Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

غالب اور نیا آدمی

سلیم احمد

غالب اور نیا آدمی

سلیم احمد

MORE BYسلیم احمد

    پتا نہیں کہ روس اور روسو میں فقط لفظی مشابہت ہے یا دونوں میں کوئی معنوی تعلق بھی ہے۔ لیکن میں یہ ضرور دیکھ رہا ہوں کہ جس تہذیب کی ابتدا میں روسو نے فرد کی بےپایاں آزادی اور عظمت کے ترانے گائے تھے، وہ روس میں اپنے نقطہ عروج کو پہنچ کر فرد کی مکمل نفی کر رہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ روسو صاحب اگر اپنی تمام ’’پاکیزہ جذباتیت‘‘ سمیت اس وقت روس میں ہوتے تو ’’فرد پرستی‘‘ کے الزام میں برین واشنگ سے پہلے چوراہے پر الٹے لٹکا دیے جاتے، چاہے آخرمیں ان کا قصور اس کے سوا کچھ نہ نکلتا کہ رومانی شعرا نے ان کی جذباتیت کا سہارا لے کر اتنی کارآمد دنیا کو سرمایہ داروں کی لوٹ کھسوٹ اور ان کی موٹی اور بھدی بیٹیوں کی عشوہ فروشی کے لیے چھوڑ دیا اور خود کسی بےہودہ جھیل کے کنارے کٹیا ڈال کر بلبل اور شاماں جیسی بےکار چڑیوں کی واہیات چیں چیں سننے میں نقد حیات گنوا بیٹھے۔

    معاف کیجئے روس کا ذکر میں نے ’’بہ بدی‘‘ اس لیے نہیں کیا کہ کینیڈی صاحب مجھے زیادہ خوب صورت لگتے ہیں۔ گو میں خوبصورتی کے نمبر الگ دینے کا قائل ہوں۔ بات صرف اتنی ہے کہ روس کومیں ایک ایسا مقام سمجھتا ہوں جہاں مغربی تہذیب اپنی نام نہاد روحانیت کے تمام جھوٹے سچے لبادے اتار کر بالکل برہنہ ہو گئی ہے۔ برہنگی کا نام سنتے ہی نوجوان کھل اٹھتے ہیں کہ سبحان اللہ۔ مگر یاد رہے کہ یہ برہنگی تہذیب کی ہے اور جب تہذیب برہنہ ہوتی ہے تو فرد کی عظمت اور آزادی کے غسل و وضو وغیرہ ٹوٹ جاتے ہیں۔ خیر غسل و وضو بقدر برہنگی امریکہ میں بھی ٹوٹے ہیں۔ وہاں بھی فرد بالآخر ’’آرگنائزیشن‘‘ بن گیا ہے۔

    لیکن آپ گھبرائیے نہیں۔ مجھے یہ بات بہت اچھی طرح یاد ہے کہ آپ یوم روسو نہیں، یوم غالب منا رہے ہیں۔ مجھ سے ذرا تمہید میں چوک ہو گئی ہے۔ اب آپ کو میری خاطر اتنی تکلیف کرنی پڑےگی کہ جہاں جہاں میں نے روسو کا نام استعمال کیا ہے وہاں آپ غالب کا نام رکھ لیں۔ بات زبردستی کی ضرور ہے مگر مہمان سے غلطی ہو جائے تو میزبانوں کو نبھانی ہی پڑتی ہے۔ پھر میں اتنا بودم مہمان بھی نہیں ہوں کہ اپنی غلطی نبھانے کی کوشش میں آپ کی مددنہ کر سکوں۔ میں آٖپ کو یاد دلاؤں گا کہ اردو شاعری میں رومانی فردپرستی کی ابتدا غالب ہی سے ہوتی ہے۔ جی ہاں، وہی غالب جنہوں نے کہا تھا کہ مجھے تو وبائے عام میں مرنا بھی پسند نہیں ہے۔

    فردپرستی غالب کی شاعری کاعام موضوع ہے۔ لیکن آپ اسے شوخ شاعرانہ شخصیت کا چونچلانہ سمجھیں۔ غالب جونچلے باز آدمی نہیں تھا۔ غالب اور نیاز فتح پوری میں بہت بڑ افرق ہے۔ فردپرستی، غالب کی فکر کا بنیادی تصور ہے۔ وہ فرد کو اتنی اہمیت دیتا ہے کہ اس کے نزدیک ساری دنیا فرد کے لیے بازیچہ اطفال ہے اور اس دنیا میں میں خدا، مذہب، دوزخ، جنت، محبوب اور رقیب سب شامل ہیں۔ وہ فرد کویہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنے معاشرے بلکہ ساری کائنات کو صرف اپنی کسوٹی پر پرکھے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ وہ خارجی کائنات کو صرف اس حد تک تسلیم کرتا ہے جس حد تک وہ اس کی فردیت کو نکھارنے کا ذریعہ بن سکے اور کبھی کبھی ا س سے آگے بڑھ کر وہ یہ سوچتا ہے کہ شاید کائنات اپنی جگہ کوئی چیز نہیں ہے بلکہ فردیت کے پھیلاؤ کا دوسرا نام ہے۔ ذرایہ شعر دیکھئے،

    بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے

    ہوتا ہے شب وروز تماشا مرے آگے

    بندگی میں بھی وہ آزادہ و خود بیں ہیں کہ ہم

    الٹے پھر آئے در کعبہ اگر وا نہ ہوا

    ہنگامہ زبونی ہمت ہے انفعال

    حاصل نہ کیجے دہر سے عبرت ہی کیوں نہ ہو

    منظر ایک بلندی پر اور ہم بنا سکتے

    عرش سے پرے ہوتا کاش کے مکاں اپنا

    غالب کے فرد کی اڑان آپ دیکھ رہے ہیں۔ اچھا انہیں توفی الحال عرش سے پرے مکان ڈھونڈنے دیجئے، اس وقت تک ہم آپ مل کر یہ دیکھتے ہیں کہ اگر یہ سب کچھ غالب کا بڑبولاپن نہیں ہے بلکہ اس کا ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی سے بھی تعلق ہے تو اس کے کیا معنی ہیں؟

    فرد کی حیثیت سے میرا سب سے پہلا تعین تویہ ہے کہ خدا میری ماں کو معاف کرے، میں ایک باپ کا بیٹا ہوں۔ میں نے جب دنیا میں پہلی بار آنکھ کھولی تو یہ صاحب میرے کان میں اذان دے رہے تھے۔ اس کے بعد مجھے یاد ہے کہ جب کبھی چاٹ والے کے خوانچے پر میری طبیعت للچائی، ہمیشہ اکنی مانگنے کے لیے مجھے ان کے پاس جانا پڑا۔ ا س کے بعد ایک لمبا چوڑا بہی کھاتا ہے، جس میں ان حضرت نے میرے کھانے پینے کا خرچ، مکتب کی فیس اور چاٹ وغیرہ کی بے شمار اکنیوں کا حساب تفصیل سے لکھ چھوڑا ہے۔ خیر چلیے یہ تو ہوا۔ ہم ان کے احسان مند ہیں۔

    مگر ایک بڑی مشکل ہے کہ یہ بڑے میاں مجھے پاس پول کراب آخر عمر میں یہ چاہتے ہیں کہ میں ان کے احسانات کا بدلہ اتاروں اور اس کی پہلی شرط انہوں نے یہ رکھی ہے کہ میں غیرمشروط طور پران کا کہنا مانوں۔ وہ جس خدا کو پوجتے ہیں میرا خدا بھی وہی ہو، جس مذہب کو مانتے ہیں میرا مذہب بھی وہی ہو، جیسے کپڑے پہنتے ہیں ویسے کپڑے میرے بھی ہوں۔ یہاں تک کہ محبوبہ بھی اس لڑکی کو بناؤں جسے وہ پسند کریں۔ گویا میں بجائے خود میں نہ رہوں بلکہ ان کے خوابوں کی جیتی جاگتی تعبیر بن جاؤں۔ آپ نے دیکھا، فرد کی فردیت کو ان بڑے حضرت سے کتنا خطرہ ہے۔ کیوں جناب غالب آپ کے پاس اس خطر ے کا علاج ہے؟ غالب کا جواب ہمیں معلوم ہے،

    بامن میا دیز اے پدر فرزند آزر را نگر

    ہر کس کہ شد صاحب نظر دین بزرگاں خوش نکرد

    چلیے اچھا ہوا۔ باپ کے ساتھ ہی ان کے خدا، مذہب اور تمدن وغیرہ سے بھی پیچھا چھوٹ گیا۔

    آپ یقین کیجئے، میں نے اپنے ایک معاشقے کے سلسلے میں جب اپنے بزرگوں کو یہ جواب دیا کہ میں فرزند آزر کی سنت پر چل رہا ہوں یعنی وہی کروںگا جو بحیثیت فرد کے میرا دل چاہےگا تو میری محبوبہ یہ سمجھ کر کہ میں سب کچھ اس کے لیے کر رہا ہوں، خوشی کے جذبے سے اتنی سرشار ہوئی کہ حوا کی طرح جنت کا ایک پھل مجھے دے بیٹھی۔ پھل واقعی بہت مزے دار تھا، آپ نے بھی چکھا ہوگا تو جانتے ہوں گے، لیکن اس پھل میں ایک بڑی خرابی ہے کہ پہلے تو اسے کھاتے ہی جنت سے نکلنا پڑتاہے اور پھر حوا کہتی ہے کہ میرے پیٹ میں تو درد ہو رہا ہے۔ فرد کا یہ دوسرا تعین ہے یعنی بحیثیت عاشق یا بحیثیت شوہر کے۔

    برنارڈشا نے کہیں لکھا ہے کہ فطرت کا مقصد نسل انسانی کو باقی رکھنا ہے اور عورت فطرت کی آلہ کار ہے۔ عورت کو حسن اور نزاکت وغیرہ کے ہتھیار اس لیے دیے گئے ہیں تاکہ وہ مرد کا شکار کرے اور فطرت کا مقصد پورا ہو۔ فرد کواس کھیل میں مزہ تو بہت آتا ہے مگراس کا انجام کچھ زیادہ خوشگوار نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ آٖ پ کی حوا جب پھولی ہوئی سانسوں اور کانپتے ہوئے ہونٹوں کے ساتھ ایک شرم آگیں سرگوشی میں آٖ پ کو بتائے کہ اس کے پیٹ میں درد ہو رہا ہے، تو آپ کیا کریں؟

    جناب غالب کہتے ہیں، مصری کی مکھی بنو، شیرے کے مکھی نہ بنو۔ مطلب یہ ہے کہ اڑبھاگو۔ چوں کہ فرد کی حیثیت سے دین بزرگاں یعنی اخلاق وغیرہ کو ہم پہلے ہی طلاق دے چکے ہیں، اس لیے ہمیں اس مشورے کو ماننے میں بھی تامل نہیں۔ لیکن جنا ب اگر کبھی ایسا ہوا کہ اڑنے سے پہلے ہی گرفتار ہونا پڑے تب! غالب کی زندگی بتاتی ہے کہ موصوف بیوی کو پاؤں کی بیڑی کہتے تھے اور جنت پر انہیں یہ اعتراض تھا کہ وہاں اقامت جاودانی ہے اور سابقہ کم بخت چشم بددور صرف ایک نیک بخت حور سے رہےگا۔ ’’ہے ہے طبیعت کیوں نہ گھبرائےگی۔ زندگی اجیرن ہو جائےگی۔‘‘ خدا نہ کرے کہ کسی فرد کو غالب کی طرح اڑنے سے پہلے گرفتار ہونا پڑے۔ مگر سوال تو یہی ہے کہ بچت کی صورت کیا ہے؟

    روسو صاحب کا ارشاد ہے کہ جذبات کو پاکیزہ ہونا چاہئے یعنی برتن بھانڈوں کو اپنا سمجھیے مگر ہاتھ نہ لگائیے، تو پھر اپنا سمجھنے کی تکلیف کیا ہے۔ روسو کی معنوی اولاد یعنی رومانی شعرا کہتے ہیں ’’رومانی ہم آہنگی۔‘‘ بات معقول ہے۔ مگر محبوب کا جسمانی حسن اگر جسمانی خواہش پیدا کرے، تب کیا کرنا چاہئے۔ فرد پرستوں کا جواب ہے کہ حسن محبوب میں نہیں ہوتا بلکہ دیکھنے والے کی نظر میں۔ فرد کو چاہئے کہ وہ حسن کی اداؤں کو اپنے ہی ذوق نظر کا کرشمہ سمجھے۔ نتیجہ:

    شب نظارہ پرور تھا خواب میں جمال ان کا

    صبح موجہ گل کو نقش بوریا پایا

    اسے کہتے ہیں استلذاذ بالنفس! چلئے وہ خواب ہی سہی، مزہ تو پورا آ گیا۔ مگر استلذاذ بالنفس سے نسل انسانی میں کوئی اضافہ ممکن نہیں۔ خیر فرد کی حیثیت سے یہ سوال ہمارے لیے اہمیت نہیں رکھتا۔ نسل انسانی چوہے بھاڑ میں جائے۔ ہم نے دنیا چلانے کا ٹھیکا نہیں لیا ہے۔

    باپ، خاندان، نسل انسانی۔۔۔ فرد کہتا ہے، ان سب پر خاک ڈالیے۔

    حسن، خواہش، جبلت۔۔۔ فرد کہتا ہے، یہ سب پاؤں کی بیڑیاں ہیں۔

    اچھا تو فرد کیا کرنا چاہتا ہے؟ جواب ہے، فردیت کی تکمیل، اپنی ہستی سے ہو جو کچھ ہو۔ بالکل ٹھیک ہے۔ میں ایک فرد ہوں۔ مجھے اپنی ہستی سے کیا کام لینا چاہئے۔ غالب کا جواب ہے، منظربلندی پر بنانا۔ فلسفہ خودی کے سب سے بڑے مبلغ اور غالب کے نقش ثانی حکیم الامت اقبال فرماتے ہیں، شررستارہ جوئیم ز ستارہ آفتا بے۔ فردیت کو پروان چڑھانے والی سوسائٹی کہتی ہے، ہم چاند ستاروں پر کمند ڈالیں گے۔

    اچھا تویہ ہوئے دعوے، لیکن اصل حقیقت کیا ہے؟ فردپرستوں کی دنیا کو غور سے دیکھئے۔ ایک طرف تو خلائے بے کراں میں انسان کے پھینکے ہوئے اسپوٹنگ گردش کر رہے ہیں اور ہم اپنے اپنے ریڈیوسیٹ پر کان لگائے ان کے سگنل سن رہے ہیں اوردوسری طرف ہمیں یہ خبر نہیں کہ ہمارے پڑوس میں کون رہتا ہے۔ کیوں نہ ہو ہم سب افراد ہیں اور فرد کا فلسفہ ہے اپنی ہستی۔ اخباروں میں روز اداریے چھپتے ہیں کہ خاندانی زندگی درہم برہم ہو چکی ہے۔ ریڈیو کے مقررین کہتے ہیں افراد میں خودغرضی بڑھ رہی ہے اور کوئی قوم کے کام نہیں آتا۔ شاعری رومانی ہم آہنگی کا رونا روتی ہے اور گھروں میں پاؤں کی بیڑیاں توڑنے کا رواج بکثرت ہو گیا۔ گرفتار ہونے سے پہلے اڑبھاگنے والوں کے قصے اخباروں میں چھپتے ہیں اورہاں اس کہانی کے ایک اہم کردار کو تو میں بھول ہی گیا۔ میری محبوبہ کہتی ہے، دیکھئے جناب میرے پیٹ میں درد نہیں ہونا چاہئے۔ ملاحظہ فرمایا آپ نے، یہ بے فرد پرستوں کی کائنات۔

    فردیت بے شک اپنی تکمیل کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ لیکن غالب کہتا ہے کہ زندگی کی ماہیت کچھ ایسی ہے کہ فردپرستی کا آئیڈیل اس کے ہاتھوں ہمیشہ چکناچور ہوتا رہتا ہے اور وہ فرد سے فردیت کی تکمیل کے نام پر اس کا سب کچھ چھین لیتی ہے۔ اس لیے وہ آخری نسخہ بتاتا ہے۔ فرد کی تکمیل یہ ہے کہ فرد ہست سے نیست ہو جائے۔ ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا۔ چلئے جھگڑا چکا۔ ہائیڈروجن بم تیار ہے اور فرد ہست سے نیست ہو جانے کی بشارت پر خوشی سے ناچ رہا ہے۔

    کیوں جناب روسو مزاج کیسے ہیں؟ کیوں جناب غالب آپ کیا فرماتے ہیں؟ اگر یہ صحیح ہے کہ موجودہ تہذیب فرد پرستوں کی تہذیب ہے توبے شک ہم اردو بولنے والوں کی محدود دنیا میں یہ صدی غالب کی ہے اور شاید اس صدی کا پہلا ہی نہیں آخری شاعر بھی غالب ہی ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے