مرزا غالب نے لکھا ہے کہ انہیں شعروشاعری کا شوق اسی زمانہ سے ہوا جب سے کہ وہ ’’لہوولعب‘‘ اور ’’فسق وفجور‘‘ میں پڑ گئے، گویا یہ شوق ان کی شخصیت کے فروغ کی علامتوں میں سے ایک علامت تھی۔ ا ن کے ابتدائی کلام کے نمونے ہمارے سامنے ہوتے اور انہیں وقت تصنیف کے اعتبار سے ترتیب دیا جا سکتا تو ہم اندازہ کر سکتے کہ ان کی جولانی انہیں کن سمتوں میں کتنی دور تک لے گئی اور انہیں اپنی خاص صلاحیتوں اور اصل ذوق کا احساس کس طرح ہوا۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ غالب نے اپنا سارا کلام، ردی کو ردی سمجھ کر بھی پڑا نہیں رہنے دیا اور پہلے انتخاب میں جو کچھ انہوں نے شامل نہیں کیا، وہ ہمیشہ کے لیے ضائع ہو گیا ہے۔ جو رہا سہا امکان غالب کی ادبی اور جمالیاتی نشوونما کا پتہ لگانے کا تھا، وہ غزلوں کو ردیف وار ترتیب دینے کے دستور نے باقی نہ رکھا۔ اب کیا معلوم کہ یہ شعر پندرہ سولہ یا بیس بائیں برس کی عمر میں کہا گیا تھا،
عروج نا امیدی چشم زخم چرخ کیا جانے
بہار بے خزاں از آہ بے تاثیر ہے پیدا
اورجب کہا گیا تھا تو غالب آہ بے تاثیر کی روحانی اورفلسفیانہ گہرائیوں سے واقف تھے یا محض الفاظ جوڑنے کی ایک ترکیب ان کی سمجھ میں آئی تھی۔
غالب کے اردو کے پہلے اور دوسرے دور کے کلام میں بعض خصوصیتیں مشترک ہیں، جن میں سب سے نمایاں یہ ہے کہ وہ چند خطوط کھینچ کر چھوڑ دیتے ہیں اور تصویر کو مکمل کرنا پڑھنے یا سننے والے پر چھوڑ دیتے ہیں۔ کبھی خطوط ایسے ہوتے ہیں جن سے ایک سے زیادہ تصویریں بن سکتی ہیں، کبھی ایسے کہ جس طرح بھی جوڑیے اورتوڑیے، کوئی واضح تصویر بنتی ہی نہیں۔ دربار میں رسوخ پیدا ہونے کی وجہ سے غالب نے اپنی انفرادیت ترک نہیں کر دی، حسن کی زلفوں میں عقل کے پیچ ڈالتے رہے، لیکن سامعین کا لحاظ رکھنا بھی ضروری تھا، خاص طور پر بہادرشاہ کی بوڑھی رومانیت کا۔ یہی سامعین کا لحاظ ہے جس نے غالب کو محاورے برتنے اور عام مذاق کے مطابق شعر کہنے پر آمادہ کیا، اسی نے انہیں ہردل عزیز بنا دیا۔
ان کے ابتدائی دور کے اعلیٰ کلام میں وہ شان ہے جو پہاڑ کی چوٹی کی چمکتی ہوئی برف میں ہوتی ہے۔ دوسرے دور میں یہ برف پگھلتی، چشمے بن کر نیچے بہتی ہے، صرف چوٹی نہیں بلکہ پورا پہاڑ سامنے آجاتاہے، جنگل نظر آتے ہیں، ہوائیں چلتی ہیں، چشمے گیت گاتے ہوئے وادی میں اترتے ہیں۔ مگر بلندی پھر بلندی ہے، آبشار اور سبزہ زار اس کے نیچے ہی ہوتے ہیں۔ یہ ایک قدرتی بات تھی کہ غالب پر دوسرے شاعروں کا اثر ہو۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے، دنیا کے کسی شاعر نے کسی دوسرے شاعر کی عظمت کا اس طرح اعتراف نہیں کیا ہے، جیسے کہ غالب نے بیدل کا،
جوش دل ہے مجھ سے حسن فطرت بیدل نہ پوچھ
قطرہ سے میخانہ دریائے بے ساحل نہ پوچھ
بیدل کے طرز پر اردو میں شعر کہنے کے ارادے نے غالب کو مشکل پسند بنا دیا۔ کبھی اس مشکل پسندی کو خیال سے کوئی نسبت نہیں ہوتی ہے۔ مثلاً ایک جگہ ایک عورت کے جھک کر سلام کرنے کی تصویر ان الفاظ میں کھینچتے ہیں، گویا ایک خوبصورت موسل سے خطاطی کی مشق کر رہے ہیں۔
سروکار تواضع تاخم گیسورسانیدن
بسان شانہ زینت ریز ہے دست سلام اس کا
اس شروع کے دور میں غالب کا کلام لوگوں کو حیرت میں ڈال دیتا ہوگا۔ شعر سن کر لطف آنا چاہئے، اس کے بجائے ان کے علم اور عقل کا امتحان ہوتا تھا، لیکن غالب کے کلام کو نظرانداز کرنا بھی ممکن نہ تھا۔ اس کا مطلب تو یہ ہوتا کہ اپنی عاجزی کا اعتراف کیا جائے، کہا جائے کہ غالب کی زبان میں فارسی زیادہ ہے، اتنی فارسی ہم نہیں سمجھتے، غالب عام فہم نہیں ہیں اور ہماری سمجھ بس اتنی ہے جتنی کہ عام طور پر لوگوں میں ہوتی ہے۔ غالب نکتہ شناسی کا مطالبہ کرتے ہیں، ہماری رسائی صرف ان احساسات تک ہے جو معمولی علم اور تجربہ پیدا کرتا ہے، ہم انہیں کیفیتوں کو جانتے ہیں جو سب کے دلوں پر گزرتی ہیں، غالب کی معنی آفرینی ہمیں معمہ آفرینی معلوم ہوتی ہے اور معمے حل کرنے کی ہم میں قابلیت نہیں۔ اس طرح لوگ سننے اورسمجھنے کی کوشش کرنے پر مجبور ہو جاتے ہوں گے۔ غالب نے فارسی اور اردو کو ایک نئے ڈھنگ سے ملاکر اپنی الگ اور انوکھی زبان بنائی تھی، جس میں ایجاز کی حیرت انگیز گنجائش تھی اور جو شعر کے میدان کو معنی آفرینی کے لیے وسیع سے وسیع تر کر دیتی تھی۔ یہ معنی آفرینی، یہ دل ودماغ میں نئی کیفیتیں، نئے ہنگامے پیدا کرنے والی طاقت کیا تھی؟ پہلے دور کا ایک شعر مثال کے طور پر لیجئے۔
کلفت ربط این و آں غفلت مدعا سمجھ
شوق کرے جو سرگراں، محمل خواب پاسمجھ
کہا جاتاہے کہ انسان کو دنیا اور عاقبت کے درمیان ربط اور ہم آہنگی پیدا کرنا اور قائم رکھنا چاہئے۔ لیکن غالب کے نزدیک اس کی کوشش کرنا انسانی زندگی کے مدعا اور مقصد سے غافل ہو جانے کے برابر ہے۔ زندگی کا مدعا یہ ہے کہ انسان شوق کو رہنما بنائے۔ جوش عشق، حسن پرستی، تخیل کی جولانی کو اصل حیات سمجھے، اگر کبھی تھکن معلوم ہو تو یہ نہ خیال کرے کہ اس کا سبب مسلسل سرگرانی ہے کہ جو چلتا رہے اس کا پیر نہیں ہوتا، البتہ جو چلتے چلتے رک جائے، بیٹھ جائے، اس کا پیر سو جائےگا۔ سرگرانی شوق کی وجہ سے نہیں، سستانے کے خیال سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ خیال دل سے نکل جائے تو سرگرانی نہ ہوا کرےگی۔
بعض لوگ کہیں گے کہ یہاں غالب نے دین کے ایک بنیادی اصول سے انکار کیا ہے۔ اخلاقی بےلگامی کی دعوت دی ہے۔ بعض مطالبہ کریں گے کہ شوق کی اور اس بےمنزل سفر کی وضاحت کی جائے جو شوق کا نتیجہ ہوتا ہے، بعض اس شعر کو شعر نہ مانیں گے۔ تینوں قسم کے تاثرات کا سبب سمجھ میں آ سکتا ہے۔ جو لوگ دین کو انسان سے اور انسان کو دین سے الگ کرکے منطق کا حق ادا کرنا چاہتے ہیں، جن لوگوں کا عقیدہ ہے کہ زندگی میں اخلاقی نظم اور ضبط ہونا چاہئے، وہ بھول جاتے ہیں کہ یہ نظم اور ضبط مقصد نہیں ہے، ذریعہ ہے آگے کی منزلوں تک پہنچنے کا۔ جو لوگ تصورات کی وضاحت چاہتے ہیں انہیں تصورات سے زیادہ وضاحت سے مطلب ہوتا ہے۔
جن لوگوں کو اس شعر میں شعریت نظر نہیں آتی وہ شعر سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں، اپنے جذبات کے لیے ایک محرک چاہتے ہیں۔ طبیعت کو ہلکا کرنا، غم روزگار کو غم عشق کے سہارے سے بھلانا چاہتے ہیں، انہوں نے زندگی کو جیسی کہ وہ ہے تسلیم کر لیا ہے، امکانات پر غور نہیں کرتے، آدمی جس حد تک انسان بن گیا ہے اسے کافی سمجھتے ہیں، اس کے آگے انہیں اور کچھ نظر نہیں آتا۔ غالب نے آزاد انسانیت کی تلاش میں کیا کچھ محسوس اور معلوم کیا، یہ وہ ہمیں نہیں بتاتے۔ شاعر کا منصب رہنمائی کرنا نہیں ہے بلکہ عالم امکانات کی سیر کا ایسا شوق پیدا کرنا کہ آدمی خود بےچین ہوکر نکل کھڑا ہو۔ اسی ابتدائی دور کی ایک غزل ہے جس کے چار شعر کیفیتوں کا ایک سلسلہ پیش کرتے ہیں،
مژہ پہلو ے چشم، اے جلوہ ادراک باقی ہے
ہوا وہ شعلہ داغ اور شوخی خاشاک باقی ہے
گداز سعی بینش شست وشوسے نقش خود کامی
سراپا شبنم آئیں، یک نگاہ پاک باقی ہے
چمن زار تمنا ہو گیا صرف خزاں لیکن
بہار نیم رنگ آہ حسرت ناک باقی ہے
نہ حیرت چشم ساقی کی نہ صحبت دور ساغرکی
مری محفل میں غالب گردش افلاک باقی ہے، 1
بظاہر ان اشعار میں یاس وحرماں کی کیفیتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایسا بیان اور شاعروں نے شاید زیادہ صاف اور سلجھی ہوئی زبان میں کیا ہوگا لیکن انہیں متفرق اشعار کے بجائے قطعہ بند سمجھئے تو ان میں ایک مکمل کیفیت کا نقشہ ملتا ہے۔ شاعر کو حسن کامل کا دیدار نصیب ہوا ہے، بجلی سی گری ہے، آنکھیں اندھی ہو گئی ہیں، نظر جل گئی ہے، بس کچھ پلکیں سلگتی رہ گئی ہیں اور جب شعلہ نہیں رہا تو ان خاشاک کا سلگتے رہنا محض شوخی ہے۔ مگر آنکھ دیکھنے کے لیے بنی تھی، وہ اپنا منصب کیسے چھوڑ دے، وہ دیکھنے کی کوشش میں آنسو بہاتی رہتی ہے اور آخر میں دھلتے دھلتے ایک نگاہ پیدا کر لیتی ہے جس میں شبنم کی سی چمک ہے۔ اسی بات کو دوسری طرح کہئے تو گویا چمن کی شادابی خزاں پر نثار ہو چکی ہے، اس کا نثار ہو جانا ضروری تھا کہ خزاں تو لازمی طور پر آتی ہی ہے اور اب تمنا بھی کیا کر سکتی ہے، سوا اس کے کہ ایک بہار پیدا کرے جس کے رنگ پھیکے ہوں گے اور ویسے ہی بیدم جیسے حسرت ناک آہیں۔ یا ایک اور مثال لیجئے تو کہا جا سکتا ہے کہ ساقی کو حیرت بھری نگاہوں سے دیکھنے اور ایسی صحبتوں میں بیٹھنے کا زمانہ گیا جہاں ساغر کا دور چلتا ہو۔ اب جو کچھ ہے آسمان کی گردش ہے، بے معنی، بے سود۔
غالب کو سمجھنے کے لیے اس کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ شاعری ان کے لیے اثبات خودی کا ذریعہ تھی اور ان کی خودی کا بھی ایک خاص رنگ تھا۔ ان کا دل اپنی جولاں گاہ کے لیے وہ وسعت، وہ شدت، نشاط کی وہ کیفیت چاہتا تھا جس کی مثال گردباد یعنی بگولا ہے، ایسی ہی کیفیت سے ان کی طبیعت کو عقدہ کشائی کی لذت نصیب ہو سکتی تھی،
پہن گشتن ہائے دل بزم نشاط گرد باد
لذتِ عرض ِکشادِ عقدہ مشکل نہ پوچھ
بےشک اثبات خودی کی یہی ایک صورت نہیں تھی، لیکن غالب کے کلام میں اس کا عکس کسی نہ کسی اعتبار سے تقریباً تمام دوسری کیفیتوں میں نظر آتا ہے، خاص طور سے ان کی بےچینی، بیزاری، درد، مایوسی، جو انہیں خود وجود سے انکار پر آمادہ کرتی ہے، اس لیے کہ وجود کی پابندیاں انہیں انسانیت کے لیے قیدخانہ معلوم ہوتی ہیں، اسی انسانیت کے لیے جس کے سراغ میں وہ شور محشر بن گئے ہیں، کہتے ہیں،
سراغ آوارہ عرض دوعالم شور محشر ہوں
پرافشاں ہے غبار آں سوے صحرائے عدم میرا
پھر اس خیال سے کہ شاید لوگ اس کو ایک بہت بڑا دعوی سمجھیں کہ ان کے لیے آگاہی کا مطلب ذہن کا سیدھی پٹریوں پر چلنا ہے، وہ اپنی بیکسی کا بھی اعتراف کر لیتے ہیں،
نہ ہو وحشت کش درس سراب سطر آگاہی
غبار راہ ہوں، بے مدعا ہے پیچ وخم میرا
مگر اس کا انہیں انتہائی غم بھی ہے،
ملی نہ وسعت جولانِ یک جنوں ہم کو
عدم کولے گئے دل میں غبار صحرا کا
دشت، صحرا، برق، زنجیریں، زخم، سب علامتیں ہیں اس جنگ کی جو مادی حقیقت اور انسانیت کے درمیان مسلسل جاری رہتی ہے، جس میں انسانیت برابر شکست کھاتی مگر نئے عزم کے ساتھ پھر میدان میں آتی رہتی ہے۔ شاید یہ سب نہ ہوتا اگر آگہی نہ ہوتی، دل نہ ہوتا،
شکوہ وشکر کو ثمر، بیم وامید کا سمجھ
خانہ آگہی خراب، دل نہ سمجھ بلا سمجھ
خدایا چشم تا دل درد ہے افسون آگاہی
نگہ حیرت سواد خواب بے تعبیر بہتر ہے
مصیبت میں آدمی خدا کی رحمت میں پناہ لیتا ہے۔ رحمت میں صرف پناہ نہیں ملتی، دل ودماغ کو کشادگی نصیب ہوتی ہے۔ غالب نے کبھی کبھی سیدھے سادے مسلمان کی طرح بات کہی ہے،
جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تویہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
یا وحدت الوجود کا فلسفہ بیان کیا ہے،
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ تھا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا تو میں تو کیا ہوتا
مقصود ما ز دیر وحرم جز حبیب نیست
ہرجا کنیم سجدہ بداں آستاں رسد
مگر یہ بڑھاپے کا زمانہ تھا۔ ابتدائی دور میں غالب کے لیے سیدھے سادے مسلمان کا عقیدہ ’’عجزتمنا‘‘ تھا، ایک بندگلی جو انسان کے لیے راستہ نہیں بن سکتی تھی،
کس بات پہ مغرور ہے اے عجز تمنا
سامان دعا وحشت و تاثیر دعا ہیچ
خدا تک صحیح معنوں میں رسائی اسی کی ہو سکتی ہے جو اپنی انسانیت کو بےتکلف کر دے، شکایت کرے، گناہوں کا معترف ہو، بندگی میں دوستی کا لطف پیدا کرے، موقع ملے تو طنز سے بھی پرہیز نہ کرے۔ بندگی میں بے تکلفی کی مثالیں دیکھئے،
ہررنگ میں جلااسد فتنہ انتظار
پروانہ تجلی شمع ظہور تھا
خور شبنم آشنا نہ ہوا ورنہ میں اسد
سر تا قدم گزارشِ ذوقِ سجود تھا
وسعت رحمت حق دیکھ کر بخشا جاوے
مجھ سا کافر جوکہ ممنون معاصی نہ ہوا
اسد سودائے سرسبزی سے ہے تسلیم رنگیں تر
کہ کشت خشک اس کا ابر بے پردا خرام اس کا
اس انتخاب کے شروع میں ایک غزل ہے جس میں خدا اور بندہ آزاد کا تعلق ایسے انداز میں پیش کیا گیا ہے جس کا جواب مجھے کسی اورزباں میں نہیں ملاہے مگر یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ غالب کا دل جذبہ دینی کی کیفیتوں سے نا آشنا تھا۔ وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے،
پئے نذر کرم تحفہ ہے شرم نارسائی کا
بہ خوں غلتیدہ صد رنگ دعوی پارسائی کا
اے اسد بیجا ہے ناز سجدہ عرض نیاز
عالم تسلیم میں یہ دعویٰ آرائی عبث
خبر نگہ کو نگہ چشم کو عدوجانے
وہ جلوہ کر کہ نہ میں جانوں اور نہ تو جانے
ناکامی نگاہ ہے برق نظارہ سوز
تو وہ نہیں کہ تجھ کو تماشا کرے کوئی
تاچندپست ہمتی طبع آرزو
یارب ملے بلندی دست دعا مجھے
البتہ اسی جذبہ دینی نے مذہبوں کی شکل اختیار کرکے انسانوں میں جو تفریق پیدا کی تھی، اسے وہ حق بجانب ماننے پر تیار نہ تھے اور زاہدوں کی صحبت انہیں کسی حال میں گوارا نہ تھی۔ ان کا فارسی کا ایک شعر ہے،
سخن کو تہ مراہم دل بہ تقوے مائل ست اما
زننگ زاہد افتادم بہ کافر ماجرائیہا
اپنی انسانیت بھی انہیں بہت عزیز تھی۔ غصے میں وہ کہہ سکتے تھے،
خوئے آدم دارم، آدم زادہ ام
آشکارا دم زعصیاں می زنم
لیکن انہیں چھیڑا نہ جاتا تو وہ انسان سے کہہ سکتے تھے کہ نغمہ اور نشہ اور ناز کا پرستار بن کررہ، خلق کو پارسائی کرنے دے،
نغمہ ہے محو سازرہ، نشہ ہے بے نیاز رہ
رند تمام نازرہ خلق کو پارسا سمجھ
یہی انسانیت ہے جو ان کو عشق کی طرف لے جاتی ہے کہ دنیا ایک وحشت کدہ ہے اور وہ روشنی سے محروم رہتی اگر انسان شعلہ عشق کو اپنی زندگی کا سازوسامان نہ بناتا،
ہم نے وحشت کدہ بزم جہاں میں جوں شمع
شعلہ عشق کو اپنا سروساماں سمجھا
عشق تمنا کی شکل اختیار کرتا ہے تو عالم امکاں انسان کے لیے تنگ ہو جاتا ہے،
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا
حسرت بن جاتا ہے تو انجام کی پروا نہیں کرتا۔ اس کی خودرائی کی انتہا نہیں رہتی،
ہزار قافلہ آرزو بیاباں مرگ
ہنوز محمل حسرت بدوش خود رائی
یہ مسئلہ بحث طلب ہے کہ ایسا عشق صرف مجازی ہو سکتا ہے یا اس میں حقیقی عشق بن جانے کا بھی مادہ ہے۔ غالباً اس شعر کا کہ،
میں دور گردعرض رسوم نیاز ہوں
دشمن سمجھ ولے نگہ آشنا نہ مانگ
مطلب یہ تھا کہ میں رسوم نیاز ادا کرنے کے چکر میں پڑ گیا ہوں، اس سے زیادہ کی صلاحیت مجھ میں نہیں ہے، میں نگہ آشنا پیدا نہیں کر سکتا۔ اب تجھے اختیار ہے کہ مجھے دشمن سمجھ لے۔ غالب کو اپنی انسانیت کی وسعتیں ناپنے سے فرصت نہ تھی،
یک بار امتحان ہوس بھی ضرور ہے
اے جوش عشق بادہ مرد آزما مجھے
شاعر کا مجازی عشق چاہے وہ انسانیت کی وادی خیال میں مستانہ وار گھوم رہا ہو، ایک مخاطب، ایک معشوق کے بغیر بےچین رہتا ہے،
تمثال جلوہ عرض کر اے حسن کب تلک
آئینہ خیال کو دیکھا کرے کوئی
غالب کے دوسرے دور کے مجازی معشوق کی ہستی جانی پہچانی ہے۔ اس کے ایک طرف ’’غیر‘‘ یا ’’رقیب‘‘ دوسری طرف آئینہ ہے، اس کے دروازے پر دربان بیٹھا رہتا ہے، اسے خط لکھے جاتے ہیں، چاہے مطلب کچھ نہ ہو۔ اس کے ناز وانداز کے بہت سے خاکے مطبوعہ دیوان میں ملتے ہیں۔ یہ بتانا بہت مشکل ہے کہ پہلے اور دوسرے دور کے مجازی عشق اور معشوق میں کتنا اور کیسا فرق ہے۔ تغافل کی کیفیت پر پہلے دور کا ایک شعر ہے،
ہے کسوت عروج تغافل کمال حسن
چشم سیہ بمرگ نگہ سوگوار تر
دوسرے دور کا بہت معروف شعر ہے،
بہت دنوں میں تغافل نے تیرے پیدا کی
وہ اک نگہ کہ بظاہر نگاہ سے کم ہے
یہاں ایک جگہ تخیل کی جولانی، دوسری جگہ اس کی پختگی بحر کے انتخاب اور الفاظ کے ترنم سے ظاہر ہو جاتی ہے۔ پہلے دور کی اسی غزل کا ایک اور شعر ہے جو جوانی کے جوش کو اور زیادہ نمایاں کرتا ہے،
قاتل بعزم ناز و ول از زخم درگداز
شمشیر آبدار نگہ آبدار تر
اور شاعر اپنے بارے میں کہتا بھی ہے،
سیماب بےقرار، اسد بےقرارتر
پہلے دور کی ایک غزل ہے جس میں شاید بلا ارادہ ملاقات اور گفتگو کا ایک نقشہ پیش کر دیا گیا ہے۔ پہلے شاعر اپنے آپ سے کہتا ہے کہ آہ وفریاد سے کچھ حاصل نہ ہوگا،
اثرکمندی فریاد نارسا معلوم
غبارِنالہ کمیں گاہِ مدعا معلوم
پھر ملاقات ہوتی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ دراصل آپ کا حسن میرے عشق کی جلوہ ریزی ہے۔ جتنا میرے عشق کا حوصلہ، اتنا آپ کا حسن۔ آئینے کو نہ دیکھئے، اس میں کیا دھرا ہے۔ پھر ذرا اور شوخ ہوکر کہتا ہے کہ آپ کے ناز کا سارا جادو لباس کی تنگی میں ہے،
بقدر حوصلہ عشق جلوہ ریزی ہے
وگرنہ خانہ آئینہ کی فضا معلوم
بہار درگرد غنچہ شہرجولاں ہے
طلسم نازبجز تنگی قبا معلوم
پھرایک قہر آلود نگاہ کے جواب میں کہتا ہے کہ،
تکلف آئینہ دو جہاں مدارا ہے
سراغ یک نگہ قہرآشنا معلوم
رخصت ہوتے ہوئے کہا جاتا ہے،
اسد فریفتہ انتخاب طرزجفا
و گرنہ دلبری وعدہ وفا معلوم
کلام کے آخری انتخاب میں غالب نے یہ شعر چھوڑ دیے، منجملہ ان کے یہ شعر بھی،
طلسم خاک کمیں گاہ یک جہاں سودا
بمرگ تکیہ آسائش فنا معلوم
غالب کا ابتدائی کلام مشکل سمجھا جاتا ہے اور اس کے مشکل ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ ان کو اس رستے پر چلنا گوارا نہیں تھا جس پر سب چلتے تھے اورسب سے الگ بات کہنے کی کوشش میں وہ ایسے نقش بنانے میں الجھ جاتے جن کو الفاظ کے قلم سے بنایا ہی نہیں جا سکتا۔ ابتدائی کلام کے اس مجموعے میں جسے جناب عرشی صاحب نے اپنے ایڈیشن میں ’’گنجینہ معنی‘‘ کا عنوان دیا ہے، بہت سے اشعار ایسے ہیں جو صرف مشکل ہیں اور معنی کے اعتبار سے قابل قدر نہیں ہیں لیکن اس میں ایسے مطالب بھی ہیں جو شاید آسان، عام فہم زبان میں اداہی نہیں ہو سکتے تھے،
دود شمع کشتہ گل بزم سامانی عبث
یک شبہ آشفتہ ناز سنبلستانی عبث
ہے ہوس محمل بدوش شوخی ساقی مست
نشہ مے کے تصور میں نگہبانی عبث
جب کہ نقش مدعا ہووے نہ جز موج سراب
وادی حسرت میں پھر آشفتہ جولانی عبث
بزم مے نوشی تصویر کیجئے۔ شاعرکا دل بجھا بجھا سا ہے، گویا ایک پھول تھا جس کے رنگ شمع کی طرح سے روشن تھے، مایوسیوں اورغموں نے اس کے شعلے کو گل کر دیا ہے۔ اب شاعر کے دل میں اتنی جان نہیں کہ محفل میں جان ڈال سکے، پھر اس سے کیا فائدہ کہ وہ رات بھرکے لیے بکھرے ہوئے بالوں کے خیال میں دیوانہ ہو جائے۔ مگربزم ہے، ساقی ہے، ساقی کی مست آنکھوں کی شوخی نے شاعر کی ہوس کو اپنے کندھوں پر سوار کر لیا ہے اور یہ خیال کہ ساقی اور اس کی شوخی صرف نشے کا ایک تصور ہے، ہوس اور شوخی کی نگرانی نہ کر سکےگا۔ لیکن نگرانی نہ کر سکا تو اس سے کیا حاصل ہوگا؟ جب مطلب کا پورا ہونا بھی ایک دھوکہ ہے، سراب کی ایک موج، تو پھر حسرت کی وادی میں بہکتے پھرنا بیکار ہے۔
اگر ہم یہ نہ سمجھیں کہ شاعری صرف خیال آرائی ہے، بلکہ غالب کی عادت اور اس زمانے کے حالات کو سامنے رکھیں تو معلوم ہوگا کہ یہ تینوں شعر حقیقی تاثرات پیش کرتے ہیں، جنہیں بیان کرنے کے لیے بہت مناسب انداز اور استعارے استعمال کیے گئے ہیں۔ مثلاً جس کسی نے کھلتے ہوئے گلاب کے پھول دیکھے ہیں اور پھر انہیں مر جھاتے، ان کے شعلوں کو بجھتے اور ان کی انجمن کو بےرونق ہوتے ہوئے دیکھا ہے اسے ’’دود شمع کشتہ گل‘‘ ایک مشکل ترکیب نہیں بلکہ ایک بہت ہی لطیف تشبیہ معلوم ہوگی۔
غالب کا سب سے اعلی شاعرانہ استعارہ، جوان کے تخیل کی تخلیق اور ان کے کلام کا خالق بھی ہے، انسان ہے، اور وہ بیشتر اپنی انسانیت کی گوناگوں کیفیتوں میں محو نظر آتے ہیں۔ انسان وہ مقام ہے جہاں سے ان کے تصورات اور ان کی آرزوؤں کے قافلے روانہ ہوتے ہیں اور ساری بادیہ پیمائی اور’’دریاکشی‘‘ کے بعدپھر اسی مقام پر واپس آ جاتے ہیں۔ انسان باغ ہے اور پھولوں کا ہجوم ہے، دشت اور صحرا ہے، معشوق کے لیے تڑپتا ہوا عاشق ہے، وجود اور عدم کی بازی کا مہرہ ہے، آگہی کا شکار ہے، باغی ہے، تقدیر کی چکی میں پسا ہوا دانہ ہے، ایک تماشائی ہے جوا لگ کھڑا دنیا کے کاروبار کو دیکھتا ہے، کبھی اس پر طنز کرتا ہے کبھی چٹکیوں میں اڑاتا ہے۔ انسان گہنگاری کا ایک حسین مجسمہ ہے جو رحمت کے دل کو موہ لیتا ہے، ایک دیوانہ جو کسی وقت بھی قیامت برپا کر سکتا ہے۔
بےشک غالب نے انسان کو دریافت نہیں کیا۔ شاعر کا منصب یہ ہوتا ہے کہ انسان کی نظر میں وہ قوت پیدا کرے جس سے وہ اپنے آپ کو اور اپنی دنیا کو ہر پہلو سے دیکھ سکے۔ غالب نے اس منصب کا حق ادا کیا۔ شوق کو جو انسانیت کا جوہر ہے، عالم وجود کی سیر کرنا سکھایا اوراسے ہمت دلائی کہ مسکراکر یا خفا ہوکر زندگی کی ایک ایسی تمام شرطوں کو نامنظور کرے جن سے اس کی آزادی محدود ہوتی ہویا اس کے مرتبہ انسانی میں کمی پیدا ہوتی ہو۔
گدائے طاقت تقریر ہے زباں تجھ سے
کہ خامشی کو ہے پیرایہ بیاں تجھ سے
فسردگی میں فریاد بیدلاں تجھ سے
چراغ صبح وگلِ موسمِ خزاں تجھ سے
بہارِحیرتِ نظارہ سخت جانی ہے
حناے پاے اجل خون کشتگاں تجھ سے
پری بہ شیشہ وعکس رخ اندر آئینہ
نگاہ حیرت مشاطہ خوں فشاں تجھ سے
طراوت سحر ایجادی اثر یکسو
بہار نالہ و رنگینی فغاں تجھ سے
چمن چمن گلِ آئینہ درکنارِ ہوس
امید محو تماشاے گلستاں تجھ سے
نیاز پردہ اظہارِ خودپرستی ہے
جبین سجدہ فشاں تجھ سے، آستاں تجھ سے
بہانہ جوئی رحمت کمیں گر تقریب
وفائے حوصلہ ورنج امتحاں تجھ سے
اسدطلسم قفس میں رہے قیامت ہے
خرام تجھ سے صبا تجھ سے گلستاں تجھ سے
جذبہ بےاختیار شوق د یکھا چاہئے
سینہ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
جنوں گرم انتظار و نالہ بیتابی کمند آیا
سویدا تا بلب زنجیری دودسپند آیا
تغافل بدگمانی بلکہ میری سخت جانی سے
نگاہ بے حجاب ناز کو بیم گزند آیا
جراحت تحفہ الماس ارمغاں داغ جگرہدیہ
مبارک باد اسد، غمخوار جان درد مند آیا
پوچھا تھا اگرچہ یار نے احوال دل مگر
کس کو دماغ منت گفت و شنود تھا
خور شبنم آشنا نہ ہوا ورنہ میں اسد
سرتا قدم گزارش ذوق سجود تھا
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب؟
ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائی درد بے دوا پایا
سادگی وپرکاری بیخوی و ہشیاری
حسن کو تغافل میں جرأت آزما پایا
غنچہ پھر لگا کھلنے آج ہم نے اپنادل
خوں کیا ہوا دیکھا، گم کیا ہوا پایا
شوق ہر رنگ، رقیب سروساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا
بوئے گل نالہ دل دود چراغ محفل
جو تری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلا
ساغر جلوہ سرشار ہے ہر ذرہ خاک
شوق دیدار بلا آئینہ ساماں نکلا
شور رسوائی دل دیکھ کہ یک نالہ شوق
لاکھ پردے میں چھپا پھروہی عریاں نکلا
میں بھی معذور جنوں ہوں اسد اے خانہ خراب
پیشوا لینے مجھے گھرسے بیاباں نکلا
دہر میں نقش وفا وجہ تسلی نہ ہوا
ہے وہ لفظ کہ شرمندہ معنی نہ ہوا
میں نے چاہا تھا کہ اندوہ وفا سے چھوٹوں
وہ ستمگر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا
دل گزرگاہ خیال مے و ساغر ہی سہی
گر نفس جادہ سرمنزل تقوی نہ ہوا
کس سے محرومی قسمت کی شکایت کیجے
ہم نے چاہا تھا کہ مر جائیں سو وہ بھی نہ ہوا
وسعت رحمت حق دیکھ کہ بخشا جاوے
مجھ سا کافر کہ جو ممنون معاصی نہ ہوا
دیدہ تا دل ہے یک آئینہ چراغاں، کس نے
خلوت ناز پہ پیرایہ محفل باندھا؟
ناامیدی نے بہ تقریب مضامین خمار
کوچہ موج کو خمیازہ ساحل باندھا
مطر ب دل نے مرے تار نفس سے غالب
ساز پر رشتہ پئے نغمہ بیدل باندھا
پئے نذر کرم تحفہ ہے شرم نارسائی کا
بخوں غلتیدہ صد رنگ دعویٰ پارسائی کا
دریغ اے ناتوانی ورنہ ہم ضبط آشنایاں نے
طلسم رنگ میں باندھا تھا عہد استوار اپنا
اگر آسودگی ہے مدعائے رنج بیتابی
نثار گردش پیمانہ مے روزگار اپنا
گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگی جاکا
گہر میں محو ہوا اضطراب دریا کا
سراغ آوارہ عرض دوعالم شور محشرہوں
پرافشاں ہے غبار، آنسوئے صحرائے عدم میرا
نہ ہو وحشت کش درس سراب سطر آگاہی
غبارراہ ہوں بے مدعا ہے پیچ وخم میرا
سراپا رہنِ عشق و ناگزیر الفت ہستی
عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا
بقدر ظرف ہے ساقی خمار تشنہ کامی بھی
جو تو دریائے مے ہے تو میں خمیازہ ہوں ساحل کا
لب خشک درتشنگی مردگاں کا
زیارت کدہ ہوں دل آزردگاں کا
ہمہ ناامیدی ہمہ بدگمانی
میں دل ہوں فریب وفا خوردگاں کا
شگفتن کمیں گاہ تقریب جوئی
تصور ہوں بے موجب آزردگاں کا
غریب ستم دیدہ بازگشتن
سخن ہوں سخن برلب آوردگاں کا
سراپا یک آئینہ دارشکستن
ارادہ ہوں یک عالم افسردگاں کا
بصورت تکلف بمعنی تاسف
اسد میں تبسم ہوں پژمردگاں کا
لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی
چمن زنگار ہے آئینہ باد بہاری کا
حریف جو شش دریا نہیں خودداری ساحل
جہاں ساقی ہو تو باطل ہے دعویٰ ہوشیاری کا
ہم نے وحشت کدہ بزم جہاں میں جوں شمع
شعلہ عشق کو اپنا سروساماں سمجھا
ملی نہ وسعت جولان یک جنوں ہم کو
عدم کولے گئے دل میں غبار صحرا کا
دیکھی وفائے فرصت رنج و نشاط دہر
خمیازہ یک درازی عمر خمار تھا
ذرہ ذرہ ساغر میخانہ نیرنگ ہے
گردش مجنوں بہ چشمک ہاے لیلا آشنا
شوق، ہےساماں طرازِ نازشِ اربابِ عجز
ذرہ صحرا دستگاہ وقطرہ دریا آشنا
میں اور ایک آفت کا ٹکڑا وہ دل وحشی کہ ہے
عافیت کا دشمن اور آوارگی کا آشنا
سراسر تاختن کوشَش جہت یک عرصہ جولاں تھا
ہوا واماندگی سے رہرواں کی فرق منزل کا
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انسان ہونا
گریہ چاہے ہے خرابی مرے کاشانے کی
در ودیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا
عشرت قتل گہہ اہل تمنا مت پوچھ
عید نظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا
ہر رنگ میں جلا اسد فتنہ انتظار
پروانہ تجلی شمع ظہور تھا
ہرگام آبلے سے ہے دل درتہ قدم
کیا بیم اہل درد کو سختی راہ کا
رحمت اگر قبول کرے کیا بعید ہے
شرمندگی سے عذر نہ کرنا گناہ کا
دل مرا سوز نہاں سے بے محابا جل گیا
آتش خاموش کے مانند گویا جل گیا
دل میں ذوق وصل و یاد یار تک باقی نہیں
آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا
عرض کیجے جو ہر اندیشہ کی گرمی کہاں؟
کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا
دل نہیں تجھ کو دکھاتا ورنہ داغوں کی بہار
اس چراغاں کا کروں کیا، کارفرما جل گیا
میں ہوں اور افسردگی کی آرزو غالب کہ دل
دیکھ کر طرز تپاک اہل دنیا جل گیا
ربط یک شیرازہ وحشت ہیں اجزائے بہار
سبزہ بیگانہ، صبا آوارہ، گل نا آشنا
دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز
پھر ترا وقت سفر یاد آیا
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسد
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا
توفیق بہ اندازہ ہمت ہے ازل سے
آنکھوں میں ہے وہ قطرہ کہ گوہر نہ ہواتھا
جب تک کہ نہ دیکھا تھا قد یار کا عالم
میں معتقد فتنہ محشر نہ ہوا تھا
دریائے معاصی تنک آبی سے ہوا خشک
میرا سر دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا
عرض نیاز عشق کے قابل نہیں رہا
جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا
جاتا ہوں داغ حسرت ہستی لیے ہوئے
ہوں شمع کشتہ درخور محفل نہیں رہا
وا کر دیے ہیں شوق نے بند نقاب حسن
غیرازنگاہ اب کوئی حائل نہیں رہا
گویا میں رہا رہین ستم ہائے روزگار
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا
حاصل الفت نہ دیکھا جز شکست آرزو
دل بدل پیوستہ گویا یک لب افسوس تھا
کم جانتے تھے ہم بھی غم عشق کو پراب
دیکھا تو کم ہوئے پہ غم روزگار تھا
احباب چارہ سازی وحشت نہ کر سکے
زنداں میں بھی خیال، بیاباں نورد تھا
محرم نہیں ہے تو ہی نواہائے راز کا
یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا
رنگ شکستہ صبح بہار نظارہ ہے
یہ وقت ہے شگفتن گلہائے ناز کا
دوست غمخواری میں میری سعی فرماویں گے کیا؟
زخم کے بھرنے تلک، ناخن نہ بڑھ جاویں گے کیا؟
بےنیازی حد سے گزری بندہ پرور کب تلک
ہم کہیں گے حال دل اورآپ فرماویں گے کیا؟
حضرت ناصح گر آویں دیدہ ودل فرش راہ
کوئی مجھ کو یہ توسمجھا دو کہ سمجھاویں گے کیا؟
گر کیا ناصح نے ہم کو قید اچھا یوں سہی
یہ جنون عشق کے انداز چھٹ جاویں گے کیا؟
خانہ زاد زلف ہیں زنجیر سے بھاگیں گے کیوں
ہیں گرفتار وفا زنداں سے گھبراویں گے کیا؟
ہے اب اس معمورے میں قحط غم الفت اسد
ہم نے یہ مانا کہ دلی میں رہے کھاویں گے کیا؟
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
اب جفا سے بھی محروم ہیں ہم، اللہ اللہ
اس قدر دشمن ارباب وفا ہو جانا
ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیاٍ
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا؟
نگاہ بے مجابا چاہتا ہوں
تغافل ہائے تمکیں آزما کیا؟
نفس موج محیط بے خودی ہے
تغافل ہائے ساقی کا گلا کیا؟
دماغ عطر پیراہن نہیں ہے
غم آوارگی ہائے صبا کیا؟
سن اے غارت گر جنس وفا سن
شکست قیمت دل کی صدا کیا؟
یہ قاتل وعدہ صبر آزما کیوں؟
یہ کافر فتنہ طاقت ربا کیا؟
بلائے جاں ہے غالب اس کی ہربات
عبارت کیا اشارت کیا ادا کیا
اسد سودای سرسبزی سے ہے تسلیم رنگیں تر
کہ کشت خشک اس کا ابر بے پروا خرام اس کا
میں اور بزم مے سے یوں تشنہ کام آؤں
گر میں نے کی تھی توبہ ساقی کو کیا ہوا تھا؟
درماندگی میں غالب کچھ بن پڑے تو جانوں
جب رشتہ بے گرہ تھا ناخن گرہ کشا تھا
گھرہ مارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا
بحر گر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا
تم سے بیجا ہے مجھے اپنی تباہی کا گلہ
اس میں کچھ شایبہ خوبی تقدیر بھی تھا
قید میں ہے ترے وحشی کو وہی زلف کی یاد
ہاں کچھ ایک رنج گر اں باری زنجیر بھی تھا
بجلی اک کوند گئی آنکھوں کے آگے تو کیا؟
بات کرتے کہ میں لب تشنہ تقریر بھی تھا
ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں ’’اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا‘‘
ترے وعدے پرجیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے، اگر اعتبار ہوتا
کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا
رگ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو، یہ اگر شرار ہوتا
غم اگرچہ جاں گسل ہے، پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غم عشق گرنہ ہوتا غم روزگار ہوتا
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے؟ شب غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
ہوئے مرکے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا
یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
ہوئی مدت کہ غالب مر گیا پر یاد آتا ہے
وہ ہر یک بات پر کہنا کہ ’’یوں ہوتا تو کیا ہوتا‘‘
درد منت کش دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا
ہے خبر گرم ان کے آنے کی
آج ہی گھرمیں بوریا نہ ہوا
کیا وہ نمرود کی خدائی تھی؟
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا
جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
بندگی میں بھی وہ آزاد و خود بیں ہیں کہ ہم
الٹے پھر آئے، در کعبہ اگر وا نہ ہوا
سینے کا داغ ہے وہ نالہ کہ لب تک نہ گیا
خاک کا رزق ہے وہ قطرہ کہ دریا نہ ہوا
قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کل
کھیل لڑکوں کا ہوا، دیدہ بینا نہ ہوا
تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا
عروج ناامیدی چشم زخم چرخ کیا جانے
بہار بے خزاں از آہ بے تاثیر ہے پیدا
دود شمع کشتہ گل بزم سامانی عبث
یک شبہ آشفتہ ناز سنبلستانی عبث
ہے ہوس محمل بدوش شوخی ساقی مست
نشہ مے کے تصور میں نگہبانی عبث
جب کہ نقش مدعا ہووے نہ جز موج سراب
وادی حسرت میں پھر آشفتہ جولانی عبث
محمل پیمانہ فرصت ہے بردوش حباب
دعوی دریا کشی و نشہ پیمائی عبث
یک نگاہ گرم ہے جوں شمع سرتا پاگداز
بہر ازخود رفتگاں رنج خود آرائی عبث
اے اسد بے جا ہے ناز سجدہ عرض نیاز
عالم تسلیم میں یہ دعویٰ آرائی عبث
ہوں داغ نیم رنگی شام وصال یار
نور چراغ بزم سے جوش سحر ہے آج
تاصبح ہے بمنزل مقصد رسیدنی
دود چراغ خانہ غبار سفر ہے آج
آتاہے ایک پارہ دل ہر فغاں کے ساتھ
تار نفس کمند شکار اثر ہے آج
سیرملک حسن کو میخانہ ہانذر خمار
چشم مست یار سے ہے گردن مینا پہ باج
قطع سفر ہستی و آرام فنا ہیچ
رفتار نہیں بیشتر از لغزش پا ہیچ
حیرت ہمہ اسرار، پہ مجبور خموشی
ہستی نہیں جز بستی پیمان وفا ہیچ
تمثال گداز آئینہ ہے عبرت بینش
نظارہ تحیر، چمنستان بقا ہیچ
گلزار دمیدن شررستان رمیدن
فرصت تپش وحوصلہ نشوونما ہیچ
آہنگ عدم نالہ بہ کہسار گرد ہے
ہستی میں نہیں شوخی ایجاد صدا ہیچ
کس بات پہ مغرور ہے اے عجز تمنا؟
سامان دعا وحشت وتاثیر دعا ہیچ
منصب شیفتگی کے کوئی قابل نہ رہا
ہوئی معزولی انداز و ادا میرے بعد
شمع بجھتی ہے تو اس میں سے دھواں اٹھتا ہے
شعلہ عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد
در خور عرض نہیں جوہر بیداد کو، جا
نگہ ناز ہے سرمہ سے خفا میرے بعد
ہے جنوں اہل جنوں کے لیے آغوش وداع
چاک ہوتا ہے گریباں سے جدا میرے بعد
کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگن عشق؟
ہے مکرر لب ساقی پہ صلا میرے بعد
ہلاک بے خبری نغمہ وجود وعدم
جہاں واہل جہاں سے جہاں جہاں فریاد!
جواب سنگدلی ہائے دشمناں ہمت
زدست شیشہ دلی ہائے دوستاں فریاد
ہے دلبری کمیں گر ایجاد یک نگاہ
کاربہانہ جوئی چشم حیا بلند
ثابت ہوا ہے گردن مینا پہ خون خلق
لرزرے ہے موج مے تری رفتار دیکھ کر
بک جاتے ہیں ہم آپ متاع سخن کے ساتھ
لیکن عیار طبع خریدار دیکھ کر
ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں
جی خوش ہوا ہے راہ کو پرخار دیکھ کر
گرنی تھی ہم پہ برق تجلی نہ طور پر
دیتے ہیں بادہ، ظرفِ قدح خوار دیکھ کر
مقصد ہے ناز وغمزہ ولے گفتگو میں کام
چلتا نہیں ہے دشنہ و خنجر کہے بغیر
ہرچند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو
بنتی ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
ہے بس کہ ہر ایک ان کے اشارے میں نشاں اور
کرتے ہیں محبت تو گزرتا ہے گماں اور
یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات
دے اوردل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور
ہرچند سبک دست ہوئے بت شکنی میں
ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہے سنگ گراں اور
پاتے نہیں جب راہ توچڑھ جاتے ہیں نالے
رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور
بینش بسعی ضبط جنوں نو بہارتر
دل درگداز نالہ بکاہ آبیار تر
قاتل بعزم ناز و دل از زخم درگداز
شمشیر آبدار ونگاہ آبدار تر
ہے کسوت عروج تغافل کمال حسن
چشم سیہ بمرگ نگہ سوگوارتر
اے چرخ خاک برسر تعمیر کائنات
لیکن بنائے عہد وفا استوارتر
آئینہ داغ حیرت وحیرت شکنج یاس
سیماب بے قرار و اسد بےقرارتر
حریف مطلب مشکل نہیں فسون نیاز
دعا قبول ہو یارب کہ عمر خضر دراز
نہ ہوبہ ہرزہ بیاباں نورد وہم وجود
ہنوز تیرے تصور میں ہے نشیب وفراز
نہ گل نغمہ ہوں نہ پردہ ساز
میں ہوں اپنی شکست کی آواز
تو اور آرائش خم کاکل
میں اور اندیشہ ہائے دور دراز
لاف تمکیں فریب سادہ دلی
ہم ہیں اور راز ہائے سینہ گداز
ہوں گرفتار الفت صیاد
ورنہ باقی ہے طاقت پرواز
اسداللہ خاں تمام ہوا
اے دریغا وہ رند شاہد باز
فریب صنعت ایجاد کا تماشا دیکھ
نگاہ عکس فروش و خیال آئینہ ساز
ہنوز اے اثردیدہ ننگ رسوائی
نگاہ فتنہ خرام و در دوعالم باز
ہجوم فکر سے دل مثل موج لرزے ہے
کہ شیشہ نازک وصہبائے آبگینہ گداز
اسد سے ترک وفا کا گماں وہ معنی ہے
کہ کھینچئے پر طائر سے صورت پرواز
آہ کو چاہئے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک؟
دام ہر موج میں ہے حلقہ صد کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کروگے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
پرتورخور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہونے تک
یک نظر بیش نہیں، فرصت ہستی غافل
گرمی بزم ہے اک رقص شرر ہونے تک
غم ہستی کا اسد کس سے ہو جزمرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
گر تجھ کو ہے یقین اجابت دعا نہ مانگ
یعنی بغیر یک دل بے مدعا نہ مانگ
آتا ہے داغ حسرت دل کا شمار یاد
مجھ سے مرے گنہ کا حساب اے خدا نہ مانگ
میں دور گرد عرض رسوم نیاز ہوں
دشمن سمجھ ولے نگہ آشنا نہ مانگ
غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس
برق سے کرتے ہیں روشن شمع ماتم خانہ ہم
اثرکمندی فریاد نارسا معلوم
غبار نالہ کمیں گاہ مدعا معلوم
بقدر حوصلہ عشق جلوہ ریزی ہے
و گرنہ خانہ آئینہ کی فضا معلوم
بہار درگرد غنچہ شہر جولاں ہے
طلسم ناز بجز تنگی قبا معلوم
طلسم خاک کمیں گاہ یک جہاں سودا
بمرگ تکیہ آسائش فنا معلوم
تکلف آئینہ دوجہاں مدارا ہے
سراغ یک نگہ قہر آشنا معلوم
اسد فریفتہ انتخاب طرز جفا
وگرنہ دلبری وعدہ وفا معلوم
بنالہ حاصل دلبستگی فراہم کر
متاع خانہ زنجیر جز صدا معلوم
از آنجا کہ حسرت کش یار ہیں ہم
رقیب تمنائے دیدار ہیں ہم
رسیدن گل باغ واماندگی ہے
عبث محفل آرائے رفتار ہیں ہم
نفس ہو نہ معزول شعلہ درو دن
کہ ضبط تپش سے شررکار ہیں ہم
تماشائے گلشن تمنائے چیدن
بہار آفرینا گنہگار ہیں ہم
نہ ذوق گریباں نہ پروائے داماں
نگہ آشنائے گل و خار ہیں ہم
اسد شکوہ کفرو دعا ناسپاسی
ہجوم تمناسے ناچار ہیں ہم
غنچہ ناشگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں
بوسے کو پوچھتا ہوں میں منہ سے مجھے بتا کہ یوں
پرسش طرز دلبری کیجئے کیا کہ بن کہے
اس کے ہر ایک اشارے سے نکلے ہے یہ ادا کہ یوں
بزم میں اس کے روبرو کیوں نہ خموش بیٹھیے؟
اس کی تو خامشی میں بھی ہے یہی مدعا کہ یوں
میں نے کہا کہ بزم ناز چاہئے غیر سے تہی
سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں
مجھ سے کہا جو یار نے ’’جاتے ہیں ہوش کس طرح؟‘‘
دیکھ کے میری بے خودی چلنے لگی ہوا کہ یوں
کب مجھے کوئے غیر میں رہنے کی وضع یاد تھی؟
آئینہ داربن گئی حیرت نقش پا کہ یوں
جو یہ کہے ریختہ کیونکے ہو رشک فارسی؟
گفتہ غالب ایک بار پڑھ کے اسے سنا کہ یوں
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا؟
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
ہم سے کھل جاؤ بوقت مے پرستی ایک دن
ورنہ ہم چھیڑیں گے رکھ کر عذر مستی ایک دن
غرہ اوج بنائے عالم امکاں نہ ہو
اس بلندی کے نصیبوں میں ہے پستی ایک دن
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوےگی ہماری فاقہ مستی ایک دن
نغمہ ہائے غم کو بھی اے دل غنیمت جانیے
بے صدا ہو جائےگا یہ ساز ہستی ایک دن
تماشا کہ اے محو آئینہ داری
تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں
بناکر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں
زمانہ سخت کم آزار ہے بجان اسد
وگرنہ ہم تو توقع زیادہ رکھتے ہیں
جب کرم رخصتِ بے باکی و گستاخی دے
کوئی تقصیر بجز خجلت تقصیر نہیں
تھی وہ اک شخص کے تصور سے
اب وہ رعنائی خیال کہاں؟
ہوا ہوں عشق کی غارت گری سے شرمندہ
سوائے حسرت تعمیر گھر میں خاک نہیں
رونق ہستی ہے عشق خانہ ویراں ساز سے
انجمن بے شمع ہے گر برق خرمن میں نہیں
کم نہیں وہ بھی خرابی میں پہ وسعت معلوم
دشت میں ہے مجھے وہ عیش کہ گھر یاد نہیں
کرتے کس منہ سے ہو غربت کی شکایت غالب
تم کو بے مہری یاران وطن یاد نہیں
آج ہم اپنی پریشانی خاطر ان سے
کہنے جاتے توہیں پر دیکھئے کیا کہتے ہیں
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو
جو مے ونغمہ کو اندوہ ربا کہتے ہیں
ہے پرے سرحد ادراک سے اپنا مسجود
قبلے کو اہل نظر قبلہ نما کہتے ہیں
کس منہ سے شکر کیجیے اس لطف خاص کا؟
پرسش ہے اور پائے سخن درمیاں نہیں
ملتی ہے خوئے یار سے نار التہاب میں
کافر ہوں گرنہ ملتی ہو راحت عذاب میں
کب سے ہوں کیا بتاؤں جہان خراب میں
شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں
تا پھر نہ انتظار میں نیند آئے عمر بھر
آنے کا عہد کر گئے آئے جو خواب میں
لاکھوں لگاؤ ایک چرانا نگاہ کا
لاکھوں بناؤ ایک بگڑنا عتاب میں
غالب چھٹی شراب پراب بھی کبھی کبھی
پیتا ہوں روز ابروشب ماہتاب میں
کل کے لیے کر آج نہ خست شراب میں
یہ سوئے ظن ہے ساقی کوثر کے باب میں
ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخی فرشتہ ہماری جناب میں
رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں
اصل شہود و شاہدومشہود ایک ہے
حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں
ہے مشتمل نمود صور پر وجود بحر
یاں کیاں دھرا ہے قطرہ و موج وحباب میں
شرم اک ادائے ناز ہے اپنے ہی سے سہی
ہیں کتنے بے حجاب کہ یوں ہیں حجاب میں
ہے غیب غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود
ہیں خواب میں ہنوز، جو جاگے ہیں خواب میں
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر ایک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
کیوں گردش مدام سے گھبرا نہ جائے دل؟
انسان ہوں پیالہ وساغر نہیں ہوں میں
یارب زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے؟
لوح جہاں پہ حرف مکرر نہیں ہوں میں
دونوں جہان دے کے وہ سمجھے کہ خوش رہا
یاں آ پڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں
تھک تھک کے ہرمقام پہ دوچار رہ گئے
تیرا پتا نہ پائیں تونا چار کیا کریں
کیا شمع کے نہیں ہیں ہوا خواہ اہل بزم؟
ہو غم ہی جاں گداز تو غم خوار کیا کریں
سب کہاں کچھ لالہ وگل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
یاد تھیں ہم کو بھی رنگارنگ بزم آرائیاں
لیکن اب نقش ونگار طاق نسیاں ہو گئیں
نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں
تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہو گئیں
جانفزا ہے بادہ جس کے ہاتھ میں جام آ گیا
سب لکیریں ہاتھ کی گویا رگ جاں ہو گئیں
ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
دیر نہیں حرم نہیں در نہیں آستا ں نہیں
بیٹھے ہیں رہ گذر پہ ہم کوئی ہمیں اٹھائے کیوں
جب وہ جمال دل فروز صورت مہر نیم روز
آپ ہی ہو نظارہ سوز پردے میں منہ چھپائے کیوں
قید حیات وبند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
ہاں وہ نہیں خدا پرست جا ؤ وہ بےوفا سہی
جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں
غالب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
روئیے زار زار کیا کیجئے ہائے ہائے کیوں
گل غنچگی میں غرقہ دریائے رنگ ہے
اے آ گہی فریب تماشا کہاں نہیں؟
دیر وحرم آئینہ تکرار تمنا
واماندگی شوق تراشے ہے پناہیں
میں چشم وا کشادہ و گلشن نظر فریب
لیکن عبث کہ شبنم خورشید دیدہ ہوں
ہوں گرمی نشاط تصور سے نغمہ سنج
میں عندلیب گلشن ناآفریدہ ہوں
پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد
ڈرتا ہوں آدمی سے کہ مردم گزیدہ ہوں
فتادگی میں قدم استوار رکھتے ہیں
برنگ جادہ سر کوئے یار رکھتے ہیں
طلسم مستی دل آں سوے ہجوم سرشک
ہم ایک میکدہ دریا کے پار رکھتے ہیں
نگاہ دیدہ نقش قدم ہے جادہ راہ
گزشتگاں اثرِ انتظار رکھتے ہیں
اسد حیرت کش یک داغ مشک اندو دہے یارب
لباس شمع پر عطر شب دیجور ملتے ہیں
ہوئی ہیں آب، شرم کوشش بیجا سے تدبیریں
عرق ریز تپش ہیں موج کی مانند زنجیریں
بےدماغی حیلہ جوئے ترک تنہائی نہیں
ورنہ کیا موج نفس زنجیر رسوائی نہیں؟
کس کو دوں یارب حساب سوز ناکی ہائے دل
آمد ورفت نفس جز شعلہ پیمائی نہیں
ہے آدمی بجائے خود اک محشر خیال
ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو
رہئے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو
بے درودیوار سا اک گھر بنایا چاہئے
کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو
پڑیے گر بیمار توکوئی نہ ہو تیمار دار
اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
جب میکدہ چھٹا تو پھر اب کیا جگہ کی قید
مسجد ہو مدرسہ ہو کوئی خانقاہ ہو
سنتے ہیں جو بہشت کی تعریف سب درست
لیکن خدا کرے وہ تری جلوہ گاہ ہو
گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیونکر ہو
کہے سے کچھ نہ ہوا پھر کہو تو کیونکر ہو؟
ادب ہے اور یہی کشمکش تو کیا کیجے؟
حیا ہے اور یہی گومگو، تو کیونکر ہو؟
تمہیں کہو کہ گزارا صنم پرستوں کا
بتوں کی ہو اگر ایسی ہی خو تو کیونکر ہو؟
الجھے ہو تم اگر دیکھتے ہو آئینہ
جو تم سے شہر میں ہوں ایک دو تو کیونکر ہو؟
وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے
مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
نہ لٹتا دن کو تو کب رات کو یوں بے خبر سوتا؟
رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو
کسی کو دے کے دل کوئی نوا سنج فغاں کیوں ہو؟
نہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو؟
وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں؟
سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سرگراں کیوں ہو؟
کیا غمخوار نے رسوا لگے آگ اس محبت کو!
نہ لاوے تاب جو غم کی وہ میرا رازداں کیوں ہو؟
وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہو؟
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیو ں ہو؟
نکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے تو غالب
ترے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو؟
جزدل سراغ درد بدل خفتگاں نہ پوچھ
آئینہ عرض کر خط و خال بیاں نہ پوچھ
ہندوستان سایہ گل پاے تخت تھا
جاہ وجلال عہد وصال بتاں نہ پوچھ
پرواز یک تب غم تسخیر نالہ ہے
گرمی نبض خار وخس آشیاں نہ پوچھ
تو مشق ناز کر دل پروا نہ ہے بہار
بیتابی تجلی آتش بجاں نہ پوچھ
غفلت متاع کفہ میزان عدل ہے
یارب حساب سختی خواب گراں نہ پوچھ
ہر داغ تازہ یک دل داغ انتظار ہے
عرض فضاے سینہ درد امتحاں نہ پوچھ
کہتا تھا کل وہ محرم راز اپنے سے کہ آہ
درد جدائی اسد اللہ خاں نہ پوچھ
ہے سبزہ زار ہر درودیوار غم کدہ
جس کی بہار یہ ہو پھر اس کی خزاں نہ پوچھ
ناچار بےکسی کی بھی حسرت اٹھائیے
دشواری رہ وستم ہمرہاں نہ پوچھ
جوش دل ہے، مجھ سے حسن فطرت بیدل نہ پوچھ
قطرے سے میخانہ دریائے بے ساحل نہ پوچھ
پہن گشتن ہائے دل بزم نشاط گردباد
لذت عرض کشاد عقدہ مشکل نہ پوچھ
آبلہ پیمانہ اندازہ تشویش تھا
اے دماغ نارسا خم خانہ منزل نہ پوچھ
نے صبا بال پری نے شعلہ سامان جنوں
شمع سے جز عرض افسون گداز دل نہ پوچھ
یک مژہ برہم زدن حشر دوعالم فتنہ ہے
یاں سراغ عافیت جزدیدہ بسمل نہ پوچھ
بزم ہے یک پنبہ مینا گداز ربط سے
عیش کر غافل حجاب نشہ محفل نہ پوچھ
تاتخلص جامہ شنگرفی ارزانی اسد
شاعری جز ساز درویشی نہیں، حاصل نہ پوچھ
شکوہ وشکر کوثمر بیم وامید کا سمجھ
خانہ آگہی خراب دل نہ سمجھ بلا سمجھ
شوق عناں گسل اگر درس جنوں ہوس کرے
جادہ سیر دوجہاں یک مژہ خواب پا سمجھ
اے بسرابِ حسن خلق تشنہ سعی امتحاں
شوق کو منفعل نہ کر ناز کو التجا سمجھ
شوخی حسن وعشق ہے آئینہ دار ہم دگر
خار کو بے نیام جان ہم کو برہنہ پا سمجھ
کلفت ربط این وآں غفلت مدعا سمجھ
شوق کرے جو سرگراں محمل خواب پا سمجھ
نغمہ ہے محو ساز رہ نشہ ہے بےنیاز رہ
زند تمام ناز رہ خلق کو پارسا سمجھ
نے سروبرگ آرزو نے رہ و رسم گفتگو
اے دل وجان خلق تو ہم کو بھی آشنا سمجھ
کیا پوچھے ہے برخود غلطی ہائے عزیزاں؟
خواری کو بھی اک عار ہے عالی نسبوں سے
طاقت فسانہ باد اندیشہ شعلہ ایجاد
اے غم ہنوز آتش! اے دل ہنوز خامی!
ہرچند عمر گزری آزردگی میں لیکن
ہے شرح شوق کو بھی جوں شکوہ ناتمامی
ہے یاس میں اسد کو ساقی سے بھی فراغت
دریا سے خشک گزری مستوں کی تشنہ کامی
ہے پیچ تاب رشتہ شمع سحر گہی
خجلت گدازی نفس نارسا مجھے
تاچند پست فطرتی طبع آرزو؟
یارب ملے بلندی دست دعا مجھے
یک بار امتحان ہوس بھی ضرور ہے
اے جوش عشق بادہ مرد آزما مجھے
اسد جمعیت دل درکنار بیخودی خوشتر
دوعالم آگہی سامان یک خواب پریشاں ہے
آتش افروزی یک شعلہ ایماں تجھ سے
چشمک آرائی صدشہر چراغاں مجھ سے
نگہ معمار حسرتہا چہ آبادی؟ چہ ویرانی؟
کہ مژگاں جس طرف واہو کف دامان صحرا ہے
بسختی ہائے قید زندگی معلوم آزادی
شرر در بنددام رشتہ رگ ہائے خارا ہے
اسد بہار تماشائے گلستان حیات
وصال لالہ عذاران سروقامت ہے
شوخی مضراب جولاں، آبیار نغمہ ہے
برگریز ناخن مطرب بہار نغمہ ہے
کس سے اے غفلت تجھے تعبیر آگاہی ملے
گوشہا سیمابی و دل بے قرار نغمہ ہے
ساز عیش بیدلی ہے خانہ ویرانی مجھے
سیل یاں کوکِ صدائے آبشار نغمہ ہے
خود فروشیہائے ہستی بسکہ جائے خندہ ہے
ہرشکست قیمت دل میں صدائے خندہ ہے
نقش عبرت درنظرہا نقد عشرت دربساط
دوجہاں وسعت بقدریک فضائے خندہ ہے
جائے استہزا ہے عشرت کوشی ہستی اسد
صبح وشبنم فرصتِ نشوونمائے خندہ ہے
تمثال جلوہ عرض کر، اے حسن کب تلک
آئینہ خیال کو دیکھا کرے کوئی؟
عرض سرشک پر ہے فضائے زمانہ تنگ
صحرا کہاں کہ دعوت دریا کرے کوئی؟
زنجیر یاد پڑتی ہے جادے کو دیکھ کر
اس چشم سے ہنوز نگہ یادگار ہے
نگاہ عبرت افسوں گاہ برق وگاہ مشعل ہے
ہوا ہرخلوت وجلوت سے حاصل ذوق تنہائی
نے حسرت تسلی نے ذوق بے قراری
یک درد وصد دواہے یک دست و صددعا ہے
رخسار یار کی جو کھلی جلوہ گستری
زلف سیاہ بھی شب مہتاب ہو گئی
خبرنگہ کو نگہ چشم کو عدو جانے
وہ جلوہ کرکہ نہ میں جانوں اور نہ تو جانے
زباں سے عرض تمنائے خامشی معلوم
مگر وہ خانہ برانداز گفتگو جانے
بادشاہی کا جہاں یہ حال ہو غالب تو پھر
کیوں نہ دلی میں ہر اک ناچیز نوابی کرے
یک دربرروئے رحمت بستہ دورشش جہت
ناامیدی ہے خیال خانہ ویراں کیا کرے
توڑ بیٹھے جب کہ ہم جام وسبو پھر ہم کو کیا
آسماں سے بادہ گلفام گر برسا کرے
حیرت حجاب جلوہ ووحشت غبار چشم
پائے نظر بدامن صحرا نہ کھینچیے
واماندگی بہانہ و دلبستگی فریب
درد طلب بہ آبلہ پا نہ کھینچیے
ہے بے خمار نشہ خون جگر اسد
دست ہوس بگردن مینا نہ کھینچیے
واماندہ ذوق طر ب وصل نہیں ہوں
اے حسرت بسیار تمنا کی کمی ہے
مژہ پہلوئے چشم اے جلوہ ادراک باقی ہے
ہوا وہ شعلہ داغ اور شوخی خاشاک باقی ہے
گداز سعی بینش شست وشوسے نقش خودکامی
سراپا شبنم آئیں یک نگاہ پاک باقی ہے
چمن زار تمنا ہوگیا صرف خزاں لیکن
بہارنیم رنگ آہ حسرت ناک باقی ہے
نہ حیرت چشم ساقی کی نہ صحبت درد ساغر کی
مری محفل میں غالب گردش افلاک باقی ہے
لالہ وگل بہم آئینہ اخلاق بہار
ہوں میں وہ داغ کہ پھولوں میں بسایا ہے مجھے
درد اظہار تپش کسوتی گل معلوم
ہوں میں وہ چاک کہ کانٹوں میں سلایا ہے مجھے
بے دماغ تپش وعرض دوعالم فریاد
ہوں میں وہ خاک کہ ماتم میں اڑایا ہے مجھے
جام ہر ذرہ ہے سرشار تماشا مجھ سے
کس کا دل ہوں کہ دوعالم میں لگایا ہے مجھے
جوش فریاد سے لوں گا دیت خواب اسد
شوخی نغمہ بیدل نے جگایا ہے مجھے
جنوں رسوائی وارستگی زنجیر بہتر ہے
بقدر مصلحت دل تنگی تدبیر بہتر ہے
خوشا خودبینی وتدبیر وغفلت نقد اندیشہ
بدین عجز اگر بدنامی تقدیر بہتر ہے
دلِ آگاہ تسکیں خیز بیدردی نہو یارب
نفس آئینہ دارآہ بےتاثیر بہتر ہے
خدایا چشم تادل درد ہے افسون آگاہی
نگہ حیرت سواد خواب بےتعبیر بہتر ہے
درون جو ہر آئینہ جوں برگ حنا خوں ہے
بتاں نقش خودآرائی حیا تحریر بہتر ہے
دریوزہ سامان ہا اے بے سروسامانی
ایجاد گریبان ہا درپردہ عریانی
تمثال تماشاہا اقبال تمناہا
عجز عرق شرمے اے آئینہ حیرانی
دعوائے جنوں باطل تسلیم عبث حاصل
پرواز فنا مشکل میں عجز تن آسانی
بیگانگی خوہا موج رم آہوہا
دام گلہ الفت زنجیر پشیمانی
پرواز تپش رنگے گلزار ہمہ تنگے
خوں ہو قفس دل میں اے ذوق پرافشانی
سنگ آمد وسخت آمد درد سرخوداری
معذور سبکساری مجبور گر انجانی
گلزار تمنا ہوں گلچین تماشاہوں
صد نالہ اسد بلبل دربند زباندانی
خواب غفلت بہ کمین گاہ نظر پنہاں ہے
شام سائے میں بتاراج سحر پنہا ں ہے
دوجہاں گردش یک سبحہ اسرار نیاز
نقد صددل بہ گریبان سحر پنہاں ہے
خلوت دل میں نہ کر دخل، بجز سجدہ شوق
آستاں میں صفت آئینہ درپنہاں ہے
ہوش اے ہرزہ درا تہمت بیدردی چند
نالہ درگرد تمنائے اثر پنہاں ہے
وہم غفلت مگر احرام فسردن باندھے
ورنہ ہرسنگ کے باطن میں شررپنہاں ہے
ہے عرض جوہر خط وخال ہزارعکس
لیکن ہنوز دامن آئینہ پاک ہے
ہوں خلوت فسردگی انتظار میں
وہ بے دماغ جس کو ہوس بھی تپاک ہے
مستی بذوق غفلت ساقی ہلاک ہے
موج شراب یک مژہ خوابناک ہے
جوش جنوں سے کچھ نظر آتا نہیں اسد
صحرا ہماری آنکھ میں ایک مشت خاک ہے
نظر پرستی و بیکاری و خود آرائی
رقیب آئینہ ہے حیرت تماشائی
زخود گذشتن دل کاروان حیرت ہے
نگہ غبار ادب گاہ جلوہ فرمائی
خراب نالہ بلبل شہید خندہ گل
ہنوز دعوی تمکین و بیم رسوائی
ہزار قافلہ آرزو بیاباں مرگ
ہنوز محمل حسرت بدوش خودرائی
وہم طرب ہستی ایجاد سیہ مستی
تسکیں دہ صد محفل یک ساغر خالی ہے
صد جلوہ روبرو ہے جو مژگاں اٹھائیے
طاقت کہاں کہ دید کا احساں اٹھائیے
یامیرے زخم رشک کو رسوا نہ کیجیے
یا پردہ تبسم پنہاں اٹھائیے
بساط عجز میں تھا ایک دل ایک قطرہ خوں وہ بھی
سو رہتا ہے بانداز چکیدن سرنگوں وہ بھی
رہے اس شوخ سے آزردہ ہم چندے تکلف سے
تکلف برطرف تھا ایک انداز جنوں وہ بھی
نہ کرتا کاش نالہ مجھ کو کیا معلوم تھا ہم دم
کہ ہوگا باعث افزائش درد دروں وہ بھی
نہ اتنا برش تیغ جفا پر ناز فرماؤ
مرے دریائے بیتابی میں ہے اک موج خوں وہ بھی
مئے عشرت کی خواہش ساقی گردوں سے کیا کیجے
لیے بیٹھا ہے اک دوچار جام واژگوں وہ بھی
مرے دل میں ہے غالب شوق وصل وشکوہ ہجراں
خدا وہ دن کرے جو اس سے میں یہ بھی کہوں وہ بھی
درد سے میرے ہے تجھ کو بےقراری ہائے ہائے
کیا ہوئی ظالم تری غفلت شعاری ہائے ہائے
تیرے دل میں گرنہ تھا آشوب غم کا حوصلہ
تونے پھر کیوں کی تھی میری غمگساری ہائے ہائے
کیوں مری غمخوارگی کا تجھ کو آیا تھا خیال
دشمنی اپنی تھی میری دوست داری ہائے ہائے
عمر بھر کا تونے پیمان وفا باندھا تو کیا؟
عمر کو بھی تو نہیں ہےپایداری ہائے ہائے
زہر لگتی ہے مجھے آب وہوائے زندگی
یعنی تجھ سے تھی اسے ناسازگاری ہائے ہائے
گلفشا نی ہائے ناز جلوہ کو کیا ہوگیا؟
خاک پر ہوتی ہے تیری لالہ کاری ہائے ہائے
شرم رسوائی سے جاچھپنا نقاب خاک میں
ختم ہے الفت کی تجھ پر پردہ داری ہائے ہائے
خاک میں ناموس پیمان محبت مل گئی
اٹھ گئی دنیا سے راہ و رسم یاری ہائے ہاے
ہاتھ ہی تیغ آزما کا کام سے جاتا رہا
دل پہ اک لگنے نہ پایا زخم کاری ہائے ہائے
کس طرح کاٹے کوئی شب ہائے تاربرشگال
ہے نظر خوکردہ اختر شماری ہائے ہائے
گوش مہجور پیام و چشم محروم جمال
ایک دل تس پر یہ ناامیدواری ہائے ہائے
عشق نے پکڑا نہ تھا غالب ابھی وحشت کا رنگ
رہ گیا تھا دل میں جو کچھ ذوق خواری ہائے ہائے
ہریک مکان کو ہے مکیں سے شرف اسد
مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہے
کس پردے میں ہے آئینہ پرداز اے خدا
رحمت کو عذر خواہ لب بے سوال ہے
ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسد
عالم تمام حلقہ دام خیال ہے
تم اپنے شکوے کی باتیں نہ کھود کھود کے پوچھو
حذر کرو مرے دل سے کہ اس میں آگ دبی ہے
دلا یہ درد والم بھی تو مغتنم ہے کہ آخر
نہ گریہ سحری ہے نہ آہ نیم شبی ہے
ڈھونڈھے ہے اس مغنی آتش نفس کوجی
جس کی صدا ہو جلوہ برق فنا مجھے
مستانہ طے کروں ہوں رہ وادی خیال
تا بازگشت سے نہ رہے مدعا مجھے
کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ؟
شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحہ غم ہی سہی نغمہ شادی نہ سہی
نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا
گرنہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی
رہا آباد عالم اہل ہمت کے نہ ہونے سے
بھرے ہیں جس قدر جام و سبو میخانہ خالی ہے
آغوش گل کشودہ برائے وداع ہے
اے عندلیب چل کہ چلے دن بہار کے
ہرقدم دوری منزل ہے نمایاں مجھ سے
میری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ سے
گردش ساغر صد جلوہ رنگیں تجھ سے
آئینہ داری یک دیدہ حیراں مجھ سے
نگہ گرم سے اک آگ ٹپکتی ہے اسد
ہے چراغاں خس وخاشاک گلستاں مجھ سے
ہے وہی بدمستی ہر ذرہ کا خود عذر خواہ
جس کے جلوے سے زمیں تا آسماں سرشار ہے
عالم غبار وحشت مجنوں ہے سربسر
کب تک خیال طرہ لیلا کرے کوئی
افسردگی نہیں طرب انشائے التفات
ہاں درد بن کے دل میں مگر جا کرے کوئی
رونے سے اے ندیم ملامت نہ کر مجھے
آخر کبھی توعقدہ دل وا کرے کوئی
لخت جگر سے ہے رگ ہرخار، شاخِ گل
تاچند باغبانی صحرا کرے کوئی؟
ناکامی نگاہ ہے برق نظارہ سوز
تووہ نہیں ہے کہ تجھ کو تماشا کرے کوئی
بیکاری جنوں کو ہے سر پیٹنے کاشغل
جب ہاتھ ٹوٹ جائیں تو پھر کیا کرے کوئی
ہے ذرہ ذرہ تنگی جا سے غبارشوق
گردام یہ ہے وسعت صحرا شکار ہے
بے پردہ سوئے وادی مجنوں گذر نہ کر
ہر ذرے کے نقاب میں دل بے قرار ہے
اے عندلیب یک کفِ خس بہر آشیاں
طوفان آمد آمد فصل بہار ہے
قمری کف خاکستر وبلبل قفس رنگ
اے نالہ نشان جگر سوختہ کیا ہے
مجبوری و دعوائے گرفتاری الفت
دست تہ سنگ آمدہ پیمان وفا ہے
ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد
یارب اگر ان کردہ گناہو ں کی سزا ہے
مے سے غرض نشاط ہے کس روسیاہ کو
اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہئے
خزاں کیا فصل گل کہتے ہیں کس کو؟ کوئی موسم ہو
وہی ہم ہیں قفس ہے اور ماتم بال وپر کا ہے
نہ لائی شوخی اندیشہ تاب رنج نومیدی
کف افسوس ملنا عہد تجدید تمنا ہے
اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو
آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی
دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آ جائے ہے
میں اسے دیکھوں بھلا کب مجھ سے دیکھا جائے ہے
ہاتھ دھو دل سے یہی گرمی گر اندیشے میں ہے
آبگینہ تندی صہبا سے پگھلا جائے ہے
شوق کو یہ لت کہ ہر دم نالہ کھینچے جائیے
دل کی وہ حالت کہ دم لینے سے گھبرا جائے ہے
دور چشم بدتری بزم طرب سے واہ واہ!
نغمہ بن جاتا ہے واں گرنالہ میرا جائے ہے
گرچہ ہے طرز تغافل پردہ دار راز عشق
پر ہم ایسے کھوئے جاتے ہیں کہ وہ پاجائے ہے
ہوکے عاشق وہ پری رخ اور نازک بن گیا
رنگ کھلتا جائے ہے جتنا کہ اڑتا جائے ہے
سایہ میرا مجھ سے مثل دودبھاگے ہے اسد
پاس مجھ آتش بجاں کے کس سے ٹھہرا جائے ہے
نسیہ و نقد دوعالم کی حقیقت معلوم
لے لیا مجھ سے مری ہمت عالی نے مجھے
کثرت آرائی وحدت ہے پرستاری وہم
کر دیا کافران اصنام خیالی نے مجھے
ہوس گل کا تصور میں بھی کھٹکا نہ رہا
عجب آرام دیا بے پروبالی نے مجھے
چاک مت کر جیب بے ایام گل
کچھ ادھر کا بھی اشارہ چاہیے
منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید
ناامیدی اس کی دیکھا چاہئے
پھرکچھ اک دل کو بے قراری ہے
سینہ جویائے زخم کاری ہے
چشم دلال جنس رسوائی
دل خریدار ذوق خواری ہے
دل ہوائے خرام ناز سے پھر
محشر ستان بےقراری ہے
سنبھلنے دے مجھے اے ناامیدی کیا قیامت ہے
کہ دامان خیال یار چھوٹا جائے ہے مجھ سے
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے
جوش قدح سے بزم چراغاں کیے ہوئے
پھر وضع احتیاط سے رکنے لگا ہے دم
برسوں ہوئے ہیں چاک گریباں کیے ہوئے
پھر گرم نالہ ہائے شرر بار ہے نفس
مدت ہوئی ہے سیرچراغاں کیے ہوئے
پھر پرسش جراحت دل کو چلا ہے عشق
سامان صد ہزار نمک داں کیے ہوئے
باہم دگر ہوئے ہیں دل ودیدہ پھر رقیب
نظارہ و خیال کا ساماں کیے ہوئے
دل پھر طواف کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے
پھر شوق کر رہا ہے خریدار کی طلب
عرض متاع عقل و دل و جاں کیے ہوئے
دوڑے ہے پھر ہرایک گل ولالہ پرخیال
صدگلستاں نگاہ کا ساماں کیے ہوئے
مانگے ہے پھر کسی کو لب بام پر ہوس
زلف سیاہ رخ پہ پریشاں کیے ہوئے
چاہے ہے پھر کسی کو مقابل میں آرزو
سرمے سے تیز دشنہ مژگاں کیے ہوئے
اک نوبہار ناز کو تاکے ہے پھرنگاہ
چہرہ فروغ مے سے گلستاں کیے ہوئے
پھر جی میں ہے کہ در پہ کسی کے پڑے رہیں
سرزیر بار منت درباں کیے ہوئے
جی ڈھونڈھتا ہے پھر وہی فرصت کہ رات دن
بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے
غالب ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوش اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیہ طوفاں کیے ہوئے
فریاد کی کوئی لے نہیں ہے
نالہ پابند نے نہیں ہے
ہاں کھائیو مت فریب ہستی
ہرچند کہیں کہ ہے نہیں ہے
ہستی ہے نہ کچھ عدم ہے غالب
آخر تو کیا ہے اے نہیں ہے
بہت دنوں میں تغافل نے تیرے پیدا کی
وہ اک نگہ کہ بظاہر نگاہ سے کم ہے
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
بس ہجوم ناامیدی خاک میں مل جائےگی
یہ جو اک لذت ہماری سعی بے حاصل میں ہے
گھرمیں تھا کیا کہ ترا غم اسے غارت کرتا
وہ جو رکھتے تھے ہم اک حسرت تعمیر سو ہے
اگ رہا ہے درودیوار سے سبزہ غالب
ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے
وہ بادہ شبانہ کی سرمستیاں کہاں
اٹھیے بس اب کہ لذت خواب سحر گئی
دیکھو تو دل فریبی انداز نقش پا
موج خرام یاربھی کیا گل کتر گئی
ہربوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوہ اہل نظر گئی
زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
مثال یہ مری کوشش کی ہے کہ مرغ اسیر
کرے قفس میں فراہم خس آشیاں کے لیے
بقدر شوق نہیں ظرف تنگنائے غزل
کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
نہ شعلے میں یہ کرشمہ نہ برق میں یہ ادا
کوئی بتاؤ کہ وہ شوخ تند خو کیا ہے؟
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ سے ہی نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے؟
واعظ نہ پیو، نہ کسی کو پلا سکو
کیا بات ہے تمہاری شراب طہور کی
گوواں نہیں پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں
کعبے سے ان بتوں کو بھی نسبت ہے دور کی
کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
آؤ نہ ہم بھی سیر کریں کوہ طور کی
نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے
کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے
کہہ سکے کون کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے؟
پردہ چھوڑا ہے وہ اس نے کہ اٹھائے نہ بنے
نہیں نگار کو الفت نہ ہو نگار تو ہے
روانی روش و مستی ادا کہیے
نہیں بہار کو فرصت نہ ہو بہار تو ہے
طراوت چمن و خوبی ہوا کہیے
سفینہ جب کہ کنارے پہ آلگا غالب
خدا سے کیا ستم وجور ِناخدا کہیے
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا
اگراس طرہ پر پیچ وخم کا پیچ وخم نکلے
ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستہ تیغ ستم نکلے
ہے ہوا میں شراب کی تاثیر
بادہ نوشی ہے بادپیمائی
دہر جز جلوہ یکتائی معشوق نہیں
ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خود بیں؟
بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق
بیکسی ہائے تمنا کہ دنیا ہے نہ دیں
ہرزہ ہے نعمہ زیر وبم ہستی وعدم
لغو ہے آئینہ فرق جنون و تمکیں
نقش معنی ہمہ خمیازہ عرض صورت
سخن حق ہمہ پیمانہ ذوق تحسیں
لاف دانش غلط ونفع عبادت معلوم
دُرد یکِ ساغر غفلت ہے چہ دنیا و چہ دیں
حاشیہ
(۱) میں نے ان اشعار کا انتخاب انگریزی میں ترجمہ کرنے کے لیے کیا تھا، اس وجہ سے ان کی زبان میں کشش تھی، ان میں وہ ’’مغز‘‘ معلوم ہوتا تھا جو ترجمے کو کسی قدر آسان کر دیتا ہے اور امید تھی کہ یہ سمجھ میں بھی آ جائیں گے۔ یہ امید میری اپنی کوشش سے نہیں بلکہ جناب روش صدیقی صاحب کی رہنمائی سے پوری ہوئی۔ آخر میں معلوم ہوا کہ یہ اشعار ترجمے کے لیے نہایت موزوں ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.