غالب ایک آفاقی شاعر
ہر بڑے اور اوریجنل شاعر کو زندگی کو دیکھنے، پرکھنے اور اپنے تجربات میں معنویت پیدا کرنے کے لئے ایک عالمی نقطہ نگاہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ یہ عالمی نقطہ نگاہ ایک شخصی آئیڈیالوجی کی صورت بھی اختیار کر لیتا ہے، جس سے وہ اپنے عہد کی آئیڈیالوجی کو پرکھتا ہے۔ شاعر دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک گروہ ان شعرا کا ہے جو اپنے جذبات کا اظہار اپنے پیش رو شعرا کی تاویلات حیات کی مطابقت میں کرتے ہیں۔ وہ اپنے جذبات کے ذریعے بذات خود زندگی یاعالم کی کوئی تاویل نہیں کرتے ہیں۔ دوسرا گروہ جو بہت ہی قلیل ہے، ان شعرا کا ہے جواپنے پیش روؤں کی فکر کی تنقید کرتے ہوئے، اپنے تجربات کے ذریعے، زندگی اور عالم کی تاویل بذات خود کرتے ہیں۔ ایسے ہی شعرا ایک عالمی نقطہ نگاہ اختیار کرتے ہیں۔ صحیح معنوں میں ایسے ہی شعرا اپنا ایک نیا اسلوب بھی پیدا کرتے ہیں۔ غالب کی انفرادیت ضرب المثل ہے،
ہم بعالم زاہل عالم برکنار افتادہ ام
چوں امام سبحہ بیروں از شمار افتادہ ام
چنانچہ یہ ان کی اسی انفرادیت اور اوریجنٹلی یاسچ کی دین ہے کہ انہوں نے یہ رفاقت خرد، اپنے جذبات کی تاویلات سے ایک نئی آئیڈیالوجی اپنے تجربات کی سچائی اور پاکیزگی کو پرکھنے کے لئے وضع کی۔
ہیگل لکھتا ہے کہ ہر بڑا اور اور یجنل شاعر ایک نیا تصور حیات اور بےکرانگی (INFINITY) کا ایک نیا تصور پیش کرتا ہے اور اگر اس پر فلابیر کے اس خیال کا اضافہ کیا جائے کہ شاعر کی عظمت اس میں نہیں ہے کہ اس نے کتنے بہت سے مسائل حیات حل کئے ہیں بلکہ اس بات میں ہے کہ بےکرانگی کے پس منظر میں اس نے کتنے بہت سے سوالات اٹھائے ہیں اور کتنے مسلمہ عقائد پر شکوک و شبہے کی نظر ڈالی ہے، تو میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گا کہ مرزا غالب کا شمار بھی انہیں بڑے شعرا کی صف میں کرنا چاہئے۔ کیونکہ انہوں نے جہاں ایک طرف بےکرانگی کا ایک نیا تصور پیش کیا ہے، وہاں زندگی کے بارے میں اتنے بہت سے سوالات اٹھائے ہیں کہ ان کی مدد سے ان کے ایک نئے تصور حیات کی بھی تشکیل کی جا سکتی ہے۔
غالب کی اس آئیڈیالوجی کو، جو ایک نئے تصور حیات کی غماز ہے، ان کے اشعار ہی کی مدد سے مرتب کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس میں خطرہ یہ ہے کہ کہیں میری اس کوشش میں جو فکر غالب کے بعض اہم آفاقی عناصر کی تلاش کرنے کی ہے، اس کی شاعری کا گداز کچھ اس طرح چھپ نہ جائے، جس طرح فانوس خیال کی نیرنگی میں زبان شمع کی جاں سوزی چھپ جاتی ہے۔ پھر یہ کہ شاعرکے نور تخئیل کو اس کے محسوسات کے فانوس سے جدا کرکے نہیں دیکھا جا سکتا۔ کیونکہ وہ تاویل حقیقت اپنے محسوسات ہی کے آئینے میں کرتا ہے۔ لیکن جس طرح پردہ ساز کے پیچھے مغنی کی روح کوبھی محسوس کیا جا سکتا ہے اور پردہ غیب کی جھری سے کچھ غیب کی بھی خبر لائی جا سکتی ہے، اسی طرح ان کے فانوس محسوسات اور ان کی گداختگی دل سے کچھ ان کے خیال کی تجرید کروں گا تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ جو عمارت انہوں نے اپنے تخیل کی کھڑی کی ہے، اس کی نوعیت اور تاریخ عالم کے لئے اس کی اہمیت کیا ہے، کیوں کہ اس کے جانے بغیر کلام غالب کی قدر و قیمت کو متعین بھی نہیں کیا جا سکتا۔
میں نے شروع میں غالب کی انفرادیت اور اوریجنلٹی (ORIGINALITY) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ بات کہی تھی کہ غالب ان معدودے چند شعرا میں سے ہیں، جن کا یہ دعویٰ ہے کہ انہوں نے اپنے تجربات اور جذبات کی سچائی کو پرکھنے کے لئے کسی مانگی تانگی ہوئی آئیڈیالوجی پر بھروسہ نہیں کیا ہے، بلکہ اپنے ایمان یا اپنی آئیڈیالوجی کی تعمیر خود کی ہے۔ انفرادیت ہو تو ایسی اور آزادی ذہن ہو تو ایسی،
کردہ ام ایمان خود را دست مزد خویشتن
می تراشم پیکر از سنگ و عبادت می کنم
سنگ و خشت ازمسجد ویرانہ می آرم بہ شہر
خانہ در کوئے ترسایاں عمارت می کنم
غالب کے اس سومنات خیال میں نہ کوئی محراب ہے اورنہ مورت، نہ کوئی صلیب ہے اورنہ کوئی ہیکل۔ اس میں صرف ایک پتھرنصب ہے، جس کے ایک طرف جلی حرفوں میں یہ شعرلکھا ہواہے،
ہم موحد ہیں، ہمارا کیش ہے ترک رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں
ان کی اس توحید وجودی میں نہ تو تفریق رنگ ونسل اور کیش و ملت ہے اور نہ تفریق دین و دنیا، حدوث و قدم اور ذات وصفات ہے۔ اس توحید خالص کا خواب غالب سے پہلے بھی کئی مفکروں اور شاعروں نے دیکھا تھا۔ اس میں ان کو کوئی اولیت حاصل نہیں، لیکن جس تاریخی پس منظر میں انہوں نے اس خیال کو ابھارا اور اس کی جو انوکھی تفسیر پیش کی، اس سے اس کی قوت، طرب انگیزی اور رنگ فشانی میں چار چاند لگ گئے ہیں۔ اس کو بہت سے لوگوں نے تسلیم کیا ہے کہ غالب کی شاعری بذات خود ایک اہم تاریخی واقعہ ہے۔ اس کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ ان کے صحیفہ فن کے گرد زیادہ سے زیادہ لوگ جمع ہوتے جا رہے ہیں اور جو درفش کا ویانی انہوں نے ’’بے داد اہل دیں‘‘ کے خلاف بلند کیا تھا، وہ روز بروز قوت حاصل کرتا جا رہا ہے،
بادیریاں زشکوہ بے داد اہل دیں
مہرے ز خویشتن بہ دل کافر افگنم
لیکن تاوقت یکہ کے اس نظم کی ٹھوس تاریخی حقیقت اجاگر نہ کی جائے اوریہ بات سامنے نہ آئے کہ ان کی شاعری کس طرح ان کی ہم عصر تاریخ سے مربوط تھی، ان کی آواز کی انقلابیت نہ صرف ہمارے لئے بلکہ عالمی تاریخ کے لئے بھی بامعنی نہیں ہو سکتی۔
میں اسپنگلر کے اس خیال سے متفق نہیں ہوں کہ شاعری بلا شرکت غیرے ’’مقفل بہ علاحدگی‘‘ ایک مخصوص ثقافت کی روح ہوتی ہے۔ اگرایسا ہوتا تو یونانی شعر وادب عالمی تہذیب کو متاثرنہ کرتا اور نہ جدید یورپ کا ادب اس بڑے پیمانے پر ہمیں متاثر کرتا۔ ثقافت یا کلچر میں ایک عنصر عصبیت کا ضرور ہوتا ہے۔ جس میں ایک تخالف عقل سے اور اجنبیت دوسرے کلچر سے ہوتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہر معاشرے کا کلچر عالمی تہذیب کے بنیادی دھارے کو تقویت پہنچاتا ہے اور اس سے قوت حاصل کرتا ہے۔ یہ عمل تاریخ کے ہر دور میں ملتا ہے اور دور حاضر میں تو رسل و رسائل کے ذرائع کے ترقی پانے، ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے اور رواداری کے بڑھتے ہوئے میلان کے تحت اس ثقافتی لین دین کا عمل اس قدر تیز ہو گیا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب سیاسی غلبے اور استحصال کے خاتمے کے بعد انسان اپنی اس منزل کو بھی جا لےگا، جس کا خواب ہمارے شعرا دیکھتے رہے ہیں،
دلم درکعبہ از تنگی گرفت، آوارہ خواہم
کہ بامن وسعت بت خانہ ہائے ہندو چیں گوید
اور اسی غالب کایہ شعر بھی مناجات میں ملتا ہے،
زبت بندگی، مردم آزاد کن
جہانے بہ یک خانہ آباد کن
بہر حال بات تو یہاں اس مخصوص تاریخی صورت حا ل کی ہو رہی تھی جس نے غالب کو اپنے وجود کی بنیاد ڈھونڈنے اور حقائق کی نئی تاویل اور تفسیر پر مجبور کیا۔ انسانی وجود کی یہ خاصیت ہے کہ وہ اپنے کو معتبر بنانے کے لئے ’’کُل‘‘ سے ایک ربط پیدا کرتا ہے۔ یہ ربط حقیقت میں اس رشتے سے متعین ہوتا ہے، جو انسان کا فطرت خارجیہ سے ہوتا ہے۔ یعنی جس طرح وہ اسے حصول مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے یایہ کہ جس طرح وہ اس سے اپنا رزق حاصل کرتا ہے۔ چنانچہ کلاسیکی غلامی کے عہدمیں جو رشتہ انسان کا فطرت خارجیہ سے تھا، وہ پن چکی یاپون چکی کے دور میں، جو قرون وسطی کا دور تھا، نہ رہا اور دور حاضر میں، جو دخانی اور برقی قوتوں کے استعمال کا زمانہ ہے، تو وہ رشتہ ماسبق کے رشتوں سے بہت ہی مختلف ہے۔ جہاں تک کہ غالب کا تعلق ہے، ان کی پیدائش کے وقت تک کیا ہندوپاک اور کیا دوسرے ایشیائی ممالک، یہ پورا براعظم پن چکی کے عہد میں تھا، جب کہ یورپ دخانی قوت کے استعمال کے دور میں داخل ہو چکا تھا۔
یہ ایشیائی معاشرہ کیوں اس قدر پس ماندہ رہ گیا۔ اس کے اسباب اس کے سماجی اور اقتصادی ڈھانچے میں تلاش کئے جا سکتے ہیں، لیکن مغرب سے اس کے مفتوح ہونے کے اسباب میں، جہاں اس کے مخصوص سماجی و اقتصادی ڈھانچے کو دخل تھا، وہاں اس کو بھی کہ ہمارا معاشرہ نہ صرف ذات پات اور غلامی بلکہ نسل و رنگ، قبائلی امتیازات و بےشمار کیش وملت کے متصادم اور مخالف امتیازات کا بھی ستایا ہوا تھا۔ ہمارا یہ معاشرہ اس حد تک ایک بند معاشرہ تھا کہ انگریزوں کے دور سے پہلے کوئی بھی طوفان حوادث اس کی بنیاد کو متزلزل نہ کر پاتا تھا۔ سلطنتیں بدلتیں لیکن وہ کوئی سماجی انقلاب پیدا نہیں کر پاتیں، معمولی تغیرات اور انقلابی تغیر میں بڑا فرق ہے۔ گفتگو انقلابی تغیر کی ہے نہ کہ معمولی تغیرات کی۔ بہر حال اس بندھی ٹکی حقیقت کے پیش نظر، غالب سے پہلے اس کی ضرورت بھی پیش نہ آئی کہ ہمارے وجود کا جو رشتہ ’’کل‘‘ سے صدیوں سے قائم تھا، اس کو معرض شک میں لایا جاتا، یا وجود کی بنیاد کو ازسرنو تلاش کیا جاتا،
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
یہ شعر ہمارے سارے شعرا دہراتے آئے ہیں۔ غالب اس کے درد سے مستثنی نہ تھے لیکن انیسویں صدی کے اوائل میں جو غالب کے سن شعور کا زمانہ تھا، جب مغرب کی برق سحر انگیز ہمارے خرمن ہوش پرگری اور ہم نے یہ محسوس کیا کہ جس گریہ نیم شبی پر ہم تکیہ کیے ہوئے تھے، وہ شہر کو بہالے گیا، تو کچھ کچھ ہماری چشم نظارہ وا ہوئی اور ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ جس عالم کو ہم خواب و خیال کی دنیا اور غیر حقیقی تصور کرتے تھے، وہ تو محبوب کی شکن زلف عبنریں سے بھی زیادہ حسین اور حقیقی ہے، اس عالم میں گیس کی روشنی سے رات، دن کی مانند روشن ہے، کشتیاں سطح آب پر بادبان اور پتوار کے بغیر دخانی قوت سے کچھ اس طرح دوڑتی ہیں کہ موج و گرداب کی قوت انہیں زنجیر کرنے سے عاجز ہے۔
حرف، بال و پر کے بغیر بجلی کی قوت سے پرواز کرتے ہیں اور نغمے نوک سوزن سے مضراب و ساز کے بغیر پیدا ہوتے ہیں۔ جب یہ چیزیں مشاہدے میں آئیں، ہمارا پرانا اعتبار وجود جاتا رہا اور ہم اس سراسیمگی اور وحشت سے دوچار ہوئے کہ شاید ہمارے ستارہ وجود کی کڑی اس کے خورشید جہاں تاب سے منقطع ہو گئی اور جس کشتی حیات میں ہم سفر کر رہے تھے، اس کا لنگر اور ستارہ و بادبان، سب کچھ ہماری بے خودی کی نذر ہو چکا ہے،
اے پر تو خورشید جہاں تاب ادھر بھی
سائے کی طرح ہم پہ عجب وقت پڑا ہے
زخمی ہوا ہے پاشنہ پائے ثبات کا
نے بھاگنے کی گوں نہ اقامت کی تاب ہے
غالب نے اسی عالم وحشت زدگی اور عالم نومیدی میں، تصور وجود کی اس وادی پرخار میں قدم رکھا، جس میں صدیوں سے کوئی رہ نورد وارد ہی نہیں ہوا تھا۔
کانٹوں کی زباں سوکھ گئی پیاس سے یارب
اک آبلہ پا وادی پرخار میں آوے
چنانچہ انہوں نے اس وادی خیال کی سیر اس مستانہ روی سے کی کہ وہ اپنے قدموں کی صدائے بازگشت سے بھی آگے رہے اوریہ ان کی اس تیزروی کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے اتنے بہت سے سوالات وجود انسانی، عالم کے وجود اور وجود محض کے بارے میں اٹھائے ہیں۔ غالب سے پہلے ہمارے یہاں کب کسی نے یہ استفسار کیا ہے،
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھریہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
سبزہ وگل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے
اور غالب سے پہلے کب کسی نے بے داد ہستی کے خلاف فریادی کایہ لباس زیب تن کیا ہے،
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
جس کا مفہوم غالب کے الفاظ میں یہ ہے، ’’جب کہ ہستی مثل تصاویر، اعتبار محض ہو، موجب رنج و ملال و آزار ہو، اس ہستی کے کیا معنی ہیں۔‘‘ ہم کسی کی شوخی تحریر کا تختہ مشق کیوں بنتے رہیں ؟ بقول کسے، ان کا تو کھیل، خاک میں ہم کو ملا دیا اور پھر اسی ہستی مطلق سے یہ شکوہ،
ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخی فرشتہ ہماری جناب میں!
یہ سوچنے کی بات ہے کہ اتنے بہت سے سوالات غالب کے ذہن میں کیوں کر پیدا ہوئے ؟ کیا اس لئے کہ وہ سوالیہ موڈ میں پیدا ہوئے تھے ؟ ان کا ذہن طبعاً ایک سوالیہ نشان تھا؟ یا اس لئے کہ ان سوالات کوغالب کے زمانے کی اس مخصوص تاریخی وجودی صورت حال نے جنم دیاہے جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ انسانی وجود ایک تاریخی وجود ہے، اس کے وجود کی ممکنہ قوتیں، تاریخ اور صرف تاریخ کے دامن میں معروضی اور حقیقی روپ اختیار کرتی ہیں۔ چنانچہ انسانی وجود کا رشتہ، تاریخ اور وقت سے ہمیشہ سے ہے۔ اسے ہیڈگر ایسا استاد مابعدالطبعیات بھی تسلیم کرتا ہے۔ رہ گئی یہ بات کہ اس شعور آگہی سے غالب کے معاصر شعر اکیوں کر بےبہرہ تھے، تو یہ اپنی دیدہ وری اور شعور کی بات ہے اور اگر اس میں کوئی رمز ہے تو وہ یہ ہے کہ زمانہ جینئس یا نابغہ کو پیدا کرنے میں بڑے بخل سے کام لیتا ہے،
عمرہا چرخ بر گردو کہ جگر سوختہ
چوں من از دودہ آذر نفساں برخیزد
جینئس وہی ہوتا ہے جسے زیادہ سے زیادہ تاریخی شعور ہوتا ہے۔ وہ اپنے عہدکی پستی سے اس لئے ابھرتا ہے تاکہ وہ اسے بلند کر سکے۔ وہ پورے ماضی کو حال میں سمیٹتا ہوا مستقبل میں نگاہ ڈالتا ہے، اس کوشش میں وہ اپنے عہد سے آگے دیکھتا ہے۔ ایک گلشن ناآفریدہ کا چشم و چراغ بن جاتا ہے۔ لیکن کوئی بھی جینئس ایسا نہیں گزرا ہے جس نے اپنے کو ویسا، اپنی جاں فشانی سے نہ بنایا ہو۔ ہر وہ شخض جو ناکس رہنا نہیں چاہتا، اس کی زندگی میں ایک وقت ایسا آتا ہے، جب کہ وہ اپنے کو دریافت کرنے، اپنے جو ہر انسانی کو پا لینے کا فیصلہ کرتا ہے تاکہ وہ اسے پایہ تکمیل تک پہنچائے۔ یہ لمحہ اپنے جو ہر ذاتی کو پانے کا غالب کی زندگی میں بھی آیا۔ غالب جو دل دادہ ہواوہوس تھا، عین ترغیبات جنسی اور ہوس رانیوں کی مچلتی رات میں وہ اپنے اس جو ہر ذاتی کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا فیصلہ کرتا ہے۔ یہ فیصلہ ان کی مثنوی ’چراغ دیر‘ میں موجود ہے،
چہ جوئی جلوہ زین رنگیں چمن ہا
بہشت خویش شو از خوں شدن ہا
جنونت گر بہ نفس خود تمام است
زکاشی تابہ کاشاں نیم گام است
چو بوئے گل ز پیراہن بروں آئے
بہ آزادی ز بندتن بروں آئے
لیکن قبل اس کے کہ وہ اپنے اس جو ہر ذاتی یا فن شعر کو پایہ تکمیل تک پہنچاتا،
مانبودیم بدیں مرتبہ راضی غالب
شعرخود خواہش آں کرد کہ گردد فن ما
اسے اپنے وجود کو معتبر ٹھہرانے کی بھی ضرورت تھی۔ کیونکہ شاعری تمام تر خواس کی شے ہے۔ مدرکات حواس کو اعتبار بخشنے کی بھی ضرورت تھی۔ اس ’’ہے نہیں ہے‘‘ میں کسی ایک کو منتحب کرنے کی بھی ضرورت تھی۔
ہاں کھائیو مت فریب ہستی
ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے
غالب کو جو فلسفہ وجود قرون وسطی سے ملا تھا، اس پر یہی ایک مستند چھاپ لگی ہوئی تھی کہ ہستی حادث اور عارضی ہے۔ یہ نہ ہمیشہ سے ہے اورنہ ہمیشہ رہےگی۔ زندگی غیر حقیقی ہے اور یہی تصور وقت کا بھی تھا۔ کیونکہ ہستی اور وقت کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ وقت کو بھی حادث اور عارضی تصور کرکے اس کی ایک ابتدا اور ایک انتہا کا تصور کیا جاتا اور اسے بھی غیر حقیقی بتایا جاتا۔ اس کے برعکس واجب الوجود کو حقیقی تصور کیا جاتا، جو ارسطو کے الفاظ میں، غیر متحرک محرک اور غیر مسبب سبب اول ہے اور اس واجب الوجود کو زمان و مکان ان دونوں صفات سے معرا تصور کیا جاتا۔ اس فلسفہ وجود کی رو سے جہاں موجودات عالم اور ہستی مطلق کی تقسیم لازم تھی، وہاں دین اور دنیا یا دوسری دنیا کی تقسیم بھی لازمی تھی۔ دنیا گزشتنی اور گزاشتنی ہے اور موت کے بعد کی دوسری دنیا لازماں یا جاوداں ہے۔ وہاں کوئی گردش روز وشب، عروج و زوال، کسرواضافہ، موت اور زندگی، تغیر یا تبدل نہیں ہے۔
اس کے نتیجے میں یہ اخلاقی تعلیم تھی کہ دل عقبا سے لگانا چاہئے نہ کہ دنیا سے، جو عارضی اور فانی ہے۔ عقائد کی حد تک تو یہ ساری باتیں درست تصور کی جاتیں۔ لیکن جب فلسفے کے میدان میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ جو وقتی اور عارضی ہے، وہ دائم اور قائم غیر متحرک سبب اول سے کیوں کر صادر ہوا؟ اور اس سبب اول کارشتہ اس کے معلول کے ساتھ کیا ہے؟ اور پھرجب یہ سوال بھی سامنے آیاکہ ذات مطلق کے علم مطلق میں صرف عموم کا علوم ہے یا خصوص کا بھی؟ تو ان مسائل کے سلجھانے اور سمجھانے میں بڑی موشگافیوں سے کام لیا گیا۔
چھٹی صدی ہجری میں عین القضات ہمدانی نے، جن کا ذکر خیر غالب کی کتاب ’’مہرنیم روز‘‘ کے دیباچے میں موجود ہے۔ ایک رسالہ ’’غایت الامکان فی درایت المکان‘‘ واجب والوجود کے زمان ومکان کی حقیقت سے متعلق تصنیف کیا۔ اس رسالے میں انہوں نے خدا کے زمان ومکان کا ایک نیا تصور پیش کیا۔ ان کے خیال کے مطابق خدا کا زمان ہر حادثہ زماں پر اور خدا کامکاں ہر نقطہ مکاں پر محیط ہے۔ خدا کے وقت کاکوئی بھی لمحہ ایسا نہیں ہے جو ابھی شروع نہ ہوا ہو اور نہ اس کا کوئی لمحہ ایسا ہے جو گزر گیا ہو۔ سب حادثات اس کے آن واحد میں حاضرہیں۔ اسی طرح ہر شے جو موجود فی المکان ہے، اس کے مکان واحد میں موجود ہے، کیوں کہ اس کے مکاں میں نہ تو شش جہات ہیں اور نہ قربت و دوری، کہ یہاں اور وہاں کاتصور ہو۔ اس طرح ہمدانی نے خدا کے علم مطلق کو محیط عموم اور خصوص، دونوں کے علوم پر دکھایا ہے۔ اس ربانی زمان و مکاں کو تسلیم کرنے کے بعد ہستی ازروئے زمان ومکاں غیر منقسم ہو جاتی ہے۔
غالب نے کم و بیش یہی باتیں ’’مہرنیم روز‘‘ کے دیباچے میں اور سیدعلی غمگیں کے نام اپنے فارسی خطوط میں ہستی مطلق کی وحدت اور اس کے زمان و مکان کے بارے میں لکھی ہیں۔ وہ غمگیں کو لکھتے ہیں، ’’دی وامروز فردا اور ہستی مطلق شامل۔ از ازل تا ابد ہماں یک آن واحد است، و از تحت الثری تا اوج عرش بہ آں مکان واحد است۔‘‘
غالب کے اسی خط میں یہ جملہ بھی ہے، ’’دانم کہ وجود یکے است و ہرگز انقسام نہ پزیرد۔ ہر آئینہ اگر دینے و دنیائے تراشیدہ باشم، گرفتار شرک فی الوجود کہ اقبح افراد شرک است، شدہ باشم، بہ دانست نامہ نگار دین نیز ہم چوں دنیا نقش موہوم است و بروہم دل نہ تواں بست۔‘‘
انہی خیالات کو انہوں نے قدرے تفصیل کے ساتھ مہرنیم روز کے دیباچے میں بھی پیش کیا ہے، وہ لکھتے ہیں، ’’مردم از داانایان ہندودانش اندوزان خطا و فرزانگان یونان برآنند کہ آفرینش از ہر دو سو کرانہ پدید نیست از ناآغاز روز تا انجام جاوید پیوند ہمیں نمائش و ہم بدیں گونہ آرائش درکار است، نبودہ است کہ نبودہ است، نخواہد بود کہ نخواہد بود۔‘‘
اس کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ اس خیال سے متفق نہ صرف غیرمذاہب کے لوگ ہیں بلکہ ہمارے مذہب کے لوگ بھی۔ چنانچہ عارف رومی کہتے ہیں،
پشہ کے داند کہ ایں باغ از کے است
دربہاراں زاد و مرگش در دے است
اس کے بعد حضرت علیؓ اور امام جعفر صادق کے اقوال کو نقل کرتے ہوئے یہ بتاتے ہیں کہ جس عالم میں ہم زندگی بسر کر رہے ہیں اور جس آدم کی نسل سے ہم ہیں، اس عالم اور اس آدم سے پہلے ہزارہا عالم اور ہزار ہاآدم گزر ے ہیں اور یہ سلسلہ لامتناہی ہے، کیوں کہ زمانے کی نہ تو ابتدا ہے اور نہ انتہا۔
اس سوال کے جواب میں کہ ہستی مطلق جو غالب کے الفاظ میں، ’’حب ذات کے ظہور سے پیہم از خویش برخویش جلوہ گستر ہے۔‘‘ اس ہستی سے اس عالم اور آدم کا کیا رشتہ ہے، جو ایک فنا نہیں ہوتا کہ دوسرا پیدا ہوتا ہے۔ غالب کا ارشاد یہ ہے کہ کسی بھی وجود کا وجود خدا سے خارج میں نہیں ہے، وہ لکھتے ہیں، ’’ہماں ذات اقدس و مقدس کہ صفات عین اوست وعالم از وے چوں پرتو از مہر جدانیست و ہر عالم ازاعیان ثابتہ تاصور محشورہ ازخویش برخویش جلوہ گستراست۔‘‘
غالب کا یہ تصور وحدت الوجود ’’لاموجودالااللہ۔ لامؤثرفی الوجود الا اللہ‘‘ بہت سے انقلابی مضمرات کا حامل ہے۔ جس کی طرف میں آپ کو متوجہ کرنا چاہوں گا۔ وحدت الوجود کے اس تصور سے جو تصور زماں ابھرتا ہے، وہ پیہم تخلیق کا ہے،
آرائش جمال سے فارغ نہیں ہنوز
پیش نظر ہے آئنہ دائم نقاب میں
غالب اس تخلیق پیہم کا عمل ایک دائرے میں دیکھتے ہیں،
ہرچہ بینی بہ جہاں حلقہ زنجیرے ہست
ہیچ جانیست کہ ایں دائرہ باہم نہ رسد
اس سے یہ گمان گزرتا ہے کہ شاید وہ بھی نیٹشے کی طرح ابدی تکرار کے قائل ہوں لیکن جب ہماری نگاہ ان کے اس شعر پر پڑتی ہے،
درہر مژہ برہم زدن ایں خلق جدید است
نظارہ سگالد کہ ہمان است و ہماں نیست
تووہ گمان جاتا رہتا ہے۔ غالب کا یہ تصور ارتقا یا تحرک، ہیگل کے تصور بےکرانگی سے قریب ترہے، جہاں حرکت، دائرے کی صورت میں ہے، نہ کہ سیدھے کھینچے ہوئے خط کی صورت میں۔ لیکن اس کے یہاں ہر دائرہ، ماسبق دائرے پر اضافہ کرتا ہے اور کبھی دہراتا نہیں ہے۔ ہیگل ایک وحدت الوجودی مسیحی فلسفی تھا۔ اس کے بہت سے خیالات کی بازگشت ہمیں غالب کے یہاں ملتی ہے۔ وہ لکھتا ہے، ’’جو ترقی ہمیں تاریخ میں دکھائی دیتی ہے، وہ ہر لمحے میں فی الحقیقت مکمل طور سے موجود ہوتی ہے۔‘‘
یہ خیال ویسا ہی جیسا کہ غالب نے لکھا ہے، ’’ہرچہ نبودہ است نبودہ است، و ہرچہ نخواہد بود نحواہد بود۔‘‘ ایسی صورت میں غالب کے اس شعر کی تشریح،
آرائش جمال سے فارغ نہیں ہنوز
پیش نظر ہے آئنہ دائم نقاب میں
ہیگل کے تصور ارتقا کی روشنی میں کرنی چاہئے، نہ کہ ڈارون یا برگساں کے نظریہ ارتقا کی روشنی میں۔ ذات مطلق، آرائش جمال، حب ذات کے ظہور سے کرتی ہے نہ کہ ازروئے نقص۔ لیکن چوں کہ انسانی ادراک کے نقطہ نظر سے اس میں تحرک یا صفات کے ظہور و عدم کا ایک لامتناہی سلسلہ موجود ہے، اس لئے یہ تصور سکونی نظریہ حیات کے برخلاف بھی ہے۔ غالب دستنبو میں لکھتے ہیں کہ کسی صفت کا ترقی کی منزل سے نیستی محض کو پہنچنا ایک نئی زندگی پانے کی دلیل ہے، ’’نیستی محض بخشندہ ہستی است۔‘‘ اس سے وہ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اگر نیستی محض کے عمل میں یعنی (NEGATION OF NEGATION) کے عمل میں ہمیں ستم سے دوچار ہونا پڑتا ہے تو اسے انگیز کرنا چاہئے کیوں کہ غم کے پردے میں خوشی نہاں ہوتی، ستم گر رسد، غمزہ پنداشتن۔
اس ستم کو محبوب کا ایک غمزہ تصور کرنا چاہئے نہ کہ اس سے نا امید ہونا چاہئے۔ حب تقدیر کا یہ تصور جو گوئٹے اور نیٹشے، دونوں کے یہاں ملتا ہے، اس کی تشریح غالب نے ایک رباعی میں بڑی خوب صورتی سے کی ہے،
چرگر کہ ز زخمہ زخم برچنگ زند
پیداست کہ ازبہرچہ آہنگ زند
در پردہ ناخوشی، خوشی پنہاں است
گاذر نہ زخشم جامہ برسنگ زند
دوسرا انقلابی نتیجہ اس تصور زماں کا یہ ہے کہ لازمانیت اور تسلسلاتی وقت (SERIAL TIME) جسے برگساں نے دوران محض اور تسلسلاتی وقت کا نام دیا ہے۔ ان کا انقسام یا بالفاظ دیگر لاہوت اور ناسوت کا انقسام مٹ جاتا ہے اور پھر اسی کے ساتھ ساتھ زماں، مکاں کے ساتھ اور مکاں، زماں کے ساتھ متحد ہو جاتا ہے۔ ان دونوں میں نہ تو کوئی اول ہے اور نہ آخر اور اگر وقت ایک آن واحد کے باوصف بے کراں ہے تو مکاں بھی ایک مکان واحد کے باوصف بے کراں ہے۔ کیوں کہ ان دونوں کے بے کراں ہوئے بغیر ذات مطلق کے حب ظہور کا عمل جاوداں نہیں ہو سکتا۔
دوسری چیز جو اس ذات مطلق کے تحرک سے ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ چوں کہ وہ ازخویش برخویش جلوہ گستر ہے، نہ کہ اپنے سے خارج میں کسی مادے پر، اس لئے اس کا کوئی غیرنہیں۔ اس کے علاوہ کوئی شے ہے ہی نہیں۔ اس تصور وحدت سے ذات و صفات اور معنی وصورت کی بھی دوئی مٹ جاتی ہے۔ امتیازات برقرار رہتے ہیں لیکن دوئی مٹ جاتی ہے۔ اس سے کائنات میں سلسلہ عمل کی جو تصویر سامنے آتی ہے وہ غالب کے الفاظ میں یہ ہے کہ ’’درکارگاہ عالم ہیچ فساد بے کون وہیچ کون بےفسادنیست۔‘‘
غالب نے اسی تصور زمان ومکاں یا سلسلہ تخریب و تعمیر کے پیش نظر جو پرانا معاشرہ ہندوپاک میں انگریزوں کی ضربت سے مٹ رہا تھا، اس کے مٹنے کا غم نہ کیا بلکہ اس کے انہدام سے جس نئی عمارت کے ابھرنے کے امکانات اور آثار پیدا ہو رہے تھے، اس کا خیر مقدم کیا اور اس رویے کا اظہار ان کے کلام میں اس قدر قوی ہے کہ وہ ان کے محبوب کے خط کے مانند ان سے چھپائے نہیں چھپتا ہے۔ خواہ اس معاشرے کے انہدام میں نواب اسداللہ خاں کا کتنا ہی زیاں کیوں نہ ہو،
خوشم کہ گنبدچرخ کہن فرد ریزد
اگرچہ خودہمہ برفرق من فرد ریزد
مژدہ صبح دریں تیرہ شبانم دادند
شمع کشتند و زخرشید نشانم دادند
یہ پوری غزل اسی رنگ میں ڈوبی ہوئی ہے۔
اس تصور زمان و مکاں کا تیسرا انقلابی نتیجہ یہ تھا کہ ان کے یہاں انسانی وجود، ذات اقدس سے اتحاد حاصل کرکے اس کی خلاقانہ صفت کا حامل بن جاتا ہے۔ اس جذبہ اتحاد سے، ہم اس کے ہیں، ہمارا پوچھنا کیا۔ انسان کی موضوعیت یا داخلیت کی نبض تیزتر ہو جاتی ہے اور وہ انفعالیت جاتی رہتی ہے جو ان سے اگلے شعرا کے کلام میں بالعموم ملتی ہے،
زماگرم است ایں ہنگامہ بنگر شور ہستی را
قیامت می دمد از پردہ خاکے کہ انساں شد
نشاط انگیزی انداز سعی چاک را نازم
بہ پیراہن نمی گنجد گریبانے کہ داماں شد
سراپا زحمت خویشیم از ہستی چہ می پرسی
نفس بردل دم شمشیر و دل در سینہ پیکاں شد
اب وہ انسان کو آفرینش عالم کا مدعا قرار دے کر، اسے کائنا ت کے مرکز میں کرسی نشیں کرتے ہیں،
زآفرینش عالم عرض جز آدم نیست
بگرد نقطہ ما دور ہفت پرکار است
اور پہلے جہاں موت یا عدم کی وحشت دامن گیر تھی، اب اس سے صرف نظر کرتے ہیں، ع موت سے وحشت نہ کر، راہ عدم پیمودہ ہے اور وجود یا ہستی پر زور دیتے ہیں،
عالم ہمہ مرآت وجود است عدم چیست
تاکار کند چشم محیط است کراں چیست
غالب کے نقطہ نظر میں جو یہ تبدیلی پیدا ہوئی، اس کے اسباب میں ان کے کچھ وجدانی تفکر ہی کو نہیں بلکہ بیشتر اس بات کو بھی دخل تھا کہ انہوں نے اپنی چشم نظارہ بیں کو مغربی ایجادات کی دید اور مغربی علوم کی شنید سے ایک نیا ذوق نظارہ بخشا، جس سے ان کی شاعری میں ایک نئے اسلوب اور ایک نئے طرز احساس نے جنم لیا۔ اس سلسلے میں کلکتے کے سفرنے بالخصوص ان کی چشم کشائی کی۔
رفتم کہ کہنگی زتماشا برافگنم
در بزم رنگ و بو نمطے دیگر افگنم
در وجد اہل صومعہ ذوق نظارہ نیست
ناہید را بزمزمہ ازمنظر افگنم
با دیریاں زشکوہ بے داد اہل دیں
مہرے زخویشتن بہ دل کافر افگنم
یہاں سے اہل صومعہ کی صحبت نشینی اور اس کی رہبانیت دونوں ترک اور شکوہ بے داد اہل دیں کی کافر ماجرائی کا آغاز ہوتا ہے۔ رہبانیت کی بنیاد خواہ اس کا تعلق کسی مذہب سے ہو یا مسلک سے، اس بات پر کہ ’’وجودک ذنب‘‘ یعنی تیرا وجود برا ہے، شر ہے، ناپاک ہے۔ زہد و اتقا اس ناپاک شے سے پرہیزگاری اور لذت دنیاوی سے ترک میں ہے۔ زندگی تحصیل ذات اور توجد ذات کی شئے نہیں بلکہ استغفار، گریہ نیم شبی، طاعت اور پرہیزگاری کی شے ہے۔ چنانچہ دنیا کا بہت سا ادب اس تصور حیات سے بھرا پڑا ہے۔
مگر ایک حقیقی اور سچے شاعر کو جہاں زندگی کی سچائیوں کو دریافت کرنے کی طلب ہوتی ہے، وہاں اسے یہ جستجو بھی ستاتی ہے کہ کیا مقدس، غیر مقدس، پاک، ناپاک ہے۔ اگر کسی شاعر نے زندگی کی پیشانی پر آب زم زم نہیں چھڑکا ہے، اس کے ماتھے پر قشقہ نہیں کھینچا ہے تو وہ زندگی کے تقدس کا شاعر نہیں ہو سکتا۔ اسے زندگی سے ملوث ہونے کا احساس گناہ ستاتا رہےگا۔ رہبانیت یا تصوف کا وہ مسلک جس میں زندگی کو شریا پاداش گناہ تصور کیا گیا، اس مسلک میں زندگی کو کبھی بھی عطیہ خداوندی، اس کے جو دو سخا کی ایک نشانی قرار نہیں دیا گیا۔ چنانچہ اسی کا ردعمل تھا کہ ایرانی شعرا ’’کیش گبرکی‘‘ کی طرف مائل ہوتے رہے جس میں زندگی کو ایک عطیہ خداوندی قرار دیا گیا ہے اور عالم کو ’’نہیں‘‘ کہنے کی بجائے ’’ہست‘‘ کہا گیا ہے۔ چنانچہ عطار کہتے ہیں،
زمستی خرقہ برآتش نہادم
میان گبر کاں زنار بستم
اور اسی کیش گبرکی پر رومی بھی فخر کرتے ہیں،
کہ کیش گبرکی مارا بحمداللہ میسر شد
اس ’’کیش گبرکی‘‘ میں کشش ہمارے شعرا اس لئے محسوس کرتے ہیں کہ اس کیش میں وقت جواں اور ایک ابدی ہنوز ہے۔ جاوداں اور پیہم رواں دواں ہے اور عالم ہست، زندگی بے کراں، اور ہردم جواں ہے۔ یعنی زندگی وقت کے ساتھ اور وقت زندگی کے ساتھ ہے اوریہ زندگی استغفار اور توبہ کی کوئی شئے نہیں بلکہ توجد ذات اور ایک ابدی نشاط کی شے ہے۔ چنانچہ ہمارے مرزا غالب نے بھی اپنے کو ایک ’’گبر مسلمان نما‘‘ قرار دیتے ہوئے اس کوچے کی سیر انہی اقدار کی تلاش میں کی ہے،
سنگ وخشت از مسجد ویرانہ می آرم بہ شہر
خانہ در کوئے ترسایاں عمارت می کنم
چنانچہ حالی کی پندو موعظمت کے جواب میں غالب کی یہ منفرد آواز ہمارے ادب میں پہلی بار سنائی پڑتی ہے،
دم از ’’وجودک ذنب‘‘ زدند بے خبراں
چساں عطیہ حق را گناہ ماگویند
یہاں غالب نے زندگی کو عطیہ حق قرار دیا ہے اور یہ زندگی ان کے نزدیک ’روز نا آغاز ‘سے تا’ انجام جاوید پیوند بے کراں ہے اور چوں کہ یہ زندگی خدا کے جود و سخا کی ایک نشانی ہے۔ یہ تمام تر مقدس ہے، اس کا عطیہ اور غیر مقدس ؟ ناممکن۔ چنانچہ ان تصورات حیات کے تحت دوسر ی دنیا کی تردید کرتے ہوئے وہ اس مقدس زندگی کو ایک نئے تصور اخلاق دینے کی ذمہ داری بھی اپنے اوپر عائد کرتے ہیں، اگر زمان ومکاں ایک ہے، ناقابل تقسیم ہے تو اس میں بہشت لازماں اور دنیائے گزراں کی تقسیم کیسی؟ اور اگر بہشت اور دوزخ محسوس جگہیں نہیں ہیں تو پھر طاعت و بندگی کی ’’مزدجوئی‘‘ یا زاہد کی طمع خام کے کیا معنی ہیں،
کیا زہد کو مانوں کہ نہ ہو گرچہ ریائی
پاداش عمل کی طمع خام بہت ہے
طاعت میں تارہے نہ مے انگبیں کی لاگ
دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کربہشت کو
غالب سے پہلے بھی ہمارے صوفیہ کرام نے دوزخ وجنت اور حشر و نشر کو احوال سے تعبیر کیا ہے اور غالب کے بعد اقبال نے بھی اپنے کلام اور خطبات میں ان چیزوں کو احوال ہی سے تعبیر کیا ہے۔ چنانچہ ’’جاوید نامے‘‘ میں بہ زبان رومی اپنے کارنامے کا ماحصل یہی قرار دیتے ہیں،
حرف بااہل زمیں رندانہ گفت
حور وجنت رابت و بت خانہ گفت
اب سوال یہ ہے کہ اگر زندگی ایک عطیہ خداوندی یا جود خداوندی ہے، اس کے حب ذات کے اظہار کا ایک آزاد عطیہ ہے، نہ کہ کسی گناہ کی سزا ہے اور نہ کسی طاعت و بندگی کا اجر ہے، تو پھر اس زندگی کا کیا اخلاق ہے ؟ یا یہ کہ اس کا کیا اخلاق ہونا چاہئے۔ اس سوال کا جواب غالب کے کلام سے ڈھونڈنا ہے۔ ایک ایسے شخص کے کلام سے جو خیروشر کو قضا و قدر سے جانتا ہو اور جو فلسفہ جبر کا قائل ہو،
غالب از آنکہ خیروشر جز بقضا نبودہ است
کار جہاں زپر دلی بے خبرانہ کردہ ایم
یہ بات کہ غالب فلسفہ جبر پر ایمان رکھتے تھے، اس کا اقرار وہ اپنے ایک خط میں بھی کرتے ہیں، ’’برخلاف عقیدہ قدر، میں جبر کا قائل ہوں۔‘‘ لیکن ان کا تصور جبر، آئین کے جبر کا ہے، نہ کہ ناقابل تعین منشائے ایز دی کا،
بہ آئین در آئینہ انجمن
مرا کردہ اند آشکارا بہ من
اور اسی آئین ہستی کایہ قانون بھی ہے کہ جہاں انسان کو ’’بلائے جبر‘‘ ملی ہے، وہاں اس کو ’’رنج اختیار‘‘ بھی دیا گیا ہے،
دو برق فتنہ نہفتند درکف خاکی
بلائے خبر یکے، رنج اختیار یکے
’’بلائے جبر‘‘ جوشے کہ لازمی اور ابدی ہے، اس کی ناقابل تسخیر قوت سے عبارت ہے اور ’’رنج اختیار‘‘ آزادی انتخاب کی تشویش سے عبارت ہے۔ چنانچہ یہی سبب ہے کہ غالب کے افکار میں انفعالیت نہیں ہے۔ وہ جبر کے مقابلے میں انسانی ہمت کو بڑھاو ادیتے ہیں،
ہمت اگربال کشائی کند
صعوہ تواند کہ ہمائی کند
لیکن کیا یہ ہمت جو رنج اختیار سے پیدا ہوتی ہے اور جوغالب کے الفاظ میں ’’یکے ازشہود حق‘‘ ہے، بلائے جبر کو ٹال سکتی ہے ؟ یہ سوال جبر و اختیار کا ایک ایسا ڈائی لیما ہے جس کا کوئی حل بجز اس کے نظر نہیں آتا کہ ہم ہیگل کے الفاظ میں آزادی کو تحسین لابدی کانام دیں اور اس طرح جبر کو آزادی میں تبدیل کر دیں۔ لیکن اس بلائے جبر سے آزادی حاصل کرنے کا ایک اور بھی تصور ہے جسے گوئٹے نے پیش کیا ہے۔ وہ ایک نظم میں کہتا ہے،
’’تمام قوتیں آگے بڑھنے اور پھیلنے کی کوشش کرتی ہیں۔
اوروہ ’’مجبوربہ رضا‘‘ ہیں۔ آگے بڑھنے اور دور دور تک پھیلنے کے لئے۔
لیکن ہمیں ہر طرف رکاوٹوں اور پسپائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے،
پھر بھی ہم دنیاکے دھاروں کی لہروں میں بہے چلے جاتے ہیں،
اس اندرونی طوفان اور بیرونی جوار بھاٹے میں ایک ہی وعدہ یا و عید ہے، جس کو سمجھنا مشکل ہے،
اس جبر سے جوسارے موجودات کو اپنے بازوؤں میں جکڑے ہوئے ہے، اس سے آزادی، اپنے اوپر غالب آنے میں ہے۔‘‘
آزادی سے متعلق اسداللہ خاں غالب کا بھی یہی تصور تھا، اپنے اوپر غالب آنے کا، غالب علی کل غالب۔ اپنے اوپر غالب آنا، بلائے جبر سے آزادی ہی نہیں بلکہ زندگی کا سب سے بڑا تقوی بھی ہے۔ وہی متقی ہوتا ہے جو اپنے اوپر غالب آتا ہے۔ غالب کا دل زندگی کے اس تقوے کی طرف سخت مائل تھا، لیکن افسوس کہ وہ ننگ زاہد سے کافر ماجرائی میں پڑ گئے،
سخن کہ تہہ مراہم دل بہ تقوی مائست اما
زننگ زاہد افتادم بہ کافر ماجرائیہا
زاہد کا ننگ زہداپنے زہد کے صلے اجرت طلبی میں تھا۔ اس پر دوسرا الزام یہ تھا کہ وہ فطرت کو کم نگہی سے دیکھتا، اسے شریا گناہ تصور کرکے اس کی نفی کرتا، موت سے پہلے اپنی موت بلاتا، اپنی فطرت کو چھپاتا، دباتا اور طرح طرح کی جسمانی اذیتوں میں اپنے کو مبتلا کرتا۔ اس زہد سے زندگی بے مایہ اوربے ذائقہ بن جاتی۔ اس قسم کا زہد مفلسی اور بےچارگی کو فروغ دیتا اور بڑا عیب اس زہدکا ہے کہ اس کی کمین گاہ میں شر موجود رہتا ہے، ذرا سی غفلت ہوئی اورشر نے آدبوچا،
کہاں مے خانے کا دروازہ غالب اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کہ کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
اس کے برعکس جو زہد کے اپنے اوپر یا اپنے نفس پر غالب آنے کا ہے، وہ پرمایگی حیات اور مکمل تحصیل حیات سے پیدا ہوتا ہے۔ اپنے اوپر غالب آنے کے عمل میں انسان اپنی فطری قوتوں کوکسی اعلی مقصد کے حصول یا تکمیل کی راہ پر لگاتا ہے۔ اس عمل میں فطرت مرتفع ہوکر ادنی سے اعلیٰ میں مبدل ہوتی ہے۔ یہ عمل نفی فطرت کا نہیں ہے بلکہ فطرت کو کسی اعلیٰ صورت میں مبدل کرنے کا ہے۔ یہ زہدانسان میں باوصف ساماں پیدا ہوتا ہے پرمائگی حیات سے پیدا ہوتا ہے اور پرمائگی حیات میں اضافہ کرتا ہے، نہ کہ مفلسی حیات سے پیدا ہوتا ہے اور مفلسی حیات کو بڑھاتا ہے۔ غالب کا زہد اسی کیفیت کا حامل ہے،
اسد وارستگاں باوصف ساماں بے تعلق ہیں
صنوبر گلستاں میں بادل آزادہ آتا ہے
بے تعلقی، بشرطیکہ وہ باوصف ساماں ہو، نہ کہ ازروئے مفلسی، غالب کے یہاں آزادی یا آزادہ روی کادوسرا نام ہے۔ چنانچہ وہ اسی بے تعلقی کے رشتے سے ایک صوفی تھے لیکن ان کا یہ تصوف برگساں کے بیان کردہ مسٹی سزم کی طرح ’’حرکی‘‘ اور تحصیل حیات کی قدروں کو فروغ دینے والا ہے۔ ان کا یہ تصوف کشادگی دل و دماغ کی قدروں کو حامل تھا۔ ان کا یہ تصوف لذت کشی حیات میں مانع نہ آتا۔ ان کا یہ تصوف نہ تو آئین برہمن کا تھا اورنہ اہل صومعہ کا۔ یہ تصوف ان میں پردلی حیات سے پیدا ہوا تھا۔
یہ ان کے اس وجدان کا عطیہ تھا کہ زندگی جود خداوندی ہے، مقصود بالذات ہے، توجد ذات کی شے ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ انسان ’’فردرفتہ لذت‘‘ نہ ہو جائے ورنہ اس کا اپنے اوپر غالب آنانا ممکن ہو جائےگا اور اس کا اپنے اوپر غالب آنا اس لئے ضروری ہے کہ اس عمل کے بغیر وہ اپنے ادنی کو ارفع میں، اپنے تانبے کو سونے میں تبدیل نہیں کر سکتا۔ یہ دیکھئے کہ اس تصوف میں جو ایک تعلیم ترک ہے، اس کی صورت غالب کے ہاں کیا ہے، وہ کہتے ہیں،
کم خود گیر وبیش شو غالب
قطرہ از ترک خویشتن گہراست
اور پھر اسی کے ساتھ ساتھ یہ شعر بھی پیش نظر رہے،
توفیق بہ اندازہ ہمت ہے ازل سے
آنکھوں میں ہے وہ قطر ہ جو گوہر نہ ہوا تھا
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ غالب ’’ترک خویشتن‘‘ کے قائل تھے تویہ غلط فہمی کیوں کر پیدا ہوئی کہ ان کے فلسفے میں عیش ہی عیش ہے اورخودگری کی کوئی دعوت زحمت نہیں ہے۔ اس غلط فہمی کا باعث مرزا حاتم علی مہر کے نام غالب کا وہ خط ہے، جسے انہوں نے ان کی ہم خوابا ’’چناجان‘‘ کی موت پر ان کو پرسا دیتے ہوئے لکھا تھا۔ اس خط میں ایک جملہ یہ ہے، ’’ابتدائے شبا ب میں ایک مرشد نے یہ نصیحت کی ہے کہ ہم کو زہد وورع منظور نہیں۔ ہم مانع فسق و فجور نہیں، کھاؤ پیو، مزے اڑاؤ۔ مگر یاد رہے مصری کی مکھی بنو، شہد کی مکھی نہ بنو، سو اس نصیحت پر عمل رہا ہے۔‘‘
غالب نے اس مفہوم کو کہ مصری کی مکھی بنو، شہد کی مکھی نہ بنو، اپنے فارسی کے شعر میں بھی ادا کیا ہے،
ورد ہر فرد رفتہ لذت نہ تواں بود
برقند نہ برشہد نشیند مگسِ ما
اس کا مفہوم یہ ہے جو مکھی کہ شہد پر گرتی ہے وہ اسی میں فنا ہو جاتی ہے، اس کے برعکس جو مکھی کہ قند پر بیٹھتی ہے، وہ اس سے لذت یاب بھی ہوتی ہے اور اس سے بے تعلق بھی ہو جاتی ہے، یعنی مصری چاٹ کر اڑ جاتی ہے۔ یہ تمثیل کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے، کیونکہ اس سے بھونرے اور پھول کا بھی تصور ابھرتا ہے، جو ہمارے یہاں بے وفائی کا تصور ہے۔ چنانچہ اگر ہم اپنے ذہن کو بھونرے اور پھول کی طرف جانے سے مانع رکھیں اور غالب کے مندرجہ بالا فارسی شعر کو ملحوظ خاطر رکھیں تو یہ بتانا شاید بے محل نہ ہوگا کہ فسق و فجور کی اور بات ہے ورنہ مسلک عشق میں بے وفائی غالب کا وتیرہ نہ تھا۔ ایک ایسے ہی خط کے جواب میں جو مظفر حسین خاں نے غالب کو ان کی محبوبہ کی موت پر لکھا تھا، غالب لکھتے ہیں (خط کا اردو ترجمہ یہ ہے)،
’’ہرچند میں یہ جانتا ہوں کہ اختلاط کے اندازہ داں، محبت میں زیادتی پسند نہیں کرتے اور بے گانگی کے ادا شناس محبت کی دل کشائی سے تعلق رکھتے ہیں لیکن کیا کروں کہ وفا کے باب میں نئے آئین کا اختیار کرنا اور بد معاملہ اور چھچھورے لوگوں کی طرح دو جگہ دل کو لگانا میرا شیوہ نہیں۔ افسوس، صد افسوس، یہ بات بے خودی میں میرے دل سے نکل گئی۔‘‘
کیا اس بیان کے بعد بھی وفا کے باب میں ان کے بارے میں کسی کو شبہ رہ جاتا ہے اور کیا اس سے اس کی وضاحت نہیں ہوتی کہ مصری کی مکھی کی امیج (IMAGE) کا مفہوم وہ نہیں ہے جو بعض حضرات بیان کرتے ہیں۔ اس طرح کی غلط فہمی ان کے ایک اور شعر سے بعض حضرات کو پیدا ہوئی ہے۔ وہ شعر یہ ہے،
رہا آباد عالم اہل ہمت کے نہ ہونے سے
بھرے ہیں جس قدر جام و سبو مے خانہ خالی ہے
اس شعر میں کسی کی ہوس ناکی کی نہیں، بلکہ ترک خویشتن کی تعلیم ہے۔ اہل ہمت سے مراد وہ مستغنی لوگ ہیں جو اپنے کو پر دلی سے لذات دنیاوی سے بے تعلق کر لیتے ہیں۔ غالب کا یہ ترک اپنے ’’کم‘‘ کو ’’بیش‘‘ کرنے اور اپنے ادنی کو اعلی میں مبدل کرنے کا ہے۔ اس کیفیت کو انسان اس وقت پہنچتا ہے جب کہ خود گری کے عمل میں وہ اپنے اوپر غالب آتا ہے۔ انسان صرف فطرت خارجیہ ہی کا موضوع نہیں، بلکہ اپنی فطرت کا بھی موضوع ہے۔ وہ جہاں زندگی کو زیادہ سے زیادہ حسین بناتا جاتا ہے وہاں اس عمل میں اپنے کو بھی ایک حسین تر شخصیت کا اسلوب دیتا جاتا ہے۔ غالب اسی جمالیاتی طرز حیات کے قائل تھے اور زندگی کو جمالیاتی نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں،
اسد بہار تماشا ئے گلستاں حیات
وصال لالہ عذران سرو قامت ہے
زندگی میں حسن متعدد اقدار سے پیدا ہوتا ہے۔ غالب نے ان میں سے وفاداری اور دوستی کی قدروں پر بہت زیادہ زور دیا ہے اور اگر بہ نظر غور دیکھا جائے تو یہ دونوں قدریں ابدی ہیں، انسانی زندگی میں بنیادی اقدار کی اہمیت رکھتی ہیں، ع ہستی نہیں جز بس شن پیمان وفا ہیچ۔ اور ہم یہ بتلا چکے ہیں کہ وہ اس قدر پر قائم بھی رہے، اس کی طرف بھی اشارہ کیا جا چکا ہے کہ غالب کو جہاں یہ اصول حیات پسند تھا کہ سچائی کو گفتار و کردار اور افکار ان سب میں راہ دینی چاہئے، وہاں انہیں کردار اور گفتار کی مطابقت بھی بہت عزیز تھی،
باخرد گفتم نشان اہل معنی باز گوئے
گفت گفتارے کہ باکردار پیوندش بود
غالب خود اس معیار پر پورے اترے کہ نہیں، اس کا محاسبہ تو وہ لوگ کریں گے جن کے دامن کا ہر تار ثابت و سالم ہو، لیکن یہ کیا کم ہے کہ انہوں نے اپنے کسی عیب کو چھپایا نہیں، بلکہ بسا اوقات اپنے عیوب کو طشت ازبام کیا ہے اور اپنی بدنامی کا ڈھنڈورا خود ہی پیٹا ہے،
ہوگا کوئی ایسا بھی کہ غالب کو نہ جانے
شاعر تو وہ اچھا ہے، پہ بدنام بہت ہے
شاعر کوئی راہ نما نہیں ہے بلکہ سفیر حیات کا رفیق ہوا کرتا ہے۔ وہ آدمی سے آدمی کے لہجے میں بات کرتا ہے اور اپنی ہی نسبت سے زندگی کے جھوٹ اور مکر و فریب کا پردہ چاک کرتا ہے۔ وہ اپنی خود انکشافی سے دوسروں کے دل میں اترتا ہے۔ اس فن میں غالب نے جو کمال حاصل کیا ہے وہ شاید دنیا کے کسی بھی فنکار کو حاصل نہیں ہے۔ وہ آپ اپنا سقراط اور شیخی خورہ دونو ں ہی ہے۔ لیکن غالب کے فن کا یہ ایک پہلو ہے۔ غالب کی شخصیت بڑ ی ہمہ گیر اور پہلودار تھی۔ وہ ایک رند ہزار شیوہ تھا۔ فطرت نے اسے اپنا آئینہ راز بنا رکھا تھا۔ اس کے اس آئینے میں پوری فطرت انسانی جلوہ گر تھی مع اپنی کمزوریوں اور بلندیوں کے۔
یوں تو ہماری شاعری کا بیشتر تعلق عشق و محبت کے جذبے سے ہے۔ لیکن غالب نے جس طرز محبت سے ہمیں آشنا کیا ہے اس میں صرف جذبہ سپردگی ہی نہیں، ع دل پھر طواف کوے ملامت کو جائے ہے، بلکہ خودداری اور خودگری بھی ہے،
بلا سے گر مژہ یار تشنہ خوں ہے
رکھوں کچھ اپنی بھی مژگان خوں فشاں کے لئے
غالب کی اس خودشناسی اور خودگری نے اس کے نغمات محبت میں وہ جذب دروں پیدا کیا ہے، جس سے میر کی عشقیہ شاعری بھی کبھی کبھی ماندسی نظر آتی ہے۔ لیکن اس رندہزار شیوہ کی یہ صرف ایک عشوہ گری ہے۔ وہ ایک طشت آفتاب برسر ہوش، ہم زبان سروش، اپنی گرم روی اور گرم اندیشگی سے ہماری رہ گزار ہستی کو ہموار بھی کر گیا ہے،
خارہا ازاثر گرمی رفتارم سوخت
منتے برقدم راہروان است مرا
میں نے ان کے اسی احسان کا ذکر کیا ہے۔ غالب نے اپنی اسی گرم روی میں جہاں بہت سے بت توڑے ہیں، زندگی کے بارے میں نئے سوالات اٹھائے ہیں، وہاں انہوں نے ہمارے بہت سے پرانے اعتقادات کو چیلنج بھی کیا ہے، ع کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگن عشق۔ ان کی اس آواز پر ابھی تک کوئی مرد میدان ہم میں سے اٹھا نہیں، لیکن یورپ میں انہی سوالات پر جو غالب نے اٹھائے ہیں اور انہوں نے جو فکری چیلنج پیش کیا ہے، ان پر بڑی سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے۔ اس حقیقت سے ان کی فکر کی ہمہ گیری اور آفاقیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ وجودی عرفانیات، وجودی نفسیات اور وجودی اخلاقیات کے جو موتی غالب نے بکھیرے ہیں وہ اپنی قدر و قیمت پوری دنیا کے لئے بلاتفریق مذہب وملت رکھتے ہیں۔
ہرچند کہ یہ صحیح ہے کہ غالب ’’منطق کا مزہ‘‘ بقول خود ’’ابدی لائے تھے‘‘ لیکن اس سے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ وہ مفکر اول اور شاعر اس کے بعد تھے، اس کے برعکس وہ شاعر اول اور آخر تھے۔ انہوں نے اپنی اس شاعری سے جہاں نہاں خانہ دل میں نقب زنی کی ہے، اس کے سچ اور جھوٹ، مکر و فریب کوبے نقاب کیا ہے، وہاں اپنے ویژن اور مستقبل آشنا تخیل سے اس گلشن ناآفریدہ کی ایک پر آرزو تصویر بھی پیش کی ہے جس کی نغمہ سرائی کا ان کادعویٰ تھا۔ ان کے اس ویژن میں کوئی نفرت، بے گانگی اور عصبیت نہیں، بلکہ مہر و وفا، خرمی، یک جائی، انسانیت اور آشتی باہم کا پیغام دیا ہے،
یارب بہ جہانیاں دل خرم دہ
در دعویٰ جنت آشتی باہم دہ
شداد پسر نداشت، باغش از تست
آں مسکن آدم بہ بنی آدم دہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.