Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

غالب کی انانیت

سلیم احمد

غالب کی انانیت

سلیم احمد

MORE BYسلیم احمد

    یہ تو سبھی کہتے ہیں کہ غالبؔ کے مزاج میں انانیت تھی، لیکن کسی شاعر کو اس کے مزاج کی بنا پر پسند یا ناپسند کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے آپ اسے لمبا یا ٹھنگنا ہونے کی بنا پر مطعون کریں یا سراہیں۔ شاعری میں اصل مسئلہ مزاج کا نہیں ہوتا کیوں کہ مزاج تو حالات سے، تربیت سے، خاندانی وراثت سے جیسا بننا ہوتا ہے، بن جاتا ہے اور بالعموم شاعر کے شاعر بننے سے پہلے بن جاتا ہے اور خود شاعر کو بھی اس پر قابو نہیں رہتا۔ دیکھنا تو یہ ہوتا ہے کہ شاعر نے اپنی شاعری میں اس سے کیا کام لیا ہے۔ کیا وہ اس کی مدد سے انسانی فطرت کے کسی گوشے کو بے نقاب کرتا ہے، کیا اس کے پردے میں وہ اپنے دور کے کسی رجحان کی عکاسی کرتا ہے، کیا وہ اسے حقیقت کی تفتیش کا ذریعہ بناتا ہے؟ شاعر نے اگر ان میں سے کوئی بات بھی کردی تو اپا کام پورا کردیا۔ اب اس کا مزاج انفرادی مسئلہ نہیں رہا بلکہ اپنے زمانے کے لییایک ایسی چیز بن گیا جیسے موسمی معلومات کے لیے حرارت ناپنے کا آلہ۔ آپ آلے پر یہ اعتراض تو کرسکتے ہیں کہ اس نے درجۂ حرارت ٹھیک نہیں بتایا لیکن یہ اعتراض نہیں کرسکتے ہیں کہ اس نے درجۂ حرارت بتاتا ہی کیوں ہے۔ غالبؔ کی انانیت کا مطلعہ بھی ہمیں اسی نقطۂ نظر کی روشنی میں کرنا چاہیے۔ یعنی انفرادی خصوصیت کے طور پر نہیں بلکہ تہذیبی درجۂ حرارت کے پیمانے کے طور پر۔

    جہاں تک میری ناقص معلومات کا تعلق ہے، غالبؔ کی انانیت کو بالعموم سراہا ہی گیا ہے۔ کچھ تو اس بنا پر کہ لوگوں کو اس میں اپنی اناانیت کی آسودگی کا سامان نظر آتا ہے اور کچھ اس بنا پر کہ غالبؔ کی انانیت میں بعض لوگوں کو روایتی تہذیبی اقدار سے بغاوت کا سراغ ملتا ہے اور یہ بات انھیں اپنے مخصوص مقاصد کے لیے کارآمد معلوم ہوتی ہے۔ صرف ایک آفتاب احمد صاحب ایسے ہیں جنھوں نے غالبؔ کی انانیت پر یہ کہہ کر تنقید کی ہے کہ وہ انانیت کی بنا پر سپردگی سے محروم ہیں، اس لیے بڑی عشقیہ شاعری نہیں کرسکتے۔ ذاتی طور پر مجھے ان دونوں نقطہ ہائے نظر میں ایک ناآسودگی سی محسوس ہوتی ہے۔ انانیت کو پسند کرنے والے تو مجھے یوں پسند نہیں ہیں کہ ایک تو یہ میری اُتادِ طبع کے خلاف ہے اور دوسرے میں اپنی تہذیب کی روایت سے بغاوت کو بجائے خود کوئی قابلِ قدر بات نہیں سمجھتا۔ رہ گئی آفتاب احمد صاحب کی تنقید تو مجھے اس میں وزن، تہ داری، بصیرت اور معقولیت سب کچھ نظر آتی ہے۔ لیکن میں اُن سیاور اپنے آپ سے یہ سوال کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ بلند عشقیہ تجزیہ یا بلند عشقیہ شاعری سے محرومی صرف غالبؔ کا المیہ ہے یا غالبؔ کے پورے دور کا۔ دوسرے لفظوں میں غالبؔ کی انانیت ان کی صرف ذاتی خصوصیت ہے یا انھوں نے اس سے کوئی غیرذاتی کام بھی لیا ہے؟

    یوں انانیت تو میرؔ کے مزاج میں بھی تھی اور غالبؔ سے کم ہیں تھی بلکہ شاید عام زندگی میں غالبؔ سے زیادہ تھی۔ غالبؔ کی انانیت تو لچک بھی جاتی ہے، سودا اور سمجھوتا بھی کرلیتی ہے، لیکن میرؔ کی زندگی اس قسم کی باتوں سے پاک ہے۔ پھر میرؔ نے ایسی بلند عشقیہ شاعری کیسے کی؟ میرؔ جیسی عشقیہ سپردگی اردو شاعری میں اور کہاں ملے گی مگر میرؔ کا مزاج صرف سپردگی کا نہیں ہے۔ میرؔ کی سپردگی میں بلا کا کھنچاؤ ہے۔ میرؔ نے ایسی بلند عشقیہ شاعری اس لیے نہیں کی کہ ان میں انانیت نہیں تھی۔ ایسی شاعری صرف اس لیے ہوسکی کہ انھوں نے اپنی انانیت کو اقدار کے تحفظ کا ذریعہ بنا لیا تھا۔ غالبؔ تو اپنے زمانے کی پستی کے سارے گلے شکووں کے باوجود زمانہ ساز بھی تھے۔ میرؔ نے تو اپنے زمانے پر تھوک دیا۔ میرؔ کی انانیت میں اتنی قوت تھی کہ وہ صرف اپنے بل پر اپنے زمانے کے خلاف کھڑے ہوسکتے تھے، مخالف دھارے کے رخ پر تیر سکتے تھے اور ان تمام ترغیبات اور تحریفات سے بلند ہوسکتے تھے جن کا سامنا کرنے میں غالبؔ کی ہڈیاں بول گئیں۔ میرؔ کی زندگی میں جو استغنا، درویشی اور دست کشی پائی جاتی ہے، کچھ لوگ اسے فراری ذہنیت کا نتیجہ کہتے ہیں لیکن دراصل اس کے پیچھے اتنی زبردقت قوتِ ارادی ہے کہ اس زمانے کے کسی باعمل آدمی میں نہیں تھی۔ میرؔ تو زندہ ہی اپنی انانیت سے رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنی انانیت کا اظہار بڑے نرم اور مہذب لہجے میں کرتے ہیں،

    تری چال ٹیڑھی، تری بات روکھی

    تجھے میرؔ سمجھا ہے یاں کم کسو نے

    غالبؔ اور میرؔ میں انانیت کے ہونے یا نہ ہونے کا فرق نہیں ہے۔ انانیت تو دونوں میں تھی اور دونوں اپنے زمانے اور اپنی ذات کے بعض گوشوں سے برسرِ پیکار تھے۔ فرق یہ ہے کہ میرؔ نے یہ لڑائی تہذیبی اقدار کی مدد سے لڑی۔ اس لڑائی میں میرؔ کی انفرادی قوت کے ساتھ ایک جمے جمائے معاشرے کی اعلیٰ ترین قدروں کی کمک شامل تھی۔ میرؔ نے اپنی تہذیبی قدروں کو مضبوطی سے پکڑا اور مر کھپ کر اتنا چمکایا کہ میرؔ کا کلام ہند اسلامی تہذیب کی سب سے زندہ دستاویز بن گیا۔ غالبؔ کو یہ لڑائی تنہا لڑنا پڑی۔ ذوق اور مومن، غالبؔ کے ہم عصر کہلاتے ہیں مگر ان کا شعور ‘عصریت’ سے خالی ہے۔ یہ می ان دونوں کی تنقیص نہیں کر رہا۔ ذوقؔ اور مومنؔ دونوں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہند کی اسلامی تہذیب میں ابھی اتنی جان باقی تھی کہ وہ زندگی اور زمانے کی منفی رفتار کو سنبھال لے۔ غالبؔ اگر غالبؔ نہ ہوتا تو اپنی تہذیب کی باطنی شکست و ریخت سے آنکھیں چرا کر ایسی مثبت شاعری کرسکتا تھا، جو عظیم روایت سے ہم آہنگ ہوتی۔ لیکن غالبؔ نے تہذیبی انتشار کی اس آندھی میں اپنا چراغ کھلی ہواؤں کی زد پر کچھ دیا۔

    غالبؔ کی شاعری میں منفی اثرات کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنے زمانے کا سب سے سچا گواہ تھا۔ یہ جو وہ عشق اور عشق کی قدروں کا مذاق اڑاتا ہے، یہ جو وہ حسن پر نکتہ چینی کرتا ہے اور حریمِ ناز میں بھی خود نمائی سے باز نہیں رہتا، یہ جو وہ نہ صرف محبوب کو بلکہ اپنے آپ کو بھی خدا کو سونپنے کے لیے تیار نہیں ہوتا، یہ سب باتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ غالبؔ نے اپنے زمانے کی حقیقی روح کو سمیٹ لیا تھا۔ تہذیب جب باطنی طور پر نشوونما کرتی ہے تو اس میں ہمیشہ وہ لوگ پیدا ہوتے ہیں جو نیچے سے اوپر اٹھتے ہیں، لیکن تہذیبی انحطاط کے زمانے میں اوپر سے نیچے آنے کا عمل ہوتا ہے۔ جس طرح چھلانگ لگانے والا آدمی ہمیشہ اوپر نہیں جاسکتا، اسے دوسری چھلانگ لگانے کے لیے زمین پر اپنے پاؤں ٹکانے پڑتے ہیں، اسی طرح تہذیب بھی اپنے دورِ انحطاط میں نیچے اترتی ہے۔ اس زمانے میں قدروں پر باطنی یقین ختم ہوجاتا ہے۔ رویات فرسودہ اور باسی نظر آنے لگتی ہیں۔ معاشرے کے اخلاق، عقائد اور ادارے نیم جان ہوجاتے ہیں۔ اور انھیں ازسرِنو تازگی، جان اور قوت دینے کے لیے منفی عمل سے گزارنا پڑتا ہے۔ ایسے زمانے میں انحطاط کا کھلی آنکھ سے مطالعہ کرنا اور انحطاط کو گلے لگانا ہی سب سے بڑا تخلیقی عمل ہوتا ہے، غالبؔ نے نفی کے عمل کو اختیار کیا اور اس طرح ایک نئے اثبات کی طرف نیا قدم اٹھانے کا امکان پیدا کیا۔ نفی کے اس عمل میں غالبؔ کے پاس اثبات کے لیے کچھ تھا تو صرف ایک چیز۔۔۔ اس کی اپنی انانیت۔ تہذیبی خلا کے دور میں جب ہمارے پاس کچھ باقی نہ رہے، اس وقت فن کار کے پاس ایک چیز باقی رہتی ہے، اس کی اپنی ذات جہاں وہ نئی قدروں کی تخلیق کرسکتا ہے۔ ان معنوں میں غالبؔ کی انانیت اس کے لیے تخلیقِ اقدار کا ایک ذریعہ تھی۔ وہ ایک طرف انحطاط کے عمل کو اپنے اندر محسوس کرنا چاہتا تھا اور دوسری طرف اس سے اوپر اٹھنا چاہتا تھا۔ نفی و اثبات کے اس دُہرے عمل میں غالبؔ کی حقیقی عظمت کا راز چھپا ہوا ہے۔

    غالبؔ کی انانیت کیا ہے۔ پشنگی و افراسیابی ہونا ہیں، یہ اس کی انانیت کی پست ترین سطح ہے۔ یہ انانیت کمالِ فن کا احساس بھی نہیں ہے۔ ایسے دعوے تو شعرا بہت کیا کرتے ہیں۔ یہ حسن و عشق کے معاملات میں اکڑ تکڑ بھی نہیں ہے، ان معنوں میں کہ یہ اس کی بلند ترین سطح نہیں ہے۔ غالبؔ کی انانیت اپنی بلند ترین سطح کو اس وقت چھوتی ہے جب وہ پوری کائنات کے مقابل کھڑا ہوجاتا ہے،

    ہنگامۂ ز بونیِ ہمت ہے انفعال

    حاصل نہ کیجئے دہر سے عبرت ہی کیوں نہ ہو

    اور صاف اعلان کرتا ہے کہ،

    اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو

    آپ نے دیکھا غالبؔ نے اپنی انانیت کو کیا بتایا۔ اب یہ صرف غالبؔ کے مزاج کی انانیت نہیں ہے، اب یہ حقیقت کی تفتیش کا ایک ذریعہ ہے۔

    حقیقت کی تفتیش اور تخلیق اقدار۔۔۔ یہ دو ذمے داریاں ہیں جو غالبؔ نے تنہا اپنے بل پر قبول کی ہیں۔ وہ بنے بنائے جوابوں سے مطمئن نہیں ہوسکتا۔ روایتی ردِعمل کا اظہار نہیں کرسکتا۔ اسے تو جو کچھ دریافت کرنا ہے، اپنے تجربے سے دریافت کرنا ہے، جو کچھ پانا یا کھونا ہے، اپنے عمل سے پانا کھونا ہے۔ یوں غالبؔ اپنی انا یا ذات کو کائنات کی تمام قوتوں کے مقابل رکھتا ہے۔ خدا، انسان، کائنات، سب سے غالبؔ کا تعلق حریفانہ ہے۔ وہ چیز جسے ہم غالبؔ کی دیدہ وری کہتے ہیں، غالبؔ کے اسی حریفانہ تعلق سے پیدا ہوئی ہے۔ اب غالبؔ ایک فرد نہیں ہے، ایک تہذیب کی ذمے داری ہے۔ غالبؔ کے کلام میں ہمیں جس دماغی قوت کا احساس ہوتا ہے، وہ جس طرح اپنے تجربات کا تجزیہ کرتا ہے، انھیں ایک دوسرے کے تقابل میں رکھ کر دیکھتا ہے، اور پھر سب کو ملا کر ایک نقش بنانا چاہتا ہے، یہ سارے عناصر غالبؔ کے کلام میں اسی ذمے داری سے پیدا ہوئے ہیں۔ ایک بہت چوکس مدِمقابل کی طرح وہ اپنی ساری قوتوں اور کم زوریوں پر نظر رکھتا ہے، اسے حملہ کرنے، پیچھے ہٹنے اور حصار بندی کے سارے گُر معلوم ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ شکست اس کا مقدر ہے، خدا سے لڑا نہیں جاسکتا اور مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی۔ یہاں سے اس غالبؔ کی طرف ایک راستہ جاتا ہے جو وحدت الوجود کا قائل ہوا اور ‘عزیزو اب اللہ ہی اللہ’ کہتا ہوا مرا۔ آپ چاہیں تو اسے غالبؔ کی شکست کہہ سکتے ہیں لیکن غالبؔ کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنی شکست کا مطالعہ بھی کرسکتا ہے۔

    میں نے کہا ہے کہ غالبؔ کی انانیت کا ایک پہلو تخلیقِ اقدار سے متعلق ہے۔ انا جب دوسری اناؤں سے تعلق پیدا کرتی ہے تو اس سے اقدار پیدا ہوتی ہیں۔ یعنی اس کا تعلق انسانوں کے باہمی رشتے سے ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ غالبؔ دوسرے انسانوں کے بارے میں خوش گوار محسوسات نہیں رکھتے۔ انھیں اپنے سے کمتر سمجھتے ہیں اور خود ایک ایسی خیالی دنیا کا باشندہ ہونے پر فخر کرتے ہیں جس میں کسی اور انسان کا کوئی حصہ نہیں۔ اس بات میں تعریف و تنقیص کے جو پہلو بھی نکلتے ہوں لیکن یہ ایک نامکمل بات ہے۔ دوسرے انسانوں پر غالبؔ کی تنقید انسان کے نامکمل ہونے کے احساس سے پیدا ہوئی ہے اور یہ احساس دوسروں ہی تک ختم نہیں ہو جاتا ہے۔ غالبؔ انسان کے نامکمل ہونے کا تجربہ اپنی ذات میں بھی کرتے ہیں، اور یوں ہر پیکرِ تصویر انھیں نقش فریادی نظر آتا ہے۔ اس بلند سطح پر دوسرے انسانوں کی تنقید غالبؔ کے کلام میں خود اپنی تنقید بھی بن جاتی ہے۔ یہ شکست انا کا مقام ہے۔ اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو، کہہ کر غالبؔ نے اپنی انانیت کو جو ایک گنبدِ بے در بنایا تھا، اس میں ایک شگاف پیدا ہوتا ہے، اب غالبؔ کی انانیت اپنی حریف بن کر خود اپنے آپ پر نکتہ چینی کرنے لگتی ہے۔ اور غالبؔ میں وہ معروضیت پیدا ہوتی ہے جس سے وہ خارجی دنیا یا دوسرے انسانوں کے تجربے سے عبرت بھی حاصل کرتے ہیں اور آگہی بھی۔ غالبؔ کی یہی معروضیت ہے جو اُن کی قادار کو یکسر منفی ہونے سے بچا لیتی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ وہ میرؔ کی طرح نہ دوسرے انسانوں سے مکمل ہم آہنگی پیدا کرسکے، نہ اپنے اندر کے آدمی سے۔ یہ ان کے لیے ممکن بھی نہیں تھا۔ جو کام پوری تہذیب کا ہوتا ہے، اس کی توقع آپ ایک فرد سے نہیں کرسکتے۔ لیکن ہمارے لیے یہ بات اہم ہے کہ غالبؔ ہم آہنگی کے نہ ہوتے ہوئے ہم آہنگی کے فریب میں نہیں رہے۔ پروفیسر کرار حسین نے لکھا ہے کہ غالبؔ سے پہلے انا اور غیر انا یعنی کائنات میں جو ہم آہنگی تھی، وہ غالبؔ میں ٹوٹ گئی۔ غالبؔ کا کمال یہ ہے کہ وہ ہم آہنگی ٹوٹنے کے اس عمل کا سب سے بڑا مبصر ہے۔ وہ اس کا ادراک رکھتا ہے۔ اس کے کرب کو برداشت کرتا ہے اور اس صورتِ حال میں اپنی ذمے داری کو جانتا ہے۔۔۔ یہ ذمے داری کیا ہے، تہذیبی درجۂ حرارت کا صحیح اندراج۔ غالبؔ نے ہمیں صحیح صورتِ حال دکھا دی ہے۔ بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر وہ ایک ایسی نظر کی تلاش کرتا ہے جو زندگی کے کے پست و بلند، خیر و شر، نفی و اثبات کو ایک بلند سطح سے دیکھ سکے اور تضادات کی اس بازی گاہ میں ہر پہلو اور ہر رنگ سے زندگی کا اثبات کرسے۔ غالبؔ اس تلاش میں کہاں تک کامیاب ہوا، یہ تو سخن فہم جانیں یا غالبؔ کے طرف دار۔ لیکن غالبؔ، میرؔ کی طرح یہ کہہ سکے یا نہ کہہ سکے کہ،

    لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

    آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا

    یہ ضرور کہا ہے،

    نہیں گر سر و برگ ادراکِ معنی

    تماشائے نیرنگ صورت سلامت

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے