Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

غالب، ایک تہذیبی قوت

ممتاز حسین

غالب، ایک تہذیبی قوت

ممتاز حسین

MORE BYممتاز حسین

    جب بھی غالب کی شاعری کا ذکر آتا ہے تو ہماری نظر سب سے پہلے یا تو ان کے کلام کی آفاقیت پر جاتی ہے جہاں وہ پوری انسانیت کے ترجمان ہیں، یا پھر ان کے کلام کے ایسے حصوں پر جہاں انہوں نے انسان کے عنصری جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ غالب کی یہ وسیع النظری اور نفسیاتی ژرف بینی دونوں ہی لائق صدتحسین و داد ہیں اوران کے کلام کے بقائے دوام کی ضامن لیکن تا وقتیکہ ہم ان کے کلام کی تاریخی اہمیت کو نہ جانیں، یایہ کہ انہیں ایک مخصوص تاریخی اور تہذیبی ماحول میں رکھ کر نہ دیکھیں، اس کا خطرہ باقی رہتا ہے کہیں ہماری وہ تحسین، تحسین ناشناس بن کر نہ جائے۔ کیونکہ کسی بھی شاعر کے کلام کی عمومیت اور آفاقیت اپنی قوم کی تاریخ اور زندگی اور عالمی تاریخ سے بے نیاز ہونے میں نہیں، بلکہ اس سے دست گریباں ہونے، اس کی کشمکش کو سمجھنے اور پھر اسے عالمی تہذیب کے ارتقائی رجحانات سے نسبت دینے میں ہے۔

    کیا ہمارے یہاں غالب کا مطالعہ اس نقطہ نظر سے کیا گیا ہے؟ اس میں شبہ نہیں کہ گزشتہ پندرہ بیس برسوں میں، جوں جوں ہمارا تاریخی تنقیدی شعور زیادہ سے زیادہ گہرا اور وسیع ہوتا گیا ہے، کچھ نہ کچھ اس کی طرف توجہ دی گئی ہے اور ہم نے غالب کے کلام میں ایک تاریخی آدمی کو دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ اس موقع پر ہمارے بعض بزرگ جو اگلے وقتوں کے ہیں، یہ کہہ سکتے ہیں کہ تاریخ تو ایک گزراں حقیقت ہے۔ وہ جو وقتی اور ہنگامی، گزشتنی اور گزاشتنی ہے وہ کب ہم جیسے سرمست ازل، مطلق پرستوں، پردہ دران تعینات کو، اپنے دام موج میں الجھا سکتی ہے، ہم تو اس کی اس کی دامگاہ سے ایک چشم زدن میں جست کر جاتے ہیں۔ کیا غلامی اور کیا آزادی، کیا راکٹ اور کیا ایٹم بم، ہم تو بے مرکب اڑتے اور بےتیغ لڑتے ہیں۔

    اس میں شبہ نہیں کہ یہ بڑا خواب آور اور نشیلا فلسفہ ہے اور جب اپنے پاس کچھ بھی نہ ہو تو اس کا نشہ اور زیادہ گہرا ہو جاتا ہے۔ لیکن گزشتہ دو ڈھائی سو سال کی پیہم پسپائیوں اور زدوکوب نے اب ہمیں یہ سمجھایا ہے کہ عالم کی ہستی ناقابل تردید ہے اور یہ ایک عالم اسباب ہے نہ کہ عالم معجزات۔ میں نے یہ بات اس لئے چھیڑی کہ اب یہ جو شعور عالم کو جاننے اور اس کے اسباب و علل کے دریافت کرنے کا پیدا ہو چلا ہے، وہ ہماری گزشتہ ڈیڑھ سو سال کی تاریخی تہذیبی جدوجہد میں پروان چڑھا ہے اور اس شعور کو فروغ دینے میں غالب کا بھی ایک حصہ ہے، لیکن کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اس سلسلہ میں ان کا نام نہیں لیا جاتا ہے۔

    شاید اس لئے کہ ہمارے ذہن میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے کہ مغرب کی روشنی نے ہمیں ۱۸۵۷ء کے بعد سے متاثر کرنا شروع کیا، بالخصوص اس وقت سے جب سے کہ علی گڑھ کا اینگلومحمڈن کالج قائم ہوا یا پھر شاید اس لئے کہ غالب کی روشن خیالی اور روشن ضمیری میں ’’احیاء دین‘‘ اور تحافتہ الفلاسفہ کا کوئی علم الکلام نہ تھا اور انہوں نے شمع یونانیان کو بار دیگر ہمارے درمیان روشن کیا۔ انہوں نے اشراق فلاطون، مشائین اور رواقین کے فلسفوں کو ہمارے درمیان ازسرنو زندہ کیا۔ چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ ہماری روشن خیالی اور ہمارے جدید ادب دونوں ہی کا آغاز غالب کی نظم و نثر سے ہوتا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ان کی ذہنی دنیا میں مغرب اور مشرق قدیم اور جدید کی ایک شدید کشمکش ہے۔

    ایماں مجھے روکے ہے، جو کھینچے ہے مجھے کفر

    کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے

    لیکن اس کشمکش میں کبھی کبھی جدید قدیم پر اتنا غالب آ جاتا ہے کہ وہ سید احمد خاں کو ٹوک کر یہ کہہ دیتے ہیں۔ مردہ پروردن مبارک کارنیست۔

    انہیں ایام کی ان کی ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔ دیکھئے کہ اس غزل میں مغرب کی روشنی کا خیر مقدم کس جدلیاتی منطق کے ساتھ کیا گیا ہے۔

    مژدہ صبح دریں تیرہ شبانم دادند

    شمع کشتند و زخورشید نشانم دادند

    رخ کشودند و لب ہرزہ سرایم بستند

    دل ربودند و د وچشم نگرانم دادند

    گہر از رایت شاہان عجم بر چیدند

    بعوض خامہ گنجینہ فشانم دادند

    افسر از تارک ترکان پشنگی بردند

    بہ سخن ناصیہ فرکیانم دادند

    گوہر از تاج گستند و بدانش بستند

    ہرچہ بردند بہ پیدا بہ نہانم دادند

    اس امر پر سارے مؤرخین کا اتفاق ہے کہ انگلستان کا صنعتی انقلاب ہندوستان سے لوٹی ہوئی دولت کا رہین منت رہا ہے۔ ہندوستان کا جب سونالٹ گیا تو مغرب سے علم و دانش کا ایک آفتاب طلو ع ہوا۔ جس کی روشنی سے ہرچند کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے تاجروں نے مشرق کو محروم رکھنے کی بڑی کوشش کی۔ لیکن جب ۱۸۳۲ء کے ریفارم بل کے بعد دولت انگلشیہ میں کمپنی کے تاجروں کا زور گھٹا اور وہاں کے صنعتی سرمایہ داروں کا زور بڑھا تو پھر اس کی روشنی یہاں بھی پھیلی۔ نہ صرف دخانی کشتیوں، ریل گاڑیوں، ٹیلی گراف اور دوسری سائنسی ایجادوں کی نمائش سے بلکہ انگریزی تعلیم، سماجی اصلاحات (جس میں غلامی کی رسم کی منسوخی بھی شامل ہے) بھاپ کی قوت سے چلنے والے چھاپے خانوں کی ایجادات اور پریس کی آزادی کی صورتوں میں بھی۔

    چنانچہ ۱۸۳۵ سے لے کر ۱۸۴۷ء تک کازمانہ، باوجود اس کولونیل لوٹ کھسوٹ اور شدید سرمایہ دارانہ استحصال کے، جس سے ہندوستان دوچار رہا ہے، برطانوی ہندوستان کی تاریخ میں اپنی کچھ برکتیں بہ ایں معنی رکھتا ہے کہ یہ زمانہ ذہنی آزادی اور مغربی علوم وفنون کی ترویج واشاعت کا تھا۔ اسی زمانے میں دہلی کالج قائم ہوا تھا، جس کی اہمیت کے بارے میں ذکاء اللہ لکھتے ہیں کہ سائنس اور نئے علم ہیئت کی باتیں گھر گھر میں پھیل گئی تھیں۔ غالب نے اسی خورشید مغرب کا خیرمقدم اپنی اس غزل میں کیا ہے، ع’’شمع کشتند وز خورشید نشانم دادند۔‘‘ اور پھر اس کی تان اس پر توڑی، ع ’’ہرچہ بردند بہ پیدابہ نہانم دادند۔‘‘

    یعنی جو کچھ مغرب بظاہر میں لے گیا، اسے اس نے بہ باطن لوٹایا۔ جو موتی کہ انگریزوں نے ترکوں کے تاج سے توڑے انہیں علم ودانش کے ہار میں پروئے۔۔ سیاسی پہلو سے انگریزوں کی ملکیت کا دور محکومی کا سہی، لیکن قدیم مشرق کے مبلغ علم اور ہماری مطلق العنان حکومتوں کے پس منظر میں یہ حور کرن جوکوپرنیکس، گلیلیو، نیوٹن، بنتھم اور مل کے علوم کی ہمارے معاشرے میں در آئی، یقیناً قابل قدر تھی، غالب کا تشکک جو اپنے ہی عقیدے کو معرض شک میں لانے کا تھا۔ لاموجود الا للہ،

    جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود

    پھریہ ہنگامہ اے خدا کیا کیا ہے

    اسی فضا میں پروان چڑھا تھا اور اسی فضا میں ان کے عقیدہ وحدت الوجود نے منفی اثرات کو ترک کرکے وہ مثبت پہلو اختیار کیا جو زندگی کو ایک عطیہ خداوندی تصو ر کرنے اور اس خیال سے در گزرنے کا تھا کہ آدمی کا وجود شر ہے، گناہ کا نتیجہ ہے۔ غالب تمام تر نقد کے قائل تھے، وہ نسیہ کے قائل ہی نہ تھے، کاش حالی کی سمجھ میں یہ بات آتی تو وہ انہیں حیوان ظریف نہیں بلکہ اردوادب کا والٹیر تصور کرتے۔ لیکن وہ تو ساری عمر یہی کہتے رہے۔ ’’ہرچند کہ مرزا نے شاعری کی نسبت سے شراب کی مدح کی ہے لیکن وہ اسے اعتقادا ًبرا سمجھتے تھے۔‘‘ معلوم نہیں حالی کا خیال غالب کے عشق کے بارے میں کیا تھا، بہرحال چھوڑیے اس جملہ معترضہ کو، شیخ جی ان باتوں کو کیا جانیں۔

    بامن میاویز اے پدر فرزند آزرا نگر

    ہر کس کہ شد صاحب نظر دین بزرگاں خوش نکرد

    لیکن یہ واقعہ مژدہ صبح کے پانے، شمع کو بجھانے اور آفتاب کو طلوع کرنے کا اس رات کا ہے جوبڑی مہیب اور تاریک تھی اور غالب اپنے اس روحانی سفر میں بہت تنہا اور اداس تھا۔ کبھی کبھی ناامیدیوں کے طوفان نے اس پر ایسا ہجوم کیا ہے کہ اس کے دل کی ساری شمعیں بجھ گئی ہیں اور اس نے ایک زہرہ گداز احساس شکست سے دوچار ہوکر راہ فنا کی آرزو بھی کی ہے۔ ایسے لمحات شکست خوردگی، لمحات غم و اندوہ، غالب کی شاعری میں کچھ کم نہیں ہیں لیکن وہ لمحات بڑے حسین ہیں کہ وہ کشتہ آرزوئے زیست ہیں۔

    نہ دانی کہ مینا شکستن بہ سنگ

    نہ بخشد بہ دل ذوقِ گلبانگ چنگ

    یہ غالب جو آتش گبر کا پجاری (از آتش نشان خدائی دہند) شمع یونانیاں کا عاشق اور خورشید باختر کا دلدادہ تھا، وہ میخانہ مہرو وفا، صلح و آشتی اور وحدت انسانیت کا مئے گسار بھی تھا۔

    یارب بہ جہانیاں دل خرم دہ

    در دعوئے جنت آشتی باہم دہ

    شد او پسرنداشت باغش از تست

    آں مسکن آدم بہ بنی آدم دہ

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے