Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

غالب نام آورم

سلیم احمد

غالب نام آورم

سلیم احمد

MORE BYسلیم احمد

    نجم الدولہ دبیر الملک نواب محمد اسد اللہ خاں بہادر عرف مرزا نوشہ المتخلص بہ اسدؔ ثم غالبؔ مرزا عبد اللہ بیگ عرف مرزا دولہا کے بیٹے اور غلام حسین کمیدان کے نواسے تھے۔ دادا کا نام فوقان بیگ تھا۔ چچا کا نام نصر اللہ خاں۔ پیدائش کا ’’تاریخاً‘‘ ۱۲۱۲ھ ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ سلجوقی، ایبکی، ترکمانی، تورانی، افراسیابی فریدونی اور جمشیدی ہے۔ سلجوقی بڑے پائے کے حکمران تھے مگر ان کا تورانی ہونا مشکوک ہے۔ سلجوقیوں کا یہ نسب نامہ بعض مؤرخوں کے نزدیک اس وقت گڑھا گیا جب سنجرؔ خلیفۂ وقت کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا تھا، اور ضرورت پڑی تھی کہ اسے قدیم بادشاہوں کے خاندان سے ثابت کیا جائے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو نسب نامہ ہی ساقط الاعتبار ہے۔ فوقان بیگ کا پوتا ہونا ضرور ثابت ہے، باقی فریدوںؔ اور جمؔ سب افسانے ہیں۔ ویسے بھی سترہویں پشت کی بات کون مانتا ہے۔ مگر ہم تاریخ نہیں، غالبؔ کی شخصیت لکھ رہے ہیں۔ سلجوقی، تورانی، افراسیابی اور فریدونی ہوں یا نہ ہوں، غالبؔ ضرور ہے، کیوں کہ وہ ایسا ہی سمجھتا تھا۔ افراسیاب سے اس کا خیالی سلسلۂ نسب اس کے تخمینے کے مطابق سترہویں پشت میں ملتا تھا اور حضرت آدمؑ سے حقیقی سلسلۂ نسب میرے تخمینے کے مطابق دو سو سترہویں پشت میں۔ اس حساب سے ہم آپ بھی غالبؔ کے ہم نسب ہیں اور فخر کر سکتے ہیں کہ دودمان آدمیہ کا یہ فرزند جلیل ہمارا بھی عم زاد تھا۔ افسوس کہ غالبؔ آدم تک نہیں پہنچتا، صرف افراسیاب اور فریدوں وغیرہ تک رہ جاتا ہے۔ شاید ڈرتا ہے کہ ہم اس کی عظمت میں حصہ بٹانے لگیں گے۔ اور ممکن ہے کہ میراث آدم کا حصہ بھی طلب کر لیں، اس نے خدو نانا کی املاک بیچ کھائیں۔ مگر عارفؔ کے بیٹوں کو حصہ نہ دیا، ہمیں کیا دے گا۔ خیر، ہم قلم کے آدمی ہیں اور وہ سو پشت کی سپہ گری کا مدعی ہے۔ اس سے جھگڑا ٹھیک نہیں۔ ہم میراث آدم کی طلب سے دست بردار ہوتے ہیں۔ اور غالبؔ کو افراسیابی، فریدونی جان کر کورنش بجا لاتے ہیں۔ البتہ اب سوال یہ ہے کہ مخاطب کیا کہہ کر کریں۔ مرزا نوشہ کہنے کا برا مانے گا کیوں کہ بچپن میں تو یہ عرف پڑ گیا تھا مگر اس ’’نالائق عرف‘‘ کو ولایت تک کوئی نہیں جانتا تھا۔ اسدؔ بھی نہیں کہہ سکتے، اس سے تو اتنا بیزار ہے کہ لعنت خدا کی بھیجتا ہے۔ نجم الدولہ دبیر الملک ٹھیک ہے مگر میرے منہ میں نہیں سماتا۔ اس کے علاوہ مجھے بہادر شاہ کی عزت کا بھی پاس ہے، وہ بابرؔ اور اکبرِؔ اعظم کا راست جانشیں اور دودمان تیموریہ کا مستند فرزند تھا مگر دیکھو خاکساری سے خود کو فقیر بہادر شاہ کہتا ہے۔ اس کے سامنے خود اس کے بنائے ہوئے نجم الدولہ دبیر الملک کی نواب کیا دیکھوں۔ پھر شاید نواب بہادر خود بھی برا مان جائیں۔ وہ بہادر شاہ کی بادشاہی کو نہیں مانتے تھے۔ ان کے دیے ہوئے خطاب کو کیا مانتے ہوں گے۔ اچھا تو نواب مرزا محمد اسد اللہ خاں پورا نام ہی کیوں نہ لے دیں۔ ہاں بیٹا ضرور لو مگر خان کے بعد بہادر کہنا نہ بھولنا اور دیکھو نواب کے ساتھ میر یا مرزا نہیں لگاتے۔ یا نواب کہو یا مرزا۔ ’’چچا‘‘ کو ’’بہادر‘‘ تو بہت عزیز ہے مگر ’’محمد‘‘ عزیز نہیں۔ چونکہ سرکاری کاغذات میں محمد نہیں لکھا تھا، اس لیے نام سے خارج کر دیا۔ اچھا تو اتنا جھگڑا کون پالے۔ لیجیے، ہم تو انہیں سیدھا سادہ غالبؔ ہی کہیں گے۔

    غالبؔ کے باپ مرزا دولہا سپاہی تھے۔ کہیں پڑھا تھا کہ گھوڑوں کی سوداگری بھی کرتے تھے۔ نام عبد اللہ بیگ خان تھا۔ اس کے ساتھ گھوڑے والا اور لگایئے تو رخش عمر وغیرہ کے مضامین سمجھ میں آنے لگیں گے۔ ان کا انتقال غالبؔ کے بچپن میں ہو گیا۔ اس کے بعد چچا نصر اللہ خاں نے پرورش کی، وہ بھی ناگہانی فوت ہوئے یا مارے گئے۔ ان دو مورتوں نے غالبؔ کو تو نانہال پہنچا دیا۔ ان کے والد بھی غلام حسین کمیدان کے خانہ داماد تھے۔ خود وہ بھی خانہ زاد ہو گئے۔ نانہال میں پلنے والے بچوں کی نفسیات عجیب ہوتی ہے۔ کھاتے نانہال کا ہیں، گاتے دادیہال کا ہیں۔ باپ کی کمی کیا ہول ناک چیز ہے۔ یہ خلا پیدا ہو جائے تو ذاتی تجربے سے جانتا ہوں کہ یہ پورا نہیں ہوتا۔ کوئی کچھ کرے مگر باپ کہاں، وہ استحقاق کہاں جو باپ پر ہوتا ہے۔ وہ ناز کہاں جو باپ پر ہوتا ہے، وہ اعتماد کہاں جو باپ پر ہوتا ہے۔ ڈاکٹر خورشید الاسلام نے لکھا ہے کہ غالبؔ کی نفسیات پر نانہال میں پرورش پانے نے گہرا اثر ڈالا۔ نانہال کا ماحول جیسا کچھ ہوگا، ظاہر ہے غلام حسین کو تو میں کچھ کہتا نہیں، آخر نانا تھے۔ مگر ان کے بیٹے، پوتے اور دوسرے ورثا بھی تو ہوں گے۔ ان کا استحقاق دوسرا تھا۔ غالبؔ جیسا حساس آدمی اگر اسے محسوس کرتا ہو تو تعجب کی بات نہیں، افسوس کہ ایسے استحقاق کے لیے باپ کو کہاں سے لائے۔ کیا پتہ کمیدان صاحب کے ورثا کو جو اس کے ہم عمر ہوں، باپ کی اصلی یا فرضی داستانیں سناتا ہو اور سلسلہ بڑھتے بڑھتے افراسیات اور فردوں تک پہنچ گیا ہو۔ خورشید الاسلام کا کہنا ہے کہ نانہال میں پلنے کے باوجود غالبؔ کا نانہال سے بے تعلقی کا یہ عالم ہے کہ نانا نانی، ماموں خالہ کسی کا ذکر نہیں کرتا۔ ذکر کرتا ہے تو باپ اور چچا کا۔ اور ایک پھوپھی کیا مریں کہ غالبؔ نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔’’

    ’’آپ کو معلوم رہے کہ پرسوں میرے نو آدمی مرے۔ تین پھوپھیاں، تین چچا اور ایک باپ اور ایک دادی اور ایک دادا۔ یعنی اس مرحومہ کے ہونے سے میں یہ جانتا تھا کہ یہ نو آدمی زندہ ہیں۔ اور اس کے مرنے سے میں نے جانا کہ یہ نو آدمی آج ایک بار مر گئے۔’’

    آدمی کی مٹی بھی کتنی کمزور ہوتی ہے۔ خواہ غالبؔ ہی کیوں نہ ہو، ایک پھوپھی کس کس کے نہ ہونے کی تلافی کر رہی تھیں، ایک پھوپھی میں یہ سب کچھ دیکھنا تخیل کی کرشمہ سازی نے ایک پھوپھی کو نو افراد میں تبدیل کر دیا اور آبا و اجداد کو افراسیاب و فریدوں میں یہ باتیں غالبؔ کی شخصیت میں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔ پروفیسر کرار حسین نے لکھا ہے کہ غالبؔ کو بڑا شاعر کہلانے سے زیادہ فکر یہ تھی کہ لوگ اسے بڑا رئیس زادہ مان لیں۔ جہاں بہادر شاہ کی بادشاہی خطرے میں ہو، وہاں سات سو روپئے سالانہ آمدنی اور خیالی افراسیابی پر غالبؔ کو کون مانے۔ خیر، ریاست نہ سہی شاعری سہی۔ غالبؔ دہلی کی ابتدائی زندگی میں جیسی شاعری کرتا تھا۔ معلوم ہے اردو میں خاصی بے ہنگم فارسی بگھاری ہے۔ اس کی وجہ غالبؔ کے اسلوب میں دیکھیے۔ بہر حال، ایسی فارسی کی سند بھی چاہیے تھی۔ اس کے لیے فریدوں اور افراسیاب کی طرح ایک فرضی استاد ملّا عبد الصمد پیدا کیا جس نے فارسی ان کے بن و مو میں اتار دی۔ اور گویا اہل فارسی سے زیادہ فارسی دان بنا دیا۔ افسوس کہ شاعری بھی کام آتی نظر نہ آئی۔ رئیسی تو خطرے میں تھی۔ شاعری میں یہ مصیبت پڑی کہ یہاں ذوقؔ کا سکّہ خطبہ چل رہا تھا۔ ذوقؔ سے لڑنے میں غالبؔ رو رو دیا۔ کبھی فارسی کی تلوار چمکائی، کبھی اردو سے دست برداری کا اعلان کیا، کبھی آنچہ فخر تست آں ننگ منست کا نعرہ مارا، کبھی استاد شہہ سے پُرخاش نہ ہونے پر خدا کو گواہ کیا۔ قسمت غالبؔ سے کیا کرنا چاہتی تھی۔ باپ، چچا، پھوپھی، سب کو مار کر رئیسی چھنوا دی اور اب شاعری میں بھی گھسنے نہیں دیتی۔ جب غالبؔ شاعری میں خود کو ذلت اٹھاتے محسوس کرتا ہے تو پھر باپ دادا کو آواز دیتا ہے۔ اور سو پشت کی سپہ گری یاد آنے لگتی ہے۔ غالبؔ اور سپہ گری اللہ کی شان!

    غالبؔ کو محسوس ہوتا تھا کہ تقدیر اس کے خلاف ہے۔ زمانہ اس کے خلاف ہے، بلکہ خود خدا اس کے خلاف ہے، اس لیے غالبؔ نے سب سے ایک پیکار باندھ رکھی ہے۔ حریف بڑے سخت تھے مگر غالبؔ کے کیا کہنے، کس کس طرح لڑا ہے۔ کبھی چیختا چنگھاڑتا ہے، کبھی رجز خوانی کرتا ہے، کبھی صلح پر آمادہ ہو جاتا ہے، کبھی طنز و تعریض کے تیر و نشتر الٹا لیتا ہے، کبھی خوشامد کرنے لگتا ہے، کبھی ماتم و فریاد میں مبتلا ہو جاتا ہے اور کبھی بالکل سپر انداز ہو جاتا ہے۔ مگر تقدیر، زمانے اور خدا سے اس جنگ میں غالبؔ، غالبؔ بن گیا۔ اسے اپنے اوپر تین فخر تھے۔

    (۱) اعلیٰ خاندانی یعنی رئیس زادہ ہوں۔

    (۲) شاعر ہوں اور

    (۳) انسانوں سے محبت کرتا ہوں۔

    پہلے دو عناصر بہت بڑے ہیں، مگر تیسرا بھی کم نہیں۔ یتیم بچوں میں محبت ایک غالب جذبہ بن جاتی ہے، کیوں کہ استحقاق کے بغیر اگر زندگی، کسی طرح بسر کی جا سکتی ہے تو محبت سے۔ غلام حسین کمیدان کے بیٹے پوتے غصہ ور، جھگڑالو، حاسد، نفرت کرنے والے، تنگ نظر اور تنگ دل بھی ہوں گے، تو چل جاتے ہوں گے، کیوں کہ اپنے باپ دادا کے گھر میں تھے۔ غالبؔ کو اس گھر میں رہنے کے لیے ثابت کرنا ہوگا کہ وہ بہت محبتی لڑکا ہے، بہر حال وجہ کوئی بھی ہو، ’’دعویٰ رئیسیت‘‘ اور فخر شاعری کے ساتھ غالبؔ کو غرور محبت بھی ہے۔ محبت بھی نوعِ انسان سے۔

    میں تو بنی آدم کو مسلمان یا ہندو یا نصرانی عزیز رکھتا ہوں اور اپنا بھائی کہتا ہوں۔ دوسرا مانے یا نہ مانے۔

    ایک اور جگہ لکھا ہے کہ،

    استطاعت بقدر حوصلہ ہوتی تو دنیا میں کسی کو ننگا بھوکا نہ رہنے دیتا۔

    ہم شخصیت کے بیان میں لکھ چکے ہیں کہ اس خیال سے پیدا ہوتی ہے جو آدمی خود اپنے بارے میں رکھتا ہے، یعنی شخصیت کے معنی یہ ہیں کہ کوئی آدمی خود کو کیا سمجھتا ہے یا یہ چاہتا ہے کہ لوگ اسے کیسا سمجھیں۔ ہمیشہ یہ ’’خیال‘‘ انا کا پسندیدہ خیال ہوتا ہے۔ غالبؔ کی بڑی انا نے اپنے بارے میں خیال بھی بڑے بڑے باندھے۔ افراسیابی ہوں، شاعر نغز گوئے خوش گفتار ہوں، بنی نوعِ آدم سے پیمبرانہ محبت رکھتا ہوں۔ غالبؔ کی شخصیت کی مشین بہت بڑی تھی۔ غالبؔ کے یہ تینوں خیال اس دیو ہیکل مشین کے بڑے بڑے پہیے تھے۔ جب یہ چلتے ہیں تو ایک فلک شگاف شور پیدا ہوتا ہے اور اس کی گھڑگھڑاہٹ سے آسمان و زمین تھرانے لگتے ہیں۔ غالبؔ کا کلام اسی گھڑگھڑاہٹ کا نام ہے۔

    غالبؔ کی انا بہت بڑی تھی۔ اس انا نے بہت بڑے خیالات کا بوجھ اٹھایا۔ یہ اتنے بڑے خیالات ہیں کہ میدان عمل میں ظاہر ہوتے ہیں تو بابرؔ اور اکبرِؔ اعظم جیسے لوگ ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ غالبؔ تخیل کی دنیا کا اتنا ہی بڑا آدمی تھا۔ اس کے خیال کی وسعت بے کنار ہے۔ اور مملکت ادب میں سلطنت مغلیہ کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ (اکبر اور بابر کا ہمسر بہادر شاہ کو کیا خاطر میں لاتا) کولن ولسن نے کہا ہے کہ ادب و شعر سے ہیرو غائب ہو گئے اور سارا ادب بے اہمیتی کے مغالطے میں مبتلا ہے۔ ولسن اپنے زمانے کی مخصوص ضروریات کے تحت بے اہمیتی کے مغالطے کی بجائے خود اہمیتی کا حامی ہے۔ غالبؔ کو پڑھ لیتا تو دیوانہ ہو جاتا۔ اس آدمی کو اپنی اہمیت کا ایسا مغالط ہے کہ پوری کائنات کو بازیچۂ اطفال سمجھتا ہے۔ یہ مغالطۂ اہمیت ’’انا‘‘ کا عمل ہے۔ اس کا ادراک شخصیت بناتا ہے، غالبؔ کی شخصیت کے تین بنیادی عناصر کا ہم ذکر کر چکے ہیں۔ یہ وہ مقناطیس ہیں جن سے لوہے کی بھاری بھرکم سلاخیں اور ٹکڑے اٹھانے کا کام لیا جاتا ہے۔ یہ تینوں مقناطیس غالبؔ کے بے شمار چھوٹے چھوٹے خیالات کو اپنی طرف کھینچتے ہیں اور شخصیت کا جزو بنا دیتے ہیں۔ اب چھوٹی سے چھوٹی تفصیلات بھی انہیں کے ذریعے متعین ہونے لگتی ہیں۔ ہمیں غالبؔ کی رئیست ذرا مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے اور شاعری کے ہم قائل ہیں۔ مگر محبت پر کچھ گفتگو کرنی ضروری ہے۔

    محبت ہمیشہ ایک پیکر محسوس کی طالب ہوتی ہے۔ بچہ سب سے پہلے ماں سے، پھر باپ، بھائی، بہنوں، ہمجولیوں اور دوستوں سے محبت کرنا سیکھتا ہے اور رفتہ رفتہ جوں جوں اس کے تعلقات کا دائرہ وسیع ہوتا جاتا ہے، اس کی محبت کے معروضات بھی بڑھتے جاتے ہیں۔ یوں ماں باپ ہوں یا بھائی بہن یا بیوی و محبوبہ، محبت ہمیشہ ایک گوشت پوست کے زندہ وجود سے شروع ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ مذہب میں محبت کا تجربہ پیر و مرشد اور دیگر بزرگوں یا اہل دین کی ذات سے ہوتا ہے۔ یہ سب محسوس محبت کی شکلیں ہیں لیکن محسوس پیکروں سے بعض اعلیٰ طبیعتوں میں خود بہ خود ایک مجرد محبت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ مثلاً ماں باپ، بھائی، بہن، بیوی و اولاد کی محبت عام انسانیت کی محبت بن جاتی ہے۔ پیر و مرشد اور بزرگوں کی محبت یا رسولِ کریمﷺ کی ذات اقدس کی محبت تجریدی صورت اختیار کر کے خدا کی محبت ہو جاتی ہے محسوس و مجرد محبت کی یہ ساری صورتیں ابتدا میں ’’انا‘‘ سے وابستہ ہوتی ہے۔ انا کہتی ہے میری ماں، میری محبوبہ، میرا خدا جب تک محبت اس انا کی پابند ہوتی ہے، خام محبت ہوتی ہے، لیکن جوں جوں اس میں اضافہ ہوتا ہے، حد درجہ دکھ اور شدت کے ساتھ اسے محسوس ہوتا جاتاہے کہ اس کی ماں صرف اس کی ماں نہیں ہے۔ دوسرے بھائی بہنوں کی ماں بھی ہے۔ اس کی محبوبہ بھی صرف اس کی محبوبہ نہیں رہتی، کسی کی بیٹی، کسی بہن، کسی کی ماں نکلتی ہے اور اس کے خدا کے بارے میں بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ وہ بھی ’’کبھی اس سے کبھی غیروں سے شناسائی‘‘ رکھتا ہے۔ انا کو یہ شرکت گوارا نہیں۔ اسے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ مگر وہ صحیح راستے پر چلتی جائے تو رفتہ رفتہ اس کی محبت انا کے قبضے سے نکل کر غیر انا کے پاس چلی جاتی ہے۔ اب یہ پختہ محبت ہو جاتی ہے۔ اس میں شدت کے باوجود ایک نئی وسعت، نئی گہرائی اور نئی بلندی پیدا ہو جاتی ہے۔ اقبالؔ کہتے ہیں،

    محبت چوں تمام افتد، رقابت از میاں خیزد

    بطوفِ شعلۂ پروانہ با پروانہ می سازد

    پختہ محبت کا کچھ ایسا ہی معاملہ ہوتا ہے۔ لیکن بالعموم انا اس مقام پر پہنچنے سے پہلے غچّہ دے جاتی ہے۔ وہ محسوس محبت کو ایک قسم کی تجریدیت میں مبتلا کر کے ایک چھوٹی قسم کی سیر چشمی پیدا کر لیتی ہے۔ در اصل یہ سیر چشمی نہیں ہوتی۔ ایک طرح کی بے تعلقی ہوتی ہے، وہ محبت کے معروض سے کٹ جاتی ہے۔ ’’محبت برائے محبت‘‘ کی تمام شکلیں بالعموم انا کے اسی فریب کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ انا کہتی ہے، مجھے محبوب سے واسطہ نہیں۔ میں تو محبت سے محبت کرتی ہوں۔ رقابت اس میں بھی درمیان سے اٹھ جاتی ہے۔ مگر اس طرح نہیں، جس طرح اقبالؔ کے شعر میں اٹھی ہے، بلکہ اس طرح جیسے فیضؔ کی نظم ’’رقیب سے‘‘ میں غائب ہوتی ہے۔

    عموماً اس کی وجہ محبت کے معروض سے مایوسی یا اذیت کا تجربہ ہوتا ہے۔ قصہ یہ ہوتا ہے کہ ہر زندہ وجود جو ہماری محبت کا مرکز بنتا ہے، اپنی جگہ ایک علاحدہ وجود ہوتا ہے۔ اس وجود کی ایک اپنی علاحدہ دنیا ایک اپنا دائرۂ عمل اور ایک اپنا قائم بالذات نظام ہوتا ہے۔ اس وجہ سے کوئی بھی زندہ وجود ہماری خواہشات اور مرضی کا پابند نہیں ہو سکتا۔ انا چونکہ یہ چاہتی ہے، اسلیے اس کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اس کی محبت کا معروض بالکل اس کا قیدی ہو جائے۔ جو وہ چاہے کرے، جو وہ چاہے نہ کرے۔ اس کی ہر خواہش کا تابع ہو، اس کی ہر مرضی کو پورا کرے، یہاں تک کہ عمل ہی نہیں، سوچ میں بھی اس کا غلام ہو جائے۔ کسی بھی زندہ وجود کے ساتھ انا کا یہ مطالبہ پورا نہیں ہو سکتا۔ نہ ماں یہ کر سکتی ہے، نہ محبوبہ، نہ خدا، بس انا ہتھے سے اکھڑ جاتی ہے۔ وہ سب سے منہ پھیر لیتی ہے۔ اور خود پرستی اور خود رحمی کے ساتھ ’’محبوب‘‘ سے الگ ایک دنیا بسا لیتی ہے۔ یہ تجریدی محبت کی ایک جھوٹی دنیا ہوتی ہے جو انا اپنی تسکین کے لیے گھڑتی ہے۔ اس دنیا میں محبوب بھی ہوتا ہے۔ مگر یہ اصل محبوب نہیں ہوتا۔ اصل محبوب کا ایک خیالی پیکر ہوتا ہے جو انا کے اشاروں پر ناچتا ہے، پختہ محبت میں بھی ایک طرح کی تجریدیت ہوتی ہے مگر وہ اصل محبوب سے کبھی منقطع نہیں ہوتی، سچی تجریدیت یہی ہے۔ خام محبت جھوٹی تجریدیت پیدا کرتی ہے اور نہ صرف اصلی محبوب سے روگرداں ہو جاتی ہے بلکہ شاید اس سے نفرت بھی کرتی ہے۔۔۔ آیئے اس مختصر سی بحث کے بعد اسے اپنے اصل موضوع سے ملا کر دیکھیں۔

    ہم کہہ چکے ہیں کہ غالبؔ کی شخصیت کے بنیادی ستون تین ہیں،

    (۱) رئیس زادگی کا زعم

    (۲) شاعری کا زعم اور

    (۳) نوعِ انسانی سے محبت کا زعم

    اس کی شخصیت انہیں تین ستونوں پر کھڑی ہے اور غالبؔ نے ان ستونوں پر اتنا بلند و بالا قلعہ بنایا ہے کہ اس کے کنگرے آسمانوں کی وسعتوں میں گم ہوتے نظر آتے ہیں۔ بہادر شاہ ظفرؔ کس پر بھولے ہیں، یہ غالبؔ کا لال قلعہ ہے۔ مگر ہم کہہ چکے ہیں کہ انا کچھ کر لے، اگر وہ خود قربان نہیں ہوتی تو اس کا انجام شکست ہے۔ زندگی کے تجربے کے ساتھ ساتھ اس کی عمارت کے ستون، متزلزل ہونے لگتے ہیں۔ رئیس زادگی کے زعم میں ترکمانی، افراسیابی، ایبکی، فریدونی سب بنا تھا، مگر غلام حسین کمیدان کی جائیداد بک جاتی ہے۔ سات سو روپے سالانہ میں شراب کباب کا خرچ بھی نہیں چلتا۔ قرض ادھار پر زندگی بسر ہوتی ہے۔ انا کہتی ہے ہائے افسوس کس زمانے میں پیدا ہوئے کہ نہ کوئی قصیدے کے قابل مدیح ہے، نہ غزل کے قابل معشوق۔ بہادر شاہ ظفرؔ کا حال ظاہر تھا، دوسرے نوابوں کی حالت بھی پتلی تھی مگر پھر بھی ذوقؔ کے بعد استاد شہہ بن کر مجروح انا کو دبیر الملکی اور نجم الدولائی سے تھوڑی سی تسکین ہوتی ہے۔ دربار رامپور سے توسل بھی غنیمت معلوم ہوتا ہے۔ افسوس کہ غدر میں غالبؔ کے کم زور سہارے بھی ٹوٹ جاتے ہیں۔ بہادر شاہ رنگوں سدھارتے ہیں۔ غالبؔ کے دوسرے کرم فرما مقتول ہوتے ہیں یا زیر عتاب آتے ہیں۔ ستم بالائے ستم پینشن بھی بند ہو جاتی ہے۔ غالبؔ اپنے قصیدے لیے کمشنروں کے درباروں کے چکر کاٹتا ہے، کلکتہ تک بھاگا بھاگا پھرتا ہے، حاصل کچھ نہیں۔ نتیجہ۔۔۔ مایوسی و نامرادی، طنز و تعریض، کڑھن اور جلن۔ رئیس زادے کا تو یہ حشر ہوتا ہے، شاعر کے ساتھ بھی کچھ اچھی نہیں گزرتی۔ پہلے شاگردان ذوقؔ اور عیشؔ جیسے لوگ پیچھے پڑ گئے تھے۔ پھر محسوس ہوا کہ دوستوں کے لیے بھی اس کا مدعائے کلام عنقا ہے۔ زمانہ خراب تھا۔ شاعری کی محفلیں اجڑ رہی تھیں۔ عیشؔ، تجمل حسین خان کے قبضے میں تھا۔ اور شاعری کا زمانہ عرفیؔ وغیرہ اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ شیفتہؔ و مومنؔ، تفتہؔ، آزردہؔ، حالیؔ و مجروحؔ نے تعریفیں تو کیں مگر دل کے پھپولوں کو کیا آرام آتا۔ تشنگی دریا آسا تھی اور فیض ساقی شبنم مثال غالبؔ تو وہ تھا کہ ’’دو عالم‘‘ حاصل کر کے بھی بس نہ کرتا۔ شرم تکرار سے چپ رہے تو اور بات ہے۔ یوں رئیس زادے کے ساتھ شاعر بھی ٹھکانے لگ گیا۔ نتیجہ۔۔۔

    ’’یہاں خدا سے بھی توقع نہیں۔ مخلوق کا کیا ذکر۔ آپ اپنا تماشائی ہو گیا ہوں۔ رنج و ذلت سے خوش ہوتا ہوں۔ یعنی میں نے اپنے آپ کو اپنا غیر تصور کر لیا ہے۔ جو دکھ مجھے پہنچتا ہے، کہتا ہوں کہ غالبؔ کے ایک اور جوتی لگی۔ بہت اتراتا تھا کہ میں بہت بڑا شاعر ہوں اور فارسی داں ہوں۔ آج دور دور تک میرا جواب نہیں۔ لے اب قرضداروں کو جواب دے۔ سچ تو یوں ہے کہ غالبؔ کیا مرا، بڑا مردود مرا، بڑا ملحد مرا، بڑا کافر مرا، ہم نے از راہ تعظیم جیسا بادشاہوں کو لوگوں نے ’’جنت آرام گاہ‘‘ اور ’’عرش نشیمن‘‘ خطاب دیے ہیں۔ چونکہ یہ اپنے آپ کو شہنشاہِ قلم و سخن جانتا تھا، ’’سقر مقر‘‘ اور ’’ہاویہ زاویہ‘‘ خطاب تجویز کر رکھا ہے۔ آیئے نجم الدولہ بہادر ایک قرض خواہ کا گریباں ہاتھ میں، ایک قرض خواہ بھوگ سنا رہا ہے، میں ان سے پوچھ رہا ہوں، ’’اجی حضرت نواب صاحب! نواب صاحب کیسے اوغلاں صاحب! آپ سلجوقی و افراسیابی ہیں۔ یہ کیا بے حرمتی ہو رہی ہے۔ کچھ تو کہو، کچھ تو بولو۔‘‘ بولے کیا، بے حیا، بے غیرت، کوٹھی سے شراب، گندھی سے گلاب، بزاز سے کپڑا، میوہ فروش سے آم، صراف سے دام قرض لیے جاتا تھا، یہ بھی تو سوچا ہوتا کہاں سے دوں گا۔’’

    خط کیا ہے، رئیس زادے اور شاعرِ نغز گوئے خوش گفتار کا نوحۂ دل خراش ہے۔ انا خود بیان ہوتی ہے، حقیقت بیں نہیں۔ مگر حقیقت بینی دو قسم کی ہے، ایک حقیقت بینی مثبت ہے جو خود مثبت آدمی میں ہوتی ہے۔ دوسری حقیقت بینی وہ ہے جو اپنے قصد و ارادے کا نتیجہ نہیں ہوتی۔ ایسی حقیقت بینی میں انسان حقیقت کو خود نہیں دیکھتا۔ حقیقت خود مار مار کر اپنے آپ کو دکھائی ہے۔ غالبؔ کی چشم تماشا ایسی ہی حقیقت بینی سے پیدا ہوئی ہے۔ غالبؔ نے لاکھ منشور بنائے کہ دہر سے عبرت بھی حاصل نہ کی جائے اور جو ہو، اپنی ہستی سے ہو لیکن حقیقت نے مار مار کر حلیہ خراب کر دیا۔ نجم الدولہ، دبیر الملک، رشک عرفیؔ و طالبؔ نے دامن و گریباں دوسروں کے ہاتھوں میں دیکھے تو پتہ چل گیا کہ دنیا کیا چیز ہے۔ ’’آپ اپنا تماشائی بن گیا ہوں۔‘‘ یہ جملہ ایک معروضیت کا اظہار کر رہا ہے، اس سے آفتاب احمد جیسے بے مثال مبصر غالبؔ کو دھوکا ہوا کہ غالبؔ معروضیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے، مگر اس خط کو بار بار پڑھیے۔ غالبؔ جس معروضیت تک پہنچتا ہے۔ وہ انا کے اثرات سے آزاد نہیں ہوتی۔ ساری کی ساری انا کے رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ یہ درست ہے کہ غالبؔ اپنا تماشا بن کر اپنے کو دیکھ رہا ہے۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ دیکھ دیکھ کر پاگل اور سنکی ہوا جا رہا ہے، آخر تک پہنچتے پہنچتے تو باقاعدہ نیم جنون کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ غالبؔ اتنی معروضیت بھی حاصل نہ کر پاتا تو اتنا بڑا شاعر کیسے ہوتا۔ غالبؔ کو معروضیت حاصل ہوئی ہے مگر خود اس کی مرضی سے نہیں۔ وہ تو اس پر زبردستی سوار ہو گئی ہے۔ اس کے مقابلے پر میرؔ کی معروضیت دیکھیے۔ حالات شاید میرؔ کے بھی ایسے ہی ہوں گے مگر کیسا سچا تماشائی ہے،

    کہتا تھا کسی سے کچھ تکتا تھا کسی کا منہ

    کل میرؔ کھڑا تھا یاں، سچ ہے کہ دوانہ تھا

    *

    نامرادانہ زیست کرتا تھا

    میرؔ کا طور یاد ہے ہم

    *

    تیری چال ٹیڑھی، تری بات روکھی

    تجھے میرؔ سمجھا ہے یاں کم کسو نے

    *

    عشق میں مجھ کو رہا کرتی ہے اک آوارگی

    میرؔ صاحب کیجیے کیا بندگی بے چارگی

    *

    جگر کاوی ناکامی دنیا ہے آخر

    نہیں آئے گر میرؔ کچھ کام ہوگا

    یہ کامل درجہ کی معروضیت غالبؔ کو نہیں ملی۔ میرؔ اپنا کیسا سچا تماشائی ہے، انا بالکل غائب ہوچکی ہے، اپنی مجبوری، محرومی، بے چارگی، آوارگی، دیوانگی، بندگی غرض اپنی یا انسان کی ہر کیفیت و حالت پر کیسی کھری تنقید کی ہے، مگر کیسی سچی دردمندی کے ساتھ۔ ’’نہ آئیے نجم الدولہ بہادر‘‘ جیسی تھیٹریٹ ہے۔ نہ بے حیا، بے غیرت جیسا سنکی پن، نہ سقر مقر، حاویہ زاویہ جیسا طنز۔ یہ معروضیت انا کے قبضے سے نکل کر غیر انا کے قبضے میں چلی گئی ہے۔ اب میرؔ صرف ’’آنکھ‘‘ بن گیا ہے۔ ایسی چشم تماشا غالبؔ کو خواب میں بھی نصیب نہیں ہوئی۔

    رئیس زادہ اور شاعر کا انجام آپ دیکھ چکے ہیں، نوعِ انسانی کے محب کا احوال رہا جاتا ہے۔ غالبؔ کو دعویٰ ہے کہ وہ نوعِ انسانی کا پرستار ہے، اس سے محبت کرتا ہے، اس کے درد سے پگھلا جاتا ہے مگر یہ نوع انسانی جیتے جاگتے، انسانوں کا مجموعہ نہیں ہے اور صرف غالبؔ کے ذہن کی پیداوار ہے، جیتے جاگتے انسانوں سے تو اسے نفرت ہے، خوف ہے، یہ تو کتوں کی طرح کاٹتے ہیں، ان کے تو طرز تپاک سے بھی غالبؔ جل اٹھتا ہے۔ یہ تو اس قابل بھی نہیں کہ انہیں عیادت یا تعزیت کے لیے گوارا کیا جائے۔ غالبؔ ان کی وجہ سے آئینے تک سے ڈرتا ہے اور وبائے عام میں مرنا بھی پسند نہیں کرتا۔ غالبؔ کی نوعِ انسانی صرف غالبؔ کے تصور میں پائی جاتی ہے۔ وہ اس کے گلشن ناآفریدہ کا ایک حصہ ہے اور بس ہم اپنے زمانے میں دیکھتے ہیں کہ جھوٹی انسان پرستی نے زندہ انسانوں سے نفرت کے کیسے کیسے بہروپ بھر رکھے ہیں۔ عہد جدید کے ہر رجحان کی طرح اس انسان پرستی کا ظہور بھی سب سے پہلے غالبؔ کی نفسیات میں ہوا۔ مجھے تو غالبؔ کے دیوان میں کسی ایک جگہ بھی یہ احساس نہ ہوا کہ غالبؔ گوشت پوست کے انسانوں کے سچے درد سے ایک بار بھی پگھلا ہے۔ سوائے ’’درد سے تیرے ہے مجھ کو بے قراری ہائے ہائے‘‘ والے بے مثال مرثیے کے۔ یہاں غالبؔ کو سچ مچ محبت کا فیض پہنچ گیا ہے۔ کیا مرثیہ ہے۔ اردو شاعری ایسے سچے درد کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ یہ کمبخت غالبؔ ایسا ہے کہ اسے کسی طرف سے بھی گھیریے کہیں نہ کہیں سے، کسی نہ کسی طرح نکل ہی بھاگتا ہے۔ اس مرثیے میں غالبؔ کی انانیت کہاں چلی گئی ہے، وہ اپنے پندار، اپنی برتری، اپنی زندگی کی ناکامیوں، مجبوریوں اور ان سے پیدا ہونے والے بڑبولے پن یا خود رحمیوں کو کیسے بھول گیا ہے۔ یہ غالبؔ کی کتاب زندگی کا راز ہے۔ غالبؔ نے شاید دو صرف سچ مچ کے انسانوں سے محبت کی۔ ایک اس مرثیہ والی محبوبہ اور دوسرے جناب امیرؔ۔ غالبؔ کو اس محبوبہ میں وہ دل نظر آیا تھا تو اس کے درد سے بے قرار ہوتا تھا اور جناب امیرؔ تو غالبؔ کے لیے نمونہ زندگی اور نمونۂ ذات دونوں ہیں۔ غالبؔ کا یہ فقرہ کہ ’’خدا سے لڑا نہیں جا سکتا۔‘‘ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے۔۔۔ والے معروف جملے کی یاد دلاتا ہے۔ غالبؔ نے بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے اور خدا سے کیا ستم و جور ناخدا کہیے۔ اور کیا وہ نمرود کی تھی۔ سیکڑوں طعنوں اور پھبتیوں کے بعد جب خدا کو سچ مچ پہچانا تو فساخ العزائم کی شکل میں۔ ان دو محبتوں کا فیض غالبؔ کو اس طرح پہنچا ہے کہ جب غالبؔ اپنے دل کے اس گوشے سے بولتا ہے تو بڑے بڑے گرد ہو جاتے ہیں۔

    بہرحال رئیس زادہ، شاعر اور محب انسان تینوں کی شکست کا حال ہی ہماری اس کتاب کا موضوع ہے۔ آئندہ ابواب میں آپ اس کے مختلف پہلو مختلف زاویوں سے دیکھیں گے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے