کرنا ممکن نہیں۔‘‘ گروچے نے طریقہ اظہار پر زور دیا ہے۔ کیونکہ اس کے خیال میں تاثرات کا اظہار ہی فن ہے۔ ’’اس وجہ سے فنکار کو اختیار ہے کہ جس چیز سے وہ متاثر ہو۔ اس کا اظہار کردے۔اس پر کوئی پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔‘‘ یہ کہنے کی تو ضرورت ہی نہیں کہ فن کو صرف اس مقصد تک محدود کردینا کبھی بھی قابل توجہ نہیں ہوسکتا اور نہ ہی فنکار کو ہر قسم کی پابندی سے آزادی دی جاسکتی ہے۔

    ’فن برائے فن‘ سے ملتا جلتا دبستان خط پسندی ہے۔ اس دبستان کا امام ہم ارسطو کو قرار دے سکتے ہیں۔ سینٹ اگسٹائن۔ کاتل درتو۔ فراکاستو۔ لارڈکیم۔ ھیوم۔ اور سنیتانا اس نظریہ کے حامی ہیں۔ ان کے خیال میں فن کا مقصد صرف لذت پسندی اور حظ آفرینی ہے۔ فرائڈ کو بھی ہم حظ پسند کہہ سکتے ہیں کیونکہ اس کے خیال میں فن کا آسودہ جنسی خواہشات کا ارتفاع ہے اور ناآسودہ خواہشات تسکین پانے پر موجب حظ و لذت ہوتی ہیں۔

    ہیئت برائے ہیئت، یا صورتیت کی تحریک بھی اسی زمانہ میں پھلی پھولی۔ اس تحریک کو فریڈرک ہر برٹ نے شروع کیا اور ہنسلک فیلڈر۔ کلائیوبیل اور روجو فرائی نے اسے ترقی دی۔ ’’ان کے نزدیک مافیہ کسی جمالیاتی قدر کا حامل نہیں ہوتا۔۔۔ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ بات کہی کیسے گئی۔ باقی رہی یہ بات کہ کیا کہا گیا۔ تو یہ ان کے نزدیک کوئی اہم شیئ نہیں۔ جو بات آپ کہتے ہیں وہ اچھی ہو یا بری، سچ ہو یا جھوٹ، صحیح ہو یا نادرست۔ فن کی قدروقیمت پر کسی طرح اثرانداز نہیں ہوتی۔ کیونکہ اس کا انحصار تو اس ہیئت سے ہے جس میں فن کو وجود ملا ہے اور جمالیاتی خصائص اس سے وابستہ ہیں۔‘‘ اس نظریہ کی بڑی خامی یہ ہے کہ ایک طرف اس نے مواد اور ہیئت کو ایک دوسرے سے بالکل علیحدہ علیحدہ قرار دیا ہے اور دوسری طرف جمالیاتی اقدار کو صرف ہیئت تک محدود کرکے رکھ دیا ہے۔

    ایک طرف مندرجہ بالا نظریات تھے۔ جن کی بنیادیں حقیقتاً عینیت اور تصویریت پر استوار تھیں۔ صنعتی انقلاب کی وجہ سے جو حالات رونما ہوئے، انہوں نے فلسفہ کو زندگی سے قریب آنے پر مجبور کیا اور اس طرح عینیت کی بجائے مادیت کی طرف رجحان بڑھنا شروع ہوا۔ اس رجحان کے بڑھانے میں ایک طرف طبعی اور عمرانی علوم کی ترقی نے مدد کی۔ او دوسری طرف سیاسی، سماجی اور معاشی حالات نے زندگی کا نقطۂ نظر تبدیل کرنا شروع کیا۔ فن اور ادب کا ان سب سے متاثر ہونا لازمی امر تھا۔ فن کو زندگی سے قریب تر لانے کی کوشش کی گئی۔ لینگ اورٹین اس کی طرف پہلا قدم اٹھا ہی چکے تھے۔ اور اس کے بعد مادیت کے زیر اثر فن اور ادب میں حقیقت پسندی کا رجحان اجاگر ہوا۔ انیسویں صدی کے نصفِ آخر اور بیسویں صدی میں حقیقت پسندی کی شمع اس قدر روشن ہوئی کہ دوسرے نظریات اس کے سامنے ماند پڑ گئے۔ ایک طرف میتھیو آرنلڈ جیسا کلاسکی اس تحریک سے متاثر ہوا۔ جس کا نظریہ مندرجہ سطورِ بالا میں پیش کیا جا چکا ہے۔ اور دوسری طرف والٹر پیٹر بیسا ’فن برائے فن‘ کا حامی بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگیا کہ ادب برائے ادب کا مطلب سوائے اس کے کچھ نہیں کہ ادب یا فن جذبات کی ترجمانی کرے۔ ہر چیز کا نعم البدل ثابت ہو۔ اور یہ زندگی سے ہم آہنگی کے بغیر ممکن نہیں۔

    حقیقت پسندی وقت اور زندگی کی پکار ہے۔ جسے بہت سے مفکرین نے سنا اور اس کے مختلف پہلوؤں پر زور دیا۔ اس طرح حقیقت پسندی مختلف شاخوں میں بٹ گئی۔ کسی نے سماجی پہلو کو پیش نظر رکھا۔ اور کسی نے معاشی کو۔ کسی نے اسے خلاق کی خدمت کے لیے وقف کرنا چاہا اور کسی نے ناصحانہ انداز کے لیے۔ کسی نے فن اور ادب کا مقصد زندگی کو ارتقائی صورت سے آگے بڑھانا بتایا اور کسی نے انقلابی طریقہ سے۔ فن اور ادب کو سماجی ارتقا کا ایک ذریعہ سمجھا گیا اور معاشرہ کی جدوجہد کا ایک کار آمد ہتھیار بھی۔ اسے نہ صرف سماجی قدروں کا اظہارمانا گیا بلکہ سماج کی نئی قدروں کا خالق بھی۔ وہ حقیقت کا آئینہ دار بھی ہے اور اپنے دور کے رجحانات کا ترجمان بھی۔ اسے صداقت پر مبنی بھی قرار دیا گیا اور صداقت تک پہنچنے کا ایک آلہ بھی۔ اس کی مدد سے ہم مسائل زندگی کو سمجھتے بھی ہیں اور وہ ان کے حل کرنے میں ہمارا معاون و مددگار بھی ہے۔ وہ ہمیں زندگی کرنے پر ابھارتا بھی ہے اور زندگی کرنا سکھاتا بھی ہے۔

    بہرحال حقیقت پسند آپس کے فروعی اختلافات کے باوجود اکثر نکات پر متفق ہیں۔ فن کو زندگی سے قریب تر لانے کے مسئلہ پر اختلاف کی گنجائش ہی نہیں۔ لیکن کونسی زندگی؟ وہ زندگی نہیں جس کا انحصار ظلم، کذب، ریاکاری، عناد، نفرت، تصنع، بناوٹ اور دھوکہ بازی پر محو وہ زندگی نہیں جس کے عناصر طبقاتی استحصال، ظلم و بربریت، خودپرستی، جماعتی مفاد، تنگ نظری، قوی اور نسلی عصبیت ہو۔ وہ محدود زندگی نہیں جو اپنے قیام کے لیے تمام انسانوں کو زندگی کو جہالت، نفرت، بزدلی، مایوسی، پست ہمتی، غلامی، بے بسی، بے حسی، لاچارگی، سکون، سکوت، تقدیر پرستی، تعصبات، توہمات میں مبتلا کرنے کی کوشش کرے۔ یہ زندگی تو حقیقتاً زندگی ہے ہی نہیں۔ بلکہ زندگی کے لیے باعثِ شرم اور موجب عار ہے۔ یہ زندگی تو زندگی کی موت ہے۔ فن کو ایسی زندگی سے صرف ایک واسطہ ہے۔ منفی واسطہ اور وہ یہ کہ اس کے خلاف جدوجہد کرے۔ اور زندگی کو اس زندگی کی موت سے آزاد کرانے کوشش۔

    حقیقت یہ ہے کہ فن کی ابتدا بھی زندگی ہے۔ اور انتہا بھی زندگی۔ وہ زندگی سے نکلتا ہے۔ زندگی اسے پروان چڑھاتی ہے۔ اور زندگی میں مدغم ہوجانا اس کا کمال ہے۔ فن زندگی کا پروردہ ہے۔ عکاس، نقاد اور رہبر ہے یہ زندگی تغیر پذیر بلکہ ترقی پذیر ہے۔ اور جدلیاتی اصول کے تحت آگے بڑھتی جاتی ہے۔ یہ انفرادی نہیں بلکہ سماجی ہے۔ یہ راز نہیں بلکہ ذوق پرداز ہے۔ جو گردش پیہم سے پختہ تر ہے۔ جو جادواں۔ پیہم دواں ہردم جواں ہے۔ جو جوئے شیر و تیشہ و سنگِ گراں ہے جو آزادی میں بحربیکراں ہے اور بندگی میں جوئے کم آب۔ جو عناصر میں ظہور ترتیب کا نام نہیں بلکہ؟ ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی۔ زندگی کی راہِ ترقی میں کچھ چیزیں سدِ راہ ہیں اور کچھ اسے تیز کرنے میں معاون۔ کچھ زندگی کے دشمن ہیں۔ اور کچھ دوست۔ فن اور ادب کا کام اصول زندگی اور اصول ترقی کو سمجھنا اور سمجھانا۔ ترقی کے لیے دل میں لگن پیدا کرنا۔ زندگی کے دشمن اور دوست میں تمیز کرنا۔ ایک سے خبردار کرنا دوسرے کے لیے اپنے آپ کو وقف کرنا۔ اور اس طرح زندگی کو آگے بڑھانے میں مدد کرنا ہے۔ مخالف عناصر کے متعلق تو ابھی عرض کیا ہی جا چکا ہے۔ لیکن وہ کون سے عناصر ہیں۔ جو زندگی کو آگے بڑھانے میں مدد دیتے ہیں۔ زندگی اگرچہ ایک رو ہے۔ بہرحال اس کے مختلف پہلو ہیں۔ جن میں معاشی پہلو کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ فن اور ادب کا فرض ہے کہ وہ زندگی کے تمام شعبوں میں ہماری مدد کرے معاشی پہلو میں مرتے اور دم توڑتے ہوئے نظام کے تضاد کو دکھانا۔ اس تضاد کو دور کرنے کے طریقے بتانا اور نئے نظام کے لیے عوام کو تیار کرنا۔ سیاسی طور پر آزادی، حریت، جمہوریت، مساوات، اخوت، امن و فلاح، بین الاقوامیت اور انسانیت کا پرچار، تمدنی طور پر، خلوص، ہمدردی، انصاف، اتحاد، خودپرستی اور انفرادیت کے تنگ دائرہ سے نکال کر تمام نوع انسان کے دکھ درد اور رنج و راحت میں شرکت۔ عوام کے مصائب کو ہمدردی اور بصیرت کے ساتھ سمجھنا اور دور کرنے کی کوشش کرنا فکری طور پر دماغ میں روشنی۔ روح میں بالیدگی، صداقت، خیر اور حسن کے لیے تڑپ، رجائیت، علم کی جستجو، مسرت، روشن مستقبل کے متعلق امید پیدا کرنا۔ انفرادی زندگی میں امنگ، حوصلہ، خود اعتمادی، سرفروشی، بہبودی، خوشحالی، بیداری کا حصول، جمالیاتی طور پر حسن کی تخلیق۔ حظ اور انبساط، جذبات کی بالیدگی۔ احساسات کی رفعت کو پیش نظر رکھنا۔ یہ مقاصد میں فن کے اور ادب کے اور ان ہی کے حصول پر فن اور ادب کی وقعت کا انحصار ہے۔

    حقیقت پسند مفکرین نہ فن کی عظمت کے منکر ہیں اور نہ ہیئت کی اہمیت کے۔ وہ حسن کے پجاری ہیں اور حظ کے پرستار۔ تخئیل، جذبات اور احساسات کو وہ زندگی وار فن کا جزو لاینفک سمجھتے ہیں۔ جن کے بغیر نہ زندگی زندگی ہے اور نہ فن فن۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ نہ فن برائے فن کے قائل ہیں اور نہ ہیئت برائے ہیئت کے۔ فن کو وہ زندگی سے متعلق سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں وہ فن قابل ستائش نہیں۔ حقیقی معنوں میں فن ہی نہیں۔ جو زندگی سے نہ نکلا ہو۔ یا زندگی سے اپنا رشتہ توڑ چکا ہوں۔ وہ مواد اور ہیئت میں فرق کرنے کے بھی قائل نہیں ’’شعر کا مقصد، اس کا موضوع اور ہیئت اس طرح آپس میں فنی طور پر گھلے ملے ہوتے ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو جدا کرکے دیکھنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک باقی اجزاء پر اس کی زد نہ پڑے۔ اور یہی حال ہر فن پارے کا ہے۔‘‘ حسن کو نہ وہ موضوعی سمجھتے ہیں اور نہ معروضی۔ بلکہ ان کے خیال میں حسن سماجی تعلقات سے تعین ہوتا ہے۔ وہ اسے کوئی مطلق صفت بھی نہیں گردانتے۔ بلکہ افادیت سے اس کا رشتہ استوار کرتے ہیں۔ حسن عسکری کے اس طنز کا وہ برا نہیں مانتے کہ ’’سماجی افادیت اور جمالیاتی قدر و قیمت ایک ہی چیز کے دو پہلو ہیں۔‘‘ بلکہ وہ اسے صحیح سمجھتے ہیں اور اس پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ گوئٹے کے ان الفاظ سے متفق ہیں کہ ’’فن کا مقصد زندگی کو حسین بنانا ہے۔‘‘ ایسی حسین زندگی جس کے باقی عناصر افادہ، صداقت اور خیر ہیں۔ حظ اور جمالیاتی تسکین کے متعلق ان کا خیال ہے کہ ’’صرف وہی حظ، وہی جمالیاتی تسکین اور وہی سیکھنا سکھانا انسانوں کے لیے اچھا اور صحت مند ہے جو ان میں پاکیزگی اور طہارت زندگی کی امنگ اور حوصلہ، جہد حیات میں صلابت اور دانش مندی اور نوع انسانی سے ہمدردی پیدا کرنے میں معین و مددگار ہو۔ اور اس طرح انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی حیات۔ ان کے ظاہر اور باطن دونوں کو زیادہ حسین، زیادہ لطیف اور زیادہ بھرپور بنائے۔ ایسا حظ اور ایسی جمالیاتی تسکین جس سے ہمارے ذہن میں الجھنیں بڑھ جائیں۔ جو ہمیں اپنے عہد اور اپنے سماج کی سب سے اہم حقیقتوں کے انکشاف اور شعور سے دور لے جائے۔ جس سے ہماری طبیعتوں میں کثافت پیدا ہو۔ جو ہماری روح کو مکدر اور بے حس کرکے ہمیں خود پرستی، جہالت، بزدلی، مایوسی کا شکار بنا دے۔ جو ہماری انسانیت ہم سے چھین کر ہمیں نوعِ انسانی نفرت کرنا سکھائے۔ اور جو ہمارے دلوں میں سوز و حرارت پیدا کرنے کے بجائے انہیں پتھر بنادے۔ ہمیں قابل قبول نہیں۔ ’’انہیں جذباتیت سے بچاکر وہ فن کا مقصد جذبات کی بالیدگی۔ نفاست، رفعت، عمق، پاکیزگی اور لطافت سمجھتے ہیں۔ منشی پریم چند نے چند جملوں میں ان تمام مقاصد کو نہایت واضح طو رپر پیش کردیا ہے۔ ’’ادب آرٹسٹ کے رومانی توازن کی ظاہری صورت ہے۔ اور ہم آہنگی حسن کی تخلیق کرتی ہے۔ تخریب نہیں۔ وہ ہم میں وفا اور ہمدردی اور انصاف اور مساوات کے جذبات کی نشو و نما کرتی ہے۔ جہاں یہ جذبات ہیں، وہیں استحکام ہے، زندگی ہے۔ جہاں ان کا فقدان ہے وہاں افتراق، خود پروری ہے اور انفرادیت اور روشنی اور موت ہے۔۔۔ ادب ہماری زندگی کو فطری اور آزاد بناتا ہے۔۔۔ اسی کی بدولت نفس کی تہذیب ہوتی ہے۔ یہ اس کا مقصدِ اولی ہے۔۔۔ جس ادب سے ہمارا ذوقِ صحیح بیدار نہ ہو۔ روحانی اور ذہنی تسکین نہ ملے۔ ہم میں قوت اور حرکت نہ پیدا ہو۔ ہمارا جذبۂ حسن نہ جاگے۔ جو ہم میں سچا ارادہ اور مشکلات پر فتح پانے کے لیے سچا استقلال نہ پیدا کرے۔ وہ آج ہمارے لیے بیکار ہے۔ اس پر ادب کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔۔۔ ہماری کسوٹی پر وہ ادب کھرا اترے گا۔ جس میں تفکر ہو۔ آزادی کا جذبہ ہو۔ حسن کا جوہر ہو۔ تعمیر کی روح ہو۔ زندگی کی حقیقتوں کی روشنی ہو۔ جو ہم حرکت، ہنگامہ اور بے چینی پیدا کرے۔ سلائے نہیں کیونکہ اب اور زیادہ سونا موت کی علامت ہوگی۔‘‘

    غرض ہم دیکھتے ہیں کہ فن کا اصل مقصد زندگی کی اعلیٰ اقدار کو پیش کرنا اور ترقی پذیر زندگی کی قوتوں کو آگے بڑھانا ہے۔ اس عمل میں فن اور زندگی شانہ بشانہ ترقی کی منازل طے کرتے ہیں۔ اس مقصد کو جدا جدا حاصل کرنے کے لیے نہ ہیئت کو فراموش کیا جا سکتا ہے اور نہ اظہار کو۔ نہ حسن کی طرف سے بے توجہی برتی جا سکتی ہے اور نہ حظ سے۔ نہ جذبات و احساسات کو بھلایا جاسکتا ہے اور نہ تخئیل کو۔ یہ تمام چیزیں خود بھی مقاصد ہیں۔ لیکن یہ نہ بھولنا چاہیے کہ یہ تمام مقصدِ اعلیٰ تک پہنچنے کے مختلف ذرائع ہیں۔ اور ان تمام کی اسی حیثیت میں مضمر ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے